اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
آخری دِنوں میں طعنہ زن(2 پطرس پر واعظ # 6) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’آخری دِنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے اور تمہاری ہنسی اُڑائیں گے اور کہیں گے کہ مسیح کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟‘‘ (2۔ پطرس 3:3۔4). |
بائبل تعلیم دیتی ہے کہ مسیح بادلوں میں آ رہا ہے۔ یہ مسیح کی آمد ثانی ہے۔ مگر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے والے طعنہ زن اِس پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
میرے لیے 2 پطرس کا تیسرا باب نہایت اہم ہے۔ جب میں نے اِس باب کی منادی سُنی تھی تو میں مسیح میں ایمان لے آیا تھا۔ وہ 28 ستمبر، 1961 کا دِن تھا۔ میں بائیولا کالج (جو اب یونیورسٹی ہے) میں ایک طالب علم تھا۔ اُس ہفتے میں چھوٹے گرجہ گھر میں عبادتوں کا ایک سلسلسہ چل رہا تھا۔ تمام کے تمام طالب علم وہیں پر تھے۔ اُس دِن میں ڈاکٹر مرفی لم Dr. Murphy Lum کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ٹالبوٹ سیمنری میں پڑھائی کر رہے تھے، جو کالج کے ساتھ منسلک تھی۔ سپیکر ڈاکٹر چارلس ووڈبریج Dr. Charles Woodbridge تھے۔ اُنہوں نے ابھی چند ہی ماہ قبل فُلر سیمنری کو چھوڑا تھا۔ اُنہوں نے دیکھا تھا کہ فُلر آزاد خیالی کی جانب بڑھ رہی تھی – جو بائبل کے اختیار کی تردید تھی۔ سیمنری نے اُن کو ایک دیوانے قرار دے دیا تھا، مگر وہ غلط تھے۔ اگلے ہی چند سالوں میں واقعات نے ظاہر کر دیا کہ وہ بالکل صحیح تھے۔ اِدارے کے دوسرے اراکین نے اُن کی پیروی کی اور فُلر کو خیرآباد کہہ دیا۔ اِن لوگوں میں ڈاکٹر گلیزن آرچرDr. Gleason Archer، ڈاکٹر ولبر ایم۔ سمتھ Dr. Wilbur M. Smith اور ڈاکٹر ھیرالڈ لِنڈسِل Dr. Harold Lindsell شامل تھے۔ وہ سب کے سب اعلٰی پائے کے عالمین تھے۔ اُنہوں نے ڈاکٹر ووڈبریج کی پیروی کی تھی جب یہ واضح ہو گیا کہ وہ صحیح تھے۔ وہ سیمنری بائبل کے لاخطا ہونے کے ایمان سے نکل کر آزاد خیالی اور بے اعتقادی میں مبتلا ہو گئی۔
جب میں نے ڈاکٹر ووڈبریج کو اِس باب پر منادی کرتے ہوئے سُنا تو وہ جیتا جاگتا مسٔلہ تھا۔ ہر کوئی فُلر سیمنری کے اِرتداد کی جانب چلے جانے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ پولوس رسول نے اُس بارے میں واضح طور پر بات کی تھی۔
پہلی آیت میں، رسول نے کہا وہ دوسرا مراسلہ لکھ رہا تھا۔ یہ ایک خط تھا جو رومی سلطنت کے مختلف حصوں میں ’’بکھرے ہوئے‘‘ ابتدائی مسیحیوں کو لکھا گیا تھا (1پطرس1:19۔ اُس نے یہ دوسرا مراسلہ (یا خط) اُنہیں کچھ ایسی بات یاد دلانے کے لیے لکھا تھا جو وہ پہلے سے ہی جانتے تھے۔ اُس نے اُنہیں آخری دِنوں میں اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے طعنہ زنوں کے بارے میں بتایا تھا۔ اُس نے اُنہیں اُن لوگوں کے بارے میں بتایا تھا جو مسیح کی آمد ثانی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اُس نے اُنہیں دُنیا کے خاتمے – اور آنے والی نئی دُنیا کے بارے میں بتایا تھا۔
میں اِس حوالے سے متحیّر ہو کر رہ گیا تھا۔ اور ڈاکٹر ووڈبریج نے اِس کی بخوبی منادی کی تھی! وہ ایک عظیم عالم تھے، جنہوں نے پرنسٹن علم الہٰیات کی سیمنری سے گریجوایشن کیا ہوا تھا۔ مگر وہ محسور کر دینے والے بائبل کے مفسر بھی تھے۔ میرا نہیں خیال میں نے اُن سے بہتر کسی اور کو کبھی بھی سُنا ہو۔ حالانکہ میں نے اُنہیں 55 سال پہلے سُنا تھا، مجھے واضح طور پر یاد ہے کیسے اُس ہفتے میں اُن کے پیغامات نے میرے دِل کو چھوا تھا۔ ایک دوسرے منادی کرنے والے دوست بھی وہیں پر تھے۔ اُن کا نام ڈاکٹر رسل گورڈن Dr. Russell Gordon ہے، جو کیلیفورنیا کے شہر ریورسائیڈ میں ایک پادری تھے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا میں نے اُن سے اِس کے بارے میں فون پر بات کی تھی۔ ڈاکٹر گورڈن نے تو یہاں تک کہ کچھ جملوں کا حوالہ لفظ بہ لفظ بتایا جو ڈاکٹر ووڈبریج نے ادا کیے۔ یہ ایک غیرمعمولی منادی تھی جو زندگی کو بدل ڈالنے والی منادی تھی۔ اور میری زندگی کا سارے کا سارا رُخ ہی اُس دِن بدل گیا تھا – کیونکہ یہ وہ دِن تھا جب میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گیا تھا!
پطرس نے اُن ابتدائی مسیحیوں کو بتایا کہ وہ اُنہیں اُن باتوں کے بارے میں بتا رہا ہے جو وہ پہلے سے ہی جانتے تھے۔ ہم سب کو اِن باتوں کو بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ رسول نے اُنہیں بتایا کہ پرانے عہد نامے میں نبیوں کے وسیلے سے اِن باتوں کے بارے میں پہلے بھی بتایا گیا تھا۔ اُس نے کہا یہ وہ باتیں تھیں جن کی دوسرے رسولوں نے منادی کی تھی۔ وہ کوئی نئے عقائد نہیں تھے۔ وہ پرانے ہی عقیدے تھے جن کی اُنہیں دوبارہ یاد دلانے کی ضرورت تھی۔
پہلی بات، پطرس نے اُنہیں بتایا، ’’آخری دِنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے‘‘ (2پطرس3:3)۔ وہ یہ وہ ’’جھوٹے اُستاد‘‘ اور جھوٹے مسیحی ہیں جن کے بارے میں اُس نے دوسرے باب میں بات کی تھی جب اُس نے کہا، ’’تمہارے درمیان جھوٹے اُستاد ہونگے‘‘ (2پطرس2:1)۔ میرے خیال میں یہ سوچنا ایک غلطی ہوگی کہ یہ ’’جھوٹے اُستاد‘‘ کالجوں اور سیمنریوں میں صرف پروفیسرز ہی ہیں، حالانکہ اُن میں یہ شامل ہوتے ہیں۔
مگر آپ کو پتا چل چکا ہے کہ ہر کوئی تو مذھب میں ایک ماہر ہوتا ہے؟ ہر کوئی سوچتا ہے کہ اُسے مذھب کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔ آپ اُنہیں کوئی بھی بات بتا ہی نہیں سکتے۔ آپ اُنہیں سڑک پر ملتے ہیں۔ آپ اُنہیں گرجہ گھر میں ملتے ہیں۔ وہ ماہرین ہوتے ہیں! مذھب ہی وہ واحد موضوع ہوتا ہے جس میں بغیر کسی مطالعہ کے ماہر بنا جا سکتا ہے! ہماری تلاوت بتاتی ہے کہ ’’آخری دِنوں‘‘ میں اِس قسم کے زیادہ سے زیادہ لوگ ہوتے جائیں گے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے طعنہ زن ہیں۔
’’آخری دنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے اور تمہاری ہنسی اُڑائیں گے‘‘ (2۔ پطرس 3:3).
’’آخری دِنوں‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،
نئے عہد نامے میں ’’آخری دِنوں‘‘ کی استعمال کی گئی ایک تکنیکی اصطلاح ہے؛ یہ کلیسیا کے آخری دِنوں کے بارے میں بات کرتی ہے (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، جلد پنجم، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، صفحہ 469؛ 2 پطرس3:1 پر غور طلب بات)۔
چند ایک مرتبہ اِس نے تمام مسیحی مذھبی امور کے اعلیٰ ناظمین کے لیے حوالہ دیا ہے۔ آپ کو اس کی اصطلاح کے لیےسیاق و سباق کے حوالے سے پڑھنا چاہیے۔ 2 پطرس کے تیسرے باب میں یقینی طور پر موضوع آمدِ ثانی اور دُنیا کا خاتمہ ہی ہے۔ اِس لیے، ’’آخری دِنوں‘‘ کا حوالہ اِس زمانے کے آخری دورانیے کے لیے ہے، یسوع کی آمد ثانی کے بالکل پہلے کے سالوں میں۔
پھر پطرس کہتا ہے، ’’آخری دِنوں میں اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے طعنہ زن آئیں گے۔‘‘ ’’اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزرانے والے اور ہنسی اُڑانے والےscoffers‘‘ کا مطلب ’’طعنہ زنی کرنے والے‘‘ ہوتا ہے۔ وہ مسیح کی آمد ثانی کا انکار کرتے ہیں اور اِس کے بارے میں مذاق اُڑاتے ہیں اور اِس کو ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں۔ ’’ہا، ہا! تم لوگ سوچتے ہو کہ مسیح دوبارہ آ رہا ہے! کیا لطیفہ ہے!‘‘ وہ اُن کا خیال ہے۔ پھر رسول ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کیوں تمسخر اُڑاتے ہیں۔ یہ طعنہ زن ’’اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’خود اپنی گناہ سے بھرپور خواہشات کے پیچھے چلنا۔‘‘ وہ مسیح کی دوسری آمد کا مذاق اُڑاتے ہیں کیونکہ وہ خودغرضانہ اور گناہ سے بھرپور زندگیاں گزارنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پطرس اُن کے مذاق اُڑانے کو ’’ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ آخری دِن موجود ہیں‘‘ (بائبل کا اصلاح کرنے والا مطالعہ The Reformation Study Bible؛ 2پطرس3:4 پر غور طلب بات)۔
اِن تمسخر اُڑانے والوں کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ پہلی بات، وہ مادیت پرست ہیں۔ وہ اِس دُنیا کی باتوں کے ساتھ مطمئین ہیں۔ وہ اِس بات پر یقین کرنا ہی نہیں چاہتے کہ مسیح اُن کا انصاف کرنے کے لیے آنے والا ہے۔ پطرس اُن کا موازنہ نوح کے زمانے میں لوگوں کے ساتھ کرتا ہے (2پطرس2:5)۔ خُدا نے ’’پرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کرصرف راستبازی کی منادی کرنے والے نوح کو اور دیگر سات اشخاص کو بچا لیا۔‘‘ نوح نے آنیوالے انصاف پر منادی کی تھی۔ مگر لوگوں نے بات نہیں سُنی! مسیح نے اُن کے بارے میں مادیت پرستوں کی حیثیت سے بات کی – صرف کھانے اور پینے اور شراب نوشی اور دعوتوں میں جانے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ، ’’اُس دِن تک جب نوح کشتی میں داخل ہوا اور سیلاب آیا اور اُن سب کو تباہ کر دیا‘‘ (لوقا17:27)۔ پطرس نے سدوم اور عمورہ کے انصاف کے بارے میں بھی بتایا – ’’سدوم اور عمورہ کے شہروں کو جلا کر راکھ کر دیا تاکہ آئیندہ زمانوں کے بے دینوں کو عبرت ہو‘‘ (2پطرس2:6)۔ دوبارہ، اُن کا اہم گناہ مادیت پرستی تھا۔ مسیح نے کہا، ’’جیسا لوط کے دِنوں میں ہوا تھا کہ لوگ کھانے پینے، خریدو فروخت کرنے، درخت لگانے اور مکان تعمیر کرنے میں مشغول تھے؛ لیکن جس دِن لوط سدوم سے باہر نکلا آگ اور گندھک نے آسمان سے برس کر سب کو ہلاک کر ڈالا‘‘ (لوط17:28۔29)۔ اور پھر مسیح نے کہا،
’’اِبنِ آدم کے ظہور کے دِن بھی ایسا ہی ہوگا‘‘ (لوقا 17:30).
غور کریں اُن گناہوں پر جن کا اِرتکاب اُنہوں نے کیا۔ دونوں معاملوں میں – نوح کے دِنوں میں اور لوط کے دِنوں میں – مسیح نے جنسی گناہوں پر توجہ مرکوز نہیں کرائی تھی۔ اُس نے تو یہاں تک کہ جنسی گناہ کا تزکرہ تک نہیں کیا! کیوں نہیں؟ کیونکہ اُن کے گناہ کی جڑ کا تعلق مادیت پرستی کے ساتھ تھا – صرف اِس دُنیا کے لیے ہی زندگی بسر کرنی – صرف لطف پانے کے لیے ہی زندگی بسر کرنی – صرف کھانا کھانے کے لیے ہی زندگی بسر کرنی! صرف مادی خوشی کے لیے ہی زندگی بسر کرنی۔ بے شمار چینی لوگ ایسے ہی ہیں۔ ڈاکٹر چارلس سی۔ رائیری Dr. Charles C. Ryrie نے کہا کہ جن سرگرمیوں کا تزکرہ کیا گیا وہ خود میں گناہ سے بھرپور نہیں تھیں۔ مگر ’’وہ لوگ تیار نہیں تھے۔‘‘ جب ’’مسیح واپس آئے گا تو بے شمار لوگ… محفوظ اور تیار نہیں ہونگے (جیسا کہ نوح اور لوط کے دِنوں میں ہوا تھا)‘‘ (رائیری مطالعۂ بائبل Ryrie Study Bible؛ لوقا17:26۔30 پر غور طلب باتیں)۔
اِتوار کے روز ایک شخص لاس ویگاس کی جانب بھاگتا ہے۔ وہ وہاں پر جا کر روشنیاں دیکھنے کے لیے گرجہ گھر میں آنے کے موقع کو کھو دیتا ہے۔ وہ اِتوار کے روز سان فرانسسکو کی جانب بھاگتا ہے۔ ایک دوسرا شخص گھنٹوں ویڈیو گیمز کھیلتا ہے مگر اُس کے پاس بائبل پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے گھنٹوں فحش عُریاں فلمیں دیکھتے ہیں مگر دعا مانگنے کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اپنی زندگیوں کی توجہ کا مرکز پیسے کو بنا لیتے ہیں مگر وہ آسمان میں اپنے لیے خزانے جمع نہیں کر پاتے۔ مادیت پرستی آپ کی روحانی زندگی کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ آپ خُدا کو نہیں جانتے ہیں۔ آپ کے پاس مسیح نہیں ہوتا ہے۔ آپ کے پاس اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ اِس دُنیا کے نمائشی زیورات ہوتے ہیں۔ یوحنا رسول نے کہا،
’’کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش، آںکھوں کی خواہش اور زندگی کا غرور، وہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔ دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں ختم ہو جائیں گی لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ہمیشہ تک باقی رہتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا 2:16۔17).
جب میں ایک نوعمر تھا میں اپنی خالہ اور خالو کے ساتھ الزبتھ سٹریٹ پر رہتا تھا۔ اُسی گلی میں بے شمار نوجوان لوگ رہتے تھے۔ اُن میں سے کچھ کے پاس شراب ہوتی تھی اور وہ اُسکو چھجّے میں پی کر ختم کر ڈالتے تھے۔ اُن میں سے کچھ گھنٹوں گاڑیوں کی مرمت کرنے اور آلات کے ساتھ کھیلنے میں گزار دیتے تھے۔ اُن میں سے کچھ طوائفوں کے حجرے میں جانے کے لیے ٹیجوآنہTijuana شہر چلے جاتے تھے۔ اُن تمام نے سوچا تھا وہ میرے سے زیادہ ہوشیار تھے۔ اُنہوں نے میرا مذاق اُڑایا اور میری تضحیک کی۔ اُنہوں نے کہا، ’’رابرٹ تو مذھبی ہے‘‘ – جیسا کہ خُدا کے بارے میں سنجیدہ ہونا واقعی میں کوئی عجیب بات ہوتی ہے۔ بعد میں میں ایک پادری بن گیا۔ ایک ایک کر کے وہ مر گئے۔ اُن کے رشتہ داروں نے مجھے فون کیا اور اُن کے جنازے پڑھنے کے لیے پوچھا۔ مگر میرے پاس اُن ڈراؤنے جنازوں میں کہنے کے لیے اُمید کا ایک لفظ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اُمید کا ایک بھی لفظ! میں کچھ کر سکتا تھا تو اُن کو جو زندہ تھے بائبل کی وضاحت تھی۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اُن لڑکوں کے لیے جنہوں نے شراب پینے اور گاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور طوائفوں کے پاس جینے کے لیے زندگی گزاری کوئی اُمید تھی ہی نہیں۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اُن کے لیے سرے سے کوئی اُمید تھی ہی نہیں! خُداوند کے فضل سے میں نے اُن تمام سے زیادہ زندگی بسر کر لی ہے۔ خُداوند کے فضل سے میں نے اُن بیچارے گمراہ لڑکوں کے مقابلے میں جنہیں میں کافی عرصہ پہلے جانتا تھا زندگی کا لطف کہیں زیادہ اُٹھایا ہے
’’دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں ختم ہو جائیں گی لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ہمیشہ تک باقی رہتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا 2:17).
کیا آپ صرف اِس دُںیا کے لیے زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی دائمی دُنیا کے بارے میں بھی سوچا؟ کیا آپ عدالت کے لیے تیار ہیں؟
’’سب سے پہلے تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آخری دنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے اور تمہاری ہنسی اُڑائیں گے‘‘ (2۔ پطرس 3:3).
اُن کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ پہلی بات، وہ مادیت پرست ہیں۔ مگر دوسری بات، وہ روحانی طور پر اندھے ہیں۔ پطرس رسول اِس کے بارے میں دوسرے باب میں بتاتا ہے۔ اُس نے کہا،
’’یہ اُن جنگلی جانوروں کی مانند ہیں … جن باتوں کو سمجھتے نہیں اُن پر بھی لعنت بھیجتے ہیں۔ یہ لوگ خود اپنی ہی بدکاریوں سے جانوروں کی طرح ہلاک ہو جائیں گے‘‘ (2۔ پطرس 2:12).
وہ اِتنے ہی روحانی طور پر اندھے ہوتے ہیں جتنے کہ جانور ہوتے ہیں – وہ ’’قدرتی درندہ صفت جانوروں‘‘ کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ مسیح، اُس کی دوسری آمد اور یہاں تک کہ صلیب پر اُس کی موت کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا مذاق اُڑاتے ہیں۔
آپ سارا ہی وقت اِس قسم کے نوجوان لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ یسوع کا نام ایک قسم لینے والی تلوار کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں – ’’یسوع مسیح!‘‘ جب آپ اُنہیں گرجہ گھر لانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ اور جب آپ یہاں اِس گرجہ گھر میں آتے ہیں تو وہ مذاق اُڑاتے ہیں اور آپ سے حقارت بھرے انداز میں بولتے اور آپ کی تضحیک کرتے ہیں۔ میں ایک نوجوان آدمی کو جانتا ہوں جو اپنی ماں اور بہن کا کرایا ادا کرتا ہے۔ اُس کے باوجود وہ اُس پر چیختی چلاتی ہیں، ’’تم کیوں اُس گرجہ گھر میں جانا جاری رکھے ہوئے ہو؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر وہ یہاں نہ آ رہا ہوتا تو اُن کے پاس رہنے کے لیے گھر بھی نہ ہوتا۔ وہ کسی اور جانب بھاگ گیا ہوتا اور وہ سڑکوں پر دربدر رہ رہے ہوتے! وہ ’’جن باتوں کو سمجھتے نہیں اُن پر بھی لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔‘‘ وہ روحانی طور پر اندھے ہوتے ہیں۔
بائبل تعلیم دیتی ہے کہ ہم سب کے سب گناہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے پہلے والدین نے گناہ کیا تھا – اور ہم نے وارثت میں ایک گناہ سے بھرپور فطرت پائی ہے۔ ہم اُن کی جانب سے قدرتی طور پر گنہگار ہیں۔ جب تک ہم مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہو جاتے ہم ’’قدرتی‘‘ آدمی اور ’’قدرتی‘‘ عورتیں ہیں۔ بائبل کہتی ہے،
’’جس میں خدا کا پاک رُوح نہیں وہ خدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پاک رُوح کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 2:14).
آپ نہایت ذہین ہو سکتے ہیں، لیکن اگر آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہیں تو صرف ایک ’’قدرتی‘‘ آدمی یا عورت ہی ہیں۔ 1کرنتھیوں2:13۔14 پر سیکوفیلڈ بائبل کی غور طلب بات یہ بات کہتا ہے: ’’جب میں خُدا کا پاک روح نہیں وہ خُدا کی باتیں قبول نہیں کرتا۔‘‘ وہ اندھیرے میں خُدا کو تلاش کرنے کی اہلیت کے بغیر ہی ٹٹولتے پھرتے ہیں۔
نواب برٹرانڈ رسل Lord Bertrand Russell بیسویں صدی کے ایک مشہور برطانوی حساب دان اور فلسفہ دان تھے۔ جب میں ایک نوجوان شخص تھا تو وہ دہریت کے لیے ڈرائی جانے والی اہم شخصیت تھے، جو جواب دینے کے لیے انتہائی ہی ذہین شخصیت تھے۔ اُن تمام تمغوں اور اعزازات کے ساتھ جو اُنہیں ملے تھے آپ سوچیں گے کہ وہ ایک خوش انسان تھے۔ اِس کے بجائے زندگی کی جانب اُن کا روئیہ اُمید کے بغیر ہی تھا۔ اپنی موت سے پہلے، برٹرانڈ رسل نے لکھا،
کوئی بھی آگ، کوئی بھی ھیرواِزم، نا ہی خیال اور احساس کی شدت ایک انفرادی زندگی کو قبر سے پرے محفوظ رکھ سکتی ہے… [سب کے سب] نظام شمسی کی اتھاہ موت میں فنا پزیر ہو جانے کے لیے مقصود ہیں، اور انسان کی کامیابیوں کی تمام ہیکل کو کائنات کے ملبے کے تلے اٹل طور سے کھنڈرات میں دفن ہو جانا چاہیے (لارڈ برٹرانڈ رسل Lord Bertrand Russell، ایک آزاد انسانی کی پرستشA Free Man’s Worship)۔
وہ بیسویں صدی کے ذھین ترین لوگوں میں سے ایک تھے – مگر اُن کے پاس مستقبل میں دیکھنے کے لیے اگر کچھ تھا تو وہ ’’کھنڈرات میں ایک کائنات‘‘ تھی۔ یہ ہے وہ جگہ جہاں پر ایک ’’قدرتی انسان‘‘ اپنی زندگی کا خاتمہ دیکھتا ہے – کسی اُمید کے بغیر، کوئی سکون نہیں، کوئی مستقبل نہیں اور نہ خُدا۔ یہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے طعنہ زن ہیں جو کہہ رہے ہیں، ’’اُس کے آنے کا وعدہ کہاں ہے؟‘‘
بیسویں صدی کے ایک اور مشہور شخص ایچ۔ جی۔ ویلز H. G. Wells تھے۔ اُنہوں نے ٹائم مشین The Time Machine، دُنیاؤں کی جنگ The War of the Worlds اور تاریخ کا خاکہ The Outline of History جیسی کتابیں تحریر کیں۔ مسٹر ویلز ایک فلسفہ دان، تاریخ دان اور سائنس فیکشن رائٹر تھے۔ اُنہوں نے مسیحیت پر حملے کرنے میں اپنی زندگی بسر کی۔ مگر جب وہ ایک بوڑھے آدمی تھے تو اُنہوں نے کہا، ’’ایک میں پینسٹھ برس کا ہوں اور ابھی تک سکون کی تلاش کر رہا ہوں۔ سکون صرف ایک نااُمید خواب ہوتی ہے۔‘‘ اپنی زندگی کے اختتام پر مسٹر ویلز نے کہا کہ نسل انسانی کا مقدر تذلیل، دُکھ اور موت ہے۔‘‘
آپ کبھی بھی اِس دُنیا کے طعنہ زنوں اور تضحیک اُڑانے والوں کی پیروی کر کے مسیح کو تلاش نہیں کر پائیں گے۔ آپ کبھی بھی یہ ’’جاننے‘‘ کی کوشش کرنے سے کہ کیسے بچا جائے مسیح کو تلاش نہیں کر پائیں گے۔ آپ کو کبھی بھی خود پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ
’’دل سب چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لاعلاج ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 17:9).
اگر آپ ’’کھنڈرات میں ایک کائنات‘‘ سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک بچے جیسے ایمان کی مانند یسوع پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حمدوثنا کا جو گیت مسٹر گریفتھ Mr. Griffith نے گایا اُس کے لفظوں میں آپ کو ضرور بہ ضرور اپنے دِل میں کہنا چاہیے،
اے خداوند یسوع، آسمانوں میں سے اپنے تخت پر سے نیچے نظر ڈال،
اور مجھے ایک مکمل قربانی دینے میں مدد کر؛
میں اپنے آپ کو چھوڑتا ہوں اور ہر اُس چیز کو جسے میں جانتا ہوں؛
مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
برف سے زیادہ سفید، جی ہاں، برف سے زیادہ سفید؛
مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
(’’برف سے زیادہ سفید Whiter Than Snow‘‘ شاعر جیمس نکلسن
James Nicholson، 1828۔1896)۔
پھر آپ یسوع کے بارے میں کہنے کے قابل ہو جائیں گے، جس نے ’’خود اپنے خون میں ہمیں ہمارے گناہوں سے پاک صاف کیا۔‘‘ میں دعا مانگتا ہوں کہ آپ جلد ہی یسوع پر بھروسہ کریں گے۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme
نے کی تھی: 2۔ پطرس3:1۔4.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’برف سے زیادہ سفید Whiter Than Snow‘‘
(شاعر جیمس نکلسن James Nicholson، 1828۔1896)۔