Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح میں تبدیل ہونے کا نمونہ

(مصرف بیٹے پر واعظ نمبر1)
THE ARCHETYPE OF CONVERSION
(SERMON NUMBER 1 ON THE PRODIGAL SON)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
25 اگست، 2013، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, August 25, 2013

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

مصرف بیٹے کی تمثیل بابئل کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن آج اِس کا اکثر غلط مطلب لیا جاتا ہے۔ آج رات کو اپنے واعظ ’’مصرف بیٹے کا غلط مطلب نکالنا Misinterpreting the Prodigal Son‘‘میں مَیں اِس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ 6:‏30 بجے اِس کو سُننے کے لیے واپس آئیں گے۔ اُس کے بعد آپ کے لیے ہم رات کا کھانا پیش کریں گے، اِس لیے رات کو واپس آئیے گا!

تمام کے تمام پرانے تبصرے کہتے ہیں کہ مصرف بیٹا کھویا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تمثیل اُس کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے۔ لیکن بلی گراھم اور دوسروں نے کہا یہ تبدیلی کی ایک تصویر نہیں ہے۔ فیصلہ سازوں نے کہا یہ اصل میں ایک اخلاقی طور پر گِرے ہوئے مسیحی کے دوبارہ وابستہ ہو جانے کی تصویر ہے۔ کیسے تمام کے تمام پرانے تبصرے غلط ہو سکتے ہیں؟ ٹھیک ہے، وہ غلط نہیں تھے۔ یہ جدید وضاحت ہے جو غلط ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، اِن جدید مبلغین کو اِسے دوبارہ وابستگی ظاہر کرنا پڑتا تھا کیونکہ اُنہوں نے اِس قسم کی تبدیلی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اِسی لیے یہاں تک کہ ڈاکٹر میکجی Dr. McGee جیسے عظیم بائبل کے اُستاد نے اِسے غلط سمجھا – جیسا کہ میں آج رات کے واعظ میں تفضیل کے ساتھ اِس کو ظاہر کروں گا۔

بیسویں صدی میں، ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے تبدیلی کو ایک سستی چیز بنا دیا تھا – محض اپنا ہاتھ اُٹھائیں اور آپ بچا لیے جاتے ہیں۔ ایک طوطے کی مانند ایک تیزی سے دعا پڑھیں اور آپ بچا لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا، بیسویں صدی میں، مبلغین نے مصرف بیٹے کی مانند جیسی تبدیلیاں نہیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے براہ راست نتیجے کے طور پر بلی گراھم اور دوسروں کو تبدیلی کی بجائے دوبارہ وابستگی کے طور پر تمثیل کی دوبارہ تاویل یا وضاحت کرنی پڑی تھی۔ تمثیل کی خود اپنے پر بات کرنے کی بجائے، وہ اب اِس کو ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے ’’چشموں‘‘ سے پڑھتے ہیں۔ حتٰی کہ ڈاکٹر میکجی جیسے بائبل کے عظیم اُستاد فیصلہ سازیت کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہو گئے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا، یہ ایک گنہگار کی تصویر نہیں ہے جو بچا لیا جاتا ہے... آئیے سمجھیے تمثیل بالخصوص کس کے بارے میں ہے۔ یہ تمثیل اِس بارے میں نہیں ہے کہ ایک گنہگار کیسے بچایا جاتا ہے؛ یہ ایک باپ کے دِل کو ظاہر کرتی ہے جو ناصرف ایک گنہگار کو بچائے گا بلکہ اُس بیٹے کو بھی قبول کرے گا جو گناہ کرتا ہے‘‘ (جے ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D. ، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ 314؛ لوقا15:‏14 پر ایک غور طلب بات)۔

میں یقین کرتا ہوں ڈاکٹر میکجی غالباً اِس پر لوئیس شیفر Lewis Chafer، جو ڈلاس علم الہٰیات کی تدریس گاہ Dallas Theological Seminary کے بانی تھے، کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہوئے تھے۔ ڈاکٹر شیفر پرانے طرز کی بحرانی تبدیلی کے ایک شدید مخالف تھے۔ اُنہوں نے ’’سینڈیمینی این اِزم Sandemanianism ‘‘کی طرز کی تعلیم دی تھی – یہ تصور کہ ہم بائبل جو کچھ مسیح کے بارے میں کہتی ہے محض اُس پر یقین کر لینے سے بچا لیے جاتے ہیں۔ یہ اِمکان لگتا ہے کہ ڈاکٹر میکجی نے مصرف بیٹے کا اپنا یہ تصور لوئیس سپری شیفرLewis Sperry Chafer کی جانب سے ’’دوبارہ وابستگی‘‘ کے طور پر اپنایا تھا۔ کوئی جو اِس واعظ کو پڑھ رہا ہے اگر مصرف بیٹے کے بارے میں ڈاکٹر شیفر نے کیا کہا پر چھان بین کرے، اور مجھے ماخذ source بھیج دیے، تو میں اُس کی تعریف کروں گا۔ یہ جھوٹا تصور بیسویں صدی میں دور دور تک پھیل گیا تھا۔ بلی گراھم نے مصرف بیٹے کے بارے میں ایک اخلاقی طور پرگِرے ہوئے شخص کی حیثیت سے بات کی تھی جو خُدا کے پاس واپس لوٹ آیا تھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں آپ سے آپ کی توثیق کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔ میں آپ سے آج رات کو خُدا کے پاس واپس آنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے مصرف بیٹے پر ہر مرتبہ اپنی تبلیغ میں اِس قسم کی باتیں اپنی عظیم تحریکوں میں، جو سارے امریکہ میں پچاس سالوں تک پرائم ٹائم ٹیلی وژن پر نشر کی گئی کہی تھیں۔ اِس لیے آج یہی ہے جو امریکہ میں ایک اوسط مبشرِ انجیل مصرف بیٹے کے بارے میں سوچتا ہے۔ لیکن یہ انتہائی شدید پریشان کُن ہے! کیوں؟ کیونکہ مصرف بیٹے کی تمثیل دوبارہ وابستگی کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے! یہ ایک حقیقی تبدیلی کے بارے میں بات کر رہی ہے اور یہ دونوں ایک جیسی نہیں ہیں! تبدیلی کچھ ایسا ہے جو آپ کے ساتھ خُدا کرتا ہے۔ دوبارہ وابستگی کچھ ایسا ہے جو آپ کرتے ہیں۔ تبدیلی میں، خُدا کا روح گنہگار کو بیدار کرتا ہے اور اُسے مسیح کی جانب کھینچنے کے لیے گناہ کے خنزیروں کے باڑے کو چھوڑنے کے لیے تحریک دیتا ہے۔ اگر ایک شخص صرف اپنی زندگی کو دوبارہ وابستہ کرتا ہے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ کیوں؟ کیونکہ نجات فضل کی بدولت ہوتی ہے، اور دوبارہ وابستگی اعمال کی بدولت ہوتی ہے۔ اور اعمال نے کبھی بھی کسی کو نہیں بچایا ہے؟

فیصلہ سازیت سے قبل لکھے جانے والے تمام تبصروں نے کہا کہ مصرف بیٹا ایک کھویا ہوا انسان تھا۔ مثال کے طور پر، میتھیو ھنری کے تبصرے Matthew Henry’s Commentary نے کہا کہ لفظ ’’بیٹا‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بچایا گیا تھا، بلکہ یہ ’’خُدا کو تمام نوع انسانی کے مشترک باپ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔‘‘ ھنری نے یہ بھی کہا کہ تمثیل پیش کی گئی تھی ’’ظاہر کرنے کے لیے کہ ایک گنہگار کی تبدیلی خُدا کے لیے کتنی خُوش کُن ہوتی ہے‘‘ (ھینڈرکسن پبلیشرز Hendrickson Publishers، 1996 ایڈیشن، جلد پنجم، صفحہ598؛ لوقا15:‏11۔32 پر غور طلب باتیں)۔ یہ طریقہ تھا جس سے بیسویں صدی کی فیصلہ سازیت سے پہلے تمام اعلٰی درجے کے تبصروں نے تمثیل کی تشریح کی۔

بیسویں صدی کی دُھندلی فیصلہ سازیت سے گزر کر، آئیے تمثیل کے سچے معنی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ فریسیوں کو پیش کی جانے والی تین تماثیل کی فہرست میں تیسری ہے۔ وہ یسوع کا تمسخر اُڑا رہے تھے کیونکہ وہ ’’گنہگاروں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا بھی ہے‘‘ (لوقا15:‏2)۔ یہ سمجھانے کے لیے کہ وہ کیوں گنہگاروں کے ساتھ میل جول رکھتا تھا اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا تھا، یسوع نے تین تماثیل پیش کیں – تین چھوٹی کہانیاں جن میں ایک سبق تھا۔ پہلی، اُس نے کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل پیش کی (لوقا15:‏3۔7)۔ دوسری اُس نے کھوئے ہوئے سکّے کی تمثیل پیش کی (لوقا15:‏8۔10)۔ تیسری اُس نے کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل پیش کی – جسے ہم اکثر ’’مصرف بیٹا‘‘ کہتے ہیں (لوقا15:‏11۔32)۔ یہ تمام کی تمام تماثیل ایک کھوئے ہوئے شخص کی نجات کے بارے میں ہیں۔ ہر کوئی اتفاق کرتا ہے کہ پہلی دو تماثیل ایک کھوئے ہوئے شخص کے بچائے جانے کے بارے میں ہیں۔ اور بیسویں صدی سے پہلے ہر ایک تبصرہ نگار نے کہا تھا کہ تیسری تمثیل بھی ایک کھوئے ہوئے شخص کے بچائے جانے کے بارے میں ہے! سکوفیلڈ Scofield کی غور طلب بات اِسے ’’کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل‘‘ کہتی ہے (سکوفیلڈ کا مطالعۂ بائبل The Scofield Study Bible، 1917 ایڈیشن)۔ اور بالکل یہی تو ہے۔ لوقا15:‏24 میں خود لڑکے کے باپ نے کہا وہ روحانی طور پر مرچکا تھا، اور کہ وہ کھویا ہوا تھا!

’’کیونکہ میرا بیٹا جو مر چُکا تھا زندہ ہو گیا ہے، کھو گیا تھا اب ملا ہے…
        ‘‘ (لوقا 15:‏24).

مصرف بیٹے کی تمثیل مسیح کی جانب سے ایک نمونے کے طور پر پیش کی گئی تھیایک قسم، حقیقی تبدیلی کی ایک مثال۔ پولوس کی تبدیلی اِس نمونے کی پیروی کرتی ہے۔ اور مصرف بیٹے کی تبدیلی کی مثال کا تجربہ بیسویں صدی تک تمام عظیم مبلغین کو ہوا تھا – بدعتی پیلیجیئن Pelagian فنّی کو نکال کر۔ ذرا تھوڑا سا مسیحی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کیسے اِن تمام عظیم مسیحی رہنماؤں کی تبدیلی ہوئی تھی جس کا نمونہ مصرف بیٹے کی تبدیلی کی بنیاد پر تھا۔ آگسٹین Augustine کی تبدیلی نے اِس نمونے کی پیروی کی تھی۔ اِسی طرح سے لوتھر، بنئعین، وائٹ فیلڈ، دونوں ویزلی بھائیوں کی تبدیلی تھی، وہ تمام جو پہلی اور دوسری عظیم بیداری (1730۔1840) میں تبدیل ہوئے تھے، جن میں سی۔ ایچ۔ سپرجئین، آر۔ اے۔ ٹوری R. A. Torrey ، تمام ادوار کے عظیم مبلغین میں سے ایک مبلغ، چین کے انجیلی بشارت کے ڈاکٹر جان سُنگDr. John Sung کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ یہ تمام کے تمام اُس وقت تبدیل ہوئے تھے جب اُنہوں نے مصرف بیٹے کی سی نمونے کی تبدیلی کا تجربہ کیا تھا۔

ویسے، میرے خیال میں وہ اُن وجوہات میں سے ایک ہے کہ مسیح نے مصرف بیٹے کی تمثیل پیش کی – کہ ہمیں تبدیلی کی ایک تصویر پیش کرے۔ چاروں اناجیل میں کہیں پر بھی مسیح تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتا کہ کیسے ایک تبدیلی وقوع پزیر ہوتی ہے۔ جی ہاں، اعمال کی کتاب میں پولوس کی گواہی کا تین مرتبہ اندراج ہے – لیکن میں دعوٰی کرتا ہوں کہ پولوس کی تبدیلی نے اُس طریقہ کی پیروی کی تھی، جو مسیح نے بتایا تھا، پولوس کے تبدیل ہونے سے سالوں پہلے، جب خداوند نے ہمیں مصرف بیٹے کی تمثیل پیش کی تھی۔

(میرا واعظ باعنوان ’’مصرف بیٹے کا غلط مطلب نکالنا Misinterpreting the Prodigal Son‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ آپ کو اِسے اِسی واعظ کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔)

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا، مصرف بیٹے کی تمثیل کافی عرصے سے بائبل کے حوالوں میں بہترین چاہے جانے والوں میں سے ایک ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ ایک کھوئے ہوئےگنہگار کو وہ طریقہ ظاہر کرتی ہے جس کا تجربہ اُسے نجات حاصل کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ اور اِس طویل تعارف کے ساتھ، ہم واعظ کے خود کے موضوع کی طرف آتے ہیں، یہ تلاوت سادہ سی ہے،

’’اور جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

اب میں کہتا ہوں کہ مصرف بیٹے کی تبدیلی ایک نمونہ ہے کیونکہ یہ اُن تمام جُزیات کو ظاہر کرتی ہے جو ایک شخص سچے طور پر مسیح میں قبولیت کرتا ہے یا تبدیل ہوتا ہے۔ تلاوت سادہ سی ہے،

’’اور جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

یہاں تبدیلی میں مختلف مراحل ہوتے ہیں، اور ہم اُنہیں مصرف بیٹے کے تجربے میں دیکھتے ہیں۔ پہلے، وہاں ایک مرحلہ ہے جب نوجوان آدمی اپنے باپ سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا باپ مذید اُس پر کوئی اختیار رکھے۔ وہ ’’آزاد‘‘ ہونا چاہتا ہے۔ مصرف بیٹے نے خُدا کی موجودگی سے انکاری نہیں کی تھی۔ اُس نے اپنے والدین کے ساتھ مذہبی عبادات میں شمولیت کی تھی۔ لیکن اندر دِل کی کہیں گہرائی میں اُس کی ’’خود مختیاری‘‘ کہلانے والی خواہش پوشیدہ تھی۔ وہ اپنے باپ کے تمام کے تمام اصول و ضوابط کو توڑنا چاہتا تھا۔ اُس نے سوچا تھا کہ شاید کوئی خوشگوار تجربات ہیں جن کا اُس نے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔ وہ منع کی ہوئی دُنیا کے پھل چکھنا چاہتا تھا جن کا مزہ اِس سے قبل اُس نے کبھی نہیں لیا تھا۔ وہ اب ایک آدمی تھا، اور خود کا مختار بننا چاہتا تھا، اور اپنے باپ کے اختیار کے تحت ہونے کی بجائے، خود اپنے اصول بنانا چاہتا تھا۔ اگر آپ کے اِس جیسے خیالات ہیں، تو آپ کو ابھی ’’اپنے ہوش میں آ جانا‘‘ چاہیے، اِس سے پہلے کہ آپ اُس تباہی اور شرمندگی میں جائیں جو آ جائے گی اگر آپ اِن باغی خیالات کے ساتھ زندگی جاری رکھیں گے۔

لیکن جلد ہی مصرف بیٹا ایک اور مرحلے میں آتا ہے۔ اُس کو اُس کے حصے کی جائیداد جلدی مل جاتی ہے، اُس کے باپ کی موت سے پہلے۔ اُس نے روپے لیے اور ایک دور دراز کے مُلک میں بھاگ گیا۔ اب وہ، ہر وہ کام کرے گا جس کا اِس سے پہلے اُس نے صرف تصور کیا تھا۔ اُس نے اپنے دِن اور رات ’’گناہ کا چند روزہ لطف اُٹھا کر‘‘ مزہ لینے میں گزار دیے (عبرانیوں11:‏25)۔

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو گیا، جب اُس نے ’’سب کچھ خرچ‘‘ کر لیا تھا۔ اب اُس کی بھوک کو مٹانے کے لیے وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس کے تمام گناہوں نے اب اُسے کوئی تسلی نہیں دی تھی۔ اور یہ اِسی ہولناک حالت میں تھا کہ وہ چوتھے مرحلے میں داخل ہوا تھا – ’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17) – یا جیسا کہ جدید ترجمہ یوں بیان کرتا ہے، ’’وہ اپنے ہوش و حواس میں آیا۔‘‘

وہ کتنا احمق رہ چکا تھا! وہ ایک دیوانے شخص کی مانند، ایک گناہ سے دوسرے کی جانب جا رہا تھا۔ ہم نے نوجوان لوگوں کو دیوانے، حیرت ناک کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم نے نوجوان لوگوں کو گناہ میں اتنا گرتے ہوئے دیکھا ہے کہ آخر کار وہ ہمارا گرجہ گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے اُنہیں اِس سے بھی زیادہ گہرے گناہ میں غرق ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اُنہیں کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ اُنہوں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اِس قدر گہرے گناہ میں گِر جائیں گے۔ وہ شاید کاروبار میں کامیاب ہو جائیں اور بیرونی طور پر اچھے بھلے نظر آتے ہوں، لیکن خُدا سے تعلق رکھنے والی باتوں سے متعلق وہ جانوروں کی مانند بن جاتے ہیں، اپنے دِل میں بغیرکسی سکون کے، اور دُنیا میں بغیر کسی اُمید کے۔

’’اور جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

یہ ایک کھوئے ہوئے گنہگار کے دِل میں فضل کا پہلا کام ہوتا ہے۔ صرف پاک روح ہی ایک گنہگار کو اُس کے ہوش و حواس میں لا سکتا ہے اور اُس کی زندگی اور اُس کے ابدی نصیب کے بارے میں دانشمندی سے سوچنا شروع کروا سکتا ہے۔ اور شیطان کی بات پر کان مت دھریں اگر وہ آپ سے کہتا ہے کہ مصرف بیٹے کی مانند ہمیشہ واپس لوٹ سکتے ہیں۔ اِس پر انحصار مت کریں! آپ صرف آ سکتے ہیں اگر خُدا آپ کو کھینچتا ہے، اور اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ آپ کو واپس کھینچ لے گا اگر آپ جان بوجھ کر گناہ میں گرتے ہیں! وہ شاید کہتا ہے، ’’افرائیم بُتوں سے مل گیا: اِسے اکیلا چھوڑدو‘‘ (ہوسیع4:‏17)۔ آئیے یہ دیکھنے کے لیے چند منٹ اور لیں کہ مصرف بیٹے کی تمثیل ایک کھوئے ہوئے گنہگار کی تبدیلی کو آشکارہ کرتی ہے۔

I۔ اوّل، کھویا ہوا گنہگار اپنے ہوش میں آتا ہے۔

’’جب وہ اپنے ہوش میں آتا ہے‘‘ – جب وہ اپنے ہوش و حواس میں آتا ہے۔ یہ پہلی علامت ہے کہ خُدا کا فضل آپ کی زندگی میں کام کر رہا ہے۔

کبھی کبھی ذہن کی یہ تبدیلی اچانک ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی مسٹر گریفتھ کے ساتھ رونما ہوا تھا، جنہوں نے ابھی چند لمحے قبل ’’خُداوندا، میں گھر آ رہا ہوں‘‘ گایا تھا۔ اُنہوں نے ایک پرانی طرز کی اچانک تبدیلی کا تجربہ کیا تھا۔ وہ ایک دوست کے ساتھ گرجہ گھر آئے تھے۔ میں گناہ اور قیامت پر سختی سے منادی کر رہا تھا۔ اُس دوست نے کہا، ’’چلو آؤ یہاں سے باہر چلیں۔‘‘ کچھ اِسی قسم کا تھا۔ گریفتھ نے کہا، ’’ٹھہرو، میں یہ سُننا چاہتا ہوں۔‘‘ دوسرا ساتھی فوراً چلا گیا تھا، واقعی میں میری باتوں کی آواز سے دور۔ گریفتھ ٹھہرے رہے۔ وہ گناہ کے تحت سزایابی میں آ گئے۔ ’’وہ اپنے ہوش میں آ گئے۔‘‘ اُنہوں نے سوچا، ’’مبلغ دُرست ہے۔ میں ایک گنہگار ہوں۔‘‘ بالکل اُسی وقت اور وہیں پر، اُنہوں نے یسوع پر بھروسہ کیا اور نجات پا لی۔ میں نے انتہائی خوشی منائی تھی جب میں نے اِس کے بارے میں سُنا! وہ خُدا کی باتوں کی خواہش کے لیے اِس قدر متمنی ہو گئے تھے جتنے وہ کبھی گناہ کی باتوں کے لیے تھے۔ ہر کوئی جو اُنہیں جانتا ہے بتا سکتا ہے کہ اُن کے دِل کی تبدیلی حقیقی تھی، بیشک حالانکہ یہ اچانک جب پہلی مرتبہ اُنہوں نےانجیل سُنی تھی تب ہوئی تھی۔ اِسی طریقے سے ڈاکٹر چعینDr. Chan تبدیل ہوئے تھے۔ اِسی طریقے سے میری بیوی تبدیل ہوئی تھی۔ اِسی طریقے سے میلیسہ سینڈرز Melissa Sanders تبدیل ہوئی تھی۔ اِسی طریقے سے مسسز کیگن Mrs. Cagan، اور ہمارے گرجہ گھر میں دوسرے بہت سے تبدیل ہوئے تھے۔ وہ اپنے ہوش و حواس میں اچانک آئے تھے – اور انہوں نے یسوع پر اچانک بھروسہ کیا تھا۔ اور وہ بالکل اُسی پہلی دفعہ جب اُنہوں نے مجھے انجیل کی منادی کرتے ہوئے سُنا بچا لیے گئے تھے!

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

دوسری طرف، کبھی کبھی یہ تبدیلی بہت آہستگی سے آتی ہے، بہت آہستہ آہستہ۔ اِس طریقے سے مسٹر سونگ Mr. Song تبدیل ہوئے تھے۔ وہ گرجہ گھر آئے تھے اور واعظ کے بعد تفتیشی کمرے کے لیے گئے تھے۔ وہ بار بار آتے رہے۔ اُن کے سوچنے کا اپنا ہی انداز تھا۔ اُنہوں نے ہمارے ساتھ بحث شروع کردی جب ہم اُنہیں مسیح کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے۔ ایک دِن اُنہوں نے میرے ساتھ کافی شدت سے بحث کی اور مجھے بُرا بھلا کہا۔ اُنہوں نے ہمارا گرجہ گھر چھوڑ دیا اور ایک دوسرے پادری کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو اُن کے لیے تبدیلی کو آسان بنا سکتا۔ جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے، وہ ایک کیتھولک کاہن کے پاس گئے تھے۔ لیکن اُس آدمی نے اِن کی مدد نہ کی۔ وہ ایک آزاد خیال پروٹسٹنٹ پادری کے پاس گئے، لیکن اُنہیں وہاں سے بھی کوئی مدد نہ ملی۔ آخر کار اُنہوں نے ٹیلی ویژن چلایا اور یسوع کے بارے میں ایک فلم کا کچھ حصہ دیکھا۔ کسی نہ کسی طرح خُدا نے اُن سے بات کی، اور وہ زار و قطار آنسوؤں کے ساتھ ٹوٹ گئے۔ اگلے اتوار میں نے اُنہیں عبادت میں شامل ہوتے ہوئے دیکھا، اور میں خوش ہوا! اُس عبادت کے بعد جب وہ تفتیشی کمرے میں آئے، اُن کا غرور ٹوٹ چکا تھا۔ اُنہوں نے یسوع پر بھروسہ کر لیا تھا۔ وہ تبدیل ہو گئے تھے،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

ہمارے نوجوان لوگوں میں سے ایک نے ہمارے گرجہ گھر میں پرورش پائی تھی۔ وہ ایک چینی لڑکا ہے۔ اُس نے جدوجہد کی اور سخت کوشش کی۔ وہ یسوع سے اجتناب کر رہا تھا – وہ گناہ کی معافی کی بجائے، ایک احساس کی تلاش کر رہا تھا۔ پھر ایک صبح میں نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ وہ کوشش کر کر کے تھک چکا تھا۔ میں نے اُس کو اُس کی والدہ کے ساتھ دوزانو کروایا، اور اُس نے یسوع پر بھروسہ کر لیا۔ وہ تبدیل ہو گیا تھا،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

ایک دوسرا نوجوان آدمی بار بار تفتیشی کمرے میں آتا تھا۔ وہ گہری سزایابی کے تحت تھا، لیکن اُس نے محض ایمان میں یسوع کے پاس آنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جب بھی تفتیشی کمرے میں آیا رویا تھا، لیکن اُس نے نجات نہیں پائی تھی۔ آخرکار وہ اِس قدر شدت سے رو اور کراہا رہا تھا کہ میں نے سوچا شاید اِس کو اچانک دورہ پڑا ہے۔ میں نے اُسے باتھ روم میں جا کر چہرہ دھونے کے لیے کہا۔ جب وہ واپس آیا، میں نے اُس کو ایک پرانی طرز کے حمدوثنا کے گیت کا حوالہ سُنایا،

کیا میرے جوش کو عارضی سکون میسر نہیں ہوگا،
   کیا میرے آنسو ہمیشہ ہی بہتے رہیں گے،
سب اِس لیے کیونکہ گناہ کا کفارہ نہیں ہوگا،
   تجھے بچانا چاہیے، اور تنہا تجھے ہی۔
چٹانوں کے زمانے، میرے لیے پھٹ گئے،
   مجھے خود کو تجھ میں سما لینے دے۔
(’’چٹان کے زمانے Rock of Ages‘‘ شاعر اگستس ایم۔ ٹاپلیڈی
      Augustus M. Toplady‏، 1740۔1778)۔

اُنہوں نے یسوع پر بھروسہ کیا تھا اور نجات پا لی تھی،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

مسٹر لی Mr. Lee گرجہ گھر آئے اور یسوع پر بھروسہ کرتے ہوئے لگے۔ لیکن یہ صرف ایک سرسری فیصلہ تھا۔ کچھ عرصے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اُن کے پاس مسیح کی طرف سے کوئی زندگی نہیں تھی۔ کہا جائے تو اُن کی ’’ہمت جواب دے گئی تھی۔‘‘ وہ واپس تفتیشی کمرے میں آئے۔ وہ نجات دہندہ کے پاس پچھتاوے اور توبہ کے آنسوؤں کے ساتھ آئے۔ وہ جلد ہی تبدیل ہو گئے تھے،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

اب بہت سالوں سے وہ عوام میں اُس ولولے اور محبت کےساتھ دعا کرنے کے لائق ہو چکے ہیں جو لوگوں میں 18ویں اور 19ویں صدی کی عظیم بیداری میں اور کوریا کے 1907 کے حیات نو میں کبھی ہوتا تھا۔ خُدا کی ستائش ہو! وہ یقینی طور پر تبدیل ہوئے تھے،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

جان کیگن John Cagan گرجہ گھر سے نفرت کرتے تھے، اور وہ اپنے والد سے اِس بات پر نفرت کرتے تھے کہ وہ اُنہیں ہر اتوار کو گرجہ گھر کے لیے تیار کرتے تھے۔ ایک صبح پاک روح نے اُن کا دِل توڑا۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے، اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں پر رینگتے ہوئے الطار تک آئے۔ وہ ایک پرانے دور کے میتھوڈسٹ کی طرح بچائے گئے تھے! اوہ، خُداوند کی ستائش ہو! وہ تبدیل ہو گئے تھے،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

میں بالکل ابھی ایک لڑکی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہ اِس قدر مذہبی تھی! لیکن وہ اِس قدر خود ہی میں گھری ہوئی تھی۔ وہ پتا نہیں چلا سکی تھی کہ یسوع کے پاس کیسے آئے۔ اُس کے لیے یہ مایوس کُن لگتا تھا۔ اُس کے پاس کوئی بھی اُمید نہیں تھی۔ جب دوسری تمام اُمید مٹی میں دفن ہو گئی، کسی ٹوٹے ہوئے کانچ کی مانند بکھر گئی، وہ بہت آرام سے یسوع کے پاس آ گئی، اور اُس نے نجات پا لی تھی،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

II۔ دوئم، کیا میں آپ کو یوں ہی آنے دوں اور ایک جلد بازی کا فیصلہ لینے دوں؟

بلاشُبہ میں کر سکتا ہوں! میں آپ کو آنے دے سکتا ہوں، اور آپ کو ’’گنہگار کی دعا‘‘ کہلانے والی کے الفاظ دھرانے کے لیے کہہ سکتا ہوں۔ آپ خوش ہو جائیں گے – کچھ دیر کے لیے۔ لیکن پھر آپ سوچنا شروع کریں گے، ’’کیا اِس کے لیے یہ سب کچھ کافی ہے؟ یہ مجھے تو اب بالکل بھی حقیقی ظاہر نہیں ہوتا ہے۔‘‘ اور آپ کے ایک مرتبہ پھر کھوئی ہوئی سوچوں میں پڑنا شروع کر دیں گے۔ آپ دوبارہ سوچنا شروع کر دیں گے، ’’شاید باہر دُنیا میں کچھ رہ گیا ہے جو میں حاصل نہیں کر سکا۔‘‘ شاید اِس سب کے باوجود بھی یہ حقیقی نہیں ہے!‘‘ شاید میں وہاں باہر کہیں کسی حقیقی لطف اندوزی کو چھوڑ رہا ہوں۔‘‘ میں یہ دیکھ چکا ہوں! میں یہ دیکھ چکا ہوں! بائبل کہتی ہے، ’’اُن کے بعد کی حالت اُن کی پہلی حالت سے ابتر ہوتی ہے‘‘ (2۔پطرس2:‏20)۔ بہتر ہے کہ اِسے ابھی سمجھ لیں! بہتر ہے کہ اِسے ابھی سمجھ لیں! اگر آپ اِسے درست نہیں سمجھتے ہیں، تو ’’شروع کی حالت کے مقابلے میں‘‘ ’’بعد کی حالت‘‘ آپ کے لیے بہت ابتر ہوگی۔ کیونکہ تب آپ کا دِل اِس قدر سخت ہوگا اور اِس قدر تنگ ہوگا کہ خُداوند کے کلام سے چاہے آپ کچھ بھی سُن لیں آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا! ’’وہ کام کرنے کے لیے جو سہل نہیں ہیں، ناپسندیدہ خیالوں اور نامناسب حرکات کا شکار ہونے‘‘ کے مقابلے میں ابھی چیخنا چلانا، رونا اور کوشش کرنا بہتر ہے (رومیوں1:‏28)۔ کسی دِن خداوند کو آپ کے لیے یہ کہتے ہوئے سُننا، ’’تو تباہ ہو گیا‘‘ کے مقابلے میں ابھی مسیح کو تلاش کرنے کے لیے کوشش کرنا اور جدوجہد کرنا بہتر ہے۔ (ہوسیع13:‏9)۔ ابھی سسکتا ہوا دِل اور کڑوے آنسو رونا بہتر ہے بجائے اِس کے کہ کسی دِن مسیح کو کہتے سُنیں،

’’میں تُم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دُور ہو جاؤ‘‘ (متی 7:‏23).

’’جب تُم [اِنہیں جن کی تبدیلیوں کے بارے میں آپ کو میں آج صبح بتا چکا ہوں] خدا کی بادشاہی میں موجود دیکھو گے اور خود کو باہر نکالے ہُوئے پاؤ گے تو روتے اور دانت پیستے رہ جاؤ گے‘‘ (لوقا 13:‏28).

اور تمہیں مسیح کہتا ہوا سُنائی دے گا،

’’اور اِس نکمّے نوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو جہاں وہ روتا اور دانت پیستا رہے گا‘‘ (متی 25:‏30).

اوہ! اوہ! میں آپ سے التجا کرتا ہوں، ابھی سوچیں! ابھی سوچیں! ابھی سوچیں! ’’وہ جب اپنے ہوش و حواس میں آیا۔‘‘ اوہ، شاید آپ آج اپنے ہوش و حواس میں آ جائیں! اور شاید آپ کے لیے یہ کہا جائے،

’’جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

اُس نے اپنے دِل میں کہا، ’’میں اُٹھوں گا اور یسوع کے لیے ابھی آؤں گا‘‘ –

کیونکہ تیرے قیمتی خون میں پاک صاف ہونے کے لیے
   جو کلوری پر بہا تھا۔
خُداوندا! میں آ رہا ہوں، ابھی تیرے پاس آ رہا ہوں!
   مجھے دُھو ڈال، مجھے خون میں پاک صاف کر ڈال
جو کلوری پر بہا تھا۔
   (’’اے خُداوند میں آ رہا ہوں I Am Coming, Lord، شاعر لوئیس ہارٹسو
      Lewis Hartsough ‏، 1828۔1919)۔

اگر آپ مسیحی بننا چاہتے ہیں، تو ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اِس اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا کے لیے ایک پُرسکون جگہ پر لے جائیں گے۔ ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے کسی کے ہوش میں آنے کے لیے اور یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے ابھی دعا کریں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا15:‏11۔19 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’اے خُداوندا، میں گھر آ رہا ہوں Lord, I’m Coming Homeُ‘‘
(شاعر ولیم جے۔ کِرک پیٹرِک William J. Kirkpatrick‏، 1838۔1921)۔

لُبِ لُباب

مسیح میں تبدیل ہونے کا نمونہ

(مصرف بیٹے پر واعظ نمبر1)
THE ARCHETYPE OF CONVERSION
(SERMON NUMBER 1 ON THE PRODIGAL SON)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے

.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’ جب وہ اپنے ہوش میں آیا‘‘ (لوقا15:‏17)۔

(لوقا15:‏2، 24؛ عبرانیوں11:‏25؛ ہوسیع4:‏17)

I.   اوّل، کھویا ہوا گنہگار اپنے ہوش میں آتا ہے، لوقا15:‏17 .

II.  دوئم، کیا میں آپ کو یوں ہی آنے دوں اور ایک جلدبازی کا فیصلہ لینے
دوں؟ 2۔پطرس2:‏20؛ رومیوں1:‏28؛ ہوسیع13:‏9؛ متی7:‏23؛
لوقا13:‏28؛ متی25:‏30 .