Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


تیسری دنیا میں پینٹی کوسٹالزم

PENTECOSTALISM IN THE THIRD WORLD
(Urdu)

ڈاکٹر کرسٹوفر ایل کیگن کی جانب سے
by Dr. Christopher L. Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں سبق کی تعلیم دی گئی
خداوند کے دِن کی دوپہر، 21 نومبر، 2021
A lesson taught at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, November 21, 2021

سبق سے پہلے حمدوثنا کا گیت گیا: ’’ھیلیلویاہ، کیسا ایک نجات دہندہ! Hallelujah, What a Saviour!‘‘ (شاعر فلپ پی بلِس Philip P. Bliss، 1838 – 1876)۔

’’یسوع نے اُسے جواب دیا، راہ، حق اور زندگی میں ہوں: میرے وسیلے کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14: 6)۔

مسیح نے کہا کہ وہ ہی خداوند تک پہنچنے کے لیے واحد راہ تھی۔ یسوع نجات کے لیے قطعی طور پر نہایت ضروری ہے۔ اُس کے وسیلے کے بغیر کوئی بھی خدا کے پاس نہیں آسکتا۔ آپ بدھ یا ہندو دیوتاؤں کے وسیلے سے خدا کے پاس نہیں آسکتے ہیں۔ آپ اپنے اچھے یا نیک اعمال سے نجات نہیں پا سکتے۔ یہاں تک کہ آپ کو روح القدس کے ذریعے بھی نجات نہیں دی جا سکتی ہے – صرف یسوع کے ذریعے! پطرس رسول نے بھی یہی کہا،

’’نجات کسی اور کے وسیلہ سے نہیں ہے کیوںکہ آسمان کے نیچے لوگوں کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا گیا ہے جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں‘‘ (اعمال4: 12)۔

کوئی بھی جنت میں نہیں جا سکتا ماسوائے یسوع پر بھروسہ کرنے کے ذریعے سے۔ وہ اور صرف وہ خدا کا کامل بیٹا ہے جو ہمارے گناہ کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مر گیا، ہمارے گناہ کو دھونے کے لیے اپنا خون بہایا، اور ہمیں زندگی دینے کے لیے مردوں میں سے جی اُٹھا۔ یہ کوئی چھوٹی تفصیل نہیں ہے۔ یہ بنیادی مسیحی عقیدہ ہے، جس پر تمام سچے مسیحی عمر بھر یقین رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ’’مسیحی‘‘ مذہب پر غلبہ پانے والے پینٹی کوسٹلز نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہاں، وہاں چند گرجا گھر ایسے ہیں جو پینٹی کوسٹل نہیں ہیں، لیکن وہ چھوٹے ہیں اور تلاش کرنے مشکل ہیں۔ وہاں اب تک مسیحیت کی اہم شاخ پینٹی کوسٹل اِزم Pentecostalism ہے۔ یہ گرجا گھر کیا تبلیغ کرتے ہیں؟ وہ کیا کرتے ہیں؟

میں ہندوستان اور افریقہ کے تین ممالک کے مشن کے دوروں پر گیا تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا، وہاں تقریباً تمام گرجا گھر پینٹی کوسٹل ہیں۔ وہ چند جو چھوٹے اور خاموش نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ مسیحیت کی حیثیت سے شمار ہونے والی تقریبا تمام چیزیں پینٹی کوسٹل ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے کیا دیکھا۔

ان گرجا گھروں میں میں نے یسوع کا بہت کم ذکر اور خوشخبری کا بہت کم ذکر سنا۔ اس کے بجائے، مبلغ ایک ’’جادوئی آدمی‘‘ بن گیا جو لوگوں کو برکت دیتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک جادوگر ڈاکٹر افریقہ میں کرتا ہے اور جیسا کہ ایک گرو ہندوستان میں کرتا ہے۔ ایک چھوٹے سے گرجا گھر کا پادری اپنے آپ کو پادری یا مبلغ کہتا ہے۔ اگر وہ کسی بڑے گرجا گھر یا منسٹری کی قیادت کرتا ہے، تو وہ اکثر خود کو ’’بشپ‘‘ کہتا ہے۔ اگر وہ واقعی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ ایک ’’رسول‘‘ بن جاتا ہے۔ ان مبلغین میں سے کچھ کے لیے مانا جاتا ہے کہ اُن کے پاس جادوئی طاقتیں ہیں۔ ان میں سے کچھ غریب ملک میں بھی کافی امیر ہیں۔

خوشحال مبلغین توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ میں نے بڑے بڑے بل بورڈز پر ان کے لیے اشتہار دیکھا۔ ان کے ٹیلی ویژن پروگرام ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ٹیلی ویژن پر ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے خوشحالی پر ایک طویل واعظ دیا۔ آخر میں اس نے کہا کہ جب تک آپ نجات نہیں پا لیتے آپ کے پاس یہ دولت نہیں آ سکتی۔ پھر اس نے لوگوں سے کہا کہ وہ گنہگار کی ایک دعا مانگیں تاکہ وہ نجات پا سکیں۔ لیکن لوگوں نے اپنے گناہوں کی معافی کے لیے وہ دعا نہیں مانگی۔ انہوں نے یہ خوشحال ہونے کی پارٹی میں انٹری ٹکٹ کے طور پر کیا۔ اُنہوں نے یسوع پر امیر ہونے کے دروازے کی حیثیت سے ’’اعتماد‘‘ کیا۔

میں کبھی کبھی کہتا ہوں، ’’پیسہ وہ عالمی زبان ہے جسے ہر کوئی سمجھتا ہے۔‘‘ یہ یقینی طور پر پینٹی کوسٹل مبلغین کے ساتھ سچ ہے! ہو سکتا ہے وہ خوشخبری کی تبلیغ نہ کریں، لیکن وہ پیسے کو سمجھتے ہیں! ایک میٹنگ میں، ایک مبلغ نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں اور اونچی آواز میں کہیں، ’’میں امیر ہوں۔ میں امیر ہوں.‘‘ لیکن جو امیر ہوا وہ صرف وہی مبلغ تھا۔ خوشحالی کی الہیات یا تھیالوجی کام نہیں کرتی۔ یہ ایک چال ہے!

مجھے ایک سوال پوچھنے دیں۔ ملک کے باہر دیہاتوں اور کھیتوں میں غریب لوگوں کو خوشحالی کی تبلیغ کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا وہاں کے لوگوں کو پیسے کی ضرورت نہیں؟ لیکن میں نے ملک میں خوشحالی کا مبلغ کبھی نہیں دیکھا۔ کیوں نہیں؟ وہاں کے غریب لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان مبلغین میں سے کسی کو اس طرز زندگی میں سپورٹ کریں جو وہ چاہتا ہے! ان کے پاس اس کی فینسی کار، ہوائی جہاز کے سفر، اس کے بڑے گھر، اس کی بیوی کے لیے نئے کپڑے اور ٹیلی ویژن پر وقت دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے مبلغ غریبوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ اس کی بات سن بھی لیں تو بھی وہ امیر نہیں ہوں گے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اسے زیادہ نہیں دے سکتے۔ میں نے ان شہروں میں خوشحالی کے مبلغین کو دیکھا جہاں سے صرف پیسہ لینا تھا۔ لومڑی وہاں نہیں جاتی جہاں مرغیاں نہیں ہوتیں!

لیکن صرف یہی سب کچھ نہیں تھا جو میں نے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک مبلغ کے ذریعے سے چھوئے جانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ پھر وہ نیچے گرے اور چند منٹوں کے لیے بے ہوش پڑے رہے، کبھی مڑتے یا جھٹکے پڑتے۔ اسے ’’روح کی مار پڑنا‘‘ کی کیفیت میں ہونا کہا جاتا ہے۔ لیکن روح القدس نے ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ اس سے پہلے کہ مبلغ انہیں چھوتا، لوگ اپنے گھٹنوں کو جھکاتے، پیچھے کی طرف جھک جاتے، اور اپنے سر کو پیچھے کرتے۔ مبلغ اپنا ہاتھ ان کے ماتھے پر رکھتا اور آہستہ سے انہیں پیچھے کی طرف دھکیل دیتا۔ اگر یہ حقیقی تھا، تو روح القدس ان کے ساتھ نمٹ لے گا چاہے وہ اپنی ٹانگیں موڑیں یا نہیں! یہ جعلی تھا – بہترین طور سے – اس سے بھی بدتر یہ شیطانی تھا۔

ہندوستان میں ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور میرے پاؤں پکڑ لیے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے ایک مترجم کے ذریعے جواب دیا کہ وہ مجھے چھو کر مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اسے نجات نہیں دے سکتا۔ میں صرف ایک آدمی تھا، جیسا کہ وہ تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھ سے بڑا ایک اور آدمی ہے جو میرے نئے دوست کو نجات دے گا اگر وہ اس کے پاس آئے اور اس پر بھروسہ کرے۔ اس آدمی کا نام یسوع ہے۔ میں نے اسے یسوع کے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہے اور اس نے کیا کیا تھا۔ پھر میں نے اس غریب ہندوستانی آدمی کی مسیح کے پاس پہنچنے تک میں رہنمائی کی۔ اس نے یسوع پر بھروسہ کیا۔ ایک ماہ بعد یہ شخص مر گیا اور جنت میں چلا گیا۔

ہندوستان میں بہت سے پینٹی کوسٹل مبلغین ایک گرو کے کردار میں بھیس بدل چکے ہیں، ایک روحانی ’’آقا‘‘ جو اپنے شاگردوں کو توانائی اور سہارا فراہم کرتا ہے۔ میں نے اسے بار بار دیکھا۔ واعظ کے بعد لوگ مبلغ (یا مجھے!) اپنی درخواست میں – شفا، رقم، یا کچھ اور بتانے کے لیے آگے آئے ۔ انہوں نے اپنے ہاتھ جوڑے اور نیچے جھک گئے جیسے وہ ایک ہندو گرو کے لیے کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھوں اور ان کے لیے دعا کروں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ ایک مسیحی مبلغ کے لیے وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو وہ ایک گرو کے لیے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’خدا کا بندہ‘‘۔ دونوں قسم کے مردوں کے لیے تلفظ بالکل ایک جیسا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے واعظ اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بعد میں کیا آتا ہے – وہ برکت جو لوگوں کو مبلغ کے لمس سے ملتی ہے۔

ہندوستان اور افریقہ میں میں نے کبھی حمدوثنا کا روایتی گیت گاتے نہیں سنا۔ میں زبانیں نہیں جانتا، لیکن میں نے دھنوں کو پہچان لیا ہوتا! میں نے بڑے گرجا گھروں میں راک موسیقی سنی، بالکل اسی طرح جیسے گرجا گھر امریکہ میں کرتے ہیں۔ میں نے اکثر لوگوں کو گانا گاتے سنا۔ ہندوستان کے ایک غریب گرجا گھر میں ان کے پاس الیکٹرک گٹار اور بڑے لاؤڈ سپیکر والے راک بینڈ کے لیے پیسے نہیں تھے۔ لیکن ان کے پاس ڈھول یا تبلا تھا۔ میں نے لوگوں کو بار بار بیس منٹ تک ’’یسایاہ‘‘ گاتے ہوئے سنا جب تبلا یا ڈھول بج رہا تھا۔ میں نے ایک ہاتھی کے بارے میں سوچا جو سڑک پر آہستہ آہستہ تال کے ساتھ چل رہا ہے – یہ ڈھول کی تھاپ کا طریقہ تھا۔ ’’یسایاہ‘‘ اُن کے لیے یسوع کا نام ہے۔ لیکن یہ نام ایک منتر جاپنے کے طور پر گایا گیا تھا، نہ کہ ستائش کے طور پر۔

اگرچہ یسوع کا ذکر کیا جا سکتا ہے، مسیح اور اس کی خوشخبری ان گرجا گھروں کے لیے مرکزی نہیں ہے۔ دوسری چیزیں مرکزی ہیں – روح القدس، ایک مبلغ کا لمس، خوشحالی – کچھ بھی، ماسوائے گناہ کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مرتے ہوئے لہولہان مسیح کے۔

افریقہ میں ایک میٹنگ میں میں نے واعظ سے ایک گھنٹہ پہلے موسیقی سنی جس میں لوگ اسٹیج پر اور اس کے سامنے رقص کر رہے تھے۔ موسیقی کے اختتام پر پادری میرے پاس آیا اور کہا کہ ایسے لوگ ہیں جو دوبارہ جنم لینا چاہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے خوشخبری نہیں سنی تھی! وہ کیا ’’نیا جنم‘‘ حاصل کریں گے؟ میں نے پادری سے کہا کہ میں کسی ایسے شخص کو مشورہ نہیں دوں گا جس نے پہلے خوشخبری نہیں سنی ہو۔ وہ حیران ہوا! واعظ کے بعد میں نے لوگوں کو مشورہ دیا اور انہیں مسیح کے پاس لانے کی کوشش کی۔

یہ وہاں پر ’’بدترین‘‘ لوگ تھے جن کے مسیح میں ایمان لا کے تبدیل ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ مرد اور عورتیں جادو ٹونے میں ملوث رہے تھے۔ واعظ کے بعد میں نے پادری سے کہا کہ وہ صرف ان کے لیے ایک خصوصی دعوت دیں، جسے پادری نے چکمہ دے دیا۔ میرے چوتھے اصرار پر اس نے آخر کار انگریزی میں دعوت نامہ دیا اور اسے مقامی زبان میں دہرایا۔ چھ سات لوگ آئے۔ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے غلط کیا ہے۔ اُنہوں نے یہ نہیں سوچ تھا کہ وہ تو پہلے سے ہی مسیحی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ مصیبت میں ہیں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا اور ان کے آسیب میں ملوث ہونے سے نمٹا۔ پھر میں نے خوشخبری پیش کی اور انہیں مسیح کی طرف لے گیا۔

پینٹی کوسٹل اِزم Pentecostalism میں جذبات بہت ہیں، لیکن نجات بہت کم ہے۔ آپ برسوں، دہائیوں، اپنی ساری زندگی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے بغیر گزار سکتے ہیں۔ آپ ایک پینٹی کوسٹل کے طور پر جہنم میں جا سکتے ہیں جیسے آپ ایک ہندو یا کافر کے طور پر جہنم میں جا سکتے ہیں۔

کیا چیز پینٹی کوسٹل گرجا گھروں کو معیاری مسیحیت سے مختلف بناتی ہے؟ معیاری پروٹسٹنٹ گرجا گھر میں، سب سے اہم چیز جو ہوتی ہے وہ واعظ ہے۔ پادری خدا کے کلام کی تبلیغ کرتا ہے۔ خوشخبری پیش کی جاتی ہے۔

پینٹی کوسٹل گرجا گھر میں سب سے اہم چیزیں جذبات اور تجربات ہیں۔ لوگ موسیقی سے پرجوش ہوجاتے ہیں۔ آخر میں وہ پادری سے دعا حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ دولت کے راستے کی توقع کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ’’روح‘‘ کے ذریعہ سے نرغے میں آجاتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب احساسات ہیں۔ یہ نجات نہیں ہے! یہ وقت کا بہترین ضیاع ہے، اور بدترین طور پر شیطانی ہے۔

کوئی سوچ سکتا ہے، ’’یہ وہی ہے جو آپ نے تیسری دنیا میں دیکھا۔ ہم یہاں امریکہ میں بہتر ہیں۔‘‘ نہیں نہیں! یہاں ایسا کیا مختلف ہے؟ آخر کار، تیسری دنیا کے پینٹی کوسٹلز نے ہمارے ملک کے پاگل پینٹی کوسٹلز سے پاگل ہونا سیکھا۔

کچھ سال پہلے جیک نعان Jack Ngann اور میں نے پینٹی کوسٹل میٹنگ کا دورہ کیا۔ یہ حیاتِ نو کا ایک اجلاس تصور کیا جاتا تھا۔ اس کا آغاز اونچی آواز میں راک میوزک سے ہوا۔ آخر کار ایک مرد اور ایک عورت آئے جو سرکس میں ٹریپیز ایکروبیٹس کی طرح چھت سے لٹکی ہوئی رسیوں پر آگے پیچھے جھول رہے تھے۔ جب وہ واقعی بلندی پر جھوم رہے تھے، الفاظ REVIVAL! اسکرین پر بہت بڑے حروف میں دکھایا گیا تھا۔ یقیناً یہ کوئی حیات نو نہیں تھا! لیکن لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ پھر کچھ پادری بولے۔ پیغامات کے ایک گھنٹے میں، یسوع کا ذکر صرف ایک بار ہوا تھا۔ خوشخبری کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ مجھے ایریزونا سے آنے والا ایک پادری یاد ہے جس نے کہا تھا کہ اس کے لوگ ’’آگ کی سرنگوں‘‘ سے گزر رہے ہیں۔ مجھے یہ سوچنا یاد ہے، ’’بائبل میں آگ کی کوئی سرنگیں نہیں ہیں۔‘‘ لیکن وہ ان تمام عظیم چیزوں کے بارے میں بہت پرجوش تھے جو ہو رہی تھیں! آخر میں لیڈر پادری نے لوگوں سے کہا کہ اگر وہ چاہیں کہ دعا کی جائے تو وہ اسٹیج پر آسکتے ہیں۔ لوگ اسٹیج پر چڑھ گئے اور پادریوں نے ان پر ہاتھ رکھ کر ان کے لیے دعا کی۔ لوگ چیختے ہوئے، لرزتے ہوئے اور جھٹکے سے مارتے ہوئے گر پڑے۔ پادریوں میں سے ایک نے چیخ کر کہا، ’’نگرانوں‘‘ یہ وہ لوگ تھے جو گرنے پر لوگوں کو پکڑنے کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ یہ سب منصوبے سے ہوا تھا! آخر کار رات 9:30 بجے میٹنگ ختم ہوئی۔ دیکھا تو کمرہ کرائے کا تھا اور میٹنگ ساڑھے نو بجے ختم ہونی تھی۔ اس لیے کرائے پر لی گئی ’’روح القدس‘‘ 9:30 بجے کمرے سے نکل گئی۔ لوگ باہر نکل گئے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ اندر گئے تھے، سوائے اس کے کہ وہ زیادہ شیطانی اثر میں تھے۔ اِسے ایک حیاتِ نو ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ ایسا نہیں تھا۔

ہر پینٹی کوسٹل یا کرشماتی گرجا گھر اتنا جنگلی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اِصرار ایک جیسا ہی ہوتا ہے – خوشخبری نہیں بلکہ تفریح اور جوش۔ امریکہ میں بہت سے گرجا گھروں میں، خوشخبری کا ذکر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور تقریباً کبھی اس کی تبلیغ نہیں کی جاتی۔ ان کے لیے، یسوع ایک مددگار ہے جو لوگوں کو ان کے تعلقات میں رہنمائی کرتے ہوئے جنت کے لیے آسان ٹکٹ دیتا ہے۔ اس کا بنیادی کام گناہ معاف کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ پینٹی کوسٹل گرجا گھر احساسات اور تجربات پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو پرجوش کرنے کے لیے وائلڈ راک میوزک پیش کرتے ہیں! پینٹی کوسٹل Pentecostals زبانیں، دولت کی امید، اور شفاء پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ صلیب کے مسیح کو پیش نہیں کرتے۔

اِس کا جواب کیا ہے؟ یسوع نے اِس کا جواب پیش کیا،

’’راہ، حق اور زندگی میں ہوں: میرے وسیلے کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14: 6)۔

پادری صاحب، اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ نے خود یسوع پر بھروسہ کیا ہے۔ پھر یسوع مسیح کی تبلیغ اور تعلیم دیں! یہ واضح کریں کہ یسوع کون ہے اور اس نے ہمارے لیے کیا کیا۔ خوشخبری کی تبلیغ احتیاط سے کریں – اور خوشخبری کے سوا کچھ نہیں۔ سنڈے اسکول میں خوشخبری کی تعلیمات اور بائبل کے مطالعے میں اس کی پیروی کریں۔ مسیح اور اُس کی نجات کو اپنے گرجا گھر میں اہم موضوع بنائیں۔ روحانی تحائف اور خوشحالی کی برکات کے بارے میں کوئی اعتراض نہ کریں۔ لوگ امیر نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ ویسے بھی امیر نہیں ہوں گے۔ زبانوں کے بارے میں کوئی اعتراض نہ کریں۔ زبانوں نے کبھی کسی کا بھلا نہیں کیا۔ یسوع مسیح کی تبلیغ اور تعلیم دیں!

اپنے گرجا گھر میں ہر فرد سے انفرادی طور پر بات کریں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں کہ لوگ خوشخبری کو سمجھتے ہیں اور یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تب وہ حقیقی مسیحی ہوں گے۔ یہ آپ کی حقیقی خدمت ہے۔ خدا آپ کو برکت دے جیسے آپ یہ کرتے ہیں۔ یسوع کے نام میں، آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔