اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
اشعیا کی بُلاہٹ اور تبدیلیTHE CONVERSION AND CALL OF ISAIAH ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’جس سال عُزیاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خُداوند کو ایک بُلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا6:1)۔ |
اشعیا کی کتاب واقعی میں اِس باب سے شروع ہوتی ہے۔ بے شمار تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ یہ ایک نبی کی حیثیت سے اشعیا کی بُلاہٹ ہے – اور وہ یہ ہے۔ مگر یہ اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ یہ اشعیا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اُس کی پیشن گوئی کے لیے بُلاہٹ بھی ہے۔ ایسا ماضی میں اکثر مبلغین کے ساتھ ہو چکا ہے۔ جب وہ تبدیلی کا تجربہ کرتے ہیں تو اُنہیں تب احساس ہوتا ہے کہ خُدا اُن سے چاہتا ہے وہ دوسروں کو تبلیغ کریں۔ لیکن میں سوچتا ہوں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ آیات ہمیں دکھاتی ہیں اشعیا کیسے تبدیل ہوا تھا۔ اور، اگر آپ تبدیلی ہونے جا رہے ہیں تو آپ کو بھی جن حالات سے اشعیا گزرا اُن میں سے کچھ میں سے گزرنا ہوگا۔
I۔ پہلی بات، خُدا کی آگاہی ہونی چاہیے۔
آپ سالوں تک گرجہ گھر آ سکتے ہیں اور خُدا کی کوئی آگاہی نہیں پاتے۔ آپ بائبل کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور خُدا کے بغیر کسی آگاہی کے سالوں تک دعا کے الفاظ پڑھ سکتے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں بے شمار مرتبہ اُس خیال سے چونک چُکا ہوں۔
میرے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں جانے سے پہلے میں کئی سالوں تک ایک کوکیشیئین Caucasian (سفید) بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کا رُکن تھا۔ حالانکہ میں ایک نوعمر تھا، مجھے وہ سوچنا یاد ہے کہ وہاں پر نوجوان لوگ، تقریباً اُن تمام کی، خُدا کے ساتھ بالکل بھی وابستگی نہیں تھی۔ سنڈے سکول میں وہ صرف اتنا کرتے تھے کہ ذمے لگائے گئے مواد کو پڑھتے اور جوابات دے دیتے۔ پھر وہ واعظوں کے دوران اِدھر اُدھر ہلتے رہتے اور ایک دوسرے کو نوٹس دیتے پھرتے۔ اُن کی کوئی زندگی نہیں تھی۔ اُنہیں کسی بات کی سمجھ نہیں تھی۔ اُن میں سنجیدگی کے بارے میں ایک بھی بات نہیں تھی۔ میں اُن میں سے کسی ایک کو بھی ایک خاموش جگہ پر جاتے ہوئے اور دعا مانگتے ہوئے دیکھنے کا تصور بھی نہیں پاتا۔ اُن کا ’’خُدا کی دی ہوئی زندگی میں کوئی حصہ نہیں تھا‘‘ (افسیوں4:18)۔
اُن کے ساتھ کیا بات غلط تھی؟ دو ٹوک انداز میں کہا جائے تو اُن کے پاس کوئی خُدا نہیں تھا۔ کیا وہ کبھی کبھار خُدا کے بارے میں نہیں سوچتے تھے؟ اوہ، مجھے یقین ہے وہ سوچتے تھے۔ لیکن خُدا کے بارے میں اُن کا تصور محض ایک تصوراتی عقیدہ تھا، یا ایک اندرونی احساس تھا۔
ہمارے پاس یہیں بالکل اِسی گرجہ گھر میں لوگ ہیں جن کے پاس خُدا ہے۔ آپ جانتے ہیں، یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ اِسی طرح سے تقریباً تمام لوگ آخری ایام میں ہیں، اِس بعد والی جدید ثقافت میں۔ اگر آپ نے کہا، ’’خُدا میرے لیے انتہائی حقیقی ہے۔ خُدا میری زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہستی ہے،‘‘ تو آپ کے سکول کے دوست کیا سوچیں گے؟ جہاں آپ نوکری کرتے ہیں وہاں پر لوگ کیا سوچیں گے؟ کیا وہ آپ کو خالی نظروں سے نہیں دیکھیں گے؟ کیا وہ نہیں سوچیں گے کہ آپ عجیب ہیں؟ اب، ہم حقیقت کی جانب بڑھ رہے ہیں! وہ خُدا کو نہیں جانتے – اور نا ہی آپ جانتے ہیں! آج کی صبح یہاں پر نوجوان لوگ ہیں جن کو اُن کے مقابلے میں جن سے آپ ہر روز سکول میں یا کام پر بات کرتے ہیں خُدا کے بارے میں کوئی زیادہ آگاہی نہیں ہوتی ہے۔
خُدا ہمارے اندر نہیں ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے۔ اگر آپ نے اپنے ہم جماعتوں کو کہا کہ آپ روحانی ہیں، تو وہ بات اُن کو پریشان نہیں کرے گی۔ اگر آپ نے اُنہیں کہا کہ آپ نے خُدا کے بارے میں اِتوار کو گرجہ گھر میں سُنا تھا تو وہ بات اُن کو پریشان نہیں کرے گی۔ لیکن اگر آپ نے اُن کی نظروں میں نظریں ڈال کر کہا، ’’خُدا جس نے دُنیا کو تخلیق کیا میری زندگی میں سب سے زیادہ اہم اور حقیقی ہستی ہے،‘‘ تو وہ آپ کو دیکھیں گے اور سوچیں گے آپ کتنے عجیب ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بائبل کہتی ہے،
’’کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں‘‘ (رومیوں 3:11).
اور، بائبل کہتی ہے،
’’دُںیا والے [اپنی] حکمت کے مطابق خُدا کو نہیں جان سکے‘‘ (1 کرنتھیوں1:21)۔
زیادہ تر نئے مبشران انجیل باقی کی گمراہ دُنیا کے مقابلے میں کوئی بہتر نہیں ہیں۔ اور یہاں تک کہ شاید آپ کے کالج میں ایک بائبل کے مطالعے کے گروہ میں جائیں لیکن آپ اُن کو خُدا کے بارے میں سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے نہیں سُنیں گے۔ لڑکیاں عام طور پر وہاں پر باتیں کرنے اور اِس چیز یا اُس چیز کے بارے میں ادھر اُدھر کی ہانکنے جاتی ہیں۔ اگر وہاں پر کوئی لڑکے ہوں تو وہ وہاں پر عموماً لڑکیوں کو تاڑنے کے لیے آتے ہیں۔ مگر وہ خُدا کے بارے میں نہیں سوچتے – کم از کم بائبل کے خُدا کے بارے میں نہیں سوچتے! اگر آپ نے کہا آپ کاتھولک تھے یا یہودی تھے یا یہاں تک کہ ایک بپٹست تھے تو وہ بات اُن کو پریشان نہیں کرے گی۔ اگر آپ نے کہا، ’’خُدا میرے اندر ہے، اور آپ میں بھی ہے،‘‘ تو وہ بات اُنہیں بالکل بھی پریشان نہیں کرے گی۔ یہ نئے زمانے کی سوچ ہے۔ لیکن اگر آپ نے کہا، ’’خُدا وہاں اوپر ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے۔ وہ ہمارے گناہ دیکھتا اور ہمارا انصاف کرتا ہے،‘‘ تو کیا ہوگا؟ وہ سوچیں گے آپ عجیب و غریب ہیں، کیا وہ نہیں سوچیں گے؟
اب، آیئے اِس بات کو ایک قدم اور آگے بڑھائیں۔ آئیں آپ کے بارے میں بات کریں۔ آپ یہاں پر ہیں اور آپ ابھی تک مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ آپ خُدا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ آپ کبھی کبھار تو اُس کے بارے میں سوچتے ہی ہونگے، کیا آپ نہیں سوچتے؟ اگر آپ مسیح میں ایمان لا کرتبدیل نہیں ہوئے ہیں تو آپ یقیناً اُس کے بارے میں غلط باتیں ہی سوچتے ہیں۔
اشعیا ایک نوجوان شخص تھا جب اُس کے ساتھ یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ اُس نے بائبل کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ وہ ہیکل میں عبادتوں میں شامل رہا تھا۔ لیکن وہ خود سے خُدا کو نہیں جان پایا تھا۔ وہ خُدا کے بارے میں باتیں جانتا تھا، مگر وہ تجربے سے خُدا کو نہیں جانتا تھا۔ وہ بزرگ ایوب کی مانند تھا۔ ایوب نے خُدا سے کہا،
’’میرے کانوں نے تیرے بارے میں سُنا تھا لیکن اب میری آنکھوں نے تجھے دیکھ لیا ہے۔ اِس لیے مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں‘‘ (ایوب42:5، 6)۔
ایوب نے خُدا کے بارے میں سُنا تھا۔ لیکن اب خُدا نے ’’ایوب کو بگولے میں سے جواب دیا‘‘ تھا (ایوب38:1؛ 40:6)۔ ’’پھر خُدا نے ایوب کو بگولے میں سے جواب دیا‘‘ (نئی امریکی بائبل NIV)۔
میں نہیں جانتا اِس بات کی انسانی زبان میں کیسے تشریح کروں۔ شاید یہی بہتر ہو کہ آپ کو کچھ سچی کہانیاں پیش کروں۔ ڈاکٹر کیگنDr. Cagan ایک دہریے تھے۔ وہ خُدا میں بالکل بھی یقین نہیں کرتے تھے۔ پھر ایک رات کے آخری پہر ڈاکٹر کیگن خوفزدہ ہو گئے۔ صبح میں UCLA میں اُن کا ایک نہایت ہی اہم امتحان تھا۔ لیکن اُن کی سمجھ میں مواد بالکل بھی نہیں آیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ اگلے دِن ناکام ہو جائیں گے۔ اچانک ڈاکٹر کیگن نے زندگی میں پہلی مرتبہ دعا مانگی۔ اُنہوں نے کہا، ’’خُداوندا، مجھے معاف کر دے۔‘‘ پھر وہ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ وہ بیدار ہوئے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو جائیں گے۔ جب وہ جماعت تک پہنچے اور سوالات پر نظر ڈالی تو اُنہوں نے باآسانی جواب دے دیے اور جماعت میں سب سے بہترین گریڈ حاصل کیا۔ تب اُنہوں نے جانا کہ خُدا حقیقی تھا۔ بالاآخر، واقعی میں ایک خُدا تھا۔
جب میں پندرہ برس کی عمر کا تھا میں شدت کے ساتھ اپنی دادی کی موت سے اور اُن ہولناک واقعات سے جو گذشتہ شب کو پیش آئے تھے، اور اُن کے جنازے پر صدمے میں آ گیا تھا۔ میں بہت دور گلینڈیل کے فارسٹ لان Forest Lawn, Glendale کی پہاڑیوں میں اوپر بھاگ گیا تھا۔ میں ہانپتا کانپتا اور پسینے میں شرابور زمین پر گِر پڑا تھا۔ تب خُدا مجھ پر نازل ہوا۔ خُدا وہیں پر تھا اور میں یہ بات جانتا تھا۔ یہ بات ہمیشہ مجھے یعقوب کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، جب ایک شب خُداوند اُس کے پاس آیا تھا،
’’اور جب یعقوب نیند سے جاگا تو اُس نے سوچا کہ ہو نہ ہو خداوند اِس جگہ موجود ہے اور مجھے اِس کا علم نہ تھا۔ وہ ڈرگیا اور کہنے لگا، یہ جگہ کیسی پُرہول ہے‘‘ (پیدائش 28:16،17).
نا ہی تو ڈاکٹر کیگن اور نہ خود میں اُن تجربات میں تبدیل ہوئے تھے، مگر ہم ایوب کے ساتھ کہہ پائیں گے، ’’میرے کانوں نے تیرے بارے میں سُنا تھا مگر اب میری آنکھوں نے تجھے دیکھ لیا ہے‘‘ (ایوب42:5)۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس نے اصل میں خُدا کو دیکھ لیا تھا۔ یہ کہنے کا ایک تصویری طریقہ ہے کہ اُس نے خُدا کے بارے میں سُنا ہوا تھا، مگر اب وہ جان گیا تھا کہ خُدا حقیقی تھا اور وہ [اشعیا] ایک گنہگار تھا اِس لیے اُس نے کہا، ’’مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں‘‘ (ibid.)۔ اور اشعیا کا تجربہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ یعقوب اور ایوب کا تھا – اور ڈاکٹر کیگن اور خود میرا تھا – میری دادی کے بھیانک جنازے کے بعد جب میں پندرہ برس کی عمر کا تھا۔ اشعیا نے کہا،
’’جس سال عُزیّاہ بادشاہ نے وفات پائی، میں نے خداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہوگئی‘‘ (اشعیا 6:1).
ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،
جس سال عُزیاہ بادشاہ نے وفات پائی، اشعیا سوچ رہا ہے، ’’نیک عُزیاہ بادشاہ وفات پا چکا ہے، اور حالات اب [بُرے] ہوتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کو اسیری میں لے لیا جائے گا۔ خوشحالی ختم ہو جائے گی۔ نمایاں طور پر تخفیفیت [مہنگائی اور گِراوٹ] کا دور آ جائے گا، اور اِس کے بعد قحط پڑے گا۔‘‘ ذہن کے اِس سانچے میں اشعیا نے وہی کیا جو اِن ہر حالات میں کوئی دوسرا کرتا – وہ ہیکل میں جاتا ہے… خُدا کی ہیکل میں اشعیا یہ دریافت کرتا ہے کہ قوم کا سچا بادشاہ تو ابھی نہیں مرا ہے۔ ’’میں نے خُداوند کو ایک بُلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ – خُداوند تحت پر جلوہ افروز ہے… خُداوند بُلندوبالا ہے اور جلوہ افروز ہے، اور وہ گناہ کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گا (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، جلد سوئم، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1982؛ اشعیا6:1 پر غور طلب بات)۔
اب اشعیا6:3 پر نظر ڈالیں۔ سرافیم فرشتے وہاں پر تھے،
’’اور وہ ایک دُوسرے سے پکار پکار کر کہہ رہے تھے، قُدوس، قُدوس، رب الافواج قُدوس ہے، ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے‘‘ (اشعیا 6:3).
وہ پکارے تھے، ’’قدوس، قدوس، رب الافواج قدوس ہے۔‘‘ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل جو تقریباً ساٹھ سالوں تک ٹیکساس کے شہر ڈلاس میں ایک بہت بڑے پادری صاحب رہے اُنہوں نے کہا، ’’میں سوچوں گا کہ یہ خُدائے قادر میں اُن تین کی نشاندہی کرتا ہے،‘‘ تثلیث میں (ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔ W. A. Criswell, Ph.D.، اشعیا: ایک تفسیر Isaiah: An Exposition، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، 1977، صفحہ53)۔
قدّوس، قدّوس، قدّوس!
خُداوند خُدا قادرِ مطلق!
علی الصبح
ہمارے گیت تیرے لیے جلوہ گر ہونگے؛
قدّوس، قدّوس، قدّوس!
رحمدل اور طاقتور!
تین ہستیوں میں خُدا
بابرکت تثلیث!
مقدس، مقدس، مقدس! حالانکہ اندھیرا تجھے چُھپا لیتا ہے،
حالانکہ گنہگار آدمی کی آنکھ تیرے جلال کو دیکھ نہیں پاتی،
صرف تو ہی مقدس ہے؛ تیرے علاوہ کوئی اور نہیں ہے،
قوت، محبت اور پاکیزگی میں کامل۔
(’’مقدس، مقدس، مقدس! Holy, Holy, Holy!‘‘ شاعر ریجینلڈ ھیبر Reginald Heber، 1783۔1826)۔
اگر آپ کے پاس خُدا کی کوئی آگاہی نہیں ہے – صحائف کے تینوں مقّدس خُدا – اگر آپ اُس کی پاکیزگی، انصاف اور رحم سے واقف نہیں ہیں – تو آپ کیسے ایک حقیقی مسیحی ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟
II۔ دوسری بات، گناہ کی سزایابی کا ہونا ضروری ہے۔
اشعیا6:5 پر نظر ڈالیں،
’’پھر میں چلّا اُٹھا، مجھ پر افسوس! میں تباہ ہو گیا! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور میں ناپاک ہونٹوں والے لوگوں کے بیچ میں رہتا ہُوں اور میں نے بادشاہ کو جو رب الافواج ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘ (اشعیا 6:5).
تینوں خُداؤں کی آگاہی نے نبی کو اپنے گناہ دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا، ’’ناپاک ہونٹوں والا ایک شخص۔‘‘ آپ کبھی بھی اُس قسم کی سزایابی کا تجربہ نہیں کر پائیں گے جب تک خُدا آپ پر خود کو ’’تمام زمین کے منصف‘‘ کی حیثیت سے ظاہر نہ کر دے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ ویلز Dr. David Wells ایک سُلجھے ہوئے عالم الہٰیات ہیں۔ اُںہوں نے کہا،
نبی اُس [خطرے] کی ہولناکی سے آگاہ ہو گیا تھا جس میں خُدا کا کردار لوگوں کو رکھتا ہے۔ کوئی بھی اُس کے نور میں ٹھہر نہیں سکتا۔ ہر کوئی اِس سے تباہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اُس قسم کا نور ہے کہ جو اُس تمام کے خلاف جو غلط ہے، بدچلن، خودغرض، بے اعتقادہ، ناشکرا اور نافرمان ہے اُس کو خود منواتا ہے… اشعیا نے وہ بات اپنے رویاء میں دیکھا تھا اور فوراً خُدا کون ہے اِس کی روشنی میں اعلان کر دیا تھا، ’’مجھ پر افسوس! کیونکہ میں گمراہ ہوں؛ کیونکہ میں ناپاک ہونٹوں والا ایک شخص ہوں، اور ناپاک ہونٹوں والے لوگوں کے درمیان بستا ہوں؛ کیونکہ میری آنکھیں رب الافواج کو دیکھ چکی ہیں! (اشعیا6:5)۔ یہ اُن بے شمار تلاوتوں میں سے محض ایک ہے جو خُدا کی نرمی پاکیزگی کی دردناکی اور ہولناک حقیقت کے بارے میں بات کرتی ہے (ڈیوڈ ایف۔ ویلز، پی ایچ۔ ڈی۔ پروٹسٹ ہونے کی ہمت The Courage to Be Protestant، عئیرڈمینز پبلیشنگ کمپنی Eerdmans Publishing Company، 2008، صفحہ 125)۔
ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل نے کہا،
خُدا کو دیکھنے کے لیے جان کی نظریں اور خُدا کو سُننے کے لیے دِل کے کان چاہیے ہوتے ہیں۔ وہ جو اندھے ہیں اُن کے لیے وہ وجود نہیں رکھتا۔ وہ جو بہرے ہیں اُن کے لیے وہ بات نہیں کرتا۔ وہ جن کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں، سُننے کے لیے کان اور محسوس کرنے کے لیے دِل ہے خُدا ہمارے سامنے ہمیشہ کے لیے جلال میں موجود ہوتا ہے۔ اشعیا کے رویاء میں، اُس نے خود کو گناہ سے بھرپور اور دوکوڑی کا محسوس کیا تھا۔ کوئی بھی شخص جو خُدا کی حضوری میں کھڑا ہوتا ہے خود کو گھٹیاپن اور گندگی کے سیلاب میں ڈوبتا ہوا پائے گا جو اُسے بہا لے جاتا ہے (کرسویل، ibid.، صفحہ 54)۔
کسی نہ کسی دِن آپ کا خدا سے آمنا سامنا ہو جائے گا۔ اپنی موت کے وقت آپ کا سامنا اُس کے انصاف کے ساتھ ہوگا اگر آپ ابھی اِس زندگی میں نجات نہیں پاتے ہیں۔ وہ خُدا جس سے آپ کی ملاقات ہوگی وہی خُدا نہیں ہوگا جس کو آپ اپنے تصور میں دیکھتے ہیں۔ اور وہ کسی دوسری دُںیا کے مذھب کا خُدا بھی نہیں ہوگا۔ آپ کا سامنا بائبل کے خُدا سے روبرو ہوگا۔ اور وہ آپ کا انصاف آپ کے گناہ سے کرے گا، خاص طور پر آپ کے دِل اور ذھن کے گناہ سے کرے گا۔ آپ کے گناہ کے معاف کیے جانے کی صرف ایک ہی راہ ہے، اور وہ صلیب پر – آپ کی جگہ مسیح کی موت کے ذریعے سے ہے۔ اور آپ کے گناہ کو پاک صاف کرنے کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ اُس خون کے وسیلے سے ہے جو مسیح نے اُس صلیب پر بہایا تھا۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، ’’ہماری انجیل خون کی ایک انجیل ہے؛ خون ہی بنیاد ہے؛ اُس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے‘‘ (خُدا کی مصالحت کی راہ God’s Way of Reconciliation، افسیوں2، بینر اور ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1981، صفحہ 240)۔
اب آیت 8 پر نظر ڈالیں۔
’’تب میں نے خداوند کو یہ کہتے ہوئے بھی سُنا، میں کسے بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟ تب میں نے عرض کیا، میں حاضر ہُوں، مجھے بھیج دے!‘‘ (اشعیا 6:8).
اب اشعیا کو منادی کے لیے بُلایا گیا ہے۔ میں حاضر ہوں۔ مجھے بھیج دے۔‘‘ اور وہ جائے گا اور دوسروں کو اُس کی منادی کرے گا جس کا خود اُس نے تجربہ کیا تھا۔
آپ صرف اُسی وقت نجات پائیں گے اگر آپ یسوع پر بھروسہ کریں اور اُس کے پاک خون کے وسیلے سے پاک صاف ہو جائیں گے۔ آپ خُدا کا سامنا کرنے کے صرف اُسی وقت قابل ہو پائیں گے اگر آپ یسوع اُس کے بیٹے کے خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے پاک صاف ہو چکے ہوں گے۔ آسمان میں ہم ایک نیا گیت گائیں گے، ’’تو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہمیں خُدا کے واسطے خرید لیا‘‘ (مکاشفہ5:9)۔ آج کی صبح میں آپ سے یسوع پر بھروسہ کرنےاور اُس کے خون کے وسیلے سے خُدا کی حضوری میں پاک صاف ہو جانے کے لیے التجا کرتا ہوں! آمین۔ ڈاکٹر چعین، مہربانی سے دعا میں ہماری رہنمائی کریں۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا6:1۔8 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’ابراہام کے خُدا کی ستائش کروThe God of Abraham Praise‘‘ (شاعر ڈینیئل بعن یہوداہ Daniel ben Judah، 14ویں صدی)۔
لُبِ لُباب اشعیا کی بُلاہٹ اور تبدیلی THE CONVERSION AND CALL OF ISAIAH ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’جس سال عُزیاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خُداوند کو ایک بُلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا6:1)۔ I. پہلی بات خُدا کی آگاہی ہونی چاہیے، افسیوں4:18؛ II. گناہ کی سزایابی کا ہونا ضروری ہے، اشعیا6:5، 8؛ |