اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
حیاتِ نو کوئی چُننے کا عمل نہیں ہے!REVIVAL IS NO OPTION! ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’مگر مجھے تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی ہے۔ پس یاد کر کہ تُو کتنی بلندی سے گرا ہے۔ توبہ کر اور پہلے کی طرح کام کر۔ اگر تُو توبہ نہ کرے گا تو میں تیرے پاس جلد ہی آ کر تیرے چراغدان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دُوں گا‘‘ (مکاشفہ 2:4،5). |
افسیوں کی کلیسیا ایک عظیم کلیسیا تھی۔ یہ ایک اچھی کلیسیا تھی۔ یہ ایک بنیادی کلیسیا تھی جو جھوٹے عقائد سے نفرت کرتی تھی لیکن اِس میں ایک نقص تھا۔ یہ کلیسیا مطمئن ہو چکی تھی۔ عمارت کا خرچہ ادا کیا جا چکا تھا۔ لوگ بھلے چنگے حالات میں آ چکے تھے۔ اُن کے پاس وافر پیسہ تھا۔ اُنہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن مسیح نے کہا اُس کے پاس اُن کے خلاف ایک بات تھی۔ اُنہوں نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی تھی۔ اُس نے اُنہیں توبہ کرنے کے لیے بُلایا تھا۔ اُس نے اُنہیں واپس اُسی راہ پر چلنے کے لیے بُلایا اور اُس محبت اور جوش کو ڈھونڈنے کے لیے کہا جو وہ گذشتہ سالوں میں کھو چکے تھے۔ اگر وہ انکار کرتے، تو مسیح نے اُنہیں آنے والے انصاف کے بارے میں خبردار کیا۔ وہ گرجا گھر ایک چراغدان کی مانند تھا۔ اُس نے ایک تاریک ہوتی ہوئی دُنیا میں نور مہیا کیا تھا۔ اِس کے باوجود، اگر وہ کلیسیا توبہ نہ کرتی، تو مسیح نے کہا، ’’اگر تُو توبہ نہ کرے گا تو میں تیرے پاس جلد ہی آ کر تیرے چراغدان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دُوں گا۔‘‘ اور پھر مسیح نے کہا، ’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ پاک روح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘ (مکاشفہ2:7)۔ لیکن کلیسیا نے توبہ نہ کی اِس نے حیاتِ نو کا اِسے بچانے کے لیے کافی حد تک تجربہ نہیں کیا۔ کسی زمانے کی یہ عظیم کلیسیا پہلی صدی کے اختتام کے قریب شہنشاہ ڈومیشئین Emperor Domitian کے تحت روم کی فوجوں کے ذریعے سے تباہ ہو گئی۔ ایک اور گرجا گھر کی عمارت کی تعمیر کی گئی لیکن بالاآخر تمام شہر کو تباہ کر دیا گیا تھا۔
کیا مجھے ہمارے گرجا گھر کے ساتھ اِس کا اِطلاق کرنے کی ضرورت ہے؟ ابتدائی دِنوں میں، افسیوں کی کلیسیا مسیحی محبت اور زندگی سے بھرپور تھی۔ یہ ایک نئی زندگی پائی ہوئی اور محبت کرنے والی کلیسیا تھی۔ یہ جیسا ہمارا گرجا گھر کبھی ہوا کرتا تھا ویسی تھی۔ ہمارے گرجا گھر کی تقسیم ہوئی تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ وابستگی اور فرض شناسی پر تقسیم ہوا کرتے تھے۔ وہ جنہوں نے چھوڑا اِس لیے چھوڑا کیونکہ وہ سنجیدہ مسیحی نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہر مرتبہ جب میں نے کوشش کی کہ وہ واپس مسیح کی محبت کی جانب چلے جائیں، اِن گروہوں نے چھوڑ دیا۔ اُنہوں نے اِس لیے کبھی بھی نہیں چھوڑا کہ میں جھوٹے عقائد کی منادی کر رہا تھا۔ اُنہوں نے ہمیشہ چھوڑا کیونکہ وہ حیاتِ نو نہیں لانا چاہتے تھے۔ وہ یسوع کے شاگرد بننا نہیں چاہتے تھے۔ رچرڈ اولیواس Richard Olivas بدترین تقسیم کا سبب بنا تھا۔ اُس نے کہا کہ عظیم مقصد صرف رسولوں کے لیے تھا، کہ کسی اور کو بشروں کو جیتنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اُس کی پہلی شکایت تھی۔ وہ واقعی میں یسوع کےالفاظ ’’پہلے خُدا کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کو تلاش کرو‘‘ سے نفرت کرتا تھا (متی6:33)۔ اُس نے لوگوں کو خدا کی بادشاہی کو تلاش کرنے کے بجائے کامیابی اور پیسے ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ میں نے لوگوں میں اُن کی زندگیوں کو بشروں کو جیتنے اور دعا مانگتے رہنے کو وسیع کرتے رہنے کی منادی کو جاری رکھا۔ تین سو لوگوں نے اُس کی پیروی کی۔ صرف تقریبا15 لوگ رہ گئے تھے۔ ہمارے لوگوں نے مسیح کو مرکزی رکھا اور اُس کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیاب رہے! انتہائی بہت زیادہ! تقریبا ہمارے تمام بچوں نے کالج سے گریجوایشن کی۔ ہمارے گرجا گھر میں زیادہ تر اصلی لوگوں کے پاس اپنے گھر یا کواٹر ہیں۔ اُس کے لوگ چاروں اطراف میں بکھر گئے۔ ہمارے ہاں انتہائی کم طلاقیں ہوئی۔ اُس لیے لوگ ایک دوسرے کو طلاق دینے کے لیے انتظار بھی نہیں کر پاتے تھے! لہٰذا کون بہتر نکلا؟ یقینی طور پر، ہم نے اِس عمارت کی ادائیگی کے لیے تکلیف سہی۔ لیکن اِس نے ہمیں یسوع کے مضبوط شاگرد بننے میں مدد دی۔ اُس کا چھوٹا سا گروہ جلد ہی نئے ایونجیلیکلز کا کمزور گروہ بن گیا۔ ہم نے یسوع کی خاطر تھوڑی سی تکلیف سہی اور بابرکت ہوئے۔ وہ دُنیاداری اور پیسے کے پیچھے بھاگے اور شیطان کے ذریعے سے تباہ و برباد ہو گئے! یسوع نے کہا، ’’تم خُدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے‘‘ (متی6:24)۔ خُدا دُرست تھا اور وہ غلط تھے! ’’میں نے یسوع کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے I Have Decided to Follow Jesus۔‘‘ کھڑے ہو جائیں اور اِسے گائیں!
میں نے یسوع کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؛
میں نے یسوع کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؛
میں نے یسوع کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؛
واپسی ممکن نہیں، واپسی ممکن نہیں۔
صلیب میرے سامنے، دُنیا میرے پیچھے۔
صلیب میرے سامنے، دُنیا میرے پیچھے۔
صلیب میرے سامنے، دُنیا میرے پیچھے۔
واپسی ممکن نہیں، واپسی ممکن نہیں۔
(’’میں نے یسوع کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہےI Have Decided to Follow Jesus،
‘‘ ایک مسیحیت میں تبدیل ہوئے ایک ہندو سے منسوب، 19ویں صدی)۔
آمین! آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
لیکن افسیوں میں کلیسیا کے ساتھ کچھ ناگوار رونما ہوا۔ یسوع نے اُن سے کہا،
’’مگر مجھے تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی ہے‘‘ (مکاشفہ 2:4).
اُس نے یہ نہیں کہا وہ اپنی پہلی محبت سے ’’دور‘‘ ہو گئے۔ اُس نے کہا اُنہوں نے اپنی پہلی محبت ’’چھوڑ‘‘ دی۔
’’مگر مجھے تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی ہے‘‘ (مکاشفہ 2:4).
ڈاکٹر جان ایف۔ والوورد Dr. John F. Walvoord نے وجہ پیش کی۔ اُنہوں نے کہا،
’’افسیوں میں اب کلیسیا مسیحیوں کی دوسری نسل پر تھی۔‘‘
کیا مجھے مذید کچھ اور کہنے کی ضرورت ہے؟ ’’وہ کلیسیا اب اپنی دوسری نسل پر تھی۔‘‘ یہ بات سب کچھ کہہ دیتی ہے! پھر ڈاکٹر والوورد نے کہا، ’’خُدا کی وہ محبت جو پہلی نسل کی خصوصیت تھی وہ غائب تھی‘‘ (جان ایف۔ والوورد، ٹی ایچ۔ ڈی۔ John F. Walvoord, Th.D.، یسوع مسیح کا مکاشفہ The Revelation of Jesus Christ، موڈی پریس، 1973، صفحہ 56)۔
نوجوان لوگو، آپ ہمارے گرجا گھر کی دوسری نسل ہیں! آپ اُن ’’39‘‘ لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے اِس گرجا گھر کی عمارت کو بچایا۔ وہ پہلی نسل ہیں، ناکہ آپ! ڈاکٹر چعین Dr. Chan نے بتایا کیسے پہلی نسل، ’’اُن 39‘‘ نے مسیح محبت کی اور اُس کی خدمت کی۔ وہ ہمارے گرجا گھر میں ایک نوعمر بالغ کی حیثیت سے آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا،
میں نے جب مسیح پر بھروسہ کیا میری زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی، میرا گناہ اُس کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہو گیا، اور گرجا گھر اب میرا دوسرا گھر تھا! میں نے فوراً اپنی زندگی کو مسیح کے لیے کام کرنے کی خاطر حوالے کر دیا۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے تسلسل کے ساتھ مسیح کے شاگرد ہونے پر منادی کو جاری رکھا، [مسیح] اور گرجا گھر کو پہلے درجے پر رکھنا، خود کو انکار کرنا، اور بشروں کو جیتنا۔ اُنہوں نے ’’اینٹی نومیئین اِزم Antinomianism‘‘ کے خلاف منادی کی – ایک بے شریعت کا ’’مسیحی‘‘ ہونا۔ میں جانتا تھا اُنہوں نے جس بات کی منادی کی تھی سچی تھی۔ وہ میرے لیے تھا!... ہم نے اکٹھے دعائیں مانگیں اور گیت گائے۔ میرے پاس اِن لمحات کی شاندار یادیں ہیں۔ ہم ہفتے میں بے شمار مرتبہ انجیلی بشارت کیا کرتے۔ ہم نے ساری کی ساری اجتماع گاہ کو بھر دیا تھا۔ میں جوڈی کیگن Judy Cagan، میلیسا سینڈرزMelissa Sanders اور ونی یواینگ Winnie Yeung کا گرجا گھر میں لایا، جو میری بیوی بنیں۔ خُدا نے اُنہیں UCLA کیمپس سے انجیلی بشارت کے ذریعے سے گرجا گھر میں لانے میں مدد کی تھی… مسز ہائیمرز نے [ایک نوعمر لڑکی کی حیثیت سے] گرجا گھر کی مذہبی خدمات کے لیے اپنی زندگی کو حوالے کر دیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئیں۔ میں اُنہیں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پہلی مرتبہ ہمارے گرجا گھر میں آئیں ہم دونوں نوجوان لوگ تھے۔ اُن کے پاس اُس وقت بھی تھی اور مسیح کے لیے شدید محبت جاری رکھنا اب بھی ہے اور گمراہ لوگوں کو جیتنے کا جنون اب بھی ہے… اُنہوں نے یہاں تک کہ اُن کے سکول سے گریجوایشن کرنے سے پہلے تک ہمارے گرجا گھر میں دو لوگوں جتنا کام کرتے رہنا جاری رکھا… اب وہ مکمل طور پر نوجوان چینی اور دوسری ایشیائی لڑکیوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں… وہ سب سے زیادہ مؤثر دو تہذیبوں کے ساتھ نمٹنے والی مشنری ہیں اُن جیسا میں نے کسی کو بھی نہیں دیکھا (تمام تر مخالفت کے خلاف Against All Odds)
علیانہ حال ہی میں بیمار رہ چکی ہیں، لیکن اُنہوں نے کبھی بھی دعائیہ اِجلاس یا بدھ اور جمعرات کی شام کو فون کرنے کی ذمہ داری کو مِس نہیں کیا – گمراہ لوگوں کو خوشخبری سُننے کے لیے گرجا گھر میں بُلانے کا کام۔ ایک اور عظیم خاتون مسز سلازار Mrs. Salazar ہیں۔ وہ دُکھتے زخموں پر مرہم رکھنے والی مدر ٹریسا کی مانند ہیں! وہ ایک بپٹسٹ مقدسہ ہیں!
نوجوان لوگو، ہمارے گرجا گھر کو سرنگوں مت ہونے دیں جیسا افسیوں میں دوسری نسل نے کیا تھا! آپ ہمارے گرجا گھر کا مستقبل ہیں! مہربانی سے – یسوع کے لیے اپنی پہلی محبت کو مت چھوڑیں!
اب، پھر، مکاشفہ2:3 پر نظر ڈالیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل کے صفحہ 1332 پر ہے۔
’’اور تُو میرے نام کی خاطر مصیبت پر مصیبت اُٹھانے کے باوجود نہیں تھکا بلکہ ثابت قدم رہا‘‘ (مکاشفہ 2:3).
دورِ حاضرہ کا ایک ترجمہ اِس کو یوں بیان کرتا ہے، ’’تم میرے نام کی خاطر ثابت قدم رہے اور سختیاں برداشت کیں اور اُکتائے نہیں‘‘ (NIV)۔ غور کریں کہ یہ اُس بات کا مشاہدہ کرتا ہے جو وہ ماضی میں تھے – تو نے برداشت کیا۔ تم نے سختیاں برداشت کیں، تم اُکتائے نہیں۔ یہ اُس طریقے کے بارے میں وضاحت ہے جو اُن کا ماضی میں تھا۔
ڈاکٹر والوورد نے کہا، ’’گرجا گھر اب مسیحیوں کی دوسری نسل یا پُشت میں ہے… خُدا کی وہ محبت جو پہلی نسل کی خصوصیت تھی اب غائب تھی۔ دِل کا یہ سرد ہونا… روحانی [جوش و جذبے میں کمی] کی ایک خطرناک پیش قدمی ہے جو بعد میں اُس اہم [گرجا گھر] میں تمام مسیحی گواہی کو مٹاتی تھی۔ ماضی کلیسیا کی تاریخ میں ہمیشہ یہ اِسی طرح سے رہا ہے: پہلے روحانی محبت کا سرد ہونا، پھر خدا کی محبت کا دنیا کی چیزوں سے محبت کے ساتھ بدل جانا… اِس کے بعد ایمان سے رخصتی اور مؤثر گواہی کا غائب ہو جانا ہوتا ہے‘‘ (والوورد، ibid.).
میں قائل ہو چکا ہوں کہ وہ ہمارے گرجا گھر میں رونما ہو رہا تھا۔ جتنے ہم پہلی نسل میں تھے اُس کے مقابلے میں ہمارے گرجا گھر کی دوسری نسل کہیں زیادہ سرد مہر اور جوش و جذبے سے خالی ہے۔ ڈاکٹر چعینDr. Chan، مسٹر گریفتھ Mr. Griffith، ڈاکٹر جوڈی کیگن Dr. Judy Cagan، مسز ہائیمرز Mrs. Hymers – وہ خالص لوگ جو ہمارے گرجا گھر میں 1970 کی دہائی میں آئے – وہ زندہ تھے، جوش کے ساتھ بھرے ہوئے، محبت سے لبریز اور گہری رفاقت والے – اور مسیح کے ساتھ شدید وابستہ۔ دوسرے لفظوں میں، بہت سی باتیں افسیوں کی کلیسیا کے پہلی نسل والی مسیحیوں کی مانند تھیں۔
لیکن یہ گرمجوشی اور جذبہ گرجا گھر کے زیادہ تر بچوں میں منتقل نہیں ہوا تھا – وہ جنہوں نے دوسری نسل میں پرورش پائی تھی۔ وہ دوسری نسل اپنی تمام زندگی یہیں پر رہی تھی۔ وہ اِظہارات سے گزرے تھے۔ وہ دعائیہ اِجلاسوں میں آئے تھے، لیکن اُنہوں نے یا تو دعا نہیں مانگی یا پھر اُںہوں نے جوش کے بغیر خشک دعائیں کی۔ ’’اُن میں سے زیادہ تر کی زندگیوں میں خُدا کی وہ محبت جو پہلی نسل کی خصوصیت تھی غائب تھی۔‘‘ صرف جان کیگن نمایاں رہے اور پہلی نسل کی مانند تھے۔ یہ اِس لیے ہوا تھا کیونکہ اُن کی زندگی کو بدل ڈالنے والی تبدیلی تھی جس کا نتیجہ اُس قسم کی محبت اور جوش تھا جو پرانی نسل کے پاس تھی۔ اگر وہ ایک اتھلیٹ اور ایک قدرتی رہنما نہ رہا ہوتا، تو وہ بھی گرجا گھر کے دوسرے سرد بچوں میں گم ہو چکا ہوتا۔ اُس کی عمر کے کچھ بچوں نے گرجا گھر کو چھوڑ دیا۔ دوسرے سردمہر اور کھلنڈرے نکلے۔ اُن میں سے چند ایک اب بھی ویسے ہی ہیں۔ یہاں تک کہ خود جان بھی کبھی کبھار پریشان ہو جایا کرتا تھا، تعجب کرتا تھا کیوں اُس کی نسل اِس قدر سردمہر اور دُنیاوی ہے۔
اِس موقع پر میں نے احساس کرنا شروع کر دیا کہ ہمیں حیاتِ نو لانا چاہیے۔ دوسری نسل کبھی بھی ہمارے گرجا گھر کو زندگی اور محبت اور قوت سے لبریز نہیں رکھ سکتی جب تک کہ وہ ایک قوت سے بھرپور تبدیلی میں مسیح کے ساتھ ایک حقیقی تجربہ کے وسیلے سے ایک دوسری ماہیت میں تبدیل نہیں ہو جاتے۔ لیکن زیادہ تر دوسری نسل نے یا تو بغاوت کی اور گرجا گھر کو چھوڑ گئے یا ایک سرد اور عمومی طور پر نسل انسانی سے نفرت کرنے والی ہستی بن گئے۔ اُن جیسوں میں سے کچھ نے مسیح کو مسترد کر دیا۔ بے شک وہ ٹھہرے رہے لیکن اُنہوں نے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے انکار کر دیا۔ اُن میں سے کچھ تو یہاں تک کہ سوچنا شروع کر دیا کہ مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی حقیقی نہیں تھی۔ دوسروں نے کسی اندرونی تبدیلی کا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مسیح حقیقی تھا تقاضا کیا۔
ایک ایک کر کے ہم نے اُن کا سامنا کیا جب تک کہ وہ سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہ ہوئے یا گرجا گھر چھوڑ کا چلے نہ گئے۔ بالاآخر اُن میں سے اکثریت مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئی – بے شک اُنہیں پہلی والی نسل کی مانند بننے کے لیے شدید جدوجہد کرنی پڑی۔ ایسا کرنے کے لیے اُنہیں ’’یاد رکھنا پڑا وہ کتنی بُلندی سے گرے‘‘ تھے۔ اُنہیں بھی جان کیگن کی مانند احساس کرنا پڑا تھا کہ اُن کا ایمان ’’اُن اُنتالیس‘‘ کے ایمان کے مقابلے میں مُردہ تھا – اُنکے والدین اور پرانی نسل۔ دوسری بات، اُنہیں توبہ کرنا پڑی تھی اور پہلے والے کام۔‘‘ اُنہیں دل و دماغ کو تبدیل کرنا ہی پڑا تھا۔ اُنہیں واپس جانا ہی پڑا تھا اور ایک حقیقی مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی اپنانا پڑا تھا (وہ پہلے والے کام)۔ خُدا کا شکر ہے کہ اُن میں سے کچھ نے کیے – جیسے کہ ایمی Emi اور آیاکو Ayako، جیسے فلپس Philip اور تموتھیTimothy، جیسے ویزلی Wesley اور نوح Noah – اور کچھ دوسرے۔
پھر خُدا نے ہمارے درمیان حیاتِ نو کو نازل کرنا شروع کر دیا! خُدا کا شکر ہو، وہ بالاآخر ہم پر اِتنا بھروسہ کرنے لگا کہ ہم پر اپنا پاک روح نازل کرتا۔ آخری چند مہینوں میں تقربیا 20 نئے لوگوں نے شمولیت کی اور نجات پائی۔ یہ اِجلاس قائم رہنا جاری رہے کہ اِن نوجوان لوگوں کو ایمان میں مضبوط کیا جائے!
اب جان کیگن نے کہا کہ ’’حیاتِ نو پہیلی کا اگلا حصہ ہے۔‘‘ ہمارے گرجا گھر کو بار بار حیاتِ نو پر زور دینا چاہیے ورنہ ہم جوش و جذبے والے مسیح میں تبدیل ہوئے لوگوں کو نہیں دیکھ پائیں گے جیسے کہ ہمارے گرجا گھر کی اصلی والے ممبرز تھے۔ اِس بات کی افسیوں کی کلیسیا میں موجود لوگوں کو بھی ضرورت تھی – اور ہمارے گرجا گھر کو اِس کی آج ضرورت ہے۔ میں اِس کو ’’بقاء کے لیے حیاتِ نو‘‘ پکارتا ہوں!
بھائیوں اور بہنوں، ہمیں اپنے گناہوں کا بارہا اعتراف کرنا چاہیے اور خُدا کی ہمارے درمیان حیاتِ نو کی ایک لہر کے بعد دوسری لہر میں زیادہ سے زیادہ حضوری کے نازل ہونے کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔ ایسا کریں! ایسا کریں! ایسا کریں! کھڑے ہو جائیں اور حمدوثنا کا گیت نمبر15 ’’میں اُس کے لیے جیئوں گاI’ll Live for Him‘‘ گائیں۔
میری زندگی، میری محبت میں تجھے سونپتا ہوں، تو خُدا کا برّہ جو میرے لیے مرا؛
ہائے کاش میں کبھی وفادار بھی رہا ہوتا، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو جائے گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اب یقین کرتا ہوں کہ تو ہی نے پائی تھی، کیونکہ تو نے موت قبول کی کہ میں جی پاؤں؛
اور اب میں اِسی وقت سے تجھ میں بھروسہ کرتا ہوں، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو جائے گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
ہائے تو جو کلوری پر مرا تھا، میری جان بچانے اور مجھے آزادی دلانے کے لیے،
میں اپنی زندگی تجھ پر ہی نچھاور کر دوں گا، میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو جائے گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
(’’میں اُس کے لیے جیئوں گا I’ll Live for Him‘‘ شاعر رالف ای۔ ہڈسن Ralph E. Hudson، 1843۔1901؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔
اب نمبر 19 گائیں، ’’محبت یہاں ہےHere is Love۔‘‘
محبت یہاں ہے، سمندر کی طرح وسیع، سیلاب کی مانند رحمدلانہ محبت،
جب زندگی کے شہزادے نے، ہمارا فِدیہ، ہمارے لیے اپنے قیمتی خون کو بہایا۔
کون اُس کی محبت کو یاد نہیں کرے گا؟ کون اُس کی ستائش کو گانے سے رُک سکتا ہے؟
اُس کو کبھی بھی بُھلایا نہیں جا سکتا، جنت کے دائمی دِنوں میں۔
محبت کے پہاڑ پر، گہرے اور چوڑے چشمے اُبل پڑے؛
خُدا کے رحم کے سیلابی پھاٹکوں میں سے ایک بہت بڑا اور شفیق جوار بھاٹا بہا۔
فصل اور محبت، بہت بڑے دریاؤں کی مانند، بالا سے مسلسل بہتے رہے۔
اور جنت کے امن اور کام انصاف نے محبت میں مجرم دُنیا کو چوما۔
مجھے اپنی پوری محبت کو قبول کر لینے دے، تیری محبت، ہمیشہ میرے تمام دِنوں میں؛
مجھے صرف تیری بادشاہت کو ڈھونڈنے دے اور میری زندگی کو تیری ستائش ہو لینے دے؛
تنہا تو ہی میرا جلال ہوگا، دُنیا میں کچھ اور مَیں نہیں دیکھتا۔
تو نے مجھے پاک صاف اور مُتبرک کیا، تو نے خود مجھے آزاد کروایا۔
تیری سچائی میں تو ہی میری رہنمائی کرتا ہے اپنے روح کے ذریعہ اپنے کلام کے ذریعے؛
اور تیرے فضل سےمیری ضرورت پوری ہوتی ہے، جب میں میرے خُداوند تجھ میں بھروسہ کرتا ہوں۔
تیری لبریزی سے جو تو اُنڈیلتا ہے اپنی شدید محبت اور قوت مجھ پر،
بغیر ناپے، بھرپور اور لامحدود، میرے دِل کو تیری جانب کھینچتی ہے۔
(’’محبت یہاں ہے، سمندر کی طرح وسیع Here is Love, Vast as the Ocean‘‘ شاعر ولیم ریس William Rees، 1802۔1883)۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا اور خیرخواہی میں ہماری رہنمائی کریں۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کنکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا:
’’یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتا ہوںJesus is the Sweetest Name I Know‘‘
(شاعر لیلا لانگ Lela Long، 1924)