اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
خُدا کے روح کا افسردہ کر دینے والا کامTHE WITHERING WORK OF GOD’S SPIRIT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
آزاد خیال سیمنری میں اُنہوں نے ہمیں تعلیم دی تھی کہ اشعیا دو تھے۔ لیکن وہ غلط تھے۔ پہلے 39 باب گناہوں اور لوگوں پر آنے والی اسیری کی بات کرتے ہیں۔ لیکن 40 ویں باب سے لیکر اختتام تک، نبی اُن کی مخلصی کے بارے میں بات کرتا ہے۔ دوسرا باب مسیح کی اذیتوں کے ذریعے سے نجات کے بارے میں بات کرتا ہے۔
’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر[پُکار]۔ اور اُس نے کہا، میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں اور اُن کی تمام رونقیں [دلکشیاں، NASV؛ اُن کا جلال، NIV] پھولوں کی مانند ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں کیونکہ خُداوند کا روح اُن پر چلتا ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول جھڑ جاتے ہیں، لیکن ہمارے خُداوند کا کلام ابد تک قائم رہتا ہے‘‘ (اشعیا40:6۔8)۔
’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر۔‘‘ وہ کونسی آواز تھی جو نبی کے ساتھ ہمکلام ہوئی تھی؟ وہ ’’خُداوند کے مُنہ سے فرمایا گیا‘‘ تھا، جس کے بارے میں پانچویں آیت میں بات کی گئی ہے۔ ’’منادی [پُکار]cry‘‘ کے لیے عبرانی میں لفظ qârâ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’زور سے پُکارنا – ایک شخص کو ملنے پر [سامنا کرنا]‘‘ (Strong# 7121)۔ یہی عبرانی لفظ ہے جو اشعیا58:1 میں استعمال کیا گیا تھا،
’’ زور سے چِلّا، بالکل نہ جھجک، نرسنگے کی مانند اپنی آواز بُلند کر اور میرے لوگوں پر اُن کی خطا اور یعقوب کے گھرانے پر اُن کے گناہ ظاہر کر دے‘‘ (اشعیا58:1)۔
اِس ہی طرح سے یوحنا اصطباغی نے منادی کی تھی۔ یوحنا اصطباغی نے اشیعا40:3 کا حوالہ دیا تھا۔ اُس نے کہا، ’’میں بیابان میں پکارنے والے کی آواز ہوں، خُداوند کے لیے راہ تیار کرو، جیسا اشعیا نبی نے کہا تھا‘‘ (یوحنا1:23؛ اشعیا40:3)۔ وہ یونانی لفظ جس نے لفظ ’’پکارنےcrying‘‘ کا یوحنا1:23 میں ترجمہ کیا bǒaō ہے۔ اِس کا مطلب ’’چِیخنا… زور سے پُکارنا‘‘ ہوتا ہے (Strong)۔ عبرانی لفظ اور یونانی لفظ کہتے ہیں یہ ’’بُلند آواز سے چِیخنا‘‘ ہوتا ہے (اشعیا58:1)۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ مبلغ کو بُلند آواز میں بات کرنی چاہیے جیسے کہ وہ خُدا کا ترجمان ہوتا ہے... ’’چیختے ہوئے اور بُلند آواز میں پکارتے ہوئے‘‘ اُن کے ساتھ جو گمراہ ہیں اور پریشان ہیں! مبلغین کو اپنے سُننے والوں کو خُدا کا کلام بُلند آواز میں سُنانا چاہیے۔ افسوس کے ساتھ، آج یہ تبلیغ کا مشہور طریقہ کار نہیں ہے۔ آج تبلیغ میں بائبل کے بنیادی اہم اصول کی نافرمانی ہوتی ہے۔ دورِ حاضرہ کے مذہبی خادمین ’’خاموش تبلیغ کرتے ہیں اور تدریس میں پڑ چکے‘‘ ہیں، جیسا کہ پرانے زمانے کے لوگ اِس کو کہتے ہیں۔ دورِ حاضرہ کے یہ مذہبی خادمین خُدا کی فرمانبرداری نہیں کرتے۔ خُدا نے اشعیا سے کہا تھا، ’’زور سے چِلّا، اور بالکل نہ جھجک۔‘‘ دورِحاضرہ کی مبلغین یسوع کی مثال کی پیروی نہیں کرتے۔ یسوع ’’ہیکل میں… چِلّا اُٹھا تھا (یوحنا7:28)، نا ہی یہ یسوع کی مانند ہیں جب وہ یوحنا7:37 میں ’’کھڑا ہوا اور چِلّایا‘‘ تھا۔ نا ہی یہ پینتیکوست کے روز پطرس کی مانند ہیں۔ اُس نے ’’اپنی آواز کو بُلند کیا‘‘ تھا اور خُدا کے کلام کو جو اُسے پیش کیا گیا تھا چیخ کر سُنایا تھا (اعمال2:14)۔ ڈاکٹر جان گِل نے کہا، ’’اور اُس نے اپنی آواز کو بُلند کیا، تاکہ اُس کو سارا ہجوم سُن پائے… اِس کے ساتھ ساتھ اپنے جوش اور جذبے کو دکھائے، روح اور ذہن کے حوصلے کو دکھائے؛ کہ آسمان سے روح کے ساتھ بخشے جانے کو ظاہر کرے، وہ لوگوں میں بے خوف تھا‘‘ (نئے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the New Testament؛ اعمال2:14 پر غور طلب بات)۔ اِس لیے، مجھے دہرا دینا چاہیے، آج ہماری واعظ گاہوں میں خُدا کے بنیادی اہم اصول کی نافرمانی ہوتی ہے، تبلیغ کے انتہائی طریقے اور انداز میں ہولناک نافرمانی ہوتی ہے۔ پولوس رسول نے اِس بات کو آخری ایام میں اِرتداد کی علامت کے طور پر پیش کیا تھا۔ اُس نے کہا، ’’کلام کی منادی کر… ایسا وقت آ رہا ہے کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہیں کریں گے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق بہت سے اُستاد بنا لیں گے تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا معلوم ہو (اپنے کانوں میں گُدگدی کروانا چاہتے ہوں، NASV)‘‘ (2تیموتاؤس4:2، 3)۔ ہمارے زمانے میں ’’تدریس‘‘ مسلسل ہو رہی ہے، مگر تبلیغ کو بُھلایا جا چکا ہے۔ ہم صرف تدریس کو سُنتے ہیں – ’’تدریس‘‘ جو بغیر کسی آگ اور اشد ضرورت کے ہوتی ہے! یہ سب کچھ ہے جو وہ آج کل کی سیمنریوں میں سیکھتے ہیں! مٹی کی مانند خُشک، آیت بہ آیت تدریس! کوئی بھی خوشخبری کا سامنا نہیں کرتا ہے اور کوئی بھی ’’تدریس‘‘ کے ذریعے سے اپنی روحانی نیند سے پریشان نہیں ہوتا ہے۔ آپ بکریوں کو بھیڑیں بننے کی ’’تعلیم‘‘ نہیں دے سکتے! اُنہیں اُن کے گناہ کی بھرپوری اور کاہلی میں سے منادی کے ذریعے سے باہر نکالنا چاہیے! ’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر [پُکار]‘‘(اشعیا40:6)۔ وہ خوشخبری کی منادی کا حقیقی انداز ہے! کچھ بھی نہیں ماسوائے منادی کے جو خُدا کی طرف سے مُردہ دِلوں اور کاہل دماغوں کو تحریک دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا! برائن ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards نے کہا، ’’حیاتِ نو کی منادی میں ایک قدرت اور اختیار ہوتا ہے جو دِل اور ضمیر پر ایک ہتھوڑی کی مانند خُدا کے کلام کی ضرب لگاتا ہے۔ یہ ہے جو آج سراسر ہماری زیادہ تر منادی میں سے غائب ہو چکا ہے۔ وہ لوگ جو حیات نو میں منادی کرتے ہیں ہمیشہ بے خوف اور اشد ضروری ہوتے ہیں‘‘ (حیاتِ نو! خُدا کے ساتھ لبریز لوگ Revival! A People Saturated With God، ایونجیلیکل پریسEvangelical Press، 1997 ایڈیشن، صفحہ 103)۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones بیسویں صدی کے عظیم ترین مبلغین میں سے ایک تھے۔ اُنہوں نے کہا، ’’منادی کیا ہے؟ آگ پر منطق!... یہ آگ پر علمِ الہٰیات ہے۔ اور وہ علمِ اِلہٰیات جس میں آگ نہیں ہوتی ایک خراب علمِ اِلہٰیات ہوتا ہے… منادی وہ علمِ اِلہٰیات ہوتی ہے جو ایک ایسے شخص کے ذریعے سے ہوتی ہے جو دہک رہا ہوتا ہے… میں کہتا ہے وہ شخص جو اِس باتوں پر بغیر چاہت و شدت کے بات کر سکتا ہے اُس کا کسی بھی طور منبر پر ہونے کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ اور اُس کو منبر پر آنے کے لیے کبھی بھی اِجازت دینی بھی نہیں چاہیے‘‘ (منادی اور مبلغین Preaching and Preachers، صفحہ97)۔
پھر اشعیا نے کہا، ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ (اشعیا40:6)۔ ایک نوجوان آدمی نے مجھے بتایا ایک سیمنری کے پروفیسر نے کیا کہا تھا۔ اُس نے کہا تھا کہ واعظوں کا چھ مہینوں کا منصوبہ پہلے ہی سے تیار کر لینا چاہیے۔ اِس قسم کا کام کرنے والے شخص سے میں قطعی طور پر نفرت کرتا ہوں! ایک شخص جو ایسا کرتا ہے کبھی بھی خُدا کے بخشے ہوئے حقیقی واعظ نہیں دے سکتا! یہ ناممکن ہے! سپرجیئن تمام زمانوں کے مبلغین میں سے عظیم ترین تھے۔ اُنہوں نے ایسا کبھی بھی نہیں کیا تھا۔ ایک سچے مبلغ کو اپنے واعظوں کے لیے خُدا سے پوچھنا چاہیے، اور خُدا کا اُنہیں بخشنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔ ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ مجھے اُس پیغام کی منادی کرنی چاہیے جو منادی کرنے کے لیے خُدا نے مجھے بخشا ہوتا ہے۔ کسی نے کہا میں ھٹلر کی مانند منادی کرتا ہوں۔ ایک طرح سے سمجھا جائے تو وہ صحیح تھا۔ ھٹلر شدید جوش کے ساتھ جھوٹ بولا کرتا تھا۔ ہمیں شدید جوش کے ساتھ اُس سچائی کی بات کرنی چاہیے! صرف جذبۂ شوق سے سرشار منادی ہی لوگوں کو عمل کرنے کے لیے مجبور کر سکتی ہے۔ بائبل کی تفاسیر اُنہیں سُلا ڈالتی ہیں! ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’دورِ حاضرہ کی منادی لوگوں کو نجات نہیں دلاتی ہے۔ یہ تو لوگوں کو غصہ تک نہیں دِلاتی، بلکہ اُنہیں بالکل اُسی جگہ پر چھوڑتی ہے جہاں پر وہ تھے، بغیر کسی بھی ذرا سی پریشانی کے۔‘‘ یہ غلط ہے! اُنہیں پریشان کرنے کی ضرورت ہے!
’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر[پُکار]۔ اور اُس نے کہا، میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں اور اُن کی تمام رونقیں [دلکشیاں، NASV؛ اُن کا جلال، NIV] پھولوں کی مانند ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں‘‘ (اشعیا40:6، 8)۔
I۔ پہلی بات، مجھے زندگی کے مختصر ہونے پر چِلّانا [منادی کرنا] چاہیے۔
’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر[پُکار]۔ اور اُس نے کہا، میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں اور اُن کی تمام رونقیں [دلکشیاں، NASV؛ اُن کا جلال، NIV] پھولوں کی مانند ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں‘‘ (اشعیا40:6، 8)۔
زندگی جلد ہی گزر جاتی ہے۔ یہ نہایت ہی جلدی سے ہو جاتا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے آپ کی جوانی ہمیشہ ہی رہے گی – لیکن یہ سُبک رفتاری سے گزر جاتی ہے۔ میں اپنی سوانحِ حیات لکھ رہا ہوں۔ میرے بیٹے رابرٹ نے مجھے یہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں چند ایک ہفتوں ہی میں چھہتر76 برس کا ہو جاؤں گا۔ یوں لگتا ہے جیسے میں چند ایک مہینے ہی پہلے ایک نوجوان شخص تھا! اور ایسا ہی آپ کے ساتھ بھی ہوگا! گرمیوں کا سورج نکلتا ہے۔ گھاس براؤن ہو جاتی ہے۔ پھول مُرجھاتے اور مر جاتے ہیں۔ زندگی چند روزہ ہے، اُڑتی ہوئی، عارضی، مختصرم اور تھوڑی سی بسر کی ہوئی۔ یعقوب رسول نے اِس کے بارے میں بات کی تھی۔ اُس نے کہا،
’’ادنٰی بھائی کو اعلٰی مرتبہ پر فخر کرنا چاہیے: کیونکہ دولتمند جنگلی پھول کی طرح مُرجھا کر رہ جائے گا۔ کیونکہ جوں ہی سورج طلوع ہوتا ہے دھوپ تیز ہونے لگتی ہے، اور وہ پودے کو سُکھا ڈالتی ہے۔ اُس کا پھول جھڑ جاتا ہے اور اُس کی خوبصورتی جاتی رہتی ہے: اِسی طرح دولت مند کی زندگی بھی جاتی رہے گی اور اُس کا کاروبار دھرا رہ جائے گا‘‘ (یعقوب1:10۔11)۔
نہایت کم لوگوں کو وہ نظر آتا ہے۔ وہ واضح بات کا احساس کیے بغیر کام کرتے ہیں اور اِس دُنیا میں ترقی کرنے کے لیے اِدارک کرتے ہیں – یہ اُن کی سوچ کے مقابلے میں بہت ہی جلد ختم ہو جائے گا! سی۔ ٹی۔ سٹڈ C. T. Studd (1860۔1931) یہ بات دیکھنے والے چند ایک دولت مند لوگوں میں سے ایک تھے۔ اُن کو وراثت میں بہت دولت ملی تھی، لیکن اُنہوں نے وہ سب بانٹ دی اور چین میں ایک مشنری کی حیثیت سے چلے گئے – اور بعد میں اور افریقہ کے وسط میں چلے گئے جہاں پر خطرہ تھا۔ اور یہ سی۔ ٹی سٹڈ ہی تھے جنہوں نے کہا،
صرف ایک ہی زندگی،
یہ جلد ہی گزر جائے گی؛
صرف جو مسیح کے لیے کیا ہوگا
باقی رہ جائے گا۔
میں خواہش کرتا ہوں ہر نوجوان شخص سی۔ ٹی۔ سٹڈ کے بارے میں پڑھے، اور اُنہیں اپنے ہیروز میں سے ایک بنائے! اگر صرف آپ اُن کی نظم کی سچائی کو دیکھ پائیں!
صرف ایک ہی زندگی،
یہ جلد ہی گزر جائے گی؛
صرف جو مسیح کے لیے کیا ہوگا
باقی رہ جائے گا۔
یسوع نے کہا،
’’آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے اور اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے میں کیا دے گا؟‘‘ (مرقس8:36، 37)۔
’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر[پُکار]۔ اور اُس نے کہا، میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں اور اُن کی تمام رونقیں [دلکشیاں] پھولوں کی مانند ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں‘‘ (اشعیا40:6، 8)۔
اِس ہی لیے مجھے زندگی کے مختصر ہونے پر اکثر منادی کرنی چاہیے! اور آپ کو اپنی زندگی کے مختصر ہونے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بائبل کہتی ہے، ’’ہمیں صحیح طور سے اپنے دِن گِننا سیکھا، تاکہ ہمارے دِل کو دانائی حاصل ہو‘‘ (زبور90:12)۔
II۔ دوسری بات، مجھے پاک روح کے افسردہ کر دینے والے کام پر منادی کرنی چاہیے۔
اُس لفظ ’’مُرجھانے wither‘‘ کا مطلب سُکڑنا، خشک ہو جانا، اور اپنے تروتازگی کو کھو دینا ہوتا ہے۔ اشعیا40:7 کہتی ہے،
’’گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں کیونکہ خُداوند کا روح اُن پر چلتا ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا40:7)۔
سپرجیئن نے کہا، ’’خُدا کے روح کو، ہوا کی مانند، آپ کی جانوں کے کھیت پر سے گزرنا چاہیے، اور [آپ کی] خوبصورتی کے لیے ایک مُرجھائے ہوئے پھول کا سا سبب بننا چاہیے۔ اُسے [آپ کو] گناہ کا قائل کرنا چاہیے… تاکہ [شاید آپ] دیکھ پائیں [اپنی] برگشتہ فطرت کو جو بذاتِ خود ایک بدکاری ہے، اور کہ ’وہ جو گوشت پوست کے ہیں خُدا کو خوش نہیں کر سکتے۔‘ [کہ شاید ہم محسوس کر پائیں] اُس موت کے فرمان کو جو ہماری پہلی بدنیت حیوانی زندگی پر دیا گیا تھا… صرف بیمار ہی کو طبیب کی ضرورت ہوتی ہے… وہ بیدار گنہگار، جو وہ مانگتا ہے کہ خُدا اُس پر رحم فرمائے، حیرت میں رہ جاتا ہے جب، بجائے اِس کے کہ ایک سُبک رفتار چین ملے، اُس کی جان خُدا کے قہر کے احساس کے ساتھ جھک جاتی ہے… کیونکہ آپ کبھی بھی [مسیح کے خون] کی قدر نہیں کرتے جو ہمیں تمام گناہ سے پاک صاف کرتا ہے اگر آپ کو شروع میں پہلے افسوس کرنے پر مجبور نہ کیا جائے کہ آپ ایک غلیظ چیز ہیں‘‘ (روح کا افسردہ کر دینے والا کام،‘‘ صفحات375، 376)۔
وہ پاک روح کا افسردہ کر ڈالنے والا کام ہے۔ یہ پاک روح کا کام ہوتا ہے جو آپ کی جھوٹی اُمیدوں کو خُشک کر ڈالتا ہے، جو آپ کو آپ کے دِل کی مُردگی دکھاتا ہے، جو آپ کے ذہن میں سے تمام اُمیدوں کو مُرجھا ڈالتا ہے، جو آپ کو دیکھنے پر مجبور کرتا ہے کہ آپ کی واحد حقیقی اُمید مسیح ہی میں ہے، جو آپ کی جگہ پر آپ کو گناہ سے نجات دلانے کے لیے قربان ہو گیا تھا۔ جب پاک روح آپ کی جان کو ’’مُرجھاتا‘‘ ہے، تب آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ آپ کی نام نہاد کہلانے والی ’’نیکی‘‘ ماسوائے غلیظ چھیتڑوں کے کچھ بھی نہیں ہے، کہ اب تک آپ جو کچھ بھی کر چکے ہیں کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کو خُدا کے لیے قابلِ قبول بنا سکتا ہے؛ کہ وہ سب جو آپ کر چکے ہیں آپ کو سزا اور جہنم سے نہیں نجات دلا سکتا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ خُدا آپ کو مسیح میں ایمان لانے کی جھوٹی تبدیلی کو کرنے دیتا ہے۔ وہ شاید آپ کو اُس کے سکون بخشنے سے پہلے ایسی بے شمار مسیح میں ایمان لانے والی جھوٹی تبدیلیوں میں سے گزرنے دیتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ خُدا آپ کو چھوڑ چکا ہے۔ بالکل بھی نہیں! خدا مسیح میں ایمان لانے والی اِن جھوٹی تبدیلیوں کو استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اُنہیں آپ کو چیخنے پر مجبور کرنے کے لیے مجبور کر رہا ہوتا ہے، ’’تمام لوگ گھاس ہیں، اور تمام کی تمام رونقیں [دلکشیاں] اِس لیے میدان کے پھول کی طرح ہوتی ہیں۔‘‘ خود کو نجات دلانے کے لیے کچھ کرنے یہ کہنے کی آپ کی جھوٹی اُمید کو خُدا خُشک کر رہا ہے، مُرجھا رہا ہوتا ہے۔ جان نیوٹن John Newton نے کہا،
میں اُمید کرتا ہوں کہ کسی قبولیت کے لمحے میں،
یکدم وہ میری اِلتجا کا جواب دے گا،
اور اُس کی محبت کی مُضیق [محدود] قدرت کے وسیلے سے
میرے گناہوں کو مٹا دے گا اور مجھے سکون بخشے گا۔
اس کے بجائے، وہ مجھے محسوس کرنے پر مجبور کر دے گا
میرے دِل کی چُھپی ہوئی بدکاریوں کو؛
اور جہنم کی ناراض قوتوں کو کر گزرنے دے گا
میری جان کے ہر حصے کی عصمت دری۔
آیاکو Ayako سے پوچھیں! ڈینی Danny سے پوچھیں! جان کیگن John Cagan سے پوچھیں! مجھ سے پوچھیں! ہم سب سکون پانے کے لیے خُدا کے آگے پکار اُٹھے تھے – لیکن اُس کے بجائے اُس نے ہمیں شیلا نان Sheila Ngann کی مانند محسوس کروایا تھا۔ اُس نے کہا، ’’مجھے خود سے اِس قدر کراہت محسوس ہوئی تھی۔‘‘ ایک اور لڑکی نے کہا، ’’میں خود سے اِس قدر ناخوش تھی۔‘‘ ڈاکٹر کیگن اور میں نے اُس سے کہا تھا کہ اُسے محض ’’ناخوش‘‘ ہونے کے مقابلے میں کچھ زیادہ محسوس کرنا چاہیے۔ شیلا کی مانند، اُسے ’’کراہت‘‘ محسوس کرنی چاہیے۔ جب تک آپ محسوس نہیں کرتے کہ آپ مکمل طور پر خود سے کراہت محسوس کرتے ہیں، آپ مُرجھا ڈالنے والی، اندرونی گمشدگی کو جو اُن میں اکثر ہوتی جو واقعی میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے ہوتے ہیں کا تجربہ نہیں کریں گے۔
وہ لفظ ’’مُرجھا ڈالناwither‘‘ نہایت اہم ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اُس لفظ ’’مُرجھانےwithereth‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’شرمندہ ہونا… (پانی کی مانند) خشک ہو جانا… شرمندگی محسوس کرنا، اضطراب میں ہونا، اور مُرجھا جانا‘‘ (Strong#300)۔
’’گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں کیونکہ خُداوند کا روح اُن پر چلتا ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا40:7)۔
یہ ہے جو آپ کے دِل میں رونما ہونا چاہیے۔ پاک روح کو آپ کی خود اعتمادی کو مُرجھا اور خشک کر ڈالنا چاہیے۔ جب تک آپ کا دِل ایک سُوکھے ہوئے پھول کی مانند کُملا نہیں جاتا – جب تک آپ خود اپنی مسخ شُدہ فطرت سے شرمندہ اور شرمسار نہیں ہو جاتے۔ جیسا کہ شیلا نے اپنے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے پہلے کہا، ’’میں نے خود سے اِس قدر کراہت محسوس کی۔‘‘ یہ ہے جو مسیح میں ایمان لانے والی حقیقی تبدیلی میں رونما ہوتا ہے
۔’’گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں کیونکہ خُداوند کا روح اُن پر چلتا ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا40:7)۔
جب آپ خود سے کراہت محسوس کرنے لگتے ہیں، تب ہم آپ کو یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ آپ کو گناہ سے اپنے خون کے ساتھ پاک صاف کر دے گا، اور خُدا کی سزا سے نجات دلائے گا۔
عظیم مبشرِ انجیل جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield نے کہا، ’’کیا خُدا نے آپ پر کبھی ظاہر کیا کہ آپ کا یسوع میں کوئی ایمان نہیں ہوتا؟ کیا آپ نے کبھی دعا مانگی، ’’خُداوندا، مسیح میں قائم رہنے پر میری مدد فرما‘؟ کیا خُدا نے کبھی آپ کو مسیح کے پاس آنے کی نااہلیت کے لیے قائل کیا، اور آپ کو مسیح میں ایمان لانے کے لیے دعا میں پکار اُٹھنے پر مجبور کیا؟ اگر نہیں، تو آپ اپنے دِل میں سکون نہیں پائیں گے۔ خُدا آپ کو یسوع میں ٹھوس سکون عنایت فرمائے، اِس سے پہلے کہ آپ مر جائیں اور آپ کو مزید کوئی اور موقع میسر نہ آئے‘‘ (’’فضل کا طریقہThe Method of Grace‘‘)۔ اِس سے پہلے کہ آپ کی مسیح میں ایمان لانے کی ایک حقیقی تبدیلی ہو آپ کو گناہ کے ساتھ ایک شدید جدوجہد کا تجربہ ہونا چاہیے۔ آپ کو اُس میں سے کچھ محسوس ہونا چاہیے جو مسیح نے محسوس کیا جب گتسمنی کے باغ میں آپ کے گناہ اُس پر لادے گئے تھے۔ آپ کو اُس میں سے کچھ محسوس ہونا چاہیے جو اُس نے تب محسوس کیا جب وہ چِلّا اُٹھا، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے… اے میرے خُدا، اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے‘‘ (متی26:38، 39)۔
مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور حمدوثنا کا گیت نمبر10 ’’آؤ، اے گنہگاروCome, Ye Sinners‘‘ گائیں۔
آؤ، اے گنہگارو، غریب اور خستہ حال، کمزور اور زخمی، بیمار اور دُکھی؛
یسوع تمہیں بچانے کے لیے تیار کھڑا ہے، ہمدرردی، محبت اور قوت سے بھرپور؛
وہ لائق ہے، وہ لائق ہے، وہ رضامند ہے، مذید اور شک مت کرو!
وہ لائق ہے، وہ لائق ہے، وہ رضامند ہے، مذید اور شک مت کرو!
آؤ، تمام تھکے ماندوں، بوجھ سے دبے، زخمی اور برگشتہ ہونے سے ٹوٹے ہوؤ۔
اگر تم سستی کرو گے جب تک کہ ٹھیک نہیں ہو جاتے، تو تم کبھی بھی نہیں آ پاؤ گے:
راستباز کو نہیں، راستباز کو نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!
راستباز کو نہیں، راستباز کو نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!
دیکھو! نجات دہندہ کو ابھی، آسمان پر اُٹھایا گیا، اُس کے خون کے حق کے لیے التجا کرو؛
خود کو مکمل طور پر اُس کے حوالے کر دو، کسی اور پر بھروسہ کو مداخلت مت کرنے دو؛
کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، جو بے یارومددگار گنہگاروں کے لیے کچھ اچھا کر سکتا ہے۔
کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، جو بے یارومددگار گنہگاروں کے لیے کچھ اچھا کر سکتا ہے۔
(’’آؤ، اے گنہگاروںCome, Ye Sinners ‘‘ شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart ، 1712۔1768).
اب مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے اُمید سے بھرپور ایک ہستی کے الفاظ کو سُنیں۔ یہاں ایک نوجوان شخص کی گواہی ہے۔
میں خود کو نجات دلانے کے لیے ایک راہ کی تلاش کر رہا تھا۔ میں غرور سے بھرا پڑا تھا، اِس قدر زیادہ غرور کہ خود سے ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھا کہ میں غرور سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے میں یسوع پر بھروسہ نہ کرنے کے لیے خُدا کے خلاف کیسے لڑا تھا… میں نے بائبل کو پڑھنا شروع کر دیا تھا، ہر روز دعا مانگنے کی ’’پریکٹس‘‘ کرنے کے لیے، گرجا گھر کی سرگرمیوں کے ساتھ اور زیادہ شامل ہونے کے لیے۔ لیکن میں نے خود میں کوئی اندرونی سکون محسوس نہیں کیا تھا۔ اندر کہیں گہرائی میں، میں جان گیا تھا کہ میں ابھی تک گمراہ ہی تھا لیکن نہایت مغرور اور یہاں تک کہ اِس کا سامنا کرنے کے لیے نہایت بزدل تھا۔ میں نے خود کو اُس خیال سے کہ میں ایک گنہگار تھا چُھپا لیا تھا۔ میں نے وہ سب کچھ کیا جو اِس خیال کو پرے کرنے کے لیے، خود کی توجہ اِس سے ہٹانے کے لیے کر سکتا تھا۔ میں نے اپنے ایمان کا انصاف کرنے کے لیے کئی بہانوں کی تلاش کی، خود کو اپنی گناہ سے بھرپور فطرت سے بہتر محسوس کرانے کے لیے۔ اور پھر خدا نے آسمان کو چاک کر دیا اور حیاتِ نو نازل کیا، اور ایک مرتبہ پھر، میرا تکبر یہ اقرار کرنے کے لیے نہایت شدید تھا کہ مجھے نجات پانے کے لیے یسوع کی ضرورت تھی… اِس موقع پر، ذہنی طور پر تھک چکا تھا۔ میں نے دیکھنا شروع کر دیا تھا کہ چاہے میں کچھ بھی کرتا، میں خود کو اپنے گناہ سے نجات نہیں دلا سکتا تھا، یسوع میں بھروسہ نہ کرنے کا میرا گناہ، خود راستبازی میں ہونے کا میرا گناہ۔ میں بے بس تھا۔ میں خود میں جدوجہد کر رہا تھا یسوع پر بھروسہ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا مگر میرا تکبر مجھے کرنے نہیں دے رہا تھا… میں ساری اُمیدیں چھوڑ بیٹھا تھا، ساری سمجھ کھو بیٹھا تھا۔ میں نے زندہ رہنے میں بُرا محسوس کیا۔ اور اُس لمحے میں، ایک معجزہ کے وسیلے سے، یسوع میرے پاس آیا، اور اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ، میں نے اُس پر بھروسہ کیا۔ میں یسوع کے پاس جانے کی کوششیں کر رہا تھا لیکن میں جا نہیں پا رہا تھا، اور یسوع میرے پاس اُس وقت آیا جب میں نے سوچا تھا کہ میں کبھی بھی نجات نہیں پا سکوں گا۔ جب یسوع میرے پاس آیا، تو اُس میں بھروسہ کرنا اِس قدر آسان تھا… یسوع نے مجھے قبول کیا اور اپنے خون کے ساتھ مجھے دھو ڈالا… مجھ میں ہر اچھائی اِس لیے ہے کیونکہ یسوع نے مجھے نجات دلائی تھی۔ میں اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکتا تھا جب میں یسوع کے بارے میں سوچتا، خوشی کے آنسو، جو کچھ وہ میرے لیے کر چکا ہے اُس کی شکرگزاری کے آنسو۔ اُس تمام محبت کے ساتھ جو میرے لیے یسوع کے پاس ہے، میں ممکنہ طور پر اُس یسوع سے کافی زیادہ محبت نہیں کر سکتا، میں اُس کا کافی شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ میں کچھ کر سکتا ہوں تو خود کو بہترین پیش کرنا ہے، یسوع، میرے نجات دہندہ کے لیے اپنی زندگی کو پیش کرنا۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
¬واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بیجنیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا:
’’آ، پاک روح، آسمانی فاختہ Come, Holy Spirit, Heavenly Dove‘‘
(شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748؛
O Set Ye Open unto Me” کی طرز پر‘‘)۔
لُبِ لُباب خُدا کے روح کا افسردہ کر دینے والا کام THE WITHERING WORK OF GOD’S SPIRIT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اُس آواز نے کہا، مُنادی کر۔ اور اُس نے کہا، میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں اور اُن کی تمام رونقیں پھولوں کی مانند ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں کیونکہ خُداوند کا روح اُن پر چلتا ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول جھڑ جاتے ہیں، لیکن ہمارے خُداوند کا کلام ابد تک قائم رہتا ہے‘‘ (اشعیا 10:6۔8). (اشعیا 40:5؛ 58:1؛ 40:3؛ یوحنا 1:23؛ یوحنا 7:28، 37؛ I. پہلی بات، مجھے زندگی کے مختصر ہونے پر چِلّانا چاہیے، اشعیا، 40:6؛ II. دوسری بات، مجھے پاک روح کے افسردہ کر دینے والے کام پر منادی کرنی چاہیے، اشعیا 40:7؛ متی 26:38،39۔ |