اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
خُدا کے خلاف عداوت!ENMITY AGAINST GOD! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لکھا گیا ایک واعظ ’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7). |
یہاں پر بائبل انسان کے خلاف اُس کی فطری حالت میں واضح الزام دہی کرتی ہے۔ انسان کا ذہن وہ ذہن ہوتا ہے جس کے ساتھ آپ پیدا ہوئے تھے۔ ہر بچہ اِس ذہن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ میتھیو ھنری نے کہا، کہ ’’یہ انسان کے شیطان کے بارے میں بات کرتی ہے۔ [وہ] نا صرف ایک دشمن ہے بلکہ بذات خود ایک عداوت ہے… خُدا کے خلاف بشر کی مخالفت؛ وہ اپنے مقتدر کے خلاف بغاوت کرتا ہے، اپنی دلچسپی کی [مزاحمت] کرتا ہے، اُس کے چہرے پر تھوکتا ہے۔ کیا اِس سے بڑھ کر بھی عداوت ہو سکتی ہے؟‘‘ کیا اُس خُدا کے خلاف جس نے آپ کو تخلیق کیا اِس سے بڑھ کر بھی بغاوت ہو سکتی ہے؟ (تمام بائبل پر میتھیو ھنری کا تبصرہ Mathew Henry’s Commentary on the Whole Bible، ھینڈریکسن پبلیشرز Hendrickson Publishers، 1996 ایڈیشن، جلد ششم، صفحہ335؛ رومیوں8:7 پر غور طلب بات)۔
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے …‘‘ (رومیوں 8:7).
وہ یونانی لفظ جس نے ’’عداوتenmity‘‘ کا ترجمہ کیا ’’ echthra‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ’’جارحیتhostility‘‘ ہوتا ہے۔ اِس کا ترجمہ NASV اور NIV میں ’’مخالفانہ ہے is hostile‘‘ غلط کیا گیا ہے۔ جی نہیں ’’ echthra‘‘’’مخالفانہ ہے is hostile‘‘ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اِس کے بجائے، ’’جارحیتhostility‘‘ یا ’’عداوتenmity‘‘ ہوتا ہے۔ برگشتہ انسان کا ذہن خُدا کے لیے محض مخالفانہ ہی نہیں ہے؛ یہ بذاتِ خود جارحیت بھی رکھتا ہے! جسمانی نیت خُدا کے خلاف جارحیت رکھتی ہے! ڈاکٹر لینسکی نے کہا
…[echthra]… کا مطلب ذاتی مخاصمت، نفرت، ناپسندیدگی، اور خدا کے خلاف مخالفت ہوتا ہے (آر۔ سی۔ ایچ۔ لینسکی، ڈی۔ڈی۔ R. C. H. Lenski, D.D.، مقدس پولوس کی رومیوں کے نام خط کی تاویل The Interpretation of St. Paul’s Epistle to the Romans، اُوگسبرگ پبلیشنگ ہاؤس Augsburg Publishing House، 1961 ایڈیشن، صفحہ506؛ رومیوں8:7 پر تبصرہ)۔
انسان سے یہ کس قدر مختلف ہے جس وقت اُس کی اصل میں تخلیق ہوئی تھی! شروع میں،
’’خدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا‘‘ (پیدائش 1:27).
شروع میں انسان خُدا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں زندگی بسر کرتا تھا۔
’’اور خدا نے آدم کو باغِ عدن میں رکھا تاکہ اُس کی باغبانی اور نگرانی کرے‘‘ (پیدائش 2:15).
لیکن آدم نے خُدا کے خلاف گناہ کیا، اور یوں اپنی تمام نسلوں کے لیے جرم اور تباہی لایا – ساری کی ساری نسل انسانی کے لیے کیونکہ ہم تمام آدم کی اولاد ہیں۔ خُدا کا کلام کہتا ہے کہ ہماری گنہگار فطرت انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی آدم سے وراثت میں ملی تھی۔
’’جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی‘‘ (رومیوں 5:12).
’’جیسے ایک آدمی کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے‘‘ (رومیوں 5:19).
یعنی کہ، اُس ایک شخص، آدم میں – جرم سے اور فطرتاً تمام نسلِ انسانی گنہگار بن گئی – ’’ایک شخص کی نافرمانی سے‘‘ تمام انسان ’’گنہگار ہو گئے۔‘‘ آدم کے گناہ سے نسل انسانی برگشتہ ہوئی، اور
’’جسمانی نیت [بن گئی] خدا کی مخالفت کرتی ہے …‘‘ (رومیوں 8:7).
ٹھیک ہے کیا میتھیو ھنری نے برگشتہ انسان کو ’’ایک انسان کا شیطان‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا (ibid.)۔ لفظ شیطان کا یونانی لفظ ’’Satanas‘‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ’’حریف، دشمن‘‘، فریقِ مخالف، دشمن ہوتا ہے۔ جب لوسیفر نے گناہ کیا، وہ برگشتہ ہوا اور شیطان بن گیا، خُدا کا دشمن (اشعیا14:12۔15؛ حزقی ایل28:13۔17)۔ جب انسان برگشتہ ہوا، اُس کی بھی ’’خُدا کے خلاف عداوت‘‘ ہو گئی۔ سپرجئین نے نشاندہی کی کہ پولوس رسول نے ایک اِسم کا استعمال کیا تھا نا کہ ایک ایڈجیکٹیو [اِسم صفت] کا۔ یوں، وہ نہیں کہتے کہ انسان کا ذہن خُدا کے لیے مخالفت کرتا ہے، بلکہ ’’بذاتِ خود عداوت… باغی نہیں، یہ بغاوت ہے… عداوت نہیں، یہ اصل عداوت ہے‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’خُدا کے خلاف جسمانی نیت کی عداوت The Carnal Mind Enmity Against God،‘‘ نئی پارک سٹریٹ کی واعظ گاہ The New Park Street Pulpit، پِلگرِم پبلیکیشنز Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت1981، جلد اوّل، صفحہ150)۔
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے…‘‘ (رومیوں 8:7).
آج کی صبح میں اِس تلاوت میں سے تین حقائق سامنے لاؤں گا۔
I۔ پہلی حقیقت، ایک جسمانی نیت کے ہونے کی سچائی جو خُدا کے خلاف ہے۔
اگر آپ خود کے ساتھ ایماندار ہیں، تو آپ شاید ایک دِن دیکھ لیں گے کہ یہ سچ ہے۔ مجھے نظر نہیں آتا کہ کیسے آپ پہلے اقرار کیے بغیر کہ آپ بائبل کے خُدا کے مخالف ہیں سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مگر فضل کے وسیلے سے آپ شاید دیکھنا شروع کر دیں کہ آپ کا مسیح میں ایمان نہ لا کر غیرتبدیل شُدہ ذہن خُدا کے خلاف ہے۔ کیوں، آپ کا ذہن تو یہاں تک کہ آپ کے روزمرّہ کے تجربات میں خُدا کو مسترد کرتا ہے۔ آپ بائبل میں سے ایک کے بعد دوسرا باب پڑھ سکتے ہیں، اور اِس کے باوجود لفظوں کے محض معنی سمجھ پاتے ہیں، اور اِس طرح سے آپ کا بائبل کا مطالعہ آپ کی روح کے لیے کوئی قدروقیمت نہیں رکھتا۔ ماضی کے عظیم مسیحی بائبل پڑھتے اور اِسے ’’کھاتے‘‘ تھے، جیسے عبرانی وہ منّا کھاتے تھے جو بیابان میں اُن کا پیٹ بھرتی تھی۔ حزقی ایل 3:2 میں نبی نے کہا، ’’چناچہ میں نے اپنا مُنہ کھولا اور اُس نے مجھے وہ طومار [کلام پاک کی دستاویز] کھانے کے لیے دیا۔‘‘ یوحنا رسول نے کہا، ’’میں نے فرشتہ کے ہاتھ سے وہ چھوٹی سی کتاب لے لی اور اُسے کھا لیا‘‘ (مکاشفہ10:10)۔ ڈاکٹر میگی Dr. McGee نے کہا، ’’اُس چھوٹی کتاب کو کھانے کا مطلب ایمان کے وسیلے سے خُدا کے کلام کو قبول کرنا ہوتا ہے‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسنThomas Nelson، 1983، جلد پنجم، مکاشفہ10:10 پر غور طلب بات)۔ یرمیاہ نبی نے بھی یہی کام کیا تھا۔ اُس نے کہا، ’’جب تیرا کلام نازل ہوا تو میں نے اُسے اپنی غذا بنا لیا۔ وہ میری خوشی اور میرے دِل کے لیے راحت تھا‘‘ (یرمیاہ15:16)۔ انبیاء اور یوحنا رسول نے خُدا کے کلام کو کھایا تھا اور وہ اُن کے لیے میٹھا تھا۔ اُنہوں نے کلام پاک کو ایسے ہی کھایا تھا جیسے عبرانیوں نے بیابان میں منّا کو کھایا تھا۔
میرا کیا مطلب ہوتا ہے جب میں کہتا ہوں اُنہوں نے بائبل کو منّا کی مانند ’’کھا لیا‘‘، اور خُدا کے وسیلے سے اِس سے اُن کا پیٹ بھرا تھا؟ اُس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ بائبل کے زمانے میں یہ مقدس لوگ خُدا کا کلام کھانے سے مطمئن تھے، عبرانیوں کی مانند مطمئن جب اُنہوں نے بیابان میں منّا کو کھایا تھا۔ اُنہوں نے پایا کہ جب اُنہوں نے خُدا کے کلام کو کھایا تو اُس نے اُن کی انتہائی روحوں کو سرشار کر دیا۔ اُنہوں نے خُدا کو اپنے ساتھ موجود پایا، اپنے کلام کے ساتھ اُنہیں خوراک مہیا کرتے ہوئے، جب وہ اِسے پڑھتے اور جو پڑھتے ہڑپ کر جاتے۔
لیکن آپ کا مسیح میں ایمان نہ لایا ہوا غیر تبدیل شُدہ جسمانی نیت والا ذہن کبھی بھی محسوس نہیں کرتا کہ جب آپ بائبل پڑھتے ہیں تو خُدا آپ کو خوراک مہیا کر رہا ہوتا ہے۔ کیوں؟ جواب نہایت سادہ سا ہے – آپ کے دِل پر ایک پردہ سا پڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ پولوس رسول نے کہا،
’’جب موسٰی کی کتاب پڑھی جاتی ہے، اُن کے دلوں پر وہی پردہ [ڈھانپا] پڑا رہتا ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 3:15).
وہ ’’پردہ‘‘ وہاں پر رکھا گیا تھا، شیطان سے آپ کے دِل کو ڈھانپنے کے لیے، آپ کے مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے غیر تبدیل شُدہ جسمانی نیت والا ذہن کو بائبل سے پیٹ بھرنے سے روکنے کے لیے، اور اِس کو پڑھنے سے روحانی فوائد حاصل کرنے سے روکنے کے لیے۔ دوسرے کرنتھیوں کے انتہائی اگلے باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے غیر تبدیل شُدہ بشروں کے لیے بائبل سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا، اور ہمیں اِس کے لیے وجہ پیش کی گئی ہے –
’’لیکن اگر ہماری خُوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے۔ چونکہ اِس جہاں کے خدا [شیطان] نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خُوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 4:3۔4).
دیکھا آپ نے، شیطان آپ کے دِل پر وہ پردہ ڈالتا ہے، تاکہ آپ کو بائبل کے پڑھنے سے کوئی بھی روحانی فائدہ حاصل نہ ہو۔ یہ نہایت ہی اہم ہے۔ اگر آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہیں، تو کیا یہ بات سچی نہیں ہے کہ آپ بائبل کو مشینی انداز میں پڑھتے ہیں، جیسے کہ یہ محض ایک کام تھا جو آپ نے محسوس کیا آپ کو کرنا چاہیے؟ کیا یہ بات سچی نہیں ہے کہ خُدا کبھی بھی آپ کے دِل سے گہرائی میں بات نہیں کرتا جب آپ اپنا بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں؟ کیا یہ بات سچی نہیں ہے کہ آپ محض اِس کو پڑھتے ہیں کیونکہ آپ کو اِسے پڑھنا لازمی ہوتا ہے؟ کیا یہ سچی بات نہیں ہے کہ خُدا آپ کے ساتھ نہیں ہوتا، آپ کے دِل سے بات نہیں کر رہا ہوتا جب آپ گھرمیں بائبل کا اپنا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں؟ اور کیا یہ آپ کے لیے ایک ملامت نہیں ہے؟ کیا اِس بات نے کبھی بھی آپ کو پریشان نہیں کیا؟ اور کیا یہ اِس بات کا حقیقی ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
یہی بات دعا کے لیے کی جا سکتی ہے۔ کیا آپ کبھی بھی دعا میں خُدا کے نزدیک آئے؟ کیا کبھی خُدا آپ کے کمرے میں نیچے نازل ہوا اور جب آپ دعا کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے دِل کو ناقابلِ بیان خوشی سے بھرا؟ اور اگر یہ بات آپ کے بارے میں سچی ہے تو کیا یہ اِس بات کا حقیقی ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
کیا یہ بات ظاہر نہیں کرتی کہ آپ خُدا کا مزہ نہیں اُٹھاتے جیسے حقیقی مسیحی اُٹھاتے ہیں؟ کیا یہ بات آپ پر ظاہر نہیں کرتی کہ آپ باطن سے غلط ہیں؟ کیا ایک حقیقی مسیحی کو کم از کم کبھی کبھار، دعا میں خُدا کی حضوری کا مزہ اُٹھانا چاہیے؟ اِس کے باوجود آپ نے کبھی بھی دعا میں خُدا کے ساتھ اُس قسم کی مسرت سے بھرپور،شاندار رفاقت کا مزہ نہیں اُٹھایا، کیا آپ نے کبھی اُٹھایا؟ در حقیقت، کیا بائبل کا ذاتی مطالعہ اور دعا آپ کو خشک اور بوریت والی محسوس دکھائی نہیں دیتی؟ اور اِس کا سبب کیا ہو سکتا ہے، اگر یہ حقیقت نہیں کہ آپ سرے سے بالکل بھی خُدا کے قریب ہونا ہی نہیں چاہتے، کہ آپ کا بائبل کے لیے واقعی میں کوئی شوق ہی نہیں ہوتا، اور آپ واقعی میں دعا مانگنا پسند نہیں کرتے؟ کیا آپ بائبل کے مطالعے اور دعا کو ایک مشکل کام کی حیثیت سے سوچتے ہیں جس کو آپ واقعی میں ناپسند کرتے ہیں؟ اور اگر یہ بات سچی ہے تو کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
اور جب آپ انجیلی بشارت کے لیے جاتے ہیں، تو کیا یہی بات رونما نہیں ہوتی؟ ایک لڑکی نے اپنے گرجا گھر کو کچھ عرصہ قبل چھوڑا کیونکہ، اُس نے کہا، ’’انجیلی بشارت ایک کام ہے،‘‘ سخت کام جس میں اُس کو کوئی خوشی نہیں ملتی۔ وہ ابتدائی مسیحیوں سے کس قدر مختلف تھی جو انجیلی بشارت کے لیے باہر جاتے تھے، حالانکہ اُس کو سخت ایذائیں دی جاتی تھیں،
’’وہ اِس بات پر خوش تھے کہ یسوع کی خاطر بے عزت ہونے کے لائق سمجھے گئے‘‘ (اعمال 5:41).
کیا آپ جیسے وہ کرتے تھے ’’خوشی منانے‘‘ کے لیے انجیلی بشارت کے لیے جاتے تھے – یا کیا یہ محض ایک سخت کام کی مانند لگتا ہے جو آپ کو کرنا ہوتا ہے، لیکن اِس کو کرنے میں کوئی خوشی محسوس نہیں کرتے؟ اگر یہ بات سچی ہے تو کیا یہ اِس بات کا کافی ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
اور اِتوار کو جب آپ گرجا گھر آتے ہیں، تو کیا آپ سُننے کے مشتاق ہوتے ہیں جو خُدا اپنے کلام کی منادی کے ذریعے سے آپ سے کہے گا؟ یا کیا آپ آتے ہیں اور زمین پر نیچے دکھتے ہیں، یا خلا میں تکتے ہیں، واعظوں کا بالکل بھی مزہ نہیں اُٹھا رہے ہوتے – اُن سے کوئی بھی روحانی خوراک یا خوشی نہیں پا رہے ہوتے؟ اور اگر آپ کے بارے میں یہ بات سچی ہے، تو کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
اور جب ہم کھانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور صبح میں عبادت کے بعد اور شام کو عبادت کے بعد رفاقت پانے کے لیے اِکٹھے ہوتے ہیں تو کیا آپ مسیحیوں کے ساتھ رفاقت کے لیے مشتاق ہوتے ہیں؟ کیا آپ اُن گمراہ لوگوں سے جو ہمارے گرجا گھر میں آ رہے ہوتے ہیں بات کرنے کے لیے مشتاق ہوتے ہیں؟ یا کیا آپ کے ذہن دوسری باتوں پر ہوتا ہے، تاکہ آپ مشکل سے گرجا گھر سے باہر جانے کا انتظار کر پائیں اور کچھ ایسا کریں جو آپ کی جسمانی نیت کے لیے زیادہ لطف انگیز ہو؟ اور اگر یہ بات آپ کے بارے میں سچی ہے تو کیا یہ ایک اور ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
اور اگر عبادت کے بعد، آپ الطار پر سامنے آتے ہیں، تو کیا آپ وہ جو ڈاکٹر ہائیمرز، ڈاکٹر کیگن اور میں نے آپ کو کہنا ہوتا ہے، سُننے کے لیے انتہائی مشتاق اور انتہائی شوقین نہیں ہوتے؟ کیا آپ اپنی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے تعلق رکھنے والے ہماری ہدایات کو آگے جھک کر توجہ کے ساتھ سُنتے ہیں؟ یا کیا آپ اپنے ذہن میں ہمارے ساتھ بحث کرتے ہیں، یا اپنے دماغ کو ماؤف کرلیتے ہیں اور سُنتے ہی نہیں، یا کیا آپ اُن لفظوں کو سُنتے ہیں جو ہم کہتے ہیں اور پھر جلدی سے بُھلا دیتے ہیں؟ اور کیا یہ تمام باتیں اِس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ہیں کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
کیوں، اگر آپ کے ذہن خُدا کے خلاف جارحیت نہیں رکھتے تو آپ واعظوں کو مشتاقی کے ساتھ ہضم نہیں کر پاتے، ایسے سُنیں جیسے کہ آپ کی زندگی کا دارومدار اِنہی پر ہے! آپ واعظ کا مسوّدہ اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور بستر پر جانے سے پہلے ہر رات کو پڑھتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن خُدا کے خلاف جارحیت نہیں رکھتے، تو آپ آگے جھکتے اور جو کچھ ڈاکٹر ہائیمرز، ڈاکٹر کیگن اور میں آپ کو کہتے جب ہم آپ کی مشاورت کرتے ہیں تو سنجیدگی کے ساتھ اپناتے، کیا آپ نہ کرتے؟ – اگر آپ کی جسمانی نیت ’’خُدا کی مخالفت نہ‘‘ کرتی۔ کیا میں صحیح نہیں ہوں؟ خود اپنے کاہل اور سُست انداز میں، کیا یہ روئیے ثابت نہیں کرتے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
II۔ دوسری حقیقت، جسمانی نیت رکھنے کا وہ بہت بڑا جرم جو خُدا کے خلاف ہے۔
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے… ‘‘ (رومیوں 8:7).
تلاوت کے انتہائی الفاظ اُس بہت بڑے گناہ کی جو خُدا کے خلاف ایک ذہن رکھنے کا ہے، ایک مکمل تصویر ہیں، کیا وہ نہیں ہیں؟ عبرانی لوگ موسیٰ کے خلاف ’’بُڑبُڑائے‘‘ تھے جب اُنہوں نے مصر سے بیابان میں سے سفر کیا تھا۔
’’اور لوگوں نے موسٰی کے خلاف بُڑبُڑانا شروع کر دیا‘‘ (خروج 15:24).
وہ شروع میں یکدم سامنے نہیں آئے تھے اور کہا تھا کہ وہ موسیٰ کے خلاف ہیں۔ اُنہوں نے نفرت کے ساتھ صرف خود سے بُڑبُڑاہٹ کی تھی کہ موسیٰ اُنہیں مصر سے نکالنے میں رہنمائی کر رہا تھا۔ وہ شدید طور پر ایسا کرنے سے گناہ سے بھرپور تھے، کیونکہ وہ اصل میں خُدا کے خلاف بُڑبُڑا رہے تھے، جس نے موسیٰ کو اُنہیں آزادی دلانے کے لیے بھیجا تھا۔
میرے دوستو، کیا آپ کو بھی وہی احساس نہیں ہوتا جو اُنہیں ہوا تھا؟ کیا آپ خود سے ہمارے گرجا گھر کی سختیوں کے بارے میں نہیں بُڑبُڑاتے؟ اور وہ تمام انجیلی بشارت جو آپ محسوس کرتے ہیں آپ کو گرجا گھر کے لیے کرنی چاہیے – کیا یہ آپ کو خُدا کے خلاف بڑبڑانے پر مجبور نہیں کرتی اور آپ خواہش کرتے ہیں کہ کاش آپ کو انجیلی بشارت کا یہ سارا کام نہ کرنا ہوتا؟ اور کیا آپ کے دِل میں یہ انتہائی بُڑبُڑانا آپ پر اُس جرم کو ظاہر نہیں کرتا جو آپ نے خُدا کے ریکارڈ میں جمع کروا رکھا ہے، کیونکہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘؟ (رومیوں 8:7).
کیا خُدا کے خلاف آپ کی عداوت اُس کی حضوری میں ایک ہولناک گناہ نہیں ہے؟ کیا اِس قسم کا گناہ سے بھرپور دِل رکھنے پر آپ خُدا کی حضوری میں قصوروار نہیں ہیں؟ بائبل کہتی ہے،
’’خداوند خدا… مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا‘‘ (خروج 34:6۔7).
’’گناہ کی مزدوری موت ہے‘‘ (رومیوں 6:23).
’’تب وہ کہے گا … اَے لعنتی لوگو، میرے سامنے سے دُور ہو جاؤ اور اُس ہمیشہ جلتی رہنے والی آگ میں چلے جاؤ‘‘ (متی 25:41).
کیوں یہ سزائیں آپ پر آئیں گی؟ یہ آپ پر آئیں گی کیونکہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘ (رومیوں 8:7).
III۔ تیسری حقیقت، تنہا مسیح ہی آپ کو اُس جسمانی نیت سے چُھٹکارہ دِلا سکتا ہے جو خُدا کے خلاف ہے۔
جی ہاں، مسیح آپ کو شیطان کی اسیری اور آپ کے گناہ سے بھرپور ذہن کی شہوت پرستی سے نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن، ایسا کرنے میں، گناہ کی وہ زنجیریں جنہوں نے آپ کو جکڑ رکھا ہے اور ایک قیدی کی حیثیت سے پکڑے ہوئی ہیں اُن کو ٹوٹنا چاہیے۔ صرف خُدا ہی ایسا کر سکتا ہے۔
وہ طریقہ جس سے خُدا آپ کے جسمانی نیت والے ذہن میں گناہ کی زنجیروں کو توڑتا ہے یہ ظاہر کرنے سے ہوتا ہے کہ اُس کی نظر میں آپ کا باغی دِل واقعی میں کس قدر بُرا اور بدکار ہے۔ وہ خُدا کے روح کا کام ہوتا ہے۔
’’جب وہ مددگار آ جائے گا تو وہ دنیا کو مجرم قرار دے گا‘‘ (یوحنا 16:8).
یعنی کہ، خُدا کا روح آپ کو آپ کے دِل کی گناہ کی بھرپوری پر ملامت کرے گا۔ خُدا ہمیشہ کی طرح آپ کو گناہ سے انتہائی بھرپور محسوس کرنے پر مجبور کرے گا۔ وہ آپ کو محسوس کرائے گا کہ آپ کا دِل اور ذہن اُس کی جانب باغی اور مخالفانہ رہ چکے ہیں۔ وہ آپ کو خود کو ہولناکی میں دیکھنے پر مجبور کر دے گا – ’’انسان کے انتہائی شیطان‘‘ کی حیثیت سے – میتھیو ھنری کے الفاظ میں۔
صرف جب آپ خود کو ایک چھوٹے شیطان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، اپنی جسمانی نیت کے ساتھ خُدا کی مخالفت کرتے ہوئے، مسیح کے چہرے پر تھوکتے ہوئے کیونکہ آپ کا دِل اِتنا ہی باغی ہوتا ہے، اِتنا ہی وحشیانہ انداز میں بُرا ہوتا ہے جتنا اُس سردار کاہن کا دِل تھا جس نے یسوع کے چہرے پر تھوکا تھا اور کہا تھا، ’’اِسے مصلوب کرو، اِسے مصلوب کرو۔‘‘ صرف جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا دِل اتنا ہی بدکار ہے جتنا اُس کا ہے آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائیں گے، ٹوٹ جائیں گے، اور وہ محسوس کریں گے جو جان اُوون John Owen نے کہا ’’تاریکی کی ہولناکی،‘‘ اور خُدا کا قہر جو آپ پر لٹک رہا ہے محسوس کریں گے۔ صرف تب ہی آپ اپنے دِل میں متفق ہونگے کہ آپ کی
’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے ‘‘ (رومیوں 8:7).
صرف تب ہی آپ ٹوٹ جائیں گے، اکثر آنسوؤں کے ساتھ، اور کہیں گے،
’’ہائے میں کیسا بدبخت آدمی ہُوں! اِس مَوت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24).
اور صرف تب ہی یسوع کی بُلاہٹ آپ کے گناہ کی غلامی میں جکڑے ہوئے ذہن کے لیے ایک بہت بڑے اطمینان کی مانند محسوس ہوگی، جب وہ آپ سے کہتا ہے،
’’میرے پاس آؤ … اور میں تمہیں آرام بخشوں گا‘‘ (متی 11:28).
صرف اپنے پیدائشی گناہ کی ہولناکی کو محسوس کرنے میں آپ یسوع تک پہنچ پائیں گے، اُس پر بھروسہ کریں گے، اور اپنی جسمانی نیت سے چُھٹکارہ پائیں گے، اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے خُدا کے ریکارڈ میں اپنے گناہ سے پاک صاف ہو جائیں گے۔ صرف تب ہی آپ جان پائیں گے کہ یسوع کے وسیلے سے نجات پانے کا مطلب کیا ہوتا ہے،
’’خدا کا برّہ، جو جہاں کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے‘‘ (یوحنا 1:29).
صرف تب ہی آپ یسوع پر بھروسہ کریں گے اور اُس کے خون اور راستبازی کے وسیلے سے نجات پائیں گے۔ ڈاکٹر ہائیمرز، مہربانی سے آئیں اور عبادت کا اختتام کریں۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
¬واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بیجنیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا:
’’میں حیرت زدہ ہوں I Am Amazed‘‘
(شاعر اے۔ ایچ۔ ایکلے A. H. Ackley، 1887۔1960)۔
لُبِ لُباب خُدا کے خلاف عداوت! ENMITY AGAINST GOD! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لکھا گیا ایک واعظ ’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7). (پیدائش1:27؛ 2:15؛ رومیوں5:12، 19) I. پہلی حقیقت، ایک جسمانی نیت کے ہونے کی سچائی جو خُدا کے خلاف ہے، II. دوسری حقیقت، جسمانی نیت رکھنے کا وہ بہت بڑا جرم جو خُدا کے خلاف ہے، III. تیسری حقیقت، تنہا مسیح ہی آپ کو اُس جسمانی نیت سے چُھٹکارہ دِلا سکتا ہے جو خُدا کے خلاف ہے، یوحنا16:8؛ رومیوں7:24؛ متی11:28؛ یوحنا1:29 . |