اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
آخری دِنوں میں کلیسیا کے غیرنجات یافتہ ارکان(2 پطرس پر واعظ # 5) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’تم میں جھوٹے اُستاد اُٹھ کھڑے ہونگے، جو چوری چُھپے ہلاک کرنے والی بدعتیں شروع کریں گے اور اُس مالک کا بھی انکار کر دیں گے، جس نے اُس قیمت دے کر چُھڑایا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو جلد ہی ہلاکت میں ڈالیں گے‘‘ (2پطرس2:1)۔ |
رسول نے کہا کہ جھوٹے اُستاد گرجہ گھروں میں ’’آپ کے درمیان‘‘ ہونگے۔ یہ بات تدریجی طور پر آج سچ ہے۔
’’کیونکہ ایسا وقت آ رہا ہے کہ لوگ صحیح تعلیم کو برداشت نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق بہت سے اُستاد بنا لیں گے تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا معلوم ہو‘‘ (2تیموتاؤس4:3)۔
لوگ کچھ ایسا سُننا چاہتے ہیں جو اُن کے کانوں میں گُدگدی کرتا ہے۔ اِس لیے آج جھوٹے اُستاد بہت مشہور ہیں۔ آج میں ٹیلی ویژن پر جن اُستادوں کو دیکھتا ہوں وہ تمام کے تمام لگ بھگ اِسی زمرے میں آتے ہیں۔ وہ چوری چُھپے ہلاک کرنے والی بدعتیں لاتے ہیں۔
2 پطرس کا دوسرا باب اِن اُستادوں کو بیان کرتا ہے۔ رسول کہتا ہے کہ وہ ’’ہلاک کرنے والی بدعتوں‘‘ کی تعلیم دیں گے، یہاں تک کہ مسیح کا بھی انکار کریں گے۔ وہ یسوع کا انکار خوشخبری کی منادی نہ کرنے سے کرتے ہیں۔ اُس نے کہا وہ اینٹی نومئیعنز antinomians ہونگے۔ وہ لوگوں کو تعلیم دیں گے کہ وہ گناہ میں زندگی بسر کر سکتے ہیں اور پھر بھی مسیحی ہی ہونگے۔ وہ خُدا کے بجائے پیسے کے لیے کام کریں گے۔ اُن کا انصاف نہایت سخت ہوگا۔ اُن کا انصاف اُن فرشتوں کی مانند کیا جائے گے جنہوں نے بغاوت کی اور ’’جہنم میں ڈالے‘‘ گئے۔ اُن کا انصاف ویسے ہی ہوگا جیسے نوح کے زمانے کے لوگوں کا انصاف عظیم سیلاب میں ہوا تھا۔ اُن کا انصاف ویسے ہی ہوگا جیسے صدوم اور عمورہ کے شہروں کا انصاف آسمان سے آگ کے ذریعے ہوا تھا۔
اُن تین مثالوں کے ذریعے سے پطرس ظاہر کرتا ہے کہ وہ جھوٹے اُستاد اور وہ جو اُن کی پیروی کرتے ہیں، اُن کا انصاف ہوگا۔ جھوٹے اُستاد کہتے ہیں کہ مسیحی گناہ میں زندگی بسر کر سکتے ہیں اور پھر بھی نجات پا سکتے ہیں۔ وہ جاہل مُنہ پھٹ لوگ ہیں۔ وہ سچے مسیحی رہنماؤں کے خلاف بُری باتیں کہتے ہیں۔ وہ بائبل کے اختیار کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ جھوٹے اُستاد تو یہاں تک کہ اُن باتوں کو بھی نہیں سمجھتے جن کے خلاف وہ باتیں کرتے ہیں۔ وہ گناہ کے غلام ہیں۔ اور وہ اپنے گناہ میں ہلاک ہو جائیں گے۔ گرجہ گھر میں یہ لوگ ’’داغ‘‘ اور ’’دھبے‘‘ ہیں۔ اُن کی آنکھیں زنا سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ گناہ کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ وہ ناسمجھ لوگوں کو جنسی عمل کے لیے مناتے ہیں۔ وہ ملعون ہیں۔ وہ جھوٹے بلعام Balaam نبی کی مانند ہیں جو پیسے کے لیے منادی کرتا ہے۔
یہ جھوٹے مسیحی خشک کنوؤں کی مانند ہیں، کنویں جو پانی کے بغیر ہیں۔ وہ بولتے اچھا ہیں، مگر وہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں سے آزادی کا وعدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ خود ہی گناہ سے بھرپور شہوت کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ اخلاقی زوال کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ نئے ایمانداروں کی بھٹکنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ جان بوجھ کر بائبل کے احکامات سے منہ موڑ لینے پر اُن کا انصاف نہایت سختی سے کیا جائے گا۔ وہ کتوں اور سوؤروں کی مانند ہیں۔ وہ نیک مسیحی ہونے کا دکھاوا تو کرتے ہیں مگر اب وہ واپس اپنے پرانے گناہوں پر لوٹ آتے ہیں۔ کتوں اور سوؤروں کی مانند اُن کی فطرت مسیح کے ذریعے سے تبدیل نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ ہے جو 2 پطرس کا دوسرا باب ہمیں بتاتا ہے۔
کیوں پطرس ایک پورا باب اِن جھوٹے مسیحیوں کے بارے میں بتانے میں لگا دیتا ہے؟ پہلی بات، یہ مسیحیت کی تمام تاریخ میں وجود رکھتے رہے ہیں، اور ہمیں خبردار کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ دوسری بات، یہ آخری دِنوں میں شدت اور تعداد میں بڑھ جائیں گے۔ 2پطرس3:3 پر نظر ڈالیں۔ کھڑے ہوں اور اِس کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’سب سے پہلے تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آخری دِنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے‘‘ (2پطرس3:3)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ غور کریں یہ کہتی ہے، ’’آخری دِنوں میں۔‘‘ وہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے وہی جھوٹے مسیحی ہیں جن کے بارے میں ہم دوسرے باب میں پڑھتے ہیں۔ آخری زمانے میں جھوٹے مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد کے بارے میں بائبل میں کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اُن کی بے دینی کے ایک بیرونی قسم ہوتی ہے مگر خُدا کی طرف سے اُن میں کوئی قوت نہیں ہوتی (2تیموتاؤس3:5)۔ ’’آنے والے دِنوں میں… وہ ایمان سے منہ موڑ کر گمراہ کرنے والی روحوں اور [شیاطین] کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہونے لگیں گے (1تیموتاؤس4:1)۔ جس وقت تک دُنیا بڑے مصائب کے دور میں آئے گی گرجہ گھروں کو ’’شیاطین کے مسکن، اور ہر ناپاک روح کے اڈے اور ہر مکروہ اور پلید پرندے کے بسیرے‘‘ کی حیثیت سے بیان کیا جائے گا (مکاشفہ18:2)۔ اِس موقع پر کلیسیا کو ’’ایک بڑی طوائف‘‘ کہا جائے گا (مکاشفہ17:1؛ 19:2)۔ ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا کہ وہ ’’بڑی طوائف‘‘ وہ ہوگی جس نے کبھی بھی مسیح پر ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے بھروسہ نہیں کیا‘‘ (جے ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، جلد پنجم، تھامس نیلسن اشاعت خانے Thomas Nelson Publishers، 1983، صفحہ 1030؛ مکاشفہ 17:1 پر غور طلب بات)۔
ڈاکٹر جان ایف۔ والوورد Dr. John F. Walvoord جو ڈلاس کی علم الہٰیات کی سیمنری کے کافی عرصے تک صدر رہے اُنھوں نے کہا، ’’وہ شخص جو یسوع مسیح کی ہستی اور معجزوں سے انکار کرتا ہے بائبلی تعریف میں سرے سے مسیحی ہے ہی نہیں۔ وہ مسیحیت کا مخالف ہے؛ وہ خوشخبری کا مخالف ہوتا ہے؛ وہ ایک بدعتی ہوتا ہے، ایک غیرنجات یافتہ شخص۔ وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کو خُدا کے فضل کے وسیلے سے چھوا نہیں گیا ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ جو پطرس نے پیشن گوئی کی تھی وہ آج تسلیم یافتہ کلیسیا میں مکمل طور پر نہایت نمایاں نظر آتی ہے… بے شمار مسیحیوں کو بے اعتقادی کی گہرائی اور وسعت کا احساس نہیں ہوتا جو کلیسیا پر چھا چکی ہے… پطرس کو کافی عرصہ پہلے اِس بات کی توقع تھی۔ کلام پاک کی لکھی ہوئی باتوں کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلےہی پوری ہو چکی ہیں‘‘ (جان ایف۔ والوورد، ٹی ایچ۔ ڈی۔ John F. Walvoord, Th.D.، ’’دورِ حاضرہ کی کلیسیا کہاں جا رہی ہے؟ Where is the Modern Church Going?‘‘ پیشن گوئی اور ستر کی دھائی میں in Prophecy and the Seventies، چارلس ایل۔ فینبرگ، ٹی ایچ۔ ڈی۔ پی ایچ۔ ڈی۔ Charles L. Feinberg, Th.D., Ph.D.، ایڈیٹر، موڈی پریس Moody Press، 1971، صفحات113، 114)۔
ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ نئے نئے مبشرانِ انجیل کی ایک بہت بڑی تعداد کو ’’خُدا کے فضل کے وسیلے سے چھوا ہی نہیں گیا‘‘ اور وہ ’’غیر نجات یافتہ‘‘ ہیں – بالکل جیسے ڈاکٹر والوورد نے کہا۔ یہ بات سیمنریوں میں اور ہمارے گرجہ گھروں کی رُکنیت میں سچی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر والوورد نے کہا، ’’بے شمار مسیحیوں کو بے اعتقادی کی گہرائی اور وسعت کا احساس نہیں ہوتا جو کلیسیا پر چھا چکی ہے۔‘‘
میرا سوال یہ ہے – یہ ناخوشگوار حالت رونما کیسے ہوئی؟ ہمیں جواب تلاش کرنے کے لیے اگر کچھ کرنا ہے تو وہ صرف ماضی میں جو کچھ ہوا اُس پرنظر ڈالنی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں، تقریباً 1824 میں، چارلس جی فینی نے مسیحی میں تبدیلی کو ایک فوری اور بے معنی ’’فیصلے‘‘ میں بدل دیا۔
وہ بات جو دورحاضرہ کے ’’فیصلوں‘‘ میں ناپید ہے وہ گناہ کی سزایابی ہے! ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، جان بعنئین John Bunyan ہمیں فضل کی بہتات Grace Abounding میں بتاتے ہیں کہ اٹھارہ مہینوں تک [گناہ کی سزا یابی] اور جان کی اذیت میں مبتلا رہے تھے۔ وقت کا عنصر اہمیت نہیں رکھتا، مگر کوئی بھی شخص جو بیدار ہو چکا ہے اور گناہ کی سزایابی کے تحت آ چکا ہے اُس کو اِس سے شدید دشواریوں میں ہونا چاہیے۔ وہ کیسے مر سکتا ہے اور خُدا کا سامنا کر سکتا ہے؟‘‘ (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، یقین دہانی Assurance (رومیوں5)، دی بینر اور ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1971، صفحہ 18)۔
گذشتہ جمعہ کے روز میں جان بعنئین کی کتاب زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress پڑھ رہا تھا۔ اُنھوں نے جو کچھ گناہ کی سزایابی اور مسیح میں حقیقی تبدیلی کے بارے میں کہا وہ فنیFinney کے دور سے پہلے اِس قدر عام تھا کہ وہ تقریبا تمام انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والوں کا مشترکہ اعتقاد تھا۔ زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress جارج وائٹ فیلڈGeorge Whitefield کے لیے شائع کی گئی تھی اور سارے امریکہ اور انگلستان میں کیلوینسٹ میتھوڈست گرجہ گھروں میں بیچی گئی تھی۔ جان ویزلی John Wesley کے لیے زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress کے سات ایڈیشن چھاپے گئے تھے اور ساری انگریزی بولنے والی دُنیا میں ویزلیعن میتھوڈسٹ لوگوں نے پڑھے تھے۔ تمام کے تمام پروٹسٹنٹ فرقوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress سے پیار تھا اور اُنھوں نے پڑھی تھی۔ بعنئین بذات خود تمام زمانوں میں بہت زیادہ پڑھے جانے والا بپتسمہ دینے والا مصنف ہے۔ پہلے 1678 میں شائع ہوئی، بعنئین کی کتاب مذید اور ایڈیشنز میں سے گزری اور انگریزی زبان میں پڑھی جانے والی کسی دوسری کتاب کے مقابلے میں زیادہ کتابیں فروخت ہوئیں، کنگ جیمس بائبل کو مثتثنٰی قرار دیتے ہوئے۔ عظیم سپرجئین Great Spurgeon نے زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress کو 75 سے زائد مرتبہ پڑھا۔ سپرجیئن کے واعظوں میں اِس میں سے حوالے اور مثالیں بار بار دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مسیح میں تبدیلی کے بارے میں ایک کتاب ہے – اور یہ ہی بات ہے جس میں لگ بھگ تمام پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ یافتہ، مسیح میں تبدیلی کے بارے میں یقین کرتے ہیں جب تک کہ فنیFinney نے انیسویں صدی میں مسیح میں تبدیلی کو فیصلوں میں نہ بدل دیا۔
’’اُمید سے بھرپور شخص اپنی تبدیلی کے بارے میں بتاتا ہے Hopeful Tells of His Conversion‘‘ کہلائے جانے والے حصے میں ہم نجات کے بارے میں بے شمار باتیں سیکھتے ہیں جو فنی کی ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے نتیجے میں بُھلائی جا چکی ہے۔
یہ حصہ ایمان سے بھرپور اور اُمید سے بھرپوردو اشخاص کے درمیان ایک بحث سے شروع ہوتا ہے۔ پُراُمید شخص کہتا ہے اُس نے اپنی نجات کے بارے میں پہلے سوچنا شروع کیا تھا جب اُس کو دُنیا کا خالی پن دکھایا گیا تھا – گرجہ گھر نہ جانا، جھوٹ بولنا، قسمیں کھانا، رنگ رلیاں منانا جیسے لاس ویگاس جانا۔ مگر اُس نے کہا، ’’شروع میں، میں نے اپنی آنکھیں نور (بائبل کے بارے میں) کے خلاف بند کر لیں۔‘‘ پھر اُس نے کہا،
’’پہلی بات – میں لا عمل تھا کہ یہ مجھ پر خُدا کا معجزہ تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ گنہگاروں کی تبدیلی وہ اُنھیں گناہ سے بیدار کرنے کے ذریعے سے کرتا ہے۔ دوسری بات – اب بھی، گناہ میری گناہ سے بھرپور فطرت کے لیے نہایت پیارا تھا، اور مجھے اُس کو چھوڑنے سے نفرت تھی۔ تیسری بات – میں نہیں جانتا تھا کہ کیسے اپنے گمراہ دوستوں کا ساتھ چھوڑا جائے، کیونکہ اُن کے موجودگی میرے لیے قابلِ خواہش تھی۔ چوتھی بات – وہ اوقات جب میں نے سزایابی کو محسوس کیا اِس قدر پریشان کُن اور دِل کو خوفزدہ کر دینے والے گھنٹے تھے کہ میں اُنہیں برداشت نہیں کر پایا۔‘‘
مسیحی نے کہا، ’’یوں دکھائی دیتا ہے کہ تم نے اپنی پریشانی سے چھٹکارہ پا لیا۔‘‘
’’جی ہاں،‘‘ پُراُمید شخص نے کہا، ’’مگر میرے ذہن میں آزمائش دوبارہ آئے گی اور تب تو میں پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو جاؤں۔‘‘
پُراُمید شخص نے کہا کہ سزایابی تب اُس کے پاس واپس دوبارہ آئے گی اور اُسے اذیت دے گی۔
مسیحی نے کہا، ’’تب پھر تم نے کیا کِیا؟‘‘
پُراُمید شخص نے کہا، ’’میں نے اپنی زندگی کی اِصلاح کرنے کی کوشش کی۔‘‘ میں نے گناہ نہ کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنے گناہوں اور اپنے گمراہ دوستوں سے دور بھاگ گیا۔ میں نے دعا مانگنی، بائبل پڑھنی اور دوسری نیک باتیں کرنی شروع کیں۔‘‘
مسیحی نے کہا، ’’کیا اُس سے تمہیں کوئی مدد ملی؟‘‘
پُراُمید شخص نے کہا، ’’جی ہاں، کچھ عرصہ کے لیے۔ مگر جلد ہی میں دوبارہ پریشان ہو گیا، حالانکہ میں نے اپنے آپ کو سُدھار بھی لیا تھا۔‘‘
مسیحی نے کہا، ’’وہ کیسے ہوا تھا؟‘‘
پُراُمید شخص نے کہا، ’’جب میں نے یاد کیا کہ میرے تمام راستبازی کے اعمال غلیظ چیتھڑوں کی مانند ہیں، اور جب میں نے یاد کیا کہ شریعت کو ماننے سے کسی کا بھی انصاف نہیں ہوگا، تب میں جان گیا کہ میں یہ سوچنے کے لیے احمق تھا کہ شریعت کو ماننے اور نیک بننے سے میں جنت میں چلا جاؤں گا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ، اگر میں ابھی کامل ہو بھی جاؤں تب بھی میرے پرانے گناہ تو خُدا کی کتاب میں درج ہو ہی چکے تھے۔ وہ پرانے گناہ مجھے ملعون کر دیں گے اگر اُنہیں ہٹایا نہ گیا – اور میں اُنہیں ہٹا نہیں سکتا! میں مذید اور کوششوں میں سے گزرا، مگر میں نے ابھی بھی کوئی سکون نہیں پایا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا اپنا دِل میرے تبدیل ہونے کے لیے گناہ سے نہایت بھرپور ہے۔ ایماندار نے تب مجھے بتایا کہ جب تک میں اُس شخص کی راستبازی کو اپنا نہیں لیتا، جس نے کبھی بھی کوئی گناہ نہیں کیا تب تک میں نجات نہیں پا سکتا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ شخص یسوع تھا، جو خُداوند کی داھنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ ایماندار نے کہا، ’تمہیں اُسی کے وسیلے سے انصاف ملنا چاہیے – جس نے تمہارے گناہ کے لیے صلیب پر دُکھ اُٹھایا۔‘‘‘
مسیحی نے کہا، ’’تب پھر تم نے کیا کِیا؟‘‘
پُراُمید شخص نے کہا، ’’میں نے اِس سے انکار کیا۔ میں نے سوچا یسوع مجھے بچانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔‘‘
’’پھر ایماندار نے تم سے کیا کہا؟‘‘
’’اُس نے مجھے یسوع کے پاس آنے کے لیے کہا۔‘‘
’’کیا تم نے ویسا کیا جیسا تمہیں کہا گیا تھا؟‘‘
’’میں نے کوشش کی، بار بار اور بارہا۔‘‘
’’کیا باپ نے بیٹے کو تم پر ظاہر کیا؟‘‘
پہلی مرتبہ میں نہیں، یا دوسری یا تیسری یا چوتھی یا پانچویں یا چھویں ہی مرتبہ۔‘‘
’’کیا تمہیں رُکنے کے بارے میں خیالات نہیں آئے؟‘‘
’’جی ہاں، سینکڑوں سے زائد مرتبہ۔‘‘
اور تم کیوں نہیں رُکے؟‘‘
میں نے یقین کیا تھا یہ سچ تھا جو مجھے بتایا گیا تھا، کہ مسیح کی راستبازی کے بغیر ساری دُنیا بھی مجھے بچا نہیں سکتی تھی۔ اِسی لیے، میں نے اپنے تئیں سوچا، ’اگر میں رُکا، میں مر جاؤں گا اور میں مر نہیں سکتا تھا ماسوائے فضل کے تخت پر مرنے کے۔‘ اِس لیے میں جاری رہا جب تک کہ باپ نے مجھے بیٹا ظاہر کر نہ دیا۔‘‘
’’اور یسوع کیسے تم پر ظاہر کیا گیا تھا؟‘‘
میں نے اُس کو اپنی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا، مگر اپنے دِل کی آنکھوں سے۔ اِس طرح سے یہ رونما ہوا تھا: ایک دِن میں بہت اُداس تھا۔ اور یہ اُداسی میرے گناہ کی غلاظت اور لامحدودیت کی ایک نئی بصیرت کی وجہ سے تھی۔ مجھے آگے اپنی جان کے ہمیشہ کے لیے ملعون ہونے اور جہنم کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک میں جان گیا کہ خُداوند یسوع آسمان سے نیچے مجھے دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا، ’خُداوند یسوع پر ایمان لا اور تو نجات پا لے گا۔‘ میں نے کہا، ’خُداوندا، میں ایک بہت بڑا، نہایت ہی بڑا گنہگار ہوں۔‘ اور یسوع نے جواب دیا، ’’میرا فضل تیرے لیے کافی ہے۔‘ تب میں نے کہا، ’لیکن خُداوندا، ایمان لانا کیا ہے؟‘ تب میں نے اُسے کہتے ہوئے سُنا، ’وہ جو میرے پاس آئے گا کبھی بھی بھوکا نہیں ہوگا، اور وہ جو مجھ پر یقین لائے گا کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا،‘ اور ایمان لانا اور یسوع کے پاس جانا دونوں ہی ایک بات تھی۔ اور وہ جو آیا – یعنی کہ، مسیح میں نجات کے پیچھے اپنے دِل ہی میں بھاگ کھڑا ہوا – بِلاشُبہ میں مسیح میں ایمان لایا۔ تب آنسو میری آنکھوں میں آ گئے اور میں نے کہا، ’لیکن، یسوع، کیا اِس قدر بڑا گنہگار جیسا کہ میں، اِسے واقعی میں تیرے وسیلے سے قبول کیا جائے گا اور تیرے وسیلہ سے نجات مل جائے گی؟‘ اور میں نے اُسے کہتے ہوئے سُنا، ’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔‘ تب اُس نےکہا، ’مسیح یسوع گنہگاروں کو بچانے کے لے دُنیا میں آیا۔‘ ’وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور اُس نے ہمیں ہمارے گناہوں سے اپنے خون کے وسیلہ سے پاک صاف کیا۔‘ اُس تمام سے میں جان گیا کہ مجھے اُسی میں راستبازی کو دیکھنا چاہیے، اور اپنے گناہوں کی معافی کے لیے مجھے اُس کے خون پر نظر ڈالنی چاہیے، جو اُس نے صلیب پر میرے گناہوں کے کفارے کی ادائیگی کے لیے بہایا۔ میں یسوع کے پاس چلا گیا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور میرا دِل یسوع مسیح کے لیے محبت سے، اُس کے لوگ کے لیے اور اُس کی راہوں کے ساتھ لبریز تھا۔
مسیحی نے کہا، ’’اِس کا تم پر کیا اثر پڑا؟‘‘
پُراُمید شخص نے کہا، ’’اِس نے مجھے یہ دیکھنا سیکھایا کہ ساری دُنیا گناہ سے بھرپور ہے اور لعنتی ہے۔ اِس نے مجھے یہ دیکھنا سیکھایا کہ خُدا باپ اُس گنہگار کا جو اُس کے بیٹے یسوع کے پاس آتا ہے انصاف کرسکتا ہے۔ اِس بات نے مجھے میری اپنی جاہلیت پر شرمندہ کر دیا، کہ اِس سے قبل میرے دِل میں کبھی بھی یسوع مسیح کی محبت اور خوبصورتی کا خیال نہیں آیا تھا۔ اِس نے مجھے ایک پاک زندگی سے محبت کرنا سیکھایا اور خُداوند یسوع کے جلال اور تعظیم کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی چاہت پیدا کی۔ جی ہاں، میں نے سوچا کہ اگر میرے جسم میں ہزاروں گیلن خون ہوتا تو میں اِس تمام کو خُداوند یسوع کی خاطر بہا دینا چاہوں گا (ڈاکٹر ہائیمرز کی جانب سے زائر کی پیش قدمی دورِ حاضرہ کی انگریزی میںThe Pilgrim’s Progress in Modern English میں سے، تازہ ترین کیا ایل۔ ایڈورڈ حیزلبیکر L. Edward Hazelbaker نے، بریج لوگوس اشاعت خانے Bridge-Logos Publishers، 1998، صفحات180۔186)۔
پیارے دوستو، جان بعنئین کے وہ الفاظ ہزاروں لاکھوں دِلوں کے لیے برکت کا باعث تھے، جب تک کہ ’’فیصلہ سازیت‘‘ کی گندگی اور غلاظت نے نجات کو تقریبا جیسے کوئی جادو کی چالبازی ہوتی ہے اُس میں نہ بدل دیا۔ میں کس قدر دعا مانگتا ہوں کہ آپ اُن الفاظ کو بار بار پڑھیں، گناہ کی سزایابی سے گزریں اور ایمان کے وسیلے سے خُداوند یسوع کے پاس آئیں۔
یہ سچی راہ ہے۔ یہ صحیح راہ ہے۔ یہ راہ یسوع مسیح کی جانب جاتی ہے۔ یہ راہ ہے جس سے میں بچایا گیا تھا۔ یہ راہ ہے جس سے مسٹر گریفتھ بچائے گئے تھے۔ یہ راہ ہے جس سے ڈاکٹر کیگن اور ڈاکٹر چعین بچائے گئے تھے۔ یہ راہ ہے جس سے ہمارے تمام لوگ بچائے گئے تھے۔ اور یہ ہی راہ ہے جس سے آپ کو بھی بچایا جانا چاہیے۔
’’کیونکہ وہ دروازہ تنگ اور وہ راستہ سُکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی7:14)۔
اے باپ، میں دعا مانگتا ہوں کہ تو کچھ لوگوں کو جو اِس واعظ کو سُنتے یا پڑھتے ہیں گہرائی کے ساتھ سزایابی میں لا۔ اور میں دعا مانگتا ہوں کہ تو اُنہیں اپنے بیٹے یسوع، جو اُن کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا اور اُنہیں زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا، اُس کی جانب کھینچے گا۔ اُسی کے نام میں، آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme
نے کی تھی: 2پطرس2:15۔22.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’زمانوں کی چٹان Rock of Ages‘‘
(شاعر اُگستُس ایم۔ ٹاپ لیڈی Augustus M. Toplady، 1740۔1778)۔