اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
پاک روح کے لیے دعائیں مانگنا(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 19) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ |
میں حیاتِ نو پر ایک اور کتاب پڑھتا رہا ہوں۔ میں مصنف کا نام نہیں بتاؤں گا۔ میرے خیال میں وہ غالباً ایک اچھا انسان ہے۔ لیکن وہ حیات نو کو سمجھتا نہیں ہے۔ میں واقعی میں اُس پر الزام نہیں لگا رہا کیوںکہ میں خود بھی کئی سالوں تک اندھا رہا تھا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ آدمی حیاتِ نو کو نہیں سمجھتا جب میں نے ’’مسئلے کے لیے فارمولا The Formula for the Problem‘‘ کے عنوان سے اُس کے ابواب میں سے ایک کو پڑھا۔ جیسا کہ میں نے توقع کی تھی، اُنہوں نے 2۔ تواریخ7:14 کے بارے میں بات کی تھی۔ کوئی بھی کتاب یا واعظ جو شروع میں ہی اِس آیت پر توجہ مرکوز کر لیتا ہے غلط ہے۔ صرف خود سے پوچھیں، ’’حیاتِ نو کے لیے کیوں وہ ’فارمولا‘ پرانے عہد نامے میں 2 کرنتھیوں میں اِس قدر مبہم جگہ پر پیش کیا گیا؟‘‘ کیا یہ واضع نہیں کہ یہ پرانے عہد نامے کا ایک وعدہ ہے جو اسرائیل کی قوم سے کیا گیا تھا؟ بِلاشُبہ یہ ہے! اِس کا نئے عہد نامے کے حیاتِ نو کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ آیات کی توجہ اُن باتوں پر مرکوز ہے جنہیں اسرائیل کی قوم میں لوگوں کو کرنے کی ضرورت تھی۔ جب آپ اِس کو تقدیرِ ازل کے طور سے لیتے ہیں تو یہ انسان کو مرکز مان کر رکھے جانے والا ’’فارمولا‘‘ بن جاتا ہے بجائے اِس کے کہ خدا کو مرکز مان کر پایا ہوا تحفہ بنے۔ اُس کتاب کے مصنف، کتاب کی جلد پر کہتے ہیں، ’’حیاتِ نو کی اُمید اگلی نسل کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ میں اتنی ہی شدت کے ساتھ جتنا کہ ممکن ہو سکتا ہے کہوں گا – نہیں! نہیں! نہیں! حیاتِ نو کی اُمید آپ کے ہاتھوں میں نہیں ہے! حیاتِ نو کی اُمید خُدا کے ہاتھوں میں ہے! آپ دعا مانگ سکتے ہیں، ’’اِسے دوبارہ دہرا دے، اے خُداوندا‘‘ – اور واقعی میں سوچیں کہ آپ اِس کو خود کرنے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Martin Lloyd-Jones کے مطابق، مقامی گرجہ گھروں کو تقریباً ہر دس سالوں میں یا اِس سے زیادہ عرصے میں حیاتِ نو کا تجربہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج ہزاروں لاکھوں انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے اور بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر ہیں جن میں حیاتِ نو کبھی بھی نہیں آیا! در اصل، اگر اِن میں سے زیادہ تر میں ایک حقیقی حیات نو آتا تو پادری صاحبان کو پتا ہی نہ ہوتا کیا کرنا ہے – اور لوگ خوف سے بھاگ چکے ہوتے! میں جانتا ہوں کہ یہ بات سچی ہے کیونکہ یہی ہے جو خود ہمارے اپنے گرجہ گھر میں رونما ہوا۔ ہم حیاتِ نو کے لیے دعا مانگتے ہیں اور تین سو سے زیادہ لوگ ہیں جن میں شریک کار پادری صاحب بھی ہیں جو ہمارے گرجہ گھر سے بھاگ گئے جیسے چوہے ڈوبتے ہوئے جہاز میں سے بھاگتے ہیں! جی نہیں، امریکہ میں پادری صاحبان اور گرجہ گھروں کے اراکین جو آخری بات چاہتے ہیں وہ حقیقی حیات نو ہے! یہ اُن وجوہات میں سے ایک ہے جن کی بِنا پر اُنہوں نے کبھی بھی حیاتِ نو کا تجربہ نہیں کیا اور اِسے کبھی کریں گے بھی نہیں! مجھے پتا چل چکا ہے کہ زیادہ تر بپتسمہ دینے والے مبلغین اب لوگوں کے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے میں مذید اور یقین نہیں کرتے، جب آپ حیاتِ نو کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ فطری طور پر قدرے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ کیسا اندھا پن! وہ خوف سے اندھے ہو جاتے ہیں!
1960 کی دہائی میں ’’یسوعJesus‘‘ تحریک شروع ہوئی تھی۔ شروع شروع میں یہ ایک حقیقی حیاتِ نو تھا۔ لیکن یہ پٹڑی سے اُتر گئی اور کرشماتی تحریک میں بدل گئی، کاتھرئن کُہلمین Kathryn Kuhlman، بینی ھِن Benny Hinn، اُس قسم جیسی بات۔ کیوں؟ کیونکہ بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر وہ نوجوان لوگ نہیں چاھتے تھے۔ وہ بدل چکے تھے۔ جیک ہائیلز Jack Hyles نے گرجہ گھر میں ’’لمبے بالوں‘‘ کے ساتھ آنے کے خلاف تبلیغ کی۔ میں نے لگ بھگ 1972 میں دو مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں میں تبلیغ کی۔ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے کچھ نئے لوگ لمبے بالوں کے ساتھ گرجہ گھر آئے۔ وہاں کی انتظامیہ نے ہمیں وہاں سے بھگا دیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ خود اُن کے اپنے ’’گرجہ گھر میں پرورش پانے والے بچے‘‘ متاثر ہوتے۔ یوں بپتسمہ دینے والوں نے سینکڑوں ہزاروں مسیح میں ایمان لائے ہوئے ہیپّیوں کو کھو دیا، اور اُنہوں نے خود اپنے بچوں کو بھی کھو دیا۔ میں جارج وائٹ فیلڈ یا جان ویزلی کو اِس طرح سے عمل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ کھوئے ہوئے گمراہ لوگوں کو نجات پاتے ہوئے اور گرجہ گھروں میں آتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے! وہ اکثر چیتھڑوں میں ملبوس غریبوں کے بڑے بڑے ہجوموں کو اور ایسے لوگوں کے بڑے بڑے ہجوموں کو جو کوئلے کی گرد اور مٹی میں سر سے پاؤں تک لت پت حالت میں کوئلے کی کانوں میں سے نکل کر ابھی آئے ہی ہوتے تھے منادی کیا کرتے تھے۔ اور اُنہوں نے حیاتِ نو پایا!
ایک حیاتِ نو میں مسیحی دُنیا میں سے گمراہ لوگوں کو گلے لگانے سے خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔ اب وہ ’’یسوع کی تحریک Jesus movement‘‘ کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ گمراہ لوگوں کو گرجہ گھروں میں لانے کے لیے تمام اقسام کی احمقانہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ مبلغین اپنی ٹائیاں اُتار پھینکتے ہیں اور ’’جاذب نظرcool‘‘ آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ راک موسیقی، جگمگاتی روشنیوں اور جو آپ سوچ سکتے ہیں اُن باتوں کو اپنا رہے ہیں۔ لیکن اب بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ خُدا کی تحریک ختم ہو چکی ہے۔ وہ اِس کو ’’دوبارہ ایجاد‘‘ نہیں کر سکتے۔ اب اُن کے زیادہ تر لوگ اوسط عمر کے ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان لوگ جو اُن کے پاس ہیں تذبذب میں مبتلا ہیں اور دُنیاوی باتوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ دُنیا میں گمراہ بچے سوچتے ہیں کہ وہ سنکی ہیں! گرجہ گھروں نے خود اپنے 88 % نوجوان لوگوں کو کھو دیا ہے اور وہ پریشانیوں میں ڈگمگا رہے ہیں۔ ہم کب یہ سیکھ پائیں گے کہ ’’حیاتِ نو کی اُمید اگلی نسل کے ہاتھوں میں نہیں [ہوتی] ہے؟‘‘ ہم کب سیکھیں گے کہ 2 تواریخ 7:14 کوئی ’’فارمولا‘‘ نہیں ہے جو حیاتِ نو لے آئے گا؟ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز نے کہا،
جس مسئلے کا ہم سامنا کر رہے ہیں وہ طریقوں کا مسئلہ نہیں ہے یا تنظیموں کا مسئلہ نہیں ہے یا یہاں وہاں تھوڑی بہت موافقت بنانے کا مسئلہ نہیں ہے یا حالات کو تھوڑا بہت بہتر کر لینے کا مسئلہ نہیں ہے یا اُنہیں تازہ ترین اور جدید ترین رکھنے کا مسئلہ نہیں ہے یا اِسی قسم کی کوئی اور بات… جس مسئلے کا سامنا ہم کر رہے ہیں وہ خود زندگی کی اپنی ضرورتیں ہیں، گرجہ گھر کی ہر سرگرمی میں اُس بنیادی قوت اور جوش کی ضرورت ہے، جو کہ واقعی میں دُنیا پر اپنا ایک تاثر چھوڑ سکتی ہیں، اور موجودہ زمانے میں معاملات کے تمام رجحان کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ نہایت اہم اور انتہائی شدید کام کرنے کی ضرورت ہے؛ زندگی کی ضرورت، قوت کی ضرورت، خود پاک روح کی ضرورت (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیاتِ نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1994 ایڈیشن، صفحہ22)۔
وہ ضرورت زندگی ہے! وہ ضرورت قوت ہے! وہ ضرورت خود پاک روح ہے!
میرے ایک دوست پادری صاحب نے مجھے بتایا کہ اُس نے ایک بوڑھے بپتسمہ دینے والے مبلغ کو کیا کہتے ہوئے سُنا۔ اُس بزرگ شخص نے کہا، ’’ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ قوت ہے، اور میں نہیں جانتا اِس کو کیسے حاصل کیا جائے۔‘‘ وہ بیچارہ بزرگ دوست ایماندار تھا لیکن احمق تھا۔ مسیح نے ہمیں بتایا کہ کیسے زندگی اور قوت اور پاک روح کو حاصل کرنا ہے! مہربانی سے اپنی بائبل میں سے لوقا11 باب، 5 آیت کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل میں صفحہ 1090 پر ہے۔ آیت 5 سے لیکر 13 تک میں مسیح نے پُرخلوص التجا کرنے والے دوست کی تمثیل پیش کی۔ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل نے اِس حوالے کو دو تمثیلوں میں تقسیم کرنے کی غلطی کی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ آیت 5 سے لیکر 10 تک پُرخلوص التجا کرنے والے دوست کی تمثیل ہے۔ پھر یہ کہتی ہے کہ آیت 11 سے لیکر 13 تک ’’ولدیت کی تمثیل‘‘ ہے۔ میرے خیال میں یہ بات معنوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ آیات 5 ت 10 اُس شخص کی بارے میں بات کرتی ہیں جو اپنے پڑوسی کے پاس جاتا ہے اور اپنے ایک دوست کے لیے جو اُس کے گھر پر آیا ہوا ہوتا ہے کھانا کھلانے کے لیے روٹی مانگتا ہے۔ پڑوسی اُس سے کہتا ہے کہ رات بہت ہو چکی ہے۔ لیکن وہ شخص روٹی مانگنے کے لیے دروازہ کھٹکھٹاتا رہتا ہے۔ بالاآخر پڑوسی بستر میں سے اُٹھتا ہے اور اُس کو وہ دیتا ہے جس کی اُسے ضرورت ہوتی ہے، ’’اُس کی پُرخلوص التجا کی وجہ سے‘‘ (لوقا11:8)۔ یونانی لفظ نے ’’پُرخلوص التجا importunity‘‘کا ترجمہ ’’اینائیڈیاanaidia‘‘ کیا ہے۔ اِس کا مطلب ’’بے شرم ثابت قدمی shameless persistence‘‘ ہوتا ہے۔ پھر یسوع نے کہا،
’’پس میں تم سے کہتا ہُوں، مانگتے رہو گے تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈتے رہو گے تو پاؤ گے۔ کھٹکھٹاتے رہو گے تو تمہارے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا‘‘ (لوقا 11:9،10).
اِس لیے تمثیل کا پہلا حصہ ہمیں مانگتے رہنے، ڈھونڈتے رہنے اور کھٹکھٹاتے رہنے کے لیے بتاتا ہے۔ یہ تصور اصلی یونانی میں ہے۔
لیکن کیا تمثیل میں ’’روٹی‘‘ کا کوئی مطلب نکلتا ہے؟ آیت 13 کے دوسرے آدھے حصے تک ’’روٹی‘‘ کو واضح نہیں کیا گیا ہے، ’’کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہیں فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟‘‘ جس ’’روٹی‘‘ کی ہمیں گمراہ لوگوں کے لیے ضرورت ہے وہ پاک روح ہے! عظیم سپرجیئن Great Spurgeon نے آیت 13 پرمنادی کرتے ہوئے کہا، آئیے ہم مانگیں کہ پاک روح وافر انداز میں ملے – اور جب اِس دعا کا جواب مل جاتا ہے، جیسا کہ اِس کا جواب مل جانا چاہیے، تب ہم اُس سب کو دیکھ پائیں گے جس کی ہماری جان خواہش کرتی ہے‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’دُرست التجاؤں کا دُرست جواب Right Replies to Right Requests،‘‘ MTP، نمبر959، صفحہ 924)۔
ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice کے پاس اپنے ’’گنہگاروں کے لیے روٹی مانگنےAsking Bread for Sinners‘‘ نامی باب میں اِس بارے میں کہنے کے لیے کچھ اہم باتیں ہیں۔ ڈاکٹر رائس نے کہا،
خُداوند اب بھی اُن کو جو اُس سے پُرخلوص التجا کرتے ہیں بشروں کو جیتنے والی قوت میں پاک روح بخشتا ہے، اور جواب دینے کے لیے ’’نا‘‘ نہیں کرتا… اور ہم شاید گنہگاروں کے لیے روٹی حاصل کر بھی لیں اگر ہمارا مطلب کاروبار ہو، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ جان جائیں اِس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آپ کو شاید روٹی مل جائے اگر آپ دروازے پر دستک دینے کے لیے رضامند ہیں اور خُدا کا انتظار کرتے ہیں جب تک کہ وہ آپ کو روٹی کی اُتنے ٹکڑے نہ بخش دے جتنوں کی آپ کو ضرورت ہے (جان آر۔ رائس، ڈی۔ ڈی۔ John R. Rice, D.D.، دعا: مانگنا اور پانا Prayer: Asking and Receiving، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1970 ایڈیشن، صفحات 97، 98)۔
ڈاکٹر رائس کے بیان میں ایک نکتہ ہے جس کے بارے میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے واضح کر دینا چاہیے۔ میں اِس تمام کے ساتھ متفق ہوں، لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ بشروں کو جیتنے کی قوت اُن کے پاس بھی آتی ہے جو نجات پائے ہوئے نہیں ہوتے، بجائے اِس کے کہ صرف بشروں کو جیتنے والوں کو ملے۔ جی ہاں، مبلغ کو پاک روح کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جو اہم بات جس کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ قوت گنہگار میں بھی آئے۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مبلغ میں کس قدر زیادہ قوت ہوتی ہے، گنہگار اُس وقت تک نجات نہیں پاتا جب تک پاک روح براہ راست اُس کے پاس نہیں آتا – اُس کو گناہ، راستبازی اور فیصلے کی سزایابی میں لانے کے لیے (یوحنا16:8) – اور اُس پر مسیح کو ظاہر کرنے کے لیے (یوحنا16:14)۔ ہم خُدا سے گنہگاروں کے لیے ہمیں ’’روٹی‘‘ دینے کے لیے پوچھ رہے ہیں، صرف خود کے لیے قوت نہیں مانگ رہے ہوتے بلکہ گمراہ لوگوں کو سُدھارنے اور بیدار کرنے کے لیے قوت مانگ رہے ہوتے ہیں – گنہگاروں کے لیے روٹی! ہمارے پاس مبلغ کے لیے قوت پانے کی دعا مانگنے کا ایک طریقہ ہے – جبکہ گنہگاروں کے پاس قوت ہو، کہ پاک روح اُنہیں سزایابی میں لائے اور مسیح کی جانب کھینچے اِس بارے میں ہم دعا نہیں مانگتے۔ جب ہم ایک حقیقی حیاتِ نو کے لیے دعا مانگتے ہیں تو یہ بات نہایت اہم ہوتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ پاک روح کو مبلغ اور خود گمراہ گنہگاروں کو قوت بخشنے کے لیے دعا مانگنی چاہیے! میں خوفزدہ ہوتا ہوں کہ اِس نکتے کو ہمیشہ ہی مکمل طور سے بُھلا دیا جاتا ہے – اور یہ وجوہات میں سے ایک ہے کہ ہم نے اپنے زمانے میں حیاتِ نو کو نہیں دیکھا ہے۔
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ استیفنُس ’’خُدا کے فضل اور اُس کی قوت سے بھرا ہوا تھا‘‘ (اعمال6:8)۔ گنہگاروں کا ہجوم، ’’اُس کا چہرہ گھور گھور کر دیکھنے لگا لیکن اُس کا چہرہ فرشتے کا سا دکھائی دے رہا تھا‘‘ (اعمال6:15)۔ دوبارہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ استیفنُس ’’پاک روح س معمور‘‘ تھا (اعمال7:55)۔ مگر پاک روح گمراہ لوگوں پر نازل نہیں ہوا تھا۔ اِس لیے اُن لوگوں کے دِل میں کوئی چُبھن نہیں ہوئی، وہ لوگ سزایابی کے تحت نہیں آئے، اور اُنہوں نے مسیح پر بھروسہ نہیں کیا۔ اِس کے بجائے ’’اُنہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور ایک ساتھ اُس پر چھپٹ پڑے، اور اُس کو گھسیٹ کر شہر سے باہر لے گئے اور اُسے سنگسار کیا‘‘ (اعمال7:57۔58)۔ یہ اِس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ مبلغ پاک روح کے ساتھ معمور ہو سکتا ہے لیکن اگر روح نے لوگوں کو نہیں چھوا ہے تو وہ پیغام کو مسترد کر دیں گے، حتّیٰ کہ مبلغ پر چڑھ دوڑیں گے۔ میں اِس کو رونما ہوتے ہوئے ذاتی طور چند ایک مرتبہ دیکھ چکا ہوں، جب پاک روح میرے ساتھ تھا لیکن گمراہ لوگوں کے ساتھ نہیں تھا۔ ایک مرتبہ اُنہوں نےاِجلاس کو بند کروا دیا تھا، حالانکہ یہ بات دیکھنے کے لائق تھی کہ خُدا میری منادی کے ذریعے سے کام کر رہا تھا۔ ایک دوسری مرتبہ، جیسا کہ میں نے کہا، ایک انتہائی بہت بڑی گرجہ گھر کی تقیسم میں ہمارے گرجہ گھر کی تین سو سے زائد افراد نے گرجہ گھر کو چھوڑ دیا۔ حالانکہ پاک روح بے شمار مرتبہ میری منادی میں میرے پاس آیا، وہ اِن لوگوں کے پاس نہیں آیا اور اُن کی توبہ کرنے کا سبب نہ بنا۔
میں اِس کو ایک انتہائی شدید اہم نکتہ سمجھتا ہوں۔ جی ہاں، مبلغ پر بھی پاک روح کو ضرور ہونا چاہیے۔ اور ہمیں اِس کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔ لیکن ہمیں مذھبی جماعت کے لیے بھی دعا مانگنی چاہیے۔ اور ہمیں اُن کے لیے بھی جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں اور ساتھ ساتھ اُن کے لیے جو گمراہ ہیں پاک روح کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ اُن میں جان پیدا کرے اُنہیں بیدار کرے۔ ہمیں گمراہ لوگوں کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ پاک روح کی سزایابی کے تحت آئیں۔ پاک روح کی قوت کے بغیر، تمام کی تمام خدمت بغاوت میں ختم ہو جائے گی یا خشک اور سرد ہو جائے گی۔ یہ یقین کرنا کہ مبلغ پاک روح کے ساتھ بھر جائے گا اور پھر لوگ خود بخود مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائیں گے ’’فنّی اِزم Finneyism‘‘ ہے۔ پاک روح کو اخلاقی طور پر گرے ہوئے اور گمراہ لوگوں کے ساتھ ساتھ مبلغ پر بھی نازل ہونا چاہیے۔ ایک مذھبی جماعت میں پاک روح کی غیرموجودگی کو بالکل دُرست طریقے سے ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے بیان کیا۔ ڈاکٹر ٹوزر نے کہا،
روح کی غیر موجودگی کے اُس غیرحقیقی پن کے مبہم احساس کا پتا لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً ہر جگہ پر ہمارے زمانے میں مذھبی اختیارات بنا رہا ہے۔ گرجہ گھر کی ایک اوسط عبادت میں سب سے زیادہ حقیقی بات ہر ایک چیز کے بارے میں مبہم طور پر غیرحقیقی ہونا ہے۔ عبادت گزار سوچوں میں گم صم حالت میں بیٹھتا ہے؛ اُس پر ایک طرح کی خواب انگیز سرد مہری رینگتی ہے؛ وہ الفاظ سُنتا ہے لیکن [اُن الفاظ کا احساس] سمجھتا نہیں ہے؛ وہ اُن کا خود اپنی زندگی کے انداز میں کسی بھی بات کے ساتھ تعلق قائم نہیں کر سکتا… وہ کسی بھی قوت، حضوری اور روحانی حقیقت سے آشنا نہیں ہوتا۔ اُن باتوں سے مطابقت رکھتے ہوئے جو اُس نے واعظ گاہ سے سُنی ہوتی ہیں یا حمدوثنا کے گیتوں میں گائی ہوتی ہیں اُس کی تجربے میں کچھ بھی نہیں ہوتا (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ A. W. Tozer, D.D.، الہٰی فتح The Divine Conquest، مارشل، مورگن اور سکاٹ Marshall, Morgan and Scott، 1964، صفحات 90، 91)۔
حیاتِ نو میں کیا ہوتا ہے یہ بات سمجھانا مجھے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہ بہتر ہو گا کہ حیاتِ نو کا اِمتزاج اُس سردمہری کے ساتھ کیا جائے جس کے بارے میں ڈاکٹر ٹوزر نے بات کی۔ جب پاک روح نازل ہوتا ہے تو ’’غیرحقیقی پن کا مبہم احساس‘‘ چلا جاتا ہے۔ جب پاک روح نازل ہوتا ہے تو مبلغ کے الفاظ کا ’’احساس‘‘ ہوتا ہے۔عبادت گزار قوت، خُدا کی حضوری اور روحانی حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے۔ جب پاک روح نازل ہوتا ہے تو واعظ اُن کے ساتھ حقیقت میں باتیں کرتا ہے۔ وہ واعظ [یا خُطبے] اُن کی زندگی میں کبھی بھی سُنی جانے والی باتوں میں سب سے زیادہ حقیقی بات بن جاتے ہیں! میں یہ بات تجربے سے جانتا ہوں کیونکہ مجھے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں ایک حیاتِ نو میں اصل میں موجود ہونے کا بہت بڑا اعزاز حاصل ہوا۔
جیسے ہی آپ اپنی گاڑی سے اُترتے آپ کو خُدا کی حضوری کا احساس ہو جاتا۔ جوں جوں آپ گرجہ گھر کی عمارت کے نزدیک ہوتے جاتے خُدا کی موجودگی زیادہ مذید اور زیادہ واضح ہوتی جاتی۔ جیسے ہی آپ اجتماع گاہ میں داخل ہوتے آپ کا دِل تیزرفتاری سے دھڑکنا شروع کرتا۔ جب وہ مذھبی جماعت حمدوثنا کا گیت گانے کے لیے کھڑی ہوتی تھی تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ جوں ہی لوگ، ایک ایک کر کے، دعا مانگنا شروع کرتے، ہمارے آنسو بہنے شروع ہو جاتے۔ جیسے ہی لوگ گواہیاں دینا شروع کرتے تھے اور سرعام اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تو ہم واقعی میں یسوع مسیح کی موجودگی کو محسوس کرتے۔ جو یسوع کی بانہوں میں کھو گئے تھے اُنہیں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے معجزات بہا لے جاتے۔ خوشی کے حمدوثنا والے گیت گائے جاتے۔ ایک گیت کو شاید بار بار گایا جاتا – جب تک کہ آپ کا دِل خُدا کی انتہائی حضوری میں بہہ نہیں جاتا۔ لوگ خُود خُداوند کے سحر تلے آ چکے ہوتے! کسی بھی قسم کے ’’کرشماتی‘‘ تحفے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ ہولناک طور پر موقعے سے باہر ہوتے۔ گرجہ گھر جیتے جاگتے خُدا کی شیرینی اور حضوری کے ساتھ بھر جاتا۔ میں نے یہ سب کچھ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا، دیکھا تھا۔ جب تک میں زندہ رہوں گا اِس کو کبھی بھی نہیں بھول پاؤں گا۔ 1905 میں ڈاکٹر جیمس الیگژنڈر سٹیورٹ نے ویلش حیات ںو Welsh Revival کے بارے میں لکھا،
ہر کسی کو اب یہ صاف طور پر واضح ہو گیا تھا کہ خدا اپنے لوگوں کی دِلدوز دُعاؤں کا جواب دے چکا تھا اور ایک بہت بڑا روحانی انقلاب بھیجا تھا۔ خُدا کی حضوری کا احساس ہر طرف ہوتا تھا (جیمس الیگژندڑ سٹیورٹ، ڈی۔ڈی۔ James Alexander Stewart, D.D.، جب روح نازل ہوا When the Spirit Came، حیاتِ نو ادب Revival Literature، n.d.، صفحہ 43)۔
کیا یہاں اِس اِجلاس میں ایسے کوئی لوگ ہیں جو پاک روح کے نزول کی ایسی خواہش رکھتے ہوں؟ اُس کے بغیر، ہمارے ساتھ شاید ٹھہرنے کے لیے اِن گرمیوں میں 10 یا 12 ہی نئے گمشدہ گمراہ لوگ ہوں، لیکن وہ نجات نہیں پا پائیں گے۔ چارلس سیمیئون Charles Simeon یقینی طور پر دُرست تھے جب اُنہوں نے کہا، ’’آپ کے درمیان مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کا کام دھیرے دھیرے ہونا چاہیے جب تک کہ خُدا آپ پر اپنا روح ایک انتہائی غیرمعمولی طور پر تعیّن نہ کر دے‘‘ (چارلس سیمیئون Charles Simeon، سوانح Memoirs، 1843، دوسرا ایڈیشن، بینر اور ٹرٹھ ٹرسٹBanner of Truth Trust کی جانب سے دوبارہ چھاپا گیا، 1961، صفحہ 141)۔
آپ مسیح کے بارے میں جان سکتے ہیں اور مسیح بخود کو نہیں جان پاتے۔ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر نے کہا،
ایک گرجہ گھر میں پرورش پا کر بڑھے ہونا ممکن ہے، [بائبل] سیکھنا اور ہمارے ساتھ ہر ایک بات کا ہونا… لیکن اُس سب کو کر چکنے کے بعد کہ ہم شاید [مسیح] کو بالکل بھی نہیں جانتے کیونکہ خُدا اِن بیرونی باتوں کی وجہ سے نہیں جانا جاتا۔ ہم اندھے ہیں، اور دیکھ نہیں سکتے، کیونکہ خُدا کی باتیں ماسوائے خُدا کے روح کے وسیلے کے کوئی بھی انسان جان نہیں سکتا… ایک علم الہٰیات کی سیمنری میں پانچ سالوں کے مقابلے میں پاک روح کا الہٰام باطنی معموری کی ایک جلالی چمک میں آپ کو یسوع کے بارے میں سیکھا سکتا ہے… لیکن وہ حتمی چمک جو آپ کو یسوع سےمتعارف کرواتی ہے وہ خود پاک روح کی معموری کے وسیلے سے ہونی چاہیے یا یہ بالکل بھی نہیں ہوتی ہے۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ یسوع مسیح کو تب ہی جان سکتے ہیں جب پاک روح اُسے ہم پر آشکارہ کرنے کے لیے خوش ہوتا ہے، کیونکہ وہ [یسوع] کسی بھی دوسرے طریقے سے ظاہر نہیں کیا جا سکتا (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ جب وہ آتا ہے When He is Come، کرسچن پبلیکیشنز Christian Publications، 1968، صفحات 26، 35)۔
یہ گناہ اور بغاوت ہوتی ہے جو پاک روح کو ہم پر مسیح کو ظاہر کرنے سے روکتی ہے۔ آپ کو گناہ کی سزایابی کے تحت آنا چاہیے۔ آپ کو مسیح کی خواہش کرنی چاہیے۔ آپ کو اُس [یسوع] کو جاننے کی چاہت کرنی چاہیے۔ آپ کو اُس گناہ سے اپنے دِل میں نفرت کرنی چاہیے جو آپ کو اُسے [یسوع کو] جاننےسے روکتا ہے۔
گیتوں میں سے ایک گیت جسے ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے ہمیں بارہا گانے کے لیے کہا جب دعا میں روح کا نزول ہوتا تھا زبور 139:23۔24 تھا۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور اِس گائیں۔
’’اَے خدا! تُو مجھے جانچ اورمیرے دل کو پہچان:
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے:
اور میرے دِل کو جان لے؛
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے:
دیکھ، مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں،
اور میری ابدی راہ میں رہنمائی کر‘‘
(زبور 139:23،24).
آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظ www.realconversion.com یا
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
|