Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


خداوند پہلے گنہگار کو بُلاتا ہے –
سی۔ ایچ۔ سپرجیئن سے اخذ کیا گیا

GOD CALLS THE FIRST SINNER –
ADAPTED FROM C. H. SPURGEON
(Urdu)

ایک واعظ جسے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر نے تحریر کیا
اور جس کی منادی ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن نے
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں کی
خُداوند کے دِن کی صبح، 6 مئی، 2018
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr.
and preached by Rev. John Samuel Cagan
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, May 6, 2018

’’خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا اور پوچھا، تو کہاں ہے؟ (پیدائش3:9)

جس وقت تلاوت ہمیں خدا سے انسانی دِل کے جُدا ہونے، تاکہ انسان چُھپ جائے اور اُس کے ساتھ رفاقت کی خواہش نہ رکھنے کی تعلیم دیتی ہے، یہ، اُس حماقت کو بھی آشکارہ کرتی ہے جس کے سبب سے گناہ آیا۔ گناہ نے انسان کو ایک احمق بنا ڈالا! وہ کبھی خُدا کی شکل پر تھا، عقلمند؛ اب، جب سے سانپ کی آزمائش اُس کی فطرت میں سے گزری ہے، وہ ایک مغرور احمق بن چکا ہے، کیونکہ احمق ہی ہے جو اپنے گناہ کی برہنگی کو انجیر کے پتوں سے ڈھانپتا ہے؟ کیا وہ احمق نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والے خُدا سے بچنے کے لیے درخت کی شاخوں کے نیچے چھپنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیا آدم جانتا نہیں تھا کہ خُدا ہر کو پُر کرتا ہے اور ہر جگہ میں بستا ہے، کہ بُلند ترین آسمان سے لیکر گہری ترین جہنم کچھ بھی ایسا نہیں ہےجو اُس کی سمجھ سے چُھپا ہوا ہو؟ اور اِس کے باوجود، اِس قدر مغرور اور بیوقوف ہے یہ، کہ وہ خُدا سے فرار ہونے کی اُمید رکھتا ہے، اور باغ کے درختوں کو الہٰی قہر کے غضبناک آنکھوں سے چُھپانے کی جگہ بناتا ہے! ہائے، کس قدر احمق ہیں ہم! ہم کیسے ہر روز اپنے پہلے والدین کی حماقت کو دہراتے ہیں جب ہم ضمیر سے گناہ کو چُھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر سوچتے ہیں کہ یہ خُدا سے چُھپ گیا ہے، جب ہم دائمی خُدا کی تلاش کرنے کے مقابلے میں انسان کے گھورنے کے بارے میں زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں؛ جب چونکہ گناہ خفیہ ہوتا ہے، اور معاشرے کے رواجوں اور قوانین کے چُنگل میں پھنسا نہیں ہوتا، تو ہم اُس وقت بھی خود پر گناہ کو لادے ہوئے بستر پر سونے کے لیے چلے جاتے ہیں، مطمئن ہوتے ہوئے کیونکہ انسان کو یہ نظر ہی نہیں آتا، کہ اِسی لیے خُدا اِس کو دیکھتا ہی نہیں۔ اوہ گناہ، تو نے انسان کو سوال کرنے پر مجبور کر دیا، ’’میں تیری حضوری سے بھاگ کر کہاں پر جاؤں؟ اور تو نے اُس کو بھولنے پر مجبور کر دیا کہ اگر وہ آسمان میں اُٹھایا جاتا ہے، خُدا وہاں پر ہے؛ اگر وہ جہنم میں اپنا بوریا بستر لگاتا تو خُدا وہاں پر ہے، اور اگر وہ کہتا ہے، ’’یقیناً تاریکی مجھ پر چھا جائے گی،‘‘ یہاں تک کہ رات بھی اُس کے بارے میں دھیمی ہو جائے گی!

لیکن اب، خُداوند خود آدم کے سامنے آتا ہے، اور غور کریں وہ کیسے آتا ہے۔ وہ پیدل چلتے ہوئے آتا ہے۔ وہ غلطی کرنے والے کو مارنے کی کسی بھی جلدی میں نہیں تھا، ہوا کے پروں پر نہیں اُڑ رہا تھا، اپنی غضبناک تلوار کو میان میں سے نکال کر جلدی میں نہیں تھا، بلکہ باغ میں ٹہل رہا تھا۔ ’’دِن کی ٹھنڈک میں‘‘ – ناکہ رات کی مُردگی میں جب تاریکی کا قدرتی اندھیرا شاید مجرموں کی خوفناکیوں کو بڑھا چکا ہوتا ہے؛ دِن کی حدت میں نہیں، کہیں وہ یہ تصور نہ کر لے کہ خُداوند جنون کی گرمائش میں آتا ہے؛ علی الصبح نہیں، جیسا کہ وہ انصاف کرنے کی جلدی میں ہو، بلکہ دِن کے اختتام پر، کیونکہ خُدا کافی عرصے تک تڑپتا رہا ہے، غصے میں آنے کے لیے دھیما، اور شدید رحم کے ساتھ۔ وہ شام کی ٹھنڈک میں آتا ہے، جب سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے، جب انسان کے رحم کے لیے اُوس رونا شروع ہوتی ہے، جب شفیق ہوائیں، رحم کی سانس کے ساتھ، خوف کے گرم گالوں پر پھونکیں مارتی ہے! وہ آیا جب زمین خاموش تھی، کہ انسان شاید دھیان لگائے، اور جب آسمان اپنے شام کے چراغوں کو جلا رہا تھا، کہ انسان کو شاید تاریکی میں اُمید مل جائے – تب اور صرف تب ہی – خُدا باغ میں آیا۔ آدم بھاگتا ہے اور اُس انتہائی خُداوند سے اِجتناب کرنے کی تلاش کرتا ہے جسے وہ کبھی اعتماد کے ساتھ ملا تھا، اور جس کے ساتھ اُس کی رفاقت تھی، اُس کے ساتھ باتیں کرتا تھا جسے انسان اپنے کسی دوست کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ اور اب، خُدا کی آواز سُنتا ہے جب خُدا پکارتا ہے، ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ ہائے، اُس مختصر سے جملے میں خُدا کی سچائیاں تھیں! یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدم کھو چکا تھا، ورنہ خُدا کو اُسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ تو کہاں تھا۔ جب تک ہماری چیز گم نہیں ہو جاتی، ہم اِس کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن جب خُدا نے کہا، ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ یہ ایک چرواہے کی آواز تھی جو اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کے لیے پوچھ رہا تھا۔ یا اِس سے بھی بہتر، ایک محبت کرنے والے والد کی پُکار جو اپنے بچے کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو اُسے چھوڑ کر نکل بھاگا ہے، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ یہاں پر صرف تین الفاظ ہیں، لیکن وہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کھو چکے ہیں۔ جب خُداوند خود تفتیش کرتا ہے وہ کہاں ہے، تو جو آپ کو یا مجھے ابھی تک مکمل طور پر سمجھ ہونی چاہیے اُس کے مقابلے میں اُس [آدم کو] زیادہ ناخوشگوار احساس میں کھویا ہوا ہونا چاہیے! لیکن پھر، یہاں پر رحم بھی ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خُدا انسان پر رحم کرنے کی نیت رکھتا تھا ورنہ وہ اُسے کھویا ہوا ہی رہنے دیتا، اور نہ کہا ہوتا، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ لوگ اُس بارے میں تفتیش نہیں کرتے جس کو وہ قیمتی نہیں سمجھتے۔ وہاں پر خوشخبری کا ایک واعظ تھا، میرے خیال میں، اُن تین الوہی لفظوں میں جب وہ باغ کے گھنے حصوں میں داخل ہوتے ہیں۔ ’’تو کہاں ہے؟‘‘ آپ کا خُدا آپ کو کھونے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ آپ کو تلاش کرنے کے لیے آ چکا ہے، بالکل جیسے وہ اپنے بیٹے کی ہستی میں آنے کی نیت رکھتا ہے، نا صرف تلاش کرنے کے لیے، بلکہ اُسے بچانے کے لیے جو اب کھو چکا ہے! ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ اوہ، اگر خُدا کا اِرادہ نسل انسانی کو تباہ کرنے کا بن چکا ہوتا، تو وہ بجلی گِرا چکا ہوتا، اور درختوں کو جلا چکا ہوتا، اور گنہگار کی راکھ کو اپنی ناراض نظر کے نیچے آنے دیتا! وہ بگولے میں جلدی سے آ چکا ہوتا، اور طوفان میں، اور درختوں کو اُن کی جڑوں سے اُکھاڑ چکا ہوتا، تو کہہ چکا ہوتا، ’’تو یہاں پر ہے، تو باغی! غدار! تیرے سامنے جہنم کُھل جائے گی، اور تو ہمیشہ کے لیے نِگلا جائے گا!‘‘ لیکن جی نہیں، وہ انسان سے محبت کرتا ہے؛ وہ اُس کی پرواہ کرتا ہے، اور اِسی لیے اب محبت بھرے الفاظ میں پوچھتا ہے وہ کہاں ہے، ’’آدم تو کہاں ہے، تو کہاں ہے؟‘‘

وہ سوال جو خُداوند آدم کے بارے میں پوچھتا ہے شاید چار مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہو۔ ہمیں یقین نہیں ہے کہ کونسے بالکل صحیح احساس کے ساتھ خُدا کا اِس کے لیے اِرادہ تھا – شاید سب میں – کیونکہ اُس خُدائے قادر مطلق کے لفظوں میں ہمیشہ ایک شدید گہری ادائیگی ہوتی ہے جو کہیں پرے دُبک جاتی ہے۔ ہمارے الفاظ، اگر وہ ایک سمجھ دیتے ہیں، تو بخوبی اپنا کردار ادا کرتے ہیں؛ لیکن خُداوند جانتا ہے کیسے بات کرنی ہے تاکہ وہ چند لفظوں میں بے شمار سچائیوں کی تعلیم دے۔ ہم بہت سارے میں تھوڑا سا پیش کرتے ہیں – خُدا تھوڑے سے میں بہت کچھ پیش کر دیتا ہے! بے شمار الفاظ اور تھوڑی سی سمجھ – یہ اکثر انسان کی تقریر کا اصول ہوتا ہے۔ چند الفاظ اور کہیں زیادہ مطلب – یہ خُدا کے ساتھ اصول ہے۔ ہم پتوں پر سونا منڈھ کر یا چڑھا کر پیش کرتے ہیں؛ خُدا سونے کی ڈلیاں پیش کرتا ہے جب وہ بولتا ہے! ہم تو صرف جواہرات کا بچا کُچھا پیش کرتے ہیں؛ خُدا ہر مرتبہ جب ہمارے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے تو اپنے ہونٹوں سے موتی نچھاور کرتا ہے! ہمیں شاید کبھی بھی، حتّیٰ کہ ابدیت تک معلوم نہیں ہوگا کہ خُدا کے الفاظ کس قدر اِلہٰی ہیں – کس قدر اُسی خُداوند کی مانند، کس قدر انتہائی وسیع، کس قدر لامحدود۔

I۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ خُدا کی تفتیش ایک بیداری کے احساس کی نیت سے تھی – ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ گناہ ضمیر کو ملامت کرتا ہے؛ یہ ذہن کو سُن سکتا ہے، تاکہ گناہ کے بعد، انسان اپنے خطرے کو سمجھنے کا اِس قدر قابل ہی نہ رہے جتنا وہ اِس کے بغیر رہا ہوگا۔ گناہ ایک زہر ہے جو ہمیں درد کے بغیر ذِلت کی موت مارتا ہے۔ انسان گناہ سے ایسے ہی مرتا ہے جیسے وہ الپسAlps پر مرتا ہے جب وہ ٹھنڈ سے جم کر مرتا ہے – وہ نیند ہی میں مر جاتے ہیں؛ وہ سوتے ہیں، اور سوتے ہیں، اور سوتے ہیں اور سونا جاری رکھتے ہیں، جب تک موت اُن تک آ نہیں جاتی، اور پھر، جہنم میں وہ اذیتوں کے لیے بیدار ہوتے ہیں! انسان میں الہٰی فضل کےکاموں میں سے پہلا ایک کام اُسے اِس نیند سے بیدار کرنا ہوتا ہے، اُسے اپنی آنکھیں کُھولنے اور خطرے کو دریافت کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ ایک اچھے طبیب کے اچھے کاموں میں سے پہلا ایک کام ہمارے جسم میں احساس قوت کے ہونے کو ڈالنا ہوتا ہے۔ یہ سرد اور مُردہ ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس میں زندگی ڈالتا ہے، اور پھر، درد ہوتا ہے؛ لیکن اُسی انتہائی درد کا ہم پر ایک اچھا اثر ہوتا ہے۔ اب، میرے خیال میں خُداوند کی جانب سے اِس سوال کا اِرادہ آدم کو سوچنے پر مجبور کرنا تھا۔ ’’تو کہاں ہے؟‘‘ وہ کسی نہ کسی حد تک اِدارک کر چکا تھا کہ گناہ اُس [آدم] کو کسی حالت میں لا چکا تھا، لیکن اِس سوال کا مقصد اُس [آدم] کی روح کی گہرائی کو جھنجھوڑنا تھا، اور اُس کو خطرے کی ایسی حالت سے بیدار کرنا تھا، کہ اُسے [آدم کو] آنے والے قہر سے بچنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی چاہیے۔ ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ – خود پر اب نظر ڈالیں، ننگے، اپنے خُداوند کے لیے ایک اجنبی، اپنے خالق کی موجودگی سے خوف کھائے ہوئے، بدنصیب، ٹھکرایا ہوا۔ ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ – ایک سخت دِل کے ساتھ، ایک باغی مرضی کے ساتھ، اپنے اعلیٰ رُتبے سے گِرا ہوا، گِرا ہوا، گِرا ہوا! ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ گمراہ! اپنے خُدا کے لیے کھویا ہوا، خوشی کے لیے کھویا ہوا؛ امن کے لیے کھویا ہوا؛ وقت میں کھویا ہوا، ابدیت میں کھویا ہوا۔ گنہگار، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ اوہ، وہ شاید میں ہوں، اُن سنجیدہ الفاظ کے ذریعے سے جن کا مجھے اب اظہار کرنا چاہیے، کچھ سنگدلوں کو جھنجھوڑنا چاہیے، جواب دینے کے لیے لاپرواہ گنہگار۔ تو کہاں ہے؟ – آج کی صبح تو کہاں ہے؟ کیا میں تجھے بتاؤں؟ تو اُس حالت میں ہے جس میں خود تیرا انتہائی اپنا ضمیر تجھے لعنتی قرار دیتا ہے! آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بھی گناہ کے لیے توبہ نہیں کی، کبھی بھی مسیح میں بھروسہ نہیں کیا! میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ کا ضمیر آپ کو پریشان کرتا ہے؟ اگر آپ کا دِل آپ کی مذمت کرتا ہے، تو آپ کے دِل کے مقابلے میں خُداوند عظیم تر ہے، اور سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپ کا ضمیر آپ کو بتاتا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں – اوہ، پھر کس قدر غلطی پر آپ کو ہونا چاہیے!

کیا آپ کو نہیں معلوم کہ اپنے خُدا سے آپ ایک اجنبی ہیں؟ آپ میں سے بے شمار شاذونادر ہی اُس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ کئی کئی دِن اور ہفتے اُس کے نام کا تزکرہ کیے بغیر گزار دیتے ہیں، ماسوائے، شاید، کسی حقیر زبان میں، ایک وعدے کے طور پر۔ آپ ایک دوست کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتے، لیکن آپ اپنے خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں! آپ کھاتے ہیں، آپ پیتے ہیں، آپ مطمئن ہیں؛ دُنیا آپ کے لیے کافی ہے؛ اِس کی لطف انگیزیاں آپ کی روح کو مطمئن کرتی ہیں۔ اگر آپ نے یہاں پر خُدا کو دیکھا تو آپ اُس سے دور بھاگ جائیں گے! اُس کے لیے آپ ایک دشمن ہیں! ’’تو کہاں ہے؟‘‘ یاد رکھیں، وہ قادرمطلق خُداوند آپ سے ناراض ہے۔ اُس کے احکامات، بے شمار بندوقوں کی مانند، اِس صبح سب کی سب آپ کی جانب اُٹھی ہوئی ہیں، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ اوہ خُدایا، یہ دیکھنے کے لیے انسان کی مدد کر وہ کہاں ہے! اُس کی آنکھیں کھول دے! اُس سوال سے اُس کو چونکنے دے۔ اُس کو بیدار ہونے دے اور دریافت کرنے دے وہ کہاں ہے!

’’تو کہاں ہے؟‘‘ آپ کی زندگی نازک ہے؛ کچھ بھی کمزور تر نہیں ہو سکتا۔ آپ کی زندگی کے دھاگے کا موازنہ ایک مکڑی کے جالے کی تار کی مانند ہوتا ہے۔ آپ کی ہستی کے سانچے کے بُلبلے کا موازنہ معقول اہمیت کی تعبیر والے خوابوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ یہاں ہے اور آپ جا چکے ہیں! آپ آج یہاں بیٹھے ہیں؛ ایک ہفتے کے گزرنے سے پہلے، آپ شاید جہنم میں درد بھری چیخیں مار رہے ہوں گے! اوہ، آپ کہاں پر ہیں؟ لعنتی قرار دیے ہوئے، اِس کے باوجود لاپرواہی کے ساتھ تباہی کی جانب جا رہے ہیں! یہاں پر کھوئے ہوئے، اِس کے باوجود جلدیوں میں، ہر لمحہ آپ کو باز کے پروں پر اُڑاتا ہوا ایک ایسی جگہ لے جا رہا ہے جہاں پر آپ ابدیت تک کے لیے کھو جائیں گے! خود کو جاننے کے لیے خود کو لانے کس قدر مشکل ہوتا ہے! دوسرے معاملات میں، اگر انسان تھوڑا سا بیمار ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر ایک شخص کہتا ہے، ’’امن، امن، مجھے تنہا رہنے دو،‘‘ گنہگار! گنہگار! گنہگار! کیا آپ کی جان اِس قدر بے قیمت ہے کہ آپ اِس کو کھونا برداشت کر سکتے ہیں، کیونکہ آپ اپنی نیند سے بیدار نہیں ہوں گے اور اپنے لطف انگیز خوابوں کو نہیں روکیں گے؟ اوہ، اگر ایک بھائی کا دِل آپ کے دِل کو جھنجھوڑ سکتا ہے، اور اگر ایک بھائی کی آواز آپ کی سوئی ہوئی آنکھوں کو بیدار کر سکتی ہے، تو میں کہوں گا، ’’آپ کے ساتھ کیا خرابی ہے، اے سونے والے؟ اُٹھ اور اپنے خداوند کو پُکار! بیدار ہو! تو کیوں سویا ہوا ہے؟ سوال کا جواب دینے کے لیے بیدار ہو، ’تو کہاں ہے؟‘ – کھویا ہوا، تباہ حال اور رُسوا۔ اوہ گنہگار، تو کہاں ہے؟‘‘

II۔ اب، دوسری بات، اُس سوال کا مقصد گناہ کے بارے میں قائل کرنا تھا، اور اعتراف کے لیے رہنمائی کرنا تھا۔ اگر آدم کا دِل دُرست حالت میں ہوتا، تو اُس نے اپنی تمام گناہ کی بھرپوری کا مکمل اعتراف کر لیا ہوتا۔ ’’تو کہاں ہے؟‘‘ آئیے خُداوند کی آواز کو سُنیں جو ہمیں وہ بات کہہ رہی ہے، اگر آج ہم نجات نہیں پاتے ہیں! ’’آدم، تو کہاں ہے؟ میں نے تجھے خود اپنی شکل پر بنایا، میں نے تجھے فرشتے سے تھوڑا کم بنایا؛ میں نے تجھے اپنے ہاتھوں کے کاموں پر راج کرنے کے لیے بنایا؛ میں نے تیرے قدموں میں سب چیزیں رکھ دیں – ہواؤں کے پرندے، سمندر کی مچھلیاں، اور جو کچھ بھی سمندر کی گہرائیوں میں سے گزرتا ہے۔ میں نے اِس تمام باغ کو تیرا گھر ہونے کے لیے پیش کر دیا۔ میں نے تجھے اپنی حضوری کے ساتھ عزت بخشی۔ میں نے تیری بھلائی کا سوچا۔ میں نے تمام چیزیں تیری خوشی کی خاطر بنائیں۔ تو کہاں ہے؟ میں نے تجھ سے ماسوائے اُس چھوٹی سی بات کے کچھ نہیں مانگا، کہ تو اُس ایک درخت کو نہیں چھوئے گا جس کو میں نے خود کے لیے مخصوص کیا تھا۔ تو کہاں ہے؟ کیا تو ایک چور، ایک باغی، ایک غدار ہے؟ کیا تو گناہ کر چکا ہے؟ ہائے آدم، تو کہاں ہے؟‘‘

اور اب، گنہگار، مجھے سُن، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ آپ میں سے کئی لوگوں کو خُداوند شاید کہتا ہے، ’’میں نے تمہیں ایک مُتّقی ماں بخشی جس نے تم پر تمہارے بچپنے میں آنسو بہائے۔ میں نے تمہیں ایک مقدس باپ بخشا جو تمہارے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی چاہت رکھتا تھا۔ میں نے تمہیں پروردگاری کے تحائف بخشے – تم نے کبھی کھانے کی چاہت نہیں کی، میں نے تمہاری کمر ڈھانپی۔ میں نے تمہیں زندگی میں ایک آرام دہ حالت میں رکھا۔ میں نے تمہیں بیماری کے بستر سے اُٹھا کر رکھا۔ میں نے دس ہزار بیوقوفیوں کو نظرانداز کیا۔ میری رحمتیں تمہارے لیے ایک دریا کی مانند بہیں۔ جب تم صبح میں اپنی آنکھیں کھولتے، تو وہ میری اچھائی پر نظر ڈالنے کے لیے تھیں؛ اور رات کے آخری لمحے تک، میں تمہارا مدد گار تھا۔ گنہگار، تو کہاں ہے؟‘‘ خُدا کی تمام تر اچھائیوں کے بعد – ابھی تک ایک گنہگار!

سوال کو دوبارہ سُنیں، ’’تم کہاں ہو؟‘‘ سانپ نے کہا تم خدا ہو جاؤ گے۔ آدم، کیا یہ ایسا ہے؟ کیا یہ ایسا ہے؟ تمہارا دکھاوے کا شعور کہاں ہے؟ وہ عزتیں کہاں ہیں؟ وہ وسیع اہلیتیں کہاں ہے جو بغاوت تمہارے پاس لائے گی؟ فرشتوں کے لبادے کے بجائے، تم ننگے ہو! جلال کے بجائے، تمہارے پاس شرمندگی ہے! سربُلندی یا رُتبے کے بجائے تمہارے پاس رسوائی ہے! آدم، تو کہاں ہے؟ اور گنہگار، تو کہاں ہے؟ گناہ نے تم سے کہا، ’’میں تمہیں لطف بخشوں گا‘‘ – تم اُسے پا چکے ہو؛ لیکن اُس درد کا کیا جو لطف کےساتھ ملتی ہے؟

III۔ یہ بات مجھے تیسری راہ پر لے جاتی ہے جس میں ہم شاید تلاوت کے سوال کا لحاظ کرتے ہیں، خُداوند خُدا نے آدم کو بُلایا اور اُس سے کہا، ’’تم کہاں ہو؟‘‘ ہم شاید اِس تلاوت کا لِحاظ خُداوند کی آواز کے طور پر کرتے ہیں

کچھ لوگ تو عبرانی کا ترجمہ کرنے کے لیے یہاں تک قیاس کر چکے ہیں، ’’تیرے لیے افسوس، تیرے لیے افسوس!‘‘ یہ ایسا ہی ہے جیسے خُداوند نے نبی کے الفاظ کا اِظہار کیا ہو، ’’میں کیسے تجھے چھوڑ سکتا ہوں؟ میں کیسے تجھے قطعی طور پر تباہ کر سکتا ہوں؟ تو کہاں ہے، میرے بیچارے آدم؟ تو میرے ساتھ بات کیا کرتا تھا مگر تو اب مجھ سے چھپا ہوا ہے۔ تو کبھی خوش تھا، تو اب کیا ہے؟ ننگا اور بیچارہ، اور بدنصیب؛ تو کبھی میری شکل پر تھا جلالی، لافانی، مقّدس – تو اب کہاں پر ہے، بیچارے آدم؟ میری شکل تجھ میں بگڑ چکی ہے، خود تیرے اپنے باپ کے چہرے کو لیا جا چکا ہے، اور تو خود اپنے آپ کو زمینی، حیوانی، اور شیطانی بنا چکا ہے! تو اب کہاں ہے بیچارے آدم؟ اوہ، یہ بات سوچنا حیرت انگیز ہے کہ کیسے خُداوند نے بیچارے آدم کے لیے محسوس کیا ہوگا! تمام عالمین اِلہٰیات اِس بات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ خُدا نا ہی تو محسوس کر سکتا ہے اور نا ہی تکلیف برداشت کر سکتا ہے۔ خُداوند کے کلام میں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے! اگر یہ کہا جا سکتا کہ خُداوند سب کچھ اور کچھ نہیں کر پایا، تو ہم کہیں گے کہ وہ [خُداوند] لامحدود قوت کا مالک نہیں تھا! لیکن وہ تمام کام کرسکتا ہے، اور ہمارے پاس ایسا خُدا نہیں ہے جس کو قائل نہ کیا جا سکے – ہمارے پاس ایسا خُدا ہے جو محسوس کرتا ہے، اور جو خود کو انسانی زبان میں ایک باپ کا دِل رکھنے والے کی حیثیت سے اور ماں کے دِل کی تمام رحم دلی کو رکھنے والے کی حیثیت سے بیان کرتا ہے۔ بالکل جیسے ایک باپ اپنے باغی بچے پر روتا ہے، ویسے ہی دائمی باپ کہتا ہے، ’’بیچارے آدم، تو کہاں ہے؟‘‘

اور اب، کیا میرے پاس آج کی صبح کوئی ایسی جان ہے جس پر تلاوت کے پہلے حصے کا کوئی اثر ہوا ہو؟ کیا آپ خود کو کھویا ہوا محسوس کرتے ہیں، اور کیا آپ پہچانتے ہیں کہ یہ کھویاپن خود آپ کی اپنی گناہ کی مرضی کی بھرپوری کا نتیجہ ہے؟ کیا آپ خود پر افسوس کرتے ہیں؟ آہ، تب خُداوند آپ پر افسوس کرتا ہے! وہ آپ پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ کہہ رہا ہے، ’’ہائے، بیچارہ شرابی، تو کیوں اپنے پیالوں کے ساتھ چمٹا رہے گا؟ تجھے وہ کسی بدنصیبی میں لا چکے ہیں؟ وہ آپ سے کہہ رہا ہے جو اب گناہ پر رو رہا ہے، ’’ہائے بیچارہ بچہ، کتنا درد تجھے خود اپنی ہی مرضی کی بھرپوری کی حماقت سے برداشت کرنا پڑا!‘‘ ایک باپ کا دِل پسیج جاتا ہے؛ وہ اپنے افرائیم کو اپنی چھاتی سے لگانا چاہتا ہے۔ سوچ مت گنہگار، کہ خُداوند سنگدل ہے۔ تیرا دِل پتھر کا ہوتا ہے، خدا کا نہیں ہوتا! مت سوچ کہ وہ پسیجنے میں دیر کرتا ہے – تو پسیجنے میں دیر کرتا ہے – وہ نہیں کرتا – وہ سختی خود تجھ میں ہوتی ہے! اگر تو کہیں پر بھی تنگدست ہوا، تو وہ خود تیرے اپنے دِل میں ہوا تھا، ناکہ اُس خداوند کے دِل میں! بشر، بشر گناہ کا مجرم قرار پایا، خدا آپ سے محبت کرتا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ آپ سے کس قدر محبت کرتا ہے، اپنے بیٹے کی ہستی میں وہ آپ پرروتا ہے، اور پکارتا ہے، ’’اوہ تو وہ بات جانتا ہے، یہاں تک کہ تو اپنے اِس دِن میں، وہ باتیں جو تیرے سکون کے لیے ہوتی ہیں؛ لیکن اب وہ تیری نظروں سے غائب ہو چکی ہیں۔‘‘ میں اُس خُداوند کو تجھے کہتے ہوئے سُنتا ہوں، ’’اے یروشلم، یروشلم، میں نے کتنی مرتبہ تیرے بچوں کو ایسے اکٹھا جمع کیا جیسے مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں میں اِکٹھا جمع کرتی ہے، لیکن تو نہیں کرتا!‘‘ میں تمہارے لیے دعا مانگتا ہوں، اُس دائمی خُداوند کی اِس غمگین ماتم بھری آواز کو اپنے کانوں تک آنے دے اور توبہ کے لیے تیار ہو جا! ’’جب میں زندہ ہوں، خُداوند کہتا ہے، تو جو مرتا ہے اُس کے مرنے میں مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی، بلکہ اِس کے بجائے کہ وہ میری طرف مُنہ موڑے اور زندہ رہے۔‘‘ کیا تمہارا دِل پھٹنے کے لیے تیار محسوس کرتا ہے تمہارے گناہ کی وجہ سے اور اُس بدنصیبی کی وجہ سے جس میں یہ آپ کو ڈال چکا ہے؟ دعا مانگ، بیچارے گنہگار، ’’میں اُٹھوں گا اور اپنے باپ کے پاس جاؤں گا، اور اُس سے کہوں گا، اے باپ میں نے آسمان کے خلاف اور تیری حضوری میں گناہ کیا ہے، اور میں تیرا بیٹا کہلانے کا حقدار نہیں ٹھہراتا۔‘‘ وہ تمہیں دیکھتا ہے، اے گنہگار! جب تم ابھی راہ سے بہت زیادہ ہی بھٹکے تھے، وہ تمہیں دیکھتا ہے – یہاں رحم کی آنکھیں ہیں! وہ دوڑتا ہے – یہاں رحم کے قدم ہیں! وہ تمہیں پکڑتا ہے – یہاں رحم کے بازو ہیں! وہ تمہیں چومتا ہے – یہاں رحم کے ہونٹ ہیں! وہ کہتا ہے، ’’اُس کے چیتھڑے اُتار دو‘‘ – یہاں رحم کے الفاظ ہیں! وہ تمہیں لباس زیب تن کراتا ہے – یہاں رحم کے اعمال ہیں! رحم کے عجوبے ہیں – تمام کا تمام رحم! اوہ کیا تم یہ بات جانتے ہو گنہگار کے رحم کا خُدا کتنا شاندار استقبال کرتا ہے، تم سے پرے نہیں رہا جائے گا! جیسا کہ جان بنیعن John Bunyan کہتے ہیں، جب محاصرہ کرنے والا کال جھنڈا لہراتا ہے، تم وہ جو دیواروں کے اندر ہوتے ہیں کہتے ہیں وہ اِس سے لڑائی لڑیں گے۔ لیکن جب وہ سفید جھنڈا لہراتا ہے، اور اُنہیں بتاتا ہے کہ اگر وہ پھاٹک کھول دیں گے تو وہ اُن پر رحم کرے گا، جی نہیں، وہ اُن کے شہر کو منشور بخشے گا، تب، بنیعن کہتے ہیں، وہ کہیں گے، ’’پھاٹکوں کو پورا کھول دو،‘‘ اور وہ دیواروں پر سے پھلانگتے ہوئے اُس کے پاس اپنے دِلوں کی آمادگی کے ساتھ آتے ہیں! بشر، شیطان کو خود کو یہ کہنے کے ذریعے سے دھوکہ مت دینے دے کہ خُداوند سخت، بے رحم، معاف نہ کرنے والا ہے! اُس کو آزما، اُس کو آزما! بالکل جیسا تو ہے – گناہ کے ساتھ سیاہ، غلیظ، خود کو مجرم – اور اگر تمہیں اُس کے پاس آنے کی تیاری کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہے، تو خُداوند کی غمگین آواز کو دوبارہ سُن، جب وہ عدن کے درختوں میں سے گونجتی ہوئی گزرتی ہے، ’’آدم، بیچارے آدم، میری خود کی مخلوق، کہاں، کہاں پر ہے تو؟‘‘

IV۔ لیکن اب مجھے رُخ موڑنا چاہیے کہیں وقت ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جائے، اُس چوتھی جانب جس میں، کوئی شک نہیں، اِس آیت کا مقصد تھا۔ یہ ایک بُلند ہوتی ہوئی آواز ہے، ایک قائل کر ڈالنے والی آواز ہے، ایک ماتمی آواز ہے – لیکن چوتھی جگہ پر – یہ ایک تلاش کرنے والی ایک آواز ہے۔ ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ میں تجھے ڈھونڈنے کے لیے آیا ہوں، تو کہیں پر بھی ہو۔ میں تجھے تلاش کروں گا جب تک میری ترس بھری نظریں تجھے دیکھ نہیں لیتی۔ میں تجھے اُس وقت تک ڈھونڈوں گا جب تک میرے رحم کے ہاتھ تجھ تک پہنچ نہیں جاتے، اور میں تب بھی تجھے اُٹھاؤں گا جب تک میں تجھے خود کے پاس واپس نہیں لے آتا، اور تیری صلح اپنے دِل کے ساتھ نہیں کروا لیتا۔

دوبارہ، اگر آپ خُطبے کے تینوں حصوں میں مجھے سمجھتے رہنے کے قابل رہے ہیں، تو میں آپ کے ساتھ اعتماد سے بات کر سکتا ہوں۔ اگر آپ بیدار ہو چکے ہیں، اگر آپ قائل ہو چکے ہیں، اگر آپ کی خُدا کی جانب کچھ چاہت ہوئی ہے، تو پھر خداوند آپ کو تلاش کرنے کے لیے اور اِس صبح آپ کو تلاش کرنے کے لیے آگے آ چکا ہے! یہ کیسی ایک سوچ ہے، کہ جب خُداوند اپنے چُنے ہوئے کی تلاش کے لیے آگے آتا ہے، تو وہ جانتا ہے وہ کہاں پر ہیں، اور وہ اُنہیں کبھی بھی چھوڑ نہیں سکتا؛ اور حالانکہ وہ شاید بہت دور تک آوارہ گردی کر چکے ہوں، اِس کے باوجود، یہ اُس کے لیے اِس قدر زیادہ دور نہیں ہوتا ہے! اگر وہ جہنم کے پھاٹکوں تک جا چکے ہوتے، اور پھاٹک اُنہیں قبول کرنے کے لیے آدھے کُھل بھی چکے ہوتے، تو خُداوند وہاں سے بھی آپ کو نکال لاتا۔ اگر وہ اِس قدر گناہ کر چکے تھے کہ اُنہوں نے خود ہی ہمت ہار دی تھی، اور ہر زندہ مسیحی نے اُنہیں چھوڑ بھی دیا تھا – اگر شیطان نے اُنہیں اہمیت دی بھی ہوتی، اور اُنہیں قبول کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہوتا، اِس کے باوجود، جب خُداوند اُنہیں ڈھونڈنے کے لیے سامنے آتا ہے، تو وہ اُنہیں ڈھونڈ لے گا، اور آخرکار وہ اُنہیں پا ہی لے گا! تم، جو کھو چکے ہو، فنا ہو جانے والے گنہگارو، خُداوند کی آواز کو سُنو، کیونکہ یہ تم سے ہمکلام ہے، ’’تم کہاں ہو؟‘‘ کیونکہ میں تمہیں ڈھونڈنے کے لیے آیا ہوں۔ ’’خُداوند میں ایسی جگہ پر ہوں کہ میں خود کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ ’’پھر میں تجھے تلاش کرنے کے لیے اور تیرے لیے سب کچھ کرنے کے لیے آ چکا ہوں۔‘‘ خُداوندا، میں ایسی جگہ پر ہوں کہ شریعت مجھے دھمکاتی ہے اور انصاف مجھ پر تیوریاں چڑھاتا ہے۔‘‘ ’’میں شریعت کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لیے آیا ہوں، اور انصاف کے تمام قہر کو برداشت کرنے کے لیے آیا ہوں!‘‘ لیکن، خُداوندا، میں ایک ایسے مقام پر ہوں کہ جیسے مجھے توبہ کرنی چاہیے میں ویسے نہیں کر سکتا۔‘‘ میں تجھے تلاش کرنے کے لیے آیا ہوں اور میں توبہ بخشنے اور گناہوں کی بخشش کے لیے اعلیٰ و ارفع مقام پر ہوں۔‘‘ لیکن، خُداوند، میں تجھ میں یقین نہیں کر سکتا؛ میں ویسے یقین نہیں کر سکتا جیسے مجھے کرنا چاہیے۔‘‘ ’’میں ایک بھی زخمی تنکا نہیں ٹوٹنے دوں گا [میں کوئی دِل آزاری نہں کروں گا]، اور ایک بھی کش کی پیاس نہیں کروں گا [یعنی ذرا سا بھی بدلہ نہیں لوں گا]، میں تمہیں ایمان بخشنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ لیکن، خُداوند، میں ایک ایسی حالت میں ہوں کہ میری دعائیں کبھی بھی قبولیت کے قابل نہیں ہوں گی۔‘‘ میں تمہارے لیے دعا مانگنے کے لیے آیا ہوں، اور پھر تمہیں تمہاری خواہشیں بخشوں گا۔‘‘ ’’لیکن، خُدوندا، تو نہیں جانتا میں کتنا بدنصیب ہوں۔‘‘ ہاں، میں تمہیں جانتا ہوں۔ بے شک میں نےتم سے سوال پوچھا ہے، ’تم کہاں ہو؟‘ یہ اِس لیے تھا کہ تم شاید جان پاؤ تم کہاں پر ہو، کیونکہ میں تو بخوبی جانتا ہوں!‘‘ لیکن، خُداوندا، میں تو گنہگاروں کا سردار رہ چکا ہوں – کسی کے بھی اِس قدر سنگین قصور نہیں ہونگے جتنے کہ میرے ہیں۔‘‘ لیکن تو چاہے جہاں کہیں بھی ہو، میں تجھے بچانے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ ’’لیکن مجھے تو معاشرے میں سے نکالا جا چکا ہوں۔‘‘ لیکن میں تو اسرائیل کے جِلاوطنوں کو اِکٹھا جمع کرنے کے لیے آ چکا ہوں۔‘‘ اوہ، لیکن میں تو اُمید سے بھی پرے گناہ کر چکا ہوں۔‘‘ ہاں، لیکن میں بے بس گنہگاروں کو اُمید دینے کے لیے آ چکا ہوں۔‘‘ ہاں، لیکن پھر، میں کھو جانے کا ہی مستحق ہوں۔‘‘ ہاں، لیکن میں شریعت کو بڑا کرنے اور اِس کو قابل تعظیم بنانے کے لیے آ چکا ہوں، اور اِس طرح سے مسیح کی ہستی میں تمہیں تمہارا صلہ بخشنے کے لیے، اور پھر تمہیں اپنا رحم بخشنے کے لیے اُس [یسوع] کی حق داری کی وجہ سے آ چکا ہوں۔‘‘ یہاں پر ایک بھی گنہگار نہیں ہے، جو اپنی گمراہ حالت کے بارے میں باخبر ہو، جو اِس حالت میں ہو سکتا ہو کہ جس میں سے اُس نکالا نہ جا سکتا ہو! میں تمام بدترین میں سے بدترین کو، سارے غلیظوں میں سے غلیظ ترین کو اپناؤں گا – ہم اُنہیں اُٹھا لائیں گے جو شیطان کی ہیکل میں اعلیٰ ڈگریاں پا چکے ہیں، اور بدکاری کا اُستاد بن چکے ہیں – لیکن پھر بھی، اگر آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ وہ اُس یسوع کے اُن زخموں کی جانب ایک نظر ہی ڈال لیں جس نے گنہگاروں کے لیے اپنے خون کو بہایا؛ وہ اُنہیں انتہائی حد تک نجات دلانے کے بھی قابل ہے جو اُس کے وسیلے سے خُدا کی جانب سے ہے! اوہ، اِس صبح میں ویسے تبلیغ نہیں کر سکتا جیسے میں کرتا ہوں، نا ہی تم شاید اُس طرح سے سُن پائے جس کی تم نے خواہش کی تھی، لیکن کاش خُدا بولے جہاں میں نہ بول پایا، اور کاش وہ یہاں پر کچھ مایوس کُن گنہگاروں سے کہے، ’’بشر، تیرا وقت آن پہنچا ہے۔ میں تجھے اِسی دِن ہولناک گڑھے اور کیچڑ اور دلدل سے باہر نکال لوں گا اور بالکل اِسی لمحے! میں تیرے پاؤں چٹان پر رکھوں گا۔ میں تیرے مُنہ میں نیا گیت ڈالوں گا، اور میں تیرے وصال کو قائم کروں گا۔‘‘ مبارک، مبارک ہو اُس اعلیٰ مقتدر کا نام اگر معاملہ ایسا ہی ہے!

اوہ، وہ میں آپ سے التجا کر سکتا ہوں جیسے ایک شخص اپنی زندگی کے لیے التجا کرتا ہے! کیا مٹی کے لیے ہونٹ آگ کے ہونٹ تھے، اور یہ زبان گوشت کی نہیں رہی تھی، بلکہ ایک دہکتا کوئلہ جس کو چمٹے سے الطار پر سے اُٹھایا گیا! اوہ، اُن لفظوں کو لیے جو تمہاری روحوں میں دہکتے ہوئے اپنی راہ بنائیں گے! او گنہگار! گنہگار! تو کیوں مرے گا؟ تو کیوں فنا ہوئے گا؟ انسان، ابدیت ایک خوشگوار بات ہے، اور ایک ناراض خُدا ایک ہولناک بات ہے! اور جانچا جانا اور سزا پانا – کونسی زبان ہولناکیوں کو بیان کر سکتی ہے؟ اپنی زندگی کے لیے بھاگو؛ اپنے پیچھے مُڑ کر مت دیکھو؛ وسیع میدان میں مت ٹھہر؛ کوہ کلوری کی جانب بھاگ، کہیں تو ہڑپ ہی نہ ہو جائے! ’’خُداوند یسوع مسیح میں یقین رکھ۔‘‘ تنہا اُسی پر اپنی جان کے ساتھ بھروسہ کر؛ اِس کے ساتھ ابھی اُس پر بھروسہ کر، ’’اور تو نجات پائے گا۔‘‘ اگر آپ نجات پانے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، مہربانی سے آئیں اور پہلی دو قطاروں میں بیٹھیں، جبکہ باقی دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے اوپری منزل پر جائیں۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر بیجیمن کینکیڈ گریفتھ نے گایا تھا:
’’یسوع کی جانب اپنی نظریں اُٹھائیں Turn Your Eyes Upon Jesus، (شاعرہ ھیلن ایچ. لیمل Helen H. Lemmel، 1863۔1961)

.