اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
گتسمنی میں مسیح کی اذیتCHRIST’S AGONY IN GETHSEMANE ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اور وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جس کا نام گتسمنی تھا اور اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا، جب تک میں دعا کرتا ہوں تم یہیں بیٹھے رہنا۔ اور خود پطرس، یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لے گیا، اور بہت پریشان اور بیقرار ہونے لگا۔ اور اُن سے کہا، ، غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو‘‘ (مرقس14:32۔34)۔ |
مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھا چکا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد، مسیح نے اُنہیں روٹی اور پیالہ پیش کیا تھا – جس کو ہم ’’عشائے ربانی‘‘ کہتے ہیں۔ اُس نے اُنہیں بتایا تھا کہ روٹی اُس کے بدن کے بارے میں بتاتی ہے، جو کہ اگلی صبح مصلوب کیا جانا تھا۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ پیالہ اُس کے خون کے بارے میں بات کرتا ہے، جو وہ ہمیں ہمارے گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے بہائے گا۔ پھر یسوع اور شاگردوں نے حمدوثنا کا ایک گیت گایا تھا، اور کمرہ چھوڑ کر رات میں باہر نکل گئے تھے۔
وہ یروشلم کی مشرقی ڈھلوان سے پیدل گئے اور قِدرون کی وادی کو پار کیا۔ پھر وہ تھوڑا اور آگے تک گتسمنی کے باغ کی حد تک پیدل گئے۔ یسوع نے شاگردوں میں سے آٹھ کو باغ کی حد پر ہی چھوڑا اور اُنہیں دعا مانگنے کے لیے کہا۔ پھر وہ باغ میں اور گہرائی تک گیا جہاں اُس نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کو چھوڑا۔ یسوع خود مذید اور آگے زیتون کے درختوں کے تلے تاریکی میں چلا گیا۔ یہ وہیں پر جہاں وہ ’’بہت پریشان [انتہائی حیرت زدہ] اور بیقرار [انتہائی بے چین] ہونے لگا اور اُس نے کہا، غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے… اور وہ تھوڑا اور آگے گیا، اور زمین پرذرا اور آگے جا کر وہ سجدہ میں گِر گیا اور دعا مانگی کہ اگر ممکن ہو تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے‘‘ (مرقس14:33، 35)۔
جے۔ سی۔ رائیل J. C. Ryle نے کہا، ’’گتسمنی کے باغ میں ہمارے خُداوند کی اذیت کی تاریخ کلامِ پاک کا ایک گہرا اور پُراسرار حوالہ ہے۔ اِس میں وہ باتیں شامل ہیں جن کو عقلمند ترین [عالمین الہٰیات ] بھی مکمل طور پر سمجھا نہیں سکتے۔ اِس کے باوجود اِس میں … [شدید] اہمیت کی سادہ سچائیاں ہیں‘‘ (جے۔ سی۔ رائیل، مرقس پر تفسیراتی تبصرے Expository Remarks on Marks، دی بینر اور ٹُرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1994، صفحہ316؛ مرقس14:32۔42 پر غور طلب باتیں)۔
آئیے آج کی شام ہم اپنے ذہنوں ہی میں گتسمنی میں چلتے ہیں۔ مرقس ہمیں بتاتا ہے کہ وہ [یسوع] ’’بہت بیقرار‘‘ تھا (مرقس14:33)۔ یونانی لفظ ’’ایکتھام بی اِستھائی ekthambeisthai‘‘ – جس کا مطلب ہوتا ہے ’’شدید حیرت زدہ، شدید بےچین، متعجب اور چوکس۔‘‘ اور زمین پرذرا اور آگے جا کر وہ سجدہ میں گِر گیا‘‘… اور دعا مانگی کہ اگر ممکن ہو تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے‘‘ اور اُس نے اُن سے کہا، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے‘‘ (مرقس14:34، 35)۔
جے۔ سی۔ رائیل نے کہا، ’’اِن تاثرات کے لیے صرف ایک ہی قابلِ توجیہہ وضاحت ہے۔ یہ محض جسمانی دُکھوں کا ہی خوف نہیں تھا… یہ انسانی جرم کے شدید وزن کا احساس بھی تھا، جو اُس وقت اُس پر ایک مخصوص انداز میں پڑنا شروع ہو چکا تھا۔ یہ ہماری بداعمالیوں اور گناہوں کا [ناقابلِ بیان] وزن کا احساس تھا جو اُس وقت اُس پر لادے دیے گئے تھے۔ اُس کو ’ہمارے لیے لعنتی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ وہ ہمارے غموں اور دُکھوں کو برداشت کر رہا تھا… اُس کو ’ہمارے لیے گناہ قرار دیا گیا تھا جو گناہ کو جانتا تک نہیں تھا۔‘ اُس کی پاک فطرت نے [شدت کے ساتھ] اُس پر لادے گئے انتہائی شدید بوجھ کو محسوس کیا تھا۔ یہ اُس کی غیرمعمولی غمگینی کی وجوہات تھیں۔ ہمیں گتسمنی میں ہمارے خُداوند کی اذیت میں گناہ کی اُس غیرمعمولی شیطانیت کو دیکھنا چاہیے۔ [آجکل انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والوں کے خیالات] اُس سے کہیں کم ہیں جو کہ اُنہیں گناہ سے تعلق رکھتے ہوئے رکھنے چاہیے‘‘ (رائیل Ryle، صفحہ 317)۔
کاش آپ گرجا گھر نہ آنے، بائبل کے مطالعے کو نظر انداز کرنے اور اُس کے بجائے ویڈیو گیمز، فحش فلموں، ناچ گانوں اور شراب نوشی کے گناہ کے بارے میں معمولی طور پر مت سوچیں۔ آپ کے یہ تمام کے تمام گناہ گتسمنی میں یسوع پر لادے گئے تھے۔ لیکن اِس سے بڑھ کر اور ہے – کہیں زیادہ اور۔ وہ سب سے بڑا گناہ جو گتسمنی کے باغ میں یسوع پر لادا گیا تھا ہمارا موروثی گناہ تھا، ہمارا مکمل اخلاقی زوال تھا، جو کہ ہمارے مکمل طور پر اخلاقی زوال میں گِرے ہوئے گنہگار ہونے سے آتا ہے۔ یہ ’’دُںیا کی وہ خرابی جو بُری خواہشوں سے پیدا ہوتی ہے‘‘ (2پطرس1:4)۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ ’’ہم سب اُس شخص کی مانند ہیں جو ناپاک ہے‘‘ (اشعیا64:6)۔ یہ خُدا کے خلاف ہماری فطرتوں میں وہ خودغرضانہ پن، لالچ، اور بغاوت ہے۔ یہ آپ کی ’’جسمانی نیت ہے [جو] خُداوند کی مخالفت کرتی ہے‘‘ جو خُدا کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور اُس کے بغیر جینا چاہتی ہے (رومیوں8:7)۔ یہ وہ بدنما، کراہیت انگیز دِل ہے جو آپ کے پاس ہے (رومیوں8:7)۔ یہ وہ گناہ سے بھرپور دِل ہے جو آپ کے پاس ہے، جو آپ کو پہلے گنہگار، آدم سے منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اُس سے آپ کے جِینزgenes میں، آپ کے خون میں، اور آپ کی روح میں پھیل جاتا ہے۔ (رومیوں5:12) – ’’کیونکہ ایک آدمی کی نافرمانی کی وجہ سے گناہ [تمام نوع اِنسانی] دُنیا میں داخل ہوا… سب گنہگار ٹھہرائے گئے‘‘ (رومیوں5:19)۔
دیکھیں کس قدر چھوٹے چھوٹے نوزائیدہ بچے گناہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اے۔ ڈبلیو۔ پِنک A. W. Pink نے کہا، ’’انسانی فطرت کی بدکاری چھوٹے بچوں میں خود کو دریافت کر لیتی ہے… اور کتنی کم عمری میں یہ ایسا کرتی ہے! اگر انسان میں ایسی کوئی [وراثتی] اچھائی ہوتی، تو یہ یقینی طور پر دُنیا کے ساتھ رابطے میں آنے کی وجہ سے بُری عادتوں کے بننے سے پہلے خود کو [نوزائیدہ بچوں میں] ظاہر کر دیتی۔ لیکن کیا ہم [بچوں] کو اچھا پاتے ہیں؟ اِس سے کہیں بہت دور۔ انسانوں میں نشوونما کا مستقل نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں [وہ] بُرے ہوتے جاتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی، بُغض اور انتقام کو واضح کرتے ہیں۔ وہ روتے ہیں اور جو اُن کے لیے اچھا نہیں ہوتا اُس کے لیے مُنہ بسورتے ہیں، اور جب اُنہیں انکار کیا جاتا ہے تو [اپنے والدین کے ساتھ ناراض ہو جاتے] ہیں، اکثر [اُنہیں دانت کاٹنے] کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جو ایمانداری کے عین بیچ میں پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں وہ چوری کے ایک عمل کو دیکھنے سے پہلے ہی [چوری کرنے] کے قصوروار ہوتے ہیں۔ یہ [غلطیاں]… انسانی فطرت اپنی وجودیت کے آغاز سے ہی [گناہ سے بھرپور] دیکھی جاتی رہی ہے‘‘ (اے۔ ڈبلیو۔ پنک A. W. Pink، کلامِ پاک میں سے جھلکیاں، انسانی کا مکمل اخلاقی زوال Gleanings from the Scriptures, Man’s Total Depravity، موڈی پریس، 1981، صفحہ 163، 164)۔ مائیسوٹا کرائم کمیشن نے اِس بات کو مذید اور واضح اپنی رپورٹوں میں سے ایک میں کیا۔ ’’ہر بچہ اپنی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے وحشی کی حیثیت سے کرتا ہے۔ وہ مکمل طور پر خودغرض اور اپنی ذات کے لیے سوچنے والا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے جو وہ چاہتا ہے جب وہ اِسے چاہتا ہے… اپنی ماں کی توجہ، اپنے ساتھی کا کِھلونا، اپنے انکل کی گھڑی۔ اُسے اِن [چیزوں] کے لیے انکار کر دیں تو وہ غصے اور جارحیت کے ساتھ چیختا چِلاتا ہے، جو کہ قاتلانہ ہوتا ہے اگر وہ اِس قدر بے بس نہ ہو… اِس کا مطلب ہے کہ تمام بچے، نہ کہ محض مخصوص بچے، کمسن مجرم یعنی کہ گنہگار پیدا ہوتے ہیں‘‘ (ھیڈن ڈبلیو۔ رابنسن Haddon W. Robinson کی جانب سے حوالہ لیا گیا، بائبلی تبلیغBiblical Preaching، بیکر کُتب گھر، 1980، صفحہ144، 145)۔
جیسے ہی ہم اپنی بچگانہ سانس کو کھینچتے ہیں،
گناہ کے بیج موت کے لیے اُگتے ہیں؛
تیری شریعت ایک کامل دِل کا تقاضا کرتی ہے،
لیکن ہم ہر حصے سے غلیظ ہوتے ہیں۔
(’’زبور51،‘‘ شاعر آئزک واٹز، ڈی۔ڈی۔Isaac Watts, D.D.، 1674۔1748)۔
ایک بچہ جیسے ہی پیدا ہوتا ہے زور سے روتا ہے۔ جانور کوئی بھی بچہ ایسا نہیں کرتا۔ وہ دوسرے جانوروں کی جانب سے فوراً مار دیے جائیں گے اگر وہ جیسا انسان کے بچے کرتے ہیں ویسے ہی تیز آواز میں چِلائیں اور چیخیں۔ لیکن انسانی بچے خُدا، اختیار اور خود زندگی کے خلاف پیدا ہونے کے چند لمحوں بعد ہی چیختے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ آپ اپنے جِدِامجد آدم سے ہی پیدائشی گناہ کے ساتھ پیدا ہوئے ہوتے ہیں، اِس لیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کا رُجحان بغاوت کرنا ہوتا ہے، مسیحی رہنماؤں کے ساتھ اتفاق نہ کرنا ہوتا ہے، اپنے طریقوں کا تقاضا کرنا ہوتا ہے، اور جو صحیح ہوتا ہے اُس سے انکار کرنا ہوتا ہے۔ یہ عالمگیری دُکھوں اور موت کا بُنیادی سبب ہوتا ہے – یہ پیدائشی گناہ ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ گناہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکنے کے بعد بھی۔ آپ کے والدین شاید سوچتے ہیں کہ آپ ایک نوجوان مسیحی ہیں، لیکن آپ اصل میں ایک نوجوان گنہگار ہوتے ہیں جو خُدا کی مرضی کو کرنے سے نفرت کرتا ہے!
اِس سارے موروثی گناہ کو اُن گناہوں میں جمع کر دیں جو انسان خیالوں میں، لفظوں میں اور کاموں میں کرتے ہیں اور یہ دیکھنا آسان ہو جاتا ہے کہ کیوں یسوع صدمے میں تھا! وہ کُچلا گیا تھا جب خُدا نے دُنیا کے گناہوں کو اُس پر لادا تھا۔
مہربانی سے اِس بات کی لوقا کی تفصیل کے لیے اپنی بائبل کو کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطا لعہ بائبل کے صفحہ 1108 پر ہے۔ یہ لوقا22:44 آیت ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اِس کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ جے۔ سی۔ رائیل نے کہا، ’’ہم کیسے اُس گہری اذیت کو [وضاحت کے ساتھ بیان] کر سکتے ہیں جسے ہمارے خُداوند نے باغ میں برداشت کیا تھا؟ اُس انتہائی شدید دُکھ کا [وہ کیا] سبب تھا، دونوں ذہنی اور جسمانی، جس کو اُس نے برداشت کیا تھا؟ اِس کا مطمئن بخش صرف ایک ہی جواب ہے۔ یہ دُنیا کے منسوب کیے گئے [اُس] گناہ کا بوجھ تھا، جس نے اُس وقت اُس یسوع کو کُچلنا شروع کر دیا تھا… یہ اِنہی [گناہوں] کا انتہائی شدید وزن تھا جس نے اُس کو اذیت برداشت کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہ دُنیا کے جرم کا [وہ] احساس تھا جو اُس کو نیچے ہی نیچے دبائے جا رہا تھا جس نے خُدا کے دائمی بیٹے کے پسینے کو خون کی بوندوں کی مانند ٹپکنے پر مجبور کر دیا تھا‘‘ (جے۔ سی۔ رائیل، لوقا، جلد دوئم Luke, Volume 2، دی بینر اور ٹُرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 2015 ایڈیشن، صفحات 314، 315؛ لوقا22:44 پر غور طلب بات)۔
’’[خدا] نے مسیح کو جو گناہ سے واقف نہ تھا، ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:21).
’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا 53:6).
’’وہ خود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہُوئے صلیب پر چڑھ گیا‘‘ (1۔ پطرس 2:24).
جے۔ سی۔ رائیل نے کہا، ’’ہمیں پرانے عقیدے کے ساتھ مضبوطی سے چمٹے رہنا چاہیے کہ مسیح ’ہمارے گناہوں کو برداشت‘‘ کر رہا تھا، دونوں [گتسمنی کے] باغ میں اور صلیب پر۔ کوئی بھی دوسرا عقیدہ کبھی بھی [مسیح کے خونی پسینے] کی وضاحت نہیں کر سکتا، یا قصوروار شخص کے ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکتا‘‘ (ibid.)۔ جوزف ہارٹ Joseph Hart نے کہا،
خُدا کے تکلیف زدہ بیٹے کو دیکھو،
ہانپتا، کراہتا، خون پسینے کی مانند بہاتا ہوا!
اُس کے مصائب کو جو اِس قدر شدید تھے،
کہ فرشتے بھی اُن کا تصور نہیں کر سکتے۔
یہ صرف خُدا کے لیے اور تنہا خُدا کے لیے ہے
کہ اُن کا وزن مکمل طور پر معلوم ہے۔
(’’تیرے انجانے مصائب Thine Unknown Sufferings‘‘ شاعر جوزف ہارٹ
Joseph Hart، 1712۔1768، بطرز ’’’اِس شام زیتون کی صلیب پر Tis Midnight, and on Olive’s Brow‘‘)۔
اور جوزف ہارٹ نے کہا،
وہاں خُدا کے بیٹے نے میرے تمام جرائم برداشت کیے؛
یہ فضل کے وسیلے سے ہی یقین کیا جا سکتا ہے؛
لیکن جن ہولناکیوں کو اُس نے محسوس کیا
اُن کا تصور بھی کرنا ناممکن ہے۔
کوئی بھی اُن میں سے گزر نہیں سکتا،
غمگین، تاریک گتسمنی
(’’بہت سے دشمنوں کو اُس نے برداشت کیا Many Woes He Had Endured‘‘ شاعر جوزف ہارٹ
Joseph Hart، 1712۔1768؛ ’’آؤ، اے گنہگارو Come, Ye Sinners‘‘ کی طرز پر)۔
اور ولیم ولیمز نے کہا،
اِنسانی جرم کا غیرمعمولی بوجھ نجات دہندہ پر لادا گیا؛
دُکھ کے ساتھ، جیسے کہ وہ ایک لبادہ تھا، وہ گنہگاروں میں شمار کیا گیا،
گنہگاروں میں شمار کیا گیا۔
(’’اذیت میں محبتLove in Agony‘‘ شاعر ولیم ولیمز William Williams، 1759؛
بطرزِ شاہانہ مٹھاس تخت پر بیٹھتی ہے Majestic Sweetness Sits Enthroned‘‘)۔
اور پھر وہ سخت دردوکرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی کے ساتھ دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا22:44)۔
’’اور خُداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا53:6)۔
یہ مسیح کے متبدلیاتی کفارے کا آغاز ہے۔ ’’متبدلیاتی vicarious‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ایک شخص کو دوسرے شخص کی جگہ پر دُکھ سہنا۔ مسیح آپ کی جگہ پر دُکھ سہہ رہا ہے، آپ کے گناہ کے لیے، کیونکہ اُس کا خود کا اپنا کوئی بھی گناہ نہیں ہے۔ مسیح گتسمنی میں ہمارے گناہ کو اُٹھانے والا بنا، آدھی رات کو زیتون کے درختوں کے نیچے۔ صبح میں اُس کو صلیب پر کیلوں سے جڑ دیا جانا تھا، آپ کے گناہ کی مکمل ادائیگی کرنے کے لیے مجبور۔ آپ کیسے اِس جیسی محبت کو مسترد کر سکتے ہیں – وہ محبت جو یسوع کے پاس آپ کے لیے ہے؟ آپ کیسے اپنے دِل کو سخت کر سکتے ہیں اور ایسی محبت کو مسترد کر سکتے ہیں؟ یہ خدا بیٹا ہے، جو آپ کے جگہ پر دُکھ اُٹھا رہا ہے، آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر۔ کیا آپ اِس قدر سردمہر اور سخت ہیں کہ آپ کے لیے اُس کی محبت کوئی معنی نہیں رکھتی؟
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں، کیا آپ اِس قدر سرد مہر اور سخت ہو چکے ہیں کہ جب آپ یسوع کے بارے میں آپ کے لیے دُکھ اُٹھانے کا سُنتے ہیں تو اِس بات سے آپ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ کیا آپ اِس قدر عجیب ہو چکے ہیں کہ آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے یسوع کی اذیت کے بارے میں بات کر سکتا ہوں اور اِس کا آپ کے لیے کوئی معنی نہیں ہوتا؟ کیا آپ اِس ہی قدر سخت یا بے حِس ہو چکے ہیں جتنے کہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے صلیب پر یسوع کو کیلوں سے جڑا تھا – اور پھر اُس کے لبادے کے لیے جؤا کھیلا جب وہ قریب ہی مر رہا تھا؟ اوہ، کاش یہ ایسا نہ ہو! میں آج کی شام آپ سے نجات دہندہ پر بھروسہ کرنی کی اِلتجا کرتا ہوں اور اُس کے پاک خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے دُھل کر پاک صاف ہونے کے لیے اِلتجا کرتا ہوں!
آپ کہتے ہیں ’’چھوڑنے کے لیے بہت زیادہ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔‘‘ اوہ، کاش آپ شیطان کو سُننے سے باز آ جائیں! اِس سے بڑھ کر اِس دُنیا میں اور کچھ بھی نہیں ہے!
افسوس! اور کیا میرے نجات دہندہ نے خون بہایا؟ اور کیا میرا حاکم اعلٰی مر گیا؟
کیا وہ اُس پاک سر کو نچھاور کر دے گا ایک ایسے کیڑے کے لیے جیسا میں ہوں؟
لیکن اُس محبت کے قرض کو جس کا میں قرضدار ہوں غم کے [آنسو] ادا [نہیں کرسکتے]؛
یہاں، خُداوند، میں خود کو حوالے کرتا ہوں، یہی ہے سب کچھ جو میں کر سکتا ہوں۔
(’’افسوس! اور کیا میرے نجات دہندہ نے خون بہایا؟Alas! And Did My Saviour Bleed? ‘‘
شاعر آئزک واٹز، ڈی۔ڈی۔ Isaac Watts, D.D.، 1674۔1748)۔
کیا آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ خود کو اُس کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ نے اُس کے لیے محبت کے ساتھ اپنے دِل میں تحریک پائی ہے؟ اگر نہیں، تو مہربانی سے مت جائیں۔ لیکن، اگر آپ نے تحریک پائی ہے تو، آئیں اور پہلی دو قطاروں میں تشریف رکھیں۔ آمین۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’گتسمنی، وہ زیتون کا کہلو! Gethsemane, The Olive-Press!
(شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart، 1712۔1768؛
بطرز ’’’اِس شام زیتون کی صلیب پر Tis Midnight, and on Olive’s Brow‘‘)