Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


اِنسان کی بدکاری اور مسیح کا کفارہ

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 54)
MAN’S DEPRAVITY AND CHRIST’S ATONEMENT
(SERMON #54 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

محترم جناب پادری ایمریٹس ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر صاحب کی جانب تحریر کیا گیا ایک واعظ
اور جسے محترم جانب پادری جیک نعان صاحب نے پیش کیا
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
خداوند کے دِن کی دوپہر، 30 اپریل، 2023
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr., Pastor Emeritus
and given by Jack Ngann, Pastor
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, April 30, 2023

’’اور خداوند تک ایک فرحت بخش خوشبو پہنچی اور خداوند نے دِل ہی دِل میں کہا، میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالانکہ اُس کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئیندہ کبھی تمام جانداروں کو ہلاک نہ کروں گا جیسے کہ میں کر چکا ہوں‘‘ (پیدائش8: 21)۔

پطرس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ نوح کی کشتی اور بپتسمہ نجات کی تشبیہ اور عکاسی ہیں۔ وہ دونوں کو ایک ساتھ رکھتا ہے (کشتی اور بپتسمہ) اس بات کی وضاحت کے لیے کہ ہم کیسے بچائے گئے ہیں (1 پطرس 3: 20-21)۔ نوح کو دنیا چھوڑ کر کشتی میں جانا پڑا۔ سیلاب اوپر سے نازل ہوا جب کہ نوح کشتی میں دفن ہوا، کشتی کے نیچے کے پانیوں اور اوپر کے پانیوں کے درمیان دفن ہوا۔ پھر، ایک وقت کے بعد، نوح کشتی سے نکل کر ایک نئی دنیا میں آیا، دوبارہ زندہ ہوا۔ اسی طرح، ایک شخص جو نجات پاتا ہے بپتسمہ لیتا ہے۔ سب سے پہلے، وہ دنیا کو چھوڑ کر مسیح میں آتا ہے۔ وہ مسیح کے ساتھ دفن ہوتا ہے اور پھر زندگی کے نئے پن کی طرف اٹھتا ہے (رومیوں 6: 3-4)۔

بپتسمہ اسی بات کی ایک تشبیہ یا تصویر ہے جس کا تجربہ نوح نے کشتی میں کیا تھا – کہ نجات موت کے، دفن ہونے کے اور جی اُٹھنے کے ذریعے سے ہے۔ نوح دنیا سے چلا گیا۔ وہ کشتی میں داخل ہوا، ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جب مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والا دنیا کو چھوڑ کر مسیح میں شامل ہوتا ہے۔ پھر نوح کو اندر بند کر دیا گیا۔ اُس پر ’’وعدے کے مطابق اُس کی روح القدس سے مہر لگائی گئی‘‘ (افسیوں 1: 13)۔ نوح کشتی میں گیا، ’’اور خُداوند نے اُسے اندر بند کر دیا‘‘ (پیدائش 7: 16)۔ وہ اس وقت تک باہر نہیں آ سکتا تھا جب تک خدا نے دروازہ نہ کھولا۔ سیلاب باہر بپھرا ہوا تھا، لیکن نوح نے پایا کہ وہ کشتی میں محفوظ ہے۔ ایسا ہی ایک نئے مسیحی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے، جب وہ مسیح میں شامل ہوتا ہے، کہ حملوں کا سیلاب آتا ہے، لیکن مسیحی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسیح [یسوع] میں محفوظ ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب خدا دروازہ کھولتا ہے، اور مسیحی خدا کے گواہ اور خادم کے طور پر ایک نئی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ وہ ایک کامل آدمی نہیں ہے، کیونکہ وہ اب بھی ’’بچپن سے بُرائی کیطرف مائل‘‘ ہے (پیدائش 8:21)، لیکن وہ اپنے لیے مسیح کی قربانی کو یاد کرتا ہے۔ وہ مسیح کی وجہ سے قبول کیا جاتا ہے، ’’جہاں اُس نے ہمیں [اپنے] عزیز [بیٹے] کے وسیلے سے عنایت فرمایا‘‘ (افسیوں 1: 6)۔ اور خُدا کہتا ہے، ’’میں دوبارہ لعنت نہیں بھیجوں گا… نہ… دوبارہ ماروں گا‘‘ (پیدائش 8: 21)۔

پیدائش کی کتاب ایک حقیقی سچائی کی کتاب ہے، جو آنے والے مسیح کی تشبیہات اور سائیوں سے بھری ہوئی ہے، اور صلیب پر اس کی قربانی کے ذریعے نجات ہے۔ اگر آپ ان خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیدائش [کی کتاب] کو پڑھیں، تو آپ ایمان کے وسیلے سے خدا کی بہت سی گہری باتوں کو دیکھیں گے۔ لیکن اب ہم تلاوت کی طرف آتے ہیں،

’’اور خداوند تک ایک فرحت بخش خوشبو پہنچی اور خداوند نے دِل ہی دِل میں کہا، میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالانکہ اُس کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئیندہ کبھی تمام جانداروں کا ہلاک نہ کروں گا جیسے کہ میں کر چکا ہوں‘‘ (پیدائش8: 21)۔

اِس آیت میں ہم دو عظیم سچائیوں کو دیکھتے ہیں۔

I۔ پہلی بات، اِنسان کی فطرت میں بدکاری ہے۔

’’کیوںکہ انسان کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش8: 21)۔

آپ یاد رکھیں گے، سیلاب سے پہلے، کہ

’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش6: 5)۔

لیکن سیلاب نے انسانی فطرت کو نہیں بدلا۔ سیلاب کے بعد انسان کا دل ویسا ہی تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی ہولناک آفت انسانوں کو بدل دے گی، کم از کم کشتی میں بچ جانے والوں کو بدل دے گی۔ لیکن بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ اس سے انسان کی فطرت بالکل نہیں بدلی۔ اور اس طرح، جیسا کہ نوح خداوند کو بھسم ہونے والی قربانیاں پیش کرتا ہے، خدا پھر کہتا ہے،

’’انسان کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش8: 21)۔

اِس ہی طرح سے ساری بائبل میں خدا کے ذریعے سے انسان کو بیان کیا گیا ہے۔

’’کوئی ایسا آدمی نہیں جس نے گناہ نہیں کیا‘‘ (II تواریخ6: 36)۔

’’زمین پر ایسا راستباز کوئی نہیں ہے جو صرف نیکی ہی نیکی کرے اور کبھی خطا نہ کرے‘‘ (واعظ 7: 20)۔

’’بنی آدم کے دِل بدی سے اور اُن کے سینے عمر بھر دیوانگی سے بھرے رہتے ہیں‘‘ (واعظ 9: 3)۔

’’ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی راہ لی‘‘ (اشعیا53: 6)۔

’’دِل سب چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لاعلاج ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ17: 9)۔

’’سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں؛ جیسا کہ لکھا ہے، کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں3: 9۔10)۔

پس، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سب کے سب

’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ ہیں‘‘ (افسیوں2: 1)۔

خُدا کے لیے ہمیں مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہماری آدم والی فطرت اتنی بری اور مردہ ہے کہ سزا کا سیلاب بھی اُس کے بُرے تصورات کا علاج نہیں کر سکتا! سپرجیئن نے کہا،

اوہ خدایا! انسانی فطرت کتنی نا امید ہے! یہ کتنا ناممکن ہے کہ جسمانی نیت رکھنے والے دماغ کا خدا سے میل ملاپ ہو! یہ کتنا ضروری ہے کہ آپ ہمیں نئے دل اور صحیح روحیں دیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ [آدم والی] فطرت اتنی بری ہے کہ سزا کا سیلاب بھی اسے اس کے بُرے تصورات سے دور نہیں کر سکتا! (سی ایچ سپرجیئنC. H. Spurgeon، ’’انسانی بدکاری اور الہٰی رحم Human Depravity and Divine Mercy‘‘، میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرِم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1979، جلد XI، صفحہ99)۔

II۔ دوسری بات، مسیح کا کفارہ خدا کے غضب کو تسلی بخشتا ہے۔

خداوند نے زمین پر انسان کے بدکار دِل کی وجہ سے سیلاب کے ذریعے سے لعنت بھیجی (پیدائش6: 5۔7)، لیکن اب وہ کہتا ہے،

’’میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالانکہ اُس کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئیندہ کبھی تمام جانداروں کا ہلاک نہ کروں گا جیسے کہ میں کر چکا ہوں‘‘ (پیدائش8: 21)۔

اِس اُلٹے فیصلے کی وجہ کیا رہی تھی؟ خُدا نے اب کیوں کہا کہ وہ دوبارہ ’’زمین پر لعنت‘‘ نہیں بھیجے گا، حالانکہ اُس نے ابھی انسان کے بُرے دل کی وجہ سے ایسا کیا تھا؟ انسان میں ایسا کچھ نہیں ہو سکتا جو بدل جائے۔ یہ نوح کا تقویٰ اور پرہیزگاری نہیں ہو سکتی جس نے خدا کے غضب کو تسلی بخشی۔ لوتھر نے کہا،

یہ افسوس کی بات ہے کہ اس عبارت کا ترجمہ [کیتھولک بائبل میں لاطینی میں، اور اب جدید ’’فیصلہ ساز‘‘ تراجم میں] اس طرح کیا گیا ہے کہ اس نے صوفیاء [قرون وسطیٰ کے کیتھولک اساتذہ] کو اس کی تشریح کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انسان کا تخیل بذات خود برائی نہیں تھا بلکہ صرف برائی کی طرف مائل تھا [جیسا کہ آج NIV ’’تخیل‘‘ کا ترجمہ ’’جھکاؤ‘‘ کے طور پر کرتی ہے اور NASB اس کا ’’ارادہ‘‘ رکھتی ہے]... ہماری تلاوت (پیدائش 8: 21) کے سلسلے میں ایسا لگتا تھا وہ کہتے ہیں کہ جب کہ انسان گناہ کی طرف ’’مائل‘‘ ہے لیکن اس کا جھکاؤ [یا ارادہ] آزاد مرضی کی طاقت کے تابع ہے، اور اس لیے انسان گناہ کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگرچہ ان صوفیوں [یا ’’فیصلہ پسندوں‘‘] نے انسانی فطرت کی خرابی کی تردید کی، لیکن انہوں نے ظاہر کیا کہ وہ اپنی الجھی ہوئی سوچ میں واضح نہیں تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ (انسان کی مرضی میں) خدائی فضل کا اضافہ ہونا چاہیے، جو انسان کو خوش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کے فطری تقویٰ اور کمال (جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں) سے مطمئن نہیں ہے۔ لیکن ان سے بحث کرنا ضروری نہیں کیونکہ موسیٰ واضح طور پر کہتا ہے کہ انسان کے دل کا ’’خیال‘‘ برا ہے۔ ’’تخیل‘‘ سے موسیٰ کا مطلب انسانی عقل اور ارادہ اور حکمت ہے یہاں تک کہ جب وہ خدا پر غور کرتا ہے اور بہترین کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے… عقل ہمیشہ الہی قانون کے خلاف ہے، ہمیشہ گناہ کے تحت، ہمیشہ الہی غضب کے تحت، اور [ہمیشہ] ناکام اس عظیم مصیبت سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے ہے، کیونکہ مسیح یوحنا 8: 36 میں کہتا ہے، ’’اس لیے اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا، تو تم واقعی آزاد ہو گے۔‘‘ اس سے [ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طاقتیں] اِخلاقی نہیں بلکہ غیراِخلاقی ہیں [اور انسان اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکتا] (مارٹن لوتھر، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Martin Luther, Th.D.، پیدائش پر مارٹن لوتھر کا ترجمہ Luther’s Commentary on Genesis، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، دوبارہ اشاعت1958، جلد اول، صفحہ 459)۔

لوتھر کی صحیفوں کی تفسیر سے، ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ’’گناہوں میں مردہ‘‘ ہے (افسیوں 2: 5)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ گناہ کی طرف انسان کا ’’مائل ہونا‘‘ یا ’’ارادہ ہونا‘‘ نہیں ہے، بلکہ یہ کہ، ’’انسان کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے۔‘‘ انسان کی فطرت بالکل مسخ شُدہ ہے۔ زوال کے بعد سے اس میں نیکی کی کوئی ’’چنگاری‘‘ باقی نہیں رہی ہے تاکہ انسان کے دل کو خدا کے فضل کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل بنایا جا سکے (جیسا کہ سینرجیسٹس، کیتھولک اور جدید ’’فیصلہ ساز‘‘ اعلان کرتے ہیں)، لیکن انسان کے اندر روحانی موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب انسان خُدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ہمیشہ ناکام رہتا ہے، کیونکہ وہ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہے (افسیوں 2: 5)۔ اور، اس لیے، انسان کو اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر ترک کر دینا چاہیے، اور پولوس رسول کے ساتھ کہنا چاہیے،

’’ہائے میں کیسا بدبخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے کون مجھے چُھڑائے گا؟‘‘ (رومیوں7: 24)۔

لہٰذا، یہ آدم میں نیکی کی کوئی ’’چنگاری‘‘ نہیں تھی جس نے اُس کو خُدا کے حوالے کیا اور اُسے زمین پر مزید لعنت سے آزاد کیا۔ ہمیں یہ جاننے کے لیے کہیں اور دیکھنا چاہیے کہ خدا نے انسان کے بُرے خیالات کی وجہ سے زمین پر سیلاب کی لعنت بھیجی تھی، لیکن اب اسی وجہ سے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے – یعنی کہ ’’انسان کے دل کے خیالات‘‘ (سیلاب سے پہلے)۔ سیلاب کے بعد بھی اتنا ہی دغا باز تھا۔

بظاہر اس تضاد کو، اِس اُلٹی بات کو کیسے سمجھایا اور سمجھا جا سکتا ہے؟ ابتدائی ربّی اور مسیحی مصنفین اس بات پر حیران تھے کہ خدا کا ذہن انسان کی گنہگار حالت کے بارے میں کیوں بدل گیا، جو سیلاب کے بعد بھی ویسا ہی رہا۔ میتھیو ہنری اس پہیلی کا جواب دیتا ہے جب وہ کہتا ہے،

اس کے بعد، اس نے دنیا کو دوبارہ کبھی نہ ڈوبنے کا عزم کیا۔ یہاں اس کی، نوح کی قربانی پر اتنی نظر نہیں تھی جتنی کہ مسیح کی اپنی [صلیب کی] قربانی پر تھی۔ جس کی اس کے ذریعہ تشبیہ دی گئی تھی اور اس کے ذریعے سے نمائندگی کی گئی تھی، اور جو درحقیقت ایک فرحت بخش خوشبو کی پیشکش تھی، افسیوں 5: 2۔ (تمام بائبل پر میتھیو ھنری کا تبصرہ Mathew Henry’s Commentary on the Whole Bible، ھینڈریکسن پبلیشرز، دوبارہ اشاعت1996، جلد اول، صفحہ 55)۔

ڈاکٹر لیوپولڈ نے کہا،

روحِ مکاشفہ یہ بتاتا ہے کہ خُدا کا یہ عزم [دوبارہ کبھی بھی سیلاب کے ساتھ دنیا پر لعنت نہ بھیجنا] قربانی کا… جواب تھا (ایچ۔ سی۔ لیوپولڈ، ڈی ڈی H. C. Leupold, D.D.، پیدائش کی تفسیرExposition of Genesis، بیکر بُکس ہاؤس، دوبارہ اشاعت1984، جلد اول، صفحہ323) ۔

اور یہ نوح کی پیش کشوں کی بنیاد پر تھا کہ خدا نے اپنے سابقہ عمل کو تبدیل کیا اور اب کہا کہ وہ ’’انسان کی خاطر‘‘ دوبارہ دنیا کو تباہ نہیں کرے گا۔ کیونکہ انسان کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش 8: 21)۔ آرتھر ڈبلیو پنک نے کہا کہ،

سیلاب کے ذریعے خُدا کی لعنت کا خاتمہ اُس سوختنی قربانیوں پر مبنی تھا جو نوح نے پیش کی تھی… اس ’’برکت‘‘ کی بنیاد بھسم ہونے والی قربانی تھی۔ اس کا ڈیزائن اس الٰہی احسان کو ظاہر کرنا تھا جو آدم اور حوّا پر کیا گیا تھا [تجدید شدہ] نسل انسانی کے نئے بزرگان پر تکیہ کرنا چاہئے (آرتھر ڈبلیو پنک Arthur W. Pink، پیدائش کی جھلکیاں Gleanings in Genesis، موڈی پریس، 1981 دوبارہ اشاعت، جلد اول، صفحہ 111)۔

نوح کے لیے خُدا کا فضل، نوح کی بھلائی پر نہیں، بلکہ مسیح کی رحمت پر مبنی تھا، جو اُسے اور اُس کے خاندان کو اُس قربان گاہ پر پیش کی گئی ’’خوشبودار قربانی‘‘ کے ذریعے پھیلایا گیا۔ جیسا کہ میں نے پیدائش کے پچھلے واعظوں میں کہا ہے، نوح کا قربانی جیسا ہدیہ صلیب پر مسیح کی قربانی کی انبیانہ تشبیہ اور ایک نشاندہی تھی، جو مسیح میں پوری ہوئی، جیسا کہ پولوس رسول نے کہا،

’’جیسے مسیح نے ہم سے محبت کی اور اپنے آپ کو ہمارے لیے خوشبو کی طرح خدا کی نذر کر کے قربان کیا‘‘ (افسیوں5: 2)۔

یہ مسیح کی مصلوبیت تھی، جو نوح کی تشبیہات میں بیان کی گئی تھی، جس نے خُدا کے غضب کو تشفی بخشی اور خُدا کے لیے ایک فرحت بخش خوشبو، آرام کی خوشبو سونگھنا ممکن بنایا، جس نے اُس کے غضب کو تسکین بخشی، اور اُس کے لیے انسان کے دِل کے گناہوں کو معاف کرنا اور ’’ٹل جانا‘‘ ممکن بنایا۔ اس طرح، جو نذرانے نوح نے جلائے تھے وہ ایک واضح تشبیہ اور مسیح کی عکاسی تھی جو اپنے آپ کو صلیب پر پیش کر کے گناہ گار انسان کو انصاف دلانے اور بچانے کے لیے تھی۔ قربانی میں یہ مسیح تھا جس نے خُدا کے غضب کا رُخ موڑا تھا، اور انسان کے گناہ سے بھرے دل کے خلاف اُس کے غصے کو جذب کیا۔ جیسا کہ عبرانیوں کی کتاب کہتی ہے،

’’یہ ممکن نہیں ہے کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دور کرے‘‘ (عبرانیوں10: 4)۔

لیکن ہم ہیں

’’اسی مرضی کا نتیجہ کہ یسوع مسیح کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلے سے پاک کر دیے گئے ہیں‘‘ (عبرانیوں10: 10)۔

اور یہ نوح کی قربانی تھی جس نے صلیب پر یسوع کے جسم کی طرف نشاندہی کی۔ نوح کے نذرانوں نے مصلوبیت کی نشاندہی کی، جس نے خُدا کے غضب کو پرسکون کیا، کہ انسان کو دوبارہ کبھی سیلاب سے ’’لعنت‘‘ نہیں کرنی چاہیے۔

’’اور نوح نے خدا کے لیے ایک مذبح بنایا اور سب چرندوں اور پرندوں میں سے جن کا کھانا جائز تھا چند کو لے کر اُس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔ جب اُن کی فرحت بخش خوشبو خداوند تک پہنچی تو خداوند نے دِل ہی دِل میں کہا: میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجوں گا حالانکہ اُس کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئندہ کبھی تمام جانداروں کو ہلاک نہ کروں گا جیسا میں نے کیا‘‘ (پیدائش 8: 20۔21)۔

III۔ تیسری بات، یہ آپ پر لاگو کیسے ہوتی ہے۔

آپ فطرتاً گنہگار ہیں۔ آپ کا گناہ آپ پر خدا کا غضب نازل کرتا ہے۔ آپ ایسا نہ کچھ کر سکتے نا کہہ سکتے ہیں جو آپ کے دِل کے بُرے خیالات کے لیے اُس کے غصے کا رُخ موڑ دے گا۔ آپ کو اپنے گناہ کے لیے جہنم کے شعلوں میں جھونکنا پڑے گا۔ ایک بات، اور صرف ایک ہی بات، آپ اور جہنم کے درمیان کھڑی ہے، اور وہ ہے صلیب پر مسیح کی قربانی کی موت۔ اسی لیے بائبل کہتی ہے،

’’مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا‘‘ (I کرنتھیوں15: 3)۔

’’اِس لیے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے گناہوں کے بدلے میں ایک ہی بار دُکھ اُٹھایا تاکہ وہ تمہیں خدا تک پہنچائے‘‘ (I پطرس3: 18)۔

جس طرح نوح کی قربانیاں خُدا نے قبول کیں، اور اُس نے وعدہ کیا کہ پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح، صلیب پر مسیح کی موت کو خدا نے قبول کیا ہے، اور اگر آپ سادہ ایمان کے ذریعے مسیح کے پاس آتے ہیں، جیسا کہ نوح نے کیا تھا جب وہ ان قربانیوں کو لایا تھا – اگر آپ سادہ اعتماد اور ایمان کے ذریعے مسیح کے پاس آتے ہیں، تو خدا آپ کے گناہوں کو مسیح کی خاطر، معاف کر دے گا اور آپ کو یسوع کے آنے والے غضب سے بچایا جائے گا، جس نے آپ سے اتنی محبت کی کہ آپ سے اِس قدر محبت کی کہ صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا تاکہ خُدا آپ کے گناہوں کو ٹال سکے اور آپ کے دِل کے بُرے خیالات کے لیے مذید اور آپ پر ’’لعنت‘‘ نہ بھیجے۔

اور اس طرح، ہم اس واعظ کو ایک سادہ التجا کے ساتھ ختم کرتے ہیں – یسوع کے پاس آئیں اور اس کے خون میں پاک صاف ہو جائیں! یسوع کے پاس آئیں، جو آپ سے اتنی محبت کرتا ہے، اور ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے خُدا کے غضب سے نجات پائیں، ابدیت تک کے لیے! انجیل کے اس پرانے گیت کے الفاظ سنیں،

مسیح ہمارا مُنّجی صلیب پر مر گیا،
     گنہگاروں کے لیے مرا، اپنا تمام فرض ادا کیا۔
وہ تمام جو اُسے قبول کرتے ہیں خوفزدہ کبھی مت ہوں،
     جی ہاں، وہ ٹل جائے گا، آپ پر سے ٹل جائے گا۔
جب میں خون دیکھوں گا، جب میں خون دیکھوں گا،
     جب میں خون دیکھوں گا، میں ٹل جاؤں گا، میں تم پر سے ٹل جاؤں گا۔

بدترین گنہگاروں کو یسوع بچائے گا؛
     وہ تمام جو وعدہ کر چکا ہے، وہ اُسے پورا کرے گا؛
ہائے، اے گنہگار، اُس کے کلام پر بھروسا کر،
     تب وہ ٹل جائے گا، آپ پر سے ٹل جائے گا۔
جب میں خون دیکھوں گا، جب میں خون دیکھوں گا،
     جب میں خون دیکھوں گا، میں ٹل جاؤں گا، میں تم پر سے ٹل جاؤں گا۔
(’’جب میں خون دیکھتا ہوں When I see the Blood‘‘ شاعر جان جی فوٹے John G. Foote، 19ویں صدی)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

اِنسان کی بدکاری اور مسیح کا کفارہ

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 54)
MAN’S DEPRAVITY AND CHRIST’S ATONEMENT
(SERMON #54 ON THE BOOK OF GENESIS)

محترم جناب ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور خداوند تک ایک فرحت بخش خوشبو پہنچی اور خداوند نے دِل ہی دِل میں کہا، میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالانکہ اُس کے دِل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئیندہ کبھی تمام جانداروں کا ہلاک نہ کروں گا جیسے کہ میں کر چکا ہوں‘‘ (پیدائش8: 21)۔

(I پطرس3: 20۔21؛ رومیوں6: 3۔4؛ افسیوں1: 13؛
پیدائش7: 16؛ افسیوں1: 6)

I۔   پہلی بات، انسان کی فطرت میں بدکاری ہے، پیدائش6: 5؛ II تواریخ6: 36؛
واعظ7: 20؛ 9: 3؛ اشعیا53: 6؛ یرمیاہ17: 9؛ رومیوں3: 9۔10؛
افسیوں2: 1 .

II۔  دوسری بات، مسیح کا کفارہ خداوند کے غضب کو تسلی بخشتا ہے، یوحنا8: 36؛
افسیوں2: 5؛ رومیوں7: 24؛ افسیوں5: 2؛ عبرانیوں10: 4، 10؛

III۔ تیسری بات، آپ پر یہ کس طرح سے لاگو ہوتا ہے، I کرنتھیوں15: 3؛ I پطرس3: 18 .