اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
سوالات کے جواب دیناANSWERING QUESTIONS ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے سبق سے پہلے حمدوثنا کا گیت گایا: ’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ (شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807). |
اگر کوئی شخص آپ سے سوال کرے تو کیا آپ کو ناراض ہونا چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ پطرس رسول نے کہا،
’’مگر مسیح کو اپنے دِلوں میں خداوند مان کر اُسے مقدس سمجھو اور اگر کوئی تم سے تمہاری اُمید کے بارے میں دریافت کرے تو اُسے جواب دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہو لیکن نرم مزاجی اور احترام کے ساتھ‘‘ (1 پطرس3:15)۔
عام سوالات
1. میں بائبل میں یقین نہیں رکھتا۔
پولوس رسول نے یونانیوں کو بائبل کا حوالہ دیا تھا جو اُس میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ پولوس نے اُن لوگوں کو راضی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی جن کی اُس نے گواہی دی تھی۔ ہمارے اہم کام کی گواہی دینا دفاع نہیں، اعلان ہوتا ہے۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
بائبل کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ کیسے ایک شخص دائمی زندگی پائے گا۔ اگر وہ کہتا ہے وہ دائمی زندگی میں یقین نہیں رکھتا ہے، تو آپ کہہ سکتے ہیں، ’’آپ اِس بارے میں کیا سمجھتے ہیں کہ بائبل اِس موضوع پر کیا کہتی ہے؟ اِس موضوع پر بائبل کی تعلیم کے بارے میں آپ کو کیا سمجھ آتی ہے؟‘‘
تقریباً 98 فیصد اوقات میں وہ کہیں گے، ’’دس احکامات کو ماننے یا مسیح کی مثال کی نقل کرنے کے ذریعے سے۔‘‘ آپ تب پھر کہہ سکتے ہیں، ’’یہی وہ بات ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ آپ نے بائبل کو اُس کے اہم پیغام کو سمجھے بغیر مسترد کیا ہے، کیونکہ آپ کو جواب نا صرف غلط ہے بلکہ یہ جس بات کی بائبل تعلیم دیتی ہے اُس سے یکسر متضاد ہے۔ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ اِس سے زیادہ دانشمندانہ ردعمل یہ ہوگا کہ آپ مجھے اِس موضوع پر بائبل کیا تعلیم دیتی ہے آپ کے ساتھ بانٹ لینے دیں؟ تب آپ ایک عقلمندانہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا اِسے مسترد کیا جائے یا قبول کیا جائے۔‘‘
اب میں یسوع کے بارے میں 10 پیشن گوئیاں آپ کو پڑھ کر سُناؤں گا۔
(1) مذاق اُڑایا،
’’اُنہوں نے میرے کھانے میں پِت ملا دیا اور میری پیاس بُجھانے کے لیے مجھے سِرکہ پلایا‘‘ (زبور69:21)۔
(2) دوسروں کے لیے تکلیف برداشت کی
’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں اور ہمارے غم اُٹھا لیے… وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا… خُداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا53:4۔6)۔
(3) معجزات کرنا
’’تب اندھوں کی آنکھیں وا کی جائیں گی اور بہروں کے کان کھولے جائیں گے‘‘ (اشعیا35:5 – 713 قبل از مسیح)۔
(4) دوست کے ذریعے سے دھوکہ کھایا
’’میرے عزیز دوست نے بھی، جس پر مجھے بھروسا تھا اور جو میری روٹی کھاتا تھا، مجھ پر لات اُٹھائی ہے‘‘ (زبور41:9)۔
(5) چاندی کے تیس سِکوں کے بدلے بیچا گیا
’’میری مزدوری مجھے دو… اِس لیے اُنہوں نے چاندی کے تیس سِکے مجھے دیے‘‘ (زکریا11:12 – 487)۔
(6) مُنہ پر تھوکا گیا اور کوڑے مارے گئے
’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے حوالے کر دی… تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہ چُھپایا‘‘ (اشعیا50:6 – 712 بعد از مسیح)۔
(7) صلیب پر کیلوں سے جڑا گیا
’’اُنہوں نے میرے ہاتھوں اور میرے پیروں کو چھیدا‘‘ (زبور22:16)۔
(8) خُدا کی طرف سے فراموش کیا گیا
’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں فراموش کر دیا؟‘‘ (زبور22:1)۔
(9) اُس کا مُردوں میں سے زندہ ہونا
’’نہ ہی تو اپنے مُقِدّس کو سڑنے دے گا‘‘ (زبور16:10)۔
(10) غیر قوموں کا اُس پر ایمان لا کر تبدیل ہونا
’’دیکھو میرا خادم… وہ تمام قوموں کی عدالت کرے گا‘‘ (اشعیا42:1 – 712 بعد از مسیح)۔
وہ یسوع کے بارے میں صرف 10 پیشن گوئیاں ہیں۔ بائبل میں دو ہزار سے مخصوص پیشن گوئیاں ہیں جو پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔
کئی سال پہلے نیشنل انکوائرر National Enquirer میگزین نے دورِحاضرہ کے جانے مانے ’’نبیوں‘‘ کے ذریعے سے کی جانے والی 61 پیشن گوئیوں کی فہرست شائع کی تھی۔ اِن 61 پیشن گوئیوں کو اُس سال کے آخری چھ مہینوں میں پورا ہونا تھا۔ وہ کتنی بخوبی پوری ہوئیں تھی؟ یقین کریں یا نہ کریں، وہ ساری 61 پیشن گوئیاں پوری نہیں ہوئیں! اُنہوں نے کہا تھا کہ پوپ پال ریٹائر ہو جائیں گے اور رومن کاتھولک کلیسیا کو عام افراد کی ایک کمیٹی سنبھالے گی؛ کہ جارج فریمین اپنا بھاری بھرکم تاج محمد علی کے ساتھ افریقہ میں مقابلے میں رکھے گا؛ اور کہ ٹیڈ کینیڈی صدارت کے لیے انتخابی مہم چلائیں گے! دورِ حاضرہ کی پیشن گوئیوں اور وہ جو بائبل میں ہیں دونوں کے درمیان صرف ایک ہی فرق ہے کہ دورِ حاضرہ کی ’’پیشن گوئیاں‘‘ ہمیشہ غلط ہوئیں اور بائبل کے انبیاء واقعی میں صحیح تھے!
2. کیا اِرتقاء تخلیق کو غلط ثابت نہیں کرتا؟
ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر نے کہا، ’’ہم جو یقین رکھتے ہیں بائبل جانتی ہے کہ کائنات ایک تخلیق ہے۔ یہ دائمی نہیں ہے کیونکہ اِس کا ایک آغاز تھا۔ یہ خوشگوار اِتفاقات کے تسلسل کا نتیجہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے اِتفاقی طور پر ملنے والے حصوں کی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ مل گئی، ایک دوسرے کی جگہ پر بیٹھ گئی اور مصروفیت میں مگن ہو گئی۔ اُس پر یقین کرنے کے لیے اِعتبار کی ضرورت ہوگی جو چند ایک لوگوں کے پاس ہی ہے‘‘
ایک نوجوان شخص سے پوچھا گیا، ’’کس ثبوت نے تمہیں قائل کیا ہے کہ اِرتقاء سچا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا، ’’لوگوں اور جانوروں کے درمیان مشہابتیں۔ میرے لیے، وہ بات اِرتقاء کو ثابت کرتی ہے۔‘‘
1950 کی دہائی میں ماضی میں جیمس واٹسن اور فرانسس کررِک نے زندگی کے کُلیدی مالیکیول، ڈی این اے DNA کو دریافت کیا – ایک دریافت جس کی وجہ سے اُنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انسانی جسم میں ایک ٹرلیئن سے بھی زیادہ مالیکیولز ہیں۔ یہ نہایت شاندارانہ طور پر ایک پیچیدہ نظام ہے۔
کررِک، جو کہ ایک دہریے اور نظریہ اِرتقاء کے ماننے والے ہیں، اُنہوں نے ڈی این اے DNA مالیکیول کے احتمال [اِمکان] کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا جو اِرتقاء پسند کہتے ہیں کہ 4.6 بلین سالوں کے دوران بے ساختہ پیدا ہوا [اور] جو زمین کی زندگی ہے۔ زمین کی تاریخ میں ایک خُلیے کے ڈی این اے DNA مالیکیول کے کیا اِمکانات ہیں؟ کیا آپ کو اُن کے [جواب کا] نتیجہ معلوم ہے؟ صفر۔ حتّیٰ کہ 4.6 بلین سالوں میں بھی ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا!
تو کیا پھر فرانسس کررِک نے کہا کہ یہ خدا ہی ہونا چاہیے جس نے یہ کیا؟ اُنہوں نے نہیں کہا۔
کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ اِن سائنسدانوں میں سے کسی نے بھی یہ ثبوت پاتے ہوئے بھی، اقرار نہیں کیا کہ اُن کا نظریہ غلط تھا؟ اُن میں سے ایک نے بھی نہیں کہا، ’’ڈاروِن کے زمانے سے لیکر، ہم کچھ غلط سِکھاتے رہے ہیں۔ ہم نے آپ کو سِکھایا کہ زندگی کا آغاز قدیم کیچڑ سے ہوا جب امائینو ایسڈ اکٹھے ہو گئے اور ایک خُلیے کو تشکیل کیا۔ اور، بلین سالوں بعد، ہم یہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہ ایسے ہی رونما ہوا تھا۔ لیکن ہمارا نظریہ غلط ثابت کیا جا چکا ہے۔ ہم معزرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کی غلط رہنمائی کی۔‘‘
کیا آپ جانتے ہیں فرانسس کررِک نے کیا کِیا؟ وہ اِس سے بھی زیادہ ناممکن نظریہ کے ساتھ سامنے آئے۔ اُن کا نیا نظریہ یہ تھا کہ کسی دور دراز کے سیارے سے انسانوں کی ایک ترقی یافتہ نسل خلائی جہاز میں اپنے ساتھ جہاز میں اپنے نُطفوں کے ساتھ نکل پڑی اور مختلف سیاروں پر بیج بکھرے۔ اور یوں اِس طرح سے ہمارا وجود ہوا۔ یہ کچھ کچھ سٹار وارزStar Wars جیسا لگتا ہے!
زندگی بے جان سے نہیں آ سکتی۔ اِس ہی لیے بائبل کہتی ہے، ’’شروع میں خُدا نے زمین اور آسمان کو تخلیق کیا‘‘ (پیدائش1:1)۔
تین ثبوت جو خُدا کی وجودیت میں یقین کرنے میں میری مدد کر چکے ہیں:
(1) وجہ اور اثر کا قانون
کیونکہ کائنات میں اسباب اور اثرات کو میں دیکھتا ہوں جو منطقی طور پر میری نشاندہی اُس عظیم نادیدہ سبب کی جانب کراتے ہیں جس میں میرا یقین ہے کہ وہ خُدا ہے۔
(2) ڈیزائن [تخلیق کے نمونے] کا ثبوت
"> اگر آپ مریخ جاتے اور ایک کامل نمونے [ڈیزائن] کی گھڑی وہاں ملتی تو آپ منطقی طور پر نتیجہ اخذ کرتے کہ وہ گھڑی ایک گھڑی ساز کی جانب اشارہ کرتی تھی۔ لہٰذا ایک شائستہ طور پر ڈیزائن کی ہوئی دُنیا، دُنیا کے بنانے والے کی جانب اشارہ کرتی ہے، ایک ڈیزائنر جسے میں، خُدا بُلاتا ہوں۔
(3) شخصیت کا ثبوت
"> ہم شُہرا آفاق [پینٹنگ] مصوری مونا لیزا پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہم شخصیت کے ثبوت پر نظر ڈالتے ہیں۔ وہ مصوری کسی غیر ذاتی وجہ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ یہ تیسرا ثبوت اہم ہے کیونکہ ایک سبب سے قوت ہمیں ذمہ دار قرار نہیں دے گی، بلکہ ایک ہستی ہمیں ہمارے گناہوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرا سکتی ہے۔
3۔ میرا خُدا اُس طرح کا نہیں ہے۔
جان ویزلی کی زندگی، جنہوں نے میتھوڈِسٹ کلیسیا کا آغاز کیا، نہایت واضح طور پر، نجات کے لیے تنہا یسوع مسیح میں بھروسہ کرنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ پانچ سالوں کے لیے آکسفورڈ سیمنری میں گئے اور پھر انگلستان کے چرچ کے مذہبی خادم بن گئے، جہاں پر اُنہوں نے دس سالوں تک خدمت سرانجام دی۔ اُس دور کے آخر میں، تقریباً 1735 میں، وہ انگلستان سے جارجیا کے لیے ایک مشنری بن گئے۔
اپنی ساری کی ساری زندگی، وہ اپنی مذہبی خدمات میں کافی ناکامی کا شکار رہے، حالانکہ وہ جیسا کہ ہم لوگوں کو سمجھتے ہیں کافی متقی یا دیندار تھے۔ وہ صبح چار بجے اُٹھتے تھے اور دو گھنٹوں تک نماز پڑھتے تھے۔ اور جیلوں، قید خانوں اور ہسپتالوں میں ہر طرح کے لوگوں میں مذہبی خدمات سرانجام دینے کے لیے جانے سے پہلے وہ ایک گھنٹے تک بائبل کا مطالعہ کرتے۔ وہ جب تک رات نہ ہو جاتی تعلیم دیتے، دعا مانگتے اور دوسروں کی مدد کرتے۔ اُنہوں نے یہ سالوں تک کیا۔ درحقیقت، میتھوڈسٹ کلیسیا دینداری کی [اِسی] میتھوڈیکل طرز سے جسے ویزلی اور اُن کے دوستوں نے جیا اپنا نام پاتی ہے۔
امریکہ سے واپسی پر، سمندر میں بہت بُرا طوفان آ گیا۔ وہ چھوٹا سا بحری جہاز جس پر وہ سفر کر رہے تھے ڈوبنے کے قریب تھا۔ بڑی بڑی لہریں بحری جہاز کے عرشے پر تھپیڑے مار رہی تھیں اور ہوائیں بادبانوں کو تار تار کر رہی تھیں۔ ویزلی خوفزدہ تھے کہ وہ اُس لمحے یا گھڑی میں مرنے والے تھے اور وہ شدید خوف میں مبتلا تھے۔ اُن کے پاس کوئی یقین دہانی نہیں تھی کہ اُن کے ساتھ کیا ہوگا جب میں مر جاؤں گا۔ نیک بننے کی اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود، موت اُن کے لیے ایک بہت بڑا، سیاہ، خوف سے بھرپور سوالیہ نشان تھی۔
بحری جہاز کی دوسری جانب لوگوں کا ایک گروپ تھا جو حمدوثنا کے گیت گا رہا تھا۔ اُنہوں نے اُن لوگوں سے پوچھا، ’’تم کیسے گانے گا سکتے ہو جب کہ بالکل اِسی شب تم مرنے والے ہو؟‘‘ اُن لوگوں نے جواب دیا، ’’اگر یہ جہاز ڈوبتا ہے تو ہم ہمیشہ کے لیے خداوند کے پاس اُوپر چلے جائیں گے۔‘‘ ویزلی خود سے سوچتا اور اپنا سر دُھنتا ہوا پرے چلا گیا، ’’اُنہیں وہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ جو میں کر چکا ہوں اُس کے مقابلے میں وہ کتنا اور زیادہ کر چکے ہیں؟‘‘ پھر اُس نے اضافہ کیا، ’’میں کافروں کو مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل کرنے کے لیے آیا۔ آہ، لیکن مجھے کون تبدیل کرے گا؟‘‘
خُدا کی پروردگاری میں، بحری جہاز واپس انگلستان پہچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ویزلی لندن چلے آئے اور ایلڈرگیٹ سٹریٹ کے لیے اور ایک چھوٹے گرجا گھر کے لیے اپنی راہ تلاش کی۔ وہاں اُنہوں نے ایک شخص کو ایک واعظ پڑھتے ہوئے سُنا جو دو صدیاں پہلے مارٹن لوتھر کی جانب سے تحریر کیا گیا تھا، جس کا عنوان ’’رومیوں کی کتاب کے لیے لوتھر کا دیباچہLuther’s Preface to the Book of Romans‘‘ تھا۔ اِس واعظ نے وضاحت کی کہ حقیقی ایمان کیا تھا۔ یہ نجات کے لیے صرف یسوع مسیح پر بھروسا کرنا تھا – اور ناکہ خود اپنے نیک کاموں میں۔
ویزلی کو اچانک احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کی غلط راہ پر گامزن رہے تھے۔ اُس رات اُنہوں نے اپنی روز لکھی جانے والی ڈائری میں اِن الفاظ کو تحریر کیا: ’’تقریباً پونے نو بجے، جب وہ اُس تبدیلی کی وضاحت کر رہے تھے جو مسیح میں ایمان کے ذریعے سے خُدا دِل میں بِٹھاتا، میں نے عجیب طور پر اپنے دِل کو گرم ہوتا ہوا محسوس کیا۔ میں نے محسوس کیا میں واقعی میں مسیح پر بھروسا کیا، تنہا مسیح پر، نجات کے لیے اور مجھے ایک یقین دہانی بخشی گئی کہ اُس نے میرے گناہوں کو اُٹھا لیا تھا، یہاں تک کہ میرے، اور مجھے موت اور گناہ کی شریعت سے نجات دلائی تھی۔‘‘
یہ ہوا تھا۔ یہ نجات دلانے والا ایمان ہوتا ہے۔ اپنے گناہوں پر توبہ کرنا، اُس نے نجات کے لیے تنہا یسوع مسیح پر بھروسا کیا تھا۔ اب، کیا آپ کہیں گے کہ اِس رات سے پہلے ویزلی نے یسوع مسیح میں یقین نہیں کیا تھا؟ بیشک، اُس نے کیا تھا۔ وہ بائبل کا ایک عالم تھا اور انگریزی، لاطینی، یونانی، اور عبرانی میں مسیح کے بارے میں مطالعہ کیا تھا۔ اُس نے اِن تمام زبانوں میں مسیح میں یقین کیا تھا۔ لیکن اُس نے جان ویزلی میں اُس کی نجات کے لیے بھروسا کیا تھا۔
اِس کے بعد، وہ اٹھارویں صدی کے عظیم ترین مبلغ بنے تھے۔ لیکن یہ سب اُس وقت شروع ہوا تھا جب اُنہوں نے اپنی نجات کے لیے تنہا یسوع مسیح میں اپنا بھروسا قائم کیا تھا اور اُسے اپنے خداوند کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ (ڈاکٹر ڈی۔ جیمس کینیڈی Dr. D. James Kennedy، انجیلی بشارت کی تعلیم کے پرچار کا پھٹ پڑنا Evangelism Explosion، چوتھا ایڈیشن، ٹائینڈائل ہاؤس پبلیشرز Tyndale House Publishers، 1996، صفحات 183۔ 184)۔
کھڑے ہوں اور ہمارا حمدوثنا کا گیت گائیں!
حیرت انگیز فضل! کس قدر میٹھی وہ آواز،
جس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا!
میں جو کبھی کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہوں،
اندھا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں۔
یہ فضل ہی تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا،
اور فضل نے ہی میرے تمام خوف ختم کیے؛
کس قدر قیمتی وہ فضل ظاہر ہوا تھا
اُس لمحے میں جب میں نے پہلی مرتبہ یقین کیا تھا!
بے شمار خطرات، مشقت اور شکنجوں میں سے،
میں پہلے سے ہی گزر چکا ہوں؛
یہ فضل ہی مجھے حفاظت سے اتنی دور تک لایا،
اور فضل ہی میری گھر تک رہنمائی کرے گا۔
جب ہم وہاں پر دس ہزار سالوں تک رہ چکے ہوں،
دمکتے چمکتے سورج کی مانند
تو ہمارے پاس تب بھی خداوند کی ستائش میں گانے کے لیے اتنے کم دِن نہیں ہوں گے
جتنے ہم نے جب شروع کیا تھا تب تھے۔
(’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔