اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
مسیحیت کی زندگی بسر کرنے کے لیے لڑائی! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کا ایک تعارف مسٹر جان سیموئیل کیگن کی جانب سے |
بحرانوں کے اِدوار میں، تاریخ اُن لوگوں سے رقم ہوئی ہے جنہوں نے خود سے زیادہ بڑی کسی بات میں یقین کیا ہے۔ تاریخ اوسط انسان کی وجہ سے نہیں بنی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معمولی قابلیت کے بچاؤ اور اِستحکام کے لیے خواہش کریں گے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ناکامی سے اِس قدر خوف کھاتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کوشش ہی نہیں کرتے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی بھی کوئی بہت بڑا کام نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ بہت زیادہ سختیوں کو جھیلنے کی قیمت نہیں چُکا پائیں گے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ بھی بدل نہیں پائیں گے، جو دُںیا پر اثرانداز نہیں ہوں گے، اور جو ایسے مر جائیں گے جیسے اُںہوں نے کبھی زندگی گزاری ہی نہیں تھی۔ اِن ہی جیسے لوگوں سے بھرے ہوئے اِس زمانے میں، خُداوند نے ڈاکٹر ہائیمرز کی پرورش کی۔
زیادہ تر لوگ جو مذہبی خدمت میں جانے کے لیے فیصلہ کرتے ہیں اُن کو تقریبا ہر طریقے سے سہارا ملتا ہے۔ اِس کے باوجود، ڈاکٹر ہائیمرز نے کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے خود اپنا خرچہ رات میں سکول جا کر اور دِن کے دوران کام کر کے اُٹھایا۔ دوستوں اور خاندان کی جانب سے یکساں طور پر مذہبی خدمات کے لیے حوصلہ شکنی کے باوجود، اُںہوں نے خُدا کا خادم ہونے کے اپنے خواب کو اپنے مقصد کی حیثیت سے قائم کیا، اور اِس سے علیحدگی اختیار نہیں کی چاہے کتنی ہی دشواریاں کیوں نہ آئیں۔ شیطانی حملوں اور جذباتی دُکھوں کے باوجود اُنہوں نے خدا کا خادم بننے کی جدوجہد کو برداشت کیا۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے خُدا کی سچائی بتانے کے مقصد کے لیے ہر آزمائش اور بڑی سے بڑی مصیبت کو برادشت کیا۔ کیونکہ اُنہوں نے زندگی کے شعلوں کو برداشت کیا تھا، ڈاکٹر ہائیمرز سچائی کے لیے آتشِ گرفتہ ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر ہائیمرز خُدا کے کلام کی سچائی میں اِس قدر شدت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اِس کے لیے لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص نہیں ہیں جو ایک جھوٹ کو تسلیم کرنے سے مطئمن ہو جائیں گے کیوں وہ سہل ہے۔ یہ معاملہ اُن کی ساری زندگی میں چلتا رہا ہے۔ جب اُن کی بائبل کو مسترد کرنے والی سیمنری میں بائبل کی توہین کی جاتی تو ایسا نہیں ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتے تھے اور چُپکے بیٹھے رہتے تھے۔ اپنے داخلہ اور گریجوایشن کو خطرے میں ڈال کر، ڈاکٹر ہائیمرز بائبل پر آزاد خیال حملوں کے خلاف لڑتے تھے۔ وہ جماعت کے کمرے بند کر دیتے، سکول کے اخبار میں آرٹیکلز لکھتے، اور ہوسٹل کی مشترکہ خواب گاہ میں دعائیہ اِجلاس منعقد کرتے؛ اُنہوں نے اپنے اِختیار میں ہر اُس وسیلہ کو اُن جُھوٹی باتوں کے خلاف لڑنے کے لیے استمعال کیا جو بائبل کی سچائی کا محاصرہ کرتی تھیں۔ جب اُنہیں اُن کی سیمنری کے صدر کے دفتر میں بائبل کے دفاع میں اُن کے احتجاج سے روکنے کی ہدایات دینے کے لیے بُلایا گیا، تو ڈاکٹر ہائیمرز نے گُھٹنے نہیں ٹیکے۔ اِس کے بجائے، اُنہوں نے سیمنریوں میں آزاد خیالی کے خلاف ایک کتاب لکھی۔ وہ بائبل کے لیے جنگ میں مضبوطی اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔
کچھ نے تنقید کی، کچھ نے شکایت کی، اور کچھ دوسروں نے ہتھیار بھی ڈال دیے، مگر ڈاکٹر ہائیمرز کر کے دکھانے والے ایک انسان ہیں۔ خُدا کے لیے اور سچائی کے لیے اُن کے راسخ عقائد اِس قدر شدید ہیں کہ وہ اگر موت بھی یقینی ہوتی تب بھی اپنی تلوار نکالتے اور بُرائی کی قوتوں پر دھاوا بول دیتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز زندگی سے اِس قدر محبت نہیں کرتے کہ زنجیروں کی قیمت چُکا کر اِس کا سودا کرتے۔ وہ ایک جنگی مرد ہیں جب کہ دوسرے غلامی کی قیمت پر امن خریدتے ہیں۔
جب ہالی ووڈ نے مسیح کی چہرے پر تھوکا، ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے نجات دہندہ کے چہرے کو صاف کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ اِس کے لیے، اُن پر حملہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ جب اخبارات میں اُن کے خلاف آرٹیکلز شائع ہوئے، اُنہوں نے مسیح کا دفاع کیا! اِس کے لیے اُنہوں نے اپنے دوستوں کو کھویا۔ اِس کے باوجود، جو دُرست تھا اُس کو کرنے کی ذمہ داری سے ڈاکٹر ہائیمرز کوعمل کرنے سے، احتجاج کرنے سے، لڑانے سے روکا گیا۔
جب سارا معاشرہ ایک عورت کے ’’اِسقاطِ حمل کے حق‘‘ کے لیے تیار دکھائی دیا، ڈاکٹر ہائیمرز نے جنگ کیے بغیر ایک بھی بچے کو قتل کیے جانے سے انکار کیا۔ ایک اوسط شخص ہمدردی جتائے گا اور صدقے میں بہترین عطیہ دے گا، مگر ڈاکٹر ہائیمرز کوئی اوسط انسان نہیں ہیں۔ وہ اور میرے والد اِسقاطِ حمل کرنے والے کلینک کے سامنے زمین پر بیٹھ گئے۔ جب گھوڑوں پر سوار لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ پولیس کے لوگوں کے دھمکانے پر دوسروں نے ساتھ چھوڑ دیا، تب بھی ڈاکٹر ہائیمرز اپنے اعتقاد پر برقرار رہے۔ اُنہیں اُس بات سے جو وہ جانتے تھے ایک بچے کی زندگی اور ایک عورت کے حق کے درمیان آخری حد تھی جڑ سے اُکھاڑا نہ جا سکا۔ اُنہوں نے اِسقاطِ حمل کے دو کلینکوں کو بند کروانے کے لیے ایک بہت اچھی اور مکمل کوشش میں اپنے گرجا گھر کی قیادت کی۔ وہ اِسقاط حمل کے خلاف جنگ میں مضبوطی سے اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔
اور پھر ہمارے گرجا گھر کے لیے ایک جنگ تھی۔ ہمارے گرجا گھر کے ایک ’’سابق رہنما‘‘ چلے گئے۔ اُن کی تقلید میں، ہمارے گرجا گھر کے 400 رُکن چلے گئے۔ ہمارا گرجا گھر تقریباً اپنی عمارت کھو چکا تھا۔ گرجا گھر تقریبا دیوالیہ ہو چکا تھا۔ مضافات میں ایک بہت بڑے گرجا گھر کا پادری بننے کے لیے، ایک مشہور مبلغ نے ڈاکٹر ہائیمرز کو فرار کی پیشکش کی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر ہائیمرز کو اُس میں سے جو ایک ڈوبتا ہوا بحری جہاز دکھائی دیتا تھا چھلانگ لگانے کے لیے ایک موقعے کی پیشکش کی! اُںہوں نے کہا، ’’بھاگ نکلنے کے لیے تمہارا یہ آخری موقع ہے۔‘‘ بے شمار پادری صاحبان چھوڑ چکے ہوتے۔ مگر چھوڑتے ہوئے ممبروں کے ساتھ اور مالیاتی خطرے سے دوچار گرجا گھر میں – ڈاکٹر ہائیمرز ڈٹے رہے! ڈاکٹر ہائیمرز اپنے مقامی گرجا گھر کے لیے لڑنے کو تیار تھے۔ اُن کے روحانی حوصلے اور اُن وفادار لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا وقت اور اپنے پیسے دیے، ہمارے پاس ابھی لاس اینجلز کے بلدیاتی مرکز میں ایک گرجا گھر ہے! وہ ٹکے رہے اور مغربی تہذیب کے لیے جنگ میں جیسے ونسٹن چرچل نے ھٹلر کا مُنہ توڑا تھا آپ نے بھی ویسے ہی حوصلے اور پُختہ عزم کے ساتھ اُس چیلنچ کے ناممکنات کا مُنہ توڑا۔
ڈاکٹر ہائیمرز مقامی گرجا گھر کی اہمیت کے بارے میں قائل تھے۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے اکثر کہا کہ اِس گرجا گھر کی کامیابی اُن کی ساری زندگی ہے۔ اُنہیں ناصرف اِس گرجا گھر سے شدید گہرا پیار ہے، بلکہ ساری دُنیا میں گرجا گھروں سے پیار ہے۔ گرجا گھر کی قوت اُن کا جنون ہے۔ اُن کی انتہائی شناخت گرجا گھر کی زندگی کے ساتھ منسلک ہے۔ گرجا گھر اور مسیح کے بارے میں جواز کے لیے اُن کے پاس وہی ذہنی یکسانیت ہے جو انتہائی ماہر اتھیلیٹز، سیاسی بازی گروں اور فاتحین کے درمیان ہوتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کلیسیا یعنی گرجا گھر مسیح کی دُلہن ہے، اور اِسی لیے وہ کلیسیا کی بھلائی کے لیے دعا مانگتے ہیں، لڑتے ہیں اور منادی کرتے ہیں۔
حالانکہ کے کچھ کی جانب سے ناپسند کیا گیا اور کچھ کی جانب سے شک کیا گیا، بے شمار پادری صاحبان جو خُدا کے ساتھ سچے رہے اُنہوں نے ڈاکٹر ہائیمرز کو سراہا اور سہارا دیا۔ اُنہی میں سے قومی سطح پر شہرت یافتہ مبشرِ انجیل اور ’’بائبلی مبشر The Biblical Evangelist‘‘ کے دیرینہ ایڈیٹر ڈاکٹر رابرٹ ایل۔ سومنر Dr. Robert L. Sumner ہیں۔ بیسویں صدی کی اعلیٰ ترین مسیح ہستیوں میں گھرے رہنے کی وجہ سے، ڈاکٹر سومنر خُدا کے حقیقی لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ ڈاکٹر سُومنر نے ڈاکٹر ہائیمرز سے تعلق رکھتے ہوئے لکھا،
’’ڈاکٹر ہائیمرز جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر لاس اینجلز کے بدکار کاروباری مرکز کے انتہائی دِل میں خوشخبری کی منادی کرنے والے، انجیلی پرچار کی تعلیم دینے اور بائبل کی تعلیم دینے والے ایک گرجا گھر کو قائم کرنے کا اِرادہ کر کے شروع ہو گئے۔ اگر کسی بھی اور بات کے لیے نہیں، تو میں اُن کو اِسی بات کے لیے اور شہر کے مضافاتی علاقوں کی جانب دوڑتی ہوئی دوسری ایونجیلیکل منسٹریوں کے ساتھ نہ شامل ہونے پر تعریف کرتا ہوں… میں ایک ایسے شخص کو داد دیتا ہوں اور سراہاتا ہوں جو اپنے راسخ عقائد کے مطابق سچائی کے لیے کھڑا ہونے پر رضامند ہے اور پھر اُن پر ڈٹا بھی رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سب کچھ اُس کے خلاف بھی ہو رہا ہو۔ رابرٹ لیزلی ہائیمرز مسیح کے اِسی قسم کے ایک مسیحی خادم ہیں! امریکہ کے سب سے زیادہ بدکار شہروں میں سے ایک کے دِل میں مقامی مذہبی خدمت میں اضافے کے ساتھ، اُنہوں نے ایک بینُ الاقوامی منسٹری بھی برقرار کی ہوئی ہے – یہاں تک کہ مقامی سطح پر، اُن کی عبادتوں کا ’’براہ راست‘‘ دونوں ہسپانوی اور چینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔‘‘
کئی سالوں تک ایک مبشرِ انجیل رہ چکنے کے بعد، ڈاکٹرسُومنرنے قوت کی اُن عظیم خصوصیات کو پہچانا جو ڈاکٹر ہائیمرز کی مذہبی خدمت اور زندگی کا احاطہ کرتی تھیں!
ڈاکٹر ہائیمرز بصیرت رکھنے والے ایک انسان ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ دشوار ترین ادوار میں بھی جب دوسری اُمیدیں ناکام ہو جاتی ہیں، خُدا بڑے بڑے عظیم کام کر سکتا ہے۔ اُنہوں نے ایک ویب سائٹ کا تصور کیا تھا جو تمام دُنیا میں مشنریوں اور پادری صاحبان کو واعظ کے مسوّدے اور واعظوں کا دوسرا مواد فراہم کر پائے۔ اِس قسم کی جِدوجہد کو پہلے کیا ہی نہیں گیا اور سُنی بھی نہیں گئی تھی۔ تاہم، ساری دُنیا کے ممالک میں کوئی فرق لانے کی ایک کوشش میں، اُنہوں نے تو یہاں تک کہ اپنے واعظوں کی تیاری کے انداز کو بھی بدل ڈالا تاکہ اِس عظیم کام کو سہل بنایا جا سکے۔
کیونکہ اپنی مذہبی خدمت کا زیادہ تر کام، ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک خاکے سے منادی کر کے کیا۔ اِس کے باوجود، وہ چاہتے تھے کہ اُن کے واعظ دوسرے ممالک میں مسیحیوں کو مہیا ہوں جن کے پاس بصورتِ دیگر بائبلوں تک اور واعظوں کے دوسرے مواد تک رسائی نہیں تھی۔ اِس لیے اُنہوں نے اپنے واعظوں کو لفظ بہ لفظ لکھنا شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک مسوّدے سے پڑھ کر منادی کرنا شروع کی۔ زیادہ تر مبلغین اتنا عرصہ طویل عرصہ مذہبی خدمت میں گزار چکنے کے بعد اپنی تیاری کرنے کی طریقے کو نہیں بدلتے، لیکن ڈاکٹر ہائیمرز بصیرت کے حامل ایک ہستی ہیں۔ سالوں بعد، ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظوں کے مسوّدے دُنیا میں تقریباً ہر ملک میں پڑھے جاتے ہیں اور اُن کی ویب سائٹ پر صرف 2016 میں ڈیرھ ملین لوگوں نے اِن کو پڑھا اور ویب سائٹ پر آئے۔
ہمیشہ ایک ایسے پادری صاحب رہنے میں مگن جو ہر قسم کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے فکر مند ہو، ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے واعظوں کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کروانے کے خصوصی کام کا آغاز کیا۔ شروع شروع میں، واعظوں کے مسوّدے صرف چند ایک زبانوں میں ترجمہ کیے جاتے تھے۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز اپنے تخّیل کے ساتھ ساری دُنیا میں زبان کی رکاوٹ سے بے پرواہ ہو کر پہنچنے کے لیے جاری رہے۔
آج، ڈاکٹر ہائیمرز کے مسوّدوں کا 35 زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے! تیسری دُنیا میں پادری صاحبان اور مشنریوں کے لیے یہ مسوّدے ایک برکت ہیں۔ اُنہیں لوگوں کے لیے یسوع کی ضرورت کو جاننے کے لیے اور اُنہیں بیدار کرنے اور سزایابی میں لانے کے لیے فضل کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور کچھ تو حتّٰی کہ واعظوں کو پڑھنے کے بعد مسیح میں ایمان لا کر تبدیل بھی ہو چکے ہیں۔ واعظوں کا 35 زبانوں میں ترجمہ کروانے کے لیے بصیرت اور لگن چاہیے تھی، مگر اِس کو خُدا کے ذریعے سے مسیحی دُنیا میں ایک قوت سے بھرپور تاثر ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
لڑائی کی شدت چاہیے کتنی ہی کیوں نہ ہو، ڈاکٹر ہائیمرز خُدا کے لیے میدان میں اُس کے بندے کی طرح جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے مسیح کی خوشخبری کی منادی اُس وقت بھی جاری رکھی جب بے شمار دوسرے لوگ اِس کو بھول چکے تھے۔ اُںہوں نے پرانے طرز کے تبلیغی انداز میں جنون اور شعلہ فشانی کے ساتھ منادی کی جب کہ دوسرے تمام اِس کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ وہ یسوع مسیح میں ایمان کے ذریعے سے خُدا کی قوت اور فضل کے وسیلے سے مسیح میں حقیقی ایمان لانے کی تبدیلی میں یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی سُننے والے شخص کو کسی اور کم تر شے کے لیے فیصلہ طے کرنے سے جہنم کے خطرے میں جانے نہیں دیں گے۔
ایک دور میں جب دعا محض ایک رسم تھی، ڈاکٹر ہائیمرز جواب ملنے والی دعاؤں میں خُدا کی قوت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کئی لوگ دوسرے گرجا گھروں میں سے ممبروں کو چُرانے کے ذریعے سے زیادہ نذرانوں کے اُمید کے تعاقب میں ہیں، ڈاکٹر ہائیمرز دُنیا میں سے نوجوان لوگوں کو انجیل کا پرچار کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ جب دوسرے ایک کے بعد دوسری عبادت کو ختم کرتے جا رہے ہیں، ڈاکٹر ہائیمرز گرجا گھر کی اہمیت اور افادیت میں یقین رکھتے ہیں۔ جب بے شمار دوسرے لوگ ایک بدن کی ایسی لاش کو جو ایک طویل مدت سے اپنی زندگی اور قوت کو کھو چکی ہو کھانے سے مطمئن ہوتے ہیں، ڈاکٹر ہائیمرز جیتی جاگتی مسیحیت میں اور اُس کے لیے لڑنے میں یقین رکھتے ہیں۔
چند لمحوں میں ڈاکٹر ہائیمرز منادی کے لیے آئیں گے۔ لیکن پہلے مسٹر گریفتھ ڈاکٹر ہائیمرز کے پسندیدہ حمدوثنا کے گیتوں میں سے ایک ’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیوOnward, Christian Soldiers‘‘ گانے کے لیے آئیں گے۔
(جنگ کے بحرانوں کے سلسلے میں نمبر ایک)
THE BATTLE FOR SUNDAY NIGHT
(NUMBER ONE IN A SERIES OF BATTLE CRIES)
(Urdu)
ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دن کی صبح، 15جنوری، 2017
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Morning, January 15, 2017
’’عزیزو، جب میں تمہیں اُس نجات کے بارے میں لکھنے کا بے حد مشتاق تھا جس میں ہم سب شریک ہیں تو میں نے یہ خط لکھنا ضروری سمجھا تاکہ تُم مسیحی ایمان کے لیے جو مُقدسوں کو ایک ہی بار سونپ دیا گیا ہے، خُوب جانفشانی کرو‘‘ (یہوداہ 3).
اِس صبح ہم جنگی بحرانوں کے ایک سلسلے کا آغاز کریں گے۔ اُن میں ہم ’’ایمان کے لیے خوب جانفشانی کے ساتھ دعویٰ‘‘ کریں گے۔ ہم اپنے گرجا گھروں میں بے شمار جھوٹے عقائد اور عادتوں کے خلاف بات کریں گے۔
1963 میں صدر جان ایف۔ کینیڈی نے چرچل کو ریاست ہائے متحدہ کا سب سے پہلا اعزازی شہری بنایا تھا۔ اُس عظیم بوڑھے جنگی ہیرو کے بارے میں صدر نے کہا، ’’اُس نے انگریزی زبان کو تحریک دی اور اِس کو میدان جنگ میں بھیج دیا۔‘‘ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنی عظیم تقریروں میں سے ایک میں چرچل نے کہا، ’’جب دُںیا میں عظیم اسباب تحریک پر ہوتے ہیں، لوگوں کی روحوں کو جھنجھوڑتے ہیں، اُنہیں اُن کے گھروں اور آتشدانوں کے پاس سے باہر نکال کھینچ رہے ہوتے ہیں، آرام و سکون پرے پھینک دیا جاتا ہے، دولت اور خوشیوں کا تعاقب اُن تمناؤں کے جواب میں ہوتا ہے جو یکدم حیران کُن اور ناقابلِ مزاحمت ہوتی ہیں، ہم جان جاتے ہیں کہ ہم جانور نہیں ہیں، اور کہ کچھ نہ کچھ وقت اور زمانے میں ہو رہا ہے، اور زمانے اور وقت سے پرے ہو رہا ہے، جس کو، چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں، ہجّوں میں ذمہ داری کہتے ہیں۔‘‘
ہم خود کئی جنگوں میں سے نکل چکے ہیں۔ ہم نے امریکہ میں ہر مغربی بپٹسٹ گرجا گھر کو وہ ہیبت ناک جھوٹی تعلیم جس کی شاگرد مبلغین کو اُن کی سیمنریوں میں تعلیم دی جاتی ہے ڈاک کے ذریعے بھیجی، خود تقسیم کی، خرچہ خود اُٹھایا۔ میری ہسپانوی بیوی چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کی حاملہ تھی جب اُس نے اِس لٹریچر کو پینیسِلوانیا کے شہر پیٹزبرگ میں مغربی بپٹسٹ کنونشن پر تقسیم کیا۔ حالانکہ وہ دیکھ سکتے تھے کہ وہ قد میں چھوٹی تھی اور پیٹ میں بچے کا وزن اُٹھائے ہوئے تھی، عمر رسیدہ لوگوں نے لٹریچر کو ہاتھوں میں مچوڑا اور اصل میں اُس کے منہ پر تھوکا۔ جب ہم اپنے کمرے میں واپس پہنچے تو میری بیوی نے ایک سوال پوچھا جس کا میں جواب نہ دے سکا۔ اُس نے کہا، ’’رابرٹ، کیسے یہ لوگ حقیقی مسیحی ہو سکتے ہیں؟‘‘ اُن میں سے بے شمار تو مغربی بپتسمہ دینے والوں کے بجائے جہنم کے آسیب زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ وہ اُس پر غصے میں بیٹھے تھے کیونکہ وہ اُن کی سیمنریوں میں پروفیسروں کے اِقتباسات اور حوالوں کو لوگوں میں بانٹ رہی تھی جو کہتے تھے یسوع کا بدن مُردوں میں سے نہیں جی اُٹھا تھا – بلکہ اُسے جنگلی کتے کھا گئے تھے، کہ موسیٰ نامی کوئی ہستی نہیں تھی، اور کہ پولوس کے مُراسلے نقلی تھے، جنہیں رسول نے نہیں لکھا تھا۔ لیکن ہم نے سالہا سال اُس لٹریچر کو ڈاک کے ذریعے سے بھیجنے کی ادائیگی کو جاری رکھا اور اِسے بانٹتے رہے – جب تک بالاآخر ہم جیت نہ گئے اور اُن آسیب زدہ جھوٹے اِساتذہ کو امریکہ میں تمام مغربی بپٹسٹ سیمنریوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ خُدا کی مدد کے ساتھ ہم نے وہ جنگ جیتی تھی!
جب دوسرے گروہ اسقاطِ حمل کے قتل عام میں بچوں کے قتل کو روکنے کے لیے پیسے اکٹھے کر رہے تھے (جس سے وہ اپنی ہی جیبوں کو بھر رہے تھے) – جب وہ صرٖف اپنے ہی لیے پیسے جمع کر رہے تھے، ہمارے گرجا گھر نے اپنے لوگوں کو بھیجا اور اصل میں اُن جیسے خون چوسنے والے دو کلینکوں کو بند کروایا! ایک موقع پر ڈاکٹر کیگن اور میں اُن کلینکوں میں سے ایک کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے تھے – اور ہم وہیں ٹکے رہے جب کہ گھوڑوں پر سوار پولیس والوں نے ہمیں گھیر لیا اور ہمیں ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں لے جانے کی دھمکیاں دیں۔ لیکن جب اُنہوں نے دیکھا ہم نہیں ہلنے والے تھے، اُنہوں نے اپنے گھوڑوں کو موڑا اور چلے گئے۔ دوبارہ، خُدا کی مدد کے ساتھ، ہم نے وہ جنگ جیتی تھی!
جب لیو ویسرمین Lew Wasserman، جو یونیورسل پیکچرز کے ہیڈ ہیں، اُںہوں نے ایک غلیظ فلم کو بنایا، ایک ایسی فلم جس میں مسیح کے مریم مگدلینی کے ساتھ جنسی تعلق کی تصویر کشی کی گئی تھی، ہم احتجاج کرنے کے لیے بیورلی ھلز میں ویسرمین کے گھر کے سامنے چلے گئے۔ ہمارے احتجاج نے ساری دُنیا میں اخبارات میں پہلے صفحے پر خبر بنوائی، انگلستان میں، سپین، اسرائیل، اور فرانس میں اور یہاں تک کہ اُس فلم کے خلاف یونان میں بھی فساد کی ایک چنگاری اُٹھی تھی! ہمارے مختلف احتجاجات دو ہفتوں سے زیادہ – ہر رات، ٹیلی ویژن کی تمام خبروں کے پروگراموں پر ہوتے تھے۔ ہمارے مظاہروں سے یونیورسل پیکچرز اِس قدر خوف سے بھر گیا کہ اُنہوں نے پھر کبھی بھی کوئی فلم نہیں بنائی جو مسیح پر بُہتان لگائے! دوبارہ، خُدا کی مدد کے ساتھ ہم نے جنگ جیتی تھی!
جب پیٹر ایس۔ رُکمین Peter S. Ruckman نامی ایک شخص نے تعلیم دینی شروع کی کہ کنگ جیمس بائبل کے الفاظ بے خطا تھے، اور یہاں تک کہ یونانی اور عبرانی کے اُن الفاظ کو دُرست کیا جن سے اُن کا ترجمہ کیا گیا تھا، رُکمین کے بدعت کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں گرجا گھر منقسم ہو گئے۔ میں نے ’’رُکمین اِزم بے نقابRuckmanism Exposed‘‘ نامی ایک کتاب تحریر کی – جو بہت بڑی تعداد میں گرجا گھروں میں پھیلی۔ یہ آج تقریبا ایک مُردہ معاملہ ہے، زیادہ تر اُسی کتاب کی وجہ سے، جس کو آپ ہماری ویب سائٹ www.sermonsfortheworld.com پر پڑھ سکتے ہیں۔ اور، جی ہاں، رُکمین اِزم کے اُس شیطان عقیدے کے خلاف اُس جنگ میں، خُدا کی مدد کے ساتھ ہم دوبارہ جیتے!
پھر رچرڈ اُولیواس Richard Olivas نامی ایک شخص نے ہمیں چھوڑا اور ہمارے گرجا گھر سے اپنے ساتھ 400 لوگوں کو لے گیا۔ میں نے اُٹھ کھڑے ہونے میں اپنے لوگوں کی قیادت کی اور ہر ماہ اپنی دہ یکیوں اور نزرانوں کے علاوہ اُس سے بڑھ کر 16,000 ڈالرز ادا کرنے کے لیے لوگوں کی قیادت کی، جب تک کہ یہ عمارت بچا نہ لی گئی، اور اُولیواس کا ہمارے گرجا گھر کو تباہ کرنے کے منصوبے کو روکا۔ جی ہاں، خُدا کی مدد کے ساتھ ہم نے وہ جنگ جیتی!
لیکن آج ہم ایک کہیں زیادہ خطرناک جنگ میں ہیں – ایک پُرکشش لیکن نقصان دہ جنگ جو کہ بالاآخر ہمارے تمام گرجا گھروں کو تقریبا تباہ کر ڈالے گی۔ اور مسیح کا خادم ہونے کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ اِس کے خلاف خبردار کروں۔ یہ ہمارے گرجا گھروں کو مسخ کر رہی ہے اور تباہ و برباد کر رہی ہے۔ یہ لاؤڈیسعئین اِزم Laodiceanism کی جھوٹی تعلیم ہے۔ یہ وہ تصور ہے کہ ہمارے گرجا گھروں کو اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دینا چاہیے۔ اِس جھوٹی اور خطرناک تعلیم کے خلاف ہمیں ’’جانفشانی کے ساتھ دعویٰ‘‘ کرنا چاہیے (یہودہ3)۔ ہم اِس کے خلاف اپنی تمام قوت کے ساتھ لڑیں گے۔
متی25:5 میں یسوع نے ہماری کلیسیاؤں کی حالت کی ایک بالکل دُرست تفصیل پیش کی۔ کروڑوں مبشرانِ انجییل اور بنیادپرست اونگھ رہے ہیں اور سو رہے ہیں۔ مسیح کی آمدِ ثانی انتہائی نزدیک ہوتی جا رہی ہے، مگر ہمارے گرجا گھر سوئے ہوئے ہیں! ہم اب ایک کے بعد دوسرے گرجا گھر کو شام کی عبادتوں کو بند کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ یہ آخری ایام کی علامتوں میں سے ایک ہے – اُونگھتے ہوئے گرجا گھر اپنے دروازوں کو بند کر رہے ہیں – جیسے جیسے زمانہ قریب آتا جا رہا ہے – اور دُنیا جیسا کہ ہم اِس کو جانتے ہیں خاتمہ کے قریب ہے۔ یسوع نے کہا،
’’دُلہا کے آنے میں دیر ہو گئی اور وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سو گئیں‘‘ (متی 25:5).
چاہے اگر پیشن گوئی ہمارے خلاف ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے – ہم لڑائی جاری رکھیں گے – اور کچھ سُنیں گے اور نجات پا جائیں گے۔
اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنا بپٹسٹس اور دوسرے ہر قسم کے مسیحی فرقوں کے درمیان تازہ ترین رُجحان ہے۔ مغربی بپٹسٹ اور خود مختیار بپٹسٹ، ’’ترقی یافتہprogressive‘‘ BBFI گرجا گھر، اور یہاں تک کہ کچھ بوب جونز بنیاد پرست گرجا گھر اِتوار کی صبح کی عبادت کے بعد دروازوں کو بند کر رہے ہیں – امریکہ کے ایک کونے سے لیکر دوسرے تک۔ اِتوار کی شام کی عبادت تیزی کے ساتھ ماضی کا ایک قصہ بنتی جا رہی ہے۔
یہ ہماری کلیسیاؤں کی دیرینہ بیماری کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک مثبت علامت نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی بھی طویل بیماری کے ساتھ، کوئی بھی علاج ڈاکٹر نہیں بتا سکتا جب تک کہ بیماری کی دُرست طور پر تشخیص نہ کی جائے۔ اِس واعظ میں ایک ڈاکٹر ہی کی مانند، ہم مریض (وہ گرجا گھر جو اپنی شام کی عبادتوں کو بند کرتے ہیں) کا معائنہ کریں گے اور وجہ کی تشخیص کریں گے – اور پھر ایک علاج تجویز کریں گے – ایک دوائی یا ایک شفا۔ اِن گرجا گھروں کی بیماری کی تشخیص چار طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔
I۔ پہلی بات، ہمارے گرجا گھروں میں اِتوار کی شام کی عبادت کا بند کرنا سب سے زیادہ صرف حالیہ زمانے میں یہ ایک عام سے پروٹسٹنٹ رُجحان میں ہو چکا ہے۔
میتھوڈسٹ فرقوں نے اپنی اِتوار کی شام کی عبادتوں کو 1910 کے لگ بھگ بند کرنا شروع کیا تھا۔ پریسبائیٹیرئینز Presbyterians نے اپنی اِتوار کی شام کی عبادتوں کو تقریبا 1925 میں بند کرنا شروع کیا۔ امریکی بپٹسٹس (پہلے شمالی بپٹسٹ کی طور پر جانے جاتے تھے) نے اپنی شام کی عبادتوں کو تقریباً 1945 میں بند کرنا شروع کیا۔ مغربی بپٹسٹس نے یہ تقریباً 1985 میں کرنا شروع کیا۔ اِس بات کو یاد رکھا جانا چاہیے کہ میتھوڈسٹس، پریسبائیٹیرئینز اور امریکی بپٹسٹس فرقے اتنے ہی بائبل میں یقین رکھنے والے تھے جتنا کہ کوئی بھی بنیاد پرست بپٹسٹ گرجا گھر جب یہ رُجحان اُن کے فرقوں کے ’’ترقی یافتہ‘‘ مبلغین کے درمیان شروع ہوا تھا۔
آج ذرا میتھوڈسٹس، پریسبائیٹیرئینز اور امریکی بپٹسٹس فرقوں پر نظر ڈالیں! اُن کی رُکنیت کی فہرست سال در سال گھٹتی جا رہی ہے۔ وہ تینوں ہی فرقے 1900 سے لیکر اب تک سینکڑوں ہزاروں ممبرز کو کھو چکے ہیں۔ اُن کے ہزاروں گرجا گھر مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنے سے اُنہیں کوئی بھی مدد نہیں ملی تھی۔ یہ تو تباہی کی پھسلن زدہ ڈھلوان کی جانب ایک قدم تھا۔
اِس کے باوجود بے شمار خود مختیار بپٹسٹس سوچتے ہیں کہ وہ کسی نئی اور ترقی یافتہ سوچ کے ’’بالکل سرے‘‘ پر ہیں جب وہ اُسی راہ پر چلتے ہیں جس نے میتھوڈسٹس، پریسبائیٹیرئینز اور امریکی بپٹسٹس فرقوں کو تباہ کیا۔ کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو کے قریب جِم بیز Jim Baize نامی ایک خود مختیار بپٹسٹس مبلغ نے کہا، ’’میں انقلابی قدم اُٹھا چکا ہوں! میں اپنی اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر چکا ہوں!‘‘ وہ سوچتا ہے یہ اُس کے گرجا گھر کی مدد کرے گا، لیکن میں سوچتا ہوں یہ صرف اُس کی مذہبی جماعت کو نقصان پہنچائے گا۔ میں اُس جیسے شخص کی مانند مبلغ کو دشمن سے تعاون کرنے والا کہتا ہوں – مسیح کے جواز کے لیے ایک غدار! جو یہ لوگ کر رہے ہیں ایسے ہی ہے جیسے اُن ’’اہم mainline‘‘ کلیسیاؤں میں کیا گیا جن کا میں نے تزکرہ کیا تھا۔ مغربی بپٹسٹس اب ہر سال 200,000 لوگوں کو کھو رہے ہیں۔ وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کے بے شمار گرجا گھر اِتوار کی شام کو بند ہوتے ہیں۔
ونسٹن چرچل نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’’تاریخ کا مطالعہ کرو! تاریخ کا مطالعہ کرو!‘‘ اُںہوں نے کہا، ’’جتنا دور ماضی میں آپ دیکھ سکتے ہیں، اُتنا ہی آگے کی جانب مستقبل میں ممکنہ طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ جاننا اہم ہے کہ اُن ’’اہم mainline‘‘ پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹس کلیسیاؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا جب اُنہوں نے ماضی میں اپنی اِتوار کی عبادتوں کو چھوڑا تھا۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ کیسے اِس سے اُن کے نزول، نیست و نابود ہونے اور حتمی طور پر اُن کی موت میں مدد ملی۔
آج، وہ روایتی ’’اہم mainline‘‘ کلیسیائیں ماضی میں وہ جو کچھ تھیں اُس کا محض ایک چھوٹا سا بچا کُچھا ٹکڑا ہیں۔ پہلے اُنہوں نے اپنے دعائیہ اِجلاسوں کو چھوڑا۔ پھر اُںہوں نے شام کی عبادتوں کو چھوڑا۔ اب وہ پاک روح کو چھوڑ رہے ہیں! یہ بپٹسٹس اور دوسرے فرقوں کے درمیان جو ہمارے زمانے میں اُسی راستے پر گامزن رہتے ہیں اُن کے لیے ایک ناگزیر انجام بھی ہو گا۔
II۔ دوسری بات، ہمارے گرجا گھروں میں اِتوار کی شام کی عبادت کا بند کرنا ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے نتائج میں سے ایک ہے۔
جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب آج کا اِرتداد Today’s Apostasy، میں نشاندہی کی، چارلس جی فنی نے 19 ویں صدی کے وسط میں عظیم پروٹسٹنٹ اور پبٹسٹ کلیسیاؤں میں ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ کو شہرت دی۔ فنی کی ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے بائبلی تبدیلی کو انسانی روح میں خدا کے کام کی حیثیت کو اِس تصور کے ساتھ بدل ڈالا کہ انسان سطحی طور پر ’’مسیح کے لیے فیصلہ‘‘ کرنے کے ذریعے سے نجات پا لیتا ہے۔ محض ایک دعا یا جسمانی ردعمل نے انقلابی بائبلی تبدیلی کے پرانے زمانے کے تصور کی جگہ لے لی۔ نتیجے کے طور پر، وہ پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹ کلیسیائیں تیزی کے ساتھ کڑوروں کی تعداد میں اپنی رُکنیت کی فہرستوں میں گمراہ لوگوں کے ساتھ بھرتی چلی گئیں۔ غیرنجات یافتہ لوگ اِتوار کو دو مرتبہ گرجہ گھر جانا نہیں چاہتے – اِس طرح سے فنی کے طریقہ کار کو گود لینے کے چند دہائیوں کے بعد سے اِن کلیسیاؤں میں سے اِتوار کی شام کی عبادتیں غائب ہو گئیں۔ وہ لوگ جو غیر نجات یافتہ ہوتے ہیں اِتوار کی شام کو نہیں آئیں گے! ساری امریکہ میں ’’قدامت پسند conservative‘‘ کلیسیاؤں میں اب بالکل اِس نقل دہرانا رونما ہو چکا ہے۔
ایک نوجوان شخص کی حیثیت سے میں جن بپٹسٹ گرجا گھروں میں گیا اُن میں سے کسی میں بھی اِتوار کی شام کو ہر ایک ممبر موجود نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ وہ جو کم مخلص تھے، یا کبھی بھی سچے طور پر تبدیل نہیں ہوئے تھے، وہاں پر نہیں ہیں۔ لیکن ہم بہرحال آگے چلتے رہے۔ میری کم سِنی کی اِتوار کی شام کی عبادتیں ہمیشہ سب سے بہترین ہوتی تھیں۔ گیت سنگیت بہتر ہوتے تھے۔ واعظ معیاری ہوتے تھے۔ یہ اِس لیے تھا کیونکہ وہ گرجا گھر کے وہ گمراہ ممبر ہر کسی کی روح کو پسپا کرنے کے لیے وہاں نہیں ہوتے تھے۔ یہ ہے جو میں سوچتا ہوں، جب میں ماضی میں گزرے ساٹھ سالوں کے پار دیکھتا ہوں۔
آج خود ہمارے اپنے گرجا گھر میں، ہر کوئی اِتوار کی شام کو واپس آتا ہے۔ میں یقین کرتا ہوں یہ اِس لیے ہے کیونکہ اُنہیں ایسا کرنے کے لیے تربیت دی گئی ہے۔ لیکن میں یہ بھی یقین کرتا ہوں کہ ہماری بے انتہا محتاط دیکھ بھال کا بھی نتیجہ ہے کہ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شخص کی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی خالص ہو اِس سے پہلے کہ وہ ہمارے گرجا گھر کے رُکن بنیں۔ اِس سے کہیں بہتر ہے میں انسان کو سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے انتظار کرواؤں بجائے اِس کے کہ میں ایک اور گمراہ شخص کو جلدی سے بپتسمہ دے دوں، ایک ایسے شخص کو جو اِتوار کی شام کو گرجا گھر نہیں آتا!
’’فیصلہ سازیت‘‘ نے ہمارے گرجا گھروں کی حاضریوں کو گمراہ لوگوں کے ساتھ بھر دیا ہے – اور اب ہم اِس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ وہ اِتوار کی شام کو آنا نہیں چاہتے کیونکہ اُنہوں نے نجات نہیں پائی ہے! یہ وجوہات میں سے ایک ہے کہ مغربی بپٹسٹ گرجا گھر گذشتہ دو سالوں میں آدھے ملین کے قریب اپنے لوگوں کو کھو چکے ہیں!
III۔ تیسری بات، اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنے سے بے شمار غیر متوقع نتائج اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
میں پُریقین ہوں کہ جن کا میں تذکرہ کروں گا اُن کے مقابلے میں ایسے بے شمار اور بھی منفی نتائج ہیں۔
1. وہ گرجا گھر جو اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دیتے ہیں اپنے لوگوں کے لیے اُن دروازوں کو کھول دیتے ہیں کہ وہ دوسرے گرجا گھروں میں جائیں جو اُنہیں بھٹکاتے ہیں۔ ایک مبلغ جس نے حال ہی میں اپنی اِتوار کی شام کی عبادت کو بند کیا اُس نے کہا، میں نے سوچا یہ کتنا شاندار تھا کہ اب میں اِتوار کی شام کو دوسرے مبلغین کو سُننے کے لیے جا پاؤں گا۔ لیکن میں نے سوچا، ’’اُس کے لوگوں کا کیا بنے گا؟ کیا اُن میں سے کچھ کے ذہن میں یہی خیال نہیں ہوگا؟‘‘ اور اُن لوگوں کا کیا ہوگا؟ یاد رکھیں، بہترین لوگ اب بھی اِتوار کی شام کو گرجا گھر جانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ کہاں پر جائیں گے؟ کیا وہ نیچے گلی میں کرشماتی گرجا گھر میں جائیں گے؟ کیا وہ بائبل کے ایک نئے ایونجیلیکل اُستاد کے ایک ’’چالاک‘‘ پیغام کے ساتھ بھٹکنے میں رہنمائی پائیں گے، جس کا گرجا گھر محض نُکر پر ہی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اُن میں سے کچھ تو جائیں گے – اور کہ ہم اپنے بہترین لوگوں میں سے کچھ کو کھو دیں گے اگر ہم اپنی اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دیتے ہیں۔
2. وہ گرجا گھر جو اپنے اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دیتے ہیں وہ ہفتے کے عظیم ترین انجیلی بشارت سے تعلق رکھنے والے مواقعوں میں سے ایک کو کھو دیتے ہیں۔ مجھے ایک مبلغ نے ایک گرجا گھر کے بارے میں بتایا جو اپنی اِتوار کی شام کی عبادت کو بند کر چکا تھا۔ اِس کے بجائے، وہ صبح کی عبادت کے بعد لوگوں کو ایک سینڈوچ دیتے تھے اور پھر اُنہیں دوبارہ اجتماع گاہ میں ایک دوسری عبادت کرنے کے لیے واپس لے جاتے تھے۔ اِس طریقے سے وہ لوگ اِتوار کی دوپہر کو 2:00 بجے تک گھر پہنچ جاتے تھے۔ اُس مبلغ نے مجھے بتایا، ’’وہ اتنی ہی بائبل پا لیتے تھے۔‘‘ لیکن کیا اِتوار کی شام کے مقصد صرف ’’اُنہیں اور زیادہ بائبل پیش‘‘ کرنا ہی ہے؟ جی نہیں، یہ نہیں ہے! کئی سالوں تک اچھے گرجا گھروں نے اِتوار کی شام کی عبادت کو انجیلی بشارت کے پرچار کا ایک اِجلاس بنایا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ماضی میں بپٹسٹ گرجا گھروں کی سب سے زیادہ مضبوط باتوں میں سے یہ ایک تھی۔ لوگوں کی گمراہ رشتہ داروں، دوستوں، اور جان پہچان والوں کو اِتوار کی شام کو خوشخبری سُننے کے لیے لانے پر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ یہ بات اُس گرجا گھر کی اچھے لوگوں کو ایک گمراہ شخص کو شام کی عبادت کے لیے اِتوار کی تمام دوپہر دے دیتی ہے۔ آپ لوگوں کو صبح کی عبادت کے بعد ایک کھانا دے سکتے ہیں، جس کے بعد مذید اور بائبل کا مطالعہ ہو، لیکن یہ بات انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کو تباہ کر دیتی ہے کہ جس نے اِتوار کی شاموں میں ہمارے بپٹسٹ گرجا گھروں کو بننے میں مدد دی تھی! میرے ایک پادری دوست نے مجھے بتایا کیسے اُس کے گرجا گھر میں لوگوں میں سے ایک ناقابلِ تسخیر شخص نکلا جو اِتوار کی شام کو ہونے والی عبادت میں ’’اتفاقاً آنے کے نتیجے میں اُن کے گرجا گھر میں آیا تھا جب وہ شخص گمراہ تھا۔ اِتوار کی شام کو آپ اپنی عبادتیں بند کر دینے کی وجہ سے اُس جیسے کتنے بے شمار لوگوں کو کھو دیں گے اگر آپ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے اِس بہت بڑے موقعے کو کھو دیتے ہیں؟
3 وہ گرجا گھر جو اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دیتے ہیں وہ نوجوان لوگوں تک پہنچنے اور اُنہیں شاگرد بنانے کے ایک شاندار موقعے کو کھو دیتے ہیں۔ نوجوان لوگ رات کو باہر جانا پسند کرتے ہیں۔ یاد رکھیں، اِتوار کی شام کی عبادتوں کا بند ہونا صرف بوڑھے لوگوں کے لیے پُرکشش ہوگا، جو گھر جانا چاہتے ہیں، ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے، اور جلد بستر میں جانے کے لیے۔ یہ عموماً شادی شُدہ لوگ یا بوڑھے لوگ ہوتے ہیں جو اِتوار کی شام کی عبادتوں کو نہیں چاہتے۔ مگر وہ نوجوان لوگ نہیں جانتے خود کے ساتھ کیا کریں۔ میں یقین کرتا ہوں کہ مقامی گرجا گھر کو کم سِنوں کے لیے اور نوجوان بالغوں کے لیے ایک طرح سے ’’دوسرا گھر‘‘ ہونا چاہیے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ہماری کلیسیا کا مستقبل اُن کے ساتھ ہے۔ بوڑھے لوگ شاید جلد گھر جانا چاہتے ہیں۔ مگر کلیسیا کا مستقبل اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو نوجوان ہیں۔ میں یقین کرتا ہوں کہ شام کی عبادتوں کو اِن نوجوان لوگوں کے ذہن میں رکھ کر خصوصی طور پر ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ہم اُن کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، اُنہیں مسیح کے لیے جیت سکتے ہیں، اور مقامی گرجا گھر میں عبادت کے لیے اُنہیں تربیت دے سکتے ہیں، اگر ہمارے پاس اِتوار کی شام میں نوجوانوں کے لیے مانوس عبادتیں ہوں۔ دوسری طرف، اگر ہم اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کر دیتے ہیں، تو ہمارے گرجا گھروں میں نیلے بالوں کے ساتھ صرف مٹھی بھر بوڑھی خواتین ہی رہ جائیں گی، جو اِتوار کی صبح میں صرف ایک گھنٹے کے لیے گرجا گھر کی تقریباً خالی عمارت میں ڈر کے ماری دُبکی بیٹھی ہوں گی – جیسے قریب ہی نُکڑ موڑتے ہیں قریب میتھوڈسٹ گرجا گھر میں – جس نے اپنی اِتوار کی شام کی عبادتوں کو پچاس یا ساٹھ سال قبل خیرآباد کہہ دیا تھا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ وہ گرجا گھر جو اپنی شام کی عبادتوں کو چھوڑ دیں گے وہ اب سے چند ایک سال بعد ایسی ہی حالت میں ہو جائیں گے جب تک کہ ہم اپنی تبلیغ کی توجہ ہر اِتوار کی شام نوجوانوں پر مرکوز نہیں کرتے!
IV۔ چوتھی بات، اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنا ہمیں حقیقی حیاتِ نو پانے سے روکتا ہے۔
میں اِس موضوع کو بس صرف چھو ہی سکتا ہوں، لیکن میں یہ جاننے کے لیے کہ حیاتِ نو اکثر رات میں ہوئے اُن کی تاریخ کے بارے میں کافی مطالعہ کر چکا ہوں۔ درحقیقت خُدا کی جانب سے حیاتِ نو عموماً اِتوار کی شام ہی میں نازل ہوئے!
ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے ’’آدھی رات کے بعد پیدا ہوا Born After Midnight‘‘ نامی ایک پیغام لکھا۔ اُس میں اُنہوں نے کہا:
اِس تصور میں قابلِ غور سچائی ہے کہ حیات نو نے آدھی رات کے بعد جنم لیا، کیونکہ حیات نو… صرف اُنہی پر نازل ہوتے ہیں جو اُنہیں شدت سے چاہتے ہیں… اور یہ بات کہیں زیادہ ممکن ہے کہ وہ نایاب لوگ جو حیات نو کے غیرمعمولی تجربے میں سے کُچلے جاتے ہیں وہاں تک آدھی رات کے بعد پہنچتے ہیں (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، آدھی رات کے بعد پیدا ہوا Born After Midnight‘‘، اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر کے بہترین The Best of A. W. Tozer میں سے، وارن ڈبلیو۔ وائرسبی نے مرّتب کیا، بیکر، 1978، صفحات 37۔39)۔
مہربانی سے سے کوئی احمقانہ رائے مت دیجیے گا کہ میں کہہ رہا ہوں ہماری شام کی عبادتوں کو ہمیشہ آدھی رات تک رہنا چاہیے۔
تاہم، میں دو بپٹسٹ گرجا گھر میں معیاری حیاتِ نو، جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے، کے نایاب تجربے کا چشم دید گواہ رہ چکا ہوں۔ دونوں ہی نے شام کی عبادتیں کروائی تھی جو رات گئے تک چلتی رہیں۔ اُن میں سے ایک گرجا گھر نے تقریباً تین سالوں تک خدا کے نازل کیے ہوئے حیات نو سے بے شمار ہزاروں لوگوں کا اضافہ کیا۔ بے شمار اِجلاس رات گئے تک جاری رہتے تھے۔ دوسرے گرجا گھر نے تین مہینوں میں پانچ سو سے زیادہ لوگوں کا اضافہ کیا۔ خُدا کے بھیجے ہوئے اِن حیات نو میں سے دوسرا اِتوار کی شام کی عبادت میں شروع ہوا تھا۔ پہلے والے گرجا گھر میں شام کی عبادتیں بھی ہوتی تھیں اور ہفتے کی رات کی عبادتیں بھی ہوتی تھیں۔ اِس نے جنت سے نازل کیے گئے حیاتِ نو کا تجربہ کیا!
کیا اِن دو بپٹسٹ گرجا گھروں نے اِس قسم کی حیات نو کی برکت کا تجربہ کیا ہوتا اگر اُنہوں نے اپنی شام کی عبادتوں کو بند کر دیا ہوتا؟ جی نہیں، اُنہوں نے نہ کیا ہوتا! جیسا کہ ڈاکٹر ٹوزر نے کہا، حیات نو صرف اُن پر نازل ہوتا ہے ’’جو اِس کو کافی شدت کے ساتھ چاہتے ہیں۔‘‘ اگر ہمیں حیات نو شدت کے ساتھ چاہیے، تو ہم اُس انتہائی عبادت کو نہیں بند کریں گے جہاں خُدا اِس قدر اکثر حقیقی حیاتِ نو نازل کرتا ہے۔
خود ہمارے اپنے گرجا گھر پر خُداوند نے گذشتہ سال ایک شاندار حیاتِ نو نازل کیا۔ اُنتیس نوجوان لوگ چند ایک راتوں ہی میں نجات پا گئے – اور ہمارے گرجا گھر میں ٹک گئے کیونکہ وہ سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے۔ تقریباً وہ تمام کے تمام اِجلاس رات میں منعقد ہوئے تھے۔
اب میں مختصراً آپ میں سے یہاں اِس صبح اُن سے بات کروں گا جو ابھی تک نجات یافتہ نہیں ہیں۔ کیا آپ نجات پانے کے بارے میں بےتاب ہیں؟ کیا آپ اپنے گناہ کے بارے میں سزاوار ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یسوع آپ کو گناہ سے اور جہنم سے نجات دلائے؟ پھر میں اپنے تمام دِل کے ساتھ آپ سے اصرار کرتا ہوں کہ آج کی شام واپس آئیں۔ جان کیگن ’’گمراہ لوگوں کے لیے جنگ The Battle for Lost Souls‘‘ پر منادی کریں گے۔ یہ ایک واعظٖ ہے جو آپ کو للکارے گا – ایک واعظ جو آپ کی یسوع کو ڈھونڈنے میں مدد دے گا اور اُس کے پاک خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے نجات پائیں گے! واپس آنے اور آج شام کو جانJohn کے انتہائی شاندار واعظ کوسُننا یقینی بنائیں!
لیکن کیوں ابھی نجات پائے بغیر گھر جایا جائے؟ اپنے گناہ سے مُنہ موڑیں اور یسوع پر ابھی بھروسہ کریں! یسوع آپ کو آپ کے گناہ سے بالکل ابھی پاک صاف کر دے گا جب آپ اُس پر اور تنہا اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں!
مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور حمدوثنا کا گیت نمبر7 ’’کچھ بھی نہیں ماسوائے خون کے Nothing But the Blood‘‘ گائیں۔ جب ہم گائیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں پر سامنے آئیں اور دعا میں دوزانو ہو جائیں۔ ڈاکٹر کیگن، جان کیگن اور میں آپ کے ساتھ مشاورت کرنے کے لیے یہاں پر ہوں گے اور آپ کے ساتھ خُدا سے آپ کو یسوع کی جانب کھینچنے کے لیے دعا مانگیں گے۔ کیونکہ صرف یسوع ہی آپ کو آپ کے گناہ سے اُس خون کے وسیلے سے دھو کر پاک صاف کر کے نجات دلا سکتا ہے جو اُس نے آپ کو نجات دلانے کے لیے صلیب پر بہایا۔ آپ آئیں جبکہ ہم گاتے ہیں۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اپنے گیتوں کے ورق پر سے حمدوثنا کا گیت نمبر7 گائیں۔ یہ ’’کچھ بھی نہیں ماسوائے خون کے Nothing But the Blood‘‘ ہے اور یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر نمبر7 ہے۔
کیا چیز میرے گناہ کو دھو سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے؛
کیا چیز مجھے دوبارہ مکمل کر سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
اوہ! کس قدر قیمتی ہے وہ بہاؤ جومجھے برف کی مانند سفید بناتا ہے؛
کوئی دوسرا چشمہ میں نہیں جانتا، کچھ بھی نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
اپنے معافی کے لیے، یہ میں دیکھ سکتا ہوں، کچھ نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے؛
میرے دُھو ڈالنے کے لیے، یہ میری التجا ہے، کچھ نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
اوہ! کس قدر قیمتی ہے وہ بہاؤ جومجھے برف کی مانند سفید بناتا ہے؛
کوئی دوسرا چشمہ میں نہیں جانتا، کچھ بھی نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
کچھ بھی گناہ کا کفارہ نہیں ہوسکتا، کچھ نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے؛
نیکی کا کچھ نہیں جو میں کر چُکا ہوں، کچھ نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
اوہ! قیمتی ہے وہ بہاؤ جو مجھے برف کی مانند سفید بناتا ہے؛
اور کوئی دوسرا چشمہ میں نہیں جانتا، کچھ نہیں ماسوائے یسوع کے خون کے۔
(’’کچھ بھی نہیں ماسو ائے خون کے Nothing But the Blood‘‘ شاعر رابرٹ لوری
Robert Lowry، 1826۔1899).
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر ایبل پردھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: یہوداہ1۔4 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کنکیڈ گریفتھ Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
(’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیوں Onward, Christian Soldiers‘‘
شاعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔
لُبِ لُباب اتوار کی شب کے لیے لڑائی (جنگ کی بحرانوں کے سلسلے میں نمبر ایک) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونئیر کی جانب سے ’’عزیزو، جب میں تمہیں اُس نجات کے بارے میں لکھنے کا بے حد مشتاق تھا جس میں ہم سب شریک ہیں تو میں نے یہ خط لکھنا ضروری سمجھا تاکہ تُم مسیحی ایمان کے لیے جو مُقدسوں کو ایک ہی بار سونپ دیا گیا ہے، خُوب جانفشانی کرو‘‘ (یہوداہ 3). (متی25:5) I. پہلی بات، ہمارے گرجا گھروں میں اِتوار کی شام کی عبادت کا بند کرنا سب سے زیادہ II. دوسری بات، ہمارے گرجا گھروں میں اِتوار کی شام کی عبادت کا بند کرنا ’’فیصلہ III. تیسری بات، اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنے سے بے شمار غیر متوقع نتائج اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ IV. چوتھی بات، اِتوار کی شام کی عبادتوں کو بند کرنا ہمیں حقیقی حیاتِ نو پانے سے |