اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
ابھی سزایابی اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا –
|
جب داؤد سزایابی کی حالت میں تھا، اُس کا گناہ ہمیشہ اُس کے سامنے تھا۔ لیکن اُس کے پاس معاف کیے جانے کے لیے ابھی بھی ایک راہ تھی کیونکہ وہ ابھی بھی اِس دُنیا میں زندہ تھا۔ اُس کے لیے معاف کیا جانا ابھی بھی ممکن تھا۔ غور کریں اِس زبور میں داؤد نے اپنے گناہ کے دو پہلوؤں کا اِقرار کیا تھا۔
1. پہلا پہلو، وہ اُس اصل گناہ کے بارے میں جو اُس سے سرزد ہوا تھا قائل تھا۔ اُس نے آیت 4 میں کہا، ’’میں نے فقط تیرے ہی خلاف گناہ کیا ہے‘‘ (زبور51:4)۔ اُس نے ظاہر کیا تھا کہ اُس کو جو گناہ اُس نے کیا تھا اُس کے لیے جرم کا احساس ہو گیا تھا۔
2. دوسرا پہلو، آیت 5 میں وہ معاملے کی جڑ تک گیا تھا، ’’یقیناً میں اپنی پیدائش سے ہی گنہگار تھا، بلکہ اُس وقت سے گنہگار ہوں جب میں اپنی ماں کے رحم میں پڑا تھا‘‘ (زبور51:5)۔ اپنے اعتراف کے دوسرے حصے میں، اُس نے ظاہر کیا تھا کہ اُس کو موروثی گناہ پر جرم کا احساس ہوا تھا، جو اُس کو اُس کے پہلے آباؤاجداد، آدم، سے وراثت میں ملا تھا۔ اُس نے ناپاک اور غلیظ محسوس کیا تھا اُس موروثی گناہ کی وجہ سے جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔ وہ گناہ سے بھرپور دِل تمام زندگی اُس کے پاس تھا۔
پہلی عظیم بیداری کے مبلغین نے، خصوصی طور پر جارج وائٹ فیلڈ نے، اپنی تبلیغ میں گنہگاروں سے [کو اُکسایا تھا] چھان بین کروائی تھی جب تک کہ اُنہوں نے اپنے اصل گناہوں کا اقرار نہیں کیا اور اپنایا نہیں۔ لیکن وائٹ فیلڈ، اُس زمانے کے عظیم ترین مبلغ، بہت آگے نکل گئے۔ اُنہوں نے اُن کی موروثی گناہ کی فطرت، اُن کی گناہ کی قدرتی حالت، جس میں وہ پیدا ہوئے تھے اور جس میں اُنہوں نے اپنی ساری زندگی بسر کی تھی اُس سے تعلق رکھتے ہوئے پھر اُن کے ضمیروں کو اُکسایا۔ وائٹ فیلڈ نے اکثر کہا کہ ایک شخص جو اپنی موروثی گناہ کی فطرت پر جرم محسوس نہیں کرتا، کبھی بھی مسیح میں سچے طور پر ایمان لا کر تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اُنہوں نے اُس نکتے پر شدید زور دیا، جب تک کہ اُس کی عبادتوں میں بے شمار لوگ گہری سزایابی کے تحت نہ آ گئے کہ وہ آدم میں قصوروار تھے، کہ اُن کی گنہگار فطرت، جو آدم سے وراثت میں ملی تھی، بدکار تھی اور خُدا کے لیے گستاخی تھیں۔ وہ قدرتی طور پر اِس قدر بدکار اور گستاخ تھے، پیدائش ہی سے، کہ اگر اُنہیں اصل میں، جسمانی گناہ سرزد نہیں کیا تھا، وہ تب بھی جہنم کے لیے بدقسمت تھے، کیونکہ اُن کی انتہائی فطرتیں گناہ سے بھرپور تھیں۔
کیا آپ نے اُن میں سے کسی کو کبھی محسوس کیا؟ کیا آپ نے کبھی بھی محسوس کیا کہ خُدا کی ہر وقت نظر رکھنے والی آنکھ کے سامنے آپ کا انتہائی اندرونا پن آپ کا باطن تباہ حال، باغی اور گناہ سے بھرپور تھا؟ کیا آپ نے کبھی بھی محسوس کیا کہ آپ نے بدکاری میں شکل اختیار کی، کہ آپ گناہ میں پیدا ہوئے؟
پاک روح کی سزایابی کے نتیجے میں آپ کو اصلی گناہوں جن کو آپ سرزد کر چکے ہیں پر شدید قصوروار اور شرمندہ ہونا چاہیے۔ اِس کے علاوہ، پاک روح کے قائل کر دینے والے کام سے آپ کو شدید طور پر آگاہ ہو جانا چاہیے کہ آپ فطرتی طور پر ایک گنہگار ہیں، پیدائش ہی سے، ساری زندگی خُدا سے موروثی طور پر ایک گنہگار ردعمل رکھنے نے، اِس بات کو ناممکن بنا ڈالا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے آپ اُس کو خوش کر پائیں، کیونکہ آپ موروثی فطرت میں ایک گنہگار ہیں،
’’اِس لیے کہ جسمانی نیت [غیرتبدیل شُدہ نیت] خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7).
جب ایک شخص خود کو اِس طرح سے دیکھتا ہے، پیدائش گناہ کے ذریعے سے غلامی میں جکڑا ہوا، خود اپنی گنہگار معلونیت کے ذریعے سے قدرت اچھائی سے محروم، وہ خُدا کے سامنے بِلبلا اُٹھے گا،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
وہ ذاتی گناہ جو وہ سرزد کر چکا ہے وہ بھی اُسے اپنے گناہ کے جرم کے ناخوشگوار وزن کے بوجھ تلے دبائیں گے، اور وہ اپنے وراثتی، پیدائشی طور پر گناہ سے بھرپور فطرت کے ذریعے سے دبایا جائے گا اور کُچلا جائے گا، جو اُس کو اِس قدر جُھکا دیں گے اور اُس کو تباہ کر ڈالیں گے کہ وہ خود اپنے دِل میں اور اپنے ذہن میں گناہ سے فرار نہیں پا سکتا۔ تب وہ کہے گا،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
پاک روح کا پہلا کام آپ کو اُس طرح سے قائل کرنا اور آپ کی تنبیہہ کرنا ہوتا ہے۔ روح کے کام سے تعلق رکھتے ہوئے یسوع نے کہا،
’’جب وہ مددگار آ جائے گا، تو وہ دُنیا کو مجرم قرار دے گا‘‘ (یوحنا 16:8).
مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے یہ بات کُلی طور پر یقینی ہوتی ہے کہ روح کے اِس کام کو آپ کے باطن میں رونما ہونا چاہیے۔ آپ کو باطنی طور پر تنبیہہ ہونی چاہیے، خُدا کے وسیلےسے قائل ہونا کہ آپ فطرتی طور پر ایک گنہگار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی وجہ سے بھی گنہگار ہیں۔ پاک روح کے اِس عمل کے تحت، آپ وہ محسوس کرنا شروع کر دیں گے جو داؤد نے محسوس کیا تھا جب اُس نے کہا،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
اگر آپ سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ذہن کی اُسی حالت میں ہونا چاہیے، کم یا زیادہ، جب تک کہ آپ مسیح یسوع میں سکون نہیں پا لیتے۔ آپ کو روح کی پیاس بُجھانے کے لیے محتاط رہنا چاہیے (1تسالونیکیوں5:19)۔ ’’پیاس بُجھاناquench‘‘ شعلوں کو بجھانے کے لیے حوالہ دیتا ہے۔ اگر پاک روح آپ کے دِل میں سزایابی کے شعلوں کو جلاتا ہے، تو آپ کو اُن کی پیاس نہ بُجھے اِس کے لیے شدید احتیاط کرنی چاہیے۔
’’پاک رُوح کو مت بُجھاؤ۔ نبوتوں کی حقارت نہ کرو‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 5:19۔20).
سزایابی کی آگ کو مت بُجھائیں۔ واعظوں کی، پیشن گوئیوں کی، جنہیں آپ واعظ گاہ سے سُنتے ہیں اُن کی تحقیر مت کریں۔
آپ روح کی پیاس اپنے گناہ پر خود سے معافی مانگنے کے ذریعے سے بُجھا سکتے ہیں۔ آپ کسی اور پر الزام لگا سکتے ہیں۔ آپ خود کا کسی اور کے ساتھ موازنہ کر سکتے ہیں، اور سوچ سکتے ہیں ’’میں اُس کے مقابلے میں بدتر نہیں ہوں۔‘‘ یہ شعلوں کی پیاس کو بُجھا دیتا ہے، اور آپ کے دِل میں سزایابی کی آگ کو بُجھا ڈالتا ہے۔ آپ خود پر واعظوں کا اِطلاق کرنے کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں، ’’یہ اُن کے لیے سُننا اچھا ہے، مگر مجھے توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یہ بات بھی سزایابی کی آگ کی پیاس کو بُجھا ڈالتی ہے اور مسیح میں سچی نجات سے آپ کو مذید اور دور لے جاتی ہے۔ آپ سزایابی کے احساس کو پا سکتے ہیں، لیکن جان بوجھ کر اِس کو اپنے ذہن سے کسی بہت زیادہ خوشگوار بات کے بارے میں عبادت کے ختم ہو جانے کے بعد سوچنے کے ذریعے سے بُجھا سکتے ہیں۔ یوں، اگلے واعظ تک، آپ نے کچھ بھی نہیں حاصل کیا ہوتا ہے۔ آخری واعظ میں جرم کا وہ احساس جو آپ میں تھا اُس کی پیاس بُجھ چکی ہوتی ہے، آپ کے دِل میں آگ بُجھ چکی ہوتی ہے۔
’’تب شیطان آتا ہے اور اُن کے دلوں سے کلام کو نکال لے جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان لائیں اور نجات پائیں‘‘ (لوقا 8:12).
آپ کو شدید احتیاط کرنی چاہیے ورنہ یہ آپ کے ساتھ رونما ہو جائے گا۔ شیطان ہمیشہ آپ کے دِل میں سے آخری واعظ کے قائل کر ڈالنے والے الفاظ کو چھین کر لے جانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اگر ہر واعظ کو ایک علیحدہ اکائی کی حیثیت سے لیا جائے، تو آپ کے دِل میں سے ’’کلام کو نکال لے جانا‘‘ شیطان کے لیے آسان ہو جائے گا۔ ہر واعظ سے آپ کو زیادہ سے زیادہ قائل ہونا چاہیے کہ آپ آدم کے ایک مسخ شُدہ بچے ہیں، کہ آپ ’’گناہ کے تحت‘‘ ہیں (رومیوں3:9)، اور کہ آپ نے خُدا کی حضوری میں اور خُدا کے علم میں بے شمار اصلی گناہ بھی سرزد کیے ہوتے ہیں۔ ہر واعظ کو آپ کو زیادہ سے زیادہ آپ کے گناہ کی آگاہی کی گہرائی کے تحت لانا چاہیے جب تک کہ بالاآخر، آپ داؤد کے ساتھ کہہ سکیں،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
ہر شخص کی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی مختلف ہوتی ہے کیونکہ ہر انسان کی ایک مختلف شخصیت ہوتی ہے۔ ہم سب کے سب کُلی طور پر ایک جیسے نہیں ہیں۔ کچھ، جیسے مسز ہائیمرز، اور مسز کیگن جیسے ہیں، جو شاید سزایابی کے ایک انتہائی مختصر سے دورانیے میں بہت جلدی سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جاتے ہیں، شاید چند ایک منٹوں میں۔ دوسرے، ہمارے پادری صاحب ڈاکٹر ہائیمرز کی مانند ہوتے ہیں، جو سزایابی کی حالت میں ایک طویل مدت تک رہتے ہیں۔ ہمارے عظیم بپٹست جِدامجد جان بنعین بہت بھاری، ذہن کو تقریباً پاگل کر ڈالنے والی سزایابی کے تحت یسوع میں اپنے سکون پانے سے پہلے 18 مہینوں تک رہے تھے
اِس کے علاوہ، سزایابی کا درجہ مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ، جیسا کہ میں ایک شخص کوجانتا ہوں، جو ایک انتہائی طویل مدت تک کے لیے جس کو دورِحاضرہ کے لوگ ’’ذہنی دباؤ‘‘ کہتے ہیں میں سے گزرتا ہے۔ بیشک، وہ اصل میں ’’ذہنی دباؤ‘‘ نہیں ہوتا ہے۔ وہ اصل میں خُدا کے روح کی سزایابی ہوتی ہے۔ وہ ہستی اُس سزایابی کی حالت میں سے نکل نہیں پائیں تھی جب تک کہ اُنہوں نے پاک صاف ہونے اور راستبازی پانے کے لیے مسیح کی جانب رُخ نہیں کیا تھا۔
کون شک کر سکتا ہے کہ نیکودیمس کئی مہینوں تک اِس ہی قسم کی اندرونی جدوجہد سے گزرا تھا؟ وہ رات کو مسیح سے بات کرنے کے لیے آیا، غالباً خوف کی وجہ سے کہ دوسرے اُس کو وہاں جاتا ہوا دیکھ لیں گے۔ اُس نے اقرار کیا تھا کہ مسیح ’’خُدا کی جانب سے آیا ہوا ایک عظیم اُستاد‘‘ تھا (یوحنا3:2)۔ لیکن یسوع نے نشاندہی کی،
’’تُم سب کو نئے سرے سے پیدا ہونا لازمی ہے‘‘ (یوحنا 3:7).
ثبوت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے کہ وہ اُس رات مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گیا تھا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جو الفاظ مسیح نے اُس سے کہے تھے وہ اُس کے دِل میں اُسے دُکھاتے رہے تھے۔ اُوشرUssher کی تاریخ لگانے کے لحاظ سے، سیکوفیلڈ مطالعہ بائبل Scofield Study Bible کے ہر صفحے کے اُوپری وسطی مارجن میں، نیکودیمس تقریباً دو سال بعد بھی اپنی نجات کے سوال کے ساتھ اُلجھ رہا تھا۔ 30 بعد از مسیح، مسیح نے اُسے بتایا، ’’تمہیں نئے سرے سے جنم لینا چاہیے۔‘‘ لیکن وہ تب بھی اُسی بارے میں سوچتا ہوا چلا گیا۔ دو سال بعد، 32 بعد از مسیح میں، پہلی مرتبہ اُس نے کھلم کُھلا مسیح کا دفاع کیا تھا۔ اُس وقت اُس نے فریسیوں سے بات کی تھی۔
’’نیکودیمس جو یسوع سے پہلے مل چُکا تھا اور جو اُن ہی میں سے تھا، پُوچھنے لگا: کیا ہماری شریعت کسی شخص کو مجرم ٹھہراتی ہے جب تک کہ اُس کی بات نہ سُنی جائے اور یہ نہ معلوم کر لیا جائے کہ اُس نے کیا کِیا ہے؟‘‘ (یوحنا 7:50۔51).
فریسیوں نے تب اُس پر تنقید کی تھی شاید مسیح کے پیروکارو میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے۔ لیکن نیکودیمس خاموش رہا تھا جب اُنہوں نے وہ کہا تھا۔ اُس نے تب بھی کھلم کُھلا، مسیح کے لیے واضح ڈٹا نہیں رہا تھا۔ وہ ابھی تک ایک گمراہ شخص تھا، مسیح کے بارے میں خیالات اور سزایابی کے ساتھ جدوجہد کرتا ہوا۔ یوحنا 3 اور یوحنا7:40۔53 پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ بعد میں ہم ایک سال بعد (33بعد از مسیح) پھر نیکودیمس کو یسوع کے مُردہ بدن پر مُر اور لُبان لگانے کے لیے لاتا ہوا پاتے ہیں (یوحنا19:39)۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہ ابھی تک غیرنجات یافتہ ہی تھا کیونکہ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا مسیح کے وعدے میں کوئی ایمان نہیں تھا کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اِس کے باوجود یہ پھر بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی مسیح کے لیے شدید رغبت تھی، اور مسیح کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور تقریباً تین سالوں تک نجات کے لیے اپنی ضرورت کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ یہ عمل شدت کے ساتھ اشارتاً ظاہر کرتا ہے کہ بالاآخر کچھ عرصہ بعد وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گیا تھا۔ ابتدائی مسیحی روایت نیکودیمس کو ابتدائی مسیحیوں میں شمار کرتی ہے، اور میرے خیال میں یہ صحیح ہے، اور کلام پاک میں موجود ہے، ورنہ یوحنا رسول نے مسیح کی قبر پر اُس کے اعمال کو اچھی روشنی میں درج نہ کیا ہوتا۔
کیا آج کی رات یہاں پر کوئی ہے جو ایک طویل مدت تک نجات سے تعلق رکھتے ہوئے آگے پیچھے جدوجہد کر چکا ہے؟ کیا آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے اپنی ضرورت پر قائل ہو چکے ہیں؟ کیا آپ نے آپ کے گناہ کے لیے خود کو بیدار کرنے کے لیے خُدا کے روح کے مکمل عمل کی مزاحمت کی ہے؟ کیا آپ خُدا کے روح کو آج کی رات کے تحت خود کو کھینچ لینے دیں گے اور خود کو اُس ناگوار سچائی کے مدمقابل لانے دیں گے کہ آپ غیرنجات یافتہ ہیں، کہ آپ نے یسوع کی مزاحمت کی ہے، کہ آپ ایک گنہگار ہیں جس کو شدت کے ساتھ نجات دہندہ کی ضرورت ہے؟ کیا آج کی رات آپ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
یا، شاید آج کی شام یہاں پر کوئی ہو جو اُتنے ہی قلیل عرصہ کے اندر اندر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائے جتنا نیکودیمس کا تھا۔ فلپی میں قیدخانے کے نگران نے محض چند ایک حمدوثنا کے گیت اور دعائیں پولوس اور سیلاس سے سُنی تھیں، جب وہ اُس کے قیدخانے میں زنجیروں میں قید تھے۔ لیکن اُن حمدوثنا کے گیتوں اور دعاؤں نے اُس کے باطن میں ایسی سزایابی دلائی تھی کہ جب زلزلہ آیا تو وہ قیدخانے میں بھاگا گیا تھا۔
’’داروغہ نے چراغ منگوایا اور اندر جا گھُسا اور کانپتا ہُوا پَولُس اور سیلاس کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ پھر اُنہیں باہر لایا اور کہنے لگا، صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پا سکُوں؟‘‘ (اعمال 16:29۔30).
حالانکہ قیدخانے کے نگران کے معاملے میں سزایابی محض چند ایک منٹوں کے لیے ہی تھی، وہ شدید اور گہری تھی۔ اُن چند ایک منٹوں میں اُس نے بلاشک داؤد ہی کے جیسے الفاظ کہے ہونگے،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
چاہے سزایابی جو آپ کے پاس ہے طویل مدت تک رہے یا مختصر مدت تک، چاہے دِل میں یہ انتہائی گہرا یا چھوٹا سا گھاؤ ہو، جیسا پینتیکوست پر لوگوں نے محسوس کیا تھا (اعمال2:37)، آپ کے لیے گناہ کی سزایابی میں ہونا اشد ضروری ہے ورنہ صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے یسوع کی موت کی قدروقیمت کو آپ نہیں دیکھ پائیں گے، اور گناہ سے آپ کو پاک صاف کرنے کے لیے آپ اُس کے خون کی قدر کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ مسیح کی خوشخبری خالی الفاظ کی مانند لگے گی جب تک آپ وہی محسوس نہ کر پائیں جو داؤد نے محسوس کیا تھا،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
اور اب، ایک حتمی خیال۔ اگر آپ اِس زندگی میں سزایابی کی سمجھ کے تحت نہیں لائے جاتے، تو آپ یقینی طور پر اگلی زندگی میں ہوں گے۔ جہنم میں، آپ کہیں گے،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
جہنم میں آپ ہمیشہ تک کے لیے جرم کے احساس سے لبریز کر دیے جائیں گے۔ زمانوں کی مدتوں تک کے لیے آپ کے خیالات ہو جائیں گے،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘
مگر یہ سزایابی خالصتاً قانونی ہوگی اور تب نجات کی جانب رہنمائی نہیں کرے گی۔ کیونکہ جہنم میں مسیح کے خون اور قربانی کے ذریعے سے آپ کو مذید اور معافی مہیا نہیں ہو گی۔
’’جس طرح اِنسان کا ایک بار مَرنا اور اُس کے بعد عدالت کا ہونا مُقرر ہے‘‘
(عبرانیوں 9:
27).آپ کبھی نہ ختم ہونے والے جرم کے ساتھ رہتے ہی رہیں گے، اپنے گناہ سے قائل ہو کر – لیکن ہمیشہ بھر کے لیے اِن گناہوں کو مسیح یسوع کے ذریعے سے معاف کروانے اور پاک صاف کروانے کے نا اہل ہو جائیں گے۔ کیونکہ آپ تب اتنے ہی مذمتی ہونگے جتنا شیطان اور اُس کے فرشتے۔
لوقا16 باب میں دولت مند شخص نے ایک بار بھی معافی یا پاک صاف ہونے کے لیے نہیں پوچھا تھا۔ جو وہ پوچھ پایا وہ پانی کے ایک قطرے کے لیے تھا جو
’’میری زبان کو ٹھنڈک پہنچائے؛ کیونکہ میں اِس آگ میں تڑپ رہا ہُوں‘‘
(لوقا 16:24).
اُس نے مسیح میں معافی طلب نہیں کی تھی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس نے انتہائی زیادہ انتظار کیا تھا اور کہ اُس کے لیے مذید اور نجات مہیا نہیں تھی۔
اگر آج کی شام آپ محسوس کرتے ہیں،
’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبُور 51:3).
پھر مسیح کے پاس ابھی آنے کو اپنی زندگی کی سب سے اہم بات بنا لیں، اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے اپنے گناہوں کو دھو کر پاک صاف کر لیں۔ انتظار مت کریں۔ بادشاہت میں گُھس جائیں۔ بائبل کہتی ہے،
’’دیکھو، قبولیت کا وقت یہی ہے اور نجات کا دِن آج ہی ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 6:2).
سزایابی والے ضمیر کے ساتھ گناہ سے پاک صاف ہونے کے لیے اور معاف کیے جانے کے لیے گنہگاروں کے پاس ابھی قبولیت کا وقت ہے۔ آپ کو ابھی ہی سزایابی کا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کا تجربہ کرنا چاہیے ورنہ آپ کے پاس ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ضمیر ہوگا۔ ڈاکٹر ہائیمرز، مہربانی سے آئیں اور اِس عبادت کا اختتام کریں۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت ڈاکٹرکرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan
نے کی تھی: زبور 51:1۔7) .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’کچھ بھی نہیں ماسو ائے خون کے Nothing But the Blood‘‘
(شاعر رابرٹ لوری Robert Lowry، 1826۔1899).