اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
خونی پسینہTHE BLOODY SWEAT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44). |
یہ پیغام سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon کے ذریعے سے دیے گئے دو عظیم واعظوں ’’باغ میں اذیت The Agony in the Garden‘‘(18 اکتوبر، 1874) اور ’’گتسمنیGethsemane‘‘(8 فروری، 1863) پر مشتمل ہے۔ میں آپ کو مبلغین کے شہزادے کی جانب سے دیے گئے اِن دو شاہکار خُطبوں کا اِختصار پیش کروں گا۔ یہاں پر کچھ بھی اصلی نہیں ہے۔ میں نے اِن واعظوں کو دورِ حاضرہ کے کم پڑھے لکھے ذہن کے لیے سادہ کیا ہے۔ اِن خیالات کو عظیم مبلغ کے واعظوں سے کشید کیا گیا ہے، اور میں اِس اُمید کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ گتسمنی کے باغ میں سپرجیئن کی پیش کی گئی مسیح کی تصویر آپ کی جان کو گرفت میں کر لے گی اور آپ کے دائمی مقدر کو دُرست کر دے گی۔
یسوع نے فسح کا کھانا کھایا اور عشائے ربانی کو اپنے شاگردوں کے ساتھ منایا تھا۔ پھر وہ اُن کے ساتھ گتسمنی کے باغ میں چلا گیا تھا۔ اُس نے کیوں گتسمنی کو اپنی اذیت کے آغاز کے لیے چُنا تھا؟ کیا یہ اِس لیے تھا کیونکہ آدم کے گناہ نے ہمیں ایک باغ عدن کے باغ میں تباہ کیا تھا؛ لہٰذا آخری آدم نے ہمیں ایک دوسرے باغ، گتسمنی کے باغ میں بحال کرنے کی خواہش چاہی؟
مسیح اکثر گتسمنی میں دعا مانگنے کے لیے آیا کرتا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں وہ پہلے بھی کئی مرتبہ جا چکا تھا۔ یسوع کا مطلب تھا کہ ہم دیکھیں کہ ہمارے گناہ نے اُس کے بارے میں ہر ایک چیز کو دُکھ میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ جگہ جہاں پر اُس نے سب سے زیادہ خوشی محسوس کی تھی وہ جگہ بن چکی تھی جہاں پر اُس کو سب سے زیادہ دُکھ اُٹھانے کے لیے بُلایا گیا۔
یا پھر اُس نے شاید گتسمنی کو اِس لیے چُنا کیونکہ یہ اُس کو ماضی میں گزرے ہوئے دعا کے لمحات کو یاد دِلاتا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پر خُدا نے اکثر یسوع کو جواب دیا تھا۔ جیسے ہی وہ اذیت میں داخل ہوا، اُس نے شاید محسوس کیا تھا کہ ابھی اُس کی مدد کرنے کے لیے اُس کو دعا کے لیے خُدا کے جواب کو یاد رکھنے کی ضرورت تھی۔
دعا میں گتسمنی میں اُس کے جانے کی اہم وجہ غالباً یہ تھی کہ وہاں پر جانا اُس کی عادت تھی اور ہر کوئی یہ بات جانتا تھا۔ یوحنا ہمیں بتاتا ہے، ’’اُس کا پکڑوانے والا یہوداہ بھی جس نے اُس کو دھوکہ دیا، اُس جگہ سے واقف تھا؛ کیونکہ یسوع کئی بار اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں جا چکا تھا‘‘ (یوحنا18:2)۔ یسوع جان بوجھ کر اُس جگہ پر گیا تھا جہاں وہ جانتا تھا کہ وہ اُس کو گرفتار کر لیں گے۔ جب یسوع کا دھوکہ کھانے کا وقت آیا، وہ ’’برّے کی مانند ذبح ہونے کے لیے‘‘ گیا (اشعیا53:7)۔ وہ سردار کاہن کے سپاہیوں سے نہیں چُھپا تھا۔ اُس کو ایک چور کی مانند شکار یا جاسوسوں کے ذریعے سے تلاش کروانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ یسوع جان بوجھ کر ایک ایسی جگہ پر گیا تھا جہاں سے غدار اُس کو آسانی سے ڈھونڈ پائے اور یسوع کے دشمن اُس کو گرفتار کر پائیں۔
اور اب ہم گتسمنی کے باغ میں داخل ہوتے ہیں۔ اِس رات کو یہ کس قدر تاریک اور ہولناک ہے۔ یقینی طور سے ہم یعقوب کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، یہ جگہ کس قدر بھیانک ہے!‘‘ (پیدائش28:17)۔ گتسمنی پر دھیان لگاتے ہوئے، ہم مسیح کی اذیت کے بارے میں سوچیں گے، اور میں باغ میں اُس کے غم کے بارے میں تین جوابات دینے کی کوشش کروں گا۔
I۔ پہلا، گتسمنی میں مسیح کے دُکھ اور اذیت کا سبب کیا تھا؟
کلام پاک ہمیں بتاتا ہے کہ یسوع ’’ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا‘‘ (اشعیا53:3)، لیکن اُس کی شخصیت افسردہ نہیں تھی۔ خود اُس کے اپنے اندر اِس قدر شدید اِطمینان تھا کہ وہ کہہ پایا ’’میں اپنا اِطمینان تمہیں دیتا ہوں‘‘ (یوحنا14:27)۔ میں نہیں سوچتا کہ میں غلطی پر ہوں جب میں کہتا ہوں کہ یسوع ایک پُرامن، خوش شخص تھا۔
مگر گتسمنی میں سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اُس کا اِطمینان چلا جاتا ہے۔ اُس کی مسرت تڑپتے ہوئے غم میں بدل جاتی ہے۔ پہاڑ سے نیچے کی جانب ڈھلوان راستے پر جاتے ہوئے جو یروشلیم سے نکلتا ہے، گتسمنی کے لیے قیدرون کی وادی کو پار کرتے ہوئے، نجات دہندہ نے دعا مانگی اور خوشی خوشی باتیں کیں (یوحنا15۔17)۔
’’جب یسوع دعا کر چکا تو وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ باہر آیا اور وہ سب قِدرُون کی وادی کو پار کرکے ایک باغ میں چلے گئے‘‘ (یوحنا 18:1).
اپنی تمام زندگی کے دوران یسوع نے مشکل سے ہی غمگین یا پریشان محسوس ہونے کے بارے میں ایک بھی لفظ ادا کیا ہو۔ لیکن اب، باغ میں داخل ہونے پر، سب کچھ بدل جاتا ہے۔ وہ چِلاتا ہے، ’’اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے‘‘ (متی26:39)۔ اپنی تمام زندگی کے دوران یسوع نے مشکل سے ہی گھبراہٹ یا غم کا کوئی اظہار کیا ہو، اِس کے باوجود یہاں پر وہ آہیں بھرتا ہے، خون کا پسینہ بہاتا ہے، اور کہتا ہے، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے‘‘ (متی26:38)۔ اے خُداوند یسوع، تیرے ساتھ کیا ہوا ہے، کہ تجھے اِس قدر شدت کے ساتھ پریشان ہونا چاہیے؟
یہ بات واضح ہے کہ اِس غم اور ذہنی دباؤ کا سبب اُس کے جسم میں درد کی وجہ سے نہیں تھا۔ یسوع نے اِس سے پہلے کبھی بھی کسی جسمانی تکلیف کی شکایت نہیں کی تھی۔ وہ غمگین رہا تھا جب اُس کا دوست لعزر فوت ہوا تھا۔ اُس نے بِلاشک و شبہ غم محسوس کیا تھا جب اُس کے دشمنوں نے کہا وہ ایک شرابی تھا، اور جب اُنہوں نے اُس پر شیطان کی قوت سے آسیبوں کو نکالنے کا الزام لگایا۔ لیکن اُس نے اِن تمام حالات میں بہادری کا مظاہرہ کیا اور اِن میں سے گزرا۔ یہ اُس کے تعاقب میں تھے۔ کچھ نہ کچھ درد کے مقابلے میں تیز ترین، بےعزتی اور بدنامی سے کہیں زیادہ تلخ، مرجانے کے صدمے کے مقابلے میں زیادہ ہولناک رہا ہوگا، جس نے اب اِس وقت میں نجات دہندہ کو گرفت میں لیا، اور اُس کو ’’افسردہ اور بیقرار‘‘ کر دیا تھا (متی26:37)۔
کیا آپ سوچتے ہیں کہ یہ موت کا خوف اور مصلوب کیے جانے کا ڈر تھا؟ بے شمار شُہدا اپنے ایمان کے لیے بہادری سے مر چکے ہیں۔ یہ بات سوچنا مسیح کے لیے رسوائی ہے کہ اُس کے پاس اُن کے مقابلے میں کم حوصلہ تھا۔ ہمارے آقا کو خود اپنے شُہدا سے کمترین نہیں سوچنا چاہیے جنہوں نے موت تک اُس کی پیروی کی! اِس کے علاوہ، بائبل کہتی ہے، ’’یسوع نے خوشی کے لیے جو اُس کے سامنے تھی، شرمندگی کی پرواہ نہ کی بلکہ صلیب کا دُکھ سہا… ‘‘ (عبرانیوں12:2)۔ یسوع کے مقابلے میں کوئی بھی موت کے درد کو بہتر طور سے چیلنچ نہیں کر سکتا۔ باغ میں اُس کی اذیت کے سبب یہ نہیں رہا ہوگا۔
اِس کے علاوہ، میں یقین نہیں کرتا کہ گتسمنی کی اذیت شیطان کے ایک غیرمعمولی حملے کے سبب سے تھی۔ اپنی منادی کے آغاز میں، مسیح ابلیس کے ساتھ ایک شدید کشمکش سے گزرا تھا جب وہ بیابان میں تھا۔ اِس کے باوجود ہم نہیں پڑھتے کہ یسوع بیابان میں ’’اذیت میں تھا۔‘‘ اُس بیابانی آزمائش میں گتسمنی میں خونی پسینے کی مانند کچھ بھی نہیں تھا۔ جب فرشتوں کا خُداوند شیطان کے مُنہ در مُنہ کھڑا تھا، اُس نے بالکل بھی شدید رونے اور آنسو بہانے، زمین پر سجدہ میں گِرنے اور باپ سے التجائیں کرنے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اِس کے موازے میں، شیطان کے ساتھ مسیح کی کشمکش آسان تھی۔ مگر گتسمنی میں اِس اذیت نے اُس کی انتہائی جان کو زخمی کر دیا تھا اور تقریبا اُس کو مار ہی ڈالا تھا۔
پھر، اِس اذیت کا سبب کیا تھا؟ یہ اُس وقت ہوتی ہے جب خُدا یسوع کو ہمارے لیے غم میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ ابھی تھا کہ یسوع کو باپ کے ہاتھ سے ایک مخصوص پیالہ لینا تھا۔ اُس نے یسوع کو ڈرا دیا تھا۔ اِس لیے آپ پُریقین ہو سکتے ہیں کہ یہ جسمانی تکلیف کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہولناک بات تھی، کیونکہ اُس سے تو وہ پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ یہ لوگوں کے یسوع کے ساتھ غصے ہونے کے مقابلے میں بدترین تھا – اُس سے تو یسوع نے ایک طرف نہیں ہٹا۔ یہ شیطانی آزمائش کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہولناک تھا – جس پر اُس نے قابو کر لیا تھا۔ یہ کچھ ناقابلِ تصور دھشت ناک، حیرت انگیز طور سے ہولناک تھا – جو خُدا باپ کی جانب سے اُس پر نازل کیا گیا تھا۔
یہ بات کہ وہ کیا چیز تھی جو اُس کی اذیت کا سبب بنی تھی اِس سے تعلق رکھتے ہوئے تمام شک کو رفع کرتی ہے:
’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا 53:6).
وہ اب اُس لعنت کو برداشت کرتا ہے جو گنہگاروں پر نازل ہونے والا تھا۔ وہ ڈٹا رہا اور گنہگاروں کی جگہ پر مصائب برداشت کیے۔ وہ اُن اذیتوں کا راز ہے جو بیان کرنا میرے لیے مکمل طور سے ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی انسانی ذہن اِس تکلیف کا مکمل طور سے اِحاطہ نہیں کر سکتا۔
یہ صرف خُدا کے لیے ہے، اور تنہا خُدا کے لیے،
کہ اُن کی شدت کو مکمل طورپر جانا جائے۔
(’’تیرے انجانے مصائب Thine Unknown Sufferings‘‘
شاعر جوزف ہارٹJoseph Hart، 1712۔1768)۔
خُدا کا برّہ اپنے بدن پر نسل انسانی کے گناہوں کو برداشت کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کا بوجھ اُس کی جان پر پڑتا ہے۔
’’وہ خُود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہُوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مُردہ ہو جائیں مگر راستبازی کے اعتبار سے زندہ ہو جائیں۔ اُسی کے مار کھانے سے تُم نے شفا پائی‘‘ (1۔ پطرس 2:24).
میں یقین کرتا ہوں کہ گتسمنی ہی میں ہمارے تمام گناہ ’’خُود اُس کے اپنے بدن میں‘‘ لاد دیے گئے تھے اور کہ اگلے دِن اُس نے صلیب تک ہمارے گناہوں کو برداشت کیا تھا۔
وہاں باغ میں مسیح کو مکمل طور سے احساس ہو چکا تھا کہ گناہ کو اُٹھانے والا کیسا ہوتا ہے۔ وہ قربانی کا بکرا بن گیا، اپنے سر پر اسرائیل کے گناہوں کو برداشت کیا، گناہ کی قربانی دینے کے لیے چُنا گیا، خیمہ سے باہر لے جایا گیا اور خُدا کے قہر کی آگ سے مکمل طور پر بھسم کیا گیا۔ کیا اب آپ نے دیکھا مسیح کیوں اِس سب سے پیچھے ہٹ رہا تھا؟ مسیح کے لیے ہم گنہگاروں کی حالت میں خُدا کی حضوری میں کھڑے ہونا انتہائی چونکا دینے والی بات تھی – جیسا کہ لوتھر نے کہا، خُدا کی حضوری میں یوں دکھائی دینا جیسے کہ آیا وہ [یسوع] ہی دُںیا کے تمام گنہگاروں کا گنہگار تھا۔ وہ اب خُدا کے سارے انتقام اور قہر کا مرکز بن چکا ہے۔ اب وہ خود پر وہ فیصلہ برداشت کرتا ہے جسے گناہ سے بھرپور انسان پر نازل ہونا چاہیے۔ اِس حالت میں ہونا مسیح کے لیے انتہائی دھشت ناک رہا ہو گا۔
پھر، اِس کے علاوہ، باغ میں اُس پر گناہ کے لیے سزا نازل ہونا شروع ہو گئی۔ پہلے، گناہ خُود اُس پر نازل ہوا، اور پھر گناہ کے لیے سزا نازل ہونا شروع ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹی تکلیف نہیں تھی جس نے لوگوں کے گناہ کے لیے خُدا کے انصاف کی ادائیگی کی۔ میں کبھی بھی ہمارے خُداوند نے جو کچھ بھی برداشت کیا اُس کو بڑھا چڑھا کر بتانے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اُس پیالے میں جو اُس نے پیا تمام جہنم کو اُنڈیلا گیا تھا۔
وہ دشمن جو نجات دہندہ کی روح پر ٹوٹ پڑا تھا،ناقابلِ اظہار ذہنی اذیت اور شدید درد کے بہت بڑے اور بے انتہا گہرا سمندر تھا جو نجات دہندہ کی جان پر اُس کی قربانی کے لیے جان دینے والی موت میں اُمڈ آیا تھا، جو اِس قدر شدید ناقابلِ تصور ہے کہ مجھے اِس قدر بے انتہا دور تک نہیں نکل جانا چاہیے، ورنہ کوئی مجھ پرناقابلِ فہم بات کا اظہار کرنے کی کوشش کا الزام لگا دے گا۔ لیکن یہ میں کہوں گا، انسانی گناہ کے بارے میں اُس بہت شدید گہری بے چینی کے انتہائی چھڑکاؤ نے، جب وہ مسیح پر نازل ہو رہا تھا تو اُس کو خونی پسینے میں بپتسمہ دے ڈالا۔ ایک گنہگار کی حیثیت سے برتاؤ کرنے کے لیے، ایک گنہگار کی حیثیت سے سزا دینے کے لیے، حالانکہ یسوع نے کبھی بھی گناہ نہیں کیا تھا – یہ تھا وہ جس نے اُس یسوع کو اُس اذیت میں مبتلا کیا تھا جس کے بارے میں ہماری تلاوت بات کرتی ہے۔
’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44).
اب ہم دوسرے سوال کی جانب آتے ہیں۔
II۔ دوسرا، مسیح کے خونی پسینے کا مطلب کیا تھا؟
ایلیکوٹEllicott ہمیں بتاتے ہیں کہ خونی پسینے کی حقیقت ’’عام طور پر مانے جانے والا نظریہ‘‘ ہے (چارلس جان ایلیکوٹCharles John Ellicott، تمام بائبل پر تبصرہCommentary on the Whole Bible، جلد ششم، صفحہ 351)۔ وہ یہ نشاندہی کرنے کے لیے بات جاری رکھتے ہیں کہ ’’وہ انتہائی اصطلاح ’خونی پسینہ،‘ ارسطو میں شدید نقاہت کی علامت کی حیثیت سے جانی گئی‘‘ (ibid.)۔ آگسٹین سے لیکر موجودہ دِن تک تبصرہ نگار یہ رائے قائم کر چکے ہیں کہ وہ الفاظ ’’جیسا کہ وہ تھے‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں اصلی خون تھا۔ ہم بھی یقین کرتے ہیں کہ مسیح نے واقعی میں خونی پسینہ بہایا تھا۔ حالانکہ یہ کسی نہ کسی طور انوکھی بات ہے، یہ تاریخ میں دوسرے لوگوں میں بے شمار مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔ گیلنGalen کی پرانی طبّی کتابوں میں، اور کچھ حال ہی کی تاریخوں کی کتابوں میں، اُن لوگوں کے ریکارڈ درج ہیں جنہیں ایک طویل مدت تک کمزور رہ چکنے کے بعد خونی پسینہ آیا۔
لیکن مسیح کا خونی پسینہ بہانے کا معاملہ انوکھا ہے۔ اُس نے ناصرف خونی پسینہ بہایا، بلکہ یہ بڑی بڑی بوندیں یا ’’گاڑھے مادے‘‘، بڑے، بھاری قطروں کی مانند تھا۔ یہ کسی بھی معاملے میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ بیمار لوگوں کے پسینے میں کچھ خون پایا گیا ہے، مگر کبھی بھی بڑی بڑی بوندیں نہیں۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ یہ بڑے بڑے خونی مادے یسوع کے کپڑوں میں جذب نہیں ہو گئے تھے بلکہ ’’زمین پر ٹپک رہے‘‘ تھے۔ یہاں طبّ کی تاریخ میں مسیح تنہا کھڑا ہے۔ وہ تندرست صحت میں ہے، تیتیس برس کی عمر کا ایک شخص۔ لیکن وہ ذہنی دباؤ جو اُس کے گناہ کے بوجھ سے بڑھ رہا تھا، اُس کی تمام طاقت کے یوں نچوڑنے ، اُس کے بدن کو اِس قدر شدید غیرقدرتی ہیجان میں مبتلا ہونے پر مجبور کر دیا کہ اُس کے بدن کے مسام کُھل گئے اور خون کی بڑی بڑی بوندیں نکل پڑیں اور زمین پر ٹپکیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس پر کس قدر زیادہ گناہ کا بوجھ تھا۔ اِس نے نجات دہندہ کو کُچل ڈالا تھا جب تک کہ اُس کی کھال سے خون نہ بہنا شروع ہوا۔
یہ مسیح کی تکلیفوں کی رضاکارانہ نوعیت کو بیان کرتی ہے، چونکہ چُھری کے بغیر ہی خونی پیسنہ آزادانہ بہا۔ میڈیکل ڈاکٹرز ہمیں بتاتے ہیں کہ جب زیادہ تر لوگ ایک بہت بڑے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں، تو خون دِل کی جانب دباؤ ڈالتا ہے۔ گال پیلے ہو جاتے ہیں؛ ایک بے ہوشی کا سا تاثر آ جاتا ہے؛ خون اندر کی جانب جا چکا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے نجات دہندہ کو اُس کی اذیت میں دیکھیں۔ وہ خود کو اِس قدر فراموش کر بیٹھتا ہے کہ اُس کا خون، بجائے اِس کے کہ اندر کی جانب اُس کو طاقت بخشنے کے لیے جاتا، باہر کی جانب زمین پر ٹپکنے کے لیے رواں ہو جاتا ہے۔ زمین پر اُس کے خون کا بہنا بہت بڑے پیمانے پر آپ کے لیے آزادانہ نجات کی پیشکش کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسا اُس کی کھال سے خون آزادانہ بہہ رہا تھا، اِسی طرح سے آپ بھی اپنے گناہوں سے آزادانہ طور پر دُھل سکتے ہیں جب آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں۔
’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44).
وہ خونی پسینہ اُس کی جان میں غم کے نتیجے کے طور پر آیا تھا۔ سب سے بدترین درد دِل میں درد ہوتا ہے۔ غم اور ذہنی دباؤ تاریک ترین صدمے ہوتے ہیں۔ وہ جو گہرے ذہنی دباؤ کو جان چکے ہیں آپ کو بتا سکتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ متی میں ہم نے پڑھا کہ وہ ’’افسردہ اور انتہائی بیقرار‘‘ تھا (متی26:37)۔ ’’انتہائی بیقرار‘‘ – وہ تاثر معنوں سے بھرپور ہے۔ یہ ایک ایسے ذہن کو بیان کرتا ہے جو کسی دوسرے خیال کو بے دخل کر کے مکمل طور پر دُکھ سے حاوی ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمارے گناہ کو اُٹھانے والے کی حیثیت سے اُس کی حالت نے اُس کے ذہن کو باقی سب احساسات سے پرے کر دیا تھا۔ اُس نے ذہنی پریشانی کے ایک بہت بڑے سمندر کے آگے اور پیچھے تھپیڑے برداشت کیے تھے۔ ’’پھر بھی ہم نے اُسے خُدا کا مارا، کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا53:4)۔ ’’اپنی جان کا دُکھ اُٹھا کر، وہ زندگی کا نور دیکھے گا اور مطمئین ہوگا‘‘ (اشعیا53:11)۔ اُس کے دِل نے اُس کو ناکام کر دیا تھا۔ وہ ہولناکی اور سراسیمگی سے بھر چکا تھا۔ وہ ’’انتہائی بیقرار‘‘ تھا۔ عالم تھامس گُڈوِنThomas Goodwin نے کہا، ’’وہ لفظ ایک ناکامی کا، فقدان کا اور روح کے ڈوبنے کا اظہار کرتا ہے، جیسا کہ لوگوں کے ساتھ بیماری اور بے ہوش ہونے کی حد تک کمزوری سے ہوتا ہے۔‘‘ ایپافروڈیٹس Epaphroditus کی بیماری، جس نے اُس کو موت کے قریب کر دیا تھا کو اِسی لفظ کے ذریعے سے پکارا جاتا ہے۔ یوں، ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کی جان بیمار اور بے ہوش ہو رہی تھی۔ اُسکا پسینہ نقاہت کے سبب سے پیدا ہوا تھا۔ مرتے ہوئے لوگوں کا وہ سردو چپچپا پسینہ اُن کے جسموں کی کمزوری کے ذریعے سے آتا ہے۔ مگر یسوع کا خونی پسینہ ہمارے گناہوں کے بوجھ کے تحت اُس کی جان کی اندرونی موت سے آیا تھا۔ وہ ایک ہولناک جان کی کمزوری کی وجہ سے بے ہوشی میں تھا، اور ایک اندرونی موت کی تکلیف میں مبتلا تھا، جس کے ساتھ ساتھ اُس کے تمام بدن سے خونی آنسو بہہ رہا تھا۔ وہ ’’انتہائی بیقرار‘‘ تھا۔
مرقس کی انجیل ہمیں بتاتی ہے کہ وہ ’’دردناک حد تک پریشان‘‘ تھا (مرقس14:33)۔ یونانی لفظ میں مطلب ہوتا ہے کہ اُس کی حیرت نے ایک شدید دھشت پیدا کی تھی، جیسی کہ لوگوں میں اُس وقت ہوتی ہے جب اُن کا جسم کپکپاتا اور رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شریعت کی ترسیل نے موسیٰ کو خوف سے دہلا دیا تھا؛ ایسے ہی ہمارا خُداوند اُس گناہ کے نظارے سے جو اُس پر لاد دیا گیا تھا دھشت کے ساتھ سکتے میں آ گیا تھا۔
نجات دہندہ پہلے غمگین تھا، پھر افسردہ اور بیقرار اور آخر میں ’’درد ناک حد تک پریشان۔‘‘ وہ دھلا ڈالنے والی حیرت کے ساتھ بھرا پڑا تھا۔ جب اصل میں ہمارے گناہوں کو اُٹھانے کا وقت آیا، تو وہ قطعی طور پر اِس صورتحال سے حیرت زدہ تھا اور خُدا کے سامنے گنہگار کی جگہ پر کھڑا کرنے کے لیے دنگ رہ گیا تھا۔ گنہگار کے نمائندے کی حیثیت سے خُدا اُس پر نظر ڈالتا اِس بات سے وہ حیرت زدہ تھا۔ وہ خُدا کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے خیال سے حیرت زدہ تھا۔ اِس بات نے اُس کی پاک، شفیق، محبت بھری فطرت کو لڑکھڑا کر رکھ دیا تھا اور وہ ’’دردناک حد تک پریشان‘‘ اور ’’انتہائی بیقرار‘‘ ہو گیا تھا۔
ہمیں مذید اور بتایا جاتا ہے کہ اُس نے کہا، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے‘‘ (متی26:38)۔ یونانی لفظ ’’پیریلیوپس perilupos‘‘ کا مطلب ہوتا ہے غموں کے ساتھ اِحاطہ کرنا۔ عام سے مصائب میں فرار کا کوئی نہ کوئی راستہ عموماً ہوتا ہے، اُمید کے لیے سانس لینے کی کچھ جگہ۔ ہم عام طور پر اُن لوگوں کو جو مصیبت میں ہیں یاد دلا سکتے ہیں کہ اُن کا معاملہ شاید بدترین ہو۔ مگر یسوع کے معاملے میں کچھ بھی بدتر تصور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ داؤد کے ساتھ کہہ سکتا ہے، ’’پاتال کی اذیت مجھ پر آ پڑی‘‘ (زبور116:3)۔ خُدا کی تمام لہریں اور بڑی بڑی موجیں اُس پر سے گزر گئیں۔ اُس کے اوپر، اُس کے نیچے، اُس کے اِردگرد، اُس کے باہر، اُس کے باطن میں، تمام کا تمام، سارا درد ہی درد تھا اور اُس کی درد اور غم سے فرار کی کوئی راہ نہیں تھی۔ مسیح کے مقابلے میں کسی بھی اور کا غم اِس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا، اور اُس نے کہا، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے،‘‘ غم سے گھری ہوئی، ’’حتیٰ کہ موت تک‘‘ – موت کے انتہائی دہانے تک!
وہ گتسمنی کے باغ میں نہیں مرا تھا، مگر اُس نے اتنی ہی تکلیف اور اذیت سہی تھی جیسے کہ وہ مر چکا تھا۔ اُس کا درد اور اُس کی اذیت موت کے دہانے تک پہنچ چکی تھی – اور پھر ٹھہر گئی تھی۔
میں حیران نہیں ہوں کہ اِس قدر اندرونی دباؤ نے ہمارے خُداوند کا پسینہ یوں بہایا جیسے وہ خون کی بڑی بڑی بوندیں ہوں۔ میں نے اِس بات کو اتنا واضح کیا جتنا میں انسانی نکتۂ نظر سے کر سکتا ہوں۔
یہ صرف خُدا کے لیے ہے، اور تنہا خُدا کے لیے،
کہ اُن کی شدت کو مکمل طورپر جانا جائے۔
’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44).
III۔ تیسرا، مسیح کیوں اِس تمام میں سے گزرا تھا؟
میں پُر یقین ہوں کہ بے شمار لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کیوں مسیح کو اِس قدر اذیت میں سے گزرنا پڑا اور پسینے کی ایسی بوندیں بہانی پڑیں۔ وہ شاید کہتے ہوں، ’’میں جانتا ہوں وہ اُس تمام میں سے گزرنا، مگر میں سمجھ نہیں پایا کیوںاُسے اِس تمام میں سے گزرنا پڑا۔‘‘ میں آپ کو چھ وجوہات پیش کروں گا کیوں یسوع کو گتسمنی کے باغ میں اِس تجربے سے گزرنا پڑا۔
1. پہلی وجہ، ہمیں اپنی حقیقی انسانیت دکھانے کے لیے۔ اُس کے بارے میں محض خُدا کی حیثیت ہی سے مت سوچیں، حالانکہ وہ یقینی طور پر الہوی [خُدائی] ہے، مگر آپ اُسے اپنے رشتہ دار جتنا قریب سمجھیں، آپ کی ہڈیوں کی ہڈی، آپ کے گوشت کا گوشت۔ کس قدر جامع طور پر وہ آپ کے ساتھ ہمدردی کر سکتا ہے! اُس کو آپ کے تمام بوجھوں کے ساتھ بوجھل کیا گیا اور آپ کے تمام غموں کے ساتھ غمگین کیا گیا۔ آپ کے ساتھ کبھی بھی ایسا کچھ نہیں ہوا جس کو یسوع نہ سمجھ سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کو آپ کی آزمائشوں میں اُٹھا لینے کے قابل ہے۔ یسوع کا ساتھ اپنے دوست کی حیثیت سے تھامے رہیے۔ وہ آپ کو ایسا اِطمینان بخشے گا جو آپ کو آپ کی زندگی کی تمام مصیبتوں میں سے نکال لے جائے گا۔
2. دوسری وجہ، ہمیں ایک مثال دینے کے لیے۔ پطرس رسول نے کہا، ’’مسیح نے تمہارے لیےدُکھ اُٹھا کر ایک مثال قائم کر دی تاکہ تم اُس کے نقشِ قدم پر چل سکو‘‘ (1پطرس2:21)۔ میں مکمل طور سے اُن مبلغین کے ساتھ غیرمتفق ہوں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ مسیحی کی حیثیت سے زندگی آسان ہوگی! پولوس رسول نے کہا، ’’جتنے لوگ مسیح یسوع میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں سب ستائے جائیں گے‘‘ (2 تیموتاؤس3:12)۔ اُس نے کہا، ’’تم اِس لیے مسیح یسوع کے اچھے سپاہی کی طرح میرے شریک ہو‘‘ (2 تیموتاؤس2:3)۔ پولوس نے وہ الفاظ ایک نوجوان مبلغ سے کہے تھے۔ منادی ایک دشوار کام ہے۔ زیادہ تر لوگ اِس کو نہیں کر سکتے۔ جارج برناGeorge Barna کے مطابق، آج تمام پادری صاحبان میں سے 35 سے 40 فیصد منادی کو چھوڑ رہے ہیں۔ یہ دُںیا میں سخت ترین بُلاہٹوں میں سے ایک ہے۔ کوئی شخص بھی اِس کو برداشت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ مسیح کا ایک سپاہی نہ ہو! نا صرف پادری صاحبان، بلکہ تمام نیک مسیحی خُدا کی خدمت کرنے کے لیے مصائب میں سے گزرتے ہیں۔ بائبل کہتی ہے، ’’خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے بہت سی مصیبتوں کا سامنا لازم ہے‘‘ (اعمال14:22)۔ میرے خیال میں وہ ڈاکٹر جان سُنگ Dr. John Sung تھے جنہوں نے کہا، ’’کوئی صلیب نہیں – کوئی تاج نہیں۔‘‘
3. تیسری وجہ، باغ میں یسوع کا تجربہ گناہ کی بدکاری کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ ایک گنہگار ہیں، جو کہ یسوع کبھی بھی نہیں تھا۔ اوہ گنہگار، آپ کا گناہ ایک بھیانک بات تھی کیونکہ یہ مسیح میں اِس قدر تکیلف کا سبب بنا تھا۔ ہمارے گناہ کا منسوب کیا جانا یسوع کے خونی پسینے کا سبب بنا تھا۔
4. چوتھی وجہ، باغ میں اُس کی آزمائش کا وقت ہمارے لیے اُس کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اُس نے ہماری جگہ پر گنہگار شمار کیے جانے کی ہولناکی کو برداشت کیا تھا۔ ہماری جگہ پر مصائب برداشت کرنے کے لیے، ہمارے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے، ہم یسوع کے ہر ایک چیز کے لیے مقروض ہیں۔ ہم سے اِس قدر شدید محبت کرنے کے لیے ہمیں یسوع سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔
5. پانچویں وجہ، باغ میں یسوع پر نظر ڈالیں اور اُس کے کفارے کی عظمت کو جانیں۔ میں کس قدر سیاہ ہوں، خُدا کی حضوری میں کس قدر غلیظ ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں صرف جہنم میں جھونکے جانے کے لیے موزوں ہوں۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ خُدا نے مجھے کافی پہلے وہاں نہیں جھونکا۔ مگر میں گتسمنی میں جاتا ہوں، اور اُن زیتون کے درختوں کے لیے دیکھتا ہوں، اور مجھے میرا نجات دہندہ نظر آتا ہے۔ جی ہاں، میں اُسے عذاب میں زمین پر لوٹ پوٹ ہوتا ہوا دیکھتا ہوں، اور میں یسوع کو کراہتا ہوا سُنتا ہوں۔ میں اُس کے اِردگرد کی زمین پر نظر ڈالتا ہوں اور اُسے خون کے ساتھ سُرخ دیکھتا ہوں، جبکہ اُس کا چہرہ خونی پسینے کے ساتھ آلودہ ہوتا ہے۔ میں یسوع سے کہتا ہوں، ’’اے منّجی، تیرے ساتھ کیا غلط ہوا ہے؟‘‘ میں اُس کو جواب دیتا ہوا سُنتا ہوں، ’’میں تمہارے گناہوں کے لیے تکلیف برداشت کر رہا ہوں۔‘‘ اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ خُدا میرے لیے یسوع کی قربانی کے ذریعے سے میرے گناہوں کو معافی بخش سکتا ہے۔ یسوع کے پاس آئیں اور اُس میں یقین رکھیں۔ آپ کے گناہ یسوع کے خون کے وسیلے سے بخش دیے جائیں گے۔
6. چھٹی وجہ، اُس سزا کی ہولناکی کے بارے میں سوچیں جو اُن لوگوں پر نازل ہو گی جو اُس کے کفارہ ادا کرنے والے خون کو مسترد کریں گے۔ سوچیں اگر آپ یسوع کو مسترد کر دیتے ہیں تو آپ کو ایک دِن پاک خُدا کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا اور اپنے گناہوں کے لیے سزا سُننی پڑے گی۔ میں آپ کو بتاؤں گا، اپنے دِل میں درد کے ساتھ جب میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہو گا اگر آپ نے نجات دہندہ یسوع مسیح کو مسترد کر دیا۔ باغ میں نہیں، بلکہ بستر میں، آپ حیران رہ جائیں گے اور موت سبقت لے جائے گی۔ آپ مر جائیں گے اور آپ کی جان کو سزا سُنانے کے لیے اور جہنم میں بھیجنے کے لیے اُٹھا لیا جائے گا۔ آئیے گتسمنی کو ہمیں خبردار کر لینے دیجیے۔ آئیے اِس کی آھوں اور آنسوؤں اور خونی پسینے کو گناہ سے توبہ کرنے اور یسوع پر یقین کرنے کے لیے آپ کو ترغیب دینے دیں۔ یسوع کے پاس آئیں۔ اُس پر بھروسہ کریں۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور زندہ ہے، آسمان میں خُدا کے داھنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یسوع کے پاس ابھی آئیں اور معاف کیے جائیں اِس سے پہلے کہ انتہائی تاخیر ہو جائے۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا22:39۔44 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھMr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’تیرے انجانے دُکھ Thine Unknown Sufferings‘‘
(شاعر جوزف ہارٹ، 1712۔1768)۔
لُبِ لُباب خُونی پسینہ THE BLOODY SWEAT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’پھر وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:44). (یوحنا18:2؛ اشعیا53:7؛ پیدائش28:17)
I. پہلی بات، گتسمنی میں مسیح کے درد اور اذیت کا سبب کیا تھا؟
II. دوسری بات، مسیح کے خونی پسینے کا مطلب کیا تھا؟
III. تیسری بات، مسیح کیوں اِس سب میں سے گزرا؟ |