Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

لوگوں کو جیتنے کی ہمدردی

SOUL WINNING COMPASSION
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 30 اگست، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, August 30, 2015

’’جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

یونانی لفظ “splagchnisthē” کا ترجمہ ’’ہمدردی یا ترس کیا جاناcompassion‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ’’ہمدردی محسوس کرنا، ترس کھانا، شفیق دلی سے رحم کرنا‘‘ ہوتا ہے (سٹرانگStrong)۔ سپرجیئن Spurgeon نے کہا تھا کہ یہ یونانی لفظ ’’ایک انتہائی شاندار لفظ‘‘ ہے۔ یہ کلاسِک یونانی میں نہیں پایا جاتا ہے۔ یہ سپتواجِنت Septuagint [پرانے عہد نامے کا یونانی ترجمہ] میں نہیں پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے، یہ ایک لفظ تھا جس کو مبشران انجیل [متی، مرقس اور لوقا] نے خود سے بنایا تھا۔ اُنہیں تمام یونانی زبان میں [ایک لفظ] نہیں مِلا تھا جو اُن کے مقصد کو پورا کرتا اور اِس لیے اُنہیں ایک لفظ تشکیل دینا پڑا۔ یہ شدید گہرے ترین جذبات کی عکاسی کرتا ہے؛ ایک [دِل] کی جِدوجہد کی تصویر پیش کرتا ہے – باطن کی گہری ترین فطرت کی رحم کے ساتھ خواہش کی عکاسی کرتا ہے… اُس دُکھ کے لیے جس کے سبب سے اُس کی آنکھیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہیں تھی [مسیح کا] رحم کے ساتھ پھٹ پڑنے کے لیے تیار تھا۔ اُسے بہت زیادہ ترس آیا تھا… اُس کے سامنے مصیبت زدہ لوگوں پر… اگر آپ مسیح کے کُل کردار کو اکٹھا کریں… تو شاید یہ ایک جملے میں سما پائے، ’اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’یسوع کی چاہت The Compassion of Jesus‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، 1979 ایڈیشن، جلد 60، صفحہ 613؛ تلاوت، متی9:36)۔

میرے خیال میں یونانی زبان میں ’’ترس یا ہمدردی‘‘ کو بیان کرنے کے لیے کسی لفظ کے نہ ہونے کی وجہ میں جانتا ہوں۔ رومی یونانوی دُنیا کو ایسے کسی لفظ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اِس کو وہ جذبہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہ وہ تہذیب تھی جو بے دِل ظلمت میں ڈھل چکی تھی۔ پولوس رسول نے اِن کافرانہ لوگوں کو ’’قدرتی محبت کے بغیر [پیار نہ کرنے والے، بے وفا]، کٹھور [معاف نہ کرنے والے، سنگدل]، بے رحم [ہمدردی نہ کرنے والے]‘‘ لوگوں کی حیثیت سے بیان کیا (رومیوں1:31)۔ بے وفا، سنگدل، ترس اور ہمدردی کے بغیر – یہ پہلی صدی کی رومی دُنیا کی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر چارلس ہاج Dr. Charles Hodge نے کہا، ’’جیسی یہاں پر تاریک تصویر بنائی گئی ہے، یہ اِس قدر تاریک نہیں ہے جو بے شمار مشہور و معروف یونانی اور لاطینی مصنفین نے خود اپنے مُلک کے لوگوں کی [پہلی صدی میں] عکاسی کی ہے۔ تبصرہ نگاروں نے قدیم مصنفین کے حوالوں کی خوف سے بھرپور ترتیب اکٹھی کی ہے، جو کہ [رومیوں 1 باب میں] رسول کے ذریعے سے پیش کیے گئے واقعات سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے‘‘ (چارلس ہاج، پی ایچ۔ ڈی۔ Charles Hodge, Ph.D.، رومیوں پر تبصرہ A Commentary on Romans، سچائی کے علمبرداروں کا ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1997ایڈیشن، صفحہ 43؛ رومیوں1:29۔31 پر غور طلب بات)۔

اِس مختصر سے واعظ میں میں آپ کو صرف رومیوں کی سنگدلی اور اکھاڑوں میں اُن کی خونی ظلمت کی یاد دلا سکتا ہوں، جہاں پر لوگ شراب میں دُھت ہو کر موج میلہ مناتے اور شادمانی مناتے تھے جبکہ پیشہ ور شمشیر زن اور یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے جنگلی ریچھوں اور شیروں کے ذریعے سے ٹکڑے ٹکڑے کیے جاتے تھے۔ میں آپ کو صرف یہ یاد دلا سکتا ہوں کہ اِن کافروں کے لیے نوزائیدہ بچوں کی ’’نمائش کرنا‘‘ ہزاروں ناجائز بچوں کو مرنے کے لیے میدانوں اور جنگلات میں چھوڑ دینا ایک عام سی بات تھی جو کہ اِسقاط حمل کی ایک گھٹیا قسم تھی۔

لیکن جب مسیح آیا تو اُس کی پیروی کرنے والوں نے اُن بہتوں کو بچایا جو اُس ظلمت سے بچ گئے تھے جس کا تجربہ لڑائی کے اکھاڑوں میں کیا گیا تھا۔ اور اِن ابتدائی مسیحیوں کے لیے میدانوں اور جنگلوں میں سے اُن روتے ہوئے بچوں کو جنہیں وہاں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا بچا کر لانے کے لیے جانا ایک عام بات تھی۔ پہلی صدی کی رومی دُنیا میں اِس ابتدائی مسیحیوں کی ہمدردی ایک نئی بات تھی۔ اور یہ بات اِس نئے مذھب کی عظیم ترین خصوصیات میں سے ایک تھی جس نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گرجہ گھروں کی جانب کھینچا۔ اُن ابتدائی مسیحیوں نے خود مسیح سے ہمدردی پانی سیکھی تھی! اب میں ہماری تلاوت میں سے لوگوں کو جیتنے پر دو نکات پیش کروں گا،

’’جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

I۔ پہلی بات، بشروں کو جیتنے والا ہونے کے لیے آپ کو وہ محسوس کرنا چاہیے جو یسوع نے کیا تھا۔

’’اچھا جی،‘‘ کوئی کہتا ہے، ’’وہ یسوع تھا۔ میں یسوع نہیں ہوں۔‘‘ میں جانتا ہوں کہ آپ یسوع نہیں ہیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر آپ سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جاتے ہیں تو آپ اُس کو اپنے لیے ایک مثال کی حیثیت سے رکھنا پسند کریں گے۔ وہ آیا، ’’اُس نے ایک مثال قائم کی تاکہ تم اُس کے نقشِ قدم پر چل سکو‘‘ (1 پطرس 2:21)۔ مسیح ہماری مثال ہے۔ ہمیں ایک مثال کی حیثیت سے مسیح کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہاں تک کہ اپنا روئیہ بھی وہی اپنانا چاہیے جو مسیح کا تھا۔ پولوس رسول نے کہا، ’’تمہارا مزاج بھی ویسا ہو جیسا مسیح یسوع کا تھا‘‘ (فلپیوں2:5)۔ ہمیں یسوع کی مانند سوچنے اور محسوس کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے،

’’جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

ہم مسیح کی ہمدردی، اُس کے رحم، گمراہ لوگوں کی جانب اُس کے ترس کے بارے میں بارہا پہلی تین اناجیل میں پڑھتے ہیں۔

’’اور یسوع آگے بڑھا اور جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

’’تب یسوع نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلایا اور کہا، مجھے اِن لوگوں پر بڑا ترس آتا ہے… ‘‘ (متی15:32)۔

’’یسوع نے اُن پر ترس کھایا… ‘‘ (متی20:34)۔

’’یسوع کو ترس آیا‘‘ (مرقس1:41)۔

’’اور یسوع، جب وہ باہر نکلا تو اُس نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا اور اُسے اُن پر بڑا ترس آیا…‘‘ (مرقس6:34)۔

’’مجھے اِن لوگوں پر بڑا ترس آتا ہے کیونکہ یہ تین دِن سے برابر میرے ساتھ ہیں اور اِن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا‘‘ (مرقس8:2)۔

’’جب خُداوند نے اُس بیوہ کو دیکھا تو اُسے اُس پر بڑا ترس آیا اور اُس نے اُسے کہا، مت رو‘‘ (لوقا7:13)۔

جب میں تیرہ برس کی عمر کا تھا تو حالات نے میرے لیے اپنی ماں کے ساتھ مذید اور رہنے کو ناممکن کر دیا تھا۔ میرے چچا نے ناچاہتے ہوئے مجھے اپنے گھر میں رہنے دیا تھا۔ لیکن میں نے خود کو اُن کے درمیان قبول ہوتا ہوا محسوس نہیں کیا تھا۔ اِس کےعلاوہ، وہ گھر لڑائی اور جھگڑوں سے بھرا پڑا تھا۔ اِس لیے سکول کے بعد، بعد از دوپہر، میں پچھلے دروازے سے نکل جاتا، گھر کی پچھلی جانب سے چلتا ہوا، باڑھ پھلانگتا اور ڈاکٹر اور مسز میکگون Dr. and Mrs. McGowan کے بیٹے کے ساتھ کھیلتا، وہ لوگ پڑوسی تھے۔ جب سورج ڈھل جاتا تھا تو میں اور مائیک Mike اُن کے گھر ٹی وی دیکھنے کے لیے چلے جاتے تھے۔ اکثر مرتبہ مسز میکگون کہا کرتیں، ’’رابرٹ، تم ہمارے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھا لیتے؟‘‘ لاتعداد مرتبہ میں نے اُن کے ساتھ اُن کے کچن میں کھانا کھایا۔

ایک دوپہر کو مسز میکگون نے کہا، ’’رابرٹ، کیا تم آج رات کو ہمارے ساتھ حیاتِ نو کے ایک اِجلاس میں جانا پسند کرو گے؟‘‘ میں نے کہا، ’’یقیناً،‘‘ اور اُن کے ساتھ اُس شام کو کیلفورنیا کے ہونٹینگٹن پارک Huntington Park کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں گیا۔ اُس کے بعد میں اُن کے ساتھ ہر اِتوار کو گیا۔ میں نے کئی سالوں تک نجات نہیں پائی تھی، مگر میں نے اُن کے ساتھ گرجہ گھر جانا جاری رکھا تھا۔

کچھ عرصہ قبل میں نے وہ کہانی بتائی تھی۔ بعد میں مَیں نے مسٹر گریفتھ Mr. Griffith کو کہا کہ میں آج ایک پادری نہ ہوتا، 61 برس بعد، اگر مسز میکگون نے مجھے کھانا نہ کھلایا ہوتا اور کہا نہ ہوتا، ’’رابرٹ، کیا تم آج رات کو ہمارے ساتھ حیاتِ نو کے ایک اِجلاس میں جانا پسند کرو گے؟‘‘ مسٹر گریفتھ نے تب کہا، میں بھی یہاں نہیں ہوتا اگر اُنہوں نے وہ نہ کیا ہوتا۔‘‘ پھر مسٹر سیرون Mr. Ceron نےکہا، ’’پھر تو ہمارے گرجہ گھر میں کوئی بھی یہاں نہیں ہوتا!‘‘ وہ ترس جو ڈاکٹر اور مسز میکگون کے پاس تھا ایک تنہا، گمشدہ تیرہ برس کے لڑکے کے لیے، اُس کا نتیجہ دو گرجہ گھروں کا شروع ہونا ہے، بے شمار لوگ بچائے گئے، اور انٹرنیٹ پر 32 زبانوں میں ساری دُنیا میں ہزاروں لوگوں تک اِن واعظوں کا پہنچنا ہے۔

’’جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

’’مجھے ایک برکت بنا دو Make Me a Blessing۔‘‘ اِسے گائیں!

مجھے ایک برکت بنا دو، مجھے ایک برکت بنا دو،
   میری زندگی میں یسوع کی چمک ہو؛
مجھے ایک برکت بنا دو، اے نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   مجھے آج کسی کے لیے ایک برکت بنا دو۔
(’’مجھے ایک برکت بنا دو Make Me a Blessing‘‘ شاعر عرّا بی۔ وِلسن
      Ira B. Wilson، 1880۔1950)۔

بشروں کو جیتنے والوں کو وہی محسوس کرنا چاہیے جو یسوع نے کیا تھا۔ اگر آپ کو کوئی ترس محسوس نہیں ہوتا، ایک گمشدہ گمراہ شخص کے لیے کوئی ہمدردی یا رحم نہیں محسوس ہوتا تو پھر بہت کم اِتفاق ہو گا کہ آپ اُس کو جیت پائیں گے۔

II۔ دوسری بات، لوگوں کو جیتنے والا ہونے کے لیے آپ کو وہی کرنا چاہیے جو یسوع نے کیا۔

یسوع نے صرف گمراہ گمشدہ لوگوں کے لیے ہی ترس محسوس نہیں کیا تھا – اُس نے اِس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کیا بھی تھا! سامریہ میں شاگرد یسوع کو یعقوب کے کنویں کے پاس چھوڑ گئے تھے جب وہ کھانا خریدنے کے لیے گئے۔ جب وہ واپس لوٹے تو یسوع اُن سامریوں سے گِھرا ہوا تھا جو اُس میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے تھے۔ شاگردوں نے یسوع کو روکنے اور کھانے کھلا لینے کی کوشش کی تھی، اُس نے کہا وہ پہلے ہی کھانا کھا چکا ہے،

’’میرا کھانا یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے میں اُس کی مرضی پوری کروں اور اُس کا کام انجام دوں۔ یہ مت کہو کہ فصل پکنے میں ابھی چار ماہ باقی ہیں؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی آنکھیں کھولو اور کھیتوں پرنظر ڈالو؛ کیونکہ اُن کی فصل پک کر تیار ہے‘‘ (یوحنا4:34۔35)۔

جب میں 17 کا تھا تو خُداوند نے مجھے انجیل کی منادی کرنے کے لیے بُلا لیا۔ اُنہوں نے مجھے ہونٹینگٹن پارک میں منادی کرنے کے لیے لائسنس جاری کر دیا تھا۔ میں نے آتے ساتھ ہی منادی شروع کر دی تھی، لیکن میں ابھی تک گمراہ ہی تھا۔ میں ایک رٹی رٹائی انجیل کی منادی کرتا تھا، لیکن میں مسیح کو نہیں جانتا تھا۔ خدا نے مجھے میرے نجات پانے سے پہلے ہی منادی کے لیے بُلا لیا تھا! میں اپنی والدہ کے ساتھ لاس اینجلز کے ایکو پارکEcho Park کے علاقے میں آ گیا تھا۔

میں نے ہڈسن ٹیلر Hudson Tylor کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب پڑھی تھی جو چین کے لیے ایک بہت بڑے مشنری تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے چینیوں کے لیے ایک مشنری بن جانا چاہیے۔ میں نے جنوری، 1961 میں لاس اینجلز کے پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں 19 برس کا تھا۔ مجھے اِس کا احساس نہیں ہوا تھا، مگر میں ابھی تک مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت میری عمر کے انتہائی کم نوجوان لوگ گرجہ گھر میں تھے۔ اُس وقت، ڈاکٹر ٹموتھی لِن کے پادری بننے سے پہلے، یہ ایک چھوٹا سا گرجا گھر ہوا کرتا تھا۔ لیکن مرفیMurphy اور لورنا لم Lorna Lum نے جو گرجہ گھر میں ایک نوجوان جوڑا تھا مجھے یہاں پر اپنائیت کا احساس دلایا تھا۔ وہ شام کی عبادتوں کے بعد مجھے مسٹر جین وِلکرسن Mr. Gene Wilkerson کے ساتھ کھانے کے لیے لے جاتے تھے۔ وہ مجھے اپنے گھر لے جایا کرتے۔ موسمِ خزاں میں مَیں بائیولا کالج (جو اب یونیورسٹی ہے) چلا گیا۔ مرفی ٹالبوٹ سیمنری میں کلاسز لے رہا تھا جو بائیولا کے ساتھ منسلک تھیں۔ 28 ستمبر، 1961 جس صبح میں نے نجات پائی تھی میں مرفی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ جب میں کچھ ہفتے قبل مرفی لم کے جنازے میں تھا تو وہ ساری یادیں میرے ذہن سے گزر گئیں۔

جب میں ماضی میں تقریباً آدھی سے زیادہ صدی پر نظر ڈالتا ہوں، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں ایک مسیحی نہ بن پایا ہوتا یا ایک آج ایک پادری نہ ہوتا اگر یہ ڈاکٹر اور مسز میکگون اور ڈاکٹر اور مسز لم کی ہمدردی یا ترس نہ ہوتا۔ اُنہوں نے میری جان کی نگہداشت میں اُس وقت تک مدد کی جب تک کہ میں مسیح میں اِس قدر مضبوط نہیں ہو گیا کہ تنہا کھڑا ہو پاتا۔ میں راسخ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اُن چار لوگوں نے مسیح کے لیے میری جان جیتی تھی۔ اُنہوں نے مجھے صرف ایک جلدی سے کہہ دینے والی ’’گنہگار کی دعا‘‘ نہیں پڑھائی تھی اور پھر مجھے جانے دیا۔ جی نہیں، اُنہوں نے اُس سے کہیں گُنا زیادہ کیا تھا! اُنہوں نے میری جان کی نگہداشت کی تھی! اُنہوں نے اپنی ہمدردی کے ذریعے سے ایک تنہا، گمراہ نوعمر کے لیے میری جان کو جیتا تھا۔ یہ مسیح کی مانند انجیل بشارت کا پرچار کرنے کی تعلیم ہے! وہ میرے ساتھ مہربان تھے اور اُنہوں نے ہر اِتوار کو خوشخبری کی منادی سُننے کے لیے گرجہ گھر میں رُکنے کے لیے میری مدد کی تھی۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے اُن گمراہ نوجوان لوگوں کے ساتھ جو ہمارے گرجہ گھر میں آتے ہیں۔

’’اور یسوع آگے بڑھا اور جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

’’مجھے ایک برکت بنا دو Make Me a Blessing۔‘‘ اِسے گائیں!

مجھے ایک برکت بنا دو، مجھے ایک برکت بنا دو،
   میری زندگی میں یسوع کی چمک ہو؛
مجھے ایک برکت بنا دو، اے نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   مجھے آج کسی کے لیے ایک برکت بنا دو۔

ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا،

     خُوشخبری کا پیغام قدرتی طور پر گمراہ لوگوں کے لیے ہمدردی کا تقاضا کرتا ہے… خُداوند یسوع کی عظیم ترین قربانی، اُس کے پیار کے لیے مرنے سے ہمارے دِلوں کو پگھل جانا چاہیے۔ نجات دہندہ کی کہانی کہ اُس نے کیسے جنت کو چھوڑا، اُس کی غربت کے بارے میں، اُس کی تضحیک کے بارے، اُس کو دھوکہ دینے کے بارےمیں، اُس کے گتسمنی میں خونی پسینہ بہانے کے بارے میں، صلیب پر اُس کی موت تک اذیت کے بارے میں، یہ ایسے موضوعات ہیں کہ اُن پر دُرست طریقے سے بحث کی ہی نہیں جا سکتی ماسوائے جب تک جان کی شدید تحریک نہ ہوئی ہو۔ محبت کا کیسا جوار بھاٹا، شکرگزاری کا، مقدس ہار مان لینے کا، وہ خوشگوار خدمت کا جو اُنہوں نے ایک سچے ایماندار میں بیدار کی!...
     ہم اِس کا اکثر اوقات گمراہ گنہگاروں سے کہتے ہوئے سُنتے ہیں، ’’گرجہ گھر میں اِس قدر زیادہ منافق لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ ٹھیک ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ میں خوفزدہ ہوں وہ سچے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ گرجہ گھر میں بے شمار منافق ہوتے ہیں۔ بارہ رسولوں میں سے ایک منافق تھا… کیا آپ دوسری بے شمار باتوں کے مقابلے میں اُس ایک بات کو جانتے ہیں جو مسیحیوں کو منافقوں کی مانند ظاہر کراتی ہے؟… میں یقین کرتا ہوں کہ اِس بات کو غیر نجات یافتہ لوگ محسوس کر لیتے ہیں جس کو وہ لوگ مکمل طور پر سمجھ نہیں پاتے نا ہی الفاظ میں کہہ پاتے ہیں، کہ اگر مسیحی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا اُنہیں ہونا چاہیے… تو اُنہیں ایسے مقدس معاملات کے بارے میں جیسا کہ گنہگاروں کی نجات ہے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں کہ ہر جگہ پر گمراہ گنہگار یہ بات جانتے ہیں کہ اگر پانے کے لیے ایک جنت ہے اور اِجتناب کرنے کے لیے ایک جہنم ہے؛ اگر موت اور ہمیشہ کی زندگی اور نجات اور لعنت یا عذاب اِس قدر زیادہ اہمیت کی مرکزی موضوع ہیں جیسا کہ مسیح کی انجیل تعلیم دیتی ہے تو پھر یقینی طور پر خُدا کے ہر ایک دوبارہ جنم لیے ہوئے بچے کو چاہیے… کسی بھی قیمت پر بیچارے تباہ حال گنہگار کو جہنم سے دور رکھے! (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، بشروں کو کامیابی کے ساتھ جیتنے کا ذاتی سنہرا راستہ The Golden Path of Successful Personal Soul Winning، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1961، صفحات 123، 124، 125)۔

بشروں کو جیتنے کے معاملے میں لاتعلقی گرجہ گھر کے اِراکین کو دُنیا کی نظروں میں منافقوں کے زمرے میں لا کھڑا کرتی ہے۔ لوگوں کو احساس ہوتا ہے، ’’اگر یہ گرجہ گھر کے لوگ واقعی میں اُس بات پر ایمان رکھتے ہیں جو یہ کہتے ہیں تو اُنہیں دوسروں کو مسیحی بننے کے لیے اِس سے زیادہ مدد کرنی چاہیے۔‘‘ آپ جانتے ہیں کہ وہ ایسا سوچتے ہیں! آئیے ہر اِتوار کو ہمارے گرجہ گھر میں آنے والے گمراہ ہجوم کو محبت کرنے اور اُن کی دیکھ بھال کرنے کے ذریعے سے اِس بدنامی کو دور ہٹائیں!

اِس بات کو سُنیے جو ایک نئی لڑکی نے چند ایک راتیں قبل مجھے ایک ای میل میں لکھی۔ وہ چین سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس کے الفاظ کامل نہیں ہیں۔ لیکن وہ گہرے اور محبت سے بھرپور ہیں۔ اُس نے کہا،

جب میں 8 برس کی تھی۔ میرے والدین کی طلاق ہو گئی۔ میری ماں امریکہ چلی آئیں۔ اور میں اپنے والد کے ساتھ اپنی باقی کی ابتدائی سکول کی زندگی کے ساتھ ٹھہر گئی۔ میرے والد نے مجھے ایک دوسرے سکول میں منتقل کروا دیا جو اس گھر کے ایک حصے سے نزدیک تر ہے۔ یوں اُس معاملے میں اُنہیں ہر دو ہفتے بعد مجھے لینے کے لیے گاڑی چلا کر جانا نہیں پڑتا تھا۔ اُنہوں نے اِس خالی گھر میں مجھے میری خود ہی دیکھ بھال کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہاں پر میرے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اُس وقت تک جب تک کہ میں 11 برس کی نہیں ہو گئی اور امریکہ آ گئی اپنی ماں کے ساتھ اپنے مڈل سکول اور ہائی سکول کے سال گزارنے کے لیے۔ لیکن ہر ایک بات ابھی تک ویسی ہی ہے۔ میری ماں کام میں ضرورت سے زیادہ مصروف۔ لوگ مجھے سکول میں نظر انداز کرتے ہیں۔ اور ایک دِن تیزبخار کی بیماریوں کے ساتھ میرے جذبات پھوٹ پڑے۔ میں بے ہوش ہو گئی اور مجھے ایمرجنسی کمرے میں بھیج دیا گیا۔ اُس وقت میں مکمل طور پر سکتے کی کیفیت میں تھی۔ اُس وقت میں تقریباً ماہ تک سکول نہیں گئی تھی۔ اُس وقت تک جب تک کہ میری بیماری رفع نہیں ہو گئی۔ لیکن جب میں واپس سکول گئی، کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کیا ہوا تھا۔ یہ ایک عام سی بات تھی، کیوںکہ میں انتہائی شروع سے ہی تنہائی پسند ہوں۔ میری ناقابل اِدراک ہائی سکول کی زندگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اور… میری کالج کی زندگی کے آغاز ہی میں میرا خیال ہے کہ یہ بھی ویسے ہی ہونگے جیسے کہ میری مڈل سکول اور ہائی سکول کی زندگی کے سال تھے۔

لیکن اچانک میرے سامنے ایک معجزہ آ گیا۔ یہ ایک شخص تھا! ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھے ھیلو کہا! یہ وہ وقت تھا جس کا میں نے اپنی ساری زندگی میں تجربہ نہیں کیا تھا! وہ ایک بزرگہ تھیں! اور وہ پوچھ رہی تھیں آیا میں ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں ایک دعوت میں جانے کے لیے دلچسپی رکھتی ہوں۔ میں نے فوراً بغیر کچھ سوچے ’’ہاں‘‘ کہہ دیا۔ اور دوسرے دِن ایک انجانے نمبر سے مجھے فون آیا۔ میں حیران تھی اور اُس فون کا جواب دینے کے لیے نہایت خوفزدہ تھی، کیونکہ میں نے کبھی بھی کسی اجنبی فون نمبر کا جواب نہیں دیا تھا۔ مگر کسی وجہ سے میں نے اِس فون کا جواب دیا۔ تب فون کی دوسری جانب سے کسی نے کہا کہ وہ اِس اتوار کی صبح مجھے لینے کے لیے آئیں گی۔ فون آنے کے بعد میں اِتوار کے اِنتظار میں بے چین تھی!...

پھر جب میں اِس گرجہ گھر میں آئی، دُنیا کو دیکھنے کی میری نظر مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔ ’’میں وجود رکھتی تھی‘‘!!! ’’وہ مجھے دیکھ سکتے تھے‘‘! وہ اِس کے علاوہ اتنی دور کی مسافت طے کر کے میرے گھر آئے اور مجھے میری دوائی کی گولی دی۔ اور اُس وقت میرا شکریہ ادا کرنے کو دِل چاہا! آپ کا شکریہ! اور آپ کا شکریہ! اِس گرجہ گھر میں اُن تمام لوگوں کا شکریہ۔ میں نے اِس قدر شکر گزار محسوس کیا۔

اگر آپ اپنے آپ کو لوگوں کو جیتنے کے اِس مقدس فریضے کے لیے دوبارہ وقف کرنا چاہیں تو مہربانی سے آئیں اور یہاں منبر کے سامنے دوزانو ہوں۔ ہم خُدا سے آپ کو اُن گمراہ نوجوان لوگوں کے لیے جنہیں ہم اپنے گرجہ گھر میں لاتے ہیں ہمدردی پیش کرنے کے لیے دعا مانگیں گے۔ (دعا)۔ ’’مجھے ایک برکت بنا دو Make Me a Blessing۔‘‘ اِسے گائیں جب آپ اپنی نشست پر براجمان ہونے کے لیے جائیں۔

مجھے ایک برکت بنا دو، مجھے ایک برکت بنا دو،
   میری زندگی میں یسوع کی چمک ہو؛
مجھے ایک برکت بنا دو، اے نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   مجھے آج کسی کے لیے ایک برکت بنا دو۔

میں اِس عبادت کا اختتام آپ میں سے اُن کو جو ابھی تک گمشدہ گمراہ ہیں چند ایک الفاظ کہے بغیر نہیں کروں گا۔ بائبل کہتی ہے، ’’کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اِس قدر محبت کی کہ اپنا اِکلوتا بیٹا [صلیب پر مرنے کے لیے] بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا3:16)۔ یہ ہماری دعا ہے کہ آپ گناہ سے باز آئیں اور براہ راست یسوع مسیح کے پاس آئیں۔ وہ اب آسمان میں خُدا کے داھنے ہاتھ پر بیٹھا ہے۔ اُس کے پاس ایمان کے وسیلے سے آئیں! وہ آپ کو اپنے قیمتی خون کے وسیلے سے آپ کے گناہ سے پاک صاف کر دے گا، اور آپ کو دائمی زندگی بخشے گا۔ آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظ www.realconversion.com یا
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پردھومMr. Abel Prudhomme نے کی تھی: متی9:35۔38.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’میں یہاں ہوں Here Am I‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1980)۔

لُبِ لُباب

لوگوں کو جیتنے کی ہمدردی

SOUL WINNING COMPASSION

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

 

’’جب اُس نے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر بڑا ترس آیا‘‘ (متی9:36)۔

رومیوں1:31)

I۔ پہلی بات، بشروں کو جیتنے والا ہونے کے لیے آپ کو وہ محسوس کرنا چاہیے جو یسوع نے کیا تھا، 1پطرس2:21؛ فلپیوں2:5؛ متی14:14؛ 15:32؛ 20:34؛ مرقس1:41؛ 6:34؛ 8:2؛ لوقا7:13 .

II۔ دوسری بات، لوگوں کو جیتنے والا ہونے کے لیے آپ کو وہی کرنا چاہیے جو یسوع نے کیا،یوحنا4:34۔35؛ 3:16 .