اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
مذہبی خُدمات میں اپنی 60 ویں سالگرہ پر ڈاکٹر ہائیمرز بتاتے ہیں
|
مہربانی سے کھڑے ہو جائیں جب میں اپنی زندگی کی آیت پڑھوں۔
’’جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کی مدد سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
آپ شاید تعجب کریں کیوں میں نے مذہبی خدمات میں اپنی ساٹھویں سالگرہ کے لیے نِکسن لائیبریری کو چُنا۔ جب آپ میری سوانح حیات پڑھیں گے تو دریافت کریں گے میں نے کیسے صدر نِکسن سے اپنی زندگی کی آیت کو پایا۔
’’جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کی مدد سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔
جب میں دو سال کا تھا تو میرے والد چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے دوبارہ پھر کبھی بھی اُن کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی۔ میں صرف اپنی والدہ کے ساتھ جب تک میں بارہ برس کا ہوا زندگی بسر کی تھی۔ اُس کے بعد میں ایک سے دوسری جگہ پر جاتا رہا، اُن رشتہ داروں کے ساتھ زندگی بسر کی جو مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے سے پہلے میں نے 22 مخلتف سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ میں ہمیشہ ہی ایک ’’نیا بچہ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ میں واقعی میں ایک یتیم تھا۔ لیکن سب سے بڑا نقصان والد کے بغیر پرورش پانا تھا۔ میرا انحصار خود پر تھا، بغیر کسی اِعانت یا سہارے کے۔ لیکن سب سے بدترین بات یہ تھی کہ ایک مثالی کردار کی حیثیت سے میرا کوئی والد نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے تاریخی شخصیات پر نظر ڈالنی شروع کی اور اُن کی مدد سے جو ایک شخص کو ہونا چاہیے تخلیق کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ میرے ہیرو بن گئے۔
میں نے اُن کی دُنیاوی مثالی کرداروں اور مسیحی مثالی کرِداروں کی حیثیت سے گروہ بندی کی۔ میرے ہیروز وہ لوگ تھے جنہوں نے بہت بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا کیا اور اُن پر قابو پایا۔ میرے مسیحی لوگ ابراہام لِنکن، جان ویزلی، رچرڈ ورمبرانڈ اور جان آر۔ رائس تھے۔ میرے دُنیاوی ہیرو وِنسٹن چرچِل اور رچرڈ نِکسن تھے۔ نِکسن کے سوانح نگاروں میں سے ایک نے کہا، ’’وہ ظاہر پرستی کے کاروبار میں خود کو اپنے تک محدود رکھنے والی ہستی تھے۔ ناقابلِ یقین طور پر وہ کامیابی سے بھرپور ایک سیاست دان بن گئے۔ شرمیلے اور کتابی کیڑے، وہ جانتے تھے کہ اُنہیں ہرایا جا سکتا ہے، نِکالا جا سکتا ہے، اور اِس کے باوجود – چاہے کیسی ہی رکاوٹیں ہوں ہمیشہ – دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔‘‘ جی نہیں، وہ ایک مسیحی نہیں تھے۔ لیکن، جی ہاں، وہ ہمیشہ لڑنے کے لیے واپس آ جاتے تھے۔ فلپیوں4:13 بائبل میں سے نِکسن کی سب سے پسندیدہ آیت تھی۔
نِکسن کو کیوں وہ آیت اِس قدر پسند تھی یہ جاننے کے بعد، میں اُنہیں پھر کبھی بھی دوبارہ ناپسند نہیں کر پایا۔ اُنہوں نے اِس قدر زیادہ رکاوٹوں پر قابو پایا کہ میں نے اُنہیں خونی قربت والی ایک روح کی حیثیت سے پایا۔ اپنی زندگی کے تاریک ترین لمحات میں، میں اکثر سوچا کرتا، ’’اگر رچرڈ نِکسن واٹر گیٹ کو سہہ سکتا ہے، تو میں بھی اِس میں سے گزر سکتا ہوں۔‘‘ اخبار نویس والٹر کرونکائٹ نے کہا، ’’اگر آپ یا میں رچرڈ نِکسن ہوتے تو ہم مر چکے ہوتے۔‘‘ میرے لیے وہ عزم و پختگی کا ایک نمونہ تھے۔ نِکسن نے کہا، ’’انسان ختم نہیں ہو جاتا جب شکست کھاتا ہے۔ وہ ختم ہوتا ہے جب ہمت ہارتا ہے۔‘‘ کچھ بھی اُنہیں روک نہیں پایا۔ اُنہوں نے 1960 میں جان کینیڈی کے مقابلے میں صدارتی انتخابات ہارے۔ اُنہوں نے 1962 میں کیلیفورنیا میں گورنر بننے کی دوڑ ہاری۔ اُنہوں نے 1968 میں صدارت جیتی۔ اُنہیں واٹر گیٹ کے مسئلے پر عہدے سے برطرف کیا گیا۔ لیکن وہ ہمیشہ واپس لوٹے۔ اِسی لیے، حالانکہ وہ ایک مسیحی نہیں تھے، وہ میرے دُنیاوی ہیروز میں سے ایک ہیں۔
پولوس رسول نے کہا،
’’جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کی مدد سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔
اِس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے سر پر بال اُگا سکتا ہوں! اِس کا یہ مطلب نہیں کہ میں پرواز کر سکتا ہوں! اِس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ریاضی میں اچھا ہو سکتا ہوں! رسول کا مطلب تھا کہ وہ تمام آزمائشوں کو برداشت کر سکتا ہے، کہ وہ تمام ذمہ داریوں کو نبھا سکتا ہے، کہ وہ تمام رکاوٹوں پر قابو پا سکتا ہے – مسیح کی مدد سے جو اُسے طاقت بخشتا ہے۔ اور میں نے پایا کہ یہ بات مجھ میں بھی سچ ثابت ہوتی ہے۔ میں اِس آیت کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ لیکن میں اِس سے بھی زیادہ خُداوند کا شکر ادا اُس مسیح کو مجھے بخشنے کے لیے کرتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے! میں کالج میں ناکام رہا، لیکن مسیح نے مجھے واپس جانے کے لیے قوت بخشی اور میں نے ڈاکٹریت میں تین ڈگریاں حاصل کیں۔ میں ایک مشنری بننے میں ناکام رہا، لیکن مسیح نے مجھے ہماری ویب سائٹ کے ذریعے سے ساری دُنیا میں لوگوں کے لیے قوت کا ایک ذریعہ بنایا۔
اور جب آپ میری کتاب پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ مسٹر گرفتھ نے بالکل ابھی تنہا گایا جانے والا جو گیت گایا حمدوثنا کا میرا پسندیدہ گیت کیوں ہے۔
اُس آقا نے ہمیں بُلایا ہے؛ راہگزر شاید مایوس کُن ہو
اور خطرات اور دُکھ راہ پر بکھرے ہوئے ہیں؛
لیکن خُداوند کا پاک روح خستہ حالوں کو آرام پہنچائے گا؛
ہم نجات دہندہ کی پیروی کرتے ہیں اور واپس نہیں مُڑ سکتے؛
اُس آقا نے ہمیں بُلایا ہے، چاہے شک اور آزمائش
ہمارے سفر کا احاطہ کریں، ہم شادمانی کے ساتھ گائیں گے:
’’قدم بڑھاتے چلو، نظریں بُلند رکھو،‘‘ بہت بڑی بڑی مصیبتوں میں سے؛
اسرائیل کے بچوں کو اپنے بادشاہ کی پیروی کرنی چاہیے۔
(’’وہ آقا آ چکا ہےThe Master Hath Come‘‘ شاعر سارہ دودڈنی
Sarah Doudney، 1841۔1926)۔
میں نے اپنی سوانح حیات لکھی کیونکہ میرے بیٹے رابرٹ نے ایسا کرنے کے لیے کہا۔ اِس کو لکھنے میں مجھے لطف نہیں آیا کیونکہ میری زندگی بدقسمتی، جدوجہد اور درد سے اِس قدر بھری تھی۔ بے شمار مرتبہ مجھے یوں لگا جیسے میں مسوّدے کو دور پھینک آؤں کیونکہ وہ بے انتہا منفی تھی۔ لیکن جان سیموئیل کیگن نے کہا، ’’اِس کو باہر مت پھینکیں، ڈاکٹر ہائیمرز، اِس کو صرف ایک اور باب کی ضرورت ہے۔ اُس وقت کے بارے میں بتائیں جب آپ کی والدہ نے آپ کو ’اپنی برکات شمار‘ کرنے کے لیے کہا۔‘‘ میں نے جان کی بات پر توجہ دی اور آخری باب کو لکھا، جو کہ میں اب آپ لوگوں کو بہت مختصر شکل میں پیش کروں گا۔
میں ہسپتال میں اپنی والدہ کے بستر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ یہ شکرگزاری کے تہوار سے چند ہفتوں بعد کی بات تھی۔ ہم اپنے پسندیدہ لوگوں میں سے ایک، ابراہام لِنکن کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے، اور کس طرح سے صدر لِنکن نے شکر گزاری کے تہوار کو ایک قومی چھٹی بنایا۔ ہم نے وہ گیت گایا جو ہم نے شکرگزاری کے تہوار پر گایا تھا۔
جب زندگی کی موجوں پر طوفان آپ کو اُچھالتے ہیں،
جب آپ یہ سوچ کر کہ سب کچھ ہار گئے حوصلہ ہارتے ہیں،
نام بنام ایک ایک کر کے اپنی تمام برکات کو گِنو،
اور خُدا نے تمہارے لیے کیا کچھ کیا اِس سے تم حیران ہو جاؤ گے۔
نام بنام ایک ایک کر کے اپنی تمام برکات کو گِنو،
اپنی برکات کو گنو، دیکھو خُدا نے تمہارے لیے کیا کِیا!
نام بنام ایک ایک کر کے اپنی تمام برکات کو گِنو،
اپنی بے شمار برکات کو گنو، دیکھو خُدا نے تمہارے لیے کیا کِیا۔
(’’اپنی برکات کو گنو Count Your Blessings‘‘ شاعر جانسن اوٹمین، جونئیر Johnson Oatman, Jr.، 1856۔1926)۔
جب ہم گیت گا چکے تو والدہ نے کہا، ’’اوہ، رابرٹ، ہمارے پاس واقعی میں اپنی زندگیوں میں شکر گزاری کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘ پھر ہم نے اپنی برکات کو ’’ایک ایک کر کے‘‘ گننا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں رابرٹ اور جان کی شکرگزاری کرنے سے آغاز کیا۔ پھر اُنہوں نے میری بیوی علیانہ کے لیے شکر گزاری کی۔ ’’رابرٹ وہ میرے ساتھ بے انتہا اچھی ہے اور وہ اِس قدر اچھی ماں اور بیوی ہے۔‘‘ اُنہوں نے خُداوند کا شکر ادا کیا کہ وہ ہمارے گھر میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اُنہوں نے ہمارے گرجا گھر کے لیے خداوند کا شکر ادا کیا۔ اُنہوں نے ’’ایک ایک کر کے‘‘ ہمارے اِراکین کی شکرگزاری پیش کی۔ پھر میں نے بے شمار باتوں کو شکریہ کہنے کے لیے پیش کیا۔ اور ہم نے کورس کو دوبارہ گایا۔
نام بنام ایک ایک کر کے اپنی تمام برکات کو گِنو،
اپنی بے شمار برکات کو گنو، دیکھو خُدا نے تمہارے لیے کیا کِیا۔
اُس وقت رات بہت گزر چکی تھی۔ میں نے اُن کا بوسہ لیا اور جب میں کمرے میں سے جا رہا تھا تو اُنہوں نے کچھ ایسی بات کہی کہ میں اُس کو جب تک میں زندہ رہوں گا کبھی بھی نہیں بھول پاؤں گا۔ اُنہوں نے کہا، ’’رابرٹ، میرے ساتھ رونما ہونے والی باتوں میں سے تم سب سے بہترین بات ہو جو رونما ہوئی۔‘‘ میری آنکھیں بھر گئیں جب میں اُن کا کمرہ چھوڑ رہا تھا، اور ہسپتال سے باہر رات میں نکل رہا تھا۔ یہ اُن کے ساتھ میری آخری بات چیت تھی۔ بعد میں اُسی رات اُنہیں شدید دورہ پڑا تھا جس نے اُن کی جان لے لی۔
’’اپنی کتاب کو باہر مت پھینکیں، ڈاکٹر ہائیمرز۔ اِس کو صرف ایک اور باب کی ضرورت ہے۔ اُس وقت کے بارے میں بتائیں جب آپ کی والدہ نے آپ کو ’اپنی برکات شمار‘ کرنے کے لیے کہا۔‘‘ لہٰذا پیش ہیں اُن ناقابلِ یقین برکات میں سے کچھ جو خُداوند مجھے میری زندگی کی زیارت میں بخش چکا ہے۔
سب سے پہلے، میں خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری والدہ نے بالاآخر نجات پا لی تھی۔ وہ اَسّی برس کی تھیں اور میں نے سوچا تھا وہ کبھی بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہونگی۔ میں لڑکوں اور علیانہ کے ساتھ نیویارک میں تھا، جہاں پر میں بے شمار گرجا گھروں میں تبلیغ کر رہا تھا۔ جب میں اپنے کمرے میں اِدھر اُدھر چل رہا تھا، میں اپنی والدہ کی نجات کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ پھر، اچانک، میں جان گیا وہ نجات پا جائیں گی۔ جیسا کہ پرانے وقتوں کے لوگ کہتے ہیں ’’میں نے دِل سے دعا مانگی‘‘ تھی۔ میں نے ڈاکٹر کیگن کو فون کیا اور اُن سے جانے اور والدہ کو مسیح تک رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ اُنہوں نے پہلے کبھی بھی اُن کی [ڈاکٹر کیگن] کی بات نہیں مانی تھی۔ لیکن اِس مرتبہ اُنہوں نے مسیح پر بھروسہ کر لیا تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا، جیسے تمام کی تمام مسیح میں ایمان لانے والی حقیقی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ اُس دِن سے اُنہوں نے سگریٹ نوشی اور شراب نوشی چھوڑ دی۔ مجھے ڈاکٹر بتا چکے تھے کہ ایک شرابی جو اچانک بس ایسے ہی پینا چھوڑ دیتا ہے اُس کو اچانک دورے پڑتے ہیں جب تک کہ اُسے فینوباربیٹل Phenobarbital [سکون آور دوا] نہ دی جائے۔ لیکن اُنہیں دورے نہیں پڑے۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ اُنہوں نے کبھی کوئی دوسری سگریٹ نہیں پی اور کبھی بھی کوئی دوسری شراب نہیں پی۔ وہ کئی کئی مرتبہ بائبل پڑھا کرتی اور میرے ساتھ ہفتے میں چار مرتبہ گرجا گھر آیا کرتیں۔ میں نے اُن کو 4 جولائی کو بپتسمہ دیا، جو اُن کا پسندیدہ چھٹی کا دِن ہے۔ میں اپنی والدہ کی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے لیے خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
دوسرے نمبر پر، میں اپنی شاندار بیوی، علیانہ کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ وہ ایک شادی میں آئی تھیں جس کی رہنمائی میں کر رہا تھا۔ شادی کی تقریب سے پہلے میں نے ایک مختصر سے واعظ یوحنا3:16 پر دیا۔ یہ پروٹسٹنٹ گرجا گھر میں پہلا واعظ تھا جو اُنہوں نے سُنا تھا۔ اُنہوں نے دعوت کا ردعمل ظاہر کیا اور فوراً نجات پا لی! پہلی مرتبہ میں نے اُن سے میرے ساتھ شادی کرنے کے لیے پوچھا تو اُنہوں نے ’’نا‘‘ کہا۔ میرا دِل ٹوٹ گیا۔ اُورلینڈو Orlando اور آئرین ویزقویز Irene Vazquez(جو اُس رات وہاں پر موجود تھے) اُنہوں نے مجھے یوریٹو ریکو Puerto Rico اپنے ساتھ چلنے کے لیے مدعو کیا۔ میں چلا گیا، لیکن میں علیانہ ہی کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ بھی میرے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں اُمید کرتی ہوں وہ دوبارہ پوچھے گا۔‘‘ میں نے پوچھا، اور اِس مرتبہ اُنہوں نے ’’ہاں‘‘ کہا۔ ہم پینتیس سالوں سے شادی شُدہ رہ چکے ہیں۔ میں ہر روز اپنی چھوٹی سی پیاری بیوی کے لیے خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں! اُنہوں نے مجھے ایک غور طلب بات تحریر کی جس میں لکھا تھا، ’’رابرٹ، میں تم سے اپنے تمام دِل اور جان کے ساتھ محبت کرتی ہوں۔ ہمیشہ محبت کرتی رہوں گی، علیانہ۔‘‘ وہ بہت حد تک امثال31 میں اُس نیک چلن عورت کی مانند ہیں۔ آپ کو صرف اِتنا ہی کرنا ہے کہ اُس باب کو یہ دیکھنے کے لیے پڑھیں کہ وہ میری پیاری علیانہ کی تشریح کرتا ہے۔ میں ہمیشہ اُنہیں اپنے دِل میں عزیز رکھوں گا۔ اُن کے والد آج شام کو یہاں پر ہیں۔ یہاں پرموجود ہونے کے لیے وہ گوئٹے مالا سے طویل سفر طے کر کے آئے ہیں۔ مسٹر کیولر Mr. Cuellar، آپ کا شکریہ! اور اُن کا بھائی اور اُس کا خاندان بھی یہاں پر ہیں۔ شکریہ اروین Erwin!
تیسرے نمبر پر، میں خُداوند سے اپنے دونوں بیٹوں رابرٹ اور جان کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وہ جڑواں ہیں، اور وہ اب چونتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ وہ دونوں نارتھ ریج Northridge کی کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے گریجوایشن کر چکے ہیں۔ رابرٹ کی جِن Jin نامی ایک خوبصورت کورین لڑکی سے شادی ہو چکی ہے۔ اُس کے والدین آج کی رات یہاں پر موجود ہیں، اور اُن کے علاوہ اُس کا بھائی اور اُس کی بیوی بھی یہاں پر ہیں۔ آنے کے لیے آپ کا شکریہ! رابرٹ اور جِن دو بچیوں حنّہ اور سارہ کے والدین ہیں۔ میں خُداوند کا اِس قدر خوبصورت پوتیاں دینے کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔
میرا دوسرا بیٹا جان ویزلی ہے جس کا نام عظیم انگریز مبلغ پر رکھا گیا۔ رابرٹ اورجان دونوں ہی ہمارے گرجا گھر کے ہر اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ ویزلی نمازی بندہ ہے۔ وہ اکثر کئی کئی گھنٹے دعا مانگتا اور بائبل پڑھتا ہے۔ وہ ایک اچھا مسیحی ہے اور وہ میرا دوست ہے۔ میں اپنے دونوں بیٹوں سے خوش ہوں۔ وہ دونوں میرے اور میری بیوی کے لیے ایک ناقابلِ بیان برکت ہیں۔
میں ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ وہ وہ بھائی ہیں جو میرے پاس کبھی نہیں تھا۔ وہ میرے بہترین دوست اور قریبی مددگار یا شریک کار ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا اِس قدر احترام کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی ایک دوسرے کو اپنے پہلے ناموں سے نہیں پکارا۔ یہاں تک کہ جب ہم تنہا بھی ہوتے ہیں تومیں اُنہیں ہمیشہ ڈاکٹر کیگن ہی کہتا ہوں اور وہ ہمیشہ مجھے ڈاکٹر ہائیمرز ہی کہتے ہیں۔ میں اِس قدر عقلمند اور ایمان سے بھرپور دوست بخشنے کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں ہی خود میں مگن رہنے کے رُجحان رکھتے ہیں، اور ہم دونوں ہی کافی کافی وقت تنہا دعا میں اور بائبل کے مطالعے میں گزار دیتے ہیں۔ وہ اپنی سوچ میں زیادہ سائنسی اور حسابی ہیں۔ میں زیادہ پُراسرار اور اِلہامی ہوں۔ لیکن ہم دونوں اکھٹے کام کرتے ہوئے مکمل طور سے سکون میں ہیں۔ ہم پارٹنرز ہیں، جیسے ہومز اور واٹسن، یا جانسن اور بوسویل Johnson and Boswell (کسی نے اضافہ کیا، ’’جیسے لوریل اور ہارڈی Laurel and Hardy یا ایبٹ اور کوسٹیلو Abbott and Costello،‘‘ پرانے دور کے مذاحیہ اداکار)۔
میں نئی راہ دکھانے والی ایک ہستی ہوں اور وہ مستحکم کر دینے والی ایک ہستی ہیں۔ میں ادبی ذہنیت رکھنے والا ہوں۔ وہ حسابی ذہنیت رکھنے والے شخص ہیں۔ وہ مجھے ایک رہنما سمجھتے ہیں۔ میں اُنہیں قدرتی طور پر ایک ذہین ترین شخصیت سمجھتا ہوں۔ ہماری پارٹنرشِپ ہم دونوں ہی کی ایک برکت رہ چکی ہے۔ میں ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میں خُداوند کا جان سیموئیل کیگن کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔ وہ ڈاکٹر اور مسز کیگن کے بڑے بیٹے ہیں۔ جان وہ نوجوان شخص ہیں جو اِس عبادت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اُنہیں کل ہی بپٹسٹ مذہبی خادم کی حیثیت سے مسح کیا گیا تھا۔ لہٰذا اب وہ پادری جان سیموئیل کیگن ہیں! وہ ایک انتہائی اچھے مبلغ اور مشیر ہیں۔ میں مذہبی خدمات میں جان کو اپنا ’’بیٹا‘‘ سمجھتا ہوں۔ وہ بائیولا یونیورسٹی میں ٹالبوٹ سکول آف تھیالوجی کے اپنے دوسرے سال میں ہیں۔ وہ انتہائی ذہین ہیں۔ تعجب کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ اُن کے والد نے دو پی۔ ایچ۔ ڈیز کی ہوئی ہیں اور اُن کی والدہ جوڈی ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ جان اوّل درجے حاصل کرنے والے ایک طالب علم ہیں۔ اُن کا تھیالوجی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کا اِرادہ ہے۔ 24 برس کی عمر میں جان انڈیا میں انجیلی بشارت کے پرچار کے اِجلاسوں میں تبلیغ کر چکے ہیں جو ایک ڈومینیکن جمہوریت ہے، اور افریقہ کی تین قوموں میں انجیلی بشارت کے پرچار کے اِجلاسوں میں تبلیغ کر چکے ہیں۔ وہ ہر اِتوار کی صبح ہمارے گرجا گھر میں منادی کرتے ہیں۔ ہم ہر جمعرات کی دوپہر، تھیالوجی اور مذہبی خدمت کے کام پر بات چیت کرتے ہوئے، اکٹھے ہی گزارتے ہیں۔ جان John کے لیے میں خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ہمارے گرجا گھر کا اگلا پادری ہونے کی حیثیت سے وہ میری پیروی کریں گے۔ وہ میرے دوست ہیں۔ یہ بات اِتنی ہی سادہ سی ہے۔
میں ںوح سُونگ Noah Song کے لیے خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔ وہ میرا دوسرا ’’تبلیغ کرنے والا لڑکا‘‘ ہے۔ نوح اپنے کالج کے کام کو اختتام پزیر کر رہے ہیں اور پھر وہ سیمنری جائیں گے۔ وہ اور جان کیگن ایک اچھی ٹیم بناتے ہیں، اور مستقبل میں وہ ہمارے گرجا گھر کی رہنمائی کریں گے۔
میں خداوند کا نوحNoah، ہارون ینسی Aaron Yancy اور جیک نعان Jack Ngann کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔ وہ ہمارے نئے نئے مسح کیے ہوئے مناد ہیں۔ ہارون میرے یار ہیں۔ وہ میرا اُس مرغی کی مانند جس کا ایک ہی چوزہ ہوتا ہے خیال رکھتے ہیں۔ وہ میرے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ جیک نعان شادی شُدہ ہیں اور اُن کے دو بیٹے ہیں۔ اور یہ ہے کچھ ایسی بات جو شاید آپ کو معلوم نہ ہو۔ میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی ہے! اگلے سال میں جیک نعان کے گھر میں ایک بالکل نئے چینی گرجا گھر کی بنیاد رکھنے جا رہا ہوں۔
جان کیگن، نوح سونگ، ہارون ینسی، جیک نعان اور بعن گریفتھBen Griffith میرے دعائی پارٹنرز ہیں۔ ہم ہر بُدھ کی رات کو میرے گھر کی مطالعہ گاہ میں اکٹھے دعا مانگنے کے لیے ملتے ہیں۔ میں اِن لوگوں کے لیے خُداوند کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وہ کچھ سخت ترین وقتوں سے گزرنے میں میری مدد کر چکے ہیں، خصوصاً کینسر کے لیے میرے علاج کے دوران۔
میں خُداوند سے ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مسز سلازار Mrs. Salazar اور اُن ’’39‘‘ کے لیے شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر چعین ہمارے معاون پادری صاحب ہیں، انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے انچارج ہیں اور ٹیلی فون پر مذہبی خدمات کی پیروی کرنے کے انچارج ہیں۔ مسز سلازار ہماری ہسپانوی مذہبی خدمات کی انچارج ہیں۔ وہ ’’39‘‘ وہ وفادار لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے گرجا گھر کو ایک بہت بڑی تقسیم کے دوران دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ میں خُداوند کا اُن میں سے ہر ایک کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔ میں مسٹر ایبل پرودھوم Abel Prudhomme کے لیے خُداوند کی شکر گزاری کرتا ہوں۔ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے گرجا گھر کی تقسیم کو روکا تھا۔ اور میں خُدا کا وِرجِل Virgel اور بیورلی نیکل Beverly Nickell کے لیے شکرگزار ہوں۔ یہ وہ جوڑا ہے جنہوں نے ہمیں ہمارے گرجا گھر کی عمارت کو خریدنے کے لیے زیادہ تر پیسہ قرض میں دیا۔ اُنہوں نے ہمیں سہارا دینے میں کہیں بھی لڑکھڑاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ اب ہمارے گرجا گھر کے قابلِ تعظیم اِرکان ہیں۔
ہمارا گرجا گھر تیس برس کی عمر سے کم نوجوان لوگوں کی تقریباً پچاس فیصد تعداد سے بنا ہوا ہے۔ میں نے ہمیشہ نوجوان لوگوں کی نگہبانی سے مسرت پائی ہے۔ جو گروہ اب ہمارے درمیان ہیں وہ اب تک کے میرے جاننے والے گروہوں میں سے سب سے بہترین ہیں۔ ہمارے پاس مُنادوں کا ایک بہترین گروپ ہے۔ مسح کیے ہوئے آٹھ مُناد ہیں، اور ہم ہر دوسال میں اُن کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ہارون ینسی مُنادوں کے مستقل چیئرمین ہیں، لہٰذا وہی تنہا ہیں جن کا تبادلہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔ میں اِن لوگوں کے لیے خُداوند کا شکر گزار ہوں۔
ہمارے گرجا گھر میں بوڑھے لوگ ہم جو سب کچھ کرتے ہیں اُس میں بہت زیادہ سہارا دیتے ہیں۔ وہ ہر اِجلاس میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہ بہت اچھی طرح سے دعا مانگتے ہیں، اور ہمارے گرجا گھر کو تعمیر کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ مجھے جان کیگن اور اُن کے والد کے ہاتھوں میں اِتوار کی صبح کی عبادت کو چھوڑنے سے کوئی خوف نہیں ہوتا، جب میں ایک نئے چینی گرجا گھر کا آغاز کرنے کے لیے مونٹی بیلو Montebello جاؤں گا۔ میں اُن پر مکمل طور سے بھروسہ کرتا ہوں۔ میں مرکزی گرجا گھر میں ہر اِتوار کی رات کو منادی کرنے کے لیے واپس آ جاؤں گا۔
میری تمام زندگی ہمارے گرجا گھر میں لوگوں کے اِردگرد گھومتی ہے۔ وہ میرا ’’قبیلہ‘‘ ہیں۔ اِس قدر شاندار پھیلے ہوئے خاندان کا بزرگ ہونے سے مجھے بے انتہا خوشی ملتی ہے۔ یسوع نے کہا،
’’اگر تُم ایک دُوسرے سے محبت رکھو گے تو اِس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تُم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا 13:35).
آپ کو ایک سچی کہانی بتانے کے مقابلے میں اِس پیغام کا اِختتام کرنے کا اِس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں سوچ سکتا۔ جب میں میرین کاؤنٹی میں اوپن ڈور Open Door کے گرجا گھر میں تبلیغ کر رہا تھا، تو میں ہر جمعہ کے روز اور ہفتے کے روز اپنے ساتھ نوجوان لوگوں کا ایک گروہ سان فرانسسکو لے جایا کرتا تھا۔ میں سڑک پر منادی کرتا جبکہ وہ کتابچے بانٹتے۔ ہم اکثر شہر کے شمالی ساحلی علاقے میں جایا کرتے۔ وہ ایک نازیبا جگہ تھی، جہاں پر لوگ نشہ کرتے تھے، اور وہاں پر بے شمار ’’بےشرمی‘‘ کے ٹھکانے تھے۔ میں عموماً ’’باغِ عدن Garden of Eden‘‘ نامی بے شرمی کے ایک ٹھکانے کے سامنے پیدل چلنے کی گزرگاہ پر منادی کیا کرتا تھا!!!
ایک رات کو بچوں میں سے کچھ میرے پاس ایک نوجوان شخص کو لے کر آئے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کو ایک انتہائی مہنگی ہیروئین پینے کی عادت ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ اُس سے چُھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ جب میں نے اُس سے بات کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ مخلص تھا۔ شام کے اِختتام پر میں نے اُس سے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہا اور اُس کو واپس اپنے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ لے آیا۔ میں نے اُس کو کچن میں رکھا، اپنی خواب گاہ کے دروازے پر تالا لگایا، اور سو گیا۔
اگلے کئی ہفتوں تک وہ اُسی کچن کے فرش پر بیٹھے بیٹھے ہولناک پسپائی کے مرحلوں میں سے گزرا۔ بالاآخر وہ کسی حد تک سکون میں آیا اور مجھ سے پوچھا اگر کسی کے پاس کوئی گٹار ہو۔ میں نے اپنے بچوں سے اُس کے لیے ایک گٹار لانے کا کہا۔ وہ اُسی فرش پر بیٹھا چند ایک دِنوں تک اُس گٹار پر ہلکی ہلکی اُنگلیاں پھیر کر بجاتا رہا۔ پھر اُس نے حمدوثنا کے گیتوں کی ایک کتاب مانگی۔ ہم نے اُسے ایک لا کر دی اور حمدوثنا کے گیتوں میں سے ایک کے لیے وہ ایک نئی دُھن دریافت کرنے لگا۔ مجھے اُس لڑکے کا اصل نام بھول چکا ہے۔ میں ہمیشہ اُس کو ڈی اےDA بُلایا کرتا تھا، جو کہ نشے کا عادی drug addict کا مختصر نام ہے!
پھر ایک دِن ڈی اے نے مجھ سے کہا، ’’اِس کو سُنیں۔‘‘ اُس نے گٹار اُٹھائی، حمدوثنا کے گیتوں کی کتاب کو کھولا، اور البرٹ میڈلین Albert Midlane (1825۔1909) کا حمدوثنا کا گیت، ’’تیرے کام کی بحالی ہو Revive Thy Work‘‘ اپنی نئی طرز میں گایا۔ قطعی طور پر خوبصورت! ہم اُس حمدوثنا کے گیت کو آج کے دِن بھی ڈی اے ہی کی دُھن پر گاتے ہیں!
تیرے کام کی بحالی ہو، اے خُداوندا! تیرا قوی بازو فقط بناتا ہے؛
اُس آواز کے ساتھ بولنا جو مُردوں کو جگاتی ہے، اور تیرے لوگوں کو سُنائی دیتی ہے۔
بحالی ہو! بحالی ہو! اور تروتازہ بوچھاڑیں بخشتی ہے؛
وہ جلال سارے کا سارا تیرا اپنا ہوتا ہے؛ برکات ہماری ہوتی ہیں۔
(’’تیرے کام کی بحالی ہوRevive Thy Work‘‘ شاعر البرٹ میڈلین
Albert Midlane، 1825۔1909)۔
جب میں لاس اینجلز گھر واپس آیا، میرا ڈی اے سے رابطہ ختم ہو گیا۔ زندگی جاری رہی اور بالاآخر ہمارا گرجا گھر اُس عمارت میں بنا جس میں اب ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک رات کو ٹیلی فون بجا۔ میں اپنے آفس میں گیا اور کہا، ’’ھیلو۔‘‘ فون پر اُس آواز نے کہا، ’’کیسے ہیں ڈاکٹر ہائیمرز، یہ میں ہوں ڈی اے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کون؟‘‘ اُس نے کہا، ’’ڈی اے۔ آپ کو یاد ہے وہ نشے کا عادی – ڈی اے۔‘‘ میں تقریباً گِر ہی پڑا۔ میں نے اُس کی آواز کو تقریباً تیس سالوں سے نہیں سُنا تھا! میں نے کہا، ’’تم کہاں پر ہو؟‘‘ اُس نے کہا، ’’میں فلوریڈا میں ہوں۔ میں شادی شُدہ ہوں۔ میرے کچھ بچے ہیں، اور ایک اچھی سی بیوی ہے۔ اور میں اپنے گرجا گھر میں سنڈے سکول میں پڑھاتا ہوں۔‘‘
میں خوشی سے ہنس پڑا! اُس رات گھر واپسی پر میں سارے راستے گاتا آیا! یہ اِس ہی طرح کے اوقات ہیں جو مجھے خوشی دیتے ہیں کہ میں 60 سال پہلے مذہبی خدمات میں چلا آیا تھا۔ آخر کو یہ اُن دُکھوں اور دردوں سے قیمتی ہے! نوجوان لوگوں کو مسیح کے لیے جیتنا، جیسے ڈی اے نے میری خوشی کو مکمل کر دیا تھا!
وہ درد اور دُکھ پگھل کر پرے ہو جاتے ہیں جب میں اُن تمام نوجوان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو نجات پا چکے ہیں۔ مذہبی خدمات میں میرے ساٹھ سالوں نے مجھے خوشیوں کے بہت بڑے بڑے مواقعے فراہم کیے ہیں۔ میں کسی بھی چیز کے لیے مذہبی خدمات کا سودا نہیں کر سکتا!
ہمیشہ ہی کی طرح، میں خوشخبری کو سمجھانے کے لیے چند ایک منٹ لوں گا۔ یسوع آسمان سے نیچے ایک خاص وجہ سے آیا تھا – وہ ہمارے گناہ کا کفارا ادا کرنے کی خاطر صلیب پر مرنے کے لیے آیا تھا۔ وہ جسمانی طور پر ایسٹر سنڈے کو جی اُٹھا تھا۔ اُس نے ہمیں گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اپنے قیمتی خون کو بہایا۔ اُس نے ہمیں اُس پر بھروسہ کرنے کے لیے کہا، اور ہم گناہ سے پاک صاف ہو جائیں گے۔
میں کامل ہونے کے ذریعے سے اپنی نجات پانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ میں ایک فریسی تھا۔ لیکن بائیولا کالج میں 28 ستمبر، 1961 کے دِن، میں نے یسوع پر بھروسہ کیا۔ وہ یہ گیت تھا جو مجھے مسیح کے پاس لے کر آیا تھا:
طویل مدت تک میری قید روح پڑی رہی
گناہ اور فطرت کی تاریکی میں زبردست بندھی ہوئی۔
تیری آنکھ سے ایک تیز لپک پھیلی،
میں جاگ اُٹھا، قید خانہ نور سے جگمگا اُٹھا۔
میری زنجیریں ٹوٹ گئیں، میرا دِل آزاد تھا،
میں اُٹھا، آگے بڑھا، اور تیری پیروی کی۔
حیرت انگیز محبت! یہ ہو کیسے سکتی ہے،
کہ تجھے، اے میرے خُداوند، میرے لیے مرنا پڑا۔
(’’ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ And Can It Be?‘‘ شاعر چارلس ویزلی
Charles Wesley، 1707۔1788)۔
یسوع خُدائی متجسم تھا۔ وہ میرے لیے مرا۔ میں نے اُس کے بارے میں ایک نئی طرح سے سوچا۔ میں نے مسیح پر بھروسہ کیا۔ یہ میری دعا ہے کہ آپ بھی یسوع میں بھروسہ کریں گے اور نجات پائیں گے۔ تو پھر اِس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک بائبل میں یقین رکھنے والے گرجا گھر میں جائیں اور یسوع مسیح کے لیے اپنی زندگی کو بسر کریں۔
اور آپ سب کو میں کہتا ہوں، ’’خُداوند آپ لوگوں کو برکت دے جیسے اُس نے مجھے تمام رکاوٹوں کے خلاف اور سارے خوفوں کے خلاف برکات سے نوازا۔‘‘ مجھے پتا چلا کہ تیرے بعض فرزند اُس حکم کے مطابق جو ہمیں خُدا باپ کی طرف سے مِلا ہے سچائی پر عمل کر رہے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوئی‘‘ (3یوحنا4)۔ آمین۔
میں اب پروگرام کو واپس پادری صاحب جان کیگن کے حوالے کروں گا کہ وہ اِس عبادت کا اِختتام کریں۔ (جان، ڈاکٹر اور مسز ہائیمرز کی سالگراؤں کا اِعلان دو کیک کے ساتھ اور ’’آپ کو سالگرہ مبارک ہو‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں۔)
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر جان ویزلی ہائیمرز نے کی تھی: زبور27:1۔14 .
واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر بیجیمن کینکیڈ گریفتھ نے گایا تھا:
’’کیا یسوع کو تنہا صلیب برداشت کرنی چاہیے؟ Must Jesus Bear the Cross Alone?‘‘
(شاعر تھامس شیپرڈ Thomas Shepherd، 1665۔1739؛ پہلا اور آخری بند)\
’’آقا آ چکا ہے
The Master Hath Come‘‘
(شاعر سارہ دودڈنی Sarah Doudney، 1841۔1926؛ آخری دو بند)۔