اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
انسانی دِل کے بارے میں لوتھر کا نظریہ(پروٹسٹنٹ مذہبی سُدھار کی 500 ویں سالگرہ پر تبلیغ کیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر۔ آر۔ ایل۔ ہائیمرز جونئیر اور مسٹر جان سموئیل کیگن کی جانب سے تحریر کیا گیا ایک واعظ ’’آدمی کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ |
یہ انسانی دِل کے مکمل اخلاقی زوال کے بارے میں ایک ٹھوس تصویر ہے۔ ہمارے پادری صاحب، ڈاکٹر ہائیمرز نے غور کیا کہ بیشک دورِ حاضرہ کے تراجم اِس کو ’’اُن کے دِل کا رُجحان‘‘ (NIV)، اور ’’انسانی دِل کی منشا‘‘ (NASB)، کرتے ہیں، پرانے تراجم اِس کی ’’آدمی کے دِل کے خیالات‘‘ (KJV) کی منظر کشی کرتے ہیں۔ مگر یہ رُجحانات اور تصورات دو مختلف باتیں ہیں۔ وہ کونسی ہیں؟ کیا یہ ہے کہ انسان کا دِل صرف بُرائی کی جانب رُجحان کرتا ہے یا کیا ’’وہ خیالات‘‘ بذات خود ’’[انسان کے] بچپن ہی سے بُرے‘‘ ہوتے ہیں؟ عبرانی زبان آشکارہ کرتی ہے کہ مناسب ترجمہ ’’خیالات،‘‘ ہے نا کہ انسان کے دل کے ’’رُجحان‘‘ یا ’’منشا‘‘۔ انسان کے دِل کے خیالات بُرے ہوتے ہیں۔ ’’رُجحان‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’بُرائی یا بدی کی جانب تیار ہونا، بُرائی کی جانب جُھکاؤ، بدی یا بُرائی کی جانب ایک اِستعداد یا رغبت۔‘‘ دورِ حاضرہ کے یہ تراجم پس تلاوت کے سچے معنوں کو کمزور کر دیتے ہیں، جو ہمیں عبرانی زبان میں بتاتی ہے کہ انسان محض بُرائی یا بدی کی جانب رُجحان نہیں رکھتا یا جُھکتا نہیں ہے بلکہ یہ بتاتی ہے کہ انسان کے دِل کے انتہائی خیالات بذاتِ خود بُرے ہوتے ہیں۔ محض بُرائی کی جانب تیار ہونا نہیں، محض ’’بُرائی کی جانب جُھکنا‘‘ نہیں، بلکہ بذاتِ خود بُرائی یا بدی ہے!
دِل بُرائی یا بدی کے ذریعے سے اپنے ہر خیال کی جکڑ میں ہوتا ہے۔ یہ جامع طور سے بُرا ہوتا ہے۔ دِل بُرائی کی جانب رُجحان نہیں رکھتا یا مائل نہیں ہوتا جیسا کہ غیرنجات یافتہ دِل کے ذریعے سے بُرائی یا بدی کو پسپا کیا جا سکتا ہو۔ دِل بُرائی کی جانب بے بس نہیں ہوتا جیسا کہ کسی نہ کسی طور اپنے ماحول کے گناہ کا شکار ہو۔ جی نہیں! دل ہی تو وہ مُجرم ہے۔ دِل بذاتِ خود بُرا یا بدکار ہوتا ہے۔
دورِ حاضرہ کے تراجم مکمل اخلاقی زوال کے مذہبی سُدھار کے عقیدے سے پرے ہٹ چکے ہیں، کاتھولک چرچ کے نظریے کی جانب واپس۔ وہ یہ کہنے کے لیے واپس پلٹ چکے ہیں کہ انسان صرف بُرائی کی جانب ’’مائل ہوتا یا رُجحان‘‘ رکھتا ہے۔ دورِ حاضرہ کے تراجم ہمیں انسانی دِل کے رومن کاتھولک نظریے کی جانب واپس لے جاتے ہیں صرف بُرائی کی جانب ’’مائل‘‘ ہونا۔ یہ بالکل وہی نظریہ نہیں ہے جیسا لوتھر کا، اِصلاح پرست یعنی مذہبی سُدھار والوں کا یا ابتدائی بپٹسٹ کا تھا۔
مارٹن لوتھر تمام رومن کاتھولک چرچ کے خلاف کھڑا ہوا تھا جب اُس نے وہ پچانوے نکات 500 سال پہلے وِیٹنبرگ چرچ کے دروازے پر کیلوں سے جڑے تھے۔ انسانی دِل سے تعلق رکھتے ہوئے لوتھر نے کہا، ’’یہ حوالہ واضح طور پر موروثی گناہ کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ لوگ جو موروثی گناہ کو سرسری طور پر لیتے ہیں اُن اندھے لوگوں کی مانند ہوتے ہیں جو دِن کی واضح روشنی میں اِدھر اُدھر ٹٹول ٹٹول کر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ وہ اُس بُرائی پر دھیان نہیں دیتے جیسے وہ روزانہ دیکھتے اور کرتے ہیں۔‘‘ لوتھر انسانی دِل کے بُرے یا بدکار خیالات کی وسعت کی جانب سے اندھا نہیں تھا۔ اُس نے انسان کی بُرائی کو ہر طرف دیکھا تھا، اور جانتا تھا کہ انسانی دِل کے باطنی خیالات کے مقابلے میں کچھ مذید ڈراؤنا ہونا چاہیے۔
لوتھر اور ہمارے پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹ آباؤاِجداد کے لیے، انسان جزوی طور پر مسخ ہو چکا ہے۔ خود کو نجات دلانے کے لیے انسان اپنی گناہ سے بھرپور حالت پر قابو پانے کے لیے ’’اپنے حصّے‘‘ کی معاونت کرنے کے ذریعے سے کچھ بھی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے۔ عالمینِ الہٰیات کی جانب سے اِس تصور کو ’’سینرج اِزم synergism‘‘ کہا گیا ہے۔ لیکن پرانے اصلاح پرست یا مذہبی سُدھار والے اور پیوریٹنز ایسی کسی بھی بات میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا یقین تھا کہ انسان ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتا ہے (افسیوں2:5)۔
لوتھر دُرست تھے، گناہ میں انسان کا صرف گناہ کی جانب رُجحان نہیں ہوتا۔ جی نہیں!
’’آدمی کے دل کا ہر خیال [نا کہ اُس کے رُجحان] بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش 8:21).
لوتھر نے کہا، ’’گناہ خود کو ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں جنہیں خود کو منظم رکھنے کے لیے بہت زیادہ تربیت درکار ہوتی ہے۔ چند ایک سالوں کے بعد وہ نافرمانی میں بڑھ جاتے ہیں۔ جوں جوں سال بڑھتے جاتے ہیں، توں توں گناہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بالکل جیسے وہ کہاوت کہتی ہے کہ جتنا زیادہ ایک شخص بوڑھا ہوتا جاتا ہے اُتنا ہی وہ بدتر ہوتا جاتا ہے۔‘‘
وہ عبرانی لفظ ظاہر کرتا ہے کہ پرانے مبلغین اور عالمینِ الہٰیات دُرست تھے اور نئے والے غلط ہیں۔ نئے والے عالمینِ الہٰیات تلاوت میں اُس لفظ کو اصل سے کم بیان کرنے کا رُجحان رکھتے ہیں، اور اِس کو رومن کاتھولک معنوں میں پیش کرتے ہیں۔ یہ معنی غیرنجات شخص کے جسمانی نیت رکھنے والے ذہن کے لیے نرم اور زیادہ قابلِ قبول ہونے کا رُجحان رکھتے ہیں۔ اُس عبرانی لفظ نے ’’خیالات‘‘ کا ترجمہ کیا جس کا ترجمہ ’’رُجحان‘‘ یا ’’تیار ہونا‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ اُس لفظ ’’خیال‘‘ کا ترجمہ جس عبرانی لفظ سے آتا ہے اُس کا مطلب ’’مقصد، قسم، [ذہن کی] وضع‘‘ ہوتا ہے (Strong # 336)۔ وہ مقصد، قسم اور انسانی دِل کی وضع ’’اُس کے بچپن ہی سے بُری ہوتی ہے،‘‘ ناکہ محض اُس کے رُجحانات اور اِرادے! ’’خیالات‘‘ سارے دِل کے بارے میں بات کرتے ہیں، اُس کے رُجحان یا اِرادے کے بارے میں نہیں۔
بائبل کہتی ہے،
’’کیونکہ آدمی کے دل کا ہر خیال [مقصد، وضع یا ساخت] بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش 8:21).
I۔ پہلی بات، سیلاب سے پہلے انسان کی یہی حالت تھی۔
بائبل کہتی ہے،
’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
زیادہ تر لوگوں کی جانب سے انسانی فطرت کی جانب قائم کیا گیا یہ نظریہ نہیں ہے۔ قدیم زمانوں میں کفار قومیں انسان کی عظمت اور بھلائیوں کے بارے میں کرتی تھیں۔ قدیم فلسفہ دانوں نے کہا کہ انسان ایک برتر مخلوق تھا، خود کو اچھا بنانے کی قوت کے ساتھ، جیسے کہ مغرب میں سقراط اور مشرق میں کنفیوشیئس نے کیا۔ بعد میں، یہاں تک کہ مسیحیت کے زمانے میں، بے شمار لوگوں نے انسان کی فطرت اور صلاحیتوں کے بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں کی۔
یہ کاتھولک تعلیمات اور اُس کے مقابلے میں اصلاح پرست یعنی مذہبی سُدھار والوں کی تعلیمات کے درمیان میں بنیادی فرق تھا۔ کیا انسان مکمل طور پر اخلاقی زوال میں گِر چکا تھا یا انسانی فطرت میں کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا جو خُدا کے ساتھ تعاون کر سکتا تھا؟ کچھ نے کہا کہ انسان کا دِل خُدا کے ساتھ معاون کرنے کے لیے آزاد تھا، کہ انسان خُدا کی فرمانبرداری کرنے کے لیے ایک ’’فیصلہdecision‘‘ کر سکتا تھا۔ اصلاح پرستوں یعنی مذہبی سُدھار والوں نے کہا کہ یہ جھوٹ تھا، کہ
’’اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
مکمل اخلاقی زوال وہ چیز تھی جس کو لوتھر نے ’’[دروازے کا] وہ قبصہ کہا جس پر سب کچھ مُڑتا ہے،‘‘ کیونکہ یہ تعین کرتا ہے کہ آیا مسیحیت فضل کا مذہب ہو گی یا اعمال کا۔
حالانکہ کاتھولک چرچ اور ’’فیصلہ ساز‘‘ بپٹسٹ اور پروٹسٹنٹ تعلیم دیتے ہیں کہ آپ کے پاس خُدا کو جواب دینے کی آزادی ہوتی ہے، لیکن بائبل اِس کے بالکل متضاد تعلیم دیتی ہے۔ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ انسان باغِ عدن میں برگشتہ ہو گیا تھا۔
’’جیسے ایک آدمی کے ذریعے گناہ دنیا میں داخل ہوا، اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی؛ اور ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی‘‘ (رومیوں 5:12).
آدم کی نافرمانی کے سبب تمام انسان گنہگار بن گئے تھے کیونکہ
’’آدم سے نسبت رکھنے کے باعث سب اِنسان مرتے ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں15:22).
برگشتہ، گناہ سے بھرپور آدم اور پھر
’’اُس کی مانند اور اُس کی اپنی صورت پر ایک بیٹا پیدا ہوا‘‘ (پیدائش 5:3).
اُس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ کسی اور طرح کے بیٹے کا باپ بنتا، کیونکہ
’’وہ کون ہے جو ناپاک میں سے پاک شَے نکال سکے؟ کوئی بھی نہیں‘‘ (ایوب 14:4).
نتیجے کے طور پر، تمام نوع انسانی نے اُن فطرتوں کو وراثت میں پایا جو ہیں
’’قصوروں کے باعث مُردہ‘‘ (افسیوں 2:5)،
’’اِس دنیا میں خدا کے بغیر نااُمیدی کی حالت میں زندگی گزارتے ہوئے‘‘ (افسیوں 2:12).
اور اِس طرح، تمام انسان ایسے پیدا ہوتے ہیں
’’جن کی روح اب تک نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ (افسیوں 2:2)،
’’طبعی طور پر خدا کے غضب کے ماتحت‘‘ (افسیوں 2:3).
یوں، ہر انسان سچے طور پر کہہ سکتا ہے،
’’میں اپنی پیدائش ہی سے گنہگار تھا؛ اور اُس وقت سے گنہگار ہُوں جب میں اپنی ماں کے رحم میں پڑا‘‘ (زبور 51:5)؛
کیونکہ
’’وہ سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں‘‘ (رومیوں 3:9).
’’کیونکہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں‘‘ (رومیوں 3:23).
اِس لیے خُداوند نے نسلِ انسانی پر نیچے نگاہ ڈالی اور کہا،
’’کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں…وہ سب کے سب گمراہ ہو گئے… کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں 3:10، 12).
اِس لیے، خداوند نے آسمان سے نیچے نگاہ ڈالی، تو اُس نے
’’دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
یہ پروٹسٹنٹ مذہبی سُدھار کا مرکزی نکتہ ہے۔ اِس نکتے کو مبشراتی ’’فیصلہ سازیت‘‘ کی جانب سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ مکمل اخلاقی زوال کا فلسفہ ہے۔ یہ انسان کے مکمل اخلاقی زوال کا نظریہ ہے، جو [دروازے کا] وہ ’’قبصہ ہے جس پر سب مُڑتے ہیں۔‘‘ بائبل سیلاب سے پہلے انسان کی تاریک عکاسی کرتی ہے۔
’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
II۔ دوسری بات، سیلاب کے بعد انسان کی بالکل یہی حالت تھی۔
اِس بہت بڑی تباہی سے انسان میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ سیلاب سے پہلے، خُداوند نے انسان پر نظر ڈالی اور دیکھا
’’اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
اور سیلاب کے بعد خُداوند نے کہا،
’’آدمی کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش 8:21).
لہٰذا، واحد اضافی خیال یہ ہے کہ انسان کے دِل کی بُری فطرت بچپن ہی سے ہوتی ہے، ’’اُس کی کم سنی ہی سے۔‘‘ بائبل کہتی ہے،
’’شریر پیدائش ہی سے گمراہ ہو جاتے ہیں‘‘ (زبور 58:3).
’’اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
’’آدمی کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (پیدائش 8:21).
’’اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خدا کی دی ہُوئی زندگی میں اُن کا کوئی حِصہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:18).
لوتھر نے کہا، ’’یہ قرارداد کسی کو برّی الذّمہ قرار نہیں دیتی، اُن محبِ وطنوں کو بھی نہیں جو ابھی ابھی سیلاب سے بچ کر نکلے تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی فطرت بِگڑ چکی ہے۔ درجنوں خلاف ورزیوں کے علاوہ، اِس سے بھی بدتر ہے۔ دِل کے باطنی گناہ بدترین ہیں۔ انسان کی فطرت مسخ ہو چکی ہے۔ ایک رُجحان شاید بدل جائے (اِلزاماً مسیحی تربیت کے ذریعے سے)۔‘‘ ایک رُجحان بدل جائے گا۔ لیکن دِل کا ہر خیال تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اِس کا پاک صاف کیا جانا چاہیے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے حمدوثنا کے گیتوں کے مصنف جوزف ہارٹ Joseph Hart نے انسان کے بارے میں ’’گنہگاروں کی بنیاد؛ ایک ضدّی ریوڑ، ایک باغی نسل‘‘ کی حیثیت سے بات کی تھی (آؤ اے تمام خُدا کے چُنیدہ مقدسوں Come All Ye Chosen Saints of God‘‘ شاعر جوزف ہارٹ، 1712۔1768)۔
18ویں صدی کے عظیم مبشر جارج وائٹ فیلڈ نے کہا کہ کوئی بھی اُس وقت تک سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ قائل نہیں ہو جاتا کہ وہ ایک مکمل طور سے اخلاقی زوال میں گِرا ہوا گنہگار ہے، جو اُسے محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے،
’’ہائے میں کیسا بدبخت آدمی ہُوں! اِس مَوت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24).
بغیر باطنی مایوسی کے ایک احساس کے، آپ مسیح میں سکون نہیں ڈھونڈ پائیں گے، یا اُس کے تمام کفاراتی خون کے وسیلے سے پاکیزگی نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔
اور آپ کی جان کے ساتھ یہ کیسا ہے؟ کیا آپ مسیح میں نجات کی پیشکش کی جانب سردمہر ہیں؟ اگر آپ ہیں، تو کیا یہ اِس لیے نہیں ہے کہ آپ نے اپنے دِل کی اُس ہولناک فطرت کو محسوس نہیں کیا؟ کیا یہ اِس لیے نہیں ہے کیونکہ آپ یہ احساس کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں کہ آپ ایک ناپاک شے ہیں، کہ اپنے دِل کی گہرائی میں یسوع کی کسی بھی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے؟
اگر آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا دِل مسخ شُدہ اور بُرا تھا تو آپ مسیح کی جانب دوڑ پڑیں گے، بغیر کوئی سوال پوچھے، اُس یسوع کے پاس کیسے آنا ہوتا ہے کے بارے میں کسی جواب کی تلاش کے بغیر۔ آپ یسوع کی جانب دوڑ پڑیں گے، اُس کے قدموں میں گر جائیں گے، اور اُس سے اپنی تباہ جان کو نجات دلانے کے لیے التجا کریں گے، گناہ کے جواز کی وجہ سے اِس قدر زخمی اور مُردہ۔
وہ صلیب پر آپ کے لیے قربان ہو گیا، آپ کے گناہ کا ناگوار کفارہ ادا کرنے کے لیے! وہ آپ کی جان کو زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے زندہ ہو گیا، برگشتگی کی وجہ سے تباہ حال اور مسخ شُدہ! اگر آپ اپنی تھوڑی سی بھی بدکار حالت کو محسوس کرتے ہیں، تو پھر یسوع کی جانب دوڑیں، پھر اُس کی بانہوں میں ڈوب جائیں، اور یسوع آپ کے گناہ پاک صاف کر دے گا۔ اگر آپ اپنے گناہ کو ذرا سا بھی محسوس کرتے ہیں، تو یسوع کے پاس فوراً چلے آئیں! ’’سُرخِ مائل سیلاب میں ابھی ڈبکی لگائیں جو برف کی مانند سفید شفاف صاف کر دیتا ہے!‘‘ یسوع پر ابھی بھروسہ کریں اور اپنے بُرے دِل سے نجات پائیں!
کیونکہ یسوع نے اپنا قیمتی خون بہایا تھا،
فراوانی سے نعمتیں عطا کرنے کے لیے؛
سُرخی مائل سیلاب میں ابھی ڈبکی لگائیں
جو برف کی مانند سفید شفاف صاف کر دیتا ہے۔
صرف اُسی پر بھروسہ کریں، صرف اُسی پر بھروسہ کریں،
صرف اُسی پر ابھی بھروسہ کریں۔
وہ آپ کو بچائے گا، وہ آپ کو بچائے گا،
وہ ابھی آپ کو بچائے گا۔
(’’صرف اُسی پر بھروسہ کریں Only Trust Him‘‘ شاعر جان ایچ. سٹاکٹنJohn H. Stockton، 1813۔1877).
ڈاکٹر ہائیمرز، مہربانی سے آئیں اور اِس عبادت کا اختتام کریں۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بیجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’صرف اُسی پر بھروسہ کریں Only Trust Him‘‘
(شاعر جان ایچ. سٹاکٹنJohn H. Stockton، 1813۔1877).
لُبِ لُباب انسانی دِل کے بارے میں لوتھر کا نظریہ (پروٹسٹنٹ مذہبی سُدھار کی 500 ویں سالگرہ پر تبلیغ کیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر۔ آر۔ ایل۔ ہائیمرز جونئیر اور مسٹر جان سموئیل کیگن کی جانب سے تحریر کیا گیا ایک واعظ ’’آدمی کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (افسیوں2:5)
I. پہلی بات، سیلاب سے پہلے انسان کی یہی حالت تھی، پیدائش6:5؛
II. دوسری بات، سیلاب کے بعد انسان کی بالکل یہی حالت تھی، |