اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
یوناہ – موت سے زندگی تک!JONAH – FROM DEATH TO LIFE! ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
پہلے، سمندری بلا کے بارے میں ایک بات۔ یوناہ1:17 پر نظر ڈالیں۔ ’’خُدا نے یوناہ کو نگل جانے کے لیے ایک بڑی مچھلی تیار کر رکھی تھی۔‘‘ ’’تیار کر رکھنے prepared‘‘ کے لیے عبرانی لفظ ’’مناہ mănăh‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’تشکیل دینا to constitute،‘‘ ’’تیار کرنا‘‘ یہ خصوصی طور پر تشکیل دی گئی تھی اور تیار کی گئی تھی۔ نہ اِس سے پہلے کبھی کوئی تھی اور نہ اِس کے بعد کبھی کوئی ہو گی۔ یہ خُداوند خُدا کے ذریعے سے تیار کی گئی تھی۔ پھر مچھلی بذات خود۔ عبرانی لفظ ’’ڈیعگdag‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ایک سمندری مخلوق – ایک بہت بڑی، جو ایک سالم بندے کو چبائے بغیر نگل جانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اور یہ ہمیں ہماری تلاوت کی جانب لے آتی ہے،
’’میں پہاڑوں کی تہہ تک ڈُوب گیا تھا؛ میرے نیچے کی زمین کے بدھنوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ لیکن تُو نے اے میرے خداوند خدا، میری جان کو پاتال سے باہر نکالا‘‘ (یوناہ2:6).
یوناہ کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے، عظیم اصلاح کار جان کیلوِن Reformer John Calvin نے کہا،
… کہ اِس معاملے میں [مسیح] یوناہ کی مانند ہوگا، کیونکہ وہ ایک نبی ہوگا جس کو دوبارہ زندگی ملے گی… جیسے یوناہ نے نینوا کو تبدیل کیا تھا، زندگی دوبارہ واپس پا چکنے کے بعد۔ یہ تب پھر حوالے کا سادہ سا مطلب بنتا ہے۔ حالانکہ یوناہ مسیح کی تشبیہہ نہیں تھا، کیونکہ اُس کو غیرقوموں میں باہر بھیج دیا گیا تھا، بلکہ کیونکہ اُس کو دوبارہ زندگی کے لیے واپس لایا گیا تھا… (جان کیلوِن John Calvin، بارہ چھوٹے انبیا پر تبصرے Commentaries on the twelve Minor Prophets، بیکر کُتب گھر Baker Book House، دوبارہ اشاعت 1998، جلد سوئم، صفحہ 21)۔
کیلوِن کے الفاظ پر غور کریں – ’’یوناہ دوبارہ زندگی پایا ہوا ایک نبی‘‘ تھا۔ مُردوں میں سے یوناہ کا جی اُٹھنا مسیح کے مُردوں میں سے تیسرے دِن جی اُٹھنے کی تشبیہہ تھی۔
ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے بھی کہا، ’’جب یوناہ نبی کو سمندر میں جھونک دیا گیا اور ایک بہت بڑی مچھلی کے ذریعے سے نگلا جا چکا تو وہ مسیح کے مرنے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی ایک واضح تشبیہہ بن جاتا ہے‘‘ (ایم۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M. D.، یوناہ – حقیقت یا افسانہ؟ Jonah – Fact or Fiction? ، ژونڈروان پبلیشنگ گھر Zondervan Publishing House، 1957، صفحہ 80)۔ ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے بھی یہی بات اپنے بائبل میں سے تبصرے Thru the Bible Commentary میں کہی۔
ڈاکٹر مرفی لم نے مغربی کیلیفورنیا میں ایک سیمنری میں عبرانی کی تعلیم دی تھی۔ ڈاکٹر لم نے مجھ سے کہا، ’’متی12:40 میں یسوع ہمیں یوناہ پر بہترین تبصرہ پیش کرتا ہے۔‘‘ اُس آیت میں، یسوع نے کہا،
’’کیونکہ جس طرح یُوناہ تین دِن اور تین رات [سمندری بلا مچھلی کے] پیٹ میں رہا اُسی طرح ابنِ آدم تین دِن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا‘‘ (متی 12:40).
مسیح کے بیان سے تین اسباق سامنے آتے ہیں:
1. یوناہ مسیح کے مرنے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی ایک تصویر ہے۔
’’کیونکہ جس طرح یُوناہ تین دِن اور تین رات [سمندری بلا مچھلی کے] پیٹ میں رہا اُسی طرح ابنِ آدم تین دِن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا‘‘ (متی 12:40).
2. یوناہ اِسی لیے فضل کے وسیلے سے نجات کی ایک تصویر ہے۔
’’اور ہم ایمان لانے والوں کے لیے اُس کی عظیم قدرت کی کوئی حد نہیں۔ خدا نے اُسی عظیم قدرت کی تاثیر سے مسیح کو مُردوں میں سے زندہ اُٹھا کر آسمان پر…‘‘ (افسیوں 1:19۔20).
مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا پھر مسیح پر ایمان لا کر تبدیل ہو جانے والے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔
’’اور اُس نے تمہیں [زندہ کیا]، جو اپنے قصوروں اور گناہوں کی وجہ سے مُردہ تھے‘‘ (افسیوں 2:1).
اور ہمیں دوبارہ بتایا جاتا ہے،
’’اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے، مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔ (اُسی کے فضل سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اُس نے ہمیں مسیح کے ساتھ زندہ کیا…‘‘ (افسیوں 2:5۔6).
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ ایک غیرنجات یافتہ شخص گناہ میں مُردہ ہوتا ہے اور اُس کو مسیح میں زندہ کیا جانا چاہیے۔ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جانے کا ’’موت سے زندگی کے لیے‘‘ تجربہ مسیح کی موت اور اُس کے مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنے کے وسیلے سے تازہ دم ہوتا ہے اور تعلق جوڑتا ہے – اور اِسی لیے جو کچھ یوناہ کے ساتھ رونما ہوا اُس کی عکاسی کرتا ہے (حوالہ دیکھیں متی12:40)۔
3. یوناہ کا دوبارہ جی اُٹھنا اِس لیے بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے ایک بشر کے لیے پانی میں ڈبکی لگانے کے ذریعے سے بپتسمہ پانے کی ایک تصویر ہے۔ رومیوں6:3۔4 کہتی ہے،
’’کیا تُم نہیں جانتے کہ ہم میں سے جن لوگوں نے مسیح یسوع کی زندگی میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اُس کی مَوت میں شامل ہونے کا بپتسمہ بھی لیا۔ چنانچہ مَوت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لے کر ہم اُس کے ساتھ دفن بھی ہُوئے تاکہ جس طرح مسیح اپنے آسمانی باپ کی جلالی قوت کے وسیلہ سے مُردوں میں سے زندہ کیا گیا اُسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں قدم بڑھائیں‘‘ (رومیوں 6:3۔4).
ایمان کے وسیلے سے، نجات یافتہ شخص مسیح میں ڈبویا جا چکا ہوتا ہے، مسیح کے ساتھ اُس کی موت اور مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنے میں متحد۔ ڈاکٹر میک آرتھر دُرست طور سے کہتے ہیں، ’’یقینی طور پر پانی سے بپتسمہ اِس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے…‘‘ (ibid.، رومیوں6:3 پر غور طلب بات)۔ یوں، مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کا تجربہ، جس کی پانی کے ساتھ بپتسمہ کے ذریعے سے عکاسی کی جاتی ہے، مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی جانب نشاندہی کرتا ہے، جو کہ یوناہ کے ذریعے سے تشبیہہ کیا گیا (حوالہ دیکھیں متی 12:40)۔
خُلاصہ بیان کرنے کے لیے،
1. یوناہ نے مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی عکاسی کی ہے۔
2. یوناہ نے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی روحانی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی عکاسی کی ہے۔
3. یوناہ نے ایماندار کے بپتسمہ کی عکاسی کی ہے۔
کیا مسیح واقعی میں مر چکا تھا؟ جی ہاں۔ ایک غیر نجات یافتہ شخص میں واقعی میں قصوروں اور گناہوں میں مُردہ؟ جی ہاں۔ کیا ایک نجات یافتہ شخص واقعی میں مُردوں میں سے زندہ کیا جاتا ہے؟ جی ہاں۔ ایک تجربہ کار مبلغ تو یہاں تک کہ اُن کے چہروں اور تاثرات میں تبدیلی کو بھی دیکھ سکتا ہے۔
کیا یوناہ واقعی میں اُس بہت بڑی مچھلی میں مر چکا تھا؟ میرے خیال میں اِس کو جواب واضح ہے! جیسا کہ ڈاکٹر لم نے کہا، ’’متی12:40 میں یسوع ہمیں یوناہ پر بہترین تبصرہ پیش کرتا ہے۔‘‘
’’کیونکہ جس طرح یُوناہ تین دِن اور تین رات [سمندری بلا مچھلی کے] پیٹ میں رہا اُسی طرح ابنِ آدم تین دِن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا‘‘
یسوع واقعی میں مر چکا تھا – لہٰذا اُس کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ مسیح نے یقین کیا تھا یوناہ واقعی میں مر چکا تھا۔ یہ بات بحث کو انجام تک پہنچا دیتی ہے! یوناہ نے اِس بات کو واضح کر دیا جب اُس نے کہا،
’’میں پہاڑوں کی تہہ تک ڈُوب گیا تھا؛ میرے نیچے کی زمین کے بدھنوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ لیکن تُو نے اے میرے خداوند خدا، میری جان کو پاتال سے باہر نکالا‘‘ (یوناہ2:6).
پاتال corruption کے لیے عبرانی لفظ ’’شاکیتھ shachath‘‘ ہے۔ جس کا مطلب ’’قبرgrave‘‘ ہوتا ہے، اور یہ بات یوناہ کی موت کی تصدیق کر دیتی ہے۔
یوناہ کے پہلے دو ابواب بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ بے شمار طریقوں سے یہ خود میری اپنے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی مثال دیتے ہیں۔ خُدا نے یوناہ کے دِل میں بتایا تھا اور اُس کو نینوا جا کر منادی کرنے کے لیے کہا تھا۔ خُدا نے میرے دِل میں کہا تھا اور مجھے بتایا تھا میں اُس کے لیے ایک گواہی بنوں گا۔ یوناہ خُدا کی حضوری سے بھاگ گیا تھا۔ وہ ایک بحری جہاز میں چڑھ گیا تھا اور جس قدر وہ نینوا سے دور سمندری راہ سے جا سکتا تھا گیا۔ میں نے ہونٹنگٹن پارک Huntington Park میں گرجہ گھر کو چھوڑ دیا تھا اور تاریکی میں اور خوف میں لاس اینجلز کی سڑکوں پر پھرتا تھا۔ میں خُدا سے بھاگا تھا جیسے یوناہ نے کیا تھا۔ لیکن خُدا نے جہاز میں یوناہ کے لیے ایک بہت بڑا طوفان بھیجا تھا۔ مجھے آگے اور پیچھے کی جانب اُچھالا گیا تھا میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے پاس کوئی اُمید نہیں تھی۔ یوناہ کو سمندر میں جھونک دیا گیا تھا اور وہ ایک بہت بڑی سمندری بلا کے ذریعے سے نگلا گیا تھا۔ میں ایک چینی گرجہ گھر میں گیا تھا اور کالج جانے کے لیے کوشش کی تھی۔ میں ذہنی دباؤ اور نااُمیدی و مایوسی میں نگلا گیا تھا۔ میں کالج تک نہیں پہنچ پاتا تھا کیونکہ میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ مجھے کئی گھنٹوں تک کے لیے وہاں پہچنے اور واپس آنے کے لیے بس پکڑنی پڑتی تھی۔ جب میں کالج سے واپس آتا تھا تو مجھے کام کرنا پڑتا تھا۔ میرے پاس پڑھنے کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ میں جانتا تھا میں اپنی جماعت میں ناکام ہو رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ میں ابلیس کے ذریعے سے نگلا جا رہا تھا۔ کوئی نور نہیں تھا۔ کوئی اُمید نہیں تھی۔ کوئی سکون نہیں تھا۔ میں نے بہت بڑی سمندری بلا کے پیٹ میں یوناہ کی مانند محسوس کیا تھا۔
’’ہیبتناک پانی نے مجھے خوفزدہ کر دیا، گہرائی میرے چاروں طرف تھی، سمندر کی نباتات میرے سر کے چاروں طرف لپٹ گئی میں پہاڑوں کی تہہ تک ڈوب گیا تھا؛ میرے نیچے کی زمین کے بندھنوں نے مجھے گھیر لیا تھا‘‘ (یوناہ 2:5، 6).
اِسی طرح تھا جو میں نے محسوس کیا۔ مجھے اِس کا احساس نہیں ہوا تھا، مگر خُدا مجھے اِس زندگی کی مایوسی اور زعمِ باطل کو دکھا رہا تھا۔ اور میرے گناہ ہمہ تن میرے سامنے رہتے تھے!
میں نے ہمارے نوجوان لوگوں میں سے ایک سرجیو میلو Sergio Melo کی مانند محسوس کیا۔ جب سزایابی میں تھے تو سرجیو نے کہا، ’’میں مذید اور اِس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ میں شدت کے ساتھ پریشانی میں مبتلا تھا… میں ہولناک افراتفری میں مبتلا تھا، اور میرے گناہ کا جُرم… کوئی بھی بات مجھے ہنسا نہیں سکتی تھی یا مجھے اِس مصیبت میں سے باہر نہیں نکال سکتی تھی… میں نے خود سے کہا، ’کیا ہو اگر میں ابھی مر جاؤں؟‘ میں ابھی نہیں مر سکتا، اِس حالت میں نہیں۔‘ پھر میں نے ہر اُس شخص کے چہرے پر جو گزر رہا تھا دیکھنا جاری رکھا، اور اِس بات نے مجھے جو کچھ ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک واعظ میں کہا تھا یاد دلا دیا کہ اُنہوں نے لوگوں کو زُمبیزzombies [چلتے پھرتے مُردوں] کی مانند چلتے ہوئے دیکھا، جنہیں اپنی جانوں کی کوئی بھی فکر نہیں تھی۔‘‘ یہ سرجیو تھا، جو صبح کے ایک بجے گناہ کی گہری سزایابی کے تحت گھر کی جانب پیدل جا رہا تھا، جیسے یوناہ گہرے سمندر میں جا رہا تھا۔
جان کیگن John Cagan کا ابھی ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ جان نے کہا، ’’میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے [پہلے کے] وہ ہفتے مرنے کی مانند محسوس ہوئے تھے؛ میں سویا نہیں تھا، میں مسکرا نہیں پاتا تھا۔ میں کسی قسم کا کوئی سکون ڈھونڈ نہیں پاتا تھا… میں نے خُدا کے بارے میں اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے بارے میں تمام خیالات کو مسترد کر دیا تھا، میں نے اِن کے بارے میں سوچنے سے بھی انکار کر دیا تھا، اِس کے باوجود میں کوئی بھی سکون نہ پا سکا… میں اِس قدر زیادہ عذاب میں مبتلا محسوس کرنا چھوڑ نہ پایا… میں نے خود سے نفرت محسوس کرنا شروع کر دی، اپنے گناہ سے نفرت اور وہ مجھے کیا کچھ محسوس کراتا تھا… میرے گناہ کبھی نہ ختم ہونے کی حد تک بدترین اور بدترین ہوتے چلے گئے۔‘‘
سوریاہ ینسی Soriya Yancy نے کہا، ’’ڈاکٹر ہائیمرز نے گناہ پر شدید اور سخت تبلیغ کی… میں نے جتنے بھی غلط کام کیے تمام کے تمام یاد آ گئے۔ میرے خیالات کا گناہ، جھوٹ بولنا، اور بے شمار [دوسرے] گناہ۔ میں نے شرمندگی محسوس کی اور میں خُدا کا سامنا نہیں کر پایا… میں رو پڑا۔ میں نے سوچا، ’میں کبھی بھی مسیح کو نہیں پاؤں گا‘… میں روتا رہا اور روتا رہا۔ میں نے سوچا میں کبھی بھی مسیح کو اپنے نجات دہندہ کی حیثیت سے پا نہیں سکوں گا۔‘‘
یوناہ نے کہا، ’’ہیبت ناک پانیوں نے مجھے خوفزدہ کر دیا: گہرائی میرے چاروں طرف تھی، سمندر کی نباتات میرے سر کے چاروں طرف لپٹ گئیں… تیری تمام موجیں اور لہریں میرے اوپر سے گزر گئیں‘‘ (یوناہ2:5:3)۔
اِس ہی طرح سے تھا جو میں نے محسوس کیا جب تک کہ مسیح میرے پاس آ نہیں گیا، اور مسیح نے مجھ پر اپنی محبت کو نچھاور کر دیا اور میں گنگنا اُٹھا، ’’حیرت ا نگیز فضل، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو اے خُداوندا، میرے لیے مر جائے؟‘‘ اور یوناہ پکار اُٹھا اور کہا، ’’نجات خُداوند کی طرف سے آتی ہے‘‘ (یوناہ2:9)۔
’’اور خدا نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے یوناہ کو خشک زمین پر اُگل دیا‘‘ (یوناہ 2:10).
خُدا کی ستائش ہو! جس لمحے آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں آپ اپنے گناہوں میں سے ’’اُگل دیے‘‘ جاتے ہیں! آپ ابلیس کے پنچوں میں سے اُگل دیے جاتے ہیں! آپ موت میں سے اُگل دیے جاتے ہیں – یسوع مسیح میں ایک نئی زندگی میں! میرے پیارے دوستو، اگر آپ یسوع کی جانب مُڑیں تو آپ جان جائیں گے کہ یوناہ دُرست تھا – ’’نجات خُدا کی طرف سے ہے۔‘‘ جیسا کہ دورِ حاضرہ کا ایک ترجمہ اِس کو یوں تحریر کرتا ہے، ’’خُدا سے نجات ہوتی ہے۔‘‘ یہ مسیح میں خدا کی جانب سے ایک مفت تحفہ ہے۔
کیا آپ نجات کی اپنی ضرورت کو دیکھتے ہیں؟ ضرورت کو محسوس نہ کرنا عام سی بات ہے۔ انسان اپنے فطری، عام حالت میں اُس ضرورت کو بالکل بھی محسوس نہیں کرتے۔ کسی کو بھی وہ محسوس کرنے کے لیے جیسا سرجیو نے یا جیسا جان کیگن نے یا جیسا سوریا نے محسوس کیا – یا جیسا یوناہ نے محسوس کیا – یا جیسا میں نے بیس برس کے ایک نوجوان کی حیثیت سے لاس اینجلز کی سڑکوں پر تنہا پیدل چلتے ہوئے محسوس کیا تھا، معجزے
کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک شخص کو سزایابی کے تحت لانے کے لیے پاک روح کے معجزانہ کام کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاک روح کا صرف ایک عمل ایک شخص کو اپنے دِل میں کہنے پر مجبور کر دیتا ہے، ’’میرا گناہ ہمہ تن میرے سامنے ہوتا ہے‘‘ (زبور51:3)۔
کیا آپ نے خود کا معائنہ کیا؟ کیا آپ نے واقعی میں اپنے دِل میں جھانک کر دیکھا؟ آپ کے لیے کوئی بھی اُمید نہیں ہوتی اگر آپ وہ نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اُس سے بھاگ رہے ہوتے ہیں – جیسے یوناہ خُدا کی حضوری سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ لوگ گناہ کے بارے میں سوچنے سے باز رہنے کے لیے اپنے وقت کو مصروفیت میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو کبھی نہ ختم ہونے والے ویڈیو گیمز کو سوچنے سے باز رہنے کے لیے، خُدا سے چُھپنے کے لیے دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی دوسرے لوگ کام کرتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں – سوچنے سے باز رہنے کے لیے۔ دوسرے کئی اور لوگ کام میں یا مطالعے میں یا ایک کیرئیر کی تلاش میں، یا تقریباً کچھ بھی جو اُنہیں اُن کے گناہ کے بارے میں سوچنے سے باز رکھے غرق ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’تمہیں اپنی زندگی کے لیے لڑنا ہوتا ہے اور تمہیں اپنی جان کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ دُنیا آپ کو خود اپنا سامنا کرنے سے روکنے کے لیے وہ سب کچھ کرے گی‘‘ – آپ کو اپنے گناہ کے بارے میں سوچنے سے باز رکھنے کے لیے (’’گنہگار کا اعتراف The Sinner’s Confession‘‘)۔
آپ کو اپنے قصوروں کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ قصوروں کا مطلب بغاوت ہوتا ہے، خود اپنی راہ پر چلنے کی ایک خواہش، ایک خواہش جو وہ کرنے کے لیے کہتی ہے جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں وہ غلط ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کچھ ایسا کرنا جس کے بارے میں خود آپ کا اپنا ضمیر جانتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ یہ گناہ کا سوچا سمجھا ایک عمل ہوتا ہے۔ آپ کے ضمیر نے کہا، ’’نہیں‘‘ – مگر آپ نے کسی نہ کسی طور اِس کو کیا۔ یہ ایک قصور ہوتا ہے!
پھر آپ کو اپنی بداعمالی و بدکاری کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ نے ایسے کام کیے ہوتے ہیں جو پیچیدہ، بدچلن ہوتے ہیں – بُرے خیالات، مُڑے ہوئے، بل کھائے ہوئے، بدصورت، غلیظ – اپنے دِل اور اپنی زندگی میں بداعمالی و بدکاری!
پھر ایک لفظ ’’گناہ‘‘ ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’ہدف کا ہاتھ سے نکل جانا۔‘‘ یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک شخص ہدف پر نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ چھوٹ جاتا ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ وہ ہیں نہیں جو آپ کو ہونا چاہیے تھا۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ زندگی ویسے نہیں گزار رہے ہیں جیسے آپ کو زندگی گزارنی چاہیے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ سے ہدف کا نشانہ چوک چکا ہے۔ آپ نے وہ زندگی بسر نہیں کی جو خُدا چاہتا تھا آپ بسر کرتے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ اِس قدر ناخوش ہیں!
جب خُدا کا روح یہ باتیں آپ کے ذہن میں لاتا ہے تو اِنہیں ذہن سے باہر مت نکالیں۔ پھر آپ سزایابی کے تحت آتے ہیں۔ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اُن خیالات کو زبردستی ذہن سے باہر نہیں نکالیں گے۔ اگر آپ ایسا کریں گے، تو آپ کو شاید پھر دوبارہ کوئی موقع میسر نہ ہو۔ خُدا شاید آپ کو دوبارہ کبھی بھی سزایابی کے تحت نہ لائے۔ اور اگر خُدا ایسا نہیں کرتا تو آپ کے نصیب میں تباہی ہوتی ہے، دائمی طور پر گمراہی، یہاں تک کہ اگر آپ اِس دُنیا میں زندگی بسر کرتے رہنا جاری رکھتے ہیں۔
ہم دعا مانگتے ہیں کہ پاک روح آپ کو خود آپ کے اپنے ساتھ غیر مطمئین بنائے، کہ وہ آپ کو قطعی طور پر گمراہ محسوس کرائے، اپنے آپ سے کراہت کرتا ہوا، گمراہ – بغیر کسی اُمید کے! صرف تب ہی آپ کہنے کے قابل ہو پائیں گے، ’’میری بداعمالیاں میرے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن کر رہ گئی ہیں‘‘ (زبور38:4)۔ تب آپ محسوس کریں گے کہ یسوع ہی تنہا وہ ہستی ہے جو آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ صرف تب ہی آپ محسوس کریں گے کہ کچھ بھی آپ کا پاک صاف نہیں کر سکتا ماسوائے صلیب پر بہائے یسوع کے خون کے۔ صرف تب ہی آپ خود کے ساتھ کھیل کھیلنا چھوڑ دیں گے۔ صرف تب ہی آپ اپنے گناہ سے نفرت کریں گے اور یسوع کی جانب مُڑیں گے اور تنہا اُسی پر بھروسہ کریں گے۔ صرف تب ہی آپ یوناہ کے ساتھ مل کر کہنے کے قابل ہو پائیں گے، ’’نجات خُدا کی طرف سے ہے‘‘ (یوناہ2:9)۔ صرف تب ہی آپ وہ کرنے کے قابل ہو پائیں گے جو وہ گیت کہتا ہے،
خُداوندا! میں آ رہا ہوں!
میں ابھی تیرے پاس آ رہا ہوں!
مجھے دُھو ڈال، مجھے خون میں پاک صاف کر ڈال
جو کلوری پر بہا تھا۔
(’’اے خُداوند میں آ رہا ہوں I Am Coming, Lord، شاعر لوئیس ہارٹسو
Lewis Hartsough ، 1828۔1919)۔
اگر آپ یسوع کے خون کے وسیلے سے پاک صاف کیے جانے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے اپنی نشست چھوڑیں اور اِس اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan اور جان کیگن John Cagan کے پیچھے جائیں۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلامِ پاک کی تلاوت مسٹر ایبل پرودھومMr. Abel Prudhomme نے کی تھی: یوناہ 2:1۔9 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’اے خُداوند میں آ رہا ہوں I Am Coming, Lord،
(شاعر لوئیس ہارٹسو Lewis Hartsough ، 1828۔1919)۔