اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
یشوع کے لوگJOSHUA’S MEN ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اور اُںہوں نے یشوع کو جواب دیا کہ جو کچھ کرنے کا حکم تو نے ہمیں دیا ہے ہم اُسے کریں گے اور جہاں جہاں تو ہمیں بھیجے گا ہم وہاں جائیں گے‘‘ (یشوع 1:16)۔ |
یشوع بائبل کے ہیروز میں سے ایک ہے۔ اُس نے مصر سے خروج میں موسیٰ کی پیروی کی تھی۔ وہ بیان میں چالیس سالوں کے دوران موسیٰ کا معاون تھا۔ موسیٰ کنعان کی سرزمین میں لوگوں کے داخل ہونے سے صرف کچھ دیر پہلے فوت ہوا تھا۔ یشوع رہنما بن گیا تھا۔ یشوع لوگوں کو دریائے یردن پار کروا کر وعدہ کی سرزمین میں لے گیا تھا۔ اسرائیل نے اُس سرزمین کو فتح کیا اور وہ اُن کا گھر [وطن] بن گئی، جیسا کہ خُداوند نے ابراہام کے ساتھ صدیوں پہلے وعدہ کیا تھا۔
خداوند یشوع سے اُس سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے مخاطب ہوا تھا، اُس نے کہا،
’’اِس لیے مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ کیونکہ تو اِن لوگوں کو اِس مُلک کا وارث بننے کے لیے رہنمائی کرے گا جسے اِنہیں دینے کی میں نے اِن کے باپ دادا سے قسم کھائی ہے۔ پس زور پکڑ اور دلیر ہو جا اور اُس شریعت پر احتیاط کے ساتھ عمل کر جو میرے خادم موسیٰ نے تجھے دی اور اُس سے نہ تو داہنے ہاتھ مُڑنا نہ بائیں تاکہ جہاں کہیں تو جائے کامیاب ہو جائے۔ شریعت کی یہ کتاب تیرے منہ سے کبھی دور ہونے نہ پائے۔ دِن اور رات اِسی پر دھیان دیتے رہنا تاکہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس پر تو احتیاط کے ساتھ عمل کر سکے۔ تب تیرا اقبال بُلند ہو گا اور تو کامیاب ہو گا‘‘ (یشوع1:6۔8)۔
مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ، اور وہی کر جو بائبل کہتی ہے! یہ کسی کے لیے بھی ایک اچھی نصیحت ہے!
’’اور اُںہوں نے یشوع کو جواب دیا کہ جو کچھ کرنے کا حکم تو نے ہمیں دیا ہے ہم اُسے کریں گے اور جہاں جہاں تو ہمیں بھیجے گا ہم وہاں جائیں گے‘‘ (یشوع 1:16)۔
ان لوگوں نے محض کہا ہی نہیں تھا کہ جو کچھ یشوع کہے گا وہ کریں گے۔ اُنہوں نے دراصل اُسے کیا بھی تھا! اُنہوں نے بغاوت نہیں کی تھی یا نافرمانی نہیں کی تھی۔ وہ جس راہ پر اُس نے اُنہیں چلایا چل دیے۔ اُن میں سے کسی ایک نے بھی بغاوت نہیں کی تھی۔ اُن میں سے کسی ایک نے بھی اُسے نکال پھینکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کسی نے دوسرے خدا کی پرستش نہیں کی تھی۔
یہ صرف ’’لوگوں کے سردار‘‘ ہی نہیں تھے۔ ساری قوم نے یہی کیا تھا۔ جو یشوع نے حکم دیا اُنہوں نے کیا۔ کوئی بغاوت نہیں تھی۔ کسی نے یشوع کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے دوسرے خُدا کی پرستش نہیں کی۔
میں نے یہ نہیں کہا کہ اُن میں گناہ نام کی چیز کبھی بھی نہیں تھی۔ لیکن وہ کم تھی۔ وہ اِستثنا تھا، حاوی نہیں تھا۔ عکن نامی ایک بندے نے خدا کی نافرمانی کی اور اپنے لیے پیسے چرائے۔ اُس کے گناہ اور اُس کی سزا نے یشوع کی کتاب میں ایک مکمل باب کی جگہ لی (باب 7)۔ وہ ایک بندے کا گناہ تھا، ناکہ ایک پوری قوم کی بغاوت۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ یشوع کی کتاب فتح کی ایک کہانی ہے! خُدا نے کامیابی کا وعدہ کیا تھا اگر وہ فرمانبرداری کرتے اور وہ اُنہوں نے کی تھی۔ اُنہوں نے دشمنوں کی فوجوں کو باآسانی بار بار شکست دی۔ اُنہوں نے وعدے کی سرزمین ہر ایک قبیلے کی وراثت کے ساتھ حاصل کی۔ اُنہوں نے خُدا کی فرمانبرداری کی تھی اور وہ اُن کی طرف تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ وہ کامیاب ہوئے!
لیکن موسیٰ کے دور میں، یشوع سے پہلے کی نسل میں ایسا نہیں تھا۔ وہ لوگ بار بار شکایتیں کرتے اور بغاوت کرتے تھے۔ قورح Korah، داتنDathan اور ابیرامAbiram جیسے سرداروں نے موسیٰ کو ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ یہاں تک کہ موسیٰ کے بھائی، سردار کاہن ہارون نے لوگوں کو سونے کا ایک بچھڑا پرستش کرنے کے لیے بنا کر دیا۔ خُدا نے اُن لوگوں کو وعدے کی سرزمین میں جانے نہیں دیا تھا۔ اُنہیں بیابان میں چالیس سالوں تک بھٹکنا پڑا تھا جب تک کہ وہ سب مر نہیں گئے۔ یہ اُن کے بچے تھے، یشوع کے تحت، جنہوں نے سرزمین پر پائی تھی۔ آج کی صبح میں لوگوں کی دو نسلوں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے میں موسیٰ کے زمانے میں لوگوں پر بات کروں گا، اور پھر میں یشوع کے لوگوں پر بات کروں گا۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
I۔ پہلی بات، موسیٰ کے زمانے کی باغی اور شکست خوردہ نسل۔
خُدا نے اُنہیں کیا کرنا ہے بتایا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ کریں گے۔ صحرا سینائی میں، خُدا نے کہا،
’’اب اگر تم پوری طرح سے میری فرمانبرداری کرو اور میرے عہد پر چلو، تو تمام قوموں میں سے تم ہی میری ملکیت ٹھہرو گے حالانکہ ساری زمین میری ہے‘‘ (خروج19:5، 6)۔
لوگوں نے جواب دیا، ’’جو خُدا نے فرمایا ہے ہم اُس پر مل کر عمل کریں گے‘‘ (خروج19:8)۔ پھر خُدا نے دس حکم بخشے۔ لوگوں نے کہا، ’’جو کچھ خُداوند نے فرمایا ہے ہم بجا لائیں گے‘‘ (خروج24:3)۔
جب میں مقدس سرزمین کے دورے پر تھا تو میں نے اِس واقعے کی ایک مصوری دیکھی تھی۔ کسی نے اِس کو ’’توریت کا نازل کیا جانا‘‘ (بائبل کی پہلی پانچ کتابیں، شریعت) کہا تھا۔ اُوپر پہاڑ پر موسیٰ پتھر پر لکھے دس احکامات کے ساتھ تھا۔ نیچے [پہاڑ کے پہلو میں] اسرائیل کے لوگ اپنی ساری ہزاروں کی تعداد کے ساتھ تھے، سُن رہے تھے جب موسیٰ نے اُنہیں شریعت پیش کی تھی۔ اُس مصوری نے اُنہیں پاک اور معزز لوگوں کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔
صرف ایک ہی مسئلہ تھا: اُنہوں نے ایسا کیا نہیں تھا! اُنہوں نے ماسوائے بغاوت کرنے اور گِلہ شِکوہ کرنے کے اور کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ خُدا کے بحیرہ قلزم کے تقسیم کرنے اور اُن [لوگوں] کے فرعون کی فوجوں سے بچ نکلنے کے بالکل بعد، اُنہوں نے کڑوے پانی کے بارے میں گِلہ کیا تھا (خروج15:23، 24)۔ یہ بالکل یونہی تھا جیسے وہ خُدا جس نےبحیرہ قلزم کو کھول دیا تھا اُنہیں پانی نہیں دے پائے گا۔ پھر اُنہوں نے بھوکے ہونے اور مر جانے کی خواہش کرنے کا گِلہ کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا، ’’کاش ہم مصر میں ہی خُدا کے ہاتھ سے مار دیے جاتے‘‘ (خروج16:3)۔ اُنہوں نے خواہش کی تھی کہ وہ غلاموں کے حیثیت سے ہی مر جاتے! خُدا نے اُنہیں کھانے کے لیے من دیا تھا۔ پھر اُںہوں نے پانی کے بارے میں گِلہ کیا تھا۔ وہ تو موسیٰ کو سنگسار کرنے تک کے لیے تیار تھے، وہ شخص جس نے مصر سے نکلنے میں اُن کی رہنمائی کی تھی‘‘ (گنتی14:4)۔ وہ موسیٰ سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے، کسی اور کو انچارج بنانا چاہتے تھے، اور مصریوں سے اُنہیں دوبارہ غلام بنانے کی اِلتجا کرنا چاہتے تھے! کوئی تعجب کی بات نہیں کہ خدا نے اُس سے کہا، ’’تم اُس مُلک میں داخل ہونے نہ پاؤ گے‘‘ (گنتی14:30)۔ وہ بیابان ہی میں مر گئے تھے۔
یہ صرف لوگ ہی نہیں تھے جو بُرے تھے۔ رہنما بھی بُرے ہی تھے۔ ہر قبیلے کا ایک رہنما تھا، اور یہ کوئی مستثنیٰ قرار دینے والی بات نہیں تھی۔ جیسے آج گرجا گھروں کی تقسیم میں، تقسیم کرنے والے رہنما اعلیٰ اور معزز عہدوں والے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ اُن سے مخلص ہونے کی توقع کریں گے – لیکن وہ ہوتے نہیں ہیں
۔گنتی کی کتاب، باب 16 میں، قورح نامی ایک شخص نے داتن اور ابیرام اور 250 لوگوں کو جو ’’جماعت کے نامور سردار‘‘ اور ’’مجلس کے نامزد رُکن‘‘ تھے اُنہیں لیا (گنتی16:2)۔ وہ موسیٰ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے‘‘ (گنتی16:3)۔ یہ ایک بندے کا گناہ نہیں تھا۔ یہ سرداروں کے ذریعے سے ایک منظم بغاوت تھی۔ قورح کون تھا؟ قورح ’’اضہار کا بیٹا‘‘ تھا (گنتی16:1)۔ اضہار عمرام کا بھائی تھا، جو موسیٰ کا باپ تھا (خروج6:18۔21)۔ قورح اور موسیٰ چچا زاد بھائی تھے! لاوی ہونے کی حیثیت سے، قورح کی ایک معتبر ومعزز جگہ تھی۔ موسیٰ کا چچا زاد بھائی ہونے کی حیثیت سے، اُس کا ایک بُلند اور اعلیٰ رُتبہ تھا۔ آپ سوچیں گے کہ قورح نے چاہا ہوگا حالات ویسے ہی رہیں جیسے کہ تھے۔ لیکن اُس نے خود اپنے ہی چچا زاد کے خلاف بغاوت کی تھی، اُس شخص کے خلاف جس کو خُدا نے چُنا تھا!
یہی بدترین بات نہیں تھی۔ ہارون موسیٰ کا بھائی تھا۔ خُدا نے ہارون کو سردار کاہن کی حیثیت سے چُنا تھا۔ صرف ہارون ہی سال میں ایک مرتبہ خُدا کی حضوری میں لوگوں کے گناہ کے لیے خونی قربانی نذراننے کے لیے جا سکتا تھا۔ ہارون قوم میں دوسری سب سے زیادہ اہم ترین ہستی تھا۔ خُدا کی نظر میں، وہ دُنیا میں دوسرا سب سے زیادہ اہم شخص تھا!
آپ سوچتے ہوں گے کہ ہارون اپنے بھائی موسیٰ کے ساتھ مضبوطی سے ڈٹا رہا ہوگا۔ آپ سوچتے ہونگے وہ خُدا کی بہت قربت میں رہا ہوگا، جس نے لوگوں کو بچانے کے معجزات کیے اور جس نے ہارون کو سردار کاہن بنایا۔ لیکن جی نہیں! ایک روز موسیٰ اوپر پہاڑ پر گیا اور کچھ عرصے کے لیے نیچے واپس نہیں آیا۔ لوگوں نے بغاوت کرنے میں جلدی کی۔ اُنہوں نے ہارون سے کہا، ’’ہمیں ایک دیوتا بنا کر دے جو ہمارے آگے آگے چلے‘‘ (خروج32:1)۔ کیا ہارون نے کہا، ’’جی نہیں، ہمیں سچے خُدا کی پرستش کرنی چاہیے اور صرف اُسی کی کرنی چاہیے‘‘؟ اُس نے نہیں کی۔ ہارون نے خود کو خدا کے خلاف کر لیا۔ ہارون نے لوگوں سے اُن کی سونے کی بالیاں اُسے دینے کے لیے کہا۔ اُس نے اُنہیں پگھلایا اور سونے کا بچھڑا لوگوں کی پرستش کرنے کے لیے بنایا (خروج32:4)۔ اُنہوں نے کہا، ’’اے اسرائیل، یہی تیرا دیوتا ہوگا‘‘ (خروج32:4)۔ ’’اور ہارون نے جب یہ دیکھا تو اُس نے اِس کے سامنے ایک الطار تعمیر کیا‘‘ (خروج32:5)۔ لوگوں نے سونے کے اُس بچھڑے کی پرستش کی جب وہ ’’رنگ رلیاں مناتے‘‘ تھے (خروج32:6)۔ یہ صرف لوگوں کا ہی قصور نہیں تھا۔ گہرا ترین قصور موسیٰ کے بھائی ہارون کا بھی تھا۔ یہ تھا جیسے زبور نویس نے لکھا، ’’میرے عزیز دوست نے بھی، جس پر مجھے بھروسا تھا اور جو میری روٹی کھاتا تھا، مجھ پر لات اُٹھائی ہے‘‘ (زبور41:9)۔
کیوں لوگ – یہاں تک کہ موسیٰ کا خاندان – اِس قدر بُرا تھا؟ کیوں یہ کچھ بھی نہیں تھا ماسوائے بغاوت اور گناہ کے؟ کیوں یہ اِس قدر بُرا تھا کہ صرف یشوع اور کالب ہی وعدے کی سرزمین میں داخل ہو پائے؟ میں آپ کو ایک مکمل جواب نہیں دے پاؤں گا۔ میں خُدا کے ذہن میں نہیں جھانک سکتا، جس نے کہا، ’’میرے خیالات تمہارے خیالات نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں، جس طرح آسمان زمین سے اُونچے ہیں اُسی طرح میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیالات تمہارے خیالات سے بُلند تر ہیں‘‘ (اشعیا55:8، 9)۔ میں یہ بات تو جانتا ہوں کہ خُدا گنہگاروں کو گناہ کرنے کی اجازت دیتا ہے – جیسا کہ وہ سارے زمانوں میں گناہ کر چکے ہیں۔ یہ بات بہت کچھ واضح کرتی ہے۔ لیکن کیا کوئی اور وجہ بھی ہے کہ یہ لوگ کیوں اِس قدر بُرے تھے؟ میرے خیال میں وجہ ہے۔
وہ لوگ مصر میں غلام تھے۔ مصریوں نے ’’اُن پر بیگار لینے والے [غلاموں کا مالک] مقرر کیے تاکہ اُن سے سخت کام لیں‘‘ (خروج1:11)۔ وہ عبرانیوں پر انتہائی سخت تھے۔ ’’اور مصریوں نے اسرائیلیوں کے بچوں سے اور بھی زیادہ سخت کام لیے‘‘ (خروج1:13)۔ بائبل کہتی ہے، ’’اُنہوں نے اُن کی زندگیاں سخت کام لے لے کر تلخ کر دیں‘‘ (خروج1:14)۔ آخر میں مصر کے شہنشاہ (فرعون نے) حکم دیا کہ تمام عبرانی لڑکوں کو قتل کر دیا جائے جب وہ پیدا ہوں۔ اُس نے دائیوں سے کہا، ’’اگر لڑکا پیدا ہو تو تم اُسے قتل کر دینا‘‘ (خروج1:16)۔ کرنے کے لیے کتنی بُری بات ہے!
یہودی کتنے عرصے تک غلامی میں رہے تھے؟ خُدا نے اُن کے آباؤاِجداد ابراہام سے کہا تھا،
’’یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایک غیر مُلک [مصر] میں پردیسی ہو کر رہیں گے، وہ غلام بنا لیے جائیں گے اور چار سو برس تک دُکھ اُٹھائیں گے‘‘ (پیدائش15:13)۔
وہ 400 سو سالوں تک غلام رہے تھے۔ موسیٰ کے زمانے میں ایک شخص کے لیے، اُس کے والدین، اُس کے والدین کے والدین اور پچھلی پندرہ سولہ نسلیں غلام رہی تھیں – 400 سالوں تک۔ وہی سب کچھ وہ جانتے تھے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ہر امریکی 1620 میں زائرین کے زمانے سے غلام رہ چکا ہو! اُن کے ذہنیت غلامانہ تھی۔ اُس کی تہذیب غلامانہ تھی۔
اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ پہلی بات، غلام بہت زیادہ سخت کام نہیں کرتے۔ وہ کیوں کریں؟ اُنہیں اُجرت نہیں ملتی۔ اُنہیں اُن کے کام کے صلے میں کچھ بھی تو نہیں ملتا۔ اُنہیں ترقی نہیں ملتی۔ کیوں سخت کام کریں؟ کیوں آپ کے کام میں فخر محسوس کریں؟ غلام جتنا آہستہ کام کر سکتے ہیں کرتے ہیں اورجتنا کم کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔ وہ محض اتنا ہی کرتے ہیں کہ اُنہیں چھانٹے [کوڑے] نہ پڑیں۔
دوسری بات، اُنہیں جو مِلا تھا وہ اُن کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا تھ۔ وہ اپنی خود کی خوراک نہیں اُگاتے تھے۔ اُنہیں اُجرت نہیں ملتی تھی، لہٰذا وہ چیزیں نہیں خرید سکتے تھے۔ اُن کی خوراک مالکوں کی طرف سے تھمائی جاتی تھی، اور وہ اتنی اچھی نہیں ہوتی تھی۔ وہ چیزوں کے لیے کام کرنے کے عادی نہیں تھے۔ وہ محض اُسی خیرات کو لیتے تھے جو وہ پا سکتے تھے۔
تیسری بات، اُنہیں اختیار والوں سے نفرت تھی۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے، کیوں کہ مصر میں اُن کا مقتدر فرعون اور اُس کے غلاموں کے مالکین تھے، جو غلاموں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے۔ وہ احترام کی وجہ سے فرمانبرداری نہیں کرتے تھے۔ وہ خوف کی وجہ سے فرمانبردار تھے۔ باطن میں وہ اُس اختیار سے نفرت کرتے تھے۔
اُن عبرانیوں نے اپنے تمدن کو نہیں چھوڑا تھا جب اُنہوں نے مصر کو چھوڑا۔ اُنہیں چیزوں کو دیے جانےکی توقع تھی، اور جو اُنہیں ملتا تھا اُس کا گِلہ کرتے تھے – پانی، خوراک، ہر ایک چیز۔ اُنہیں اب بھی اختیار والوں سے نفرت تھی۔ فرعون کو چھوڑے کے بعد اُنہوں نے موسیٰ کے خلاف بغاوت کی۔ اُںہوں نے اپنی بغاوت کو فرعون کی طرف سے ہٹا کر موسیٰ کی طرف کر دیا تھا۔ یہودی رہنماؤں میں بھی وہی بغاوت تھی۔ قورح، اور یہاں تک کہ ہارون، جب وقت آیا تو موسیٰ اور خُدا کے بھی خلاف ہو گئے۔ اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ وہ بیابان میں ناکام رہے تھے اور وعدے کی سرزمین میں داخل نہیں ہو پائے تھے۔ خُدا نے اُنہیں ’’ایک سرکش اور حُجّتی [باغی، متصادم] لوگ‘‘ کہا (رومیوں10:21)۔
وہ آج کے بے شمار لوگوں کی طرح تھے۔ زیادہ تر اندرون شہر کے لوگ سخت کام نہیں کرتے۔ وہ پڑھائی میں سخت محنت نہیں کرتے۔ وہ آگے نکلنے کی توقع نہیں رکھتے – اور وہ آگے نکلتے بھی نہیں۔ وہ اُنہیں جو خیرات کی جاتی ہے لے لیتے ہیں، چاہے ہو مفت کی خوراک ہو، مفت کا سکول ہو، رہنے کے لیے ایک جگہ ہو، یا گرجا گھر کی رفاقت ہو۔ وہ اُن چیزوں کو اپنا حق سمجھ کر لیتے ہیں، کسی کا بھی شکریہ ادا کیے بغیر۔ پھر وہ چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک ہی جگہ پر سکونت پزیر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے۔ اُنہیں اختیار والوں سے نفرت ہوتی ہے۔ وہ پوری ایک زندگی کے لیے ایک ہی گرجا گھر میں ٹکے نہیں رہتے۔ اُن کے درمیان رہنما بغاوت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اور لوگ اُن میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اِس میں تعجب کی بات نہیں ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھے گرجا گھر کو تعمیر نہیں کر پاتے اور اُسے رکھ نہیں پاتے۔ لیکن مجھے بہتر باتوں کی طرف آ جانا چاہیے۔
II۔ دوسری بات، یشوع کے زمانے کی فرمانبردار اور فاتح نسل۔
نئی نسل کہیں زیادہ مختلف تھی۔ میرے خیال میں اُن میں سے بے شمار نجات یافتہ لوگ تھے۔ یقینی طور پر اُن کی تہذیب اُن کے والدین کی تہذیت سے مختلف تھی۔ اُن کے پاس اپنے والدین کے طرف سے زندگی کا تجربہ مختلف تھا۔ وہ بیابان میں بڑھے ہوئے تھے ناکہ مصر میں۔ اُنہوں نے موسٰی کی نگرانی میں زندگی بسر کی تھی نہ کہ فرعون کی۔
خُدا نے اُنہیں اچھا اور بُرا بتایا تھا۔ وہ دس احکامات بار بار سُنتے تھے۔ خُدا نے اُنہیں بیابان میں ایک سے دوسری جگہ کیسے جانا ہے بتایا تھا۔ خُدا نے اُنہیں ایک چکور کی شکل میں خیمہ زن ہونے کے لیے بتایا تھا، اور اُس چکور میں ہر قبیلے کو ایک مقام بخشا تھا (گنتی2)۔ دورِ حاضرہ کی فوج میں سگنلز کی طرح، اُنہیں کیا کرنا ہے یہ بتانے کے لیے خُدا نے اُنہیں نرسنگے کی آوازوں اور خطروں کا بتایا تھا (گنتی10:2۔9)۔ خُدا نے اُنہیں سبت اور فسح جیسے تقریبات اور روزِ کفارہ کے لیے شریعت بخشی تھی۔ اُنہیں مصر میں غلامی کی کوئی بات یاد نہیں تھی۔ وہ خُدا کے سچے اختیار کے تحت بڑھے ہوئے تھے، ناکہ فرعون کی شیطانی اور ظالم حاکمریّت میں۔
اُںہوں نے خُدا کے انصاف کو بارہا دیکھا۔ اُںہوں نے زمین کو پھٹتے ہوئے اور قورح اور اُس کے لوگوں کو زندہ غرق ہوتے ہوئے دیکھا (گنتی16:32)۔ اُنہوں نے ندب اور ابیحو، کاہن اور ہارون کے بیٹوں کو مرنے تک زندہ جلتے ہوئے دیکھا تھا جب اُنہوں نے خُداوند کے حضور میں عجیب و غریب سی آگ کا نزرانہ پیش کیا تھا (احبار10:1، 2)۔ اُںہوں نے تین ہزار لوگوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا جب وہ سُنہرے بچھڑے کی پرستش کر رہے تھے (خروج32:27، 28)۔
اور اُنہوں نے خُداوند کی محبت اور رحم کو دیکھا تھا۔ اُنہوں نے لوگوں کو اُن کی بغاوت کی وجہ سے زہریلے خوفناک ناگوں سے کاٹے جاتے ہوئے دیکھا تھا (گنتی21:5، 6)۔ پھر اُںہوں نے موسیٰ کو پیتل کا ایک سانپ قائم کرتے ہوئے دیکھا تھا، اورجس کسی نے اُس پر نظر کی زندہ بچا رہا (گنتی21:9)۔
جو تجربہ اِس نسل نے کیا اُس نے اِس کی سوچ کو بنایا۔ میں پُر یقین ہوں بے شمار، غالباً زیادہ تر، اُن میں سے گمراہ تھے۔ لیکن اُن میں گمراہ لوگوں کی بھی تہذیب اچھی تھی۔ اور اُنہوں نے اُس تہذیب کو اپنایا، اُس سوچ کے انداز کو، وعدے کی سرزمین میں۔
جی ہاں، وہاں گناہ تھا۔ عکن نے پیسا چُرایا تھا (یشوع7:1)۔ بعد میں وہ جبعونیوں کے فریب میں آ گئے تھے (یشوع 9)۔ اُنہیں دعا مانگنی چاہیے تھی اور احتیاط کے ساتھ سوچنا چاہیے تھا، لیکن اُنہوں نے نہیں کیا۔ لیکن وہ ایک غلطی تھی، جان بوجھ کے کیا گیا گناہ نہیں تھا۔ وہ موسیٰ کے زمانے کی طرح کی لوگوں جیسے نہیں تھے۔ بیابان میں کبھی نہ ختم ہونے والا گناہ اور بغاوت تھی۔ یشوع کے زمانے میں فتح تھی!
اُنہوں نے یشوع سے کہا، ’’جو کچھ کرنے کا حکم تو نے ہمیں دیا ہے ہم اُسے کریں گے اور جہاں جہاں تو ہمیں بھیجے گا ہم وہاں جائیں گے‘‘ (یشوع 1:16)۔ اور اُنہوں نےایسا ہی کیا! یشوع نے یریحو کے شہر میں دو جاسوس بھیجے۔ اُن جاسوسوں نے گلہ نہیں کیا کہ اُن کا کام نہایت سخت تھا۔ اُنہوں نے اُسے کیا! (یشوع2)۔ یشوع کے ذریعے سے کلام کرتے ہوئے خُدا نے کاہنوں سے عہد کے صندوق کو دریائے یردن کے پانیوں میں اُٹھا کر لے جانے کے لیے کہا تھا (یشوع3:6، 7) – اور اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ خُدا نے پانی کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اُنہوں نے خشک زمین سے دریا کو پار کیا۔ یشوع نے لوگوں سے کاہنوں کے پیچھے پیچھے یریحو شہر کے اردگرد چھ مرتبہ چلنے کے لیے اور ساتوں مرتبہ حملہ کرنے کے لیے کہا (یشوع6) – اور اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔
یشوع کے خلاف کوئی بڑی بغاوت نہیں ہوئی تھی۔ لوگ متحد تھے۔ وہ ’’ایک دِل‘‘ تھے (اعمال1:14)۔ اُن کے درمیان کوئی ’’تقسیم نہیں‘‘ تھی (1کرنتھیوں1:10)۔ اُنہوں نے یشوع کی قیادت کی پیروی کی تھی۔ کوئی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ اور وہ ایک کے بعد دوسری فتح حاصل کرتے چلے گئے۔ اُنہوں نے وعدے کی سرزمین کو پا لیا تھا!
بھائیو اور بہنوں، اِس قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو گرجا گھر کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ آپ اُن کی طرح کی لوگ ہیں۔ آپ کے درمیان کوئی تقسیم نہیں ہے۔ کوئی بغاوت نہیں ہے۔ آپ دعائیہ جلسوں میں آتے ہیں۔ آپ جمعہ کے روز روزہ رکھتے ہیں۔ آپ اپنے زبان پر قائم رہتے ہیں۔ آپ پادری صاحبان کی سُنتے ہیں۔ آپ اپنی مقامی کلیسیا سے محبت کرتے ہیں۔ آپ ماضی کی ذہنیت سے پیار نہیں کرتے ہیں۔ آُپ اُس قسم کے لوگ ہیں جنہیں خُدا استعمال کر سکتا ہے!
بھائیو اور بہنو، آئیے بیابان کی تہذیب کی نقل نہ کریں! آئیے یشوع کے لوگوں کی طرح کے بن جائیں! ہم کچھ کہتے ہیں اور ہم اُسے کرتے ہیں! ہم ایک نئی جگہ پر ایک نئے مستقبل کے ساتھ ایک نئے گرجا گھر کی تعمیر کریں گے! یہ ہمارے لیے آج کی وعدے کی سرزمین ہو گا! آئیے یشوع کے مرد اور یشوع کی عورتیں بن جائیں!
آپ میں سے کچھ نے یسوع پر بھروسا نہیں کیا ہے۔ آپ اپنے خود کے ذہن اور خود کے دِل پر بھروسا کرتے ہیں۔ آپ صرف پریشانی کے بیابان میں آوارہ گردی کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس صرف آپ کے اپنا گناہ ہے۔ آپ کے دِل کا گناہ ہولناک ہے۔ خُدا آپ کے گناہ پر نظر نہیں ڈال سکتا۔ اِسی لیے یسوع نے اپنے خون کو آپ کے گناہوں کو دھو ڈالنے کے لیے پیش کیا تھا۔ وہ آپ کے گناہ کے کفارے کی ادائیگی کے لیے صلیب پر قربان ہو گیا تھا۔ وہ آپ کو دائمی زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ آپ کو صرف اتنا کرنا چاہیے کہ اُسی پر بھروسا کریں۔ یہ بس اتنی سی ہی بات ہے۔ اگر آپ یسوع پر بھروسا کرنے کے بارے میں مجھ سے بات چیت کرنا چاہتے ہوں تو مہربانی سے آئیں اور پہلی دو قطاروں میں تشریف رکھیں۔ آمین۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر جیک نعان Mr. Jack Ngann نے گایا:
’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو Onward, Christian Soldiers‘‘
(شاعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔
لُبِ لُباب یشوع کے لوگ JOSHUA’S MEN ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اور اُںہوں نے یشوع کو جواب دیا کہ جو کچھ کرنے کا حکم تو نے ہمیں دیا ہے ہم اُسے کریں گے اور جہاں جہاں تو ہمیں بھیجے گا ہم وہاں جائیں گے‘‘ (یشوع 1:16)۔ (یشوع1:6۔8، 10)
I. پہلی بات، موسیٰ کے زمانے کی باغی اور شکست خوردہ نسل،
II. دوسری بات، یشوع کے زمانے کی فرمانبردار اور فاتح نسل، |