اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
جدعون کی فوج!GIDEON’S ARMY! ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’خُداوند نے جدعون سے کہا، تیرے ساتھ اِس قدر لوگ ہیں کہ میں مدیانیوں کو اُن کے ہاتھ میں نہیں کر سکتا، ایسا نہ ہو کہ اسرائیل میرے بجائے اپنے اوپر فخر کرنے لگیں کہ اُن کی اپنی قوت نے اُنہیں بچایا‘‘ (قُضاۃ 7:2)۔ |
یہ ایک سادہ سی کہانی ہے۔ لیکن یہ انتہائی شدید اہم کہانی ہے۔ جدعون ایک نوجوان شخص تھا جو بہت بڑے اِرتداد کے زمانے میں رہتا تھا۔ اِس بات ہی سے ہماری توجہ فوراً مرکوز ہو جانی چاہیے کیونکہ ہم بھی بالکل اِسی لمحے آخری دِنوں کے ایک بہت بڑے اِرتداد میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
I۔ وہ پہلا اِرتداد۔
اسرائیل کے لوگوں نے خُدا کی نظروں میں بُرائی کی تھی۔ اور خُدا نے اُنہیں مدیانیوں کا غلام بنانے کے ذریعے سے سزا دی تھی۔ وہ اسرائیل کے دُشمن تھے۔ اسرائیل کے لوگ اِن وحشی مدیانیوں سے دور ہی رہتے تھے۔ وہ بے دین مدیانیوں سے چُھپ کر غاروں میں رہتے تھے۔ وہ مدیانی اِس قدر طاقتور تھے کہ اُنہوں نے اسرائیلیوں کی فصلیں تباہ کر ڈالیں۔ اُنہوں نے اُن کی بھیڑیں اور بیل اور گدھوں کو چُرا لیا۔ اسرائیل کُچلا جا چکا تھا اور بے بس تھا۔ تب اُنہوں نے خُداوند کے آگے فریاد کی۔
پھر جدعون آیا۔ خُدا اُس کے پاس اُس وقت آیا جب وہ مدیانیوں سے چُھپتا پھر رہا تھا۔ اور خُداوند نے جدعون سے کہا، ’’اے زبردست سُورما! خُداوند تیرے ساتھ ہے‘‘ (قضاۃ6:12)۔
میں کوئی زبردست سُورما نہیں تھا جب میں سان فرانسسکو کے شمال میں بائبل کو مسترد کر دینے والی، آزاد خیال سیمنری میں گیا تھا۔ میں ایک سیدھا سادہ اور منکسر بپٹسٹ مبلغ لڑکا تھا۔ لیکن جو میں نے اُس سیمنری میں دیکھا اُس کی وجہ سے میں دورِ حاضرہ کے انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والوں کے ساتھ انتہائی شدید ناراض شخص بن گیا۔ وہ بائبل کے خُدا میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ مدیانیوں کے قابو میں تھے – وہ جو خُدا کو ایک جکڑ میں رکھنا چاہتےتھے – وہ جو نہیں چاہتے تھے کہ خُدا اُن کے خیالات اور اُن کی زندگی پر قابو کرے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ ایف۔ ویلز Dr. David F. Wells ہمارے زمانے میں انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے بگاڑ پر ایک شاندار کتاب لکھ چکے ہیں۔ اِس کا نام ہے، سچ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے: یا انجیلی بشارت کے پرچار کی الوہی تعلیم کو جو مرضی ہو جائے؟ No Place for Truth: or Whatever Happened to Evangical Theology? (عیئرڈمینزEerdmans، 1993)۔ ڈاکٹر ویلز ایک ناراض شخص ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والی دُنیا اپنی انقلابیت کو کھو چکی ہے‘‘ (صفحہ 295)۔ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے گرجا گھر نوجوان لوگوں کو ایک انقلابی مسیحی ہونے کے لیے متاثر نہیں کرتے ہیں۔ وہ نرم، کمزور اور خودغرض ہیں – اِس بات پر بولنے سے خوفزدہ ہیں کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے محکمے ہر اُس شخص سے لڑیں گے جو آج گرجا گھروں کو سُدھارا ہوا اور زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر ویلز نے کہا، ’’انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والی دُنیا میں مُقلدّیت [اصولوں کے مطابق عمل کرنا] ایک بااِختیار طاقت ہے، اور یہ تیزی سے تنہا منحرفین کو قابو میں کر لیتی ہے‘‘ (صفحہ 295)۔
اُنہوں نے سیمنری میں مجھے اُن کی بے اعتقادی میں مجبوراً ڈھلنے کے لیے شدید کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ مجھے کبھی بھی ایک مغربی بپتسمہ دینے والے گرجا گھر کا پادری نہیں بنایا جائے گا اگر میں نے بائبل کا دفاع کرتے رہنا جاری رکھا۔ میں نے اُن سے کہا، ’’اگر یہی قیمت چکانی پڑتی ہے تو مجھے نہیں چاہیے۔‘‘
اُس بات پر ڈٹ کر جمے رہنے پر میں نے اپنی ہر ایک چیز کھو دی۔ میں نے کیا کچھ کھویا؟ میں ہر وہ چیز کھو چکا تھا جو پہلے ہی سے میرے لیے اہمیت رکھتی تھی۔ مغربی بپتسمہ دینے والوں کے پاس اب کوئی ایسی بات نہیں رہی تھی جو میں چاہتا تھا۔ مجھے فرقے سے نفرت ہو گئی تھی۔ مجھے سیمنری سے نفرت ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے گرجا گھر سے مجھے سہارا نہ دینے پر نفرت ہو گئی تھی۔ مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہو گئی تھی۔ میں یسوع اور بائبل کے علاوہ ہر ایک چیز سے نفرت کرتا تھا۔ میں رات میں تنہا پیدل چلا کرتا تھا۔ میں پیدل چلتا رہتا تھا ورنہ یوں لگتا تھا جیسے میں اپنا ذہن کھو ڈالوں گا۔
ایک رات میں بالاآخر اپنے ہوسٹل کے اجتماعی سونے والے کمرے میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ خُود خُدا نے مجھے جگایا۔ اجتماعی خواب گاہ میں خاموشی تھی۔ ایک بھی آواز نہیں تھی۔ میں رات میں باہر چلا آیا۔ جب میں سیمنری کے قریب ایک پہاڑی پر کھڑا تھا تو میں خلیج کے پانیوں سے پرے سان فرانسسکو کی روشنیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ ہوا میرے بالوں اور میرے کپڑوں کو اُڑا رہی تھی۔ میری ہڈیاں تک جُھنجھنا اُٹھی تھیں۔ اور ہوا میں خُداوند نے مجھ سے کہا، ’’تم اِس رات کو کبھی بھی نہیں بھولو گے۔ اب تم صرف مجھے خوش کرنے کے لیے منادی کرو گے۔ اب تم خوفزدہ نہ ہونا سیکھو گے۔ اب تم تنہا میرے ہی لیے بولو گے۔ میں تمہارے ساتھ ہوؤں گا۔‘‘
اب میں جان گیا تھا وہ میری منادی کے لیے بُلاہٹ تھی۔ اُس سے پہلے میں ایک رضاکار تھا۔ اب میں خُدا کا بُلایا ہوا مبلغ تھا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر نڈر مبلغ کو اِس سے پہلے کہ خُدا اُس پر سچ بولنے کے لیے بھروسہ کرے اِسی قسم کے بحرانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِس میں کوئی جذبات نہیں ہوتے۔ صرف یہ ہوتا ہے، ’’اگر تم یہ نہیں کہو گے تو کوئی بھی نہیں کہے گا، اور اِس کو کہے جانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے – اور دوسرے اِس کو کہنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں، لہٰذا اگر تم اِس کو نہیں کہتے، تو کوئی بھی نہیں کہے گا، یا کم از کم وہ اِس کو انتہائی بہتر طور پر نہیں کہیں گے۔‘‘ میں اُنہی خیالات کو ہمیشہ کے لیے اپنے ذہن میں نقش کر کے نکل پڑا۔ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے ’’انبیانہ بصیرت کا تحفہ The Gift of Prophetic Insight‘‘ نامی ایک مضمون میں یہ کہا: ’’وہ خدا کے نام میں مخالفت کرے گا، اِعلانیہ مخالف ہو گا اور اِحتجاج کرے گا اور مسیحی دُنیا کے ایک بہت بڑے حصے کی مخالفت اور نفرت پائے گا… لیکن وہ ایسی کسی بھی چیز سے خوف نہیں کھائے گا جو فانی سانس کے ساتھ سانسیں لیتی ہے۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر باب جونز سوئم Dr. Bob Jones III نے کہا ’’میں روئیوں اور روح میں پرانے عہدنامے کے ایک نبی کی مانند ہوں۔‘‘ اِس تمام کی مذید اور وضاحت کے لیے، میری سوانح حیات پڑھیے، ’’تمام خوفوں کے خلاف Against All Fears۔‘‘
خُدا کے ساتھ اُس آدھی رات کے تجربے نے مجھے جدعون جیسے ایک شخص کو سمجھنا سیکھایا۔ خُدا نے اُس سے کہا، ’’اے زبردست سُورما! خُداوند تیرے ساتھ ہے۔‘‘ حالانکہ میں یقینی طور پر جدعون نہیں ہوں، میں کم از کم اب اُسے سمجھ سکتا ہوں۔ جدعون نے کہا، ’’خُداوند ہمیں ترک کر چکا ہے اور ہمیں مدیانیوں کے ہاتھوں میں سونپ چکا ہے‘‘ (قضاۃ6:13)۔
جدعون نے یہ کرنے کے لیے خود کو دو کوڑی کا [غیرمستحق] اور نااہل محسوس کیا۔ موسیٰ کی مانند، جدعون نے بہانے بنائے۔ ہم یہاں پر ہیں، میرے دوستوں، آخری دِنوں کے بہت بڑے اِرتداد کے درمیان میں۔ ہم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے نئے مدیانیوں کے جھوٹے مذہب سے لڑنے کے لیے نااہل اور دو کوڑی کا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اِرتداد شدید گہرا ہے۔ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے مدیانیوں کی قوت انتہائی شدید ہے۔ ہم اِن مُرتدوں سے بائبل اور بائبل کے خدا کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
II۔ دوسری بات، بائبل کا خُدا اب بھی زندہ ہے!
خُداوند نے کہا، میں خُداوند ہوں، میں بدلتا نہیں‘‘! (مُلاکی3:6)۔ پھر خُدا کا روح جدعون پر نازل ہوا۔ اُس نے قاصدوں کو بھیجا جنہوں نے مدیانیوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اسرائیلیوں کے ہجوموں کو اِکٹھا کیا۔
’’تب یربعل یعنی جِدعون اور اُس کے ساتھ سب لوگوں نے صبح سویرے اُٹھ کر حرود کے چشمہ کے پاس اپنے ڈیرے ڈالے۔ مِدیانیوں کی لشکرگاہ اُن کے شمال کی طرف کوہِ مورہ کے پاس کی وادی میں تھی۔ خُداوند نے جدعون سے کہا، تیرے ساتھ اِس قدر لوگ ہیں کہ میں مدیانیوں کو اُن کے ہاتھ میں نہیں کر سکتا، ایسا نہ ہو کہ اسرائیل میرے بجائے اپنے اوپر فخر کرنے لگیں کہ اُن کی اپنی قوت نے اُنہیں بچایا۔ اِس لیے لوگوں میں اعلان کر کہ جو کوئی خوف زدہ ہے وہ کوہِ جلعاد چھوڑ کر لَوٹ جائے۔ چنانچہ بائیس ہزار لوگ تو لَوٹ گئے مگر دس ہزار وہیں جمے رہے‘‘ (قضاۃ 7:1۔3).
خُداوند نے جدعون سے کہا، ’’جو لوگ تیرے ساتھ ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔‘‘ جا اور کہہ، ’’جو کوئی بزدل اور خوفزدہ ہے، وہ لوٹ جائے‘‘ (قضاۃ7:3)۔
بائیس ہزار لوگ لوٹ گئے۔ دس ہزار لوگ جدعون کے ساتھ رہ گئے۔ یہ ہے جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارا گرجا گھر جب ہم لی کونٹ جونئیر ہائی سکول Le Conte Junior High School میں ملے 1,100 لوگوں تک ہو گیا تھا۔ لیکن اُن میں سے زیادہ تر لوگ یسوع کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگانے کے لیے خوفزدہ تھے۔ دوسرے ’’تفریح‘‘ – یا جنس – منشیات کے تعاقب میں ہمارے گرجا گھر کو چھوڑ گئے۔ وہ جو چھوڑ کر چلے گئے اُنہیں کے بارے میں یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل میں وضاحت کی تھی۔ وہ تمثیل لوقا8:10۔15 میں سمجھائی گئی ہے۔ پہلی قسم کے وہ لوگ ہیں جو خُدا کے کلام کو سُنتے ہیں، اور ابلیس آتا ہے اور اُن کے دِلوں میں سے کلام نکال لے جاتا ہے ’’ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان لائیں اور نجات پائیں‘‘ (لوقا8:12)۔ ہم یہ چیز لگ بھگ ہر ہفتے دیکھتے ہیں۔ وہ آتے اور اور واعظ کو سُننے کے بجائے اپنے آئی پیڈ iPad کو دیکھتے ہیں۔ یا وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کسی اور چیز کے بارے میں سوچتے ہیں۔ خُدا کا کلام اُن کے لیے ذرا بھی فائدہ مند نہیں ہوتا ہے کیونکہ اُنہوں نے ابلیس کو اُن کے دِلوں میں سے کلام کو باہر اُکھاڑنے دیا۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کلام کو خوشی کے ساتھ سُنتے ہیں۔ لیکن مسیح میں اُن کی کوئی جڑ نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ کچھ عرصے لیے یقین کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جب اُنہیں آزمایا جاتا ہے تو وہ پسپا ہو جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کلام کو سُنتے ہیں اور اپنی راہ لیتے ہیں۔ پھر وہ زندگی کی دولت، فکروں اور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں، ’’اور اُن کا پھل پک نہیں پاتا۔‘‘ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee دُرست تھے جب اُنہوں نے کہا اِس تینوں قسموں کے لوگ مسیح میں ایمان لا کر کبھی بھی تبدیل نہیں ہوئے ھوتے۔ وہ اُن تمام لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں جنہوں نے ماضی میں ہمارے گرجا گھر کو چھوڑ دیا۔ اُن کی زندگیاں ظاہر کرتی ہیں کہ اُن میں سے کوئی بھی سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا۔ وہ صرف اُس رفاقت اور تفریح کے لیے آتے ہیں جو ہمارے ہاں گرجا گھر میں ہوتی ہے۔ لیکن جب اُن کو آزمایا جاتا ہے تو وہ چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی توبہ نہیں کرتے اور اُنہوں نے کبھی بھی نئے سرے سے دوبارہ جنم ہی نہیں لیا۔ وہ اُن بائیس ہزار لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں جو جدون کی مدد کرنے کے لیے آئے تھے لیکن وہ اِس کو کرنے کے لیے اور خُدا کے سپاہی بننے کے لیے شدید خوفزدہ تھے! اور صلیب کے سپاہی بننے کے لیے خوفزدہ تھے!
’’اور خُداوند نے جدعون سے کہا، تیرے ساتھ اِس قدر لوگ ہیں کہ میں مدیانیوں کو اُن کے ہاتھ میں نہیں کر سکتا، ایسا نہ ہو کہ اسرائیل میرے بجائے اپنے اوپر فخر کرنے لگیں کہ اُن کی اپنی قوت نے اُنہیں بچایا‘‘ (قُضاۃ 7:2)۔
لیکن اب بھی بہت زیادہ لوگ ہیں۔ خُداوند نے جدون سے کہا، ’’لوگ اب بھی بہت زیادہ ہیں؛ اُنہیں چشمے کے پاس نیچے لا جا اور وہاں میں اُنہیں تیری خاطر پرکھوں گا‘‘ (قضاۃ7:4)۔ ’’وادی میں، کوہِ مورہ کے پاس‘‘ انتہائی شدید گرمی تھی (قضاۃ7:1)۔ اسرائیلی شدید پیاسےتھے۔ جدون کے زیادہ تر لوگ پانی کی طرف دوڑے، نیچے جھکے اور اپنے ہاتھوں کو پانی میں ڈال دیا، جب وہ اُس کے جلدی جلدی گھونٹ بھر رہے تھے۔ ’’اور جن لوگوں نے اُسے چپڑ چپڑ کر کے چلّو میں بھر کے پیا وہ صرف تین سو تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں اپنے سروں کو اُوپر رکھنا تھا، مدیانیوں کی تاک میں۔
’’اور خداوند نے جِدعون سے کہا، اِن تین سَو آدمیوں کے ذریعہ جنہوں نے چپڑ چپڑ کر کے پیا، میں تمہیں بچاؤں گا اور مِدیانیوں کو تمہارے ہاتھوں میں کر دوں گا۔ باقی لوگوں کو اپنی اپنی جگہ لَوٹ جانے دینا‘‘ (قضاۃ 7:7).
آج کی رات ہم جدون کے تین سو لوگوں کی واقعے کے ساتھ اتنی ہی دور تک جا سکیں گے۔ وہاں وادی میں مدیانی لوگ ہجوم در ہجوم ٹڈیوں کی مانند پھیلے ہوئے تھے؛ اور اُن کے اُونٹوں کا شمار کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا سمندر کے کنارے کی ریت کا‘‘ (قضاۃ7:12)۔ اُس رات خُداوند نے مدیانیوں کی قوی فوج کو جدون کے تین سو آدمیوں کے حوالے کر دیا۔ مدیانی اپنی زندگیوں کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور اسرائیلیوں نے مدیانیوں کے دو سرداروں اوریب اور زئیب کو پکڑ لیا اور اُن کے سر قلم کر دئیے اور اُن کے سروں کو جدون کے پاس لے آئے (دیکھیں قضاۃ7:25)۔ وہ فتح خدا کے وسیلے سے صرف تین سو سپاہیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھ ہوئی تھی!
یہاں پر ہمارے لیے آج ایک سبق ہے۔ آج ہمارے زیادہ تر گرجا گھر اُن لوگوں کی قیادت میں ہیں جن کی دلچسپی صرف تعداد میں ہے۔ یہ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے مدیانی ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ گرجا گھر کی حاضری میں سینکڑوں لوگوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور اِس کےباوجود وہ کمزور ہیں۔ ایسے مبلغین کو جدون اور اُس کے وفادار سپاہیوں کے چھوٹے سے گروہ کے بارے میں سوچنا بہت فائدہ پہنچائے گا۔
جاناتھن ایس۔ ڈِیکرسن Jonathan S. Dickerson انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کی بہت بڑی کسادبازاری The Great Evangelical Recession (بیکر کُتب Baker Books) کے عنوان سے ایک شاندار کتاب لکھ چکے ہیں۔ اُنہیں نے شُماریات پیش کیں۔ آج ہمارے نوجوان لوگوں کا صرف 7 % ایونجیلیکل مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اگلے بیس برسوں میں پینتالیس فیصد ایونجیلیکل مسیحی مر جائیں گے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ نوجوان ایونجیلیکل مسیحیوں کی تعداد جلد ہی 7 % سے گھٹ کر صرٖف تقریباً ’’4 فیصد یا کم رہ جائے گی – جب تک کہ نئے شاگردوں کو وجود میں لایا نہیں جاتا‘‘ (ibid.، صفحہ 144)۔
گرجا گھروں میں کیوں نوجوان لوگوں کی تعداد کا اِس قدر کم ہونا ہوتا ہے؟ میں قائل ہو چکا ہوں یہ اِس لیے ہے کیونکہ اُنہیں جیتی جاگتی مسیحیت کے ذریعے سے للکارا نہیں جاتا۔ ہمارا مقصد کیا ہے؟ اِس گرجا گھر میں ہمارا مقصد نوجوان لوگوں کو مسیح میں اُن کی بُلند ترین استعداد [صلاحیت] تک پہنچنے کے لیے مدد کرنا ہے۔ ہم یہاں پر جدون کی فوج کی مانند نوجوان لوگوں کے ایک گروہ کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم یہاں پر نوجوان لوگوں کو ہمارے گرجا گھرمیں آنے اور یسوع مسیح کے شاگرد بننے میں مدد دینے کے لیے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں ہم مسیح کی فوج میں بھرتی کرنا چاہتے ہیں نوجوان لوگ ہیں۔ یہ وہ نوجوان لوگ ہیں جو کچھ نیا اور للکارنے والا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یسوع نے کہا،
’’جو کوئی میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).
وہ جو یسوع کی پیروی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، چاہے کچھ بھی قیمت چکانی پڑے، اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ کے باہر پھینک دینا چاہیے۔ وہ جن کی نگہداشت نوزائیدہ بچوں کی مانند کرنی چاہیے وہ ہیں جنہیں میں ’’قبولنے والے takers‘‘ کہتا ہوں۔ وہ جو ’’قبولنے والے‘‘ ہوتے ہیں وہ خود کا انکار کرنا نہیں چاہتے۔ وہ یسوع کو کچھ بھی دینا نہیں چاہتے ہیں۔ اگر آپ ہمیشہ کےلیے نگہداشت کروانا چاہتے ہیں، تو یہ گرجا گھر آپ کے لیے نہیں ہے۔
میری بیوی علیانہ Ileana جب صرف سولہ برس کی عمر کی تھیں تو ہمارے گرجا گھرمیں آئی تھیں۔ تین ہی ہفتوں میں اُنہوں نے گرجا گھر میں خود اپنی راہ بنا لی تھی۔ صرف تین ہی ہفتوں کے بعد اُنہیں ’’چُنے جانے‘‘ کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ ہمارے گرجا گھرمیں آتے ساتھ ہی ایک کام کرنے والی رُکن بن گئیں تھی۔ جب وہ صرف 17 برس کی تھیں تو وہ فون پر نبھانے والی ذمہ داریاں سنبھال چکی تھیں۔ جب وہ صرف 19 برس کی تھیں تو اُنہوں نے میرے ساتھ شادی کی۔ جب ہمارے جڑواں لڑکے پیدا ہوئے تو وہ اُنہیں پہلے ہی اِتوار کو گرجا گھر میں لے آئیں۔ میرے بیٹے لیزلی نے جب سے وہ پیدا ہوا ہے اِتوار کا گرجا گھر کبھی بھی مِس نہیں کیا۔ اپنی تمام زندگی میں ویزلی نے صرف ایک اِتوار بیماری کی وجہ سے مِس کیا۔ دوسری بے شمار عورتوں نے کہا یہ بہت زیادتی تھی۔ وہ اپنے بچوں کو گھروں ہی میں رکھتی تھیں جب کبھی اُنہیں تھوڑی سے چھینک بھی آ جائے۔ لیکن میری بیوی صحیح تھیں اور دوسری خواتین غلط تھیں۔ تقریباً اُن کے بچے ایک خودغرضانہ زندگی گزارنے کے لیے گرجا گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ آج کے دِن تک میرے دونوں لڑکے یہاں ہر عبادت میں رہے ہیں۔ وہ یہاں پر ہیں کیونکہ میری بیوی مسیح کی شاگردہ ہیں۔ ڈاکٹر کرھیٹین ایل چعین Dr. Kreighton L. Chan، جو چند ایک مِنٹوں میں اپنی ساٹھویں سالگرہ منائیں گے، اُنہوں نے مسز ہائیمرز کے بارے میں کہا، ’’جب وہ پہلی مرتبہ ہمارے گرجا گھر میں آئیں میں تب سے اُنہیں جانتا ہوں۔ اُن کے پاس اُس وقت بھی مسیح کے لیے شدید محبت اور گمراہ بشروں کے لیے ایک جنون تھا، اور اب تک جاری ہے۔ ایک [نوعمر] کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنی زندگی کو ہمارے گرجا گھر کی مذہبی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور کوئی بھی کسر نہ چھوڑی… نوجوان لوگوں، آئیے مسز ہائیمرز کو اپنے لیے ایک ماڈل بنائیں۔ اگر آپ اُن کی مثال کی پیروی کرتے ہیں، تو ہمارے گرجا گھر کا ایک شاندار اور جلالی مستقبل ہو گا۔‘‘
چونکہ ہم آج کی رات ڈاکٹر چعین کی ساٹھویں سالگرہ منا رہے ہیں تو مجھے کہنا چاہیے کہ وہ بھی مسیح کے شاگرد ہونے کی ایک روشن مثال ہیں۔ وہ ہمارے گرجا گھر میں مسح کیے ہوئے پادری صاحب ہیں۔ وہ ایک بچے کی حیثیت سے انتہائی بیمار رہا کرتے تھے۔ وہ اِس قدر بیمار تھے کہ اُنہوں نے اُنہیں اُن کے زیادہ تر بچپنے میں اُنہیں ہسپتال میں ایک شیشے کے پینجرے میں رکھا تھا۔ ایک نوعمر کی حیثیت سے وہ ہمارے گرجا گھر میں ایک میڈیکل ڈاکٹر بننے کے لیے مطالعہ کرنے والے نوعمر کی حیثیت سے آئے تھے۔ دوسرے ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا تھا کہ وہ تیس برس سے زیادہ عمر نہیں گزار پائیں گے۔ وہ ایک چھوٹے سے کمزور انسان بن گئے ہوتے جو چاہتا کہ گرجا گھر اُس کی نگہداشت کرے۔ لیکن نہیں! اُنہوں نے خود کو گرجا گھر کے کاموں کے حوالے کر دیا اور مسیح کے ایک شاگرد بن گئے۔ اُنہوں نے اُنہیں بتایا کہ خود کو زیادہ مت تھکائیں ورنہ وہ تیس برس کی عمر سے پہلے ہی مر جائیں گے۔ لیکن مسیح کے کاموں نے دراصل ڈاکٹر چعین کو قوت بخشی۔ وہ توقع سے بھی تیس برس زیادہ ایک اچھی مضبوط زندگی بسر کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی صلیب اُٹھائی اور یسوع کی پیروی کی۔ اور وہ اب ساٹھ برس کی عمر میں خُدا کے ایک قوی بندے کی حیثیت سے اِس پلیٹ فارم پر براجمان ہیں!
میں جاری رہ سکتا ہوں اور آپ کو مسڑ مینسیا Mr. Mencia، اور مسز سلازار Mrs. Salazar، اور مسٹر بعین گریفتھ Mr. Ben Griffith کے بارے میں بتا سکتا ہوں، جو اپنے بیوی کے ساتھ آج کی رات چُھٹی پر ہیں۔ میں آپ کو مسٹر اور مسز وَرجِیل نِکل Mr. and Mrs. Virgel Nickell کےبارے میں بتا سکتا ہوں، جنہوں نے ہمیں اِس عمارت کو خریدنے کے لیے زیادہ تر پیسہ اُدھار دیا تھا۔ مسٹر نِکل شوگر کے مرض کے ساتھ 75 برس کی عمر کے ہیں – اِس کے باوجود وہ ہمارے گرجا گھر میں ہونےکے لیے ہر بُدھ کی رات، ہر اِتوار کی صبح اور ہر اِتوار کی رات کو ایک گھنٹے سے بھی زیادہ آنے اور ایک گھنٹے سےبھی زیادہ جانے کے لیے گاڑی چلاتے ہیں۔ یا میں آپ کو اِس حیرت انگیز نوجوان شخص، محترم جناب جان سیموئیل کیگن Reverend John Samuel Cagan کے بارے میں بتا سکتا ہوں جو جلد ہی میری جگہ پر اِس گرجا گھر کے پادری صاحب ہونگے۔ یہ تمام کے تمام لوگ یسوع کے شاگرد اور صلیب کے سپاہی بن چکے ہیں۔
میرے پادری صاحب ڈاکٹر ٹیموٹھی لِن Dr. Timothy Lin نے کہا، زیادہ کے مقابلے میں کم بہتر ہے… اِتوار کو مسیحی عبادت کے گرجا گھر میں بیٹھنے والا ہر لمبا بینچ شاید بھرا ہوا ہو، لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دعائیہ اِجلاس میں صرف مُٹھی بھر لوگ ہی ہوتے ہیں… ہم نہیں کہہ سکتے یہ اچھی بات ہے‘‘ (کلیسیا کے پروان کا راز The Secret of Church Growth، صفحہ 39)۔
بائبل میں سے دیکھیں۔ آپ بار بار دیکھیں گے کہ ’’زیادہ کے مقابلے میں کم بہتر ہے۔‘‘ یسوع نے 11 لوگوں کو لیا اور دُنیا کو بدل ڈالا کیونکہ اُس کے لوگ اُس کے لیے اور اُس کے مقصد کے لیے مرنے کو تیار تھے۔ کلیسیا کے تاریخ میں ہم یہی سبق دیکھتے ہیں۔ پینتیکوست کے موقع پر صرف 120 لوگ موجود تھے۔ صرف چند ایک موراوئین Moravian مسیحیوں نے دورِ حاضرہ کے مشن کی تحریک کو چنگاری دکھائی۔ صرف چند ایک میتھوڈسٹ لوگوں نے، محض مُٹھی بھر لوگوں نے، عظیم بیداری کو بھڑکایا۔ صرف چند ایک لوگوں نے چین کے اندرون میں انجیلی بشارت کے پرچار کے لیے جیمس ہڈسن ٹیلر James Hudson Taylor کی پیروی کی تھی۔
وہ جو مسیح کے لیے اپنا بہترین پیش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ وہ جو ہمیشہ کے لیے بچوں کی مانند برتایا جانا چاہتے ہیں اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ کا پھینک دینا چاہیے۔ وہ جو اپنی آسائش کے دائرے سے کبھی بھی باہر نکلنا نہیں چاہتے اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ وہ مسلسل ’’قبول کرتے رہنے والے لوگ‘‘ ہوتے ہیں جو مسیح کے لیے کبھی بھی کُچھ نہیں دیتے۔ اگر ہم شاگردوں کا ایک گرجا گھر چاہتے ہیں تو ہمیں ’’قبول کرنے والوں‘‘ کو جانے دینا ہوگا، کہ ہمارے پاس شاید وہ نوجوان لوگ ہوں جو مدیانیوں کی انجیلی بشارت کے پرچار کی نئی مدھم تعلیم کو للکارنا اور اِسے بدلنا چاہتے ہوں۔ ہمیں اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو اپنی زندگیوں کو یسوع مسیح کے لیے نبھانا چاہتے ہوں۔ اور ہمیں اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے جو ہم سے چاہتے ہوں کہ اُن کے ساتھ اُن بچوں کی مانند روئیہ اختیار کیا جائے جو کبھی بھی بڑے ہی نہیں ہوتے! ہمیں اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو یسوع کی شاگرد بننا چاہتے ہوں، اور ہمیں باقی لوگوں کو گھر جانے دینا چاہیے جیسے جدون نے کیا تھا!
مہربانی سے کھڑے ہوں اور اپنے گیتوں کے ورق میں سے حمدوثنا کا گیت نمبر 1 گائیں، ’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاھیوںOnward, Christian Soldiers۔‘‘ اِسے گائیں!
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو:
مسیح جو شاہی حاکم ہے دشمن کے خلاف رہنمائی کرتا ہے؛
جنگ میں اُس کے جھنڈے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھو۔
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو۔
جیسے ایک طاقتور فوج خُدا کے گرجہ گھر کو چلاتی ہے؛
بھائیو، ہم قدم بڑھا رہے ہیں جہاں مقدسین نے قدم بڑھائے تھے؛
ہم منقسم نہیں ہیں، ہم سب ایک بدن ہیں،
عقیدے اور اُمید میں ایک، صدقے میں ایک۔
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو۔
آگے بڑھو پھر، تم لوگو، ہمارے مسرور ہجوم میں شامل ہو،
فاتحانہ گیت میں ہماری آوازوں کے ساتھ اپنی آوازیں مدخم کر لو؛
جلال، ستائش اور تعظیم یسوع بادشاہ کی ہی ہو؛
ان گنت زمانوں سے یہ ہی لوگ اور فرشتے گاتے آئے۔
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو۔
(’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو Onward, Christian Soldiers‘‘
شاعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر نوح سُونگ Mr. Noah Song نے گایا تھا:
’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو Onward, Christian Soldiers‘‘
(اعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔
لُبِ لُباب جدعون کی فوج! GIDEON’S ARMY! ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’خُداوند نے جدعون سے کہا، تیرے ساتھ اِس قدر لوگ ہیں کہ میں مدیانیوں کو اُن کے ہاتھ میں نہیں کر سکتا، ایسا نہ ہو کہ اسرائیل میرے بجائے اپنے اوپر فخر کرنے لگیں کہ اُن کی اپنی قوت نے اُنہیں بچایا‘‘ (قضاۃ7:2)۔ I. پہلی بات، وہ اِرتداد، قضاۃ6:12، 13۔ II. دوسری بات، بائبل کا خُدا اب بھی زندہ ہے! مُلاکی3:6؛ |