اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
بھروسہ اور فرمانبرداریTRUST AND OBEY! ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کی جانب سے ’’میں خود بھی کسی کے اِختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اِختیار میں ہیں اور جب میں ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ چلا جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آ جاتا ہے اور کسی نوکر سے کچھ کرنے کو کہوں تو وہ کرتا ہے‘‘ (لوقا7: 8)۔ |
یہ کس نے کہا؟ ایک رومی افسر نے کہا۔ وہ رومی فوج کا ایک صوبہ دار تھا جس کے ماتحت 100 سپاہی تھے۔ اس کا خادم مرنے والا تھا (آیت 2)۔ یہ صوبہ دار یہودیوں کے لیے اس طرح کا نہیں تھا جیسا کہ بہت سے رومیوں کے لیے تھے۔ وہ یہودیوں کا دوست تھا۔ اس نے ان کے لیے ایک عبادت گاہ بنانے کے لیے ادائیگی کی (آیت 5)۔ اسے حقیقی خدا میں دلچسپی تھی۔ اس نے یہودی بزرگوں کو بھیجا کہ وہ یسوع سے اپنے خادم کو شفا دینے کے لیے کہے (آیات3، 4)۔ یسوع اس آدمی کے گھر کے قریب پہنچا۔ صوبہ دار نے مسیح سے کہا، ’’تجھے یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا
’’اے خداوند! تکلیف نہ کر، میں اِس لائق نہیں کہ تو میری چھت کے نیچے آئے۔ اِسی لیے میں نے خود کو بھی اِس لائق نہیں سمجھا کہ تیرے پاس آؤں۔ تو صرف زبان سے کہہ دے اور میرا خادم شفا پا جائے گا۔ کیونکہ میں خود بھی کسی کے اِختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اِختیار میں ہیں اور جب میں ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ چلا جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آ جاتا ہے اور کسی نوکر سے کچھ کرنے کو کہوں تو وہ کرتا ہے‘‘ (لوقا7: 6۔8)۔
یسوع نے کہا، ’’میں نے اسرائیل میں اِس سے عظیم ایمان نہیں پایا‘‘ (آیت 9)۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ صوبہ دار کا ”ایمان عظیم“ تھا؟ اس آدمی نے یسوع پر بھروسہ کیا کہ وہ [اُس کے] گھر آئے بغیر اُس کے نوکر کو شفا دے گا۔ اس نے ایسا کرنے کے لیے مسیح پر بھروسہ کیوں کیا؟ کیونکہ وہ اپنے سپاہیوں پر بھروسہ کرتا تھا کہ وہ جو کہے گا وہ کریں۔ کیونکہ اس کے جنرل نے اس پر بھروسہ کیا کہ وہ وہی کرے گا جو اسے کہا گیا تھا۔ صوبہ دار نے ”بھروسہ اور فرمانبرداری“ کرنا سیکھ لیا تھا۔ جیسا کہ حمد و ثنا کا ایک پرانا گیت کہتا ہے،
فرمانبرداری اور بھروسہ کریں، کیونکہ کوئی اور دوسری راہ نہیں ہے
بھروسہ اور فرمانبرداری کر کے صرف یسوع میں خوش رہنے کے لیے۔
(’’بھروسہ اور فرمانبرداریTrust and Obey‘‘ شاعر جان ایچ۔ سیم مسJohn H. Sammis، 1846۔1919)۔
وہ صوبہ دار یسوع میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا، لیکن وہ رومی ثقافت سے آیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دوسرے رومیوں کے ساتھ پلا بڑھا تھا اور جس طرح وہ کام کرتے تھے اسی طرح اُس نے کام کرنا سیکھا۔ اس ثقافت میں لوگ وہی کرتے تھے جو وہ کہتے تھے۔ انہوں نے بھروسہ کرنا اور فرمانبرداری کرنا سیکھ لیا تھا۔ ان کی زندگی اسی طرح تھی۔ یہ ان کی ثقافت تھی۔ اس لیے اس نے اپنے خادم کو شفا دینے کے لیے یسوع پر بھروسہ کیا۔ آج صبح میں اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ کتنی اچھی ایک ثقافت ہےجو بھروسہ کرتی ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتی ہے اس [ثقافت] نے اُس کے لیے کیا کیا، اور یہ ہمارے لیے کیا کر سکتی ہے۔
I۔ پہلی بات، وہ صوبہ دار اور اُس کی ثقافت۔
صوبہ دار نے یسوع سے کہا، ’’تجھے یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تو یہاں آئے بغیر بھی میرے خادم کو ٹھیک کر سکتا ہے۔ اس نے ایسا کیوں سوچا؟ یہی اس کی ثقافت تھی۔ وہ دوسرے رومیوں کے ساتھ پلا بڑھا تھا۔ اس نے ان جیسا بننا سیکھا تھا۔ اسے توقع تھی کہ چیزیں ہو جائیں گی۔ وہ ”ایک صاحب اختیار آدمی“ تھا۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ کیا کرنا ہے، اور اس نے کر دکھایا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو کہا کہ کیا کرنا ہے، اور انہوں نے یہ کیا۔ اس نے بھروسہ کرنا اور فرمانبرداری کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس آدمی کو توقع تھی کہ چیزیں ٹھیک ہوں گی، گڑبڑ نہیں ہوئی۔
وہ صوبہ دار کیسا تھا؟ اس نے نہ سکول چھوڑا، نہ فوج کو چھوڑا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو وہ صوبہ دار نہیں بنتا۔ وہ اچانک نہیں متحرک ہوا تھا اور پیچھا چھڑانے والی بات نہیں کی تھی۔ اس نے کچھ شروع کیا تو اسے ختم کیا۔ وہ رومی فوج تھی۔
مجھے آپ سے ایک سوال پوچھ لینے دیں۔ روم نے دنیا کے بیشتر حصے پر قبضہ کیوں کیا؟ آج روم کے بارے میں بننے والی فلموں میں رتھ [گھوڑا گاڑیوں] کی دوڑیں، پیشہ ور شمشیر زنوں کی لڑائی، اور شہنشاہ [جو] لیٹا ہوا ہوتا ہے کسی کو اُس کے منہ میں انگور ڈالتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ اس قسم کے آدمی نے دنیا کو فتح نہیں کیا۔ یہ نیرو جیسے لوگوں کے ذریعے نہیں ہوا۔ روم نے اپنی جنگیں صوبہ دار جیسے مردوں کی وجہ سے جیتیں۔ ان کا مطلب وہی تھا جو انہوں نے کہا۔ انہوں نے جو کہا وہ کیا۔ انہوں نے بھروسہ کیا اور فرمانبرداری کی۔
ان کا ایک قول یہ تھا کہ ’’رومن کی زبان اس کی ضمانت ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بات کی لاج رکھی۔ لیکن آج بہت سے لوگ اپنی بات کو توڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے وعدوں کی نہیں بلکہ اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں۔ آپ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ اچھی کلیسیا نہیں پا سکتے!
صوبہ دار روم کے لیے جان دینے کو تیار تھا۔ وہ روم کی خاطر پہاڑوں اور صحراؤں میں سے گزر کر لڑے گا۔ وہ حکم کی نافرمانی کرنے کے بجائے مرنا پسند کرے گا۔ یہ رومی طریقہ تھا۔ بچے اپنے باپ کی بات مانتے تھے۔ سپاہیوں نے اپنے افسروں کی فرمانبرداری کی۔ آج بہت سے لوگ ایسے نہیں ہیں۔ وہ اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں، وہ نہیں جو خدا بائبل میں کہتا ہے۔ آپ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ اچھی کلیسیا نہیں پا سکتے۔ صوبہ دار سے سیکھیں! ’’بھروسہ اور فرمانبرداری‘‘ کرنا سیکھیں۔
اسی طرح روم کی تعمیر ہوئی تھی۔ جب رومیوں نے پرانے طریقے ترک کر دیے اور ایک ہجوم میں تبدیل ہو گئے جو مسیحیوں کو شیروں کے ذریعے سے کھاتے ہوئے دیکھتے تھے جبکہ ان کے شہنشاہ انگور کھاتے تھے تو ان کی سلطنت نے بڑھنا بند کر دیا۔ پھر زوال پزیر ہونا شروع ہو گئی۔ آج ان کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کی سلطنت ختم ہو چکی ہے۔
لیکن وہ صوبہ دار پرانے طریقوں سے زندہ رہا۔ میں اُسے اِجلاس میں دیر سے پہچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ کبھی نہیں پیچھا نہیں چھڑاتا۔ اس نے کبھی شہنشاہ کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ اس نے کبھی اپنے جنرل کی نافرمانی نہیں کی۔ اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ وہ توّکل کرنے والا اور فرمانبرداری کرنے والا شخص تھا۔ اس لیے اس نے یسوع سے کہا،
’’میں خود بھی کسی کے اِختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اِختیار میں ہیں اور جب میں ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ چلا جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آ جاتا ہے اور کسی نوکر سے کچھ کرنے کو کہوں تو وہ کرتا ہے‘‘ (لوقا7: 8)۔
آج کل زیادہ تر لوگ ان جیسے نہیں ہیں۔ وہ اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ اپنے وعدے توڑتے ہیں۔ وہ اپنی بری ثقافت کی پیروی کرتے ہیں، وہ برے کام جو انہوں نے دوسرے لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ کے پاس اُس جیسی اچھی کلیسیا نہیں ہو سکتی۔ بائبل کلیسیا کی ثقافت کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے۔ یہ بات مجھے دوسرے نکتے کہ طرف لے آتی ہے۔
II۔ دوسری بات، کلیسیا اور اُس کی ثقافت۔
بائبل صرف نجات، انجیلی بشارت اور دعا کے بارے میں بات نہیں کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ کلیسیا کی ثقافت کیا ہونی چاہیے، کلیسیا میں رہنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ خُدا گرجا گھروں کو منظم رہنے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ صوبہ دار تھا۔ بائبل کہتی ہے،
’’یہ سب کچھ شرافت اور سلیقہ سے عمل میں آیا‘‘ (1 کرنتھیوں14: 40)
شرافت اور سلیقے سے کیا کیا جانا چاہئے؟ ساری باتیں!
بائبل مسیحیوں کو بتاتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو کیسے ’’شرافت اور سلیقے سے‘‘ گزاریں۔ طیطُس کی کتاب، باب 2، آیات 1 سے 6 کی طرف رجوع کریں۔ یہ اسکوفیلڈ اسٹڈی بائبل کے صفحہ 1284 پر ہے۔ سنیں جب میں اسے پڑھتا ہوں۔
’’لیکن تو وہ باتیں بیان کر جو صحیح تعلیم کے مطابق ہوں۔ بزرگوں کو سِکھا کہ وہ پرھیز گار، سنجیدہ اور سمجھدار ہوں اور صحیح ایمان، صبر اور محبت سے کام کریں۔ اِسی طرح سے بزرگ خواتین کو سمجھا کہ وہ بھی پاکیزہ زندگی بسر کریں اور اِلزام تراشی سے دور رہیں اور شراب نوشی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ نیک باتوں کی تعلیم دینے والی ہوں تاکہ جوان عورتوں کو سِکھا سکیں کہ وہ اپنے شوہروں اور بچوں کو پیار کریں۔ سمجھدار، پاکدامن، گھر کا کام کرنے والی اور مہربان ہوں اور اپنے شوہروں کی اطاعت کریں تاکہ خدا کے کلام کی بدنامی نہ ہو۔ اِسی طرح نوجوانوں کو بھی نصیحت کی کہ وہ بھی سمجھدار بنیں‘‘ (طیطُس2: 1۔6)۔
خدا کیسا شخص چاہتا ہے؟ یہ آیات کس ثقافت کی تعلیم دیتی ہیں؟ یہ [آیات] مسیحیوں کو باتیں ”شرافت اور سلیقے سے“ کرنا سکھاتی ہیں۔ وہ لوگوں کو محتاط اور سنجیدہ ہونے کو کہتی ہیں۔ وہ لوگوں کو خود سے بہتر روئیہ کا برتاؤ کرنے کو کہتی ہیں۔ کیا وہ کبھی خوش تھے؟ یقیناً وہ تھے! کیا انہوں نے کبھی مزہ کیا؟ یقینا انہوں نے کیا! لیکن انہوں نے خود کو تمیزدار رکھا۔ یہ پرانے زمانے کی بات لگتی ہے، لیکن یہ وہی ہے جو بائبل کہتی ہے!
آج بے شمار کلیسیاؤں کی ثقافت بُری ہو چکی ہے۔ وہ دنیاوی راہ روی کی پیروی کرتے ہیں۔ اِک اِتوار کو میں نے انجیلی بشارت کے ایک نئے گرجا گھر کا دورہ کیا۔ زیادہ تر لوگ ٹی شرٹس اور جینز میں ملبوس تھے حتّیٰ کے کچھ تو نیکروں میں تھے۔ میں نے کہا، ’’وہ کام کے لیے اس طرح کے لباس نہیں پہنتے۔ لوگوں کو گرجا گھر کے لیے کام کی نسبت بہتر لباس پہننا چاہیے، بدتر نہیں۔ موسیقی کا مقصد لوگوں کو محظوظ کرنا تھا، خدا کی عبادت کے لیے نہیں۔ میں نے ایک عورت کو گاتے ہوئے سنا، ’’میں نے ہزار بار سنا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں کہ تم ہو، لیکن تم رات کو پیار کی سرگوشی کے ساتھ آئے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں، ’’میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ گناہ پر ناراض ہیں، لیکن آپ رات کو میرے پاس محبت کے ساتھ آئے، چاہے میں کچھ بھی کروں۔‘‘ وہ غلط تھا! وہ خدا نہیں تھا، وہ شیطان تھا! واعظ میں میں نے ایک آدمی کو کہتے سنا، ’’زندگی منصفانہ نہیں ہے، لیکن خدا اچھا ہے۔‘‘ پھر اس نے لوگوں کو بتایا کہ وہ کس طرح اپنے مسائل کو سنبھال سکتے ہیں اور زندگی میں بہتر کام کر سکتے ہیں۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ اقتباس گمشدہ بدعتی رابرٹ شولر Robert Schullerکی کتاب کا عنوان تھا۔ شولر وہ مبلغ تھا جس نے جان وین John Wayne کو مرنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ جس طرح سے تھا ٹھیک تھا اور اسے نجات پانے کی ضرورت نہیں تھی۔ چار سال پہلے رابرٹ شلر مر گیا اور خدا کے انصاف کا سامنا کیا۔ لیکن اس کا پیغام زندہ رہتا ہے اور ہزاروں کو جہنم میں بھیجتا ہے۔ وہ انجیلی بشارت کا ایک نیا گرجا گھر ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اور جس پر وہ یقین رکھتے ہیں وہ دنیا کی پیروی کرتا ہے، خدا کے کلام کی نہیں!
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایک اچھا گرجا گھر کیسا ہوتا ہے۔ بائبل کہتی ہے، ’’سب کام شرافت اور سلیقے سے ہوں۔‘‘ ایک اچھے گرجا گھر میں لوگ ’’بھروسہ اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔‘‘ پہلا چینی بپتسمہ دینے والا گرجا گھر اس طرح تھا جب ڈاکٹر ٹموتھی لِنDr. Timothy Lin پادری تھے۔ اُنہوں نے کام ’’شرافت اور سلیقے‘‘ سے کیے تھے۔ چند ہفتے پہلے ڈاکٹر ہائیمرز اور میں نے شمالی کیلیفورنیا میں ایک چینی گرجا گھر کا دورہ کیا۔ اس گرجا گھر نے کاموں کو ’’شرافت اور سلیقے‘‘ سے کیا۔ اجلاس وقت پر شروع ہوا۔ سب وہاں موجود تھے۔ کوئی سستی نہیں تھی۔ لوگ اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ کوئی نافرمانی نہیں ہوئی۔ کوئی شکایت نہیں تھی۔ پادری انچارج تھا اور لوگ اس کی پیروی کرتے تھے۔ انہوں نے بھروسہ کیا اور فرمانبرداری کی۔ انہوں نے واعظ کے دوران توجہ دی۔ کسی نے آنکھیں بند نہیں کیں۔ کوئی بھی سونے نہیں گیا۔ اس گرجا گھر کے اساتذہ، رہنمائی کرنے والوں اور کارکنوں نے اپنا کام کیا۔ انہوں نے وہی کیا جو پادری نے کہا۔ وہ ان پر اعتماد کر سکتا تھا۔ تمام کام شرافت اور سلیقے سے کیے گئے۔ یہ ایک اچھے گرجا گھر کی ثقافت ہے۔
ایک اچھے گرجا گھر میں درجہ بندی اور تقسیم نہیں ہوتی ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’اپنے رہبروں کے فرمانبردار اور تابع رہو [آپ کے رہنما] کیوںکہ وہ تم لوگوں کے روحانی فائدہ کے لیے بیدار رہ کر اپنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اُنہیں اِس خدمت کا حساب خدا کو دینا ہو گا، اگر وہ اپنا کام خوشی سے کریں گے تو تمہیں فائدہ ہو گا لیکن اگر اُسے اپنے لیے تکلیف سمجھیں گے تو تمہیں فائدہ نہ ہو گا‘‘ (عبرانیوں13: 17)۔
یہ ایک اچھے گرجا گھر کی ثقافت ہے۔ اس میں تقسیم نہیں ہے۔ اگر اس میں تقسیم ہو گئی ہے، تو یہ ایک اچھا گرجا گھر نہیں ہے۔ جو لوگ گرجا گھر کو تقسیم کرتے ہیں وہ خدا کے کلام پر ’’بھروسہ اور اطاعت‘‘ نہیں کرتے۔ اور بائبل کہتی ہے،
’’بھائیو! میں ہمارے خداوند یسوع مسیح کے نام سے تم سے اِلتماس کرتا ہوں کہ تم ایک دوسرے سے موافقت رکھو تاکہ تم میں تفرقے پیدا نہ ہوں اور تم سب ایک دِل اور ایک رائے ہو کر مکمل طور پر متحد رہو‘‘ (1 کرنتھیوں1: 10)۔
یہ خدا کا کلام ہے! وہ ایک اچھا گرجا گھر ہے۔ اس میں تقسیم نہیں ہے۔ عوام ایک ساتھ متفق ہیں۔ وہ ’’وہ سب ایک دِل اور ایک رائے ہو کر مکمل طور پر متحد ہیں۔‘‘ یہ ایک گرجا گھر ہے جو بائبل کی پیروی کرتا ہے!
ایک اچھے گرجا گھر میں، کوئی درجہ بندیاں نہیں ہوتی ہیں۔ کوئی تقسیم نہیں ہوتی ہے۔ عوام اپنے آپ پر قابو رکھتے ہیں۔ وہ شکایت نہیں کرتے۔ وہ بھروسہ کرتے ہیں اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔ کیا آپ کرتے ہیں؟ وہ بائبل پڑھتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کیا آپ پڑھتے اور سوچتے ہیں؟ وہ ہر روز دعا کرتے ہیں۔ کیا آپ دعا کرتے ہیں؟ وہ واعظ سنتے ہیں۔ کیا آپ سُنتے ہیں؟ اگر پادری کچھ سکھاتا ہے تو لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں۔ تمام باتیں ’’شرافت اور سلیقے سے کی جاتی ہیں۔‘‘
ہم سان گیبریل ویلی میں ایک نیا گرجا گھر شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اگر ہم ایک اچھا گرجا گھر رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمارے پاس ایک اچھی ثقافت، سوچنے اور رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہونا چاہیے۔ ہمیں چیزوں کو ’’شرافت اور سلیقے‘‘ سے کرنا چاہیے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے، ایک اچھی ثقافت سے لوگوں کو [گرجا گھر] میں لائیں. ایسے لوگوں کو شامل کریں جنہوں نے بھروسہ کرنا اور فرمانبرداری کرنا سیکھا ہے۔ اندرون شہر کے زیادہ تر لوگوں کی ثقافت بُری ہے۔ وہ اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں۔ ہمیں بہتر ثقافت والے لوگوں کی تلاش کرنی چاہیے۔ اس لیے ہم چینی لوگوں تک خصوصی رسائی حاصل کریں گے۔ ان کی ثقافت والدین کے احترام پر زور دیتی ہے۔ یہ مطالعہ اور کام پر زور دیتی ہے۔ ان میں سے اکثر غیر مستحکم یا باغی نہیں ہیں۔ ان کے پاس کنفیوشس کی تعلیم کے ہزاروں سال ہیں۔ ثقافتی طور پر وہ باغی نہیں ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں، کام کرتے ہیں اور آپس میں اچھے برتاؤ کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی ثقافت ہے۔ انہوں نے دوسروں کے ساتھ رہ کر جنہوں نے بھروسہ کیا اور فرمانبرداری کی [اُن سے] بھروسہ کرنا اور فرمانبرداری کرنا سیکھا ہے۔
دوسری بات، ہمارے پاس جو ثقافت ہے اُس کو بہتر بنائیں (اچھا بنائیں)۔ ہماری دوبارہ کبھی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہماری تقسیم نہ ہوتی تو اب تک ہمارے پاس ہزاروں لوگ ہوتے۔ تقسیم نے ہمارے گرجا گھر کو تقریباً تباہ کر دیا تھا۔ تقسیم کو ہمارے گرجا گھر سے سبق سکھایا جانا چاہیے اور ہمیشہ کے لیے نکالنا چاہیے! دوبارہ کبھی بھی نہیں ہونی چاہیے!
ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ پیشہ ورانہ کھیلوں میں کیا کرتے ہیں۔ کوچ ہمیشہ کھلاڑیوں کو ’’بنیادی باتوں‘‘ کی مشق کرواتا ہے۔ بیس بال میں، وہ گیند کو بار بار پھینکتے ہیں۔ انہوں نے گیند کو نشانہ بنایا۔ وہ گیند کو پکڑتے ہیں۔ جی ہاں، وہ اچھے کھلاڑی ہیں اور وہ پہلے بھی یہ کام کر چکے ہیں – لیکن وہ بار بار ان کی مشق کرتے ہیں۔ باسکٹ بال میں، کھلاڑی گیند کو ڈریبل (باؤنس) کرتے ہیں۔ وہ گیند کو ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں۔ وہ پہلے بھی یہ کام کر چکے ہیں – لیکن وہ ان پر بار بار عمل کرتے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو کوچ ان سے کہتا ہے۔ وہ اپنے کوچ پر بھروسہ کرتے اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔
میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ باسکٹ بال کے وفات پا چکے ہوئے کھلاڑیوں کی طرح اتنے ہی اچھے ہوں گے؟ کیا آپ اتنا ہی بھروسہ اور فرمانبرداری کریں گے جتنا وہ کرتے ہیں؟ کیا آپ مسیحی زندگی کے بنیادی اصولوں پر عمل کریں گے؟ بنیادی اصول کیا ہیں؟ میں آپ کو ان میں سے کچھ پیش کروں گا۔ نماز کے لیے عبادت میں وقت پر جلدی آئیں۔ کیا آپ ایسا کرتے ہو؟ کیا آپ نے آج صبح ایسا کیا؟ ہر روز بائبل پڑھیں اور جو کچھ آپ پڑھتے ہیں اس کے بارے میں سوچیں۔ کیا آپ ایسا کرتے ہو؟ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ کو خدا کے کلام سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نماز کی فہرست بنائیں اور دن میں کم از کم دس منٹ دعا کریں۔ کیا آپ ایسا کرتے ہو؟ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ کو خدا کی طرف سے جواب نہیں ملے گا۔ کیا آپ وعظ کے دوران توجہ دیتے ہیں؟ یا آپ آنکھیں بند کر کے ان کے دوران بیٹھتے ہیں، یا نیچے فرش کی طرف دیکھتے ہیں؟ اگر آپ آنکھیں بند کر لیں تو آپ ایک ہزار سال تک گرجا گھر آ سکتے ہیں اور کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم آپ کو ہر واعظ کا ایک نسخہ [ترجمہ والی نقل یا مسودہ] دیتے ہیں۔ اسے گھر لے جائیں، اسے پڑھیں، اور اس کے بارے میں سوچیں۔ کیا آپ مسودات پڑھتے ہیں؟ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو آپ یہاں برسوں بیٹھ سکتے ہیں اور زیادہ حاصل نہیں کر سکتے۔ میں کسی دوسرے گرجا گھر کے بارے میں نہیں جانتا جو آپ کو واعظوں کے لفظ بہ لفظ نسخے [ترجمہ والی نقول یا مسودات]فراہم کرتا ہے۔ انہیں پڑھیں! جب پادری کچھ کہے تو یاد رکھیں کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اسے لکھ لیں۔ پھر اسے یاد رکھیں اور کریں۔ کیا آپ ایسا کرتے ہو؟ یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔ اگر آپ انہیں کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں، تو آپ ایک بہتر مسیحی ہوں گے اور ہمارے پاس ایک بہتر گرجا گھر ہو گا!
مہربانی سے کھڑے ہوں اور حمدوثنا کا ہمارا گیت ’’بھروسہ اور فرمانبرداری‘‘ گائیں۔ جب آپ گا رہے ہوں تو لفظوں کے بارے میں سوچیں۔
جب ہم خُداوند کے ساتھ اُس کے کلام کے نور میں چلتے ہیں،
کس قدر جلال وہ ہماری راہ میں نچھاور کرتا ہے!
جب ہم اُس کی اچھی مرضی کو پورا کرتے ہیں، وہ تب بھی ہمارے ساتھ رہتا ہے،
اور اُن تمام کے ساتھ جو فرمانبرداری اور بھروسہ کریں گے۔
فرمانبرداری اور بھروسہ کریں، کیونکہ کوئی اور دوسری راہ نہیں ہے
بھروسہ اور فرمانبرداری کریں صرف یسوع میں خوش رہنے کے لیے۔
(’’بھروسہ اور فرمانبرداریTrust and Obey‘‘ شاعر جان ایچ۔ سیم مسJohn H. Sammis، 1846۔1919)۔
آپ میں سے کچھ نے یسوع پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ آپ نے انجیل کو سنا ہے، لیکن آپ نے توجہ نہیں دی ہے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اب میری بات سنیں! یسوع نے کہا، ’’راہ، حق اور زندگی میں ہوں: کوئی بھی میرے وسیلہ کے بغیرباپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا 14: 6)۔ یسوع نے آپ کے گناہ کو دھونے کے لیے صلیب پر اپنا خون بہایا۔ آپ کو مسیح پر بھروسہ کرنا چاہیے ورنہ آپ کو نجات نہیں مل سکتی! اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے بارے میں ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں، تو ابھی آ کر گرجا گھر کے سامنے کھڑے ہوں۔ آمین
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لُبِ لُباب بھروسہ اور فرمانبرداری TRUST AND OBEY! ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کی جانب سے ’’میں خود بھی کسی کے اِختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اِختیار میں ہیں اور جب میں ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ چلا جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آ جاتا ہے اور کسی نوکر سے کچھ کرنے کو کہوں تو وہ کرتا ہے‘‘ (لوقا7: 8)۔ (لوقا 7: 2، 5، 3، 4، 6۔8، 9) I۔ پہلی بات، وہ افسر اور اُس کی ثقافت، لوقا 7: 8 . II۔ دوسری بات، کلیسیا اور اُس کی ثقافت، 1 کرنتھیوں14: 40؛ طیطُس2: 1۔6؛ |