اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
جِتنوں نے اُسے قبول کیا!AS MANY AS RECEIVED HIM! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لائے۔ وہ نہ تو خون سے، نہ جسمانی خواہش سے اور نہ اِنسان کے اپنے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہُوئے‘‘ (یوحنا1:11۔13). |
یسوع یروشلم میں تھا۔ یہ عید فسح کے دوران ہوا تھا۔ بے شمار لوگوں نے یسوع کو معجزات کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب اُنہوں نے اُن معجزات کو دیکھا تو اُنہوں نے یقین کیا۔ لیکن اُنہوں نے اُس [یسوع] پر یقین نہ کیا۔ اُنہوں نے معجزات پر یقین کیا لیکن اُس یسوع پر یقین نہ کیا۔ اُن کا ایمان اِس لیے دو کوڑی کا تھا۔ وہ مجھے آج کے بے شمار کرشماتی مشن والے لوگوں کی یاد دلاتے ہیں۔ اُن کا ایمان معجزات پر مرکوز ہے۔ دراصل اُس کا مطلب ہوتا ہے ’’علامات۔‘‘ وہ ہمیشہ علامتوں اور معجزات کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات ایسے لوگوں کو نجات نہیں دلاتی ہے۔
’’مگر یسوع کو اُن پر اعتبار نہ تھا۔ اِس لیے کہ وہ سب اِنسانوں کا حال جانتا تھا۔ اُسے یہ ضرورت نہ تھی کہ کوئی آدمی اُسے کسی دُوسرے آدمی کے بارے میں بتائے کیونکہ وہ اِنسان کے دل کا حال جانتا تھا‘‘ (یوحنا2:24،25).
یسوع اُن کے دِلوں میں جھانک سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُنہوں نے اُس پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا تھا۔ وہ صرف معجزات میں یقین رکھتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ علامتوں اور معجزات میں اُن کا ایمان اُنہیں نجات نہیں دلائے گا۔ ’’وہ اُن کا حال جانتا تھا۔‘‘ وہ ’’سب انسانوں‘‘ کے دِل کا حال جانتا تھا۔ وہ آپ کے دِل کا حال جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آیا آپ نے نئے جنم کا تجربہ کیا ہے یا نہیں۔ اِس سے پہلے کہ آپ نئے جنم کا تجربہ کریں آپ کا دِل کُلی طور پر گناہ سے آلودہ ہوتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’دل سب چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لاعلاج ہوتا ہے…‘‘ (یرمیاہ17:9).
بائبل ہمیں نہیں بتاتی یسوع نے وہ رات کہاں پر بتائی تھی۔ لیکن نیکودیمس نامی ایک مشہور عالم ’’اُس رات یسوع کے پاس آیا تھا‘‘ (یوحنا3:1، 2)۔ اب یوحنا1:11۔13 پر نظر ڈالیں،
’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لائے۔ وہ نہ تو خون سے، نہ جسمانی خواہش سے اور نہ اِنسان کے اپنے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہُوئے‘‘ (یوحنا1:11۔13).
نجات اُس وقت ملتی ہے جب ایک گنہگار یسوع کو قبول کرتا ہے۔ وہ تینوں آیات اُس یسوع کو قبول کرنے کے بارے میں بنیادی خاکے کو آشکارہ کرتی ہیں۔ آیت 11 میں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ مسیح کو قبول نہیں کریں گے۔ زیادہ تر لوگ جہنم میں جائیں گے۔ یہ کہتی ہے،
’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہیں کیا‘‘
(یوحنا 1:11).
’’اُس کے اپنوں‘‘ کے الفاظ کا پہلا استعمال عمومی طور پر دُنیا کی نسلِ انسانی کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ’’اُس کے اپنوں‘‘ کے دوسرا استعمال یہودی لوگوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ حالانکہ اُس کے پاس اُس یسوع کے بارے میں پرانے عہدنامے کی بے شمار پیشنگوئیاں تھیں، اُن کے ایک بہت بڑے حصے نے اُس یسوع کو اپنے مسیحا اور خُداوند کی حیثیت سے قبول نہیں کیا تھا۔ دونوں یہودیوں اور نسلِ انسانی نے یسوع کو اُس وقت قبول نہیں کیا تھا جب وہ زمین پر آیا تھا – اور وہ اُس یسوع کو آج بھی قبول نہیں کرتے۔
’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا… اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ مُنہ موڑ لیتے ہیں‘‘ (اشعیا 53:3).
گمراہ گنہگاروں کو مسیح کے پاس لانے کے لیے خُدا کے الوہی کام کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں یوحنا1:12 میں ہماری مرکزی تلاوت کی جانب لےجاتی ہے۔
’’لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لائے‘‘ (یوحنا 1:12).
ہم اِس تلاوت میں سے تین نکات اخذ کر سکتے ہیں۔
I۔ پہلا، میں وضاحت کروں گا کہ مسیح کو قبول کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
وہ یونانی لفظ جس سے ’’قبول کرناreceive‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ’’لیمبانو lambanō‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’لیناto take،‘‘ ’’قبول کرنا to accept،‘‘ ’’حاصل کرنا to obtain۔‘‘ ہم آپ سے مسیح کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ ہم آپ سے مسیح کو پانے کے لیے کہتے ہیں۔ ہم آپ سے اُس کو حاصل کرنے، اُس پر بھروسہ کرنے، اُس کو اپنے نجات دہندہ اور خُداوند کی حیثیت سے لینے کے لیے کہتے ہیں۔
مسیح کو قبول کرنے کے لیے آپ کو اُسے ایسے ہی قبول کرنا چاہیے جیسے اُس کا اندراج بائبل میں کیا گیا ہے۔ مسیح عمانیوائیل ہے – خُدا ہمارے ساتھ ہے۔ خُدا نے انسان کا روپ دھارا۔ خُدا باپ کا اِکلوتا بیٹا۔ تثلیث کی دوسری ہستی، جسے انسان کی مانند بنایا گیا۔ وہ انسانی خُدا، جو اب آسمان میں خُدا باپ کے دہانے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے وہ کنواری مریم سے پیدا ہوا۔ وہ دائمی خُداوند ہے – بغیر آغاز یا اختتام کے، خُدا کا دائمی بیٹا۔ وہاں کیا قبول کرنے کے لیے ہے اگر آپ اِس بات کو ہی قبول نہیں کرتے؟ وہ نجات دہندہ ہے، وہ واحد ہستی جو آپ کے گناہ کو اُٹھا لے جاتا ہے اور آپ کو تمام ابدیت میں آپ کے گناہوں سے نجات دلاتا ہے!
لیکن آپ یسوع کو اُس وقت تک نہیں حاصل کر سکتے جب تک آپ اُس کو اپنے بادشاہ کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے۔ اُس کو آپ کی زندگی پر حکمرانی کرنی چاہیے۔ آپ کو خُود کو اُس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ آپ کو اُس کے سامنے سرنگوں ہو جانا چاہیے۔ آپ کو اپنے تن من کے ساتھ مسیح کو اپنے پر حکمرانی کرنے دینی چاہیے۔ آپ کو خود کو اُس کے قابو میں حوالے کر دینا چاہیے۔ آپ کو خُود کو اُس کے حوالے کر دینا چاہیے اور اُس کو آپ کی مرضی پر، آپ کے خیالوں پر، آپ کی اُمیدوں پر اور آپ کی انتہائی زندگی پر حکمرانی کرنے دینی چاہیے۔ اُس کے ذریعے سے قابو میں رہنا چاہیے۔ آپ کو مذید اور نہیں کہنا چاہیے، ’’ہم اِس شخص کو اپنے پر حکمرانی نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ جان کیگن نے سُنا ’’مسیح کے سامنے ہتھیار ڈال دو! مسیح کے سامنے ہتھیار ڈال دو!‘‘ لیکن اِس بات نے اُنہیں پریشان کر دیا۔ وہ ’’یسوع کے سامنے ہارنا‘‘ نہیں چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یسوع اُنہیں قابو میں کرے۔ لیکن جان دُکھی تھے۔ ’’یسوع میرے لیے مصلوب ہوا تھا… لیکن میں اُس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔ اِس خیال نے مجھے توڑ ڈالا…‘‘ اُس لمحے میں جان نے خود کو یسوع کے حوالے کر دیا۔ اُنہوں نے کہا، ’’مجھے خود کو مارنا پڑا، اور تب مسیح نے مجھے زندگی بخشی۔‘‘ جارج میتھیسن George Matheson (1842۔1906) نے اِس بات کو بخوبی کہا۔ اُن کا حمدوثنا کا گیت ’’خُداوندا، مجھے ایک قیدی بنا لے Make Me a Captive, Lord‘‘ کہلاتا ہے۔
خداوندا، مجھے ایک قیدی بنا لے، اور تب میں آزاد ہو جاؤں گا؛
مجھے اپنی تلوار فراہم کرنے کے لیے مجبور کر، اور میں فاتح ہو جاؤں گا؛
میں دُنیاوی خوف میں ڈوب جاتا ہوں، جب میں خود پر بھروسہ کرتا ہوں؛
مجھے خود کے بازوؤں میں قیدی بنا لے، اور میرا ہاتھ قوی ہو جائے گا۔
مسیح کو قبول کرنے کے لیے آپ کو اُسے اپنے نجات دہندہ اور اپنے بادشاہ کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیے۔ آپ کو خود کو اُس کے حوالے کرنا چاہیے۔ یہ آپ کے ساتھ رونما ہونا چاہیے۔ کیا اُس کا قیمتی خون آپ کے گناہ کو مٹا چکا ہے؟ کیا آپ اُس کے خون میں بھروسہ کر چکے ہیں؟ کیا یہ آپ کو آپ کے گناہ سے صاف کر چکا ہے؟ کیا آپ خود کو اُس کے حوالے اپنے بادشاہ کی حیثیت سے کر چکے ہیں؟ آپ مسیح کو اُس وقت تک حاصل نہیں کر پاتے جب تک آپ اُس کو گرفت میں نہیں لیتے اور اُس کا داعویٰ خود اپنا ہونے کا نہیں کرتے۔ اُس کو ’’قبول کرنا‘‘ اُس میں ’’یقین کرنا‘‘ ہوتا ہے – جو کہ اُس یسوع پر، خود اپنے نجات دہندہ اور خود اپنے بادشاہ کی حیثیت سے بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ زبور نویس نے اِس بات کو تحریر کیا، ’’بیٹے کو چومو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خفا ہو جائے، اور تم اپنی راہ ہی میں فنا ہو جاؤ… مبارک ہیں وہ سب جو اُس میں پناہ لیتے ہیں‘‘ (زبور2:12)۔ خُداوند کے بیٹے کو چومو! خُداوند کے بیٹے کے سامنے جُھکو! خُداوند کے بیٹے پر بھروسہ کرو! یہی مطلب ہوتا ہے خُداوند کے بیٹے کو ’’قبول کرنے‘‘ کا!
II۔ دوسرا، ہم خُدا کی قوت کے بارے میں سیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اُس کے بیٹے کو قبول کرنا پیش کرتی ہے۔
’’لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں…‘‘
وہ لفظ ’’ایکسوسیا exousia‘‘ ہے جس کا ترجمہ ’’قوتpower‘‘ ہے۔ جیمیسنJamieson، فوسٹFausset اور براؤنBrown کہتے ہیں، ’’وہ لفظ اہمیت دیتا ہے… اختیار اور اہلیت۔ یہاں پر یقینی طور سے دونوں شامل ہیں‘‘ (صفحہ348)۔ ’’خُدا کے بیٹے‘‘ کا بہتر طور پر ترجمہ ’’خُدا کے بچے‘‘ کیا گیا ہے (NKJV)۔ مسیح کو قبول کرنا اُس میں اپنے ایمان کو رکھنا ہوتا ہے اور خُود کو اُس کے سامنے جُھکانا ہوتا ہے۔ آپ کیسے خُدا کے بچے بنتے ہیں؟ یسوع مسیح کو قبول کرنے کے وسیلے سے۔
جب میں دو سال کا تھا تو میرے والد چھوڑ کر چلے گئے، اور میں پھر دوبارہ کبھی بھی اُن کے ساتھ نہیں رہا۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھے مجھ سے بڑے لڑکے طعنے مارا کرتے تھے۔ وہ میرا مذاق اُڑایا کرتے اور کہتے، ’’رابرٹ کا باپ نہیں ہے۔‘‘ یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں نے اپنے نام کے دستخط ’’رابرٹ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر‘‘ کرنا شروع کیے تھے۔ میرا نام میرے والد کے نام پر رکھا گیا تھا۔ میں نے اپنے نام کے ساتھ ’’جونیئر‘‘ لگایا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ واقعی میں میرا ایک باپ تھا۔ میں ایسا آج کے دِن تک کرتا ہوں۔ میں نے چاہا تھا ہر کوئی جان جائے میرا ایک باپ تھا! لیکن اپنے باپ کی حیثیت سے خُدا کو رکھنا کہیں زیادہ اہم ہے! ہر آدمی، عورت اور بچہ جو مسیح کو قبول کرتا ہے اُن کے لیے خُدا اُن کا باپ ہے! اگر آج کی رات میں یہاں پر کھڑا ہوتا اور آپ کو بتاتا کہ میں ریاست ہائے متحدہ کے صدر کا بیٹا ہوں، تو آپ مجھ سے حسد کرتے۔ لیکن میں یہ کہنے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں خُدا کا بچہ ہوں۔ میں نے یسوع کو قبول کیا اور یسوع نے مجھے خُدا کا بیٹا ہونے کا اختیار اور قوت بخشی، اُس ہستی کا ایک بچہ جو کائنات پر حکمرانی کرتا ہے!
میں ایک بادشاہ کا بچہ ہوں،
بادشاہ کا بچہ؛
یسوع میرے نجات دہندہ کے ساتھ،
میں بادشاہ کا بچہ ہوں۔
(’’بادشاہ کا ایک بچہ A Child of the King‘‘ شاعر ھیریٹ ای۔ بیوایل Harriet E. Buell، 1834۔1910)۔
اگر آپ خُدا کے بچے ہیں، تو آپ کو خُدا کے ذریعے سے بہت زیادہ محبت ملتی ہے۔ اگر آپ خُدا کے بچے ہیں تو اُپ اُس سے تعلق رکھتے ہیں، ’’الٰہی فطرت کے حصہ دار۔‘‘ اگر آپ خُدا کے بچے ہیں، تو آپ رات کے کسی بھی پہر اُس کے پاس آ سکتے ہیں، اور وہ وہاں پر آپ کی مدد کرنے اور آپ کی رہنمائی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جان کیگن کے پاس شاندار والد ہیں۔ وہ اکثر اپنے شاندار والد کا تعارف یہ کہہ کر کراتے ہیں، ’’میرے والد نے دو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ہوئی ہیں۔‘‘ لیکن میں اپنے والد کے بارے میں مذید اور باتیں بھی بتا سکتا ہوں! میرے زمین والد نے ہائی سکول سے گریجوایشن نہیں کی۔ لیکن میرا آسمانی باپ کائنات کا بادشاہ ہے!
میرا باپ زمینوں اور گھروں سے مالا مال ہے،
وہ اپنے ہاتھوں میں دُنیا کی دولت سیمٹے ہوئے ہے!
ہیرے اور موتیوں سے، سونے اور چاندی سے،
اُس کے صندوق لبریز ہیں، اس کے پاس ناقابلِ بیان دولت ہے۔
میں بادشاہ کا بچہ ہوں۔ بادشاہ کا ایک بچہ:
یسوع میرے نجات دہندہ کے ساتھ، میں بادشاہ کا ایک بچہ ہوں۔
میرے پاس کالج یا سیمنری کا خرچہ اُٹھانے یا مجھے ایک نئی گاڑی خرید کر دینے کے لیے ایک زمینی باپ نہیں تھا۔ لیکن میرے پاس آسمانی باپ ہے جو ’’مسیح یسوع کے وسیلے اپنی جلال کی دولت میں سے [میری] تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے‘‘ (فلپیوں4:19)۔ میرے پاس آسمان میں ایک باپ ہے جس نے مجھ سے ایک شاندار وعدہ کیا ہے، ’’مسیح میں وہ مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کی مدد سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔ تمام جلال، ستائش اور تعظیم میرے باپ اور میرے بادشاہ کی ہو جو مجھے قوت بخشتا ہے، اور جو میری تمام زندگی میں تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ میری سوانح حیات کے اندرونی صفحوں میں، ڈاکٹر کیگن نے یہ کہا،
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو لڑکھڑایا، زخمی ہوا اور ٹوٹا، خود کو اُٹھانے کے اور بڑی بڑی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے کہ لوگوں پر ظاہر کرے کہ یسوع مسیح اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے!
وہ شرابی جھگڑالو لوگوں کے بکھرے ہوئے خاندان میں پلا بڑھا – لیکن ایک تحریک دینے والا بنا جس نے ہزاروں کی زندگیوں کو بدل ڈالا، وہ کالج میں ناکام رہا – لیکن ڈاکٹریٹ میں تین ڈگریاں کی اور 17 کتابیں تحریر کیں۔ اُس نے ایک غیرملکی مشنری بننے کی کوشش کی اور ناکام رہا – لیکن ساری دُنیا میں لوگوں کے لیے قوت کا ایک منبع بننے کے لیے واپس لوٹا!
جب کوئی بھی دوسرا ہمت ہار چکا ہوتا، ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک حیرت انگیز گرجا گھر کی بنیاد رکھی، جو بیس الگ الگ تہذیبی گروں پر مشتمل ہے، اور لاس اینجلز کے مرکز کے دِل میں واقع ہے، اور ایک عالمگیری مذہبی خدمت سر انجام دے رہا ہے جو دُنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہی ہے…
یہ ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی زندگی کی کہانی ہے، ایک شخص جو ناممکن کو پانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا – تمام اندیشوں کے خلاف۔ میں جانتا ہوں، کیونکہ میں نے اُن کے ساتھ چالیس سال سے بھی زیادہ عرصہ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔
– ڈاکٹر کرسٹوفر ایل۔ کیگن۔
میں اُس بادشاہ کا ایک بچہ ہوں!
نوجوان لوگو، یسوع مسیح میں اپنا ایمان اور بھروسہ رکھو۔ مسیح کو قبول کرو اور وہ آپ کو خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہونے کے لیے قوت بخشے گا۔ وہ آپ کی زندگی کو ایسے ہی برکت دے گا جیسے اُس نے میری زندگی کو برکت دی ہے، ایک بڑے سے گھر کے ساتھ، ایک شاندار گرجا گھر کے ساتھ جس کا میں پادری ہوں، ایک بہت ہی شاندار بیوی، دو عظیم بیٹے، اور دو خوبصورت پوتیاں۔ میں اُس بادشاہ کا ایک بچہ ہوں!
اگر آپ مسیح کو قبول کرتے ہیں اور اُس کے لیے زندگی بسر کرتے ہیں، تو وہ آپ کی زندگی میں اِس طرح سے برکات بخش سکتا ہے کہ وہ دُنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیں گے – کیونکہ آپ بھی تو اُس بادشاہ کے بچے ہوں گے۔ اور آپ گانے کے قابل ہوں گے،
میں ایک بادشاہ کا بچہ ہوں،
بادشاہ کا بچہ؛
یسوع میرے نجات دہندہ کے ساتھ،
میں بادشاہ کا بچہ ہوں۔
’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لائے۔ وہ نہ تو خون سے، نہ جسمانی خواہش سے اور نہ اِنسان کے اپنے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہُوئے‘‘ (یوحنا1:11۔13).
III۔ تیسرا، ہم اُس نئے جنم کے بارے میں سیکھتے ہیں جو خُدا ہمیں بخشتا ہے جب ہم مسیح کو قبول کرتے ہیں۔
’’وہ نہ تو خون سے، نہ جسمانی خواہش سے اور نہ اِنسان کے اپنے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہُوئے‘‘ (یوحنا 1:13).
مجھے یہاں پر کہہ دینا چاہیے کہ اِس واعظ کے بنیادی خیالات اور لُبِ لباب ’’مبلغین کے شہزادے‘‘ عظیم سپرجیئن سے لیے گئے ہیں۔
ہر کوئی جو خُداوند یسوع پر بھروسہ کرتا ہے نیا جنم لے چکا ہے۔ کچھ عالمین الہٰیات تعجب کرتے ہیں پہلے کون آیا – ایمان یا تجدید۔ میں سپرجیئن کے ساتھ متفق ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایمان اور تجدید ’’بیک وقت ہونے چاہیے۔‘‘ تجدید نئے جنم کے لیے الہٰیاتی اصطلاح ہے۔ سپرجیئن نے کہا، ’’اگر میں یسوع مسیح میں یقین رکھتا ہوں، تو مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ آیا میں تجدید پا چکا ہوں، کیونکہ کوئی بھی تجدید یا نئی زندگی پایا ہوا شخص کبھی بھی خُداوند یسوع مسیح میں ایمان نہیں لا سکتا؛ اور اگر میں تجدید پا چکا ہوں تو مجھے یسوع میں یقین رکھنا چاہیے، کیونکہ وہ جو ایسا نہیں کرتا اِس قدر واضح طور پر گناہ میں مُردہ ہوتا ہے… ایمان کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص تجدید یا نئی زندگی پا چکا ہے۔‘‘
ہم مسیحی کی حیثیت سے جنم نہیں لیتے ہیں۔ نہ ہی ہم ’’انسان کے اِرادے‘‘ سے پیدا ہوتے ہیں۔ دُنیا میں عظیم ترین مسیحی ہمیں نیا تخلیق نہیں کر سکتے۔ ہم ’’اِنسانی اِرادے سے‘‘ دوبارہ جنم نہیں لیتے ہیں۔ نہ ہی اپنی آزادنہ مرضی سے نیا جنم لیتے ہیں۔ انسانی مرضی تجدید پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ ہمیں اوپر سے نیا جنم لینا چاہیے۔ پاک روح کی وہ قوت ہونا چاہیے جو ہم میں داخل ہوتا ہے اور ہمیں نئی مخلوق بناتا ہے۔
جہاں یسوع میں ایمان ہے وہاں پر نئی زندگی ہے۔ جہاں پر ایمان نہیں ہے وہاں پر زندگی بھی نہیں ہے۔ اگر آپ یسوع مسیح پر بھروسہ رکھتے ہیں تو آپ دوبارہ جنم لے چکے ہیں۔ ’’انسان کی مرضی سے نہیں، بلکہ خُدا کی مرضی سے۔‘‘ مجھے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے – کیا آپ مسیح کو قبول کر چکے ہیں؟ جی ہاں یا نہیں۔ کیا آپ یسوع مسیح کو قبول کر چکے ہیں؟ کیا آپ صرف اُسی یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں،
اُس ٹھوس چٹان مسیح پر میں ڈٹا ہوں،
باقی ساری زمین دلدلی ریت ہے؟
کیا آپ یسوع مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں؟ کیا آپ نے اُسے قبول کر لیا ہے؟ اگر آپ نے اُسے قبول نہیں کیا ہے، تو کیوں نہیں کیا؟ کیا اُس کو قبول کرنے میں کوئی بہت سی مشکل دشواری پیش آ رہی ہے؟ مجھ میں یقین کرنا ایک الگ بات ہے۔ لیکن یسوع مسیح میں یقین کرنا ایک دوسری بات ہے۔ اُس میں یقین کرنے کا مطلب اُس میں بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ اُس میں بھروسہ کرنا اُس کو قبول کرنا ہوتا ہے۔
اگر ڈاکٹر کیگن آپ سے پوچھتے ہیں، ’’کیا آپ نے مسیح پر بھروسہ کیا؟‘‘ تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ آپ کو اُس [یسوع] کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو اُس [یسوع] کو محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو صرف اُس یسوع پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کیگن آپ سے چالبازی کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ وہ آپ کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں، اورمیں آپ کو بپتسمہ دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں آپ جیسے لوگوں کو مسیح پر بھروسہ کرتے ہوئے دیکھنے سے محبت ہے۔ یسوع آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر قربان ہو گیا تھا۔ کیا آپ اُس پر بھروسہ کریں گے؟ یسوع آج کی شام آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ کیا آپ اُس پر بھروسہ کریں گے؟ کیوں نہ یسوع پر ابھی، آج کی شام ہی بھروسہ کیا جائے؟ آپ کہتے ہیں، ’’میں اُس یسوع پر بھروسہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ تو پھر کیوں نہیں ایسا ابھی کیا جائے؟ ایک احساس کی تلاش مت کریں۔ یسوع کی جانب نظر اُٹھائیں۔ کسی بہت بڑے تجربے کی تلاش مت کریں۔ یسوع کی جانب نظر اُٹھائیں۔ خود میں مت جھانکیں۔ آپ میں ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ کو نجات دلا سکتا ہو۔ اپنے خود کے خیالات پر بھروسہ مت کریں۔ یسوع بخود پر بھروسہ کریں۔ یسوع کو قبول کریں، اور وہ آپ کو قبول کر لے گا!
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں یسوع کے پاس آتے؟
اِس دُنیا میں آپ ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں
پریشان ذہن کے لیے محض امن؛
مسیح کے پاس آئیں، اُسی پر یقین کریں،
امن اور خوشی آپ پا لیں گے۔
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟
ابھی کیوں نہیں یسوع کے پاس آتے؟
(’’ابھی کیوں نہیں؟ Why Not Now? ‘‘ شاعر ڈانیئل ڈبلیو۔ وھٹل Daniel W. Whittle، 1840۔1901؛ پادری سے ترمیم کیا گیا)۔
یسوع میں بھروسہ کرنا آسان ہے۔ سُنیں جو ایمی زبالاگا نے کہا، ’’میں اپنے ایمان کی تصدیق کے لیے ایک جذبے کی تلاش میں تھی یا کسی قسم کے تجربے کی تلاش میں تھی… مسیح کے بارے میں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی تردید۔ میں نے خود کو چھوڑ دیا اور انتظار کرتے ہوئے نجات دہندہ کے بازوؤں میں گِر پڑی۔‘‘ جان کیگن نے کہا، ’’میرے ذہن کا کوئی عمل دخل یا مرضی نہیں تھی، لیکن اپنے دِل کے ساتھ، مسیح میں سادہ سا سکون و چین، اُس نے مجھے نجات دلا دی۔‘‘ ایمی اور جان نے یسوع پر بھروسہ کیا۔ اُنہوں نے اُس یسوع کو قبول کیا۔ بس یہی سب کچھ ہے! میں دعا مانگتا ہوں کہ آپ آج کی شام یسوع پر بھروسہ کریں گے۔ آمین۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’بادشاہ کا ایک بچہ A Child of the King‘‘
)شاعر ھیریٹ ای۔ بیوایل Harriet E. Buell، 1834۔1910)۔
لُبِ لُباب جِتنوں نے اُسے قبول کیا! AS MANY AS RECEIVED HIM! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا، خدا نے اُنہیں یہ حق بخشا کہ وہ خدا کے فرزند بنیں یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لائے‘‘ (یوحنا 2:24، 25؛ یرمیاہ 17:9؛ یوحنا 3:1، 2؛ 1:11۔13؛ اشعیا 53:3) I. پہلا، میں وضاحت کروں گا کہ مسیح کو قبول کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے، II. دوسرا، ہم خُدا کی قوت کے بارے میں سیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اُس کے بیٹے کو قبول کرنا پیش کرتی ہے، فلپیوں 4:19، 13؛ یوحنا 1:11۔13۔ III. تیسرا، ہم اُس نئے جنم کے بارے میں سیکھتے ہیں جو خُدا ہمیں بخشتا ہے جب ہم مسیح کو قبول کرتے ہیں، یوحنا 1:13۔ |