Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


آدم، تو کہاں ہے؟

ADAM, WHERE ART THOU?
(Urdu)

ایک واعظ جسے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر نے تحریر کیا
اور جس کی منادی محترم جان سیموئیل کیگن نے کی
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
خُداوند کے دِن کی صبح، 29 اپریل، 2018
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr.
and preached by Rev. John Samuel Cagan
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Morning, April 29, 2018

’’اور خُدواند خُدا نے آدم کو حکم دیا کہ تو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:16۔17 )۔

پہلا انسان آدم خُدا کے ذریعے سے کامل معصومیت میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اُس کو ایک خوبصورت باغ میں رکھا گیا تھا۔ اُس باغ میں ہر ایک درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا تھا۔ آدم پھلوں تک پہنچ سکتا تھا اور ذائقہ دار پھل توڑ سکتا تھا۔ اُس پیارے باغ میں اُسے کوئی پریشانی نہیں تھی اور اُس کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ تمام کے تمام پرندے اور جانور سبزی خور تھے۔ وہاں پر کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو انسان کو نقصان پہنچاتا یا کسی نہ کسی طرح سے اُسے چوٹ پہنچاتا۔ انسان خود سبزی خور تھا، اِس لیے اُس کو جانوروں کا گوشت کھانے کے لیے اُنہیں قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ باغِ عدن میں ہر ایک بات سکون پرور تھی۔ وہاں اُس کے لیے کوئی طوفان نہیں تھے جن سے وہ چُھپتا، کیونکہ بارش کبھی ہوئی ہی نہیں تھی۔ ’’لیکن زمین سے کُہر اُٹھتی تھی جو تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی‘‘ (پیدائش2:6)۔ انسان کے پاس فکر کرنے کے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ اُسے بیمار پڑنے کے لیے کوئی مرض لاحق نہیں ہوتے تھے۔ اُس کے پاس اپنے خلاف لڑنے کے لیے کوئی دشمن نہیں تھے، اور خوفزدہ ہونے کے لیے کوئی جانور نہیں تھے۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

اور آدم کا کوئی گناہ نہیں تھا جو اُسے پریشان کرتا۔ اُس میں کوئی گناہ کی فطرت نہیں تھی، اُسے پریشان کرنے کے لیے کوئی نفسیاتی مسائل نہیں تھے۔ آدم خود میں پرسکون تھا۔ آدم خُدا کے ساتھ صلح میں تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔ اُس کو تو کسی لڑکی کو بھی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ خُدا نے اُس کی مدد کے لیے اور اُس کو آرام پہنچانے کے لیے اُس کی بیوی کی حیثیت سے ایک کامل، خوبصورت اور اِطمینان پہنچانے والی لڑکی بنائی تھی۔ لہٰذا وہ کبھی بھی تنہا نہیں تھا۔ چونکہ وہ کامل تھی، اِس لیے اُس لڑکی کی جانب سے آدم کے دِل کے ٹوٹنے کا کوئی موقع نہیں تھا، اُس لڑکی کا آدم کو چھوڑ کر جانے کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، ایسی کوئی ممکنہ بات نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ آدم سے کبھی بھی محبت کرنا چھوڑ دیتی۔ چونکہ وہاں پر کوئی گناہ نہیں تھا اِس لیے وہ لڑکی خُدا کو ناراض کیے بغیر آدم کی ہر ضرورت اور ہر خواہش کو پورا کرتی تھی۔ یہ ایک کامل جنت تھی۔

خُدا آدم کے ساتھ ہر روز کامل ہم آہنگی میں بات چیت کیا کرتا۔ آدم کبھی بھی اُس وقت آزمائش میں نہیں پڑا۔ اُس کو خُدا کے قہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہاں پر ٹھنڈا کرنے کے لیے قہر نامی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ وہ ایک خوبصورت عورت کے ساتھ رہتا تھا جو اُس سے محبت کرتی تھی۔ وہ ذائقہ دار کھانوں سے بھرے ایک باغ میں زندگی بسر کرتا تھا۔ وہ خُدا کے ساتھ صلح میں تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

اور خُداوند نے اُس کو صرف ایک قانون دیا تھا۔ اور اُسے پورا کرنے کے لیے وہ قانون نہایت آسان تھا۔ ماننے کے لیے صرف ایک انتہائی آسان سے حکم۔ خُدا نے اُس سے کہا، ’’تو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:16۔17)۔ خُدا کو اُس سے صرف اِسی بات کی ضرورت تھی۔ اور اُس کو صرف اِتنا کرنا تھا کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہیں کھانا تھا۔ نبھانے کے لیے یہ ایک انتہائی آسان سا قانون تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

تاہم، باغ میں ایک تیسرا شخص بھی تھا۔ شیطان وہاں پر تھا۔ وہ آسمان میں فرشتوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ لیکن اُس نے خُداوند کے خلاف بغاوت کی تھی اور اُس کو زمین پر پھینک دیا گیا تھا۔ شیطان خُداوند کا دشمن تھا۔ لیکن آدم کو اُس سے خُدا کے وسیلے سے حفاظت فراہم کی گئی تھی۔ وہ واحد راہ جس سے شیطان خُدا کے دِل کو ٹھیس پہنچا سکتا تھا وہ آدم کو بھی خُدا کے خلاف بغاوت کرنے پر رضا مند کرنا تھی۔

اُس باغ میں دو درخت تھے جو سب سے زیادہ اہم تھے۔ پہلا زندگی کا درخت تھا۔ اگر آدم اُس درخت کے پھل کھاتے رہنا جاری رکھتا، تو وہ عدن کی جنت میں ہمیشہ کی زندگی بسر کرتا رہتا (پیدائش3:22)۔ لیکن اگر وہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھاتا تو مر جاتا۔ وہ ایک کامل جنت تھی – ماننے کے لیے ایک قانون کے ساتھ – زندگی کے درخت سے کھانا اور ساری زندگی زندہ رہنا۔ وہ قانون کا مثبت پہلو تھا۔ نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھا اور تو مر جائے گا۔ وہ قانون کا منفی پہلو تھا۔ وہ ایک سادہ سا قانون تھا – اور تابعداری کرنے کے لیے آسان تھا۔ اِس درخت سے کھا اور ہمیشہ کی زندگی جی۔ دوسرے درخت سے کھا اور تو مر جائے گا۔ وہ فرمانبرداری کرنے کے لیے صرف اور صرف ایک ہی قانون کے ساتھ ایک کامل جنت تھی – فرمانبرداری کرنے کے لیے ایک نہایت ہی آسان سا قانون۔

اب، چونکہ خُداوند نے آدم اور اُس کی بیوی کی حفاظت کی تھی، شیطان اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ وہ صرف اُنہیں آزمائش میں مبتلا کر سکتا تھا، اُنہیں اُس سادہ سے قانون کو توڑنے کے لیے آزمائش میں مبتلا کر سکتا تھا۔ شیطان کوئی بل کھاتا ہوا سانپ نہیں تھا۔ وہ بعد میں ہوا تھا جب خُداوند نے اژدھے کو معلون قرار دیا تھا۔ لیکن ابھی، اِس موقع پر، شیطان کسی مخلوق کو باغ میں داخل کروا چکا تھا۔ جیسے بعد میں وہ اور اُس کے آسیب مسیح کے حکم پر سؤر میں گُھس گئے تھے۔ یہاں پر، تاہم، وہ ایک ’’نور کے فرشتے‘‘ کی حیثیت سے رونما ہوا تھا (2 کرنتھیوں 11:14)۔

ہم نہیں جانتے کہ وہ اصلی والا اژدھا کیسا دکھائی دیتا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُس کے پاس ٹانگیں تھی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی مخلوق رہا ہوگا جسے وہ اکثر باغ عدن میں دیکھتے رہتے تھے، کیونکہ اُس سے حوّا کو ڈر نہیں لگا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس جانور میں شیطان گُھس چکا تھا اور آدم کی بیوی کے ساتھ اِسی جانور کے مُنہ کے ذریعے سے ہمکلام ہوا تھا۔ جب وہ اُس سے ہمکلام ہوا تھا تو وہ حیران نہیں ہوئی تھی۔ وہ غالباً اُس کے ساتھ کئی مرتبہ کر چکی تھی اور اُس کے ساتھ بات چیت کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اِس ہی طرح سے وہ یہاں تک کہ آج بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ وہ گنہگاروں کے ساتھ اُس کے ذہنوں میں باتیں کرتا ہے، جب تک کہ وہ اُس کے عادی نہیں ہو جاتے، اور اُس سے خوفزدہ نہیں رہتے۔

ایک دِن حوّا باغ میں تنہا تھی۔ آدم کہیں اور باغ کی دیکھ بھال کر رہا تھا اُس کی ’’باغبانی اور نگرانی کر‘‘ رہا تھا (پیدائش2:15)۔ حوّا باغ کے وسط میں تھی، نیک و بد کی پہچان کے درخت کو گھور رہی تھی۔ یہی وقت تھا جب شیطان اُس کے پاس آیا۔ یہی وقت تھا جب اژدھے نے اُس سے سرگوشی میں کہا، ’’کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا؟‘‘ (پیدائش3:1)۔ پھر اژدھے نے خُدا کے کلام پر سوال کیا۔ یہی ہے جو آج بھی شیطان کرتا ہے۔ وہ بائبل میں خُدا کے کلام پر یقین نہ کرنے کے لیے ہمیں آزمائش میں ڈالتا ہے۔ وہ ہمیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے کہ اُس پر یقین نہ کریں جو ہمیں ایک پادری صاحب بتاتے ہیں جب وہ ہمیں خُداوند کے کلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ لیکن اِس سے بھی کہیں بڑھ کر، شیطان خُداوند کے کلام کو گُھما پھرا کر پیش کرتا ہے یہ بات لاگو کرنے کے ذریعے سے کہ حوّا اُس مُہلک درخت کا پھل بھی کھا سکتی ہے، چونکہ خُدا کہہ چکا تھا، ’’باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک تو کھا سکتی ہے۔‘‘ شیکسپیئر نے کہا، ’’ابلیس اپنے مقصد کے لیے کلام پاک کا حوالہ دے سکتا ہے۔‘‘ یہاں پر ابلیس نے خُداوند کے پیغام کے دوسرے حصّے کو چھوڑ دیا تھا، ’’لیکن تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:17)۔ اژدھے نے خُداوند کے کلام کے اُس حصّے کو چھوڑ دیا تھا۔ بائبل میں دو مرتبہ ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ کلام پاک کے کسی لفظ کو مت چھوڑیں، اِستثنا12:32 اور مکاشفہ22:19، جہاں پر یہ کہتا ہے، ’’اگر کوئی نبوت کی اِس کتاب کی باتوں میں سے کوئی بات نکال دے گا تو خُدا اُس کتاب میں مزکور شجرِحیات اور شہرِ مقدس میں سے اُس کا حصّہ نکال دے گا۔‘‘ یہ بُرائی دُںیا میں ہر آزاد خیال سیمنری میں پڑھائی جاتی ہے۔ مذہبی خدمات کے لیے نوجوان لوگ جو پڑھ رہے ہوتے ہیں اُنہیں تعلیم دی جاتی ہے کہ بائبل کے وہ حصے سچے نہیں ہیں۔ یہی بات ڈاکٹر ہائیمرز کو اُس آزاد خیال سیمنری میں پڑھائی گئی تھی جس میں اُنہوں نے تعلیم حاصل کی۔ یہ بات ایک شخص کے مذہبی خدمات کو تباہ کر ڈالتی ہے اگر وہ اِس بُری تعلیم پر یقین کرتا ہے۔ پولوس رسول نے کہا، ’’ہر صحیفہ جو خُدا کے الہٰام سے ہے وہ تعلیم دینے…. تربیت دینے کے لیے مفید ہے‘‘ (2 تمیوتاؤس3:16)۔ خالص عبرانی اور یونانی میں پاک کلام کا ہر لفظ خُدا کے الہٰام سے دیا گیا۔ کیا شیطان آپ کو کہتا ہے کہ ساری کی ساری بائبل پر یقین کرنا احمقانہ ہے؟ کیا آج کی صبح یہی آپ کا گناہ ہے؟

سانپ نے سوال اُٹھایا تھا اور خُدا کے کلام کو گھوما پھرا کر پیش کیا تھا جب اُس نے اُس دِن باغ میں حوّا کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ خُدا نے جوڑے کو سادگی سے بتا دیا تھا کہ منع کیے ہوئے پھل کو مت کھانا۔ بلکہ صرف نا کھانے کے لیے کہا تھا۔ خُدا نے اُنہیں نا ’’چھونے‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ جب حوّا نے کہا، ’’تم اِس میں سے مت کھانا، نا ہی تم اِسے چھونا، ورنہ مر جاؤ گے‘‘ اُس نے خُدا کے کلام میں اضافہ کیا تھا۔ یہ اِستثنا12:32 کی خلاف ورزی تھی، جہاں پر خُدا نے کہا، ’’خیال رہے کہ تم اُن تمام آئین اور قوانین پر عمل کرو جو آج میں تمہارے آگے پیش کر رہا ہوں‘‘ (اِستثنا12:32)۔ اِس حکم کو دوبارہ مکاشفہ22:18 میں پیش کیا گیا تھا

،

’’میں اِس کتاب کی نبوت کی باتیں سُننے والے ہر شخص کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی اِن باتوں میں کوئی بات بڑھائے گا تو خُدا اِس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا‘‘ (مکاشفہ22:18)۔

آزاد خیال لوگ خُدا کے کلام کے حصوں کو حذف کر دیتے ہیں۔ مورمنز جیسے فرقے مورمن کی کتاب میں خُدا کے کلام میں اضافہ کرتے ہیں۔ پس آزمائش خُدا کے کلام کے کچھ حصّے کو حذف کر دینا یا اُس میں اضافہ کرنا تھا۔ فرقے اِس میں اضافہ کرتے ہیں، مسیحی سائنسدان بھی ایسا ہی کرتے ہیں، میری بیکر ایڈی Mary Baker Eddy کی تحاریر میں اِس کا اضافہ کرتے ہیں۔ تمام جھوٹی تعلیمات کی جڑ خُدا کے کلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ہے۔ اِس طرح سے بائبل کے حصوں کو چھوڑ دینا یا اُن میں اضافہ کر دینا آج کے انتہائی دِن تک حوّا کے گناہ کو پھر سے دُہرانا ہے، اور تمام بدعتوں کا روح رواں ہوتا ہے۔

اب سانپ حوّا کو آزمائش میں اِس حد تک لے جا چکا تھا کہ وہ خُدا کے کلام پر شیطان کے فوری حملے کو سُن پاتی۔ اُس نے اُس سے کہا تھا، ’’تم یقیناً نہیں مرو گی‘‘ اگر تم منع کیے ہوئے پھل کو کھاؤ گی۔

’’اور جب عورت نے دیکھا کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور حکمت پانے کے لیے خوب معلوم ہوتا ہے تو اُس نے اُس میں سے لے کر کھایا اور اپنے خاوند کو بھی دیا جو اُس کے ساتھ تھا اور اُس نے بھی کھایا۔ تب اُن دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش 3:6،7).

اُنہوں نے خُداوند کے کلام کی نافرمانی کی تھی۔ اب وہ جانتے تھے کہ وہ ننگے گنہگار تھے۔ توبہ کرنے کے بجائے اور خُداوند سے رحم کی بھیک مانگنے کے بجائے، ’’اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش3:7)۔ بالکل یہی ہے جو گنہگار آج کل کر رہے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنے گناہوں کو ڈھانپنے کی کوششیں کرتے ہیں، ’’نیک اعمال‘‘ کرنے کے ذریعے سے یا خود کو ’’دینداروں کی سی وضع رکھنے‘‘ کے ذریعے سے نجات دلانے کی کوششیں کریں گے (2 تیموتاؤس3:5)

اب جب اُنہوں نے خُداوند کی آواز کو اُنہیں پکارتے ہوئے سُنا، ’’آدم اور اُس کی بیوی نے خود کو خُداوند کی حضوری سے چُھپایا… اور خُداوند خُدا نے آدم کو پکارا، اور اُس سے کہا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:8، 9)۔ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A Criswell نے کہا،

سب سے غمگین ترین جملہ جو خُداوند نے کبھی بھی بُڑبڑایا یہ ہے، ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ [اِس سے پہلے] وہ آدمی اور وہ عورت خُداوند کو آسمانی تمنا کے ساتھ ملے تھے… وہ ہمیشہ ایک خوشگوار، جلالی لمحہ ہوتا تھا جب [خُداوند] اُن کے ساتھ باتیں کرنے آتا تھا۔ اُنہیں کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب [وہ گناہ کر چکے تھے]۔ وہ آدمی خوفزدہ تھا۔ وہ دونوں شرمندہ تھے۔ اور خُداوند نے اپنی آواز میں ایک سسکی کے ساتھ پکارا تھا، ’’اے آدم، تو کہاں ہے، اور تو کیا کر چکا ہے؟‘‘ اُس دِل کو توڑ ڈالنے والے سوال کا جواب گناہ، اور فضل اور کفارے کی تمام کہانی ہے (ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔ W. A. Criswell, Ph.D.، صلیب پر بائبل کے بنیادی واعظ Basic Bible Sermons on the Cross، براڈمین پریسBroadman Press، 1990، صفحہ 55)۔

اِس صبح خُداوند آپ کو پکارتا ہے، ’’اے گنہگار، تو کہاں پر ہے؟‘‘

’’اور خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور پوچھا، تُو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش 3:9).

اِطلاق

اب میں آپ کو اِس حوالے اور اِس تلاوت کا اِطلاق پیش کروں گا۔ آج کی صبح آپ کہاں پے ہیں؟

1. کیا آپ خُدا سے چُھپ رہے ہیں؟ وہ تمام جو توبہ کرنے اور مسیح کے پاس آنے سے انکار کرتے ہیں خُدا سے چُھپ رہے ہیں۔ کیا یہ آپ ہیں؟ کیا آپ خُدا سے چُھپ رہے ہوتے ہیں جب پاک روح آپ کو مسیح کے پاس جانے کے لیے بُلاتا ہے؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

2. کیا آپ خُداوند سے اِس لیے چُھپ رہے ہیں کیونکہ آپ بائبل پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں؟ کیا شیطان آپ کو یہ سوچنے پر تیار کر چکا ہے کہ خدا کا کلام محض ایک پرانی کتاب ہے؟ کہ آپ کو اِس کا یقین نہیں کرنا چاہیے؟ کیا وہ آپ کو بتا چکا ہے کہ حاصل کرنے کے لیے کوئی جنت نہیں اور خوف کرنے کے لیے کوئی جہنم نہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

3. کیا آپ سوچتے ہیں کہ آپ ایک نیک اور اخلاقی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ آپ کافی نیک ہیں، کہ آپ کو اپنے گناہ کا اعتراف کرنے اور مسیح کے کفارے کے وسیلے سے نجات پانے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا آپ کی نیک اور اخلاقی زندگی آپ کو نجات دلانے کے لیے کافی ہے؟ کیا یہی جھوٹ شیطان آپ کو بتا چکا ہے؟ کیا یہ ہی ہے جس پر آپ یقین کرتے ہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

4. جب دوسرے گناہ کی سزایابی میں کیے گئے تھے تو کیا آپ نے سوچا تھا وہ احمق تھے؟ کیا آپ نے اُن لوگوں پر نظر ڈالی جو اپنے گناہ پر روئے اور سوچا وہ کمزور یا بیوقوف تھے؟ کیا آپ اب وہی سوچتے ہیں؟ کیا شیطان نے آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ جو روتے اور توبہ کرتے ہیں بیوقوف ہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

5. جب آپ نے مجھے سو نا سکنے کی حد تک گناہ کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے سُنا، تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ میں کچھ نہ کچھ عجیب تھا؟ کیا آپ نے سوچا تھا اِس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، کہ یہ محض ایک احمق لڑکا تھا جو گناہ کے بارے میں فکرمند ہو رہا تھا؟ کیا شیطان نے آپ کو سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ میں نہایت جذباتی تھا؟ کہ اُس قسم کی کسی بھی بات کی آپ کی روح کو ضرورت نہیں تھی؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

6. جب ڈاکٹر ہائیمرز آپ کو بتاتے ہیں کہ ایک حقیقی تبدیلی میں آپ کو گناہ کے خلاف جدوجہد کرنی پڑے گی اور اپنے گناہ کے لیے شدید گہرا رنج محسوس کرنا پڑے گا، تو کیا آپ نے شیطان کی بات سُنی؟ کیا آپ نے اُس کو مسترد کر دیا جو اُنہوں نے کہا تھا، اور سوچا کہ آپ جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

7. جب آپ نے ڈاکٹر ہائیمرز کو یہ کہتے ہوئے سُنا، تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ جو گناہ آپ نے سرزد کیے وہ انتہائی چھوٹے تھے اور آپ کو جہنم کے لیے سزاوار نہیں ٹھہرائیں گے؟ کیا آپ نے شیطان پر یقین کیا تھا جب اُس نے وہ خیال آپ کے ذہن میں ڈالا؟ کیا آپ نے سوچا تھا کہ آپ کے گناہ اِس قدر چھوٹے ہیں کہ خُدا آپ کو سزا نہیں دے گا؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

8. کیا آپ نے گمراہ لوگوں کی دوستیوں کو رکھنا جاری رکھا ہوا تھا؟ کیا آپ نے سوچا تھا خُدا آپ کو برکت دے گا اور نجات دے گا، حالانکہ آپ کے وہ دوست تھے جو مسیحی نہ تھے؟ جب آپ نے بائبل کو کہتے ہوئے سُنا، ’’جو کوئی بھی… دُنیا کا دوست ہوتا ہے خُدا کا دشمن ہوتا ہے‘‘ (یعقوب4:4) کیا آپ نے دُنیاوی دوستوں کو چھوڑا؟ یا کیا آپ نے سوچا کہ اُن کے ساتھ دوستی رکھنا ٹھیک ہے؟ کیا یہ بات آپ کے دِل میں شیطان نے ڈالی؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

9. کیا آپ نے جس کسی کو آپ جانتے ہیں اُس کے ساتھ جنسی تعلق برقرار رکھنے کے بارے میں سوچنا جاری رکھا تھا – یہاں تک کہ گرجا گھر ہی میں سے کوئی – کیا شیطان نے آپ کو کہا تھا کہ ایسے خیالات کا سوچنا اور اُن کے ساتھ اپنی شہوت کی آگ کو بڑھکانا ٹھیک تھا؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

10. کیا آپ نے سوچا تھا کہ گھنٹوں ویڈیو گیمز کو کھلینے میں لگا دینا یا گھنٹوں معاشرتی میڈیا کو دیکھنے میں صرف کر دینا ٹھیک ہے؟ یا کیا شیطان نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ صرف ایک بے ضرر تفریح تھی؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

11. کیا آپ ڈاکٹر ہائیمرز سے ایک پادری کی حیثیت سے خوفزدہ ہیں؟ آپ اُن سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ کیا یہ اِس لیے ہے کیونکہ وہ نہایت سخت ہیں؟ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آپ جو وہ کہتے ہیں یا کرتے ہیں اُس میں کچھ نقص پاتے ہیں؟ کیا شیطان نے آپ کو اُن سے خوفزدہ ہونے کے لیے مجبور کیا ہے کیونکہ آپ خُدا سے چُھپ رہے ہیں، اور کامل نہ ہونے کا اِلزام اِسی لیے اُن پر دھرتے ہیں؟ کیا آپ اُن سے ’’آپ کی روح کی رکھوالی کرنے کے لیے‘‘ محبت کرتے ہیں – یا کیا آپ اُن سے خوف کھاتے ہیں اور اپنی خُفیہ زندگی کو اُن سے چُھپاتے ہیں، خُدا کے ایک نمائندے کی حیثیت سے، جیسے آدم خُدا سے چُھپا تھا کہ کہیں اُس کی خُفیہ زندگی کی سرزش نہ ہو؟ کیا اُن سے خوفزدہ ہونے کے لیے آپ کو شیطان نے مجبور کیا تھا؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟ (عبرانیوں13:17)۔

12. کیا آپ نے پادری صاحب سے پہلے پوچھے بغیر ایک مخصوص ہستی کو بحیثیت اپنی معشوقہ یا معشوق بنانے کی خواہش کی تھی؟ کیا آپ اُس پادری صاحب پر بھروسہ کرتے ہیں جو گرجا گھر کی رہنمائی کرتا ہے، یا کیا آپ اُس سے چُھپے تھے، جیسے آدم نے باغ میں کیا تھا؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

13. کیا آپ کے دِل میں کوئی سیاہ بات ہے جو آپ کے مُنہ کو بند رکھتی ہے جب ہم آپ سے پوچھتے ہیں، ’’کیا آپ مسیح پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ کیا یہ ہے جو شیطان آپ کو بتاتا ہے؟ کیا اُس نے آپ سے کہا ہے کہ اگر آپ کچھ بھی نہیں کہیں گے تو آپ کو مسیح کا انکار کرنے کے لیے معاف کر دیا جائے گا؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

14. کیا آپ گرجا گھر میں کسی سے حسد کرتے ہیں؟ کیا آپ اِس لیے حسد کرتے ہیں کہ اُن کی تعریف کی جاتی ہے اور آپ کی نہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

15. کیا آپ آنے سے انکار کرتے ہیں جب مدعو کیا جاتا ہے؟ کیا آپ اُس بات سے انکار کرتے ہیں جو بائبل کہتی ہے، ’’احمق کو اپنی روش دُرست نظر آتی ہے لیکن دانشمند نصیحت کو سُنتا ہے‘‘؟ کیا آپ ایسے ہی احمق ہیں جو آپ ایک واعظ کے اختتام پر نصیحت کیے جانے کے لیے انکار کرتے ہیں؟ کیا آج کی صبح آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

کیا یہ یا کوئی دوسرے گناہ ہیں جن کا میں نے تزکرہ کیا جو آپ کو گذشتہ سال ہمارے گرجا گھر میں حیاتِ نو کے وقت کے دوران مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے روکے ہوئے تھے؟ ’’اے آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ کیا آپ نے اپنے ساتھ خُدا کی آواز کو آپ کے گناہ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سُنا تھا؟ اور کیا آپ نے آدم کے ساتھ مل کر کہا تھا، ’’میں نے تیری آواز کو سُنا… اور میں خوفزدہ تھا… اور میں نے خود کو چُھپا لیا؟‘‘ میں آپ کو کلام پاک کی ایک آیت کے حوالے کرتا ہوں،

’’جو اپنے گناہ چھپاتا ہے، کامیاب نہیں ہوتا، لیکن جو اقرار کر کے اُن کو ترک کرتا ہے، اُس پر رحم کیا جائے گا‘‘ امثال 28:13).

مہربانی سے اکٹھے کھڑے ہو جائیں۔ ہم یہاں سامنے کسی سے بھی بات کرنے کے لیے موجود ہونگے جو گناہ سے مُنہ پھیرنے کے لیے اور خُداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہے – اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے تمام گناہ سے پاک صاف ہونے کے لیے تیار ہے۔ جب دوسرے کھانا کھانے کے لیے بالائی منزل پر جائیں، تو آپ آئیں اور اگلی دو قطاروں میں بیٹھیں۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر بیجیمن کینکیڈ گریفتھ نے گایا تھا:
’’اے خُدا، مجھے جانچ Search me, O God‘‘ (زبور 139:23۔24)/
’’اے خُداوند میں آ رہا ہوں I Am Coming, Lord،
(شاعر لوئیس ہارٹسو Lewis Hartsough ، 1828۔1919؛ صرف کورس)۔