Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


بائبل کی پیشن گوئی کا ایک گمشدہ حصّہ

ہمارے لیے آج منور کیا گیا
A MISSING PIECE OF BIBLE PROPHECY
ILLUMINATED FOR US TODAY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 22 ستمبر، 2019
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, September 22, 2019

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کرکے مہر لگا…‘‘ (دانی ایل 12:4؛ صفحہ 919 سکوفیلڈ).

’’میں نے یہ سُنا لیکن سمجھ نہ پایا۔ اس لیے میں نے پوچھا، میرے خداوند، ان سب کا انجام کیا ہوگا؟ اس نے جواب دیا۔ اے دانی ایل۔ تُو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری زمانہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور ان پر مہر لگا دی گئی ہے‘‘ (دانی ایل 12:8، 9؛ صفحہ 920).

’’زمانے کے آخر‘‘ کی تفصیلات کو دانی ایل نبی سمجھ نہیں پایا تھا۔ ہمیں 8 ویں آیت میں واضح طور پر بتایا گیا ہے، ’’میں نے سُنا، لیکن سمجھ نہ پایا۔‘‘ تب خُداوند نے دانی ایل سے کہا، ’’یہ باتیں آخری زمانہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور اِن پر مہر لگا دی گئی ہے‘‘ (دانی ایل 12:9)۔

دانی ایل کو پیشن گوئی کی باتوں کی سمجھ آ گئی تھی۔ لیکن اُسے یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ آخری زمانہ کے واقعات کیسے ہونگے۔ ’’کیونکہ وہ باتیں آخری زمانہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہیں‘‘ (دانی ایل 12:9)۔ اُس کو یہ باتیں وحی کے ذریعے سے نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اُن کے معنوں سے تعلق رکھتے ہوئے وہ منور [آگاہ] نہیں ہوا تھا۔ اُن باتوں کی آگاہی ’’زمانوں کے آخر تک‘‘ رونما نہیں ہو گی۔ جوں جوں ہم اِس زمانے کے خاتمے کے قریب پہنچتے ہیں تو اِس پیشن گوئی کی بصیرت بڑھتی جائے گی۔

مجھے واضح طور پر یاد ہے جب پہلی مرتبہ میں نے ’’ریپچر [مسیح کے استقبال کے لیے بادلوں میں ایمانداروں کا اُٹھایا جانا]‘‘ کے بارے میں سُنا۔ میرے اُستاد نے ہمیں بتایا تھا کہ ریپچر سات سالہ مصائب کے زمانے سے پہلے رونما ہو گا۔ میں نے اُستاد سے پوچھا تھا کہ بائبل میں کہاں تعلیم دی گئی ہے کہ ریپچر مصائب سے پہلے رونما ہو گا۔ وہ میرے سوال کا جواب نہ دے پائے۔ پس، میں کئی دہائیوں تک سات سالہ مصائب سے پہلے ’’کسی بھی لمحے‘‘ والے ریپچر کا سوال کرتا۔ پھر مجھے معلوم پڑا کہ مصائب سے قبل ازیں ریپچر کی شہرت پہلے جے۔ این۔ ڈاربی J. N. Darby کے ذریعے سے ہوئی تھی، اور ڈاربی نے اِس کو مارگریٹ میکڈونلڈ نامی ایک پندرہ سالہ لڑکی سے ’’پایا‘‘ تھا، جو کرشماتی مشن سے تعلق رکھتی تھی اور اُس نے اِس کے بارے میں ’’خواب‘‘ دیکھا تھا۔ کسی وجہ سے جے۔ این۔ ڈاربی نے اِس کا اِعلان شروع کر دیا۔ بعد میں اِس کا اِعلان سیکوفیلڈ مطالعہ بائبل میں سی۔ آئی۔ سیکوفیلڈ C. I. Scofield کے ذریعے سے کیا گیا۔ اب یہی نئے ایونجیلیکلز کی اکثریت کی صورتحال ہے۔

پھر ماروِن جے۔ روزنتھال Marvin J. Rosenthal نے قہر سے قبل کلیسیا کا ریپچر The Pre-Wrath Rapture of the Church (تھامس نیلسن، 1990) نامی ایک کتاب لکھی۔ میں جبکہ ہر اُس بات سے جو روزنتھال نے لکھی متفق نہیں ہوتا ہوں، میں سوچتا ہوں اُنہوں نے ’’ریپچر‘‘ کب رونما ہوگا اِس کے بارے میں بہتر طور پر سمجھنے کے لیے دروازہ کھولا ہے۔ محترم روزنتھال کے نظریے پر تنقید کرنے سے پہلے کتاب حاصل کریں اور اِس کو احتیاط کے ساتھ پڑھیں۔ وہ سیکھاتے ہیں کہ ’’ریپچر‘‘ بہت بڑے مصائب کے زمانے کے خاتمے کے قریب رونما ہو گا، مکاشفہ 16 باب میں ’’قہر کے پیالوں‘‘ میں خدا کے قہر کے اُنڈلنے سے تھوڑا عرصہ پہلے۔ اِس بات کی مجھے سمجھ آتی ہے – ایک نوعمر کے خواب پر مشتمل سمجھ کے مقابلے میں کہیں بہتر طور پر سمجھ آتی ہے!

یہ اہم کیوں ہے؟ میں آپ کو بتاؤں گا کیوں۔ اگر ریپچر سات سالہ مصائب سے پہلے آتا ہے، تو مسیحیوں کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس ہجوم کے ساتھ اِتوار کی صبح ایک گھنٹے کے لیے جائیں! آپ کو کسی بشر کو جیتنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو بے دین لوگوں سے علیحدہ ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ اینٹی نومیئین اِزم کو پیدا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ۔

اِس پیغام کا عنوان ہے، ’’بائبل کی پیشن گوئی کا ایک گمشدہ حصہ ہمارے لیے آج منور کیا گیا۔‘‘ وہ ’’گمشدہ حصہ‘‘ ہے کیا؟‘‘ وہ ہے ’’اِرتداد یا ایمان سے برگشتگی The Apostasy۔‘‘ میں 50 سالوں سے زیادہ عرصے سے بائبل کی پیشن گوئی کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں۔ یہ مجھے اِتنا ہی عجیب طور پر کھٹکتا ہے کہ اِس قدر زیادہ اہم موضوع کوجیسا کہ ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ ہمارے زمانے میں اِس قدر زیادہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ میرے پاس میری میز پر بائبل کی پیشن گوئی پر تین کتابیں ہیں – جو موضوع کے تمام اہم نکات پر بات کرتی ہیں۔ وہ نیک اور دیندار لوگوں نے لکھی تھیں، وہ لوگ جن پر اِس اہم موضوع کے لیے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُن میں سے ایک میں بھی ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ پر کوئی سیکشن نہیں ہے۔ اور ہمارے لیے آج ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ ایک اہم موضوع ہے۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

مہربانی سے 2۔ تھسلنیکیوں 2:3 کھولیں۔ یہاں یہ کنگ جیمس بائبل میں ہے،

’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ پہلے ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (2۔ تھسلنیکیوں 2:3؛ صفحہ 1272 سکوفیلڈ).

یہاں وہ آیت ہے، جیسے اِس کا نئی امریکی معیاری بائبل (NASB) میں ترجمہ کیا گیا ہے،

’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن [خداوند کا دن] نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (2۔ تھسلنیکیوں 2:3، NASB).

’’ایمان سے برگشتگی‘‘ کا ترجمہ “hē apostasia” ہے۔ کنگ جیمس بائبل میں اِس کا ترجمہ ’’برگشتگی‘‘ بھی ہے۔

ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell نے کینٹکٹیKentucky کے شہر لوئیسویلLouisville میں مغربی بپٹسٹ علم الہٰیات کی سیمنری سے یونانی تنقیدی تاویلGreek exegesis کرنے میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری کی۔ ڈاکٹر کرسویل نے ہمیشہ نئے عہد نامے میں یونانی الفاظ پر انتہائی گہری توجہ دی۔ ڈاکٹر کرسویل نے کہا، ’’خُداوند کے دِن سے پہلے اقراری ایمانداروں کی ایک واضح برگشتگی وقوع ہوگی۔ اُس آرٹیکل article [hē] کا استعمال نشاندہی کرتا ہے کہ پولوس کے ذہن میں ایک مخصوص برگشتگی تھی۔‘‘ یہ بات جانتے ہوئے، ہم 2۔ تھسلنیکیوں2:3 سے دو اہم باتیں سیکھتے ہیں،

1۔ خداوند کے دِن سے پہلے، یہ برگشتگی رونما ہو جائے گی۔

2۔ خُداوند کے دِن سے پہلے، دشمنِ مسیح [دجال] ’’افشا‘‘ ہو جائے گا۔


یہ دونوں ہی باتیں خُداوند کے دِن سے پہلے رونما ہو جائیں گی، جو کہ وہ بہت بڑے مصائب اور اِس زمانے کے خاتمے پر خُداوند کے قہر کا وقت ہے۔ اُس قبل ازیں مصائب کے دور کے ریپچر والے نظریے نے پہلے ہی سے سارے مسیحیوں کو خارج کر دیا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ کی آج ایونجیلیکل مسیحیوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج بائبل کی پیشن گوئی پر زیادہ تر کتابوں میں ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ کے موضوع پر کوئی سیکشن ہی نہیں ہے!

لیکن اگر ماروِن روزنتھال درست ہیں، اور وہ دُرست ہیں، تو ہم بالکل اِسی وقت ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ کے شروع میں ہیں! یہ بات کیسے آج مسیحیوں پر اثرانداز ہوتی ہے؟ ’’تیسری دُنیا‘‘ میں، پہلے کے کسی دور کے مقابلے میں اُنہیں آج اور زیادہ شدید طور سے اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اور ’’مغربی دُنیا‘‘ میں ہم شیطان اور اُس کے آسیبوں کے بہت بڑے حملوں کے تحت ہیں۔ دانی ایل نبی کو اِن باتوں کے بارے میں بتایا گیا تھا، لیکن اُس نے کہا، ’’میں نہیں سمجھ پایا۔‘‘ تب خُداوند نے دانی سے کہا، ’’یہ باتیں آخری زمانہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور ان پر مہر لگا دی گئی ہے‘‘ (دانی ایل 12:8، 9)۔

جان ایس۔ ڈِکرسن John S. Dickerson بہت بڑے ایونجیلیکل خلا پر The Great Evangelical Recession (بیکر کُتب Baker Books، 2013) نامی ایک بہت اچھی کتاب لکھ چکے ہیں۔ ڈِکرسن گیب لیوانز Gabe Lyons کا حوالہ دیتے ہیں، جنہوں نے کہا،

’’یہ لمحہ تاریخ میں کسی دوسرے زمانے کے برعکس ہے۔ اِس کا انوکھا پن ایک خالص ردعمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم آگے بڑھنے کے لیے ایک مخلتف راہ پیش کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، تو ہم ساری کی ساری نسلوں کو مُردہ دِلی اور اندیشوں کے احساسات میں [کھو دیں گے]… ہمارے دوست دوسری قسموں کی پرستش کے لیے بھٹکنا جاری رکھیں گے… کم مدت میں، لیکن زیادہ متاثرکُن طور پر (مستقبل کے مسیحی The Next Christians، ڈبل ڈے Doubleday، 2010، صفحہ 11؛ میں نے اصرار کیا)۔

ڈِکرسن کی کتاب کا جِلدی ورق کہتا ہے،

’’امریکی کلیسیا… سُکڑ رہی ہے۔ نوجوان مسیحی غائب ہو رہے ہیں۔ ہمارے عطیات ختم ہوتے جا رہے ہیں… ریاست ہائے متحدہ کی تہذیب بہت جلدی سے مخالفانہ اور متنفر ہو رہی ہے۔ ہم کیسے ایک تباہ کُن ہار سے بچ سکتے ہیں؟‘‘

میں جبکہ جان ڈِکرسن کی کتاب کے پہلے حصے کو چاہتا ہوں، میں آخری سیکشن کے زیادہ تر حصے سے غیرمتفق ہوں کہ تیار کیسے کیا جائے۔

تیار کرنے کے لیے ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم بالکل اِسی وقت ’’ایمان کی برگشتگی‘‘ کے شروع ہی میں ہیں۔ اگر ہم یہ سوچیں کے مذید اور زیادہ پریشان حالات ہونے سے پہلے ہی ہمیں ریپچر [مسیح کے استقبال کے لیے بادلوں میں اُٹھایا جانا] کر لیا جائے گا، تو ہم جو ہونے والا ہے اُس کے لیے تیار نہیں ہونگے۔

پاسٹر رچرڈ وورمبرانڈ Richard Wurmbrand ایک ایونجیلیکل منسٹر تھے جنہوں نے کیمونسٹوں کے قید خانے میں 14 سال گزارے، اُنہیں رومانیہ میں مسیح کے لیے اذیتیں دی گئیں تھی۔ امریکہ میں مسیحی جتنی اذیتوں کو جانتے ہیں اُن کے مقابلے میں اُن کے قید کے تجربات کہیں زیادہ ناقابلِ فہم ہیں۔ اُن کے قیدخانہ میں چوہے رات میں اُن کے پیروں کو کھا گئے۔ اُنہیں مارا پیٹا گیا۔ سلگتی سلاخوں نے اُن کی گردن اور جسم پر ہولناک گھاؤ چھوڑے ہیں۔ مرنے کی حد تک اُنہوں نے [قید میں] فاقے کیے۔ اور یہ ہولناکیاں 14 سالوں تک جاری رہی۔ اِس کے سبب سے پاسٹر وورمبرانڈ نے جس کو وہ ’’اذیتوں کا علم‘‘ دُکھوں کو جھیلنے کا فلسفہ مُرتب کیا۔ (معجزانہ طور پر) امریکہ میں آنے کے بعد اُنہوں نے بہت سارے گرجا گھروں میں دُکھوں کے لیے تیاری کی ضرورت کی تعلیم دی – بشمول خود ہمارے اپنے گرجا گھر کے۔ پاسٹر وورمبرانڈ نے تعلیم دی کہ امریکہ میں مسیحیوں کو دُکھوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہمیں ابھی سے تیاریاں کرنی ہیں، اِس سے پہلے کہ ہمیں قید کر دیا جائے۔ قید میں آپ سب کچھ کھو دیتے ہیں… کچھ بھی ایسا نہیں بچتا جو زندگی کو خوشگوار کرے۔ کوئی بھی جس نے پہلے سے ہی زندگی کی لذتوں سے دستبرداری نہ کی ہو مزاحمت نہیں کر پاتا‘‘ (قوموں کو خوش ہونے دیں Let the Nations Be Glad میں جان پائیپر نے حوالہ دیا، بیکر کُتب، 2020، صفحہ 10)۔

ڈاکٹر پال نائی کوئیسٹ Dr. Paul Nyquist نے کہا، ’’تیار ہو جائیں۔ جوں جوں تہذیبی تبدیلیاں ہمارے مُلک میں پھیلتی جا رہی ہیں، ہمیں جلد ہی ویسی زندگی گزارنے کے لیے مقابلہ کرنا پڑے گا جس کے بارے میں بائبل کہتی ہے… اذیتوں کا جواباً ردعمل‘‘ (جے۔ پال نائی کوئیسٹ J. Paul Nyquist، تیار ہو جائیں: ایک بڑھتی ہوئی مخالفانہ تہذیب میں اپنے ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرنا Prepare: Living You Faith in an Increasingly Hostile Culture، موڈی پبلیشرز، 2015، صفحہ 14)۔

نوح کے دِن ایمان سے برگشتگی ہیں

یسوع نے کہا،

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (نوح 24:37۔39؛ صفحہ 1034).

بے شمار ایونجیلیکلز سوچتے ہیں کہ نوح کے دِن بہت شدید مصائب کا زمانہ تھے۔ لیکن یہاں اُس سے زیادہ ہے۔ نوح کے دِنوں میں ’’لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا‘‘ (متی24:38)۔

بالکل یہی ہے جو امریکہ اور مغربی دُنیا میں رونما ہو رہا ہے! ’’تیسری دُنیا‘‘ میں اِس سے کہیں زیادہ اذیتیں ہیں۔ چین جیسی جگہوں پر حقیقی حیات نوع بھی ہیں۔ لیکن امریکہ اور مغربی میں نہیں! یہاں پر لوگ مادیت پرستی کے لیے فکرمند ہیں۔ یہ عام سی کرنے والی باتیں لگتی ہیں۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اُن کی زندگیوں کا مرکز ہے – ’’کھانا اور پینا اور شادی بیاہ کرنا کرانا۔‘‘ اُنہوں نے سوچا وہی باتیں ہیں زندگی گزارنے کے لیے! اُن کی زندگیوں کا مرکز خُدا نہیں تھا! یہ زندگی کی مادی چیزیں تھیں جو اُن کے لیے سب سے زیادہ اہم تھیں!

لودیکیہ کی کلیسیا ایک تصویر ہے امریکہ اور مغربی میں کلیسیاؤں کی

یسوع نے کہا،

’’لودیکیہ کی کلیسیا کے فرشتہ کو لکھ، جو آمین اور قابلِ اعتماد، برحق گواہ اور خدا کی خلقت کا مَبداء ہے یہ فرماتا ہے کہ میں تیرے کاموں سے واقف ہُوں کہ تُو نہ تو سرد ہے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد ہوتا یا گرم۔ پس چونکہ تُو نہ گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہے اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہُوں۔ تُو کہتا ہے کہ تُو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تُو یہ نہیں جانتا کہ تُو بد بخت، بے چارہ، غریب، اندھا اور ننگا ہے۔ میں تجھے صلاح دیتا ہُوں کہ مجھ سے آگ میں تپایا ہُوا سونا خرید لے تاکہ دولتمند ہو جائے اور پہننے کے لیے سفید پوشاک حاصل کرلے تاکہ ننگا رہ کر شرمندہ نہ ہونے پائے اور اپنی آنکھوں میں ڈالنے کے لیے سُرمہ لے لے تاکہ بینا ہو جائے۔ میں جنہیں پیار کرتا ہُوں اُنہیں ڈانٹتا بھی ہُوں اور تنبیہ بھی کرتا ہُوں۔ اِس لیے پُرجوش ہو اور توبہ کر‘‘ (مکاشفہ 3:14۔19؛ صفحہ 1334).

یہ ایک مُرتد کلیسیا کی تصویر ہے۔ یہ وہ کلیسیا ہے جو نیم گرم [لاپرواہ] ہے، ’’اور نہ ہی سرد نہ گرم‘‘ (مکاشفہ3:16)۔ یہ غیرنجات یافتہ لوگوں سے بھری ہوئی ایک کلیسیا ہے (مکاشفہ3:17)۔ یہ وہ کلیسیا ہے جس نے توبہ کرنے سے انکار کر دیا تھا (مکاشفہ3:19)۔

ہم گذشتہ 40 برسوں میں گرجا گھروں کی دو تقسیمیں دیکھ چکے ہیں۔ دونوں ہی مرتبہ جن لوگوں نے ہمیں چھوڑا وہ لوگ تھے جو ’’نیم گرم [لاپرواہ] تھے۔ وہ دونوں ہی بشروں کو جیتنے کے معاملے میں ’’نیم گرم [لاپرواہ]‘‘ بن گئے۔ دونوں ہی نے سنجیدہ مسیحیت کو مسترد کر دیا۔ وہ باتیں جنہوں نے لوگوں کو ہمارے سے ہٹا کر اُن کی طرف کھینچا یہ تھیں کہ ہم ’’بہت زیادہ سخت‘‘ تھے اور اُنہیں زیادہ مزہ آتا اگر وہ ہمیں چھوڑ دیتے۔ لیکن دونوں ہی مرتبہ وہ ایک ’’شعلہ فشاں‘‘ کلیسیا پانے میں ناکام رہے۔ اُن دونوں ہی کو (بہت تاخیر) سے پتا چلا کہ خود اُن کے اپنے لوگوں کو ایک نیم گرم [لاپرواہ] ماحول میں نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ دونوں ہی آخر میں ناکام رہے۔ یسوع نے کہا، ’’میں تجھے اپنے مُنہ سے اُگل [اُلٹی کر] دوں گا‘‘ (مکاشفہ3:16)۔ وہ دُنیا سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا وہ دُنیا، لوگوں اور ابلیس کے ذریعے سے خُفیہ طریقے سے شامل ہو گئے۔ وہ فوجی بنیاد پرست ہونا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا وہ جلد ہی نیم گرم نئے ایونجیلیکلز بن گئے! روحانی طور پر وہ جلدی سے صرف آدھے زندہ بنے – یا بدتر!

خود سے پوچھیں۔ اگر وہ لوگ جو چعین Chan کے ساتھ چھوڑ کر چلے چین میں ہوتے، تو کیا وہ زیر زمین گرجا گھروں ٹکے ہوتے، یا کیا وہ کیمونسٹوں کے آسرے والے ’’تین ذاتی گرجا گھر Three-Self Church‘‘ میں جا چکے ہوتے؟ جواب آپ کو معلوم ہے! جواب آپ کو پہلے ہی سے معلوم ہے! وہ واقعی میں سچی مُچی کیمونسٹ گرجا گھروں میں بھاگ چکے ہوتے۔ کیوں؟ کیوںکہ وہ حقیقی مسیحیت نہیں چاہتے تھے۔ اُن کے مُنہ ایک دھیمے، نئے ایونجیلیکل ’’گرجا گھر‘‘ کے لیے بھوکے تھے۔ اور یہی ہے جو مُرتد چعین نے اُنہیں پیش کیا! ایک دھیما، نیا ایونجیلیکل ’’گرجا گھر‘‘۔ آپ یہ جانتے ہیں! آپ یہ پہلے ہی سے جانتے ہیں!!! میں آپ کو کوئی نئی بات نہیں بتا رہا ہوں!!!

میں اِس پیغام کو ہمارے دِنوں میں نئے ایونجیلیکل گرجا گھروں میں ایمان سے برگشتگی کی ایک تفصیل کے ساتھ ختم کروں گا،

’’لیکن یاد رہے کہ آخری زمانہ میں بُرے دن آئیں گے لوگ خُود غرض، زَردوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والے، بے ضبط، تُند مزاج، نیکی کے دشمن، دغاباز، بے حیا، گھمنڈی، خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ہوں گے۔ وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے۔ ایسوں سے دُور ہی رہنا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:1۔5؛ صفحہ 1280، 1281).

’’یہ سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:7؛ صفحہ 1281).

’’دراصل جتنے لوگ مسیح یسوع میں دیندار زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:12؛ صفحہ 1281).

’’کلام کی منادی کر، وقت بے وقت تیار رہ، بڑے صبر اور تعلیم کے ساتھ لوگوں کو سمجھا، ملامت اور نصیحت کر۔ کیونکہ ایسا وقت آ رہا ہے کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہیں کریں گے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق بہت سے اُستاد بنالیں گے تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا معلوم ہو۔ وہ سچائی کی طرف سے کان بند کر لیں گے اور کہانیوں کی طرف توجہ دینے لگیں گے۔ مگر تُو ہر حالت میں ہوشیار رہ، دُکھ اُٹھا، مُبشر کا کام انجام دے اور اپنی خدمت کو پورا کر‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:2۔5؛ صفحہ 1281).

’’کیونکہ دیماس نے دُنیا کی محبت میں پھنس کر مجھے چھوڑ دیا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:10؛ صفحہ 1281).

’’میں تُم سے التماس کرتا ہُوں کہ جو لوگ اُس تعلیم کی راہ میں جو تُم نے پائی ہے روڑے اٹکاتے اور لوگوں میں پھوٹ ڈالتے ہیں، اُن سے ہوشیار رہو اور اُن سے دُور ہی رہو۔ کیونکہ ایسے لوگ ہمارے خداوند مسیح کی نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں اور چِکنی چُپڑی باتوں اور خُوشامد سے سادہ دلوں کو بہکاتے ہیں‘‘ (رومیوں 16:17، 18؛ صفحہ 1210).

میرے پیارے بھائیوں اور بہنو، عظیم نبی دانی ایل اُن باتوں کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا تھا جن کی تبلیغ میں آج کی رات آپ کو کر چکا ہوں۔ لیکن خُدا کا شکر ادا کریں کہ اُس [خُدا] نے ماروِن روزنتھال نامی جیسا ایک مشنری ہمیں بتانے اور ’’ریپچر کے بارے میں ایک نئی سمجھ پیش کرنے کے لیے کھڑا کیا۔ بہت بڑے مصائب اور یسوع کی دوسری آمد‘‘ سمجھانے کے لیے کھڑا کیا (کلیسیا کے ریپچر کا قبل ازیں قہر The Pre-Wrath Rapture of the Church کی کتاب کا جلدی ورق، تھامس نیلسن، 1990)۔

جی ہاں، ہم اِس وقت زمانے کے خاتمے کے قریب بہت بڑی ایمان سے برگشتگی کے شروع کے مرحلے میں ہیں۔ جی ہاں، ہمیں اذیتوں میں سے گزرنا پڑے گا، جیسے چین کے لوگ گزر رہے ہیں، جیسے رچرڈ وورمبرانڈ گزرے، جیسے ’’تیسری دُنیا‘‘ میں لوگ گزر رہے ہیں۔ لیکن وہ جو مسیح سے محبت کرتے ہیں آخر میں فاتح ہوں گے، کیوںکہ یسوع نے کہا،

’’چونکہ تُو نے اُس صبر اور برداشت کے حکم کو جو میں نے تجھے دیا تھا، مانا ہے، میں بھی آزمائش کے اُس وقت جو تمام اہلِ دُنیا پر آنے والا ہے، تیری حفاظت کروں گا۔ میں جلد آ رہا ہُوں۔ جو کچھ تیرے پاس ہے اُسے سنبھالے رکھ تاکہ تیرا تاج کوئی چھین نہ لے۔ جو غالب آئے گا، میں اُسے اپنے خدا کی ہیکل میں ایک ستون بنا دُوں گا۔ وہ وہاں سے کبھی باہر نہ نکلے گا اور میں اُس پر اپنے خدا کا نام اور اپنے خدا کے شہر کا نام لکھوں گا یعنی نئے یروشلیم کا نام جو میرے خدا کی طرف سے آسمان سے اُترنے والا ہے اور میں اُس پر اپنا نیا نام بھی تحریر کروں گا۔ جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ 3:10۔13؛ صفحہ 1334).

مہربانی سے کھڑیں ہوں اور ’’کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں؟ Am I a Soldier of the Cross?‘‘ کا بند نمبر 1، 2 اور 4 گائیں۔

کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں، برّے کے پیچھے چلنے والا،
اور کیا مجھے اُس کے مقصد کو اپنانے سے خوفزدہ ہونا چاہیے، یا اُس کا نام بولنے سے شرمندہ ہونا چاہیے؟

کیا مجھے آسمان پر سہولت کے پھولدار بستروں پر لے جایا جانا چاہیے،
جبکہ دوسرے انعام جیتنے کے لیے لڑیں، اور خونی سمندروں میں سے گزریں؟

یقیناً مجھے لڑنا چاہیے، اگر مجھے حکومت کرنی ہے؛ خُداوندا! میرے حوصلے کو بڑھا،
میں سختیوں کو جھیلوں گا، درد کو برداشت کروں گا، تیرے کلام کے سہارے کے ذریعے سے۔
     (’’کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں؟Am I a Soldier of the Cross?‘‘ شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔