اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
ایک مقامی کلیسیا کے لیے بائبل اور منافقینTHE BIBLE AND TRAITORS TO A LOCAL CHURCH ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے تحریر کیا گیا ایک واعظ ’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جبکہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘
|
البرٹ کیمُسAlbert Camus اور جِین پال سارٹری Jean-Paul Sartre وہ دو فلسفہ دان تھے جنہوں نے ایگزس ٹینشیئل اِزم extistentialism [وجودیت سے متعلق علم] کو مشہور کیا۔ اُن کا فلسفہ آج زیادہ تر لوگوں کی سوچ پر حاوی ہے، بیشک اُنہیں غالباً اِس بات کا احساس نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر آر۔ سی۔ سپراؤل Dr. R. C. Sproul نے کہا، ’’ہم واقعی میں اپنے زندگیوں کے ہر دِن اور ہماری تہذیب کے ہر حصار میں ایگزس ٹینشیئل اِزم کے اثرات کا سامنا کرتے ہیں… ہم ہر روز اِس کے اثر کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر آر۔ سی۔ سپراؤل Dr. R. C. Sproul، زندگی کے نقطۂ نظر Lifeviews، فلیمینگ ایچ۔ ریویل Fleming H. Revell، 1986، صفحہ 49)۔
کیمُس اور سارٹری کے وجودیت سے متعلق علم [ایگزس ٹینشیئل اِزم] کا بنیادی موضوع ’’بے دین دُںیا میں انسان کی کُلیدی تنہائی‘‘ پر زور دیتا ہے‘‘ (ڈاکٹر جان بیلنکارڈ Dr. John Blanchard، کیا خُدا دہریوں پر یقین کرتا ہے؟ Does God Believe in Atheists?، ایونجیلیکل پریس، 2000، صفحہ138)۔
کیا آر۔ سی۔ سپراؤل سچے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہم ’’ہر روز‘‘ اِس فلسفے کے ’’اثر کے تحت‘‘ زندگیاں بسر کرتے ہیں؟ جی ہاں، میرے خیال میں ایسا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنہائی کا مرکزی موضوع اِس قدر شدید گہری کشش پاتا ہے خصوصی طور پر نوجوان لوگوں کے لیے۔ اِس بات کا احساس کیے بغیر کہ یہ فلسفہ آیا کہاں سے ہے، یا اِسے کس نے کہا، آپ اِس کو پھر بھی محسوس کرتے ہیں – ’’بے دین دُںیا میں انسان کی کُلیدی تنہائی۔‘‘ اِس جملے میں سچائی کا ایک حصار پایا جاتا ہے۔ ہر نوجوان شخص اِس کو محسوس کر چکا ہے – ’’بے دین دُںیا میں انسان کی کُلیدی تنہائی۔‘‘
اور آپ ہجوم سے بھرے ایک کمرے میں تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ رقص کی ایک تقریب میں ہو سکتے ہیں، یا پُرہجوم بازار میں، اور پھر بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ ایک نوبالغ نے ہمارے پادری صاحب ڈاکٹر ہائیمرز سے کہا، ’’میں اِس قدر تنہا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کیا کرنا ہے۔‘‘ چند ایک ہفتوں بعد اُس نے خودکشی کر لی۔ اور آج کل واقعی میں زیادہ تر نوجوان لوگ تنہائی کے احساس سے اذیت میں مبتلا ہیں۔ یہ ایگزس ٹینشیئل اِزم کی ایک پیداوار ہے جو ’’ہماری تہذیب کے ہر حصار میں‘‘ پھیل چکی ہے۔
تنہائی ایک مسئلہ ہے، لیکن اِس کا تریاق کیا ہے؟ اِس کا علاج کیا ہے؟ وہ علاج یسوع مسیح کو ذاتی طور پر جاننا ہے – اور مقامی کلیسیا میں خُدا کے خاندان کا حصہ ہونا ہے۔ ہم ایگزس ٹینشیئل اِزم کی ہولناکی کو جواب دے رہے ہوتے ہیں جب ہم کہتے ہیں، ’’تنہا کیوں رہا جائے؟ گھر چلے آئیں – گرجا گھر کے لیے! گمراہ کیوں رہا جائے؟ گھر چلے آئیں – خُدا کے بیٹے یسوع مسیح کے پاس!‘‘ ہم جب یہ بات کہتے ہیں تو عمومی طور پر ہم کیمُس اور سارٹری اور ایگزس ٹینشیئل اِزم کو جواب دے رہے ہوتے ہیں! ہم جب یہ بات کہتے ہیں تو ہم دورِ حاضرہ کی دُںیا کی اِس درد بھری، تنہائی والی، الگ تھلگ، بے معنویت کا جواب دے رہے ہوتے ہیں! اِس کو زور سے چیخ کر کہیں! اِس کو سرگوشی میں کہیں! اِس کو دور دور تک بتائیں! تنہا کیوں رہا جائے؟ گھر چلے آئیں – گرجا گھر کے لیے! گمراہ کیوں رہا جائے؟ گھر چلے آئیں – خُدا کے بیٹے یسوع مسیح کے پاس!
لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو پہلے کے بغیر دوسرے کی چاہ کرتے ہیں۔ وہ خُداوند یسوع مسیح میں ایمان لائے بغیر مقامی کلیسیا کی رفاقت چاہتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ کام نہیں کرتی ہے۔ اُنہیں ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ مسیحیت کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے – مقامی کلیسیا میں رفاقت اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آپ ایک کے بغیر دوسرے کو حاصل نہیں کر سکتے!
یہ ہے جو ہوتا ہے اگر آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے بغیر رفاقت پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالاآخر رفاقت ٹوٹ جائے گی۔ جلد یا بدیر یہ کام نہیں کرے گی۔ یہی ہے جس کے بارے میں ہماری تلاوت بات کر رہی ہے۔
’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جبکہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ (1 یوحنا2:19)۔
ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell نے کہا، ’’کچھ گرجا گھروں کو چھوڑ کر جا چکے ہیں… اُن کا چھوڑ کے جانا دراصل اُس نجات دلانے والے ایمان کے لیے مظاہرہ ہے، اور یوں، حقیقی رفاقت غیرحاضر تھی‘‘ (کرسویل کا مطالعۂ بائبل The Criswell Study Bible، 1یوحنا2:19 پر غور طلب بات)۔ درج ذیل 1یوحنا2:19 کا دورِ حاضرہ کا ترجمہ ہے،
’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن اِن کا واقعی میں ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ کیونکہ اگر اُن کا ہمارے ساتھ تعلق ہوتا، تو وہ ہمارے ہی ساتھ رہے ہوتے؛ لیکن اُن کا چھوڑ کر جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن لوگوں میں سے کسی کا بھی تعلق ہمارے ساتھ نہیں تھا‘‘ (1 یوحنا2:19 NIV)۔
آئیے اِس تلاوت کے بارے میں مذید اور زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں۔
I۔ پہلی بات، اُنہوں نے کیا کِیا۔
ڈاکٹر کرسویل نے کہا، ’’کچھ گرجا گھروں کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔‘‘ وہ بِلاشک و شبہ گرجا گھروں میں آئے کیوںکہ اُنہوں نے رفاقت کا مزا اُٹھایا۔ ابتدائی گرجا گھر رومی دُنیا کی سرد مہری اور سنگدلی میں گہری دوستی کی ایک جگہ تھے۔ لوگوں کو وہ گرمائش اور دوستی اچھی لگتی تھی جو اُنہوں نے گرجا گھر میں پائی تھی،
’’وہ خُدا کی تمجید کرتے تھے اور تمام لوگوں میں مقبول تھے‘‘ (اعمال2:47)۔
لیکن اُنہیں جلد ہی پتا چل گیا کہ مسیحی زندگی ہمیشہ ہی اِس قدر سہل نہیں تھی۔ جب اُنہیں اِس بات کا پتا چلا تو اُن میں سے کچھ چھوڑ کر چلے گئے۔ رسول نے کہا،
’’دیماس نے دُںیا کی محبت میں پھنس کر مجھے چھوڑ دیا اور تھسّلنیکے چلا گیا؛ اور کریسکِنس نے گلِتیہ اور طیطس نے دلماتیہ کی راہ لی۔ صرف لوقا میرے پاس ہے‘‘ (2تیموتاؤس4:10۔11)۔
دیماس، کریسکِنس اور طیطس چھوڑ کے چلے گئے جب مصیبت پڑی۔
کیا ایسا آج ہوتا ہے؟ جی ہاں یہ ہوتا ہے۔ لوگ کچھ عرصے کے لیے گرجا گھر میں آتے ہیں۔ وہ اُس دوستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو وہ گرجا گھر میں کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ تفریح محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پھر کچھ اور سامنے آتا ہے۔ میں نے ایک شخص کے بارے میں سُنا جو اِتوار کی صبح لاس ویگاس گیا۔ اُس شخص کو گرجا گھر میں آنا اچھا لگتا تھا، لیکن لاس ویگاس اِس سے بھی اور زیادہ تفریح آمیز نظر آیا! دوسروں کو کرسمس اور نئے سال کے دوران اُںہیں وہ دعوتیں اپنی طرف مائل کرتی ہوئی لگتی ہیں۔ وہ دُںیاوی دعوتوں اور میلوں سے آزمائے جاتے ہیں – اور یوں وہ گرجا گھر کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ (1یوحنا2:19)۔
II۔ دوسری بات، اُنہوں نے یہ کیوں کِیا۔
ہماری تلاوت کہتی ہے، ’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے‘‘ (1یوحنا2:9)۔ 1یوحنا2:19 پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،
وہ طریقہ جس سے آپ بتا سکتے ہیں کہ خُدا کا سچا بچہ کون ہے یہ ہے کہ بالاآخر ایک شخص اپنا اصلی روپ دکھائے گا اور خُدا کے اجتماع کو چھوڑ دے گا اگر وہ خُدا کا بچہ نہیں ہے۔ وہ مسیحیوں میں سے، ایمانداروں کی جماعت میں باہر نکل جائے گا، اور وہ دںیا میں… واپس چلا جائے گا… بے شمار ایسے ہوتے ہیں جو مسیحی ہونے کا پیشہ اپناتے ہیں، لیکن وہ اصل میں مسیحی ہوتے نہیں ہیں (جے ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔، J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز، 1983، جلد پنجم، صفحہ 777)۔
میں بغیر کوئی رائے دیے البرٹ بارنز Albert Barnes کے الفاظ پیش کروں گا، جو بائبل پر اُن کے کلاسیکل تبصرے میں سے ہے،
کیوںکہ اگر وہ ہم میں سے ہوتے۔ اگر وہ مخلص اور سچے مسیحی رہے ہوتے۔ تو وہ بلا شُبہ ہمارے ساتھ ہی رہتے… اگر وہ سچے مسیحی رہے ہوتے تو وہ کبھی بھی گرجا گھر کو چھوڑ کر چلے نہ جاتے۔ اُنہوں نے اِس قرارداد کو اِس قدر عمومی بنایا کہ اِس کو ایک عالمگیر سچائی کی طور پر مانا جا سکتا ہے، کہ اگر کوئی بھی سچے طور پر ’ہم میں سے ہوتا،‘‘ یعنی کہ، اگر وہ سچے مسیحی ہوتے، تو وہ گرجا گھر میں شامل رہنا جاری رکھتے، یا کبھی بھی برگشتہ نہ ہوتے۔ یہ بیان اِس لیے دیا گیا ہے تاکہ یہ بھی سبق ملے کہ اگر کوئی گرجا گھر سے برگشتہ ہو بھی جاتا ہے، تو وہ حقیقت اِس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ اُن کا سرے سے کوئی مذہب تھا ہی نہیں، کیوںکہ اگر اُن کا کوئی مذہب ہوتا تو وہ گرجا گھر میں مضبوطی سے ٹکے رہتے (البرٹ بارنز Albert Barnes، نئے عہد نامے پر غور طلب باتیں Notes on New Testament، بیکر کتب گھرBaker Book House، 1884-85 کے ایڈیشن کی دوبارہ اشاعت 1983، 1یوحنا2:19)۔
یسوع نے کہا،
’’چٹان پر کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے خوشی سے قبول کرتے ہیں لیکن کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑتا۔ وہ کچھ عرصہ تک تو اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت پسپا ہو جاتے ہیں‘‘ (لوقا8:13)۔
III۔ تیسری بات، اِس کا علاج کیسے کیا جائے۔
’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جبکہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ (1 یوحنا2:19)۔
میتھیو ھنری Matthew Henry نے کہا،
وہ باطنی طور پر ایسے نہیں تھے جیسے کہ ہم ہیں؛ لیکن وہ ہم میں سے نہیں تھے؛ اُنہیں جس ٹھوس عقیدے کی قسم پیش کی گئی تھی اُنہوں نے دِل سے اُس کی فرمانبرداری نہیں کی تھی۔ وہ مسیح اُس سربراہ کے ساتھ ہمارے ملاپ میں ساتھ نہیں تھے (تمام بائبل پر میتھیو ھینری کا تبصرہMatthew Henry’s Commentary on the Whole Bible، ھینڈریکسن Hendrickson، دوبارہ اشاعت 1996، جلد ششم، صفحہ863)۔
وہ مسیح میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ وہ ’’ہم میں سے‘‘ نہیں تھے۔ ڈاکٹر میگی نے اِس آیت کے بارے میں کہا،
یہاں پر یوحنا ایک انتہائی سنجیدہ اور پُرخلوص بیان دیتا ہے، اور وہ یہ بیان آج ہمیں پیش کرتا ہے۔ خُداوند یسوع نے ایک انتہائی مذہبی شخص نیکودیمس سے کہا، کہ اُسے دوبارہ جنم لینا چاہیے۔ اُس نے اُس سے کہا… ’’جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا3:3)۔ یہاں پر یوحنا کہتا ہے، ’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔‘‘ وہ یوں دکھائی دیتے تھے جیسے وہ خُدا کے سچے بچے ہوں، لیکن وہ اصل میں تھے نہیں (جے۔ ورنن میگی J. Vernon McGee، ibid.)۔
آپ کو ’’ہم میں سے‘‘ ہونے کے لیے نئے سرے سے جنم لینا چاہیے، جیسا کہ ڈاکٹر میگی نے نشاندہی کی۔ آپ کو مسیح میں شمولیت کرنی چاہیے۔ یہ اُس وقت رونما ہوتا ہے جب آپ سچے طور پر دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ یسوع نے کہا،
’’تمہیں دوبارہ جنم لینا چاہیے‘‘ (یوحنا3:7)۔
اِرتداد کا علاج وہ نیا جنم ہے! یہ اُس وقت رونما ہوتا ہے جب آپ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور مسیح کے پاس آتے ہیں۔ جب آپ اُس کے پاس آتے ہیں، تو وہ آپ کو قبول کرے گا اور آپ کے گناہوں کو اپنے خون کے ساتھ دھو ڈالے گا۔ آپ اِس پر انحصار کر سکتے ہیں، کیوںکہ اُس نے کہا،
’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُس اپنے سے جدا نہ ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔
جب آپ مسیح کے پاس آتے ہیں، اور اُس میں شمولیت کرتے ہیں، تو آپ ایک نیا جنم پاتے ہیں۔ آپ کے گناہ منسوخ کر دیے جاتے ہیں اور آپ خُدا کے بچے بن جاتے ہیں۔ صرف جب آپ دوبارہ جنم لیتے ہیں تو آپ سچے طور پر مقامی کلیسیا کے ایک جیتے جاگتے رُکن بنتے ہیں۔ ایگزس ٹینشیئل اِزم extistentialism [وجودیت سے متعلق علم] منسوغ ہو جاتا ہے جب آپ مسیح کے پاس آتے ہیں اور دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ ’’بے دین دُںیا میں انسان کی بنیادی تنہائی‘‘ کی تلافی ہو جاتی ہے اور شفا ہوتی ہے جب آپ جی اُٹھے مسیح کا سامنا کرتے ہیں، نتیجے کے طور پر مقامی کلیسیا کا ایک جیتا جاگتا حصہ بنتے ہیں۔ یسوع نے کہا،
’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُس اپنے سے جدا نہ ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔
گمراہ کیوں رہا جائے؟ گھر چلے آئیں – خُدا کے بیٹے، یسوع مسیح کے پاس!
چارلس سپرجئین Charles Spurgeon نے ’’محبت کے وسیلے سے ثابت شُدہ زندگیLife Proved by Love‘‘ کے عنوان سے ایک واعظ پیش کیا تھا۔ یہ 1یوحنا3:14 پر مشتمل تھا،
’’ہم جانتے ہیں کہ ہم موت سے نکل کر زندگی میں شامل ہو گئے ہیں، کیوںکہ بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں‘‘ (1یوحنا3:14)۔
سپرجئین نے کہا،
جب تک آپ نئے سرے سے جنم نہیں لیتے، آپ کبھی بھی خُدا کے فضل کا مطلب نہیں جان پائیں گے۔ آپ کو ایک نئی زندگی حاصل کرنی چاہیے، موت سے نکل کر زندگی میں شامل ہونا چاہیے، ورنہ آپ اِن باتوں کو جان نہیں پائیں گے… ہم جانتے ہیں کہ ہم موت سے نکل کر زندگی میں شامل ہوئے ہیں، کیونکہ ہم بھائیوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ لہٰذا، بھائیو، اگر ہم وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خُدا کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں، خُدا کی لوگوں کی حیثیت سے، کیونکہ وہ خُدا کے لوگ ہیں، تو یہ اِس بات کا نشان ہے کہ ہم موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو چکے ہیں (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’محبت کے وسیلے سے ثابت شُدہ زندگیLife Proved by Love،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرِم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1976، جلد XLIV، صفحات 80۔81)۔
جب مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے ذریعے سے ہم موت سے گزر کر زندگی میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں، تو ہم مقامی کلیسیا میں بھائیوں سے محبت کریں گے!
اگر آپ اُس رفاقت کو وقعت دیتے ہیں جو آپ اِس گرجا گھر میں پا چکے ہیں، تو اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کا تجربہ کریں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوں۔ مسیح وہ ’’گوند‘‘ ہے جو مقامی کلیسیا کی رفاقت کو اکٹھا جوڑے ہوئے ہے!
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر جیک نینگ Mr. Jack Ngann نے گایا تھا:
’’وہ بندھن مبارک ہے جو باندھتا ہے Blest Be the Tie that Binds‘‘
(شاعر جان فوسٹ John Fawcett، 1740۔1817).
لُبِ لُباب ایک مقامی کلیسیا کے لیے بائبل اور منافقین THE BIBLE AND TRAITORS TO A LOCAL CHURCH ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے تحریر کیا گیا ایک واعظ ’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جبکہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ I. پہلی بات، اُنہوں نے کیا کِیا، اعمال 2:47؛ 2۔ تیموتاؤس 4:10۔11۔ II. دوسری بات، اُنہوں نے یہ کیوں کِیا، لوقا 8:13۔ III. تیسری بات، اِس کا علاج کیسے کیا جائے، یوحنا 3:3،7؛ 6:37؛ 1۔یوحنا 3:14۔ |