Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


کیا خُدا امریکہ کا انصاف کر رہا ہے؟
’’خدا کی سخت باتوں کا‘‘ ایک جائزہ
ڈاکٹر رائے برانسین جونیئر کی جانب سے

IS GOD JUDGING AMERICA?
A REVIEW OF “THE HARD THINGS OF GOD”
BY DR. ROY BRANSON, JR.
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
پادری ایمریٹس
by Dr. R. L. Hymers, Jr.
Pastor Emeritus

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک سبق
خداوند کے دن کی دوپہر، 21 مارچ، 2021
A lesson taught at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, March 21, 2021

سبق سے پہلے حمدوثنا کا گیت گایا گیا: ’’میں جیسا بھی ہوں Just As I Am‘‘
(شاعرہ شارلٹ ایلیٹ Charlotte Elliott، 1789۔1871)۔

میں سال میں کم از کم ایک مرتبہ پادری وورمبرانڈ کی کتاب (’’مسیح کے لیے اذیت سہیTortured for Christ‘‘) پڑھتا ہوں۔ میں ہر رات بستر پر جانے سے پہلے اِسے پڑھتا ہوں۔ یہ ہے جو وورمبرانڈ نے بائبل کے بارے میں کہا:

دو انتہائی میلے کُچلے گاؤں والے میرے پاس ایک بائبل خریدنے کے لیے آئے۔ وہ معمولی سی اُمید کے سہارے سارے موسم سرما میں جمی ہوئی زمین کو بیلچے سے کھودتے رہے تھے کہ شاید وہ ایک پھٹی پرانی بائبل خرید سکیں اور اِسے اپنے گاؤں واپس لے جائیں۔ چونکہ مجھے امریکہ سے بائبلیں موصول ہو چکی تھیں، میں اُنہیں ایک نئی بائبل حوالے کرنے کے قابل تھا، ناکہ پھٹی ہوئی ایک پرانی بائبل… میں نے اُن سے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ وہ اُس بائبل کے ساتھ اپنے گاؤں جلدی میں واپس لوٹے۔ چند ایک دِن بعد مجھے ایک انتہائی پُرمسرت خط موصول ہوا، جس میں مجھے ہمارے پاک صحائف کے لیے شکریہ ادا کیا ہوا تھا… اِس میں تیس گاؤں والوں نے دستخط کیے ہوئے تھے! اُنہوں نے احتیاط کے ساتھ بائبل کو تیس حصوں میں کاٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ حصوں کا تبادلہ کیا تھا!
   میں نے ایک روسی کو اپنی روح کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر اُس بائبل کے ایک صحفے کے لیے بھیک مانگتے ہوئے سُنا… ایک شخص نے استعمال کی وجہ سے سخت خراب حالت میں نئے عہدنامے کو اپنی شادی کی انگوٹھی کے بدلے میں خریدا (’’مسیح کے لیے اذیت سہیTortured of Christ،‘‘ صفحات 155۔156)۔

جب میں نے پہلی مرتبہ وہ پڑھا تو آنسوؤں کے ساتھ رو پڑا۔ میری سیمنری میں پروفیسرز نے ہر کلاس روم میں بائبل کو مسترد کیا تھا۔ لیکن کیمونسٹوں کی سرزمین میں یہ لوگ ساری سردیاں کام کرنے کے لیے تیار تھے محض بائبل کے چند ایک صفحات کی خاطر کہ اپنی روحوں کو خوراک مہیا کر پائیں۔

اِس کے باوجود ہمارے امریکی گرجا گھروں میں کھاتے پیتے نوجوان لوگ تو یہاں تک کہ ہر روز بائبل کا مطالعہ بھی نہیں کرتے!

خدا کا شکر ہے کہ میرے پاس چین سے آئے ہوئے ایک پادری صاحب تھے جو ہر اِتوار کو بائبل کی تعلیم دیتے تھے۔ میری اپنی انتہائی زندگی اُن کی بائبل کی تعلیمات اور بائبل پر واعظوں کی مقروض ہے۔

پابند اقوام میں رہنے والے لوگ ہر روز اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں کیوںکہ اگر وہ کلام اِلہٰی کا ایک یا دو صحفے پڑھ لیں گے تو مسلمان یا کیمونسٹ اُن سے نفرت کریں گے۔

مہربانی سے متی 24:37۔39 آیات کھولیں۔ کھڑے ہو جائیں جب میں اِسے پڑھوں۔

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی اِبنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

جب پہلی مرتبہ میں نے اُس حوالے کو سُنا تھا تو وہ بلی گراھم کی جانب سے پیش کیے گئے ایک واعظ میں تھا۔ لیکن میں نے اُسے تلاش کیا اور احتیاط کے ساتھ اُس کا مطالعہ کیا۔ نشے میں دُھت اور دھوکہ دہی سے بھرے ہوئے بالغ لوگوں کے گھروں میں ہونے سے میں جانتا تھا کہ وہ نوح کے زمانے میں بسنے والے لوگوں کی مانند زندگی بسر کر رہے تھے۔ میں نے یہ حوالہ اُنہیں پڑھ کر سُنایا تو وہ مجھ پر ہنس پڑتے۔ میں ایک بپٹسٹ گرجا گھر میں گیا اور اِن آیات کو وہاں پر موجود نوجوان لوگوں کو پڑھ کر سُنایا۔ وہ بھی میرا مذاق اُڑانے لگے۔

وہ بالکل وہی کر رہے تھے جو نوح کے زمانے میں لوگوں نے کیا تھا لیکن اُنہوں نے میرا مذاق بھی اُڑایا تھا!

پھر میں نے سی ایس لوئیس C. S. Lewis کی تحریر کی ہوئی کتاب خوشی سے حیران ہواSurprised by Joy کو پڑھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں مُرتد پیوریٹنز کے درمیان ایک تبدیل شُدہ کافر کی مانند رہ چکا ہوں۔‘‘ میں نے سوچا، ’’وہ میں ہوں!‘‘ گرجا گھر میں میرے بہترین دوست میرا مذاق اُڑاتے – لیکن اُس نے زندگی میں پانچ لڑکیوں سے شادیاں کی اور خود بھی ایک مُرتد بن گیا۔ جلد ہی وہ گرجا گھر ایک ہولناک گرجا گھر کی پھوٹ میں فنا ہو گیا۔

پھر میں ایک آزاد خیال سیمنری میں گیا۔ اُنہوں نے بھی میرا مذاق اُڑایا۔ اُن پروفیسروں نے تو یہاں تک کہا کہ نوح جیسی کوئی ہستی تھی ہی نہیں اور ایسا کوئی سیلاب بھی نہیں آیا تھا!

بالاآخر میں ایک گرجا گھر میں پہنچا جہاں کے عظیم پادری صاحب نوح اور سیلاب میں یقین رکھتے تھے۔ یہ اُسی وقت تھا جب میں جان گیا تھا کہ بائبل سچی تھی، ’’لیکن کلیسیا کا ہر ممبر جھوٹ بولتا تھا،‘‘ (رومیوں3:4)۔ میں نوح اور آفاقی سیلاب کے بارے میں بائبل کی سچائی سے کبھی بھی کمزور نہیں پڑا تھا!

ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے کہا،

’’اِخلاقی اِطلاق کے بغیر بائبل کے بیان سے کوئی مخالفت نہیں بُلند ہوتی۔ یہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب سُننے والے کو یہ سمجھنے کے لیے مجبور کیا جائے کہ سچائی اُس کے دِل سے متصادم ہے جس میں مزاحمت طے شُدہ ہے‘‘ (’’تفسیر کا اِطلاق ضرور ہونا چاہیے Exposition Must Have Application‘‘ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر کی جانب سے)۔

اب جب کہ میں 80 برس کی عمر کا ہو گیا ہوں تو مجھے معروف مبلغین اور اِساتذہ کی جانب سے ملنے والی تعریف پر حیرت نہیں ہوتی۔ ایک معروف معلم نے کہا کہ میری سواںح حیات

’’… ظاہر کرتی ہے [ڈاکٹر ہائیمرز] 21 ویں صدی کے پیش گوئی کے قابل، قابل احترام، معمولی مبلغ کے مقابلے میں اِسلوب اور روح کے لحاظ سے پرانے عہد نامے کے نبی کی مانند لگتے ہیں۔‘‘

اِس کے علاوہ، انڈونیشیا کے لیے ہمارے مشنریوں میں سے ایک نے کہا،

’’ڈاکٹر ہائیمرز وہ ہیرو ہیں جو بے شمار مُہلک جنگوں کو [جھیل یا] برداشت کر چکے ہیں۔‘‘

اور ڈاکٹر رابرٹ ایل۔ سُومنر Dr. Robert L. Sumner نے کہا،

میں اُس بندے کو سراہاتا اور اُس کی تعریف کرتا ہوں جو سچائی کی خاطر ڈٹ جانے کے لیے رضامند ہوتا ہے… حتّیٰ کہ جب سارے حالات اُس کے خلاف ہوں۔ رابرٹ لیزلی ہائیمرز جونیئر اُس قسم کا مسیحی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سومنر کی کتاب، سارا اعزاز میرا تھا: ایمان کے دیو جن کی راہیں مجھ تک گزرتی تھیں The Honor Was All Mine: Giants of the Faith Whose Paths Crossed Mine

صدر تھیوڈور روزویلٹ نے کہا،

’’یہ تنقید نگار نہیں ہوتا جسے شمار کیا جاتا ہے؛ نا وہ شخص جو نشاندہی کرتا ہے کیسے ایک مضبوط بندہ لڑکھڑاتا ہے یا کہاں نیکی کرنے والے اُن سے بہتر کر پائے ہوتے۔ سہرا تو اُس بندے کے سر جاتا ہے جو اصل میں میدان میں ہوتا ہے، جس کا چہرہ مٹی اور پسینے اور خون سے بگڑا ہوتا ہے، جو بہادری کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے… جو خود کو ایک بیش قیمت مقصد کے لیے اِستعمال کرتا ہے، جو اعلیٰ کامیابیوں کا انجام تک بخوبی جانتا ہے اور جو بہت بُری حد تک اگر وہ ناکام ہوتا ہے تو کم از کم [اُس وقت] ناکام ہوتا ہے جب وہ جرأت مندی سے شدید کوشش کر رہا ہوتا ہے تاکہ اُس کی جگہ کبھی بھی اُن سرد مہر اور بزدل لوگوں کے ساتھ نہ بنے جنہیں نا تو فتح کا نا ہی ہار کا پتا ہوتا ہے۔‘‘ (صدر تھیوڈور روزویلٹ، ’’جمہوریہ میں شہریتCitizenship in a Republic،‘‘ 23 اپریل، 1910 میں فرانس کے شہر پیرس میں سوربون کے مقام پر دی گئی تقریر)۔

اب متی24:37۔42 آیات کھولیں۔ کھڑے ہو جائیں جب میں اِسے پڑھوں۔

’’مگر جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی۔ اُس وقت دو آدمی کھیت میں ہوں گے، ایک لے لیا جائے گا اور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا۔ دو عورتیں چکی پیستیں ہوں گی، ایک لے لئ جائے گی اور دوسری چھوڑ دی جائے گی۔ پس جاگتے رہو کیوں کے تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دِن آئے گا‘‘ (متی24:37۔42)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

37ویں آیت کہتی ہے کہ ’’نوح کا زمانہ‘‘ اُس بات کی تصویر ہے کہ کیسا ہوگا جب مسیح کی دوسری آمد کا وقت آئے گا۔

یہ ہمیں بتاتا ہے کہ نسل انسانی گناہ میں گامزن ہو گی جیسا کہ سیلاب سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔

38 ویں آیت: یہ باتیں ہمیں تو بے ضرر سی لگتی ہیں، لیکن خدا کو نہیں۔ لیکن یہ نوح کے زمانے میں لوگوں کی دُنیاداری کا پردہ فاش کرتی ہیں۔ یہ آیت مجھے مکاشفہ 3:14۔19 میں لودیکیہ کی کلیسیا کی یاد دلاتی ہے، خصوصی طور پر آیت 17 اور 18۔ میں 15ویں آیت سے پڑھنا شروع کروں گا۔

’’میں تیرے کاموں سے واقف ہوں تو نہ تو سرد ہے نہ گرم۔ کاش کہ تو سرد ہوتا یا گرم۔ پس چونکہ تو نہ تو سرد ہے نہ گرم بلکہ نیم گرم ہے اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہوں۔ تو کہتا ہے کہ تو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تو یہ نہیں جانتا کہ تو بدبخت، غریب، بیچارہ، اندھا اور ننگا ہے‘‘ (مکاشفہ3:15۔17)۔

اب دوبارہ متی 24:38 پر نظر ڈالیں۔

’’کیونکہ جیسا طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا‘‘ (متی24:38)۔

ڈاکٹر سیکوفیلڈ لودیکیہ کے لوگوں کا شمار ’’اِرتداد کی حتمی حالت‘‘ کی حیثیت سے کرتے ہیں – اور وہ درست تھے۔ نوح کے زمانے میں لوگوں کی توجہ کا مرکز شادی بیاہ اور دعوتوں پر مرکوز تھی ناکہ خدا پر۔

سیلاب سے پہلے اِرتداد کی آخری کیفیت ہلکی پھلکی جنسی ہوس اور [لوگوں کے ساتھ] کھیلنے کے ذریعے سے تھی، بالکل جیسے آج آخری ایام کی کلیسیا کی حتمی کیفیت ہے!

آیت 39 – اُنہیں ’’خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔‘‘ لوگ کیوں نہیں جانتے تھے کہ سیلاب آنے والا ہے؟ نوح ’’راستبازی کا مبلغ‘‘ تھا (2پطرس2:5)۔ اُس نے اُنہیں بتایا تھا کہ سیلاب آ رہا تھا، لیکن وہ اِس قدر مزے اُٹھا رہے تھے کہ اُنہوں نے اُس کی تبلیغ پر کان نہ دھرے۔ اِس کے علاوہ، نوح نے اُنہیں صرف ایک یا دو دفعہ ہی خبردار نہیں کیا تھا۔ اُس نے آنے والے انصاف کی 120 سالوں تک منادی کی تھی (دیکھیں پیدائش6:3)۔ اِس کے باوجود اُسے کسی موقع پر بھی کامیابی نہ ملی۔ اِس طرح نوح کی تبلیغ کے باوجود بھی لوگ نہیں جانتے تھے۔ لیکن تنبیہہ کا وہاں ایک نام تھا جس پر لوگوں نے توجہ نہیں دی تھی – وہ نام متوسلح تھا۔ الیگژنڈر میکلارین Alexander MacLaren ہمیں بتاتے ہیں کہ متوسلح کے نام کا مطلب ہوتا ہے ’’جب وہ مر جائے گا تو (وہ سیلاب) آئے گا۔‘‘ سیلاب ٹھیک اُسی دِن آیا تھا جس دِن متوسلح مرا تھا!

خدا کبھی بھی جلدی میں نہیں ہوتا۔ لیکن سزا اُسی وقت ہوتی ہے جب وہ کہتا ہے وہ ہو جائے گی۔ متی24:39۔42 آیات پر نظر ڈالیں۔ کھڑے ہو جائیں جب میں مسیح کے الفاظ کو پڑھوں،

’’اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی۔ اُس وقت دو آدمی کھیت میں ہوں گے، ایک لے لیا جائے گا اور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا۔ دو عورتیں چکی پیستیں ہوں گی، ایک لے لئ جائے گی اور دوسری چھوڑ دی جائے گی۔ پس جاگتے رہو کیوں کے تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دِن آئے گا‘‘ (متی24:39۔42)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

غور کریں کس قدر جلدی خدا کا انصاف یا سزا امریکہ پر نازل ہونا شروع ہوا۔ 1948 میں امریکہ کے پبلک سکولوں میں بائبل کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر رائے برانسین نے کہا، ’’اِس کو ایک شیطانی سپریم کورٹ کی جانب سے خلاف قانون کیا گیا تھا جس کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔‘‘ ڈاکٹر برانسین نے یہ بھی کہا، ’’اِس قوم کے پاس یہ پوچھنے کا کیا حق ہے کہ خدا نے 9\11 کو کیوں ہونے دیا؟ خدا کو کہا جاتا رہا ہے کہ اُسے امریکہ میں پسند نہیں کیا جاتا اور وہ 1948 میں شروع ہو کر چلا گیا تھا۔ کوریا کا ایک شرمناک تعطل سے خاتمہ ہوا۔ ویتنام ایک ایسی جنگ تھی جسے چند ایک ہفتوں میں جیتا جا سکتا تھا لیکن اِس کے بجائے اِس ملک میں ڈرپوک دھڑوں نے بدنامی سے بھرپور ہتھیار ڈالے اور اُن لوگوں کو چھوڑ دیا جنہیں ہم نے کبھی نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں گناہوں کی وہ فہرست ہے جنہیں امریکہ 1948 سے سرزد کر چکا ہے۔


1. بڑے پیمانے پر اسقاط حمل۔

2. چوری

3. لونڈے بازی

4. جھوٹ بولنا (سارے بڑے بڑے خبروں کے چینل اب یہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے بیشتر جانتے ہیں کہ وہ ’’جعلی خبریں‘‘ ہیں)۔

5. دھوکہ دہی (ہم میں سے بیشتر جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ سے الیکشن چوری ہوا تھا)۔

6. بائبل کو غیرقانونی قرار دینا۔

7. صدر ٹرمپ جیسے لوگوں کی جانب کمینگی دکھانا۔

8. ہمارے گرجا گھروں کو بند کرنا۔

9. جیری فالویل جونیئر اور جیک ہائیلز جیسے گندے مبلغین۔

10. ڈیوڈ یرمیاہ جیسے کمزور مبلغین۔

11. ہم جنس پرستی اور نسوانی ہم جنس پرستی کی کُھلم کُھلا چھوٹ۔

12. غلیظ موسیقی (جیسی کہ لائیو کریو Live Crew کے 2 پروگرام ’’می سو ہارنی Me So Horny‘‘)۔

13. گرجا گھروں کی تقسیم (تمام فرقوں کے بپٹسٹ گرجا گھروں کا ایک مخصوص گناہ)۔

14. منشیات اور شراب

15. ہمارے گرجا گھروں میں نیم گرم اینٹی نو میئن اِزم antinomianism۔

16. ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کے لیے خدا کو موردِالزام ٹھہرانا۔

17. ٹیکساس میں شدید سردی۔ کیوں؟ کیونکہ ٹیکساس ہزارہا بپٹسٹ لوگوں کا گھر ہے۔ وہ معمولی باتوں پر اپنے گرجا گھروں کو تقسیم کرتے ہیں۔ اِس لیے خدا نے اُس ریاست کو جما دیا۔


میں خدا کی سخت باتیںThe Hard Things of God میں ہر بات سے متفق نہیں ہوں۔ لیکن میں ڈاکٹر برانسین کی کتاب کے اہم نکات سے متفق ہوں۔

مسئلے کو یاد رکھیں

مسئلہ انسان کا دِل ہے۔
   یہ خدا کا مسئلہ نہیں ہے؛
یہ خدا کے ساتھ انسان کا مسئلہ ہے۔

یہ سبق زیادہ طور سے ڈاکٹر رائے ایل برانسین جونیئر Dr. Roy L. Branson, Jr.، ٹی ایچ۔ ڈی۔ پی ایچ۔ ڈی کی تحریر کردہ کتاب خدا کی سخت باتیںThe Hard Things of God پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر برانسین کی کتاب کا آرڈر دینے کے لیے اور اُن کی عظیم کتاب گرجا گھر کی تقسیمChurch Split کا آرڈر دینے کے لیے اُنہیں (423)366-3536 نمبر پر فون کریں یا drroybranson@chartertn.net پر ای میل کریں۔

ڈاکٹر ڈبلیو اے کرسویل نے کہا،

’’اگر آپ سے اِس سال کوئی دوسری کتاب رہ جاتی ہے تو گرجا گھر کی تقسیم Church Split کو مت چھوڑیے گا۔ یہ وہ واحد کتاب ہے جسے ہر پادری کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ڈاکٹر پیج پیٹرسن Dr. Paige Patterson نے کہا،

’’ڈاکٹر رائے برانسین کی کتاب گرجا گھر کی تقسیم ہماری سرزمین پر منڈلانے والی ایک وباء کی بات کرتی ہے… آپ چاہے ہر جملے کے ساتھ متفق ہوں یا نہ ہوں، اِس حیرت انگیز کتاب سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔‘‘

کھڑے ہوں اور ہمارا حمدوثنا کا گیت گائیں!

بغیر ایک التجا کے، میں جیسا بھی ہوں، مگر کہ تیرا خون میرے لیے بہایا گیا،
اور کہ تو مجھے اپنے پاس بُلانے کے لیے بیقرار ہے، اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!

انتظار کیے بغیر، میں جیسا بھی ہوں، میری جان کو ایک تاریک دھبے سے چُھڑانے کے لیے،
تیرے لیے جس کا خون ایک داغ مٹا سکتا ہے، اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!

بے شک اُچھالا گیا، میں جیسا بھی ہوں، بہت سی کشمکشی میں، بہت سے شکوک میں،
اپنے میں خوف اور جھگڑوں کے ساتھ اور بغیر، اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!
   (’’میں جیسا بھی ہوں Just As I Am‘‘ شاعرہ شارلٹ ایلیٹ Charlotte Elliott، 1789۔1871؛ بند نمبر 1، 2 اور 3)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔