اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
حیاتِ نو کے لیے کیسے دعا مانگنی ہے (حیات نو پر واعظ نمبر 22) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
مہربانی سے اعمال 1:8 کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعہ بائبل کے صفحہ1148 پر ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں جب میں اِس کو پڑھوں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو مسیح نے ابتدائی مسیحیوں کو پیش کیے تھے،
’’لیکن جب پاک روح تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے‘‘ (اعمال 1:8).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
کچھ مبلغین کہتے ہیں کہ یہ صرف پینتیکوست کے موقع پر پاک روح کے نزول کے لیے حوالہ دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم توقع نہیں کر سکتے کہ پاک روح ہم پر ایسے نازل ہوگا جیسے ماضی میں وہ ہوا تھا۔ اُن میں سے بہت سے خوفزدہ ہیں کہ اُن کے لوگ پینتیکوست مشن والے بن جائیں گے اگر اُنہوں نے اُنہیں بتا دیا کہ پاک روح آج نازل ہو سکتا ہے۔ اِس لیے وہ سزایابی اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے کام کو تشنا رہنے دیتے ہیں کیونکہ وہ پینتیکوست اِزم سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن وہ غلطی پر ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہم ہمارے دور میں پاک روح کے نیچے آنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ ہماری تلاوت کی آخری آٹھ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے، ’’اور زمین کی انتہا تک۔‘‘ ایک دورِ حاضرہ کا ترجمہ اِس کو یوں لکھتا ہے، ’’اور یہاں تک کہ دُنیا کے دور دراز علاقوں تک۔‘‘ چونکہ وہ ابتدائی مسیح دُنیا کی ’’انتہا‘‘ یا ’’دور دراز‘‘ کے علاقوں تک نہیں جاتے تھے، تو یسوع تمام زمانوں کے لیے، تمام مسیحیوں کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ اُس نے اُنہیں کہا، اور ہمیں کہا، ’’جب پاک روح تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے‘‘ یہ بات اِس سے ثابت ہوتی ہے جو پطرس نے کچھ دیر بعد ہی اعمال2:39 میں کہی تھی۔ اِس کو کھولیں۔
’’اِس لیے کہ [پاک روح کا] یہ وعدہ تم سے اور تمہاری اولاد سے ہے اور اُن سب سے بھی ہے جو اُس سے دُور ہیں اور جنہیں ہمارا خداوند خدا اپنے پاس بُلائے گا‘‘ (اعمال 2:39).
اِس لیے شاگرد واپس یروشلیم چلے گئے، اور ایک بالا خانے میں دعا مانگنے کے لیے داخل ہوئے۔ اُنہوں نے کس بات کے لیے دعا مانگی تھی؟ اُنہوں نے پاک روح کی قوت کے لیے دعا مانگی تھی جس کا یسوع نے وعدہ کیا تھا جب اُس نے کہا تھا، ’’جب پاک روح تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے‘‘ (اعمال1:8)۔ میں مکمل طور پر آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray کے ساتھ متفق ہوں۔ اُنہوں نے کہا،
جب پینتیکوست نے ایک نئے دور کو قائم کیا تو روح کو بخشنے کا کام وہیں پر ختم نہیں ہو گیا تھا۔ اور پاک روح کے رابطے کا بُنا جانا جو سارے [مسیحی] زمانے کو ظاہر کرتا ہے، پینتیکوست سے شروع ہوا، جو یکساں اور غیر متغیر رہنے کے لیے نہیں تھا؛ کیونکہ اگر ایسا ہوا ہوتا، تو پھر خُدا کے مذید اور روح کے لیے دعا مانگنے سے کیا مقصد پورا ہوتا ہوگاجیسا کہ شاگردوں کو واضح طور پر کرنے کے لیے کہا گیا تھا؟ یہ اُس درخواست کے ردعمل میں تھا ’ہم نے دعا مانگنا سیکھا‘ کہ یسوع نے کہا: ’’پس جب تم بُرے ہو کر بھی اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح اِفراط سے عطا نہیں فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں‘‘ (لوقا11:13)۔ اِس وعدے کا مسیحیوں کے ساتھ کوئی دیرینہ تعلق نہیں بنتا جب تک کہ وہاں پانے کے لیے ہمیشہ اور زیادہ نہ ہو (آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray، آج کا پینتیکوست؟ حیاتِ نو کی بائبل کے لحاظ سے سمجھ بوجھ Pentecost Today? The Biblical Understanding of Revival، سچائی کی علمبرداری کا اِدارہ The Banner of Truth Trust، 1998، صفحہ 21)۔
الیگژینڈر موڈی سٹیوارٹ Alexander Moody Stuart نے کہا، ’’جبکہ پاک روح اُن کی کلیسیا میں ہمیشہ موجود ہے، ایسے دور آتے ہیں جب وہ قریب تر کھینچتا ہے اور قوت کی ایک بہت بڑی توانائی بخشتا ہے‘‘ (میورے Murray، ibid.، صفحہ22)۔
لیکن ہم نے 1859 کے عظیم حیاتِ نو کے بعد سے اُس جیسا صرف بہت کم ہی دیکھا ہے، بیشک انتہائی کم۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ اہم وجہ وہ حقیقت ہے جس پر زیادہ تر مبشرانِ انجیل اب مذید اور یقین نہیں کرتے کہ مسیح میں ایمان لا کر لوگوں کا تبدیل ہونا معجزات ہوتے ہیں۔ آج زیادہ تر مبشرانِ انجیل سوچتے ہیں کہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا انسانی فیصلوں سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ آپ کو صرف اتنا ہی کرنا ہوتا ہے کہ ایک کھوئے ہوئے یا گمراہ شخص کو نام نہاد کہلائی جانے والی ’’گنہگار کی دعا‘‘ کے الفاظ بلوانے ہیں۔ صرف اُن الفاظ کو کہو اور آپ نجات پا لیتے ہیں! جوئیل آسٹن Joel Osteen یہ بات اپنے ہر واعظ کے اختتام پر کہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے دعا کے الفاظ کہلواتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں، ’’ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر آپ وہ الفاظ کہہ چکے ہیں تو آپ ابھی ہی نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ دیکھا آپ نے، ایک معجزہ کرنے کے لیے پاک روح کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی! اگر آپ وہ الفاظ کہہ چکے ہیں تو ’’آپ ابھی ہی نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
یہ بات پلیگئین اِزم کی قدیم بدعت کا جواب ہے – ایک عقیدہ جو تعلیم دیتا ہے کہ انسان خود اپنی نجات کو پانے کا اہل ہوتا ہے – اِس معاملے میں، صرف چند ایک الفاظ کہہ دینے کے ذریعے سے! یا ایک مسیحی عبادت میں ’’سامنے آ‘‘ جانے کے ذریعے سے – یا اپنے ہاتھ بُلند کر دینے کے ذریعے سے! آپ میں سے تمام جو نجات پانا چاہتے ہیں، صرف اپنے ہاتھ بُلند کر لیں۔‘‘ یہ خام یا کچی پلیگئین اِزم ہے! اُس قدیم بدعت کا جواب، جو تعلیم دیتی ہے کہ ایک گمراہ یا کھویا ہوا شخص کچھ اعمال کے ذریعے سے یا ایک دعا کے الفاظ کہہ دینے کے ذریعے سے خود کو نجات دلا سکتا ہے۔ میں اِس کو ’’جادوئی دعا‘‘ کہتا ہوں۔ یہ مسیحی ہونے کے بجائے دراصل ’’جادو‘‘ ہے۔ جادو میں آپ مخصوص الفاظ ادا کرتے ہیں، یا مخصوص عمل کرتے ہیں، اور وہ الفاظ یا اعمال ایک فوق الفطرت نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ پریوں کی ملکہ نے اپنی جادوئی چھڑی ہلائی اور کہا، ’’بیبڑی۔بیبڑی۔ بُوو‘‘ اور حلوہ کدُو سینڈریلا کے لیے ایک بگھی میں تبدیل ہو گیا! لیکن مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے ’’جادو‘‘ کی مانند نہیں ہوتا جو آپ ڈیزنی کے کارٹون میں دیکھتے ہیں! والٹ ڈیزنی کو جادو میں دلچسپی تھی،جیسے ’’فینٹیشیا Fantasia‘‘ میں ’’شاگردِ ساحر the Sorcerer’s Apprentice‘‘ اُن تمام ناچتی ہوئی جھاڑوؤں کے ساتھ! یہ سب کچھ ڈیزنی کی کارٹون فلموں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ یہ تمام مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے دورِ حاضرہ کے انجیلی بشارت کے پرچار کے خیالات کے ذریعے سے بھی ہوتا ہے! اِس مسئلے کے تفصیلی معائنے کے لیے ڈیوڈ میلکم بینیٹ David Malcolm Bennett’s book کی کتاب، گنہگار کی دعا: اُس کا آغاز اور خطرات The Sinner’s Prayer: Its Origins and Dangers، ایون بیفور پبلیشنگ Even Before Publishing، n.d. کو پڑھیں جو Amazon.com پر مہیا ہے۔
ہر حقیقی تبدیلی ایک معجزہ ہوتا ہے۔ مہربانی سےمیرے ساتھ مرقس10:26 کھولیں۔ یہ سیکوفلیڈ مطالعۂ بائبل کے صفحہ1059 پر ہے۔
’’شاگرد نہایت ہی حیران ہُوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے، پھر کون نجات پا سکتا ہے؟ اور یسوع نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا، یہ اِنسانوں کے لیے تو ناممکن ہے…‘‘ (مرقس 10:26،27).
شاگردوں نے پوچھا تھا، پھر کون نجات پا سکتا ہے؟‘‘ یسوع نے جواب دیا، ’’انسانوں کے لیے تو ناممکن ہے۔‘‘ انسان گناہ کی حالت میں نجات پانے یا یہاں تک کہ بچائے جانے کے لیے خود کی مدد کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا! پھر یسوع نے کہا، ’’لیکن خُدا کے لیے نہیں: کیونکہ خُدا سے سب کچھ ممکن ہے۔‘‘ ایک شخص کی نجات خُدا کی جانب سے ایک معجزہ ہے! ہم اِس سال بے شمار لوگوں کا بھرپور اُمید کے ساتھ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا دیکھ چکے ہیں، اُن میں سے دو گذشتہ اِتوار کو اور ایک آج کی صبح۔ ہر حقیقی تبدیلی ایک معجزہ ہوتی ہے۔ پال کوک Paul Cook بجا طور پر کہتے ہیں، ’’حیاتِ نو کی خصوصیات پاک روح کے کسی دوسرے عام کام کی خصوصیات سے کوئی مختلف نہیں ہوتیں ماسوائے سائز اور شدت کے لحاظ سے‘‘ (آسمان سے آگ Fire from Heaven، ای پی کُتب EP Books، 2009، صفحہ117)۔
جب ایک شخص تبدیل ہوتا ہے تو یہ خُدا کا معجزہ ہوتا ہے۔ جب وقت کے چھوٹے سے عرصے میں بے شمار لوگ مسیح میں ایمان لا کرتبدیل ہوتے ہیں تو یہ خُدا کی جانب سے معجزہ ہوتا ہے۔ واحد فرق صرف ’’سائز اور شدت کے لحاظ سے‘‘ ہوتا ہے۔ جب ہم حیات نو کے لیے دعا مانگتے ہیں تو پاک روح سے بے شمار لوگوں کے دِلوں میں ایک ساتھ کام کرنے کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔
مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی میں پاک روح کیا کرتا ہے؟ پہلی بات، ’’جب وہ مدد گار آ جائے گا تو جہاں تک گناہ … دُنیا کو مجرم قرار دے گا‘‘ (یوحنا16:8)۔ پال کوک نے کہا، ’’لوگ قدرتی طور پر کبھی بھی اپنے گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں آتے؛ قدرتی طور پر وہ خود ہی جواز پیش کرنے والے ہوتے ہیں۔ روح کے ایک مخصوص کام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب روح کام کرتا ہے توگناہ گھناؤنا [ہولناک، ناگوار] بن جاتا ہے، جو ایک شخص کو اِس سے نفرت کرنے اور اِسے چھوڑ دینے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ جیسا کہ ایک لڑکی نے کہا، ’’مجھے خود سے گھن آنے لگے تھی۔‘‘ اِس سے بہتر میں نے کبھی بھی سزایابی کی تعریف نہیں دیکھی۔ ’’مجھے خود سے گھن آنے لگی تھی۔‘‘ اگر آپ میں کم از کم گناہ کی اُس طرح کی سزایابی نہیں ہوتی تو آپ میں حقیقی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اِس لیے ہمیں پاک روح کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ اُن لوگوں کو جو غیر نجات یافتہ ہیں گناہ کی سزایابی میں لائے۔
دوسری بات جو پاک روح تبدیلی میں کرتا ہے وہ ہے اُس شخص کو جو گناہ کی سزایابی کے تحت ہوتا ہے مسیح کی پہچان کراتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا کیونکہ وہ میری باتیں میری زبانی سُن کر تم تک پہنچائے گا‘‘ (یوحنا16:14)۔ دورِ حاضرہ کا ایک ترجمہ اِس کو یوں لکھ سکتا ہے، وہ… جو کچھ میرا ہے اُس کی آپ کو پہچان کرا دے گا۔‘‘ ایک گمراہ شخص کبھی بھی ذاتی طور پر مسیح کو نہیں جان پائے گا جب تک کہ پاک روح اُس یسوع کی پہچان نہیں کراتا۔ لیکن اگر آپ گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں آئے ہوئے ہیں، تو نجات میں پاک روح آپ کے لیے مسیح کو حقیقی نہیں بنائے گا۔
لہٰذا، جب ہم پاک روح کے لیے قوت کے ساتھ نیچے آنے کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں تو میں بنیادی طور پر خُدا سے دعا مانگ رہا ہوتا ہوں کہ وہ روح کو بھیجے (1) کہ وہ ایک گمراہ شخص کو اُس کی ناگوار گناہ کی فطرت کی سزایابی میں لائے اور (2) ہمیں پاک روح کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ اُس شخص پر مسیح کو آشکارہ کرے تاکہ وہ اصل میں مسیح کے خون کی اُس کو گناہ سے پاک صاف کرنے کی قوت کو جان پائے۔ ایک حقیقی تبدیلی میں پاک روح کے دو اہم کام گناہ کی سزایابی کے تحت لانا اور مسیح کے خون کے وسیلے سے پاک صاف کرانا ہوتے ہیں، جیسا کہ یوحنا کے 16 ویں باب میں ظاہر کیا جا چکا ہے۔ برائن ایچ۔ ایڈورڈ Brian H. Edwards نے کہا، ’’آج بے شمار مسیحی جانتے ہی نہیں ہے کہ جب حیات نو کے لیے اُنہیں دعا مانگنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کیا دعا مانگنی چاہیے‘‘ (برائن ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیات نو، ایونجیلیکل پریس، 2004 ایڈیشن، صفحہ 80)۔
کیا دعا مانگنی چاہیے اِس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ آج بے شمار مسیحی گمراہ یا کھوئے ہوئے لوگوں کو گناہ کی سزایابی کے تحت آنے کی ضرورت کو دیکھ نہیں پاتے، اور وہ ’’بُحرانی تبدیلی‘‘ میں یقین نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے آباؤ اِجداد نے کیا تھا۔ لیکن میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ہمیں پاک روح کے ہمارے گرجہ گھر میں نازل ہونے اور آنے والے کھوئے ہوئے یا گمراہ لوگوں کو سزایابی میں لانے کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔ اگر وہ گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں آتے تو وہ نجات نہیں پائیں گے۔ کچھ باتیں مستثنٰی ہیں، لیکن وہ چند ایک ہی ہیں۔ واحد مثال جو بائبل میں مَیں ڈھونڈ پایا وہ لوقا کے اُنیسویں باب میں زکائی کی تبدیلی میں پیش کی گئی ہے۔ ہم اُس کو روتا ہوا نہیں دیکھتے جو کہ زیادہ تر حقیقی تبدیلیوں میں ایک عام بات ہے۔ اِس کے باوجود زکائی نے مسیح سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی آدھی دولت غریبوں میں بانٹ دے گا، اور کہ اگر اُس نے دھوکے سے کسی سے کچھ لیا ہے تو وہ اُس کا چَو گُنّاہ واپس کر دے گا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی گناہ کی سزایابی کے تحت تھا! میرے خیال میں زکائی کی تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ لوگ، ایک چھوٹی سی تعداد، اپنے گناہوں کی توبہ عام طور پر بہائے جانے والے آنسوؤں کے بغیر ہی کرتے ہیں جو کہ زیادہ تر بیداروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔
اور پھر، دوسری وجہ کہ زیادہ تر مبشران انجیل نہیں جانتے کہ کس بات کے لیے دعا مانگنی چاہیے یہ ہے کہ آج زیادہ تر مبشران انجیل ’’بُحرانی‘‘ تبدیلی میں یقین نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے آباؤ اِجداد کرتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے کہا کہ سزایابی کے تحت ایک شخص ’’بیدار ہو جاتا‘‘ تھا لیکن ابھی تک نجات نہیں پاتا تھا۔ ہمارے آباؤ اِجداد نے کہا کہ ایک بیدار شخص کو گناہ سے مُنہ موڑ لینے کی اذیت میں سے گزرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے ایک عورت بچہ پیدا کرنے کے لیے درد زہ سے گزرتی ہے۔ صرف اِس ہی طرح سے، ہمارے باپ دادا نے کہا کہ، ایک شخص سچے طور پر تبدیلی کا تجربہ کر پائے گا (حوالہ دیکھیں زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress میں’’مسیحی‘‘ کی تبدیلی)۔
میں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونزDr. Martin Lloyd-Jones کے ساتھ متفق ہوں کہ رومیوں 7 باب کی آخری دو آیات میں پولوس رسول ہمیں ایک حقیقی تبدیلی کی مثال پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر لائید جونز نے کہا یہ آیات خود پولوس کی اپنی تبدیلی کو بیان کرتی ہیں۔ میں متفق ہوں۔ پولوس نے کہا،
’’ہائے! میں کیسا بد بخت آدمی ہوں! اِس مَوت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24).
یہ سزایابی ہے! – جب گنہگار خود سے ہمت ہار بیٹھتا ہے اور اپنے گناہ سے بھرپور دِل سے جس نے اُس کو غلام بنا دیا ہوتا ہے گھن کھاتا ہے۔ لیکن پھر پولوس نے کہا،
’’خدا کا شکر ہو کہ اُس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے اِسے ممکن بنا دیا ہے‘‘ (رومیوں 7:25).
یہ مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی ہے – جب ایک اذیت ذدہ گنہگار خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے آزادی پاتا ہے! یہ یہیں ہے، جہاں پہلی مرتبہ، وہ گنہگار، جس کو دکھایا گیا تھا کہ وہ گناہ کے لیے ایک بے بس غلام ہے، جو بالاآخر یسوع کی جانب رُخ کرتا ہے اور اُس کے خون کے وسیلے سے گناہ سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ ہمارے دور کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ زیادہ تر مبشران انجیل کبھی بھی کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اِن سب سے زیادہ اہم تجربات میں سے گزریں۔ ضمیر کی انتہائی پہلی چبھن پر، اور شاید وہ نہ بھی ہو، وہ فیصلہ ساز اُنہیں گنہگار کی دعا پڑھنے کے لیے مجبور کرے گا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے پاس یہ واحد ایک سب سے زیادہ اہم وجہ ہے کہ 1859 سے لیکر امریکہ میں کوئی قومی تبدیلی کر دینے والا حیات نو نہیں آیا۔
اِس لیے، یہی باتیں ہیں جن کے لیے آپ کو سب سے زیادہ دعا مانگنی چاہیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے گرجہ گھر کو حیات نو کا تجربہ ہو۔ پہلی بات، خُدا سے دعا مانگیں کہ اپنا روح گمراہ لوگوں کو گناہ کی سزایابی میں لانے کے لیے بھیجے۔ دوسری بات، خُدا کے روح کے لیے دعا مانگیں کہ وہ اُن پر یسوع کو آشکارہ کرے اور اُنہیں صلیب پر اُس کی موت کے ذریعے سے معافی کے لیے اور اُس کے قیمتی خون کے ذریعے سے گناہ سے پاک صاف ہونے کے لیے اُس کی جانب کھینچے!
پادری برائین ایچ۔ ایڈورڈز Pastor Brian H. Edwards نے کہا کہ حیاتِ نو کی دعاؤں کی توجہ کا مرکز ’’تبدیل شُدہ لوگوں، مضطرب (بیدار) لوگوں، اور ابھی تک سوئے ہوئے لوگوں پر ہونا چاہیے‘‘ (حیاتِ نو Revival، ایونجیلیکل پریس، 2004 ایڈیشن، صفحہ 127)۔ کیوں حیاتِ نو کی دعاؤں کی توجہ کا مرکز ’’تبدیل شُدہ لوگوں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’مضطرب لوگوں‘‘ اور ’’ابھی تک سوئے ہوئے لوگوں‘‘ پر ہوتا ہے؟ کیوںکہ وہ جو تبدیل شُدہ ہیں اخلاقی طور پر گِر بھی سکتے ہیں۔ پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں First Chinese Baptist Church میں حیاتِ نو کا آغاز نجات یافتہ لوگوں کے درمیان ہوا تھا جنہوں نے اپنے دِلوں میں گناہ کیا تھا۔ وہ ہر کسی کے سامنے، آنسوؤں کے ساتھ، کھلم کُھلا اپنے گناہ کا اعتراف کرنا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ کے دِل میں گرجہ گھر کے دوسرے لوگوں کے لیے کڑواہٹ تھی۔ کچھ نے اپنی زندگیوں میں خُفیہ گناہوں کو آنے دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے گناہوں کے لیے عذر پیش کر دیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ اِن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جب پاک روح نازل ہوا تو اُن کے دِل ٹوٹ چکے تھے۔ اُنہیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ اپنی دعاؤں میں سرد اور مُردہ تھے۔ اُنہیں احساس ہو گیا کہ وہ گرجہ گھر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ناراض تھے اور اُن کے ساتھ کڑواہٹ رکھتے تھے۔ باقیوں نے وہ کچھ کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ خُدا اُن سے چاہتا ہے کہ وہ کریں۔
ایک اور حیاتِ نو میں ’’ایک بہت بڑا [مضبوط] مبشر انجیل اپنے ہاتھوں کو مڑوڑتا ہوا پایا گیا تھا جس کے آنسو زمین پر ٹپک رہے تھے۔ اُس شخص نے بے شمار لوگوں کی رہنمائی مسیح کی جانب کی [تھی]، لیکن اُس نے … گناہ کا اعتراف کرنا تھا اور اُس کو کوئی سکون میسر نہیں تھا جب تک کہ وہ گرجہ گھر میں لوگوں کے سامنے کھڑا نہیں ہوا اور اِس سب کا [اعتراف] نہیں کر لیا۔ اُس کی الفاظ بجلی کے جھٹکے کی مانند تھے اور لوگ توبہ کے لیے زمین پر گِر گئے تھے‘‘ (برائین ایڈورڈز، حیاتِ نو: خُداوند سے لبریز لوگ Revival: A People Saturated With God، ایونجیلیکل پریس، 1991ایڈیشن، صفحہ261)۔
شاید ہمارے گھر میں بھی کوئی ایک مسیحی ہو جو کسی نہ کسی بات پر خُدا کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کرتا ہو۔ یہ بات حیاتِ نو میں رکاوٹ بن سکتی ہے! جب 1970 میں کینٹکی Kentucky کے شہر وِلمورWilmore میں ایسبرے کالج Asbury College میں حیاتِ نو آیا تو سینکڑوں سچے طور پر مسیح میں ایمان لائے ہوئے طالب علموں نے محسوس کیا کہ اُنہیں عوام کے سامنے… اعتراف کرنا چاہیے۔ وہ لائین میں کھڑے ہو جاتے، کبھی کبھار کئی کئی گھنٹوں کے لیے، اُس چھوٹے سے گرجہ گھر میں مائیکروفون تک پہنچنے کے انتظار میں تاکہ وہ اعتراف کر سکیں… اُنکی [نافرمانی] اور دعا مانگنے کے لیے۔
وہ شخص جو ایسبرے کے اجلاس کی رہنمائی کر رہا تھا اُس نے منادی نہیں کی۔ اِس کے بجائے، اُس نے مختصراً اپنی گواہی پیش کی تھی، اور پھر طالب علموں کو خود اُن کے اپنے مسیحی تجربے کے بارے میں بات کرنے کے لیے دعوت دی۔ اِس بارے میں کوئی بھی بات خصوصی طور پر غیرمعمولی نہیں تھی۔ ایک طالب علم نے اُس پیشکش پر ردعمل ظاہر کیا۔ پھر دوسرے نے کیا۔ پھر ایک اور نے کیا۔ ’’پھر وہ الطار کی جانب اُمڈنا شروع ہوتے گئے،‘‘ اُس نے کہا۔ ’’یہ ابھی ابھی ٹوٹا۔‘‘ آہستہ آہستہ، ناقابل فہم طور سے، طالب علم اور عملے کے اراکین دونوں ہی نے خود کو خاموشی سے دعا مانگتے، روتے، گیت گاتے ہوئے پایا۔ اُنہوں نے دوسروں کو ڈھونڈا جن کے ساتھ اُنہوں نے بُرا عمل کیا تھا اور معافی کے طلبگار ہوئے۔ اُس چھوٹے سے گرجہ گھر کی عبادت آٹھ دِنوں [ایک دِن کے 24گھنٹے] تک جاری رہی تھی۔
بالکل یہ ہی تھا جو پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں First Chinese Baptist Church میں بھی ہوا تھا، بالکل اُسی عرصے میں جب ایسبرے میں حیات نو آیا تھا۔ یہ چار گھنٹوں تک جاری رہا تھا جب چینی لوگ اعتراف کر رہے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔ کھلم کُھلا اعتراف 1910 میں کوریا کے حیاتِ نو میں عام بات تھی۔ آج، چین میں، مسیحیوں کے ذریعے سے، آنسوؤں کے ساتھ، کھلم کھلا اعتراف اُس عظیم حیاتِ نو میں جو وہاں پر جاری ہے ایک عام بات ہے۔ ایوان رابرٹز Evan Roberts چیخ پڑے، ’’خُداوندا، مجھے حلیم کر،‘‘ جب وہ خُداوند کے سامنے دوزانو ہوا تھا اور 1905 کے وھیلز کے حیاتِ نو Welsh Revival میں قائد بنا۔ آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ خدا سے دعا مانگیں گے کہ آپ کو فروتن کرے؟ گیت گائیں ’’اے خُداوندا، مجھے جانچ Search Me, O God۔‘‘
’’اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے،
اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے،
دیکھ مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں،
اور مجھے ابدی راہ میں لے چل‘‘
(زبور 139:23،24).
جیتے جاگتے خُداوند کے روح، نازل ہو، ہم دعا مانگتے ہیں۔
جیتے جاگتے خُداوند کے روح، نازل ہو، ہم دعا مانگتے ہیں۔
ہمیں پگھلا ڈال، ہمیں سانچے میں ڈھال، ہمیں توڑ ڈال، ہمیں موڑ ڈال۔
جیتے جاگتے خُداوند کا روح، نازل ہو، ہم دعا مانگتے ہیں۔
وہ ہمارے گرجہ میں رونما ہو سکتا ہے اگر ایک حیاتِ نو میں خُداوند اپنا روح نازل فرماتا ہے۔ ’’اے خُداوندا، مجھے جانچ Search Me, O God۔‘‘ اِس کو دھیرے دھیرے گائیں۔
’’اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے،
اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے،
دیکھ مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں،
اور مجھے ابدی راہ میں لے چل‘‘
(زبور 139:23،24).
آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اعمال1:4۔9 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’مجھے دعا مانگنا سیکھا Teach Me to Pray‘‘ (شاعر البرٹ ایس۔ رائیٹز Albert S. Reitz، 1879۔1966)۔