اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
واعظ سے پہلے گیت گائے، ڈاکٹر ہائیمرز کی رہنمائی میں: شیطان اور حیاتِ نوSATAN AND REVIVAL ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
مہربانی سے کھڑے ہوں اور سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل میں سے صفحہ 1255 کھولیں۔ یہ افسیوں6:11 اور 12 آیت ہے۔
’’خدا کے دیئے ہُوئے تمام ہتھیاروں سے لیس ہو جاؤ تاکہ تُم اِبلیِس کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکو۔ کیونکہ ہمیں خُون اور گوشت یعنی اِنسان سے نہیں بلکہ تاریکی کی دُنیا کے حاکموں، اِختیار والوں اور شرارت کی رُوحانی فوجوں سے لڑنا ہے جو آسمانی مقاموں میں ہیں‘‘ (افسیوں6:11۔12).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح شیطان کے آسیبی میزبان سچی مسیحیت کے دشمن ہیں۔ نئی امریکن سٹینڈرڈ بائبل New American Standard Bible اِس آیت کا ترجمہ یوں کرتی ہے۔
’’کیونکہ ہمیں خُون اور گوشت یعنی اِنسان سے نہیں بلکہ تاریکی کی دُنیا کے حاکموں، اِختیار والوں [’’حکمرانوں،‘‘ اُونگرUnger] اور شرارت کی رُوحانی فوجوں سے لڑنا ہے جو آسمانی مقاموں میں ہیں‘‘ (افسیوں 6:12، NASB).
ڈاکٹر میرِل ایف۔ اُونگر Dr. Merrill F. Unger نے کہا، ’’بدی کی روحوں کی قوتوں کی سب سے زیادہ دلچسپ منزل… اِس ’تاریکی کے دُنیاوی حکمران‘ ہیں… یہ بدی کی حکمران روحیں‘‘ (بائبلی آسیبیت کا علم Biblical Demonology، کریگل پبلیکیشنز Kregel Publications، 1994، صفحہ196)۔ ڈاکٹر چارلس رائیری Dr. Charles Ryrie نے یہ رائے دانی ایل10:13 پر پیش کی تھی، ’’فارس کی بادشاہت کا شہزادہ… ایک فوق الفطرت مخلوق جس نے فارس کے حکمرانوں کو خُدا کے منصوبے کی مخالفت کرنے کے لیے رہنمائی کرنے کی کوشش کی۔ بُرے فرشتے [شیطان ’دُنیاوی قوتیں‘] قوموں کے معاملات پر حکمرانی کرنے کی تلاش میں… قوموں کو قابو کرنے کے لیے نیک اور بُرے فرشتوں میں جنگ جاری رہتی ہے‘‘ (رائیری مطالعۂ بائبل Ryrie Study Bible؛ دانی ایل10:13 پر غور طلب بات)۔
میں قائل ہو چکا ہوں کہ ایک حکمرانی شیطان ہے جو امریکہ اور مغربی دُنیا پر قابو پا چکا ہے۔ سیکوفیلڈ کی دانی ایل10:20 پر مرکزی غور طلب بات کہتی ہے، ’’شیطانی صفت والے لوگ دُنیا کے نظام کی جانب سے فکر مند ہیں۔‘‘ یہ غور طلب بات ’’فارس کی مملکت کے شہنشاہ‘‘ کے لیے حوالہ دیتی ہے۔ یہ ’’شہنشاہ‘‘ جو فارس کی مملکت پر قابو کیے ہوا تھا ایک معروف آسیب تھا۔ آج ’’مغرب کا شہزادہ‘‘ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں پر قابو کیے ہوئے ہے۔ اور وہ اہم آسیب جو امریکہ اور مغرب پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اُس کو ہماری تہذیب کو مکمل طور پر مادیت پرست بنانے کے لیے قوت فراہم کی جا چکی ہے۔ مادیت پرستی کا یہ حکمران آسیب حیاتِ نو میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے، ہماری دعاؤں میں رخنہ ڈالتا ہے، اور ہمارے لوگوں کو غلام بناتا ہے۔ حکمرانی کرتا ہوا یہ آسیب ہمارے لوگوں کے ساتھ کیا کر چکا ہے؟ آسیبوں پر بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے ہمیں بتایا کہ یہ آسیبی قوت کرتی کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس آسیبی قوت نے ہمارے لوگوں کے ذہنوں کو اندھا کر دیا ہے۔ اُںہوں نے کہا، ’’ساری کی ساری روحانیت [تصور] جا چکی ہے۔ اُس انتہائی خُدا میں اعتقاد واقعی میں جا چکا ہے… خُدا اور مذھب اور نجات کے بارے میں یہ اعتقاد نظرانداز کیا جا چکا ہے اور بُھلایا جا چکا ہے‘‘ (حیاتِ نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1992، صفحہ13)۔ یہ ’’مغرب کے شہزادے‘‘ اور اُس کے ماتحت کم طاقت والے آسیبوں کے عمل کی وجہ سے ہو چکا ہے۔
یہ بات دوسری قوموں کے بارے میں سچی نہیں ہے۔ تیسری دُنیا میں ایسی قومیں ہیں جہاں پر ’’مادیت پرستی‘‘ کا وہ بہت بڑا آسیب اُسی قوت کے ساتھ حکمرانی نہیں کرتا جیسے وہ امریکہ اور مغرب میں کرتا ہے۔ چین میں، افریقہ میں، اِںڈوچین میں، یہاں تک کہ مسلم قوموں میں لاکھوں نوجوان لوگ – لاکھوں نوجوان لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو رہے ہیں۔ اُن میں سے لاکھوں حقیقی مسیحی بن رہے ہیں۔ مگر امریکہ اور مغرب میں، لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لوگ گرجہ گھروں کو چھوڑ رہے ہیں۔ اور انتہائی چند ایک نوجوان لوگ ہی حقیقی مسیحی بن رہے ہیں۔ ہمارے گرجہ گھر بے بس ہیں۔ ہمارے دُعائیہ اِجلاس خالی ہو چکے ہیں۔ ہمارے نوجوان لوگوں کو خُدا کے لیے کوئی چاہت نہیں رہی۔ رائے شماری کرنے والے جارج برنا George Barna کے مطابق، ہمیں بتایا گیا ہے کہ اُن میں سے 88 % ہمارے گرجہ گھروں کو 25 برس کی عمر ہونے تک چھوڑ دیتے ہیں، ’’کبھی دوبارہ واپس نہ آنے کے لیے۔‘‘ وہ فحاشی میں جکڑے جا چکے ہیں، جو وہ انٹرنیٹ پر گھنٹوں تک دیکھتے ہیں۔ اور چرس اور بھنگ جیسے منشیات میں گرفتار ہیں۔ وہ دعاؤں پر ہنستے ہیں، لیکن لگاتار کئی کئی گھنٹوں تک سوشل میڈیا کی وجہ سے محسور ہو چکے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں میں ہر وقت سمارٹ فون رہتے ہیں۔ وہ واقعی میں اِن آلات کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ وہ ہر آزاد لمحہ اُنہیں تکنے میں گزار دیتے ہیں۔ اُنہیں ویسے ہی تکتے رہتے ہیں جیسے قدیم لوگ ہوسیع نبی کے دور میں اپنے بتوں کو تکتے رہتے تھے۔ ہمارے نوجوان لوگوں کو قابو کرنے کے لیے شیطان کی جانب سے استعمال کیے جانے والا بُت سوشل میڈیا ہے۔
ہوسیع کے دور میں اِس قدر بُرائی پھیل چکی تھی کہ خُدا نے کہا، ’’[اسرائیل] بتوں سے مل گیا: اسے اکیلا چھوڑ دو‘‘ (ہوسیع4:17)۔ قوم کو خُدا نے چھوڑ دیا تھا۔ اُنہیں خُدا نے ترک کر دیا تھا۔ وہ تنہا چھوڑ دیے گئے تھے، آسیبوں کی قوت کے نیچے۔ اُن طاقتور آسیبوں کے تحت جو خود ہمارے اپنے نوجوان لوگوں کو فحاشی، چرس اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہر گھنٹے میں غلام بنا رہے ہیں! اُن آسیبوں کے ذریعے سے جو نوجوان لوگوں کو گمراہ دوستوں کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں۔ اُس قسم کے آسیب جو نوجوان لوگوں کو مادیت پرستی کا غلام بنا دیتے ہیں، جو اُن میں سے کچھ کو کیرئیر کا غلام بنا دیتے ہیں جو اُنہیں ایک روحانی مسیح بننے سے روکتا ہے، جو دوسروں کو فحاشی اور شادی شُدہ ہونے کے باوجود جنسیت کے کبھی نہ ختم ہونے والے تعاقب کا غلام بنا دیتا ہے۔ ’’[اسرائیل] بتوں سے مل گیا: اسے اکیلا چھوڑ دو‘‘ (ہوسیع4:17)۔ آج رات یہاں آپ میں سے کچھ لوگ آسیبی قوت کے ذریعے سے غلام بن چکے ہوئے ہیں۔
آپ ہمارے گرجہ گھر میں آتے ہیں۔ لیکن خُدا یہاں نہیں ہے۔ آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ خُدا یہاں نہیں ہے! ہوسیع نبی نے کہا، وہ جاتے ہیں… ’’خُداوند کی تلاش کرنے کے لیے؛ تو وہ اُسے نہیں پائیں گے کیونکہ وہ اُن سے دور ہو چکا ہے‘‘ (ہوسیع5:6)۔ خُداوند جا چکا ہے! وہ ہمارے گرجہ گھر کو چھوڑ چکا ہے۔ وہ ہمارے گرجہ گھر کو چھوڑ چکا ہے۔ وہ غیر حاضر ہے۔ وہ اِس لیے غیرحاضر نہیں ہے کیونکہ وہ وجود نہیں رکھتا! خُدا وجود رکھتا ہے – اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں چھوڑ چکا ہے! وہ کُلّی طور سے پاک ہے۔ وہ ہمارے گناہ کے ساتھ مکمل طور پر ناراض ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ آپ کو تنہا چھوڑ چکا ہے۔ تنہا آپ کے گھر میں۔ تنہا آپ کی دعاؤں میں۔ تنہا یہاں تک کہ ہمارے گرجہ گھر میں۔ تنہا خُدا کی موجودگی کو محسوس کیے بغیر۔ میں خود اپنے تجربے سے جانتا ہوں کس قدر ہولناک میں نے محسوس کیا تھا جب میں ایک کاؤکیشیئین Caucasian گرجہ گھر میں ایک نوبالغ کی حیثیت سے گرجے میں حاضر ہوا تھا اور میرے لیے وہاں پر خُدا موجود نہیں تھا۔ میں تنہا تھا – بالکل وہیں گرجہ گھر میں۔ تنہا، بالکل جیسے گرین ڈے Green Day نے اپنے مشہور گیت میں اِس کو تحریر کیا،
کبھی میں خواہش کرتا ہوں کہیں کوئی نہ کوئی مجھے ڈھونڈ لے گا
اُس وقت تک کے لیے میں تنہا چلتا ہوں۔
(سبز دِن Green Day، ’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ
Boulevard of Broken Dreams،‘‘ 2004)۔
میں جانتا ہوں آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ میں لاس اینجلز کی سڑکوں پر جب میں نوبالغ تھا تو تنہا چلا ہوا ہوں، تنہا، جب میں آپ کی مانند نوجوان تھا! میں تو یہاں تک کہ جب کاؤکیشیئین گرجہ گھر میں بھی تھا تو بھی تنہا ہی تھا، میرے ایک چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے۔ اوہ، جی ہاں! مجھے یاد ہے میں نے کیسا محسوس کیا تھا! اور مجھے اُس سے نفرت ہے! مجھے مادیت پرستی کے اُس آسیب سے نفرت ہے جس نے آپ کے گھر میں محبت کو تباہ کر دیا ہے، جس نے آپ کی خوشیوں کو تباہ کر دیا ہے، جس نے آپ کے دِل کو تباہ کر دیا ہے اور آپ کو اِس قدر تنہا کر دیا ہے۔ میں اُس آسیب سے نفرت کرتا ہوں جس نے ہمارے گرجہ گھر کو سرد اور غیردوستانہ بنا دیا ہے۔ مجھے امریکہ کے گناہ سے نفرت ہے جس نے تم سے وہ اچھی چیزیں چُرا لی جو خُدا نے تمہارے پانے کے لیے رکھی تھیں! آپ میں سے کچھ لوگ ایک صدارتی اُمیدوار کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ اُس نے آپ سے ہر چیز کے لیے وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن وہ چلا جاتا ہے اور آپ کے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑتا! ایسا ہی زیادہ تر مبلغین کرتے ہیں۔ وہ آپ سے ہر چیز کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ بھی حقیقی نہیں ہوتا! آپ آسیبوں کے اندھے کر دینے والے طاقت و رسوخ کے زیر اثر ہیں! اور اُن شیطانی اثرات کی وجہ سے آپ تنہا ہیں! خُدا امریکہ میں سے اور مغرب میں سے چھوڑ کے جا چکا ہے! خُدا ہمیں ہمارے گناہ کی وجہ سے تنہا چھوڑ کر جا چکا ہوا ہے! اور خُدا آپ کو آپ کے گناہ کی وجہ سے تنہا چھوڑ کر جا چکا ہے۔
ہمیں خُدا کو اپنے گرجہ گھر میں لانا ہوگا! ہمیں اُس کی موجودگی کو اپنے درمیان میں لانا ہی ہوگا! ہم آپ نوجوان لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے۔ ہم بالکل بھی آپ لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے۔ ہم آپ لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے جب تک کہ خُدا نیچے نہیں آ جاتا۔ ہمیں اپنے گناہوں کے لیے توبہ کرنی چاہیے! جب ہم دعا مانگتے ہیں تو ہمیں رونا چاہیے۔ ہماری دعائیں جب تک ہم روتے نہیں محض الفاظ ہوتی ہیں! وہ چین میں روتے ہیں اور خُدا نیچے آ جاتا ہے! خُدا کے بغیر ہمارے پاس آپ نوجوان لوگوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے! ہم آپ کو ایک دعوت دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم آپ کو خُدا نہیں دے سکتے! ہم آپ کو باسکٹ بال کا ایک کھیل کِھلا سکتے ہیں۔ لیکن ہم آپ کو خُدا نہیں دے سکتے! اور اگر ہم آپ کو خُدا نہیں دے سکتے تو ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کی تنہائی کا علاج کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں! آپ کے دِلوں کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں! آپ کی جانوں کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں! آپ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارے پاس آپ کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ کچھ بھی نہیں ماسوائے ایک دعوت کے۔ کچھ بھی نہیں ماسوائے ایک سالگرہ کے کیک کے! کچھ بھی نہیں ماسوائے ایک پرانی کارٹون فلم کے۔ ہمارے پاس آپ کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، آپ کی مدد کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے! ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ بھی نہیں جب تک کہ ہمارے پاس خُدا نہیں آ جاتا! کچھ بھی نہیں ماسوائے حمدوثنا کے ایک یا دو گیتوں کے، کچھ بھی نہیں ماسوائے دعا کے لفظوں کے۔ کچھ بھی نہیں ماسوائے ایک ادھ مرے واعظ کے۔ ہم بنجر ہیں۔ ہم بے بس ہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کو چاہیے۔ ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اگر ہمارے پاس خُدا نہیں ہے!
گزرے ہوئے دو ہفتوںSaturdays کی راتیں پہلے، میں نے آپ سے ہماری یادگار آیتوں کو پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ آپ میں سے بے شمار لوگوں نے اُن کو پڑھا تھا۔
’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر اور تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! کیونکہ جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی، تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھرتھرا اُٹھے‘‘ (اشعیا 64:1۔3).
میں خُدا کو نیچے آتا ہوا محسوس کر سکتا تھا جب آپ میں سے کچھ نے اُن الفاظ کو پڑھا تھا۔ میں اپنے آپ میں ھِل گیا تھا۔ میرا دِل خُدا کی قدرت کے ساتھ دھل گیا تھا۔ میں نے ایک بُلاوہ بھیجا۔ کسی بھی واعظ کی منادی نہیں ہوئی۔ کوئی بھی دعا نہیں کی گئی۔ صرف وہی الفاظ،
’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر اور تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! کیونکہ جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی، تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھرتھرا اُٹھے‘‘ (اشعیا 64:1۔3).
اور مسز_______ نے آنسوؤں کے ساتھ دعا مانگی! اور پھر جیسنJason _______ کراہا اور بُلند آواز میں پُکار اُٹھا۔ رُبیکہ Rebekah _______ روتی ہوئی الطار تک آئی۔ کسی نے آواز لگائی، ’’ابراہامAbraham _______ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ اُس نے آنا شروع کر دیا۔ لیکن وہ مُڑا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ تین لوگ اُس کے پیچھے دوڑے۔ آسیب باہر آ گئے۔ آنسو بہائے گئے۔ اِلتجائیں کی گئیں۔ سکون بالاآخر اُس کو مل ہی گیا۔ چند ایک دِن بعد اُس نے نجات پا لی تھی! پھر کرسٹینا Christina ______ آئی۔ جان کیگن John Cagan نے اُنہیں چند ایک باتیں کہیں میرے اُنہیں بُلانے سے پہلے کہ وہ کسی دوسرے شخص کے پاس جا کر بات کرتی۔ وہ یسوع کے پاس خود اپنے آپ ہی سے چلی آئی – اور ڈاکٹر کیگن نے اُن کی گواہی سُنی اور کہا، ’’یہ موت سے گزر کر زندگی میں آ چکی ہے۔‘‘ وہ مصلوب مُنجی کے خون کے وسیلے سے نجات پا چکی تھی۔ ابراہام _______ کے ساتھ دعائیں مانگنے کے بعد، نیک ناعانJack Ngann اور میں نے ڈوکسولجیDoxology [خُداوند کو جلال بخشنے والا حمدوثنا کا گیت] گایا۔ ہمارے پاس تین دِنوں میں 18، 27 اور 28 اگست، اُمید سے بھرپور 13 لوگوں نے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کو قبول کیا۔ میں نے وہ بات ایک مبلغ کو بتائی تو اُس نے کہا، ’’آپ تھوڑے سے حیاتِ نو کا تجربہ کر رہے ہیں۔‘‘ سچ ہے، لیکن یہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے شروع ہوا۔ یہ عام طور پر مسیحیوں کا اپنے گناہوں کے اعتراف کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن صرف 4 مسیحیوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور اُنہوں نے احیاء [نئی زندگی] پائی۔ صرف چار مسیحی! آپ میں سے باقی ایسے ہی ٹھنڈے اور بے جان تھے جیسے ہمیشہ سے ہوتے ہیں۔
Q _______ _______ تقریباً چھ فٹ لمبے ہیں۔ ناراض چہرے کے ساتھ ایک بہت بڑے افریقی امریکی۔ وہ اپنے گھٹنوں پر گِر گئے اور رو پڑے جب تک کہ اُن کا سارا چہرہ آنسو سے بھر نہ گیا۔ گذشتہ اِتوار کی رات کو وہ نجات پانے والے آخر شخص تھے۔
لیکن میں نے اُن اِجلاسوں میں دو باتوں کو محسوس کیا جنہوں نے مجھے پریشان کیا تھا، اور ابھی تک پریشان کرتی ہیں۔ پہلی بات جس نے مجھے پریشان کیا وہ حقیقت تھی آپ نے اُن 13 لوگوں پر جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے کوئی خوشی نہیں منائی۔ اُن کی ڈاکٹر کیگن نے دو یا تین مرتبہ پڑتال کی تھی۔ اُںہوں نے کہا وہ نجات پا چکے ہیں۔ آپ نے خوشی نہیں منائی۔ یہاں تک کہ اُس وقت بھی نہیں جب میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر کیگن نے اُن کی گواہی سُنی ہے اور کہا کہ وہ اُمید کی بھرپوری کے ساتھ نجات پا چکے ہیں۔ صرف جیک اور میں نے بِنا تیاری کے ڈوکسولجیDoxology [خُداوند کو جلال بخشنے والا حمدوثنا کا گیت] گایا! ستائش کی کوئی چیخیں نہیں۔ خُدا کو کوئی ستائش نہیں۔ صرف جوش کے بغیر تالیاں۔ صرف ہلکی سی نیم گرم سی تالیاں۔ خوشی کی کوئی ایک بھی چیخ نہیں جس کے بارے میں آپ حیات نو میں پڑھتے ہیں۔ آپ جو کہ مسیحی ہیں اُن چھوٹے سے اِجلاسوں میں مسیح پر ایمان لا کر تبدیل ہونے والے 13 لوگوں پر خوش نہیں ہوئے تھے! کوئی مسکراہٹ نہیں! کوئی ھیلیلویاہ وغیرہ نہیں! خوشی کی کوئی چیخیں نہیں جو میں حیات انواع میں دیکھ چکا ہوں۔ شکرگزاری کی کوئی بھی اِظہار جذبات کا جوش نہیں جس کے بارے میں آپ ماضی میں حیات انواع کے لکھے ہوئے واقعات میں پڑھ چکے ہیں! کوئی بھی خوشی کی بھرپوری نہیں۔ صرف ایک تھوڑا سا نیم گرم تالیاں بجانے کا عمل جب میں نے اُن کے نام لیے جنہوں نے نجات پا لی تھی۔ میں نے سوچا تھا آپ کھڑے ہو جائیں اور چیخیں گے ’’خُدا کی ستائش ہو‘‘ طوفانی تالیوں کے ساتھ۔ لیکن جی نہیں۔ محض تھوڑی سی تالیاں – اس قدر شاندارانہ فتح پر! یہ پہلی بات تھی جس نے مجھے پریشان کیا۔
دوسری بات جس نے مجھے پریشان کیا وہ حقیقت تھی کہ ہمارے گرجہ گھر میں ایک طویل مدت سے آنے والے چار مسیحیوں نے اُن اِجلاسوں میں نئی زندگی [احیاء] پائی تھی۔ صرف چار نے! باقی ہر دوسرا مسیحی اتنا ہی سرد اور بے حِس رہا تھا جتنا ہمیشہ ہوتا ہے۔ ایک شخص نے کہا، ’’میں نے نئی زندگی [احیاء] پائی تھی۔ لیکن مسز _______ کہ مانند نہیں۔‘‘ میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں، اگر آپ مسز _______ کی مانند نہیں بنے تھے تو پھرآپ نے بالکل بھی نئی زندگی [احیاء] نہیں پائی تھی! آپ بالکل بھی خُدا کے وسیلے سے چھوئے نہیں گئے تھے اگر آپ مسز _______ کی مانند نہیں بنے!
میں نے ڈاکٹر کیگن سے پوچھا تھا کیوں آپ میں سے اُن لوگوں کے درمیان جنہوں نے نجات پائی اِس قدر تھوڑا سا حیات نو ہے۔ اُنہوں نے کہا آپ طعنہ مارنے والے اور بے اعتقادے تھے۔ میرے خیال میں وہ سچے تھے۔ روح کی ایک بہت بڑی تحریک ہوئی تھی اور 13 لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے، لیکن آپ لوگ طعنہ مار رہے تھے۔ آپ نے اِس کا یقین نہیں کیا۔ ہم نے خُداوند کی ایک بہت عظیم تحریک پائی تھی، لیکن آپ نے واقعی میں اِس کا یقین نہیں کیا۔ آپ نے واقعی میں اِس کا کیوں یقین نہیں کیا؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کیوں۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آپ کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ہے! آپ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہولناک طور پر غلط ہے! آپ کے خوشی کے کوئی آنسو نہیں تھے۔ آپ کا کوئی مسرت سے بھرپور ردعمل نہیں تھا۔ آپ کو کوئی خوشی نہیں تھی کیونکہ آپ کا دِل غلطی پر ہے۔ اور آپ کا دِل اِس لیے غلطی پر ہے کیونکہ آپ نے اِس کی احتیاط کے ساتھ جانچ نہیں کی تھی۔ آپ شیطان کے ذریعے سے دھوکہ کھا چکے ہیں۔ آپ کو تو یہاں تک کہ اِس کا اِحساس تک نہیں ہوا۔ آپ کو تو یہاں تک بھی احساس نہیں ہوا کہ آپ ’’ابلیس کی دھوکہ بازیوں‘‘ کے ذریعے سے چال میں آ چکے ہیں۔ آپ کو تو یہاں تک بھی احساس نہیں ہوا کہ شیطان آپ کو فریب دے چکا ہے اور آپ دھوکہ کھا چکے ہیں! اوہ، آپ کیسے ’’خُداوند میں، اور اُس کی قدرت کی طاقت میں مضبوط‘‘ ہو سکتے ہیں؟ آپ کیسے کبھی بھی ابلیس ’’کے خلاف کُشتی‘‘ کر سکتے ہیں اگر آپ کو یہ ہی پتہ نہ چلے کہ وہ آپ کو فریب دے چکا ہے اور آپ کو دھوکہ دے چکا ہے؟ (حوالہ دیکھیں افسیوں6:10۔11)۔ ڈلاس کی تھیالوجیکل سیمنری کے ڈاکٹر مِیرل ایف۔ اُونگر نے کہا، ’’وہ [مسیحی] جنہیں روحانی ہونا چاہیے فاتحانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہیے شیطان اور آسیبوں کے ساتھ ایک غیرمعمولی کشمکش کا سامنا کرتے ہیں، [آسیب] جو شدت کے ساتھ سچی روحانیت اور مسیحی سہولت کی مخالفت کرتے ہیں‘‘ (بائبلی آسیبیت کا علم Biblical Demonology، کرِیگل Kregel، 1994، صفحہ101)۔
بہنوں اور بھائیوں، ہمیں اپنے دِلوں کی جانچ کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہیے، ’’تاکہ شیطان کو اپنا داؤ چلانے کا موقعہ نہ ملے کیونکہ ہم اُس کی چالبازی سے واقف ہیں‘‘ (2 کرنتھیوں2:11)۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا، ’’آج گرجہ گھر کی [بُری] حالت کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ شیطان کو بُھلایا جا چکا ہے… کلیسیا یعنی گرجہ گھر کو نشہ دیا جا چکا ہے اور وہ جھانسا کھا چکی ہے؛ وہ کشمکش کے بارے میں بالکل بھی آگاہ نہیں ہے‘‘ (مسیحی مڈبھیڑ Christian Warfare، بینر آف تُرتھ Banner of Truth، 1976، صفحات 292، 106)۔ کشمکش کے بارے میں بالکل بھی آگاہ نہیں ہیں۔ آگاہ نہیں ہیں کہ آپ کے گناہوں نے آپ کے دِل کو بے حِس کر دیا ہے۔ آگاہ نہیں ہیں کہ گناہ کا اعتراف نہ کرنا آپ کوخُدا سے جُدا کر چکا ہے!
ہم کیسے شیطان پر قابو پا سکتے ہیں؟ ہمیں سب سے پہلے خداوند سے مانگنا چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارے دِل میں گناہوں کو دکھائے۔ ہمیں سچائی کی بھرپوری کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے،
’’اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان؛ مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے۔ دیکھ، مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں، اور مجھے ابدی راہ میں لے چل‘‘ (زبُور 139:23،24).
اُس کام کو مت روکیں جو آپ گرجہ گھر کے لیے کرتے ہیں۔ آپ میں سے بے شمار لوگ ہمارے گرجہ گھر میں سخت محنت کرتے ہیں۔ آپ سخت محنت کرتے ہیں، لیکن آپ کے دِلوں میں گناہ ہوتے ہیں۔ آپ تو یہاں تک کہ اپنی دعاؤں میں بھی سکون نہیں لیتے۔ آپ شاید روزانہ دعا مانگتے ہیں اور پھر بھی اپنے دِلوں میں بُرائی کو رکھتے ہیں۔ میں نے ہمارے گرجہ گھر میں ایک شخص سے پوچھا، ’’کیا آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ اُس نے کہا، ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اُس نے واقعی میں سوچا تھا وہ ٹھیک ہے۔ لیکن پھر میں نے ایک سخت گناہ کی نشاندہی کی جو اُس کو تباہ کر رہا تھا۔ اُس نے کہا، ’’میں نے اُس کے بارے میں ایک گناہ کی حیثیت سے کبھی بھی نہیں سوچا تھا۔‘‘ کیا یہ بات آپ کے دِل میں سچی ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کے دِل میں کوئی گناہ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی بھی نہ سوچا ہو؟
آپ ہمارے گرجہ گھر کے ساتھ وفادار رہے تھے جب دوسروں نے گرجہ گھر کی تقسیم میں چھوڑ دیا تھا۔ اُس میں سکون مت لیں! آپ ہمارے گرجہ گھر کے ساتھ ثابت قدم رہ سکتے ہیں اور اِس کے باوجود بھی اپنے دِل میں ایک گناہ رکھ سکتے ہیں ’’جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں۔‘‘ آپ میں سے کچھ اپنے بچوں کے نجات پانے کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ لیکن آپ کی دعاؤں کا جواب نہیں مِلا ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کہیں آپ کے دِل میں کوئی پوشیدہ گناہ ہو۔ ایسا گناہ جس کے بارے میں آپ نے سوچا ہی نہ ہو۔ لیکن یہ ایک گناہ ہے اور اب میں دعا مانگتا ہوں کہ آپ اِس کو محسوس کریں گے۔ آپ کو اپنے بچوں کے لیے دعاؤں کا جواب اُس وقت تک نہیں ملے گا جب تک آپ اپنے گناہ کا اعتراف نہیں کر لیتے۔ خُداوند کا کلام کہتا ہے، ’’اگر میں گناہ کو اپنے دِل میں رکھتا ہوں تو خدا میری نہیں سُنتا‘‘ (زبور66:18)۔ صرف پاک مسیحیوں کو اُن کی دعاؤں کا جواب مل سکتا ہے۔ آپ اپنے بھائی یا بہن کے نجات پانے کے لیے دعا مانگ چکے ہیں۔ لیکن آپ کی دعاؤں کا جواب نہیں ملا ہے۔ آپ شاید خود کو یہ کہتے ہوئے تسلی دے سکتے ہیں کہ آپ ’’لگاتار دعا‘‘ مانگ رہے ہیں جب تک جواب آ نہیں جاتا۔ لیکن آپ کبھی بھی اُن کے لیے جس حالت میں آپ ہیں ’’لگاتار دعا‘‘ نہیں مانگ سکتے۔ ’’اگر میں گناہ کو اپنے دِل میں رکھتا ہوں تو خدا میری نہیں سُنتا‘‘ (زبور66:18)۔ لیکن، آپ کہتے ہیں، ’’یہ تو صرف چھوٹا سا ہی گناہ ہے۔‘‘ شیطان نے آپ کو بتایا یہ ’’چھوٹا‘‘ سا تھا – مگر آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ آپ کی دعاؤں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ آپ کو خُدا کے سامنے اپنے دِل کے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ آپ کو اعتراف کرنا چاہیے ورنہ خُداوند آپ کی نہیں سُنے گا۔
انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے نوجوان ایوان رابرٹس Evan Roberts کو وھیلز میں 1904 کے حیاتِ نو میں شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔ ایوان رابرٹس نے کہا، حیاتِ نو میں پاک روح کے آنے سے پہلے، ’’ہمیں کلیسیا کو تمام بُرے احساسات سے چُھٹکارہ دِلانا چاہیے – سارا کینہ [نفرت، حسد]، بغض، تعصب [دوسروں کو جانچنا]، اور غلط فہمیاں [اِختلافات، غرور]۔ اُس وقت تک دعا مت مانگیں جب تک کہ ساری رنجشوں کا [گرجہ گھر میں دوسروں کے ساتھ] اعتراف نہ کیا جا چکا ہو اور معاف نہ ہو چکی ہوں، لیکن اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ معاف نہیں کر سکتے، تو [اپنے گُھٹنوں پر] گِر جائیں اور معافی دینے والے روح کے لیے دعا مانگیں۔ پھر یہ آپ کو مِل جائے گا‘‘ (برائین ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیاتِ نو Revival، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 2004، صفحہ113)… عام زمانے میں مسیحی اُن باتوں پر قائم تھے… مگر سچے حیاتِ نو میں خُفیہ گناہوں کو لایا جائے گا… مسیحیوں کے ذہنوں میں، اور کہیں کوئی سکون نہیں ہوگا جب تک کہ سب کا اعتراف نہیں ہو جاتا‘‘ (ایڈورڈز، ibid.، صفحہ114)۔
1969 اور 1970 میں چینی بپٹسٹ گرجہ گھرمیں مسیحیوں کے درمیان گناہ کی خوفناک سزایابی تھی۔ میں نے یہ دیکھا تھا۔ کبھی کبھار تو گناہ کی یہ سزایابی کُچل ڈالنے والی ہوتی تھی۔ لوگ آپے سے باہر ہو کر روتے تھے۔ مگر غم اور سزایابی کے بغیر [مسیحیوں کے درمیان] حیاتِ نو جیسی ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اجتماع گاہ کا ایک جانب کوئی رونا شروع کرتا ہے۔ پھر ہر کوئی رو رہا ہوتا ہے۔ وہ اِجلاسات گھنٹوں تک اعترافات کے ساتھ، رونے دھونے، دعاؤں اور مدھم گانوں کے ساتھ جاری رہے۔ ہر کوئی بھول چکا تھا کہ دوسرے کیا سوچیں گے۔ وہ خدا کے ساتھ روبرو تھے۔
مسیحیوں کا گہری، تکلیف دہ، اور عاجزانہ گناہ کی سزایابی کے بغیر کوئی حیاتِ نو نہیں ہوتا۔ سکوت میں مداخلت اُن مسیحیوں کی سسکیوں سے ہوتی تھی جن کے ساتھ خُداوند نمٹ رہا ہوتا تھا۔ میرے چینی پادری صاحب، ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin ، جانتے تھے کیا کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ ہونے دیا کیونکہ اُنہیں چین میں اپنے تجربے سے معلوم تھا کہ یہ خُدا ہےجو اپنے لوگوں کے درمیان چل رہا ہے۔ وہ میری زندگی میں کبھی بھی دیکھے جا سکنے والے سب سے زیادہ شاندار اِجلاسوں کا سلسلہ تھا۔ میں کس قدر دعا مانگتا ہوں کہ ہم اپنے گرجہ گھر میں خُدا کو وہ کرتا ہوا دیکھ پائیں۔ ہمارے ہاں ’’حیاتِ نو کا ایک لمس‘‘ آیا تھا جب چار مسیحی اپنے دِلوں کے گناہوں کی سزایابی میں آئے تھے اور اُن کا اعتراف کیا تھا۔ پاک روح نازل ہوا اور 13 گمراہ لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے۔ مگر ہمارے گرجہ گھر کا ہر دوسرا فرد مکمل طور سے بے حرکت رہا تھا۔ اگر 13 لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے جب چار مسیحیوں کو نئی زندگی [احیاء] ملی، تو سوچیں ہمارے گرجہ گھر میں کیا رونما ہو گا اگر آپ میں سے 15 یا 20 لوگ اپنے دِل کے گناہوں کا اعتراف کریں جیسے مسز ______ نے کیا تھا! کیا آپ آج کی رات اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے؟ یا کیا آپ آج کی رات اپنے گھروں کو خوشی کے بغیر ہی چلے جائیں گے؟ بِنا اعتراف کیے؟ بِنا آنسوؤں کے؟ بِنا نئی زندگی [احیاء] پائے ہوئے ایک دِل کے؟ اتنے ہی سرد اور مُردہ جتنے کے ہمیشہ سے تھے؟
مسٹر یو ڈُونگ لی Kyu Dong Lee نے کہا، ’’میں ’اُن 39‘ میں سے ایک ہوں۔ میں ہمارے گرجہ گھر میں ٹِکا رہا تھا جب میرے دوست اور دوسرے لوگ گرجہ گھر کی بہت بڑی تقسیم میں چھوڑ کے چلے گئے۔ میں نے نجات پا لی تھی۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز نے کہا میں اخلاقی طور پر گِر چکا ہوں، میں نے سوچا، ’مجھے کس بات کی اور ضرورت ہے؟ میں تو پہلے ہی سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکا ہوا ہوں۔ مجھے اور کس بات کی ضرورت ہے؟ مجھے احساس نہیں ہوا تھا کہ میں یسوع کے لیے اپنے پہلے پیار کو کھو چکا تھا۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے مکاشفہ2:4 اور 5 کا حوالہ دیا، ’مجھے تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی ہے۔ پس یاد کر کہ تو کتنی بُلندی سے گِرا ہے توبہ کر اور پہلے کی طرح کام کر‘ (مکاشفہ2:4، 5)۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں ویسا نہیں تھا جیسا میں تب تھا جب میں نے پہلی مرتبہ نجات پائی تھی۔ میں خوشی کے آنسو رویا کرتا تھا جب ہم ’بس جیسا میں ہوں Just As I Am‘ اور ’حیرت انگیز فضل Amazing Grace‘ جیسے گیت گایا کرتے تھے۔ اب میں صرف الفاظ بغیر کسی محبت اور خوشی کے گاتا تھا۔ اب میری دعائیں بُلند ہوتی تھیں، مگر میری دعائیں محض الفاظ ہوتی تھیں، اچھے الفاظ، مگر صرف خالی دعائیں۔ میں اب بھی منظم اور مدلل دعا مانگتا تھا، مگر میں بس وہ دعائیں مانگتا تھا واقعی میں بغیر اِس بات کی توقع کیے کہ خُدا مجھے جواب دے گا۔ میری بُلند دعائیں محض الفاظ تھے۔ وہ خالی دعائیں تھیں۔ میں تب جان گیا تھا کہ مجھے میرے گناہوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت تھی، اپنے دِل کے گناہوں کا۔ مجھے یاد تھا کہ بائبل کہتی ہے،
’’لیکن اگر ہم اپنے گناہوں کا اِقرار کریں تو وہ جو سچا اور عادل ہے، ہمارے گناہ معاف کر کے ہمیں ساری ناراستی سے پاک کر دے گا‘‘ (1۔ یوحنا1:9).
مجھے یاد تھا کہ زبور نویس نے دعا مانگی تھی، ’اپنی نجات کی خوشی مجھے پھر سے عنایت کردے‘ (زبور51:12)۔ مجھے یاد ہے کہ اُس نے کہا تھا، ’’اِس لیے میں اپنی شکستہ روح کی قربانی تیرے حضور میں لاتا ہوں۔ اے خُدا! تو شکستہ اور تائب دِل کو حقیر نہ جانے گا‘ (زبور51:17)۔‘‘
مسٹر لی ’اُن 39‘ میں سے ایک تھے جنہوں نے ہمارے گرجہ گھر کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ وہ مناد بننے کے لیے ایک وفادار اُمیدوار تھے۔ وہ جب میں منادی کرتا تھا تو چبوترے پر میرے پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ وہ ہمارے لوگوں کے لیے ایک مثال تھے۔ اُنہوں نے کہا، ’’مجھے مذید کس بات کی اور ضرورت ہے؟‘‘ تب خُدا نے اُن پر ظاہر کیا کہ اُنہیں اپنے دِل کے گناہوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سامنے آئے اور اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ وہ اِس قدر شدت کے ساتھ روئے تھے کہ اُن کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا۔ اور خُدا نے اُنہیں معاف کر دیا اور اُن کے دِل کو خوشی کے ساتھ بحال کر دیا۔ اب وہ اُن آنسوؤں اور اُس خوشی کے ساتھ دعا مانگتے ہیں جو وہ کھو چکے تھے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہماری دعائیں خالی ہوتی ہیں۔ ہماری مسکراہٹیں بناوٹی ہوتی ہیں، جھوٹی مسکراہٹیں، جب ہم رفاقت میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ کوئی حقیقی محبت نہیں۔ صرف جھوٹی مسکراہٹیں۔‘‘
مسٹر لی گرجہ گھر میں ایک رہنما ہیں۔ مگر آپ کیسے ایک گرجہ گھر کی رہنمائی کر سکتے ہیں اگر آپ اپنی پہلی محبت ہی کھو چکے ہوتے ہیں؟ آپ ہمارے نوجوان لوگوں کی رہنمائی صرف اُسی خالی مذہب میں کر سکتے ہیں جو آپ کے پاس ہے۔ ہمارے گرجہ گھر میں ہر رہنما کو اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہمارے گرجہ گھر کے لیے کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ میں نے کہا، ’’وہ لوگ جو ہمارے ہاں آتے ہیں سوچتے ہیں ہمارا گرجہ گھر عظیم ہے۔ اُنہیں احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے پاس صرف ایک جھوٹا مذہب ہے جو حقیقی محبت کے بغیر ہے۔ ہمارا گرجہ گھر جلد ہی بالکل کوئی دوسرا انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والا مُردہ گرجہ گھر بن جائے گا جب تک کہ ہمارے رہنما اور ہمارے اِراکین اپنے لیے خُدا کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے، آنسوؤں کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتے، اور یسوع کے خون کے وسیلے سے بحال نہیں ہوتے، جس نے اپنے خون کو ہمارے دِلوں کو شفا بخشنے کے لیے بہایا، اور ہمیں وہ پاک محبت بخشی جو ہمارے پاس ہوا کرتی تھی جب ہم نے پہلی مرتبہ نجات پائی تھی۔ یسوع نے کہا، ’’اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو اِس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا13:35)۔ بھائیوں اور بہنوں، ہم اُس وقت تک اپنے گرجہ گھر میں حقیقی محبت نہیں پائیں گے جب تک ہم میں سے بے شمار، بوڑھے اور نوجوان، اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کر لیتے۔
میں دعا مانگ رہا ہوں کہ آپ مجھے سُنیں گے اور آج کی رات اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور گائیں، ’’اے خُدا، مجھے جانچ Search me, O God۔‘‘
’’اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان:
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے:
دیکھ، مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں،
اور مجھے ابدی راہ میں لے چل‘‘
(زبُور 139:23،24).
اب گائیں، ’’میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے Fill all my vision, let naught of sin۔‘‘
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے
باطن میں جگمگاتی چمک کو چھاؤں دے۔
مجھے صرف تیرا بابرکت چہرہ دیکھ لینے دے۔
تیرے لامحدود فضل پر میری روح کو لبریز ہو لینے دے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
تیرا پاک عکس مجھی میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
Avis Burgeson Christiansen ، 1895۔1985)۔
مہربانی سے یہاں الطار پر آنے سے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے سے خوفزدہ مت ہوں۔ مہربانی سے آنے کے لیے خوفزدہ مت ہوں۔ مہربانی سے ایسا کریں تاکہ ہمارا گرجہ گھر دوبارہ زندہ ہو سکے۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: (’’تیرے کام کی بحالی ہوRevive Thy Work ‘‘ شاعر البرٹ میڈلین
Albert Midlane)۔