اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
چین میں زندگی – مغرب میں موت! (چینی وسط خزاں کے میلے پر پیش کیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:13). ’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:22). |
مکاشفہ کے دوسرے اور تیسرے باب میں مسیح کی جانب سے سات اصلی کلیسیاؤں کے لیے جو پہلی صدی میں ایشیا مائینر Asia Minor میں وجود رکھتی تھیں سات خطوط موجود ہیں۔ ساتوں خطوط میں سے ہر خط کلیسیا کے ’’فرشتے‘‘ کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ’’فرشتے angel‘‘ کے لیے یونانی لفظ کو واقعی میں مطلب ’’پیامبر messenger‘‘ ہوتا ہے۔ تبصرہ نگار متفق ہیں کہ ہر خط کلیسیا کے پادری کو لکھا گیا تھا، جو اُس کلیسیا کے لیے خُدا کا ’’پیامبر‘‘ تھا۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی Dr. J. Vernon McGee نے اُن خطوط کے تین اطلاق پیش کیے۔ میں ایک چوتھے اِطلاق کا اضافہ کروں گا۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا کہ اِن سات کلیسیاؤں کو اِن تین طریقوں سے سمجھا اور لاگو کیا جا سکتا ہے،
1. ہم عصر Contemporary – اُن کے پاس یوحنا کے دنوں میں حقیقی مقامی کلیسیاؤں کے لیے ایک براہ راست پیغام تھا۔
2. مخلوط Composite – ہر کوئی کچھ باتیں پیش کرتا ہے جو تمام کلیسیاؤں پر لاگو ہوتی ہیں۔
3. تاریخ وارانہ Chronological – کلیسیا کا تاریخی تناظر۔ یہاں کلیسیا کی تاریخ میں سات واضح ادوار ہیں، پینتیکوست سے لیکر مسیح کی آمد ثانی تک (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد پنجم، صفحہ 898)۔
میں اِس بات پر بھی قائل ہوں کہ اِن کلیسیاؤں کی خصوصیات دُنیا کے مختلف خطّوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ چوتھا اِطلاق ہے۔ مکاشفہ میں یہ کلیسیائیں دُنیا کے مختلف خطوں میں کلیسیا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ اگر کوئی مذہبی صورتحال کو جانتا ہے، تو یہ واضح ہے کہ چین میں کلیسیا فلدِفیہ Philadelphia کی کلیسیا کے مشابہ ہے – جس کو مکاشفہ3:7۔13 میں پیش کیا گیا۔ اور مغرب میں، انگریزی بولنے والی دُنیا اور یورپ کی کلیسیا لودیکیہ کی کلیسیا کے مشابہ ہے – جس کو مکاشفہ13:14۔22 میں پیش کیا گیا۔ اگر ہم اِن دو علاقائی کلیسیاؤں پر مقصدیاتی طور سے نظر ڈالیں، اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر، اور سختی سے اصلی حقائق پر مرکوز رہیں، تو ہم دیکھیں گے کہ چین میں کلیسیاؤں میں زندگی ہے – اور امریکہ اور مغرب کی کلیسیاؤں میں موت ہے۔ یاد رکھیں کہ یہ خطوط کن کو لکھے گئے تھے،
’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:13)
.اور دوبارہ،
’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:22).
I۔ اوّل، مغرب میں اور – امریکہ میں کلیسیاؤں کے لیے پاک روح کیا فرماتا ہے!
مکاشفہ 3:14۔17 پر نظر ڈالیں۔
’’لودیکیہ کی کلیسیا کے فرشتہ کو لکھ: جو آمین اور قابلِ اعتماد، برحق گواہ اور خدا کی خلقت کا مبدا ہے یہ فرماتا ہے کہ میں تیرے کاموں سے واقف ہُوں کہ تُو نہ تو سرد ھے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد ہوتا یا گرم۔ پس چونکہ تُو نہ گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہے اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہُوں۔ تُو کہتا ہے کہ تُو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تُو یہ نہیں جانتا کہ تُو بدبخت، بے چارہ، غریب، اندھا اور ننگا ہے۔‘‘ (مکاشفہ 3:14۔17).
یہ ہماری کلیسیاؤں کی ایک خوبصورت تصویر نہیں ہے! لیکن یہ ایک وفادار اور سچی تصویر ہے! یہاں پر کلیسیائیں واقعی میں پیچیدہ صورتحال میں ہیں! اور وہ ہر سال بدتر ہوتی جا رہی ہیں!
ہمیں یہ بالکل بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ یوحنا رسول کی رائے ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ ہے جو خُداوند یسوع مسیح سوچتا ہے۔ اُس کو مکاشفہ3:14 میں ’’آمین،‘‘ اور ’’قابل اعتماد اور برحق گواہ‘‘ کہا گیا ہے۔ اِس لفظ ’’آمینamen‘‘ کا مطلب ’’سچا truth‘‘ ہوتا ہے۔ وہ ہر لفظ کو جو وہ بولتا ہے ’’آمین‘‘ کہہ سکتا ہے کیونکہ ہر لفظ ’’سچا‘‘ ہے۔ مسیح وہ ’’قابل اعتماد اور برحق گواہ‘‘ ہے۔ یہی ہے جو خُداوند یسوع مسیح ہماری لودیکیہ کی حالت کے بارے میں کہتا ہے۔
لودیکیہ کی کلیسیا میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ مسیح اِس کی توثیق کرتا۔ وہ اِس میں تعریف کے لیے کچھ نہیں پاتا ہے۔ لیکن وہ بہت کچھ ملامت کرنے کے لیے ضرور پاتا ہے۔ مسیح کہتا ہے،
’’میں تیرے کاموں سے واقف ہُوں کہ تُو نہ تو سرد ہے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد ہوتا یا گرم‘‘ (مکاشفہ 3:15).
ڈاکٹر میرل سی۔ ٹینی Dr. Merrill C. Tenney نے کہا، ’’یہ نا ہی تو ایمان سے یخ بستہ مخالفت میں مرتد ہوئی، نا ہی جوش ... کے ساتھ شعلہ فشاں بنی۔ یہ بھٹک رہی تھی، چل نہیں رہی تھی‘‘ (میرل سی۔ ٹینی، پی ایچ۔ ڈی۔ Merrill C. Tenney, Ph.D.، مکاشفہ کی تفسیر پیش کرنا Interpreting Revelation، عئیرڈ مین اشاعتی کمپنی Eerdmans Publishing Company، 1957، صفحہ66)۔ امریکہ اور مغرب میں انجیلی بشارت کی کلیسیاؤں کی کیسی ایک تصویر! ’’نہ تو سرد نہ تو گرم۔‘‘ ہمارے زیادہ تر مبلغین اور ہماری زیادہ تر کلیسیاؤں کی کیسی ایک تصویر!
بیسویں صدی کے اختتام پر ہماری انجیلی بشارت کی کلیسیائیں بائبل میں اعتقاد سے پرے ہٹنا شروع ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹر ھیرالڈ لینڈسل Dr. Harold Lindsell نے ایک معروف امتیازی کتاب بائبل کے لیے جنگ The Battle for the Bible (ژونڈروان Zondervan، 1976) لکھی۔ اِس کے خلاف کوئی ایک واویلا ہوا۔ بہت سے انجیلی بشارت کے رہنماؤں نے ڈاکٹر لینڈسل سے بات کرنے سے اجتناب کیا اور اُنہیں برادری سے نکال باہر کیا۔ لیکن وہ اِس قدر اہم رہنما تھے اور اِس قدر جانی مانی اور معزز ہستی تھے کہ بائبل کے لیے اُن کی پُکار بغیر کسی خطا کے سُنی گئی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ زیادہ تر انجیلی بشارت کی تعلیم نے بائبل میں دوبارہ اعتقاد کرنا شروع کر دیا۔ لیکن ڈاکٹر پیج پیٹرسن Dr. Paige Patterson، جو جنوب مغربی پبتسمہ دینے والی علم الہٰیات کی سیمنریSouthwestern Baptist Theological Senimary کے صدر تھے، نے کہا کہ تنہا بائبل میں اعتقاد ہمارے شہروں کے اندرون میں کھوئے ہوؤں تک نہیں پہنچ پائے گا، یا ہماری کلیسیاؤں میں حیات نو لا پائے گا۔ وہ بالکل دُرست تھے۔ یوں، ہماری کلیسیائیں پھر کس حد پر کھڑی ہیں؟ اِس نے ہمیں بائبل پر یقین کرتے رہنے کے لیے، مگر بغیر گرمجوشی اور بغیر شدید ولولے کے ساتھ کھوئے ہوؤں تک پہنچنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اِس گرمجوشی اور شدید ولولے کی کمی کے نتیجے میں، گذشتہ چار سالوں سے، ہر سال مغربی بپتسمہ دینے والے کم ہوتے جا رہے ہیں! یہ بالکل پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مغربی بپتسمہ دینے والی کلیسیائیں تعداد میں کم ہوئی ہیں۔ خود مختیار بنیادی بپتسمہ دینے والے independent fundamental Baptists بھی تعداد میں کم ہوئے۔ اِس سے کیا مطلب نکلتا ہے؟ اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری کلیسیائیں نہ تو سرد (بائبل پر حملہ کر رہی ہیں) نہ تو گرم (دوبارہ بحال ہوئیں)۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہماری کلیسیائیں نیم گرم ہیں۔ اور مسیح نے کہا کہ ایسا ہونا بدترین بات ہوگی! میرے خیال میں یہ انتہائی واضح ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ’’نیم گرم‘‘ کلیسیا کے لوگ خود کو ’’اعتدال پسند‘‘ کہتے ہیں۔ قاموس اللغات thesaurus میں ’’اعتدال پسند moderate‘‘ ’’نیم گرم Lukewarm‘‘ کے لیے ایک ہم معنی لفظ ہے (دیکھیں انگریزی کے ہم معنی الفاظ کی پینگوئین لغات the Penguin Dectionary of English Synonyms، کلیئرمونٹ کُتب Claremont Books، 1995 ایڈیشن)۔
اور مسیح ہماری ’’اعتدال پسند،‘‘ ادھ مرے کلیسیا کے لوگوں کی اپنے مُنہ سے قے کرنے والا ہے۔ اُن ’’اعتدال پسندوں‘‘ کو مسیح اپنے مُنہ سے تھوک (قے کر) دے گا! معاف کیجیے گا، یہی یونانی لفظ کا واقعی میں مطلب ہوتا ہے – قے کرنا!
’’ پس چونکہ تُو نہ گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہے اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے [قے کرنے] نکال پھینکنے کو ہُوں‘‘ (مکاشفہ 3:16).
اور آئیے اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے اُس کی شدت کو کم نہ کریں! جب مسیح ایک کلیسیا کو اپنے مُنہ سے تھوکتا ہے، تو اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ اراکین جہنم میں جاتے ہیں۔ مجھے اُن کے بارے میں ایسی کوئی بات مت کہیے کہ تاج چھن جائیں گے! جی نہیں، سیاق و سباق میں، جب اُنہیں تھوکا جاتا ہے تو اُن کی جہنم کی آگ میں قے کر دی جاتی ہے! آیات 17 اور 18 کے روشنی میں اِس کے علاوہ اِس کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
’’کیونکہ تُو کہتا ہے کہ تُو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تُو یہ نہیں جانتا کہ تُو بدبخت، بے چارہ، غریب، اندھا اور ننگا ہے۔‘‘ (مکاشفہ 3:17).
’’بدبخت، اور بے چارہ، اور غریب، اور اندھا، اور ننگا‘‘ – یہ کیا ہے اگر یہ غیرنجات یافتہ لوگوں کی تفصیل نہیں ہے؟ ’’میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہوں‘‘ (آیت 16) کا مطلب یہی ہے جیسے ’’اِس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو جہاں وہ روتا اور دانت پیستا رہے گا‘‘ (متی22:13)۔ ’’میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہوں‘‘ کا مطلب ایسی ہی بات ہے اور ایسا ہی وقت ہے، جب مسیح غیرنجات یافتہ کلیسیا کے اراکین کو کہے گا، ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: اے بدکارو! میرے سامنے سے دور ہو جاؤ‘‘ (متی7:23)۔ ’’میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہوں‘‘ کا مطلب بالکل ایسا ہی ہے جیسے،
’’اور جس کسی کا نام کتابِ حیات میں لکھا ہُوا نہ ملا اُسے بھی آگ کی جھیل میں ڈالا گیا‘‘ (مکاشفہ 20:15).
اور یوں، قدامت پسند، بائبل میں یقین رکھنے والی کلیسیاؤں میں، بہت سی خواتین جو سنڈے سکول میں تعلیم دیتی ہیں مسیح کے ذریعے جہنم میں تھوک دی جائیں گی۔ بہت سے مناد جہنم میں تھوک دیے جائیں گے۔ کلیسیا میں انتہائی ممتاز خاندانوں کے افراد جہنم میں تھوک دیے جائیں گے۔ اور بہت سے اُن غیرتبدیل شُدہ پادریوں کی ایک بہت بڑی تعداد پر بھونچکے رہ جائیں گے جنہیں شعلوں میں تھوک دیا جائے گا، اور ’’آگ کی جھیل میں جھونک دیا‘‘ جائے گا۔
آئیے اِس کا سامنا کریں، انجیلی بشارت والوں کے درمیان اُس تمام اعتدال پسند، نیم گرم، اور ’’ترقی یافتہ‘‘ کہلائی جانے والی تحریک کھوئے ہوئے لوگوں کے سات مشکل مسئلہ ہے۔ یہ شروع ہوتی ہے جب ہم ہر کسی کو جو ہاتھ کھڑا کرتا ہے، یا گنہگار کی دعا مانگتا ہے، اپنی کلیسیا کا مکمل رُکن قبول کر لیتے ہیں! یہ ایک سو پچاس سالوں سے زیادہ عرصے سے ایک بڑھتی ہوئی شرع کے ساتھ جاری رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں، یہاں تک کہ پادریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے کبھی بھی نئے سرے سے جنم نہیں لیا ہے! وہ سوچتے ہیں کہ ’’وہ دولتمند ہیں، اور مالدار بن گئے ہیں، اور کسی چیز کی حاجت نہیں؛ اور یہ نہیں جانتے کہ [وہ] بدبخت، اور بے چارے، اور غریب، اور اندھے، اور ننگے ہیں‘‘ (مکاشفہ3:17)۔ خُداوند ہماری مدد کرے! پادریوں اور منادوں اور سنڈے سکول کی خواتین اساتذہ کے ساتھ، اِس ہولناک اور کھوئی ہوئی حالت میں، حیرانگی کی کوئی بات نہیں ہوگی کہ مسیح ہماری انجیلی بشارت کی کلیسیاؤں کی اپنے مُنہ سے قے کر دے گا!
اِس حقیقت کو کہ ہماری کلیسیائیں غیر تبدیل شُدہ لوگوں سے بھری ہوئی ہیں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے اکثر دھیان میں رکھا، جنہوں نے کہا کہ اِس نے ’’دُنیا کے لیے ہماری کلیسیاؤں کی گواہی‘‘ کو کمزور کیا ہے اور بدی کی قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے میں ’’اُس کے مبلغین کو انتہائی ناکارہ – انتہائی کمزور اور بے بس کردیا ہے‘‘ (’’بینر اور ٹرُتھ ٹرسٹ Banner of Truth Trust‘‘ میگزین، مئی 1981، صفحات32۔33)۔
ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے بھی کہا کہ ہماری کلیسیائیں کھوئے ہوئے لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ مثال کے طور پر، اُنہوں نے کہا، یہاں پر... ایک غمگین اور ہولناک قیامت کا دِن ابھی آنے کو ہے، اُن کے لیے مکاشفے اور دھچکے کا دِن ہے جو مسیحیت کے لیے نئے جنم کے معجزے کی بجائے ذہنی رضامندی پر انحصار کرتے ہیں‘‘ (سینڈیمینی این اِزم Sandemanianism کی حیثیت سے جانا جاتا ہے) (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ A. W. Tozer, D.D.، میں اِس کو بدعت کہتا ہوں I Call It Heresy، کرسچن پبلیکشنز Christian Pbulications, Inc.، 1974 ایڈیشن، صفحہ40)۔
ڈاکٹر ڈیوڈ ایل۔ لارسن Dr. David L. Larsen حیران تھے کہ ڈاکٹر لائیڈ جونز اور ڈاکٹر ٹوزر ’’دوست تھے۔‘‘ مگر میرے لیے یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں تھی۔ اِن دونوں ہی عظیم مبلغین نے دیکھا تھا کہ یہاں پر حالات کس قدر خراب ہیں، اور دونوں کو ہی حیات نو کی چاہت تھی (ڈیوڈ ایل۔ لارسن، ڈی۔ڈی۔ David L. Larsen, D.D.، مبلغین کا ساتھ Company of the Preachers، کریگل اشاعت خانے Kregel Publications، 1998، صفحہ 845)۔
اِس ہی کتاب میں ڈاکٹر ٹوزر نے کہا اُنہوں نے اندازہ لگایا کہ اُن میں سے تین چوتھائی جو دعویٰ کرتے ہیں کے نجات پائے ہوئے ہیں اصل میں کھوئے ہوئے ہیں، ’’میں بے خوفی اور دو ٹوک انداز سے بیان کرنا چاہوں گا کہ تقریباً تین چوتھائی ... ایک معذور اُمید میں مزے اُڑا رہے ہیں‘‘ (ibid.، صفحہ42)۔ اگر وہ سچ تھا جب ڈاکٹر ٹوزر نے یہ ماضی میں 1950 کی دہائی میں کہا، تو آج یہ انتہائی بڑھ چکا ہے۔ بہت سے بپتسمہ دینے والے رہنماؤں میں مجھے یہ بتایا ہے کہ 90 % سے زیادہ کلیسیا کے اراکین کھوئے ہوئے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ مبلغین، مناد اور سنڈے سکول کی خواتین اساتذہ کے پاس سچے طور پر نجات پا لینے کا 10 میں سے ایک – یا کم کا چانس ہے! ایک انتہائی مشہور بنیادی سکول کے چانسلر نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ وہ سوچتا ہے کہ ہمارے 10 % سے کم لوگ نجات یافتہ ہیں!
یہاں امریکہ میں اور مغرب میں – بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کیوں ہمارے ہاں اِس قدر قتل و غارت گری ہوتی ہے، اِس قدر زیادہ منشیات کے عادی ہیں، اِس قدر طلاقیں ہوتی ہیں، اور اِس قدر نااُمید طرز کی زندگی ہے۔ اس کا جواب سادہ سا ہے – مشکلوں سے ہی کوئی ایک حقیقی مسیحی ہوتا ہے! مشکلوں سے کوئی ایک!
’’میں تیرے کاموں سے واقف ہُوں کہ تُو نہ تو سردے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد ہوتا یا گرم۔ پس چونکہ تُو نہ گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہے اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہُوں۔ تُو کہتا ہے کہ تُو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تُو یہ نہیں جانتا کہ تُو بدبخت، بے چارہ، غریب، اندھا اور ننگا ہے۔‘‘ (مکاشفہ 3:15۔17).
بہت سی دہائیوں تک ہماری کلیسیائیں نئے اراکین کو اُن کی گواہیاں جانچے بغیر اپناتی رہی ہیں۔ یوں لاکھوں کے لاکھوں غیر تبدیل شُدہ کلیسیا کے اراکین ہیں۔ ہماری کلیسیائیں یا گرجہ گھر واقعی میں اِس کے نتیجے میں کھوئے ہوئے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کھوئے ہوئے لوگ منادی سُننے کی بجائے تعلیم پانا چاہتے ہیں، اِس قدر مٹی کی طرح خشک درجہ بہ درجہ تاویلیں اور تشریحات حقیقی منادی کی جگہ لے چکی ہیں۔ کھوئے ہوئےلوگ دعا کرنا نہیں چاہتے ہیں، اِس لیے دوران ہفتہ کا دعائیہ اجلاس یا تو بائبل کے مطالعے میں بدل چکا ہے، ایک یا دو کمزور سی دعاؤں کے ساتھ – یا مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ کھوئے ہوئے لوگ روحانی باتوں کے لیے کاہل ہوتے ہیں، اِس لیے اِتوار کی شام کی عبادات بہت سے گرجہ گھروں میں اختتام پزیر ہو چکی ہیں۔ کھوئے ہوئے لوگ اِس قدر سُست ہیں کہ وہ ایک مضبوط، منظم لوگوں کو جیتنے والی مذھبی جماعت کا ساتھ بھی نہیں دیں گے۔ دیکھا، ہماری کلیسیاؤں یا گرجہ گھروں میں پژمُردگی اور سردمہری کا واقعی میں ایک نقطۂ آغاز ہے – یہ حقیقت کہ اراکین اکثر کھوئے ہوئے لوگ ہوتے ہیں! میرے سابقہ پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے کہا،
روحانیت کو جسمانی نیت سے الگ پہنچانے کے نااہلیت، اور کلیسیا کی رُکینت کے لیے تمام اِطلاقات کی قبولیت، ہمیشہ سے ہی کلیسیا… کا جان لیوا زخم رہا ہے... خُدا کی کلیسیا کو پاک اور جلالی ہونا چاہیے۔ مگر جب وہ گناہ اور قصوروں میں مُردہ لوگوں سے بھری ہوتی ہے... تو ہمارا پاک خُدا کیا کر سکتا ہے ماسوائے اُس سے جُدا ہونے کے؟ ہم مسیحی زمین پر ہر شخص کی روح سے پیار کرتے ہیں، اِس کے باوجود ہمیں کسی کو بھی خُدا کی موجودگی پانے میں رخنہ اندازی کرنے کی کبھی بھی اجازت نہیں دینی چاہیے، نہ ہی کسی شخص کو خُدا کا بدن تباہ کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ ہم اپنے جسم کے ایک ایک خُلیے سے پیار کرتے ہیں، اِس کے باوجود ہمیں کبھی بھی کسی ایسے خُلیے کی موجودگی کو اجازت نہیں دینی چاہیے جو ہمارے جسم کو زہریلا کر سکتا ہے یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ ایسے نقصان دہ خُلیوں کو مکمل طور پر نکال پھینکنا چاہیے۔ بدقسمتی سے، لوگ اکثر سرطان سے متاثر خُلیوں کو بھی مسیح کے بدن میں ڈالنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیوں ... کلیسیائیں یا گرجہ گھر حتمی بیماریوں میں مبتلا ہیں! (ٹیموتھی لِن، پی ایچ۔ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، کلیسیا کے بڑھنے کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992، صفحات39، 40)۔
امریکہ اور مغرب میں ہماری کلیسیائیں لودیکیہ کے زمانے کی روحانی موت میں گہرے دھنسے ہوئے ہیں! لیکن میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں ’’چین میں زندگی‘‘ پر بھی بات کروں گا۔ اور یہ ہمیں دوسرے نقطے پر لے جاتا ہے!
II۔ دوئم، چین میں کلیسیاؤں کے لیے پاک روح کیا فرماتا ہے!
مکاشفہ3:7۔8 آیات پر نظر ڈالیں،
’’فِلدِلفیہ کی کلیسیا کے فرشتہ کو لکھ: وہ جو قُدّوس اور برحق ہے اور داؤد کی کنجی رکھتا ہے، اور جسے کھولتا ہے اُسے کوئی بند نہیں کرسکتا اور جسے بند کرتا ہے اُسے کوئی کھول نہیں سکتا یہ فرماتا ہے کہ میں تیرے کاموں سے واقف ہوں۔ دیکھ! میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھا ہے جسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔ میں جانتا ہُوں کہ کمزور ہونے کے باوجود تُو نے میرے کلام پر عمل کیا ہے اور میرے نام کا اِنکار نہیں کیا‘‘ (مکاشفہ 3:7۔8).
غور کریں کہ میں نے کہا، ’’چین میں کلیسیائیں۔‘‘ میں نے یہ نہیں کہا کہ ’’چینی کلیسیائیں۔‘‘ امریکہ، مغرب کے دوسرے ممالک، اور تائیوان میں بہت سے چینی گرجہ گھر ہیں، جن کو اِن آیات میں فلدلفیہ کی کلیسیا سے بیان نہیں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر لِن نے مجھے ذاتی طور پر بتایا تھا کہ تائیوان میں کلیسیائیں نیم گرم ہیں۔
لیکن یہ آیات چین میں ’’گھریلو گرجہ گھر یا کلیسیاؤں‘‘ کی تحریک کے لیے ضرور لاگو ہوتی ہیں! وہاں چین میں دو کلیسیائیں ہیں! ’’تین ذاتی کلیسیا Three Self Church‘‘ اشتراکیت پسند حکومت کے ذریعے سے چلائی جاتی ہے۔ اِن گرجہ گھروں کے پادریوں کو مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے، اور اُس کی آمدثانی پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بہت حد تک امریکہ میں ’’بڑے بڑے mainline‘‘ گرجہ گھروں کی مانند ہیں، اور وہ بڑھ نہیں رہے ہیں۔
مگر ’’گھریلو گرجہ گھر‘‘ وہ ہیں جو اشتراکیت پسند حکومت کے قابو سے باہر بڑھ رہی ہیں۔ یہ شاندار طریقے سے بڑھ چکی ہیں! ایک چینی گرجہ گھر کے مبلغ نے کہا، ’’گذشتہ چند دہائیوں میں، اتنے ہی جتنے 100,000,000 لوگ چین میں یسوع کی پیروی کرنا شروع کر چکے ہیں۔ وہ خوشخبری چین کے تمام گوشوں میں لے جائی جا چکی ہے…‘‘ (زندہ پانی Living Water، ژونڈروان Zondervan، 2008، صفحہ52)۔ یہ چینی مبلغ جاری رہتے ہوئے کہتا ہے،
1949 میں انقلاب کے بعد، میرے ملک میں مسیحیوں کو اذیتیں دی گئیں۔ گرجہ گھروں کو تباہ کیا گیا یا جمنازیم، اناج کے گوداموں یا حکومتی دفتروں میں بدل دیا گیا۔ تمام غیر ملکی مشنریوں کو نکال دیا گیا اور اُن کے اپنے ممالک میں واپس بھیج دیا گیا۔ پوری چین میں دہریت کی روح کسی جنگل میں آگ کی مانند پھیل گئی جب تک کہ اِس نے تمام زمین کو داغ دار نہ کر دیا۔ ہزاروں پادریوں اور گرجہ گھروں کے رہنماؤں کو قتل کردیا گیا یا بہت سالوں کے لیے قید کر دیا گیا۔ سینکڑوں نے دو دہائیوں تک بغیر کسی دوسری وجہ کے ماسوائے اِس کے کہ وہ یسوع سے محبت کرتے تھے بیگار کیمپوں میں سخت محنت کی۔ بہت سے شدید نقاہت سے یا بھوک سے مر گئے۔ کسی باہر والے کو اندر دیکھنے سے یوں لگتا تھا جیسے وہاں چین میں کوئی گرجہ گھر باقی نہیں بچا۔ یہ لگتا تھا کہ اِس کو مکمل طور پر مٹا دیا گیا تھا۔
پھر 1970 کی دہائی میں خُدا نے کچھ کرنا شروع کیا۔ شروع میں، محض چھوٹا سا بیج نمودار ہوا، اور ایمانداروں کی کچھ ننھی ٹولیاں، دہائیوں تک چھپے رہنے کے بعد، سطح کے اوپر دوبارہ نمودار ہوئیں۔ اِن چھوٹے چھوٹے بیجوں نے جڑ پکڑنی شروع کی... اور ہر گزرتے دِن کے ساتھ مضبوط تر اور بڑے ہوتے چلے گئے۔ 1980 کی ابتدائی دہائی تک، چین میں ہزاروں درخت اُبھر گئے، اور اُنہوں نے، بدلے میں، بہت سے بیج پیدا کیے جو پاک روح کی ہوا کے وسیلے سے دور دور تک نمود ونمائش کرتے چلے گئے۔ جیسے جیسے حیات نو قوم میں پھیلتا گیا ہزاروں ایماندار لاکھوں میں بدل گئے، اور لاکھوں کروڑوں میں بدل گئے اور یہاں تک کہ اب 100,000,000! (ibid.، صفحات 52۔53)۔
جیسا کہ فلدلفیہ کی کلیسیا کے ساتھ، خُدا نے اُن کےسامنے ’’ایک دروازہ کھول کے رکھ دیا اور جسے کوئی انسان بند نہیں کر سکتا‘‘ (مکاشفہ3:8)۔ لیکن اُنہیں قیمت چکانی پڑی تھی! اِن لوگوں کو دُنیا سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ اُنہیں چین کے ہر گوشے میں انجیل لانے کے لیے ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے رضامند ہونا پڑا تھا۔ اُنہیں اپنے خوف مسترد کرنے پڑے تھے، اور کُلی طور پر خُداوند یسوع مسیح کے لیے وقف ہوئے تھے! اُس چینی مبلغ نے پھر آزاد دُنیا میں ہم سے کہا،
پیارے دوست، خُدا کی آواز کو سُننے سے خوفزدہ نہ ہونے اور اُس کی فرمانبرداری کرنے کے لیے میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں! خُدا کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتا، نہ ہی وہ کبھی اپنے بچوں کو چھوڑ سکتا ہے۔ اُس پر مکمل طور سے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ایمان اور اعتماد میں قدم بڑھائیں... یسوع ہم سے چاہتا ہے کہ خُدا کی قوت میں جئیں اور قدم بڑھائیں... ہمارا کردار خُدا کی آواز کو سُننا ہے، اپنی زندگیوں کو بے تکلفی سے پیش کر دینا ہے... اِس بیمار اور درد میں مبتلا دُنیا تک پہنچنے کے لیے خُدا کے حکم کی تابعداری کرنا ہے (ibid.، صفحات54، 55)۔
اگر ہم کوئی ایسا گرجہ گھر بنانے جا رہے ہیں جو چین میں گھریلو گرجہ گھروں کی مثال کی پیروی کرتا ہے، تو ہمیں متبرک زندگیاں جینے کے لیے پاک روح کی قوت کی ضرورت پڑے گی!
پھر اُس چینی مبلغ نے کہا کہ ہم مغربی دُنیا میں ’’ہر اتوار کو ہزاروں واعظ سُنتے ہیں جن میں یسوع کو صرف نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر خُداوند اور مالک کے طور پر نہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے، ’یسوع آپ کی مدد کرے گا، آپ کو برکت دے گا، آپ کو معاف کرے گا...‘ لیکن بہت ہی کم کفارے، عاجزی و انکساری اور قربانی کے بارے میں کہا جاتا ہے... [لوگ] خُداوند کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اُنہوں نے سچے طور پر کبھی بھی کفارہ ادا نہیں کیا اور اپنی زندگیوں کو یسوع مسیح کے حوالے نہیں کیا۔ جھوٹی انجیل کا نتیجہ جو آج اِس قدر زور آور ہے کہ جوش کے بغیر [لوگوں] سے بھرے گرجہ گھروں میں دیکھا جا سکتا ہے، جن کی زندگیاں اب بھی خودغرضی اور دُنیاوی اصولوں پر مرکوز ہیں‘‘ (ibid.، صفحہ 18)۔
مغربی مشاہدہ کرنے والوں کے لیے، ’’چین میں زیرزمین گرجہ گھر اندھے ایمان اور لاعلمی کے آمیزے پر تعمیر کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، مگر وہ اندھا ایمان اُن کے نجات دہندہ، یسوع مسیح میں لنگر انداز ہے۔ عمومی طور پر مغربی کلیسیائیں خُدا کے کلام اور عقلیت پسندی کے اُن کی اپنی سمجھ کے اعتماد پر تعمیر ہوتی دکھائی دیتی ہیں... مغرب میں، جہاں پر ہمیں بے انتہا معلومات اور بائبل کی آگاہی تک رسائی ہے، تو ہم اپنی تمام زندگیاں آسانی سے مسیح کے سامنے قطعی طور پر بے حس ہو کر گزار سکتے ہیں‘‘ (کریمسن صلیب Crimson Cross، یروشلم کے لیے واپسی Back to Jerusalem، 2012، صفحہ 235)۔
کیا آپ اپنی زندگی کے ساتھ مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے خوفزدہ رہے ہیں؟ کیا کسی گناہ اور کسی خوف نے آپ کو یسوع کو اپنانے اور اُس کے سچے شاگرد ہونے کی حیثیت سے نجات پانے سے روکے رکھا ہے؟ اگر آپ کو چین میں گھریلو گرجہ گھر کے مسیحیوں کے ایمان سے للکارا جاتا ہے تو کیا آپ اپنے خوفوں کا سامنا کریں گے اور ’’دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیں گے ... اور ماسوائے کوڑے کے کچھ نہیں سمجھیں گے تاکہ [آپ] مسیح کو حاصل کر پائیں‘‘؟ (فلپیوں3:8)۔ ماسوائے کوڑے کے کچھ نہیں سمجھیں گے! ماسوائے کوڑے کے کچھ نہیں سمجھیں گے! ماسوائے کوڑے کے کچھ نہیں سمجھیں گے – تاکہ آپ مسیح کو حاصل کر لیں! کیا آپ اِس عظیم پرانے حمدوثنا کے گیت میں موجود اُس سچائی کو اپناتے ہیں، ’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘؟ یہ آپ کے گیت کے ورق میں 7 نمبر ہے۔ کھڑے ہوں اور اِسے گائیں۔
یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے، سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا، اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے؛
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے، وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا؛
اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے، خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!
(’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔
اگر آپ ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں، جیسے کہ وہ جو چین میں گھریلو گرجہ گھروں میں ہیں، تو مہربانی سے ابھی اپنے نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا اور مشاورت کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کیجیے کہ آج رات کوئی نہ کوئی نجات پائے گا۔ آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
چین میں زندگی – مغرب میں موت!
(چینی وسط خزاں کے میلے پر پیش کیا گیا ایک واعظ)
LIFE IN CHINA – DEATH IN THE WEST!
(A SERMON GIVEN AT THE CHINESE MID-AUTUMN FESTIVAL)
ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.
’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:13).
’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:22).
I. اوّل، مغرب میں – اور امریکہ میں کلیساؤں کے لیے پاک روح کیا فرماتا ہے! مکاشفہ3:14۔17؛ متی22:13؛ متی7:23؛ مکاشفہ20:15 .
II. دوئم، چین میں کلیسیاؤں کے لیے پاک روح کیا فرماتا ہے! مکاشفہ3:7۔8؛ فلپیوں3:8 .