Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


بے اعتقادی اور حیاتِ نو – ایک نئی بصیرت

UNBELIEF AND REVIVAL – A NEW INSIGHT
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 17 جولائی، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, July 17, 2016

’’جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھر تھرا اُٹھے‘‘ (اشعیا 64:3).

جان کیگنJohn Cagan اور میں دوست بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی دوستی ہوگی۔ ایک نوجوان شخص اور ایک بوڑھے آدمی کے درمیان دوستی جو اُس کا دادا بننے کے لیے کافی ہے۔ یہ دو آدمیوں کے مابین ایک جعلی جدوجہد میں جاری ہوئی تھی۔ دو آدمی جو انتہائی مختلف تھے۔ لیکن دو آدمی جو کسی حد تک ایک جیسے ہی تھے۔ ہم دونوں ہی کو کبھی کبھار گہرے ذہنی دباؤ کے دورے پڑا کرتے تھے۔ ہم دونوں ہی دِل سے سنجیدہ طبعیت کے تنہائی پسند تھے۔ ہم دونوں ہی ہجوم کے مقابلے میں تنہائی میں زیادہ سکون محسوس کرتے تھے۔ ہم دونوں ہی نے جو ہم واقعی میں ہیں اُس کے مقابلے میں دوسروں کے ساتھ گفتگو کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے عمل کو سیکھ لیا ہے۔ اور ایک اور بات بھی ہے کہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔ ہم دونوں ہی شک کرتے ہیں کہ ہمیں حیاتِ نو دیکھنا نصیب ہوگا۔ ہم دونوں ہی شک کرتے ہیں کہ شاید ہی کبھی ہم ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ حاصل کر پائیں گے۔

گذشتہ اِتوار کو اپنے واعظ میں جان نے ہمیں اپنے شکوک کے بارے میں بتایا۔ اُس نے ہمیں اپنے اندیشوں کے بارے میں بتایا۔ اندیشے کہ یہ کبھی بھی نہیں رونما ہوگا۔ اندیشے کے ہمارا گرجہ گھر کبھی بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ میرے لیے وہ جان کے واعظ کا سب سے اہم حصہ تھا۔ یہ ہے جو اُس نے ہمیں اپنے واعظ میں بتایا۔

ڈاکٹر ہائیمرز نے کہا، ’’ خُدا کے نیچے آنے اور ہمارے گرجہ گھر کو اپنی نظر میں دوبارہ زندگی بخشنے کے لیے ہمیں روزے رکھنے اور دعا مانگنی چاہیے۔‘‘ مجھے آپ کے سامنے اقرار کر لینا چاہیے کہ میں اِس بارے میں شک میں مبتلا ہو چکا ہوں… میں نے اُس چیلنج میں یقین کرنے میں بھی ہچکچاہٹ دکھائی جو ڈاکٹر ہائیمرز نے ہمیں دیا۔ آپ بھی شاید بے اعتقادی میں اپنے سر کو جھٹکے… شاید آپ بھی اِس میں یقین نہ کرتے ہوں (جان سیموئیل کیگن John Samuel Cagan، ’’Forget the Past and Reach for the Prize!‘‘)

میرے خیال میں جان کے عظیم واعظ میں وہ الفاظ سب سے زیادہ اہم تھے۔ میں نے اُن الفاظ کو حذف کروانے کے بارے میں سوچا تھا جب میں اُس کی اِس واعظ پر مدد کر رہا تھا۔ لیکن بالاآخر میں جان گیا کہ اُن الفاظ کو واعظ ہی میں رہنا چاہیے۔ اب، جب میں نے اُس کے واعظ کو دوبارہ پڑھا، تو مجھے احساس ہوا کہ وہ الفاظ انتہائی اہم تھے۔ شدید اہمیت کے حامل۔ سب سے زیادہ اہم ترین!

آپ میں سے وہ لوگ جو ایک طویل مدت سے ہمارے گرجہ گھر میں رہ چکے ہیں آپ کو بھی شکوک تھے – کیا نہیں تھے؟ وہ جنہوں نے ہمارے گرجہ گھر میں پرورش پائی جیسے جان نے پائی، آپ میں سے وہ جو ’’گرجہ گھر میں پرورش پائے بچے‘‘ ہیں جان کی مانند، ’’اپنے [سروں] کو بے اعتقادی سے جھٹکنا چاہیے… [کیونکہ] آپ بھی اِس میں یقین نہیں رکھتے۔‘‘

وہ بہت بڑی بات ہے! وہ حقیقی ایمانداری ہے۔ اُس جیسی ایمانداری ایک واعظ کو جِھلملاتی ہے! اور میرے خیال میں یہ نہایت اہم ہے کہ آپ بھی اپنے شکوک کا اقرار کرتے ہیں – کم از کم خود سے اور خُدا سے۔ اُس جیسی ایمانداری ہی حقیقت میں حیاتِ نو کی جانب پہلا قدم ہوتی ہے۔ اِس کو غور سے سُنیں: میں خود بھی یقین نہیں کرتا یہ رونما ہوگا۔ آج کی رات یہ میرا آپ سے اعتراف ہے۔ میں بھی اِس میں یقین نہیں کرتا! آخر میں، اِس قسم کی ایمانداری شاید اُبل کر کُھلم کُھلا اعتراف، توبہ اور ایک دوسرے کے لیے دِل کو چھو جانے والی دعائیں بن جاتی ہے – اگر خُدا ہمارے درمیان پاک روح کا نزول کر دیتا ہے۔ خود ہمارے ساتھ ایمانداری – اور پھر دوسروں کے ساتھ – اکثر خُدا کے بھیجے ہوئے حیاتِ نو میں پہلا قدم ہوتی ہے!

اِس لیے، اِس کو مانیں۔ مان لیں کہ آپ یقین نہیں کرتے ہم ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں! مان لیں کہ آپ یقین نہیں کرتے کہ خُدا اپنی قوت نیچے بھیجے گا اور ہمارے گرجہ گھر کو دوبارہ زندگی بخشے گا! وہ کیوں اہم ہے؟ یہ اہم ہے کیونکہ بے اعتقادی ایک گناہ ہے۔ یہ اکثر تمام گناہوں سے بدترین ہوتا ہے۔ اور ہمیں ابھی خُدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لینا چاہیے، اِس سے پہلے کہ ہم مستقبل میں ’’اپنے قصوروں کا ایک دوسرے کے ساتھ‘‘ اعتراف کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اِس سے پہلے کہ ہم سچے طور پر ’’ایک دوسرے کے لیے دعا‘‘ کر سکیں، کہ [ہم] شاید شفا پا جائیں‘‘ (یعقوب5:16)۔ گہری شفا کبھی بھی رونما نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہم اپنی بے اعتقادی کا اعتراف نہ کر لیں – کم از کم خود اپنے آپ سے اور خُدا کے ساتھ! پھر بعد میں ہم شاید اپنی بے اعتقادی کا ایک دوسرے کے ساتھ اعتراف کر سکتے ہیں، اور اِس کے ساتھ ساتھ دوسرے قصور جو ہم میں ہوتے ہیں۔

لیکن یہاں وہ سب سے زیادہ اہم سوال ہے جو مجھے آج کی رات پوچھنا چاہیے – کیا ہم پاک روح کا نزول پا سکتے ہیں جب کہ ہم اب بھی یقین نہیں کرتے کہ یہ رونما ہو سکتا ہے؟ کیا ہم ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ کو حاصل کرنا شروع کر سکتے ہیں جب کہ ہم اب بھی یقین نہیں کرتے کہ خُدا ہمارے گرجہ گھر کو تبدیل کر سکتا ہے اور اِس کو دوبارہ زندگی بخش سکتا ہے؟ اِس کا جواب ایک گونجدار ہاں ہے! جی ہاں – خُدا ہمیں ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ بخش سکتا ہے، حالانکہ ہم یقین نہیں کرتے کہ یہ رونما ہو سکتا ہے!

وہ کیسے سچ ہو سکتا ہے؟ ٹھیک ہے، اِس کو سچ ہی ہونا چاہیے کیونکہ خُدا قادرِ مطلق ہے۔ خُدا ہی واحد ہستی ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ہمارے درمیان اپنا روح بھیجنا چاہیے یا نہیں! وہ ہم پر انحصار نہیں کرتا! وہ ہمارے ایمان پر انحصار نہیں کرتا، یا ہماری بے اعتقادی پر انحصار نہیں کرتا! یہ تنہا خُدا ہی پر منحصر ہوتا ہے! یہ اُس کا بالکل متضاد ہے جس کی تعلیم اُس بوڑھے پیلیگیانسٹ Pelagianist بدعتی چارلس فنی Charles Finney نے دی۔ اُس نے کہا اِس کا انحصار ہم پر ہوتا ہے! لیکن بائبل کہتی ہے اِس کا انحصار صرف خُدا پر ہوتا ہے، ہم پر بالکل بھی نہیں ہوتا! یہ اصلاح شُدہ علم الہٰیات ہے! یہ پرانے طور طریقوں کی کیلوِن اِزم میں ایک اچھا نکتہ ہے جس میں ہمارے باپ دادا یقین رکھتے تھے! فنی نے جو تعلیم دی اُس کو عالمین الہٰیات ’’مشروطیہ طور کی تعلیمconditionalism‘‘ کہتے ہیں – کہ ہمیں خُدا کے پاک روح کے نزول کے بھیجنے کے لیے قائل کر سکنے سے پہلے مخصوص حالات کو پورا کرنا چاہیے! ’’مشروطیہ طور کی تعلیم‘‘ ایک گندا جھوٹ ہے! یہ خود شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ جھوٹ باقی تمام سے بالا تر ہوتا ہے، جس نے مغربی دُنیا میں قریباً 200 سالوں سے بہت بڑے حیاتِ نو کو ہمارے گرجہ گھروں میں آنے سے روکا ہوا ہے! فنی نے تعلیم دی کہ حیاتِ نو ’’کی یقین دہانی دی جا سکتی ہے اگر انسان صرف دُرست حالات بنا سکے‘‘ (برائن ایچ۔ ایڈورڈزBrian H. Edwards، حیاتِ نو – خُدا سے لبریز لوگ Revival – A People Saturated With God، صفحہ 71)۔ وہ ایک جھوٹ ہے۔ یہ خُدا کے کلام کے لیے سچ نہیں ہوتا ہے! یہ ’’شیطانوں کا عقیدہ‘‘ ہے (1تیموتاؤس4:1)۔ برائن ایڈورڈز نے کہا، ’’چارلس فنی نے ثابت قدمی کے ساتھ یقین کیا کہ حیاتِ نو اصولوں کے ایک ضابطے کی پیروی کرنے کے وسیلے سے پیدا کیا جا سکتا ہے‘‘ (ایڈورڈز، صفحہ 31)۔ ٹھیک ہے، ہم اُس طرح کے ’’اصول‘‘ قریباً 200 سال سے استعمال کرتے رہے ہیں – اور اُنہوں نے حیات نو پیدا نہیں کیا ہے۔ حقیقی حیاتِ نو کسی بھی ایسی بات سے نہیں پیدا ہوتا ہے جو انسان کرتا ہے۔ حتّیٰ کہ یہاں تک کہ خود میں ایمان کو بڑھانے کی کوشش کرنے سے بھی نہیں! کچھ بھی جو انسان پیدا کرتا ہے خُدا کے روح کا نزول نہیں کرتا۔ یہ کُؒلی طور پر خُدا ہی کا کام ہوتا ہے۔ حیاتِ نو تو یہاں تک کہ دعا کے بغیر بھی آ سکتا ہے! ’’بدعت،‘‘ آپ کہتے ہیں؟ جی نہیں، بدعت نہیں، بلکہ یہ بات بائبل میں سے ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’قوت کا تعلق خُدا سے ہے‘‘ (زبور62:11)۔ تمام کی تمام قوت ہمارے پاک اور جلیل القدر خُداوند کے پاس ہے۔ وہی یکتا ہے جو حیاتِ نو میں قوت کو جاری کرتا ہے۔ خُدا کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ اُس کو تو یہاں تک کہ ہمارے یقین کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اِس سے پہلے کہ وہ اپنے پاک روح کو بھیجے۔ یہ ہمارے اعتقاد یا ہماری بے اعتقادی پر منحصر نہیں کرتا ہے۔

وہ جو فنی سے متاثر ہوتے ہیں اپنی ’’مشروطیہ طور کی تعلیمconditionalism‘‘ کی بنیاد کو 2 تواریخ7:14 پر بناتے ہیں، لیکن وہ حیاتِ نو کو نہیں لاتی ہے! کہاں ہیں وہ حیاتِ نو جو 2 تواریخ 7:14 کی پیروی کرنے کے ذریعے سے پیدا ہوئے ہیں؟ آپ کے پاس صرف پینتیکوست مشن والوں کی بیوقوفیاں ہوتی ہیں جو اُن اِلتجاؤں سے نکلتی ہیں۔ اُن حیات نو کی کوئی بھی مشہابت کسی طور بھی ماضی کے معیاری حیاتِ نو کے ساتھ نہیں ہوتی! وہ لوگوں کو فرش پر گِرا دیا کرتے تھے، لیکن چند ایک سال کے بعد وہ جہنم میں گِریں گے کیونکہ اُنہوں نے نجات نہیں پائی تھی! یہ بات افسوس کے ساتھ مغربی دُنیا میں سچی ہے جب پینتیکوست مشن والے اور دوسرے انجیلی بشارت کی تعلیم کا پرچار کرنے والے لوگ ایک فارمولے کی حیثیت سے 2تواریخ7:14 کو استعمال کرتے ہیں۔ مگر وہ آیت پرانے عہد نامے میں صرف اسرائیل کے لیے لاگو ہوتی ہے۔ یہ نئے عہد نامے کی مسیحیت کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے! وہ ’’مشروطیہ طور کی تعلیمconditionalism‘‘ کے اپنے پورے خیال کی بنیاد ایک مبہم آیت پر کرتے ہیں جو خُدا نے یہودی لوگوں کو اسرائیل میں دی تھی! جو کچھ میں نے ابھی کہا اُس کا سادہ سا شعور آپ کو دکھا دیتا ہے کہ 2 تواریخ7:14 کا آج ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا، اور کبھی تھا بھی نہیں۔ یہ فنی کا آئیڈیا تھا! یہ ایک پروٹسٹنٹ آئیڈیا یا ایک اعلیٰ درجے کا بپٹست آئیڈیا نہیں ہے! یہاں پر بائبل میں دو مثالیں ہیں۔ یوناہ کے تین باب میں، نینواہ شہر میں بہت بڑے حیاتِ نو سے پہلے تیاری کرنے کا کوئی اندراج نہیں تھا۔ ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے اِس کو ’’تاریخ میں عظیم ترین حیاتِ نو‘‘ کہا۔ نئے عہد نامے میں، اعمال کی کتاب آٹھ باب میں ہم سامریہ میں ایک بہت بڑے حیاتِ نو کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ وہاں کوئی تیاری نہیں ہوئی تھی۔ فلپس سادگی سے نیچے شہر میں گیا تھا، ’’اور اُنہیں مسیح کی منادی کی تھی۔‘‘ اگر آپ اعمال آٹھ باب، آیات6 اور 7 کا مطالعہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ ایک شاندار حیاتِ نو آیا تھا۔ یہ بغیر دعا کے آیا تھا۔ یہ بغیر روزہ کے آیا تھا۔ یہ بغیر کسی قسم کے دباؤ یا تیاری کے آیا تھا۔ ہمیں اپنے حیاتِ نو کے سارے تصّور کو دوبارہ سے سوچنا چاہیے، اور اِس کو کسی ایسی بات کی حیثیت سے سوچنا چاہیے جو خُدا کرتا ہے، چاہے ہم تیار ہوں یا نہ ہوں۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ’’مشروطیہ طور کی تعلیمconditionalism‘‘ خُدا کو ناراض کرتی ہے، اِس لیے وہ ہمیں اپنی قوت بخشنے کے بجائے اُسے واپس کھینچ لیتا ہے۔ پرانے زمانے کے لوگ اِس کے لیے خُدا سے اِلتجائیں کیا کرتے تھے اور شرائط نہیں رکھا کرتے تھے۔ اِس ہی لیے خُدا نے اُنہیں جواب دیا۔ وہ انسان کو مرکز مان کر چلنے کے بجائے خُدا کو مرکز مان کر چلنے والے لوگ تھے۔ اُسی طرح سے ہمیں آج ہونے کی ضرورت ہے۔ خُدا مکمل اختیار میں ہوتا ہے۔ اُس کو پاک روح بھیجنے سے پہلے ہمارے یقین کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جاناتھن ایڈورڈزJonathan Edwards نے حیاتِ نو کو خُدا کا ایک ’’حیران کر دینے والا‘‘ کام کہا ہے۔ اُنہوں نے خُدا کے حیات نو کو نیچے بھیجنے سے پہلے فنی کی ’’مشروطیہ طور کی تعلیمconditionalism‘‘ کو استعمال نہیں کیا تھا۔ ایڈورڈز نے فنی سے پہلے زندگی بسر کی تھی۔ اُس نے حیاتِ نو پر فِنی کی پیلے گئین اِزم Pelagianism کی پیروی نہیں کی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا، خُدا کو تو یہاں تک کہ ہمارے یقین کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اِس سے پہلے کہ وہ اپنے پاک روح کو بھیجے۔ یہ بات ہمارے اعتقاد یا بے اعتقادی پر منحصر نہیں کرتی ہے۔

میں یہ بات تجربے سے جانتا ہوں، ایک تجربہ جس کے بارے میں آپ کو مَیں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ لیکن میں آپ کو یہ بات آج کی رات آپ کو کچھ نیا دکھانے کے لیے دوبارہ بتاؤں گا۔ میں تین حقیقی حیاتِ نو کا ایک چشم دید گواہ رہ چکا ہوں۔ تیسرے حیات نو میں میں نے دیکھا، بالکل بھی کوئی تیاری نہیں تھی۔ آخری لمحے میں مجھے شام کی عبادت میں منادی کرنے کے لیے بتایا گیا۔ یہ طے شُدہ تھا، جیسا کہ میں نے کہا، آخری لمحے میں۔ میں نے ایک نوجوان شخص سے پوچھا جو گرجہ گھر آیا کرتا تھا مجھے کس موضوع پر بات کرنی چاہیے۔ اُس نے کہا، ’’تم چاہے جو کچھ بھی کرو، ایک انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے واعظ کی منادی مت کرنا۔ یہی تقریباً واحد چیز ہے جو پادری صاحب کرتے ہیں۔ گرجہ گھر میں ہر کوئی پہلے ہی سے نجات پا چکا ہے۔‘‘ یہ وہ وقت تھا جب میں نے پسینہ بہانا اور پریشان ہونا شروع کیا تھا۔ میرے ساتھ میرے پاس صرف ایک ہی واعظ تھا، اور وہ ایک انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کا واعظ تھا۔ اُس رات گرجہ گھر میں بے شمار بہت بڑے بڑے نامور مبلغین ہونے تھے، اُن کے ساتھ ساتھ سیمنری کے پروفیسرز اور دوسرے مسیحی رہنما بھی ہونے تھے۔ وہ کیا سوچیں گے اگر کسی نے بھی میرے واعظ کا ردعمل ظاہر نہ کیا؟ میں نے علیانہ اور لڑکوں کو اپنے سے دور بھیج دیا – اور وہ دوپہر اپنے ہوٹل کے کمرے میں تنہا پریشانی میں گزار دی۔ میں نے ایک مرتبہ بھی حیاتِ نو کے لیے دعا نہیں مانگی تھی۔ وہ میری سوچوں میں بھی نہیں تھا۔ میں نے صرف ایک شخص کے سامنے آنے کے لیے دعا مانگی تھی۔ میں ابھی تک پسینے میں شرابور تھا اور پریشان تھا اُس وقت جب شام کو عبادت جاری تھی۔ آخرکار میں نے سوچا، ’’میں اِس میں جو کچھ بھی میرے پاس ہے پیش کر دوں گا، چاہے مدعو کرنے پر کوئی بھی سامنے نہ آئے۔ میں نے اُس واعظ کو اپنے اندر موجود قوت کے آخری قطرے تک زور لگا کر پیش کیا۔ پھر میں نے پیش کی وہ جس کو ایک ’’سرد دعوتcold invitation‘‘ کہتے ہیں – دعا کے لیے کوئی ہاتھ بُلند نہ ہوئے – سامنے آنے کے لیے محض ایک سرد سی دعوت۔ میری بہت بڑی حیرانی کے لیے 75 لوگ سامنے آئے۔ وہ کچھ کچھ کر کے تمام شام سامنے آتے چلے گئے۔ یہ ایک حقیقی حیاتِ نو تھا۔ وہ دعوت تقریباً تین گھنٹوں تک جاری رہی، بے شمار گرجہ گھر کے اِراکین کے ساتھ جنہوں نے سچے طور سے نجات پائی، اور دوسرے لوگوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور خُدا کے ساتھ سیدھے ہوئے۔ تمام لوگوں میں سے ایک انتہائی بوڑھے شخص نے جو اُس گرجہ گھر کا کئی سالوں سے ممبر رہ چکا تھا، گُھٹنوں اور ہاتھوں پر رینگتے ہوئے چِلا چِلا کر مقدس مقام تک سامنے آ کر کہا، ’’میں گمراہ ہوں! میں گمراہ ہوں!‘‘ تین نوبالغ لڑکیاں تگڑم گیت گانے کے لیے پلیٹ فارم پر آئیں۔ مگر وہ گا نہ پائیں۔ وہ تینوں کی تنیوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ وہ لوگوں کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور اقرار کیا کہ وہ گمراہ تھیں۔ ہم گھنٹوں اُن کے ساتھ نمٹتے رہے۔ لیکن تقریباً تمام حیاتِ انواع کی طرح، وقت ساکت ہو گیا۔ میں بھونچکا رہ گیا جب میں نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور دیکھا کہ رات 11:00 بجے کے بعد کا وقت تھا! جب آپ حیاتِ نو میں ہوتے ہیں تو وقت تھم سا جاتا ہے۔ کوئی بھی باقی نہیں بچا۔ ہر ایک شخص آخر تک رُوکا رہا۔ خُدا کام کر رہا تھا اور وہ اُس کی موجودگی کو اُس گرجہ گھر میں محسوس کر سکتے تھے۔ اگلے تین ماہ میں 500 سے زیادہ لوگ اُمید کی بھرپوری کے ساتھ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے، بپتسمہ پایا، اور اُس گرجہ گھر میں شمولیت اختیار کی۔

وہ تیسرا حیات نو تھا جو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ میں آپ کو پہلے بھی اِس کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ لیکن میں نے آج کی رات یہ دوبارہ بتایا کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خُدا بالکل بھی کسی تیاری کے بغیر حیات نو میں اپنا روح نازل کر سکتا ہے۔ خود میں نے بھی اِس کی توقع نہیں کی تھی۔ میں نے خود یقین نہیں کیا تھا یہ رونما ہو جائے گا۔ میں نے تو یہاں تک یقین نہیں کیا تھا کہ ایک بھی شخص سامنے آئے گا! وہ ظاہر کرتا ہے کہ حیاتِ نو آ سکتا ہے یہاں تک کہ اگر آپ اور میں یقین نہ بھی کریں کہ یہ آئے گا۔ یہاں تک کہ اگر آپ جان کیگن کی مانند محسوس کرتے ہیں جب اُس نے کہا، ’’مجھے آپ کے سامنے مان لینا چاہیے کہ مجھے شکوک ہیں… آپ بھی اپنا سر بے اعتقادی میں جھٹک سکتے ہیں… شاید آپ بھی اِس میں یقین نہ کریں۔‘‘ میرے خیال میں وہ سب سے زیادہ اہم الفاظ تھے جو جان نے اپنے عظیم واعظ میں کہے۔

ہم ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ کے لیے دعا مانگ سکتے ہیں واقعی میں یہ یقین کرتے ہوئے کہ ایسا ہو جائے گا۔ ہم خُدا سے آسمان چاک کرنے اور نیچے آ جانے کے لیے دعا مانگ سکتے ہیں اِس بات پر واقعی میں یقین کرتے ہوئے کہ وہ ہمیں جواب دے گا۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ اِس کے لیے دعا مانگتے رہنا چاہے اگر آپ اِس پر یقین نہ بھی کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ اگر آپ شک بھی کرتے ہوں، خُدا آپ کی بے اعتقادی کے دعاؤں کا جواب دے گا۔ جان کیگن نے کچھ الفاظ ایک نظم میں سے لکھے تھے اور مجھے اِس واعظ میں ڈالنے کے لیے دیے تھے – جیسے وہ اُسے یاد تھے، شاعر ورڈزورتھWordsworth کی جانب سے۔

اُداسی سے پرے ایک جگہ ہے
   اور وہی ہے جہاں پر میں رہتا ہوں…
جہاں خیالات اکثر مل جاتے ہیں،
   آنسوؤں کے لیے شدید گہرے۔

جہاں خیالات اکثر مل جاتے ہیں، آنسوؤں کے لیے شدید گہرے۔ جہاں شکوک اکثر مل جاتے ہیں، آنسوؤں کے لیے شدید گہرے۔ لیکن خُدا ہماری دعاؤں کو سُنتا ہے، چاہے اگر ہم سچے طور پر اُس میں یقین نہ بھی کریں تو بھی وہ [خُدا] ہمیں جواب دے گا۔

اور یہ بات ہمیں واپس تلاوت کی جانب لے جاتی ہے۔ اشعیا نبی خُدا سے آسمان کو چاک کرنے اور نیچے آنے کے لیے دعا مانگ رہا تھا۔ مہربانی سے اشعیا64:1 کو دوبارہ کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل کے صفحہ768 پر ہے۔ یہ اشعیا64:1۔3 پر ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں جب ہم اِس کی تلاوت دوبارہ کریں۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر اور تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھر تھرا اُٹھے‘‘ (اشعیا 64:1۔3).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

نبی نے خُدا سے آسمانوں کو چاک کرنے اور نیچے آنے کے لیے دعا مانگی، کہ پہاڑ اُس کے حضور میں لزرنے لگیں۔ لیکن اُس نے یقین نہیں کیا تھا کہ یہ رونما ہو جائے گا۔ آیت تین پر نظر ڈالیں۔

’’جب تُو نے ایسے بھیانک [حیران کُن] کام کیے [جن کی ہمیں توقع نہ تھی، NASV]۔‘‘

جب اُنہوں نے اُن باتوں کے لیے دعا مانگی جس کی وہ ’’توقع نہیں کرتے تھے۔‘‘ میتھیو ھنری نے کہا، ’’وہ آزادی کے بارے میں مایوس تھے، وہ آزادی کے بارے میں کسی بھی خیال سے بہت دور تھے۔‘‘ تب تو نیچے اُتر آیا، اور پہاڑ تیرے حضور میں لزرنے لگے‘‘ (اشعیا64:3)۔ اُن کی دعاؤں کا جواب مل گیا تھا حالانکہ اُنہوں نے اِس کی توقع نہیں کی تھی۔ اُن کی دعاؤں کا جواب مل گیا تھاحالانکہ وہ ’’آزادی کے بارے میں مایوس‘‘ تھے۔ حالانکہ اُن کو ’’آزادی کے بارے میں کوئی خیال‘‘ نہیں تھا‘‘!

میں نے چالیس سالوں سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی ماں کے نجات پانے کے لیے دعا مانگی تھی۔ میں نے یقین نہیں کیا تھا کہ خُداوند میری دعا کا جواب دے گا۔ میں نے تمام اُمید چھوڑ دی تھی – مگر میں نے اُن کے لیے دعا مانگنی جاری رکھی تھی – حالانکہ میں نے اِس پر یقین نہیں کیا تھا جب میں نے دعا مانگی تھی۔ مگر خُدا نے بالاآخر میری بیچاری، بے اعتقادی دعا کا جواب دیا۔ میری ماں نے شاندارانہ طور سے 80 برس کی عمر میں مسیح میں ایمان لا کر نجات پائی تھی۔

آج کی صبح نوح سونگ Noah Song نے ایک شاندار واعظ دیا۔ اُس نے ہمیں بتایا کیسے داؤد نے ایک دیو کو مارنے کے لیے ایمان پایا تھا۔ داؤد نے ایمان یہ یاد کرنے سے پایا تھا جو ماضی میں خُدا نے اُس کے لیے کیا تھا۔ اُس نے ایک شیر کو مارا تھا۔ اُس نے ایک ریچھ کو مارا تھا۔ یوں داؤد جان گیا تھا کہ خُدا اُس کو ایک دیو کو بھی مارنے کے لیے قوت بخشے گا! ہمیں بھی وہ بات یاد رکھنی چاہیے۔ ہمارے گرجہ گھر نے پہلے ہی بے شمار رکاوٹوں پر دعاؤں کے جواب میں قابو پایا ہے۔ کیونکہ اُس نے اِتنا کچھ ہمارے لیے ماضی میں کیا ہے، اِس سے ہمارے ایمان کو مضبوطی ملنی چاہیے۔ اِس سے ہمارے ایمان کو یہ یقین کرنے کے لیے مضبوطی ملنی چاہیے کہ وہ ہماری دعاؤں کا جواب دے گا اور ایک نئے اور نئی زندگی پائی ہوئی بپٹست عبادت گاہ ہمیں بخشنے کے لیے روح کو نیچے بھیجے گا!

اوہ، میرے بھائیوں اور بہنوں، دعا مانگنا جاری رکھیں، حتّیٰ کہ جب آپ کو شکوک بھی ہوں۔ خُدا کے ہمارے درمیان حیاتِ نو میں نیچے آنے کے لیے دعا مانگیں۔ دعا مانگیں کہ خُدا خود ہمیں ایک ’’نئی‘‘ بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ بخشے گا! اُس شخص کی مانند دعا مانگیں جو چاہتا تھا کہ یسوع اُس کے آسیب زدہ بیٹے کو بچا لے۔ یسوع نے اُس سے کہا، ’’ہو سکنے کی کیا بات ہے، جو شخص اعتقاد رکھتا ہے اُس کے لیے سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘ (مرقس9:23)۔ بیچارے شخص نے یقین نہیں کیا تھا کہ اُس کا بیٹا بچا لیا جائے گا۔ اُس نے یقین نہیں کیا تھا یہ ہو جائے گا۔ لیکن وہ شخص شدت سے چاہتا تھا اُس کے بیٹے کو چھٹکارہ مل جائے۔ وہ اِس قدر انتہائی بیتاب تھا کہ یسوع سے چِلا کر بولا، ’’خُداوند، میں اعتقاد رکھتا ہوں؛ تو میرے اعتقاد کو اور بھی پختہ کر دے‘‘ (مرقس9:24)۔ میں یقین کرتا ہوں آپ بالکل اُنہی الفاظ کو دہرائیں گے جب آپ حیات نو کے لیے دعا مانگیں، ’’خُداوند، میں اعتقاد رکھتا ہوں؛ تو میرے اعتقاد کو اور بھی پختہ کر دے۔‘‘ ڈاکٹر رائری Dr. Ryrie نے بجا طور پر کہا، ’’اُس شخص نے خود اپنے کمزور ایمان کی مدد کے لیے پکارا تھا‘‘ (رائری مطالعۂ بائبل Ryrie Study Bible) حمدوثنا کا ایک پرانا گیت اِس کو بخوبی کہتا ہے۔

سادگی سے روزانہ بھروسہ کرنا،
   طوفانی راہ سے گزرتے ہوئے بھروسہ کرنا؛
یہاں تک کہ جب میرا ایمان تھوڑا سا ہوتا ہے،
   یسوع میں بھروسہ کرنا، وہ ہی کافی ہے۔
(’’یسوع میں بھروسہ کرناTrusting Jesus‘‘ شاعر ایڈگر پی۔ سٹائٹس
      Edgar P. Stites، 1836۔1921)۔

یہاں تک کہ جب آپ کا ایمان تھوڑا سا ہوتا ہے، خُدا کے نیچے آنے کے لیے اور ہمارے درمیان ایک حیات نو تخلیق کرنے کے لیے دعا مانگنا جاری رکھیں!

مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور خُدا سے ہمیں ایک ’’نئی‘‘ بپٹسٹ عبادت گاہ دینے کے لیے دعا مانگیں (دعائیں)۔ اب خُدا سے آسمانوں کو چاک کرنے اور حیات نو میں ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے دعا مانگیں (دعائیں)۔ اب خُدا سے اپنے کمزور ایمان کو بڑھانے کے لیے دعا مانگیں جب آپ اِن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں (دعائیں)۔

مہربانی سے کھڑے رہیں اور اپنے گیتوں کے ورق پر سے حمدوثنا کا گیت نمبر7 گائیں۔ یہ ’’میرے سارے تخّیل کو پورا کر Fill All My Vision‘‘ ہے۔ یہ حمدوثنا کا گیت نمبر 7 ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   آج مجھے صرف یسوع کو دیکھ لینے دے؛
حالانکہ وادی میں سے تو میری رہنمائی کرتا ہے،
   تیرا کھبی نہ مدھم ہونے والا جلال میرا احاطہ کرتا ہے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، ہر خواہش
   اپنے جلال کے لیے رکھ لے؛ میری روح راضی ہے
تیری کاملیت کے ساتھ، تیری پاک محبت سے
   آسمانِ بالا سے نور کے ساتھ میری راہگزر کو بھر دیتی ہے
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے
   باطن میں جگمگاتی چمک کو چھاؤں دے۔
مجھے صرف تیرا بابرکت چہرہ دیکھ لینے دے۔
   تیرے لامحدود فضل پر میری روح کو لبریز ہو لینے دے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
      Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

اب مجھے آپ میں سے اُن لوگوں سے بات کرنی چاہیے جنہوں نے مسیح میں ایمان لا کر ابھی تک نجات نہیں پائی۔ یسوع آپ کے گناہ کی ادائیگی کے لیے صلیب پر قربان ہوا تھا۔ یسوع نے آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اُس صلیب پر اپنا خون بہایا۔ وہ آپ کو دائمی زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے جسمانی طور پر جی اُٹھا۔ وہ اب ایک دوسری وسعت میں، اوپر تیسرے آسمان میں، خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ گناہ اور سزا سے نجات پائیں گے۔ جب آپ توبہ کرتے ہیں اور یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ کے گناہ اُس یسوع کے پاک خون کے وسیلے سے دُھل جاتے ہیں

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے بارے میں مشورہ چاہتے ہیں، تو آپ کو ڈاکٹر کیگن سے آپ کو مشورہ دینے کے لیے ملاقات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ یا آپ ملاقات طے کرنے کے لیے ہفتے کے دوران اُن کے گھر والے آفس کے نمبر پر فون کر سکتے ہیں، یا آپ آج کی رات اُن سے ملاقات طے کرنے کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا 64:1۔4 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع میں بھروسہ کرناTrusting Jesus‘‘ (شاعر ایڈگر پی۔ سٹائٹس Edgar P. Stites، 1836۔1921)۔