Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اِرتداد کے زمانے میں زندگی بسر کرنا

LIVING IN A TIME OF APOSTASY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, April 26, 2015

’’[خُدا نے] پُرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نُوح کو اور سات دیگر اشخاص کو بچا لیا اور سدوم اور عمورہ کے شہروں کو جلا کر راکھ کر دیا تاکہ آیندہ زمانہ کے بے دینوں کو عبرت ہو۔ اور راستباز لُوط کو جو بے دینوں کے ناپاک چال چلن سے تنگ آ چُکا تھا بچا لیا؛ (کیونکہ وہ راستباز اُن میں رہ کر اُن کے خلافِ شرع کاموں کو دِن رات دیکھتا اور اُن کے بارے میں سُنتا تھا اور اُس کا پاک دل اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا؛)‘‘ (2۔ پطرس 2:5۔8).

پولوس رسول اِس باب میں ایک نبی کی حیثیت سے بات کرتا ہے۔ آیات 1۔ 3 میں، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کہ جھوٹے اِساتذہ آئیں گے اور ہلاک کرنے والی بدعتیں لائیں گے۔ نتیجے کے طور پر بائبل کی مسیحیت کی سچائیوں کے بارے میں بدی کے طور پر باتیں کریں گے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ جھوٹے اِساتذہ پیسے کے لیے کام کریں گے خُدا کے لیے نہیں۔ خود ہمارے اپنے زمانے کی وہ کیسی ایک تصویر ہے! ہم بالکل اِس وقت ایک ہولناک اِرتداد، جھوٹی تعلیمات – اور نئی کافرپرستی کے عروج کے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

میں اِس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کارل ایف۔ ایچ۔ ھنری Carl F. H. Henry (1913۔2003) اتنے زیادہ پسند نہیں تھے۔ وہ ایک انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے ایک نئے عالم دین تھے۔ مگر مجھے یوں دکھائی دیتا تھا کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے تھے جیسے وہ بہت بڑے ’’عالم‘‘تھے۔ میری رائے میں اُنھوں نے سچائی کا انتہائی شدت کے ساتھ اعلان نہیں کیا۔ اِس کے باوجود میں نے آج کے زمانے کے اِرتداد کے بارے میں اِس قدر واضح ترین بیان کبھی بھی نہیں پڑھا جس قدر واضح طور پر اُنھوں نے تحریر کیا۔ ڈاکٹر ھنری نے کہا،

     ہماری نسل نے خُدا کی سچائی کو کھو دیا ہے… اِس نقصان کی وجہ سے وہ کافر پرستی کی سُبک رفتاری سے واپس پرانی حالت میں آ جانے کی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ وحشیوں کا رُجحان دوبارہ بڑھ رہا ہے؛ آپ ہمارے زمانے کی رفتار میں اُن کی سِرسَراہٹ اور للکاروں کو سُن سکتے ہیں…
     وحشی ایک زوال پزیر تہذیب کی گرد کو ہوا دے رہے ہیں اور پہلے سے ہی ایک معذور کلیسیا کے سائیوں میں نظر بچا کر دبے پاؤں چلے آ رہے ہیں (کارل ایف۔ ایچ۔ ھنری، پی ایچ۔ ڈی۔، Carl F. H. Henry, Ph.D.، عظیم تہذیب کی طلوع صبح: جدید کافر پرستی کی جانب بہاؤ Twilight of a Great Civilization: The Drift Toward Neo-Paganism، کراسوے کُتب Crossway Books، 1988؛ بریکٹس میں کی گئی بات پر میری آراء)۔

مشہور معروف رائے شماری کرنے والے جارج برنا George Barna ہمیں بتاتے ہیں، تاثر یہ ہے کہ ہمارے گرجہ گھروں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گرجہ گھروں میں 80 % سے زیادہ نوجوان لوگ چھوڑ جائیں گے، ’’کبھی واپس نہ آنے کے لیے‘‘ – اُن کے تیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے۔ اور ہمارے گرجہ گھروں کو کوئی خیال آتا دکھائی نہیں دیتا کہ کیسے دُنیا میں سے غیر نجات یافتہ نوجوان لوگوں کو مسیح میں تبدیل کیا جائے! وہ اگر کچھ کرنے کے قابل دکھائی دیتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی کو خود اُس کا اپنا گرجہ گھر چھوڑنے اور اُن کے ساتھ آنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مبلغین نے اِتوار کی صبح کی عبادت میں راک موسیقی کو اپنا کر ’’پسندیدہ‘‘ اور ’’ہم عصر‘‘ ہونے کی ناکام کوشش میں اپنی ٹائیاں اُتار پھینکی ہیں! اب تک اُنھیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ اِس سے کام نہیں بنتا ہے! برگشتہ دُنیا اُن پر نظر ڈالتی ہے اور ہنستی ہے! یہ المیہ ہے! خُدا جانتا ہے کہ میں اپنے گرجہ گھروں کے لیے کس قدر آنسو بہاتا ہوں!

اِن میں سے بے شمار مبلغین فُلر سیمنری Fuller Seminary جیسے تدریسی اِداروں کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔ زیادہ بااِختیار حلقوں میں وہ اُن تدریسی اِداروں کی وجہ سے بے بس کر دیے گئے جنہوں نے اُنھیں ایک یونانی لفظ کو کیسے ایک دستور ساز ڈھانچے میں تجزیے کے لیے مرتب کیا جائے سکھا دیا مگر اُنھیں کبھی بھی تبلیغ کرنے کے لیے متاثر نہیں کیا۔ ڈاکٹر مائیکل ھورٹن Dr. Michael Horton نے اِس المیے کے بارے میں لکھا۔ اُن کی کتاب مسیح کے بغیر مسیحیت: امریکی کلیسیا کی متبادل خوشخبری Christless Christianity: The Alternative Gospel of the American Church (بیکر کُتب Baker Books، 2008) کہلاتی ہے۔ موڈی پریس Moody Press والوں نے ایک کتاب (1996) میں شائع کی جس کا نام آنے والا انجیلی بشارت کے پرچار کا بُحران The Coming Evangelical Crisis ہے۔ وہ کتاب اُنیس سال قبل لکھی گئی تھی۔ اب وہ بحران آ چکا ہے، بالکل ابھی! ہمارے گرجہ گھر پریشان کُن حالت میں ہیں اور ہر کوئی یہ جانتا ہے! ہمارے تقریباً تمام گرجہ گھروں میں اِتوار کی شام کی عبادتیں بند کی جا چکی ہیں۔ یہ موت کا ایک نشان ہے! کافی مدت سے زیادہ تر گرجہ گھر دعائیہ عبادتوں کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔ یہ موت کی ایک علامت ہے! آج شاذ و نادر ہی کسی گرجہ گھر میں لوگوں کو فتح کر لینے والا کوئی پُرجوش پروگرام ہوتا ہے۔ یہ موت کا ایک نشان ہے! نام نہاد کہلائی جانے والی ’’تبلیغ‘‘ آیت بہ آیت بائبل کا صرف خشک مطالعہ ہے۔ یہ موت کا ایک نشان ہے! اگر کوئی بھی شکایت نہیں کرتا – تو میں کروں گا! یہاں تک کہ اگر کوئی بھی ایسا نہیں کہتا، تو میں کہوں گا۔ اِس کو واضح اور باآوازِ بُلند کہے جانے کی ضرورت ہے! ہم ایک گہرے اِرتداد کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں! ہم ایک ایسے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو 2۔پطرس2:1۔3 میں بیان کیا گیا!

آپ شاید پوچھیں، ’’تم اُس بارے میں کیوں باتیں کرتے ہو؟ یہ تو آپ کے نوجوان لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر دے گا!‘‘ دوبارہ غلط! لوگوں کو سچائی کے بارے میں بتانا اُنھیں پریشانی میں مبتلا نہیں کرتا ہے! درحقیقت، اگر میں اُنھیں یہ سچائیاں نہ بتاؤں تو وہ واقعی میں اُلجھن میں پڑ جائیں گے – نئے نئے شوقین مبشران انجیل کی وجہ سے اور بائبل کا مطالعہ کرانے والے گروہوں کی وجہ سے اُلجھن میں پڑ جائیں گے! وہ اتنہائی شدید اُلجھن میں پڑ جائیں گے اگر اُنھیں پتا نہیں چلا کہ ہم بے اعتقادی اور گہری اِرتداد کے ایک دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں – مذھبی سُدھار کے بعد سے اب تک کا سب سے بدترین اِرتداد ہے جس کا کلیسیا تجربہ کر چکی ہے! گذشتہ 500 سالوں میں سب سے گہرا ترین اِرتداد! یہ ہی ہے! ہم اُس دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جسے پطرس رسول نے 2۔پطرس2:1۔3 میں بیان کیا۔ اِس لیے، جواب کیا ہے؟ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور 2۔پطرس2:5۔8 آیات پڑھیں۔ یہ سیکوفیلڈ بائبل میں صفحہ 1318 پر ہے۔

’’اور پُرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نُوح کو اور سات دیگر اشخاص کو بچا لیا اور سدوم اور عمورہ کے شہروں کو جلا کر راکھ کر دیا تاکہ آیندہ زمانہ کے بے دینوں کو عبرت ہو۔ اور راستباز لُوط کو جو بے دینوں کے ناپاک چال چلن سے تنگ آ چُکا تھا بچا لیا؛ (کیونکہ وہ راستباز اُن میں رہ کر اُن کے خلافِ شرع کاموں کو دِن رات دیکھتا اور اُن کے بارے میں سُنتا تھا اور اُس کا پاک دل اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا؛)‘‘ (2۔ پطرس 2:5۔8)

.

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

ہماری تلاوت کے الفاظ خُدا کی جانب سے پیش کیے گئے ہمیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ کیسے اِرتداد، گناہ اور اُلھجن کے دور میں زندگی بسر کی جائے۔ یہ ہماری تلاوت کا موضوع ہے۔ پطرس رسول ہمیں اِن دو لوگوں نوح اور لوط کی مثالیں پیش کرتا ہے۔ اِن آدمیوں کے بارے میں بتانے کے ذریعے سے وہ ہمیں دکھاتا ہے کہ کیسے اِس روحانی ابتری کے دور میں ایک مسیحی کی حیثیت سے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ یہ نوح اور لوط سے سیکھنے کے لیے ایک بہت ہی عظیم سبق ہے۔

مسیحی ہمیشہ ہی دُنیاوی روح کے ذریعے سے آزمایا جاتا ہے، خاص طور پر اِس قسم کے اِرتداد کے دور میں۔ ہم اِس حقیقت کے ذریعے سے آزمائے جاتے ہیں کہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں۔ یہ ایک کڑی آزمائش ہے۔ اگر ہم 18 ویں صدی میں زندگی بسر کر رہے ہوتے تو ہم ایک بہت ہی بڑی حیات نو کا حصہ ہوتے، ایک ایسا حیات نو جس میں تمام کے تمام برطانوی جزائر کے ساتھ ساتھ سارے کا سارا شمالی امریکہ بھی شامل تھا۔ ہمارے اِردگرد کافی سے زیادہ لوگ ہوتے جو حقیقی تبلیغ، مسیح میں حقیقی تبدیلی اور حقیقی دعا میں یقین رکھتے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ شاید 19 ویں صدی میں بھی کچھ حد تک سچ ہو جائے – اور کچھ کم پیمانے پر کہا جائے تو 20 ویں صدی کے پہلے 70 یا 80 سالوں میں۔

یہ حیرت میں مبتلا کر دینے والی بات ہے کہ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ جب آپ میری عمر کے ہوں گے تو 35 سال کم دکھائی دیں گے۔ صرف 35 ہی سال پہلے صورتحال کافی مختلف تھی۔ رونلڈ ریگن صدر چُنے گئے تھے۔ بلی گراہم Billy Graham اپنی عمر کے ابتدائی 60 سالوں میں تھے اور اب بھی بہت بڑے بڑے ہجوم اُن کی مجلسوں میں موجود ہوتے تھے۔ ہر اِتوار کی رات کو ٹیلی ویژن پر جیری فالویل Jerry Falwell ہوتے تھے، جو کروڑوں ڈالرز میں عیاشی کرتے تھے اور اسقاط حمل کو روکنے کے لیے ’’اخلاقی اکثریت‘‘ کی رہنمائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ 1980 کی بہار میں ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice ابھی تک منادی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones ابھی تک زندہ تھے۔ اِسی طرح ڈاکٹر فرانسس شائیفر Dr. Francis Schaeffer بھی تھے۔ یہ کسی طور بھی کوئی کامل دور نہیں تھا۔ مگر 2015 سے موازنہ کیا جائے تو مسیحیوں کے لیے ابھی کے مقابلے میں وہ کہیں بہتر تھا۔ اب ہم ایک نفرت سے دیکھی جانے والی اقلیت ہیں! میرا مطلب ہے – لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں! وہ ہم سے خوفزدہ ہیں اور وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں! ہر بپتسمہ دینے والا، انجیل بشارت کا پرچار کرنے والا ہر شخص، پینتیکوست مشن کا ہر شخص، یہاں تک کہ رومن کاتھولک – وہ تمام کے تمام جو مسیحیت سے تعلق رکھتے ہیں اِس کو محسوس کرتے ہیں۔ بیرونی دُنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ یہ خُدا سے وفادار رہنے کے لیے دشواریاں کھڑی کر دیتی ہے، دوسرے زمانوں اور دوسری صدیوں میں وفادار رہ چکنے کے مقابلے میں دشوار ترین۔

یقینی طور پر نوح نے اُس آزمائش کو محسوس کیا تھا – تنہا ڈٹے رہنے کی آزمائش۔ ہمیں ہماری تلاوت میں بتایا گیا کہ خُدا نے نوح کو بچایا جو آٹھواں شخص تھا‘‘ (2۔پطرس2:5)۔ عظیم سیلاب کے آنے سے پہلے نوح نے اخلاقی زوال اور اِرتداد کے ایک ہولناک دورانیے میں زندگی بسر کی۔ یہ انتہائی شدید بدکاری اور بہت زیادہ شیطانی سرگرمیوں کا دور تھا۔ یہ اِس قدر بُرا دور تھا کہ نسل انسانی ’’مسلسل بُرائی میں پڑی ہوئی تھی‘‘ (پیدائش6:5)۔ اور خُداوند نے کہا،

’’میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

اُس زمانے میں دُنیا کے حالات اِس قدر بُرے تھے کہ تقریباً کوئی بھی نجات نہیں پا سکا تھا۔ یاد رکھیں خُدا نے ’’نوح کو جو آٹھواں شخص تھا بچایا۔‘‘ اِس کا مطلب ہے کہ صرف نوح، اُس کی بیوی – اور اُس کے تین بیٹے اور اُن کی بیویاں بچائی گئی تھیں۔ ساری دُنیا میں صرف آٹھ ہی بچائے گئے تھے! ہمارے لیے اِس شخص نوح نے اپنی زندگی اِس قدر بُرائی میں گِھر کر کیسے گزاری تھی اِس کے بارے میں سوچنا ضروری ہے کہ اِس بُرائی نے عظیم سیلاب کے دِن کے فیصلے کے لیے رہنمائی کی تھی۔

پھر لوط تھا۔ جیسا کہ آپ پیدائش کی کتاب میں لوط کے بارے میں پڑھتے ہیں تو آپ حیران ہونگے کہ پطرس نے کیوں اُس کو ہماری تلاوت (2۔پطرس2:7) میں ’’راستباز لوط‘‘ کہا۔ مگر پطرس لوط کی صدوم میں آنے کی غلطی کے بارے میں بات نہیں کر رہا۔ رسول ہمیں بتا رہا ہے کہ لوط نے کیسا محسوس کیا اور اُس نے صدوم میں آنے کے بعد کیا کِیا۔ ہماری تلاوت بتاتی ہے کہ وہ ’’بے دینوں کے چال چلن سے تنگ آ چکا تھا‘‘ (2:7ب)۔ اگر آپ پیدائش 19 باب پڑھیں تو آپ دیکھ پائیں گے کہ وہ شہر کیسا تھا – عیاش، فحش، بدنام۔ اور اِس بدکار شہر میں لوط اور اُس کے خاندان نے زندگی بسر کی۔

وہ اُسی صورتحال میں تھا جس میں نوح اور اُس کا خاندان تھا۔ پیدائش کے 18 ویں باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ خُدا نے صدوم کو تباہ نہ کیا ہوتا اگر وہاں پر دس راستباز لوگ ہی مل گئے ھوتے۔ مگر وہاں پر تو دس راستباز لوگ بھی نہیں تھے – صرف لوط اور اُس کے بچے۔ صرف وہ ہی واحد تھے جو دینداروں کی سی زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُس بڑے سے شہر میں باقی ہر کوئی بے دین تھا اور خود کو گناہ کے حوالے کر چکا تھا۔

نوح اور لوط کی صورتحال سے، ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحیوں کی ایک نہایت ہی چھوٹی سی تعداد کا حصہ ہونا ایک نہایت ہی شدید آزمائش ہوتی ہے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ کتنے رشتے داروں نے میرا تمسخر اُڑایا تھا، میری تضحیک کی تھی اور ایک مسیحی کی سی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنے پر میرا مذاق اُڑایا تھا۔ اگر آپ اپنے سکول، یا اپنے دفتر، یا کالج یا گھر میں صرف واحد مسیحی ہوں تو آپ کا مسلسل مذاق اُڑایا جائے گا۔ اگر آپ کافی بہتر مسیحی ہیں آپ کے بارے میں ایک بیوقوف کی سی حیثیت سے سوچا جائے گا ۔ جتنے بہتر مسیحی آپ ہونگے اُتنی ہی زیادہ یہ برگشتہ دُنیا آپ کے خلاف ہوگی۔ یہ ایک انتہائی مشکل امتحان ہوتا ہے۔ زیادہ تر نوجوان لوگ اِس میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں سکول میں یا کام پر اپنے ’’دوستوں‘‘ کی ہاں میں ہاں ملانی چاہیے۔ اُن لوگوں کے ساتھ دو باتیں واقع ہوتی ہیں جو برگشتہ دُنیا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

1.  اگر اُنہوں نے نجات پائی بھی ہوتی ہے تو وہ اپنی خوشی کو کھو دیتے ہیں۔ آپ دُنیا کے دوست ہو کر مسیح کی خوشی کو نہیں پا سکتے اور وہ مسیح کی آنے والی بادشاہت میں جزا ملنے کو کھو دیتے ہیں۔

2.  اگر برگشتہ دُنیا میں اُن کے قریبی دوست ہوتے ہیں تو وہ بالکل بھی مسیح میں ایمان نہیں لائیں گے۔ بائبل کہتی ہے، ’’اِس لیے جو کوئی بھی دُنیا سے دوستی کرے گا خُدا کا دشمن ہوگا‘‘ (یعقوب4:4)۔


ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا، ’’کیا آپ نے کبھی بھی خُدا کی خاطر… ایک دوست کو کھویا ہے؟ اگر آپ کی مسیحیت نے کبھی بھی… ایک دوست… کو نہیں کھویا ہے…تو پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ خُداوند سے بے حد محبت کرتے ہیں؟ ایک اچھا مسیحی ہونے کے لیے آپ کو دوستوں کو چھوڑنا پڑتا ہے‘‘ (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، ایک اچھا مسیحی ہونے کے لیے کیا کھونا پڑتا What It Costs to Be a Good Christian، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1952، صفحہ28)۔ بائبل کہتی ہے،

’’وہ آدمی مبارک ہے جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور نہ گنہگاروں کی راہ میں قدم رکھتا ہے اور نہ ٹھٹھہ بازوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے‘‘ (زبور1:1).

اگر آپ مسیحیت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ جتنے بھی سچے عظیم مرد اور خواتین تھے وہ دُنیاوی لوگوں سے علیحدہ تھے۔ ایک مثال کے طور پر اُس عظیم ہستی ٹرٹیولیئن Tertullian ہی کو لے لیجیے۔ اُںہوں تقریباً 160 سے 220 بعد از مسیح میں زندگی بسر کی تھی۔ اُنھوں نے کافر رومیوں کے ذریعے سے مسیحیوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُنھوں نے مسیحیوں کو اذیتیں سہتے ہوئے، سر قلم کراتے ہوئے اور اکھاڑے میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے لیے شیروں کے آگے ڈالے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اُن کے حوصلے سے متاثر تھے۔ اُںھوں نے کہا، ’’مسیحیت میں کچھ نہ کچھ ایسا ہے جو اُن لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں حتیٰ کہ خود اپنی جان تک۔‘‘ وہ اُن کی ایک دوسرے سے محبت سے بھی بہت زیادہ متاثر تھے۔ جب وہ تقریباً 35 برس کی عمر کے تھے تو اُنھوں نے اچانک ، سوچ سمجھ کر، مسیح میں انقلابی ایمان لائے۔ وہ تحقیرزدہ اور ستم رسیدہ مسیحیوں کے دفاع کے لیے نکل پڑے۔ اُنھوں نے ابتدائی کلیسیاؤں میں مختلف بدعتوں کے خلاف کتابیں لکھیں۔ بالاآخر اُنھوں نے کاتھولک کلیسیا کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ دُنیاوی ہوتی جا رہی تھی۔ شروع شروع میں وہ موٹینیسٹس Montanists کے ساتھ ہو لیے جو دور حاضرہ کے پینتیکوست مشن والے لوگوں کی طرح کے تھے۔ آخرکار اُنھوں نے اُنھیں چھوڑ دیا اور اپنے خود کے ایک گرجہ گھر کے پادری بن گئے۔ یوں وہ پہلے پروٹسٹنٹ بنے تھے۔ میں کوریا کے ایک نوجوان شخص کو جانتا ہوں جو ٹرٹیولیئن کے قوت سے بھرپور واعظوں کا مطالعہ کرنے سے مسیح میں ایمان لائے تھے۔ نوجوان لوگو، ٹرٹیولیئن کی مانند بنو! جیسا کہ وہ نوح اور لوط کی مانند تھا!

عظیم پیٹر والڈو Peter Waldo کے بارے میں سوچیں۔ اُنھوں نے فرانس میں 1140 سے 1205 بعد از مسیح زندگی بسر کی۔ وہ ایک امیر تاجر تھے۔ مگر ایک رات کو اُن کا ایک دوست اُن کی کھانے کے میز ہی پر مر گیا۔ اِس سے پیٹر والڈو کو دھچکا پہنچا اور وہ ایک حقیقی مسیحی بن گئے۔ اُنھوں نے منادی شروع کر دی اور بے شمار پیروکار بنائے۔ اُنھوں نے لوگوں کو مسیح میں لانے اور بائبل کا مطالعہ کرنے پر زور دیا۔ وہ لوگ جنھوں نے اُن کی پیروی کی والڈینزئین کہلاتے تھے۔ اُنھیں کاتھولک کلیسیا میں سے خارج کر دیا گیا تھا، لیکن، ایک معجزے کے ذریعے سے، اُنھوں نے مرنے تک خوشخبری کی منادی کرتے رہنا جاری رکھی تھی۔ تقریباً 300 سال بعد والڈو کی پیروی کرنے والوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں پروٹسٹنٹس میں شمولیت اختیار کر لی۔ نوجوان لوگو، پیٹر والڈو کی مانند بنو! جیسا کہ وہ نوح اور لوط کی مانند تھا!

پھر عظیم مِس لوطئی مونMiss Lottie Moon کے بارے میں سوچیں۔ اُنھوں نے 1840 سے 1912 تک زندگی بسر کی۔ 1873 میں وہ چین کے لیے ایک بپتسمہ دینے والی مشنری کی حیثیت سے گئیں۔ اُس وقت چین میں شدید خطرہ ہوا کرتا تھا۔ وہ پرانے عہد نامے کے ایک پروفیسر کروفورڈ ٹوئے Crawford Toy کے پیار میں گرفتار ہو گئیں۔ شادی کرنے کے لیے اُن کی منگنی ہو چکی تھی۔ مگر لوطئی کو پتا چلا کہ پروفیسر بائبل کے بارے میں زیادہ یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اُن کا دِل ٹوٹ گیا، مگر اُنھوں نے منگنی توڑ دی کیونکہ وہ ایک آزادخیال بے اعتقادے تھے۔ لوطئی مون چین ہی میں رہیں۔ اُنھوں نے کبھی بھی شادی نہیں کی۔ 1912 میں وہ دوسری مشنریوں اور چینی لوگوں کو اپنی خوراک بانٹ دینے کی وجہ سے بیمار پڑ گئیں۔ اُن کا وزن گھٹ کر صرف 50 پونڈز رہ گیا اور اُنھیں امریکہ واپس بھیج دیا گیا۔ وہ راستے ہی میں وفات پا گئیں۔ آج کے دِن تک اُنھیں مغربی بپتسمہ کے اجتماع سے کبھی بھی پیدا ہونے والی عظیم ترین مشنریوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ اب بھی ہر سال کرسمس کے موقعے پر اُن کے بارے میں بات کرتے ہیں – جب وہ غیرمُلکی مشنریوں کے لیے ’’لوطئی مون ہدیہ‘‘ وصول کرتے ہیں۔ وہ اکثر اِس بات کا تزکرہ نہیں کرتے کہ لوطئی مون نے اُس شخص کو چھوڑ دیا تھا جس سے اُن کی منگنی ہو گئی تھی کیونکہ وہ ایک بے اعتقادہ تھا۔ لیکن خُدا یاد رکھتا ہے! نوجوان لوگو، لوطئی مون کی مانند بنو! جیسا کہ وہ نوح اور لوط کی مانند تھی!

’’[خُدا نے] پُرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نُوح کو اور سات دیگر اشخاص کو بچا لیا اور سدوم اور عمورہ کے شہروں کو جلا کر راکھ کر دیا تاکہ آیندہ زمانہ کے بے دینوں کو عبرت ہو۔ اور راستباز لُوط کو جو بے دینوں کے ناپاک چال چلن سے تنگ آ چُکا تھا بچا لیا؛ (کیونکہ وہ راستباز اُن میں رہ کر اُن کے خلافِ شرع کاموں کو دِن رات دیکھتا اور اُن کے بارے میں سُنتا تھا اور اُس کا پاک دل اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا؛)‘‘ (2۔ پطرس 2:5۔8)

.

ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones، جو کہ بیسویں صدی کے ایک عظیم برطانوی مبلغ تھے اُنھوں نے 2۔پطرس میں بالکل اِسی حوالے پر ایک واعظ دیا۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے اپنے واعظ کا اختتام کچھ یوں کیا،

میں ایک سوال کے ساتھ اختتام کرتا۔ کیا ہم نوح اور لوط کی مانند ہیں؟ آج کا زمانہ حیرت انگیز طور پر [اُن کے] دِنوں کی دُنیا کی ہی مانند ہے۔ لوگوں کے لیے یہ بتانا آسان ہے کہ ہم مسیحی ہیں؟ کیا ہم مختلف ہیں، کیا ہم ڈٹے رہتے ہیں؟… کیا ہم اُن لوگوں کے لیے دُکھ کرتے ہیں جو خود کو تباہی کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں؟ کیا ہم اِس بارے میں کوئی دعا مانگ رہے ہیں اور کیا ہم اپنے تئیں آنے والے سچے حیات نو کے جلدی آنے کے لیے پوری سعی کر رہے ہیں؟ دورِ حاضرہ کے مسیحیوں کے لیے یہ ہی نوح اور لوط کا چیلنچ ہے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، ’’نوح اور لوط کی مثال The Example of Noah and Lot،‘‘ 2 پطرس پر تفسیراتی واعظ Expository Sermons on 2 Peter، دی بینر آف ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1983، صفحہ 154)۔

مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اپنے گیتوں کے ورق میں سے نمبر 6 گائیں۔ اِس کو گائیں!

میری زندگی، میری محبت میں تجھے سونپتا ہوں، تو خُدا کا برّہ جو میرے لیے مرا؛
   ہائے کاش میں کبھی وفادار بھی رہا ہوتا، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
   میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!

میں اب یقین کرتا ہوں کہ تو ہی نے پائی تھی، کیونکہ تو نے موت قبول کی کہ میں جی پاؤں؛
   اور اب میں اِسی وقت سے تجھ میں بھروسہ کرتا ہوں، میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
   میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!

ہائے تو جو کلوری پر مرا تھا، میری جان بچانے اور مجھے آزادی دلانے کے لیے،
   میں اپنی زندگی تجھ پر ہی نچھاور کر دوں گا، میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
   میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا، میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!
(’’میں اُس کے لیے جیئوں گا I’ll Live for Him‘‘ شاعر رالف ای۔ ہڈسن Ralph E. Hudson، 1843۔1901؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔

آسمانی باپ، ہم دعا مانگتے ہیں کہ آج کی شام یہاں پر کوئی نہ کوئی تیرے بیٹے – یسوع پر بھروسہ کرے گا اور تمام گناہ سے پاک صاف ہو جائے گا اُس قیمتی خون کے وسیلے سے جو اُس نے صلیب پربہایا تھا۔ اُسی کے نام میں، آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: 2۔پطرس2:4۔9.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
          نے گایا تھا: ’’ایسے وقتوں کے دوران In Times Like These‘‘ )شاعرہ رُوتھ کائی جونز Ruth Caye Jones، 1944)