اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
چین میں مِس ماری مونسین سے اِسباقLESSONS FROM MISS MARIE MONSEN IN CHINA ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
ماری مونسینMarie Monsen (1878۔1962) تیس سالوں کے عرصے تک کے لیے شمالی اور وسطی چین کے لیے ایک نارویجیئین مشنری تھیں۔ اُس عرصے کے دوران اُنہیں حیاتِ نو میں خُدا کے ذریعے سے اِستعمال کیا گیا تھا، جس کے واقعات اُن کی کتاب بیداری The Awakening میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ وہ حیاتِ نو زیرِ زمین گرجا گھر کے عظیم حیاتِ نو کا پہلا جھونکا تھا، جس کا ایک عظیم حیاتِ نو بن چکا ہے۔ یہ آج کے دِن تک چین میں جاری ہے۔
جوں جوں میں مِس مونسین کی کتاب پڑھتا گیا، تو مجھے احساس ہوتا گیا کیسے ایک مشنری اور نئے گرجا گھر کھولنے والے کی حیثیت سے خود میری اپنی زندگی میں خُدا معجزات کر چکا ہے۔ اگر آپ میری سوانحِ حیات تمام خدشات کے خلاف Against All Fears پڑھیں، تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ خُدا کے لیے وہ کیا ایک معجزہ تھا جو مجھے یسوع کو پہلے مقام پر رکھنے کے لیے کھینچ لایا۔ میں ایک مکمل طور پر غیرمذہبی خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ جب میں دو سال کا تھا تو میرے والدین میں علیحدگی ہو گئی۔ میں اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرا، بائیس یتیم خانوں میں زندگی گزاری، کبھی کوئی دوست نہ بنے، ہائی سکول اور کالج میں فیل ہوا، رویوں کی اچانک اور بظاہر ناقابلِ احتساب تبدیلی کے ذریعے سے پریشان رہا جو مجھے خودکشی کے دہانے پر لے آئے – جو بڑھنے یا پلنے کے لیے کوئی مثالی راہ نہیں تھی!
میں اُنیس برس کا تھا جب میں نے موڈی پریس کی جانب سے شائع کیا گیا دبیز جلد والا جان ویزلی کا جریدہ The Journal of John Wesley پہلی مرتبہ پڑھا۔ پھر اندرونی چین کے لے مشنریوں کے بانی ہڈسن ٹیلر Hudson Taylor کی کہانی پڑھی۔ ایک رات جب میں لاس اینجلز کی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا میں نے گرجا گھر کی ایک عمارت کو دیکھا جس پر ایک عبارت لکھی ہوئی تھی جو کہتی تھی، ’’چینیوں کا بپتسمہ دینے والا پہلی گرجا گھر۔‘‘ میں نے اُس گرجا گھر میں شمولیت اختیار کی اور کئی سالوں تک اُس کا رُکن رہا۔ ایک مشنری کی حیثیت سے بُلائے جانے کے احساس کے ساتھ میں نے بائیولا یونیورسٹی میں پڑھنا شروع کیا لیکن پڑھنے کی ناقص عادتوں کی وجہ سے میں بائیولا میں فیل ہو گیا۔ لیکن پہلا معجزہ اُس وقت رونما ہوا جب میں وہاں پر چارلس ویزلی کے حمدوثنا کے گیت ’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے؟‘‘ کے الفاظ کو سُننے کے ذریعے سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا۔
ہائی سکول اور کالج میں فیل ہونے کی وجہ سے، دوسرا معجزہ اُس وقت رونما ہوا جب میں نے فلپیوں4:13 کا سامنا کیا، ’’مسیح جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کی مدد سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ میں ایک نوکری ملی جس میں دِن کے دوران میں سارا وقت کام کرتا۔ فلپیوں 4:13 کی وجہ سے سہارا پا کر میں نے رات میں کالج کی تعلیم کا آغاز کیا۔ تیسرا معجزہ یہ تھا کہ میں نے لاس اینجلز کی کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی سے بالاآخر گریجوایشن کا اِمتحان پاس کر لیا – کئی سالوں کی انتھک محنت اور دِن میں 16 گھنٹے پڑھنے کے بعد، جبکہ میں بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ چینی گرجا گھر میں کام بھی کر رہا تھا۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
پھر سان فرانسسکو کے قریب، میں گولڈن گیٹ بپٹسٹ تھیالوجیکل سیمنری میں پڑھنے کے لیے گیا۔ یہ واقعی میں ایک ہولناک تجربہ تھا، کیونکہ وہاں پر موجود تقریباً سارے پروفیسروں نے اُن مختلف کلاسز میں بائبل کی دھجیاں اُڑائیں۔ جب چوتھا معجزہ ہوا تو میں مکمل طور پر [سیمنری] چھوڑنے کے لیے تیار تھا۔ ایک رات خدا کی آواز آدھی رات کے بعد مجھ تک آئی۔ اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں پینتیکوست مشن یا کرشماتی مشن سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ لیکن خُدا نے ٹھہری ہوئی ایک مدھم آواز میں واضح طور پر میری جان سے بات کی۔ خُدا نے مجھے سیمنری نا چھوڑنے کے لیے کہا اور کہ وہ مجھے اُس کی منادی کے لیے جب میں ایک بوڑھا شخص ہو جاؤں گا تو چینی لوگوں اور دوسرے تہذیبی گروہوں کے لیے ایک مشنری کی حیثیت سے استعمال کرے گا۔ وہ چوتھا معجزہ تھا۔
سیمنری کے قریب ایک گرجا گھر کی بنیاد رکھنے کے بعد، میں نے گریجوایشن مکمل کی اور سان فرانسسکو کا علاقہ چھوڑا اور لاس اینجلز میں ’’گھر‘‘ چلا آیا۔ 33 برس کی عمر میں لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب پانچواں معجزہ رونما ہوا۔
میں اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا جب میری ملاقات علیانہ کیولر کے ساتھ ہوئی جو گوئٹے مالا سے ایک لڑکی تھی۔ میں اُنہیں نہیں جانتا تھا، اور جلد ہی اُن کے سارے ہسپانوی دوستوں نے ہمارے گرجا گھر کو چھوڑ دیا۔ لیکن میں دِل ہی دِل میں جانتا تھا کہ یہی وہ لڑکی ہے جس سے مجھے شادی کرنی چاہیے۔ وہ مشکلوں سی ہی انگریزی بول پاتی تھیں اور مجھے ہسپانوی بولنی نہیں آتی تھی۔ جب ہماری شادی ہوئی، تو بے شمار لوگوں نے کہا یہ زیادہ عرصہ نہیں چل پائی گی۔ وہ غلط تھے۔ ہماری شادی کو ہوئے 37 برس گزر چکے ہیں! اگر میں نے ہپّی لڑکیوں میں سے کسی کے ساتھ شادی کی ہوتی تو وہ میری زندگی اور منسٹری کو دس گُنا زیادہ تباہ و برباد کر چکی ہوتیں۔ میں نے اُس رات اپنی بائبل کھولی اور اِن الفاظ کو پڑھا، ’’یہ رہی تیری بیوی، اسے لے اور چل دے‘‘ (پیدائش12:19)۔ خُدا نے اپنے کلام میں مجھے علیانہ سے شادی کرنے کے لیے بتایا۔ وہ ساری دُنیا میں پادری کی سب سے زیادہ کامل اہلیہ ہیں!
جب علیانہ حاملہ ہوئیں، مجھے ہمارے گرجا گھر میں ایک آدمی کے ذریعے سے کہا گیا کہ اُس کے ہپّی ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اُن کے حاملہ ہونے کے عرصے کے درمیان میں اُس ڈاکٹر نے اُن کے حمل کی الٹرا ساؤنڈ لی۔ اُس نے علیانہ کو اور مجھے اپنے دفتر میں بُلوایا اور کہا کہ الٹرا ساؤنڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ بُری طرح سے بدنما ہے۔ لیکن اُس نے حتمی تجزیے کے لیے سوموار کو واپس آنے کے لیے کہا۔ ہم اُس رات یہ سوچتے ہوئے گئے کہ ہمارا بچہ ہولناک طور پر بدشکل ہوگا۔ اُسی رات ’’خواب میں خُدا کا فرشتہ مجھ پر ظاہر ہوا‘‘ (متی1:20)، اور بچے کے بارے میں مجھے سچائی بتائی۔ ہم ہپّی ڈاکٹر کے پاس واپس گئے۔ اُس نے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا، ’’مجھے بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے الٹراساؤنڈ کو غلط پڑھا ہے۔ ہمارے جڑواں بچے پیدا ہونے والے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’تمہیں یہ بات کیسے پتا چلی؟‘‘ میں نے کہا، ’’ایک فرشتے نے مجھے وہ کل رات خواب میں بتایا۔‘‘ ہمارے جڑواں بچے صحیح سلامت پیدا ہوئے۔ اب ہمارے وہ دونوں بچے چھتیس برسوں سے زیادہ عرصے سے ہمارے لیے ایک نعمت رہے ہیں! وہ ایک اور معجزہ تھا۔
مسٹر جین وِلکرسن گاڑی نہیں چلا سکتے۔ اِس لیے میں ہر روز رات میں گاڑی میں اُنہیں اُن کے اپارٹمنٹ چھوڑنے جاتا تھا۔ گھر جانے کی راہ میں اُس وقت بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔ اچانک میری گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا۔ میں نے شاہراہ کی ایک جانب سرے پر گاڑی کو روکا۔ میں خوف سے بھرا ہوا تھا۔ اگلی گاڑی جو موڑ سے نکل کر آتی میری گاڑی کے پیچھے ٹکراتی۔ میں گاڑی میں سے چھلانگ مار کر اگلا معجزہ دیکھنے کے لیے اُترا۔ ایک چھوٹا سے بوڑھا شخص شاہراہ کے قریب کھڑا تھا۔ اُس نے مچھلی پکڑنے والی ایک لمبی سے چھڑی نکالی، اُس کے سِرے پر پٹرول کا ایک کنستر باندھا، اور زنجیروں سے بنی باڑھ کے اوپر سے چرغی گھماتے ہوئے نیچے لٹکایا۔ اُس نے کہا، ’’پٹرول اپنی گاڑی میں ڈٓال لو۔ جلدی کرو!‘‘ میں نے پٹرول اپنی گاڑی میں ڈالا، کنستر کو اُس کی مچھلی پکڑنے والی چھڑی سے باندھا اور اُس نے اُسے واپس اُوپر چرغی گھما کر کھینچ لیا۔ میں نے اُسے کچھ پیسے دینے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اُس نے چیخ کر مجھے کہا، ’’چلتے بنو! مجھے کسی روپے کی ضرورت نہیں ہے! میں یہ ہر رات کو کرتا ہوں۔‘‘ جب میں گاڑی چلا کر وہاں سے چل پڑا تو اُس کے آخری چند الفاظ نے میرے رونگٹھے کھڑا کر دیے، ’’میں یہ ہر رات کو کرتا ہوں۔‘‘ جوں جوں میں نے اُس بارے میں سوچا، بائبل کے یہ الفاظ میرے ذہن میں آ گئے، ’’بعض نے نادانستہ فرشتوں کی مہمان نوازی کی ہے‘‘ (عبرانیوں13:2)۔ یہ ایک فرشتہ تھا جس نے اُس رات میری جان بچائی تھی!
اِن معجزات نے اور دوسروں نے میری اِس بات میں یقین کرنے پر رہنمائی کی تھی کہ خُدا میرے ساتھ تھا۔ اور اُنہوں نے مجھے یہ سمجھنے کے لیے تیار کیا تھا کہ خُدا نے ماری مونسین کو نجات دلانے کے لیے استعمال کیا تھا۔
لیکن پہلے اِس بارے میں بات کرنے کے لیے میں چند ایک منٹ لینا چاہوں گا کہ کیوں فرشتے، معجزات اور آسیب آج زیادہ تر ایونجیلیکلز کے ذہنوں میں اِس قدر چھوٹا سا قردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے دور میں کیوں ایونجیلیکلز فرشتوں اور آسیبوں کے بارے میں سوچنے کے لیے اِس قدر کم وقت صرف کرتے ہیں؟ اپنے مضمون ’’بائبل کی دُنیا حقیقی دُنیا ہے‘‘ میں ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزرDr. A. W. Tozer نے اِس پر کچھ اچھے نکات پیش کیے۔
ڈاکٹر ٹوزر نے کہا، ’’پاک صحائف کو پڑھتے وقت ایک حساس شخص اُس دُنیا کے درمیان جس کا اظہار بائبل کرتی ہے اور وہ دُںیا جس کا تصور آجکل مذہبی اشخاص کے ذریعے سے کیا جاتا ہے یقینی طور پر واضح فرق محسوس کرتا ہے۔ اور اِس کا موازنہ ہماری حمایت میں نہیں ہے… سچی دُنیا لوگوں سے بھری ہوئی ایک دُنیا ہے۔ دورِحاضرہ کے لوگوں کی اندھی آنکھیں پوشیدہ باتوں کو نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ جو روحانی تخلیق کی حقیقت کو تباہ نہیں کرتی… ہم سائنس کی خالی اور بے معنی دُنیا کو ایک سچی دُںیا کی حیثیت سے قبول کر چکے ہیں، اِس بات کو بھولتے ہوئے کہ سائنس صرف اُسی وقت جائز ہوتی ہے جب وہ مادی چیزوں کے ساتھ نمٹتی ہے اور روحانی دُنیا اور خُدا کے بارے میں جان نہیں سکتی… دریافت کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کے آلات کے لیے بائبل ہمیں ایک اور دُنیا کے بارے میں بھی بتاتی ہے… اگر ہم یقین کرتے ہیں تو شاید بالکل اِسی وقت خُدا کی موجودگی اور اُس کے [فرشتوں] کی مذہبی خدمات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ صرف بے اعتقادی ہی اِس شاہی اِستحقاق سے ہمیں محروم کر سکتی ہے۔‘‘
’’اوہ، وہ تو صرف ٹوزر ہیں – اور ہم جانتے ہیں کہ وہ صرف پُراِسرار تھیالوجیئین ہیں ناکہ حقیقی!‘‘ اِس لحاظ سے سیمنری کے نوجوان طالب علم ٹوزر کی انبیانہ بصیرت سے لُٹ جاتے ہیں۔
پھر یہاں ڈاکٹر وِلبر ایم۔ سمتھ Dr. Wilbur M. Smith ہیں۔ ڈاکٹر سِمتھ ہمیں ایک نظریاتی نظریہ پیش کرتے ہیں کہ کس طرح فرشتوں اور شیطانوں کو عالم دین کے ذریعے سے نظر انداز کیا گیا۔ رچرڈ بیکسٹر، تھامس گُڈوِن، جان اُوون اور جاناتھن ایڈورڈز نے اپنی تحریروں میں فرشتوں اور شیطانوں کے موضوع سے اِجتناب کیا (مستقبل کے لیے بائبلی ڈیمنولوجی Biblical Demonology مصنف مِیرل ایف اُونگر، ٹی ایچ۔ ڈی۔، پی ایچ۔ ڈی۔)۔
پھر یہاں پر ڈاکٹر اُونگر بذات خود ہیں۔ وہ ایک عظیم عالم تھے جنہوں نے جانز ہاپکینز یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری اور ڈلاس تھیالوجیکل سیمنری سے اپنی ٹی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب آج کی دُنیا میں آسیب Demons in the World Today (ٹائن ڈیل ہاؤس Tyndale House، 1983) کے پہلے باب میں ڈاکٹر اُونگر نے کہا، ’’حیرت ذدہ مبصرین انسانی کامیابیوں کا احترام کرنے کے لیے سائنس کی قربان گاہوں کی طرف آ رہے ہیں۔ دریں اثنا، خُدا کی قربان گاہیں ترک کر دی گئیں ہیں کیوں کہ الہٰیات میں فطرت پسندی کو روزمرہ کی فکر اور زندگی سے مافوق الفطرت کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔‘‘
یہاں تک کہ مِلرڈ جے۔ ایرکسن Millard J. Erickson جیسے قدامت پسند ایونجیلیکل عالم الہٰیات نے 1200 صفحات پر مشتمل اپنی کتاب مسیحی تھیالوجی Christian Theology (بیکرBaker، 1985) میں نیک اور بد فرشتوں کے لیے 20 صفحات سے کم کو مختص کیا اور ایک صفحے کا صرف آدھا حصہ ’’فرشتوں کے نظام عقائد کا کردار The Role of the Doctrine of Angels‘‘ (صفحہ 451) کو مختص کیا۔ اور یہاں تک کہ یہ پال ٹیلیچ Paul Tillich، کارل بارتھ Karl Barth اور روڈولف بلٹمین Rudolf Bultmann جیسے بُلند درجہ آزاد خیال لوگوں کے حوالوں سے پُر ہے! ڈاکٹر ایرکسن نے یہاں تک کہا، ’’دورِ حاضرہ کے بے شمار لوگوں…فرشتوں پر فرسودہ عقیدے کو غیرمروج قرار دیا‘‘ (صفحہ 437)۔ اِس بات سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ شدت پسند آزاد خیال کلارک پنّوک Clark Pinnock نے ڈاکٹر ایرکسن کی کتاب کے بارے میں کہا، ’’جب میں اِس عمدہ پیشکش پر غورکرتا ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے‘‘ (جلد کے کور پر)۔ میرے لیے، یہ کتاب زہر ہے۔
میں اِس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ فرشتوں اور آسیبوں کے نظام عقائد آج مذہبی خدمات میں شدید تر اہمیت کے حامل ہیں۔ میرے دیرینہ پادری ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، بجا طور پر آج کی اِس دُنیا میں فرشتوں اور آسیبوں کے نظام عقائد کو اپنی منادی کے مرکز میں رکھنے پر دُرست تھے۔ ڈاکٹر لِن وہ ایک عالم تھے جو چین میں حیاتِ نو کے مرکز سے امریکہ میں آئے۔ وہ عبرانی میں پرانے عہدنامے میں ایک ماہر تھے اور اِلینوائس Illinois کے شہر ڈئیرفیلڈ میں بائیولا یونیورسٹی اور ٹرینیٹی ایونجیلیکل سیمنری میں پڑھایا تھا۔ وہ نئی امریکی معیاری بائبل کے ترجمانوں میں سے ایک تھے اور وہ چینی بپتسمہ گرجا گھر میں جہاں پر میں ایک رُکن تھا کئی سالوں تک میرے پادری صاحب تھے! ڈاکٹر لِن کو ماری مونسین کی چھوٹی سی کتاب ایک موجودہ مدد: خُدا کے وعدے پر ڈٹے رہنا A Present Help: Standing on the Promise of God (اندرونِ چین میں مشن، 1960) سے بہت خوشی ہوئی ہوگی۔
ماری مونسین (1878۔1962) تیس سالوں کے عرصے کے لیے شمالی اور وسطی چین میں ایک نارویجیئین مشنری رہی تھیں۔ اُس عرصے کے دوران اُنہیں حیاتِ نو میں خُدا کے ذریعے سے استعمال کیا گیا، جن کے واقعات کے بارے میں اُن کی کتاب بیداری The Awakening میں پڑھ سکتے ہیں۔ اُن کے مذہبی خدمات [منسٹری] میں سے نکلے ہوئے حیاتِ نو آج تک چین میں زیرزمین گرجا گھر میں جاری عظیم حیاتِ نو کا پیش خیمہ ہیں – گذشتہ 100 سالوں کے عظیم ترین حیاتِ نو۔ اب میں اُن کی کتاب ایک موجودہ مدد: خُدا کے وعدے پر ڈٹے رہنا A Present Help: Standing on the Promise of God مین سے آپ کو اُس حیاتِ نو کے بارے میں اُن کے چند ایک واقعات پیش کروں گا۔
زبور 146:9
خُداوند پردیسیوں کی حفاظت کرتا ہے
ماری مونسین نے کہا، ’’ہم دونوں ہی اِس کام میں نئے تھے اور چین میں ایک ساحلی علاقے پر اُترے تھے… خُدا کے بچوں کے ساتھ اِتفاق سے کچھ نہیں ہوتا ہے… وہ ہمیں کہاں پر لے جا رہے تھے؟ ہم اُنہیں بتا بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔ اپنی پریشانی میں ہم دونوں ہی خاموشی سے دعا مانگ رہے تھے جبکہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے… ایک نوجوان شخص اچانک مصرف ٹریفک میں سے سڑک پار کر کے تیزی سے آیا۔ اُس نے مجھ سے بات کرنا شروع کی۔ وہ جو کچھ بھی کہہ رہا تھا اُس کا ایک بھی لفظ میری سمجھ میں نہیں آیا! اُس نے اپنی کمر پر ایک بوری اُٹھائی ہوئی تھی۔ وہ اُس نے نیچے سڑک پر پھینک دی۔ ہمیں احساس ہو گیا وہ ایک ڈاکیہ تھا۔ لیکن وہ ہمارے سے کیا چاہتا تھا؟ سڑک پر خطوط کا ڈھیڑ بچھ گیا تھا۔ آخر کار اُس کو وہ خط مل گیا جو وہ ڈھونڈ رہا تھا… مسکراتے ہوئے، اُس نے وہ [خط] میرے دیکھنے کے لیے بُلند کیا۔ میں نے اُس مشنری کا نام اور ایڈریس پڑھا جو ہمیں لینے کے لیے آنے میں ناکام ہو چکا تھا! ہم اگلی ذیلی گلی میں مُڑے اور جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ جب ہم نے ہمارا سامان اُٹھانے والے قلیوں کو پیسے دے کر فارغ کر دیا اور ہمیں ہمارے کمرے دکھائے جا چکے تو شکرگزاری کے آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں بھر گئیں۔ خُداوند نے چین میں ہماری آمد کو برکت دی تھی بالکل جیسا اُس نے وعدہ کیا تھا!
بعد میں ہمیں پتا چلا کہ وہ ڈاکیہ ایک مسیحی تھا۔ لیکن اُسے کیسے ہماری مدد کرنے کے لیے پتا چلا تھا؟ وہ سوال جواب طلب ہی رہا۔ لیکن جہاں افہام و تفہیم کی کوئی وضاحت نہیں ملتی تو وہاں ایمان خُدا سے توقع کرتا ہے اور ہم یقین کرتے ہیں کہ خُدا نے اُس ڈاکیے کو مدد کے لیے ہماری ضرورت کو بتایا تھا۔ اُس کے تھوڑی ہی دیر بعد میں نے بائبل میں سے ایک آیت پڑھی۔ وہ میرے لیے ایک زندہ کلام تھا۔ اُس نے مستقبل میں بیرون مُلک جو وقت میں نے گزرا اُس میں میرے ایمان کو بڑھایا۔ ’خُداوند پردیسیوں کی حفاظت کرتا ہے‘ (زبور146:9)۔
خُداوند مصیبت کے وقت میں مستحکم دفاع کرتا ہے
اب ہم غیر مُلکی جذباتیت کے ایک دور میں تھے۔ اُن کافروں نے اپنی نفرت اور حقارت ہم غیرملکیوں کے لیے ظاہر کی جب کبھی بھی کوئی موقع ملتا تھا۔ وہ جنہوں نے ہم پر اپنی نفرت ظاہر نہیں کی وہ اپنی دوستی کو ظاہر کرنے سے خوفزدہ تھے۔
اچانک ایک شرابی سپاہی کا میرے ساتھ سامنا ہوا۔ اُس نے ابھی ابھی شراب کا پورا ایک جگ پیا تھا۔ ’رُکو، رُکو،‘ وہ شرابی سپاہی چیخا۔ ’میں چھکڑے میں بیٹھنا چاہتا ہوں۔ میں غیرملکی عورت کی حفاظت کروں گا۔‘ خوف کا سیلاب مجھ پر طاری ہو گیا! پھر مجھے یاد آیا کتنی مرتبہ وہ لفظ ’خوف مت کر‘ بائبل میں آیا ہے۔ میں خوف کھانے سے آزاد ہو گئی تھی۔ وہ شرابی سپاہی دوڑتا ہوا میری طرف آیا اور چیخا، ’ٹھہرو۔‘ کوچوان نے فرمانبرداری دکھائی اور رُک گیا۔ میں نے خاموشی سے دعا مانگی، ’خُداوندا، تو ہی مصیبت کے وقت میں مستحکم دفاع کرتا ہے۔ مجھے اب تیری حفاظت کی ضرورت ہے۔‘ بالکل اُسی وقت، اُس شرابی سپاہی نے سڑک والی سائیڈ پر [چھکڑے میں] دھرنا جما لیا۔ میں نے کوچوان کو چلنے کے لیے کہا۔ گدھے نے بھی پہلی مرتبہ ہی میں بھاگنا شروع کر دیا۔ اگلے سرائے پر اُس سپاہی نے شراب کا ایک اور بڑا جگ پی لیا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ مجھ پر حملہ کرے گا۔ پھر مجھے یاد آیا کیسے پوری ایک فوج اندھے پن کی زد میں آ گئی تھی (2 سلاطین6)۔ بائبل کی اُس کہانی کو یاد کرتے ہوئے میں نے دعا مانگی، ’اے خُداوندا، مجھے اُس کو نظر نہ آنے دے۔‘ اُس شرابی سپاہی نے بیرل اُٹھائے ہوئے کچھ لوگوں پر حملہ کر دیا۔ پھر اُس نے کانچ کا مہنگا سامان اُٹھائے ہوئے کچھ لوگوں پر حملہ کر دیا۔ وہ سارا کا سارا اُس کی وجہ سے چِکنا چور ہو گیا۔
ہر باؤلے حملے کے بعد وہ سپاہی ہمارے پاس واپس آ جاتا۔ لیکن اُس نے مجھ سے ایک مرتبہ بھی بات نہیں کی۔ آخرکار وہ ایک ذیلی سڑک پر بھاگ نکلا اور ہم نے اُس کو مذید اور نہیں دیکھا۔ پھر مجھے زبور 34:7 کی یاد آ گئی، ’خُداوند سے ڈرنے والوں کے چاروں طرف اُس کا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے اور اُنہیں بچاتا ہے۔‘‘‘
شاید اگلے اِتوار کی شام میں آپ کو ماری مونسین کے بارے میں مذید کچھ اور باتیں بتاؤں اورکیسے خُدا کے وسیلے سے بھیجی گئی ’’آگ کی دیوار‘‘ سے اُس کی حفاظت کی گئی تھی۔ یاد رکھیں کہ وہ ایک تنہا خاتون تھی، جس کی حفاظت صرف خدا کے وسیلے سے ہوئی تھی، جبکہ چین میں باکسر بغاوت کے نتیجے میں ہونی والی ہولناکیوں سے گزرتے ہوئے دوسری بے شمار خواتین کو زیادتی اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا۔
جب چند ایک مہینے پہلے گرجا گھر کی وہ ہولناک تقسیم ہوئی تھی تو میں کینسر کے علاج کی وجہ سے بہت کمزور تھا اور جوڑوں کی شدید سوزش نے، پہلے میری دائیں ٹانگ میں اور پھر میرے بائیں گھٹنے اور ٹانگ میں، مجھے [لنگڑا] اپاہج کر دیا تھا۔ جیسا کہ آپ میں سے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ میں شدید ذہنی دباؤ اور [بُرے حالات] روئیوں میں نچلے درجے کی تبدیلی کے دوروں سے گزرتا رہا ہوں، جو بِلاشک و شبہ بچپن میں واقعی میں یتیم ہونے کے زخم کے نتیجے میں ہوئے، اور ایک چھوٹے سے لڑکے کی حیثیت سے سخت شراب نوشی کرنے والوں میں زندگی بسر کرنے کی ہولناکیوں کا سامنا کرنے کے نتیجے میں ہوئے۔
جب گرجا گھر کی تقسیم ہوئی تو میں بہت زیادہ خوف زدہ تھا کہ میں یہاں پر گرجا گھر میں جاری رہنے کے قابل نہیں رہوں گا۔ شاید میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ اُس وقت رونما ہوا تھا جب میں [گرجا گھر] کی تقسیم کی شدید درد کے دوران پُرسکون رہا تھا۔ لیکن میں فلپیوں 4:11، 12 میں پولوس کے اُن الفاظ کی وجہ سے پُرسکون رہا تھا،
’’یہ میں اِس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں محتاج ہوں کیونکہ میری جو بھی حالت ہے میں اُسی پر راضی ہوں۔ میں ناداری سے واقف ہوں اور میں نے محتاجی کے دِن بھی دیکھیں ہیں۔ چاہے میں سَیر و آسودہ ہوں، چاہے فاقہ کرتا ہوں، چاہے میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہو، میں نے ہر وقت اور ہر حال میں خوش رہنا سیکھا ہے‘‘ (فلپیوں4:11)۔
میں ہر رات پادری وورمبرانڈ، ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر کو پڑھنے میں گزارتا ہوں، اور بعد میں مِس ماری مونسین کی تحریر کی ہوئی کتابوں کو پڑھنے میں گزارتا ہوں۔ حتّیٰ کہ جب میری پیاری بیوی علیانہ دور اسرائیل میں تھیں، میں ہر رات کو کسی نوزائیدہ بچے کی مانند سویا۔ پس، میں آج کی رات آپ کو یقینی طور پر بتا سکتا ہوں کہ اگر آپ خدواند کا انتظار کرتے ہیں تو آپ بھی بہت زیادہ امن پا سکتے ہیں۔ ’’خُداوند کا انتظار کر؛ مضبوط ہو اور حوصلہ رکھ اور خُداوند کی آس رکھ‘‘ (زبور27:14)۔
میں خود اپنے باطن میں جانتا ہوں کہ ہم سان گیبرئیل وادی میں ایک اچھا مضبوط گرجا گھر تعمیر کریں گے۔ خُدا ہمارے ساتھ ہے – اور نیچے اُس کے ہمیشہ تک قائم رہنے والے اُس کے بازو! آمین۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور ’’وہ میری رہنمائی کرتا ہے He Leadeth Me‘‘ گائیں۔
وہ میری رہنمائی کرتا ہے، ہائے کتنا بابرکت خیال! ہائے معنی خیز آسمانی سہولت کے الفاظ کے ساتھ!
میں جو کچھ بھی کروں، میں جہاں کہیں بھی ہوں، پھر بھی یہ خُدا کا ہی کلام ہے جو میری رہنمائی کرتا ہے۔
وہ میری رہنمائی کرتا ہے، وہ میری رہنمائی کرتا ہے! خود اپنے کلام کے وسیلہ سے وہ میری رہنمائی کرتا ہے؛
میں اُس کا وفادار پیروکار رہوں گا، کیونکہ وہ اپنے کلام کے وسیلہ سے میری رہنمائی کرتا ہے۔
کبھی کبھارشدید رنج وغم کے نظاروں کے درمیان، کبھی کبھی جہاں عدن کے درختوں کے جھنڈ جوبن پر ہوتے ہیں،
طوفانی سمندروں پر ساکن پانیوں کے ذریعے، پھر بھی یہ خُدا کا ہی کلام ہے جو میری رہنمائی کرتا ہے۔
وہ میری رہنمائی کرتا، وہ میری رہنمائی کرتا ہے! خود اپنے کلام کے وسیلہ سے وہ میری رہنمائی کرتا ہے؛
میں اُس کا وفادار پیروکار رہوں گا، کیوں وہ اپنے کلام کے وسیلہ سے میری رہنمائی کرتا ہے۔
خُداوندا، میں اپنا ہاتھ تجھے سونپتا ہوں، نا کبھی بُڑبُڑاؤں گا نا ہی کُڑھوں گا؛
مطمئن رہوں گا، جو کچھ بھی مقدر میں دیکھوں گا، چونکہ یہ میرا خُدا ہے جو میری رہنمائی کرتا ہے۔
وہ میری رہنمائی کرتا، وہ میری رہنمائی کرتا ہے! خود اپنے کلام کے وسیلہ سے وہ میری رہنمائی کرتا ہے؛
میں اُس کا وفادار پیروکار رہوں گا، کیوں وہ اپنے کلام کے وسیلہ سے میری رہنمائی کرتا ہے۔
(’’وہ میری رہنمائی کرتا ہے He Leadeth Me‘‘ شاعر جوزف ایچ۔ گِلمور Joseph H. Gilmore، 1834۔1918؛ ڈاکٹر ہائیمرز ن
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
|