اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
نئی تخلیق – مسیحی محبت کے لیے رابطہREGENERATION – THE LINK TO CHRISTIAN LOVE ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خُدا کا فرزند ہے اور جو باپ سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کے بیٹے سے بھی محبت رکھتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا5:1)۔ |
میں نے گرجہ گھر میں پرورش نہیں پائی تھی۔ میں نے ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں اُس وقت جانا شروع کیا تھا جب میں تیرہ برس کا تھا۔ ایک بات جو میں نے جاتے ہی سیکھی تھی یہ تھی کہ گرجہ گھر میں نوجوان لوگ ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے تھے، وہ مجھ سے بھی پیار نہیں کرتے تھے، اور وہ بالغوں یا پادریوں سے بھی اُنس نہیں رکھتے تھے۔ وہ مسلسل ایک دوسرے کی چغلی لگاتے اور گندے لطیفے سنایا کرتے تھے۔ جب پادری صاحب تبلیغ کر رہے ہوتے تھے تو وہ ایک دوسرے کو پرچیاں لکھ لکھ کر دیتے اور سرگوشیوں میں باتیں کیا کرتے تھے۔ مجھے یہ بھی پتا چلا کہ گرجہ گھر میں بالغ لوگوں کو ایک دوسرے سے پیار نہیں تھا۔ درحقیقت، وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے دکھائی دیتے تھے اور اُن میں سے بہت سے تو ایک دوسرے کی تحقیر کرتے تھے۔ وہ زیادہ تر تقریباً زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ عادتاً اکٹھے رہ رہے تھے۔ وہ ایک ساتھ رہنے کے عادی بن چکے تھے۔ وہ اِتوار کو عادتاً چند ایک گھنٹے اکٹھے گزارا کرتے تھے۔ گرجہ گھر میں آنا اُن کے لیے رواج تھا۔ مگر ایک دوسرے کے لیے کوئی محبت نہیں تھی۔ جب اصلی پادری صاحب دوسرے گرجہ گھر میں جایا کرتے تو اُن کی گرجہ گھر میں آنے کی حاضری بے ربط ہو جاتی۔ مختصر سے عرصے میں وہ تین گروں میں تقسیم ہو جاتے جو ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے۔ بہت سے لوگ تو مکمل طور پر گرجہ گھر کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ جو ٹھہر جاتے جنگلی جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر شدت کے ساتھ حملہ کرتے۔ وہ اِتوار کی صبح کی عبادت میں ایک دوسرے پر حمد و ثنا کے گیتوں کی کتابیں پھینکا کرتے۔ وہ اُس عبادت میں ایک دوسرے کو غلیظ زبان میں لعن طعن کرتے۔
بالاآخر مغربی بپتسمہ دینے والوں کے گروہ نے ایک اور گرجہ گھر شروع کرنے کے لیے وہاں سے چھوڑ دیا۔ میں اُن کے ساتھ ہی چلا گیا۔ لیکن جیسے ہی ہم نے ایک دوسرے گرجہ گھر کا آغاز کیا تو پھر سے اُسی قسم کی باتیں رونما ہونے لگیں! زیادہ تر لوگوں نے چھوڑ دیا۔ آخر کار میں نے بھی چھوڑ دیا اور ایک چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں چلا گیا، جہاں پر میں تیئس سالوں تک اُن کا رُکن رہا۔ لیکن حالانکہ چینی لوگ اِس قدر غضب ناک نہیں تھے، اراکین کے درمیان تھوڑا بہت پیار تھا جب تک کہ خُدا نے ایک حیات نو نہیں بھیج دیا اور بہتری کے لیے باتوں میں تبدیلی آئی۔
لیکن حیاتِ نو کے شروع ہونے کے فوراً ہی بعد میں سینمری چلا گیا تھا۔ میں نے سیمنری کے قریب ایک گرجہ گھر کا آغاز کیا۔ کچھ عرصے تک حالات ٹھیک چلتے رہے۔ پھر وہی بات دوبارہ شروع ہو گئی۔ وہاں پر معمولی باتوں پر تلخ کلامی اور بحث مباحثے ہوتے اور لوگ چھوڑنے لگے۔ حالات ابتر ہو گئے تھے۔ میں نے چھوڑا اور واپس لاس اینجلز چلا آیا۔
میں نے یہاں پر چالیس سال پہلے ایک گرجہ گھر کا آغاز کیا، جو کہ بالاآخر یہ گرجہ گھر بن گیا جس میں آج ہم موجود ہیں۔ مگر یہ گرجہ گھر بھی اچانک حملوں، لڑائی جھگڑوں اور ہولناک گرجہ گھر کی تقسیم سے گزرا۔ اِس کے مسائل کو ٹھنڈا پڑنے اور جیسا یہ آج ہے ایسا ہونے میں تقریباً پچیس سال لگے۔
اب، یہ میرا تجربہ ہے۔ آپ شاید تعجب کر سکتے ہیں کہ میں کیسے اِس دیوانگی کے جنجال سے گزرا۔ میں اکثر اِس بارے میں خود تعجب کرتا ہوں۔ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ، اِس سب میں سے گزرنے پر، میں جان گیا کہ ایک خُدا تھا اور میں جان گیا کہ بائبل خُدا کا کلام تھی۔ میں نے اُن باتوں پر محض ایسے ہی یقین نہیں کیا تھا۔ میں اُنہیں جانتا تھا، اپنی روح کی گہرائیوں میں۔ میں اُن باتوں کو جانتا تھا، ’’راستبازی کے اعمال کے ذریعے سے نہیں… بلکہ اُس کے رحم کے مطابق‘‘ (طیطُس3:5)۔
میرا تجربہ غیرمعمولی نہیں ہے۔ زیادہ تر، اگر سارے نہیں، انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے نوجوان ایسے ہی تجربات سے گزرچکے ہیں۔ جو بات میرے تجربات کو کچھ نہ کچھ غیرمعمولی بناتی ہے یہ ہے کہ مَیں اِن میں خُدا اور بائبل پر اُس یقین سے بھی زیادہ جو میں پہلے کرتا تھا اُس کے ساتھ گزرا اور اِن میں سے نکل آیا!
لیکن اِس سے پہلے کہ میں بات جاری رکھوں میں کرسٹین وِکر کا ایک حوالہ پیش کرنے جا رہا ہوں، جو انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی قوم: کلیسیا کے اندر حیران کُن بحران The Fall of the Evangelical Nation: The Surprising Crises Inside the Church کی مصنف ہیں (ہارپر ون HarperOne، 2008)۔ اُنہوں نے کہا،
امریکہ میں انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی مسیحیت مر رہی ہے۔ آج کی بہت بڑی بڑی انجلی بشارت کا پرچار کرنے والی تحاریک ہراول دستہ [پہلے رُتبہ پر نہیں] ہیں۔ وہ باقی ماندہ ہیں، انتہائی کنارے پر سُلجھاتی ہوئی۔ آپ جس طرح سے بھی چاہیں اِس پر نظر ڈال لیں: تبدلیاں۔ بپتسمے۔ رُکنیت… پیش کر رہی ہے… حاضریاں… سب کی سب ختم ہو رہی ہیں اور گھٹتی جا رہی ہیں (ibid.، تعارف، صفحہ ix)۔
اور وہ اُس بیان کی حمایت اُن حقائق اور اعدادوشمار کے ساتھ کرتی ہیں جنھیں غلط ثابت کرنا ناممکن ہے۔ جب میں نے کتاب پڑھی تو مجھے اُن کے بنیادی نظریے کے ساتھ متفق ہونا پڑا: ہمارے گرجہ گھر شدید مشکل میں ہیں۔
لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ساٹھ سال پہلے، گاہے بگاہے، ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزرDr. A. W. Tozer نے ہمارے گرجہ گھروں میں مسائل کے بارے میں لکھا۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹر ٹوزر نے کہا،
ساری کی ساری دُنیا ایک بہت بڑے پیمانے پر صحت مندانہ مسیحیت کے لیے نامساعد ہے۔ اور میں نا ہی جدیدت [آزاد خیالی] کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اِس کے بجائے میرا مطلب بائبل پر یقین رکھنے والے اُس ہجوم سے ہے جو آرتھوڈکسی کا نام لیے ہوئے ہے… ہم اپنی عیاش قسم کی مسیحیت کے لیے لوگوں کو تبدیل کر رہے ہیں جو بہت ہی نئے عہد نامے کے لوگوں سے مشہابت رکھتی ہے… واضح طور پر ہمیں بہترین مسیحیوں کو پیدا کرنا چاہیے (خُدا اور لوگوں کے بارے میں Of God and Men، کرسچن پبلیکیشنزChristian Publications، 1960، صفحات12، 13)۔
ڈاکٹر ٹوزر خود اپنی زندگی میں ایک نبی کہلائے جاتے تھے!
ہم کس طرح ایک محبت بھری کلیسیا اِس قدر زیادہ پریشانی اور اِرتداد میں پا سکتے ہیں؟ ہمیں وہیں سے شروع کرنا چاہیے جہاں سے بائبل شروع ہوتی ہے – تبدیلی کے ساتھ۔ آپ غیرنجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ایک محبت بھری کلیسیا نہیں حاصل کر سکتے! حقیقی تبدیلی ایک انقلابی واقعہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones جو ایک عظیم برطانوی مبلغ تھے اُنہوں نے کہا،
ایک مسیحی بننا ایک بحران ہوتا ہے، ایک نازک واقعہ… جس کو کہ نئے عہد نامے میں کچھ اِس طرح کی اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے جیسا کہ ایک نیا جنم، یا ایک نئی تخلیق، یا ایک نیا آغاز۔ اِس سے بھی بڑھ کر، یہ وہاں پر خود خُدا کے وسیلے سے اثر میں لائے گئے ایک فوق الفطرت عمل کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، کچھ ایسی بات جس کا موازنہ یسوع مسیح اُس خُدا کے بیٹے کے ذریعے سے اور اُس میں… ایک مُردہ جان کو زندہ کیے جانے سے کیا جا سکتا ہے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، انجیل بشارت کا پرچار کرنے والے واعظ Evangelistic Sermons، دی بینر آف ٹرٹھ ٹرسٹ، 1990، صفحہ 166)۔
اور یہ ہمیں واپس ہماری تلاوت کی جانب لے جاتا ہے۔
’’جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خُدا کا فرزند ہے اور جو باپ سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کے بیٹے سے بھی محبت رکھتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا5:1)۔
I. پہلی بات، تلاوت میں ’’ایمان لانے‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے…‘‘ (1۔یوحنا5:1)۔
وہ یونانی لفظ جس نے ’’ایمانbelieve‘‘ کا ترجمہ کیا “pisteuōn” ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ٹی۔ رابرٹسن نے کہا کہ یہ ’’محض ذہنی سزایابی ہی نہیں ہے بلکہ یسوع کو سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہونا ہوتا ہے…پوری طرح سے سمجھیں تو pisteuōn ہوتا ہے۔ (اے۔ ٹی۔ رابرٹسن، لٹریچر ڈی۔ A. T. Robertson, Litt.D.، نئے عہدنامے میں لفظی تصاویر Word Pictures in the New Testament، جلد ششم، براڈمین پریس Broadman Press، 1953، صفحہ 237؛ 1۔یوحنا5:1 پر غور طلب بات)۔
سٹرانگ کہتی ہے کہ “pisteuōn” کا مطلب ہوتا ہے ’’ایک ہستی میں، اور اُس پر ایمان رکھنا‘‘ (#4100)۔ سپرجیئن نے کہا، ’’آپ کسی بھی یونانی لغت میں جسے آپ پسند کرتے ہوں دیکھ لیں اور آپ کو پتا چل جائے گا کہ لفظ pisteuōn کا مطلب محض ایمان لانا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ بھروسہ کرنا… ایمان کا مطلب ہوتا ہے اعتماد میں ہونا، یسوع مسیح پرانحصار کرنا، [ناکہ]… محض ایک فرضی ایمان… [جوکہ] آپ کی جان کو بچا نہیں پائے گا‘‘ (’’ایمان اور نئی تخلیق،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے Metropolitan Tabernacle Pulpit، نمبر979، صفحہ 138؛ 1۔یوحنا5:1 پر غور طلب بات)۔
بدروحوں کا یسوع مسیح میں ’’فرضی‘‘ اعتقاد تھا۔ آپ کو نئے عہد نامے کو اتنا زیادہ نہیں پڑھنا پڑے گا اِس سے پہلے ہی آپ کو لوقا4:41 جیسی آیت مل جائے گی،
’’اور بدرُوحیں [آسیب] بھی چلاتی ہوئی اور یہ کہتی ہُوئی کہ تُو خدا کا بیٹا ہے کئی لوگوں میں سے نکل جاتیں تھیں… چونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ مسیح ہے‘‘ (لوقا 4:41).
آسیب سمجھتے تھے کہ یسوع ہی مسیح تھا۔ مگر وہ اُس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ یوحنا ہمیں محض اِس حقیقت پر یقین کرنے کے لیے نہیں بتا رہا کہ یسوع ہی وہ مسیحا، مسیح ہے۔ وہ ہمیں مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے بتا رہا ہے – pisteuōn ’’مسیح میں اور اُسی پر ایمان رکھنا، اُسی پر بھروسہ رکھنا۔‘‘
سپرجیئن پیتل کے سانپ کے بارے میں بتاتے ہوئے جاری رہتے ہیں۔ سانپ اسرائیلیوں کو ڈس رہے تھے اور اُنھیں قتل کر رہے تھے۔ خُدا نے موسیٰ سے پیتل کا ایک سانپ بنانے کو کہا اور اُسے ایک کھمبے پر اونچا اُٹھانے کو کہا۔ جو کوئی بھی سانپ کا ڈسا ہوا تھا اور مر رہا تھا شفا پانے اور زندہ رہنے کے لیے اُسے صرف اُس پیتل کے سانپ پر نظر ڈالنی تھی۔ یوحنا3:14، 15 میں ہم کیسے بچائے جاتے ہیں یہ سمجھانے کے لیے اُس کہانی کو استعمال کیا۔ سپرجیئن نے کہا، ’’یسوع پر یقین رکھنے کے لیے [صرف] اُس کی ایمان کی آنکھ سے جھلک دیکھنی ہے، اُس پر بھروسہ کرنے کے لیے اپنی ساری روح کے ساتھ‘‘ (ibid.، صفحہ140)۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا ایمان کتنا چھوٹا ہے، اگر آپ یسوع پر نظر ڈالیں اور تنہا اُسی پر بھروسہ رکھیں تو آپ کے پاس وہ ایمان ہے جو ہر معاملے میں ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔
’’جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے …‘‘ (1۔یوحنا5:1)۔
II. دوسری بات، جو کوئی یسوع پر بھروسہ کرتا ہے نئے سرے سے جنم لیتا ہے، خُدا سے پیدا کیا ہوا۔
اب، بہت سے جو مسیح پر بھروسہ نہیں رکھتے ہیں کہتے ہیں اُنھوں نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔ وہ کسی اور بات میں بھروسہ کر رہے ہیں۔ سان ڈیاگو کے قریب ڈاکٹر کیگن علیانہ اور میرے ساتھ ایک جنازے میں گئے۔ واپسی پر ہم کیلیفورنیا کے گرجہ گھروں میں سب سے بڑے مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں رُکے۔ ہفتہ کے روز کی شام کی عبادت ختم ہو ہی رہی تھی۔ جب ہم باہر نکلے تو میں نے ایک نوجوان خاتون کو دیکھا جو نگران تھیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آیا وہ مسیحی تھیں۔ اُنھوں نے کہا، ’’جی ہاں، میں ہوں۔‘‘ میں نے اُن سے پوچھا، ’’آپ کیسے ایک مسیحی بنی تھیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا، ’’میں اپنی ساری زندگی اِس گرجہ گھر کی رُکن رہی ہوں۔‘‘ میں نے اُن سے کہا، ’’میرا نہیں خیال کہ آپ میرا سوال سمجھ پائی ہیں۔ میں نے کہا ’آپ کیسے ایک مسیحی بنی تھیں؟ اُنھوں نے کہا، ’’میں ہر ہفتے گرجہ گھر آتی تھی۔‘‘ میں اُداسی کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔ اُس بیچاری نوجوان خاتون کو یسوع کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے کے لیے قائل نہیں کیا جا سکتا تھا! اُس مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے پادری صاحب کو ساری دُنیا میں جانا جاتا ہے۔ اُس لڑکی نے اُنھیں اپنی ساری زندگی منادی کرتے ہوئے سُنا تھا۔ اِس کے باوجود وہ نئے جنم کے بارے میں اتنی ہی انجان تھی جتنا کہ نیکودیمس تھا، جس نے یسوع سے کہا تھا، ’’یہ باتیں کیسے ہو سکتی ہیں؟‘‘ (یوحنا3:9)۔
خُدا ہماری مدد کرے! اِس میں تعجب کی بات نہیں کہ کرسٹین وِکر نے کہا، ’’انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی مسیحیت امریکہ میں مر رہی ہے۔‘‘ کوئی تعجب نہیں کہ ڈاکٹر ٹوزر نے کہا، ’’ساری کی ساری دُنیا ایک بہت بڑے پیمانے پر صحت مندانہ مسیحیت کے لیے نامساعد ہے۔‘‘ یسوع پر بھروسہ کیے بغیر آپ اتنے ہی کھوئے ہوئے ہیں جتنی کہ وہ بیچاری نوجوان خاتون، جو کہ بہت بڑے مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کی رُکن تا حیات رُکن تھی۔ اوہ، گرجہ گھر کی رُکنیت پر بھروسہ مت کیجیے! بپتسمہ لینے میں بھروسہ مت کیجیے! خود اپنی نیکیوں پر بھروسہ مت کیجیے! اور چاہے آپ کچھ بھی کریں، کبھی بھی کسی جذبے کے احساس پر بھروسہ مت کیجیے گا! یسوع مسیح پر بھروسہ کیجیے گا! یسوع نے صلیب پر جو خون بہایا اُس کے وسیلے سے اپنے گناہوں سے دُھل کر پاک صاف ہو جائیں! جیسا کہ سپرجیئن نے اکثر کہا، ’’سارا توّکل مسیح پر کرو۔‘‘ مسیح کو دیکھو۔ مسیح پر بھروسہ کرو۔ مسیح کی جانب نظر ڈالو! یہ اتنا مشکل نہیں ہے! اُس پر ایسے ہی نظر ڈالو جیسے اسرائیلیوں نے پیتل کے سانپ پر ڈالی تھی اور شفا پائی تھی!
دیکھو اور زندہ رہو، میرے بھائی، زندہ رہو!
یسوع پر ابھی نظر ڈالو اور زندہ رہو،
یہ اُس کے کلام میں درج ہے، ھیلیلویاہ!
یہ آپ کا صرف دیکھنا ہے اور زندہ رہنا!
(’’دیکھو اور زندہ رہوLook and Live‘‘ شاعر ولیم اے۔ اُوگڈین
William A. Ogden، 1841۔1897)۔
III. تیسری بات، نئے جنم میں سے کیا بہتا ہے۔
’’جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خُدا کا فرزند ہے اور جو باپ سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کے بیٹے سے بھی محبت رکھتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا5:1)۔
تلاوت کے دوسرے آدھے حصے پر غور کریں، ’’اور جو باپ سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کے بیٹے سے بھی محبت رکھتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا5:1)۔ بھائیوں اور بہنوں کا پیار ہی گرجہ گھر میں نئے جنم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک حقیقی تبدیلی کا امتحان، تب، وہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے محبت کریں جو سچے طور پر تبدیل ہوئے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا، ’’آپ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں جو آپ خُداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں… اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ خُداوند سے محبت رکھتے ہیں۔ آپ [خُدا] اپنے باپ سے محبت کرتے ہیں – جو آپ سے محبت کرتا ہے – اور آپ اُس کے دوسرے بچوں سے محبت کریں گے کیوں کہ وہ آپ کے بھائی اور بہنیں ہیں‘‘(بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن Thomas Nelson، 1983؛ 1۔ یوحنا5:1) ۔
میں قائل ہوں کہ یہ ہی اہم وجہ ہے کہ ہماری اِس قدر گرجہ گھر کی چپقلشیں ہوتی ہیں، اِس قدر تقسیمیں ہوتی ہیں، اِس قدر لوگ گرجہ گھر کو چھوڑ رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر نوجوان لوگ۔ کئی سالوں تک میرے پادری صاحب ڈاکٹر ٹموٹھی لِنDr. Timothy Lin رہے تھے۔ اُنھوں نےایک گرجہ گھر کے بارے میں لکھا جس نے بے شمار مسائل کو برادشت کیا،
مذھبی جماعت میں بے شمار مسیحی ہونے کا داعویٰ کرتے ہیں مگر اُن کی کوئی دائمی زندگی نہیں ہوتی ہے؛ وہ رعایتوں کے لیے لڑتے لیکن ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اِس قسم کے رُکن کلیسیا کی مذھبی خدمات کو بُری طرح سرانجام دینے کے لائق ہوتے ہیں… بدقسمتی سے، لوگ اکثر کینسر زدہ خُلیوں [غیرنجات یافتہ لوگوں] کو مسیح کے بدن میں گُھسانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کیوں… آج کے زمانے کے گرجہ گھر مُہلک بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں (ٹموٹھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، کلیسیا کی نشوونما کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992، صفحات38۔40)۔
ڈاکٹر لائیڈ جونز نے بھی اِس مسئلے کو دیکھ لیا تھا، اُنھوں نے کہا،
یہ تصور کہ لوگ گرجہ گھر کے رُکن ہوتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں کہ اُنھیں مسیحی ہونا چاہیے سب سے زیادہ مہلک مفروضوں میں سے ایک ہوتا ہے، اور میری رائے ہے کہ آج کے زمانے میں کلیسیا کی [بُری] حالت کے لیے یہ بنیادی طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، تبلیغ اور مبلغین Preaching and Preachers، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1981 ایڈیشن، صفحہ 149)۔
کھوئے ہوئے لوگ تقریباً تمام بپتسمہ دینے والے اور انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے گرجہ گھروں کے رُکن بغیر کوئی سوال پوچھے بن سکتے ہیں۔ اُنھیں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔ اُن میں سے زیادہ تر تو کبھی بھی حقیقی مسیح ہوتے ہی نہیں ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر لِن نے اِس کو لکھا، وہ ’’مسیحی ہونے کا داعویٰ تو کرتے ہیں مگر اُن کی کوئی دائمی زندگی نہیں ہوتی۔‘‘ بِلاشُبہ اُن کو مطلب تھا کہ اُن کے پاس کوئی zōē aiōnio – اُن میں خُدا کی زندگی نہیں ہوتی۔ خُدا کی زندگی لوگوں میں اُس وقت آتی ہے جب وہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہماری تلاوت اِس کو لکھتی ہے، وہ ’’خُدا کے فرزند‘‘ ہیں، ’’خُدا کے صُلب‘‘ سے ہیں۔ عظیم مبلغ جارج وائٹ فیلڈGeorge Whitefield (1714۔1770) ھنری سیکوگل Henry Scougal کی کتاب جس کا نام ’’انسان کی جان میں خُدا کی زندگی The Life of God Within the Soul of Man‘‘ تھا، پڑھنے کے بعد بچائے گئے تھے۔ خُدا کی زندگی لوگوں کو جس لمحہ وہ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں اُس ہی لمحے میں نیا جنم دیتی ہے۔ وہ شاید کچھ ’’محسوس‘‘ نہ کریں مگر بالغ و باشعور مسیحی جان جائیں گے کہ نئے تبدیل ہونے والوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات مختلف ہے۔ مختلف باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ شدت کے ساتھ گرجہ گھر میں اُن لوگوں سے جو ’’خُدا کے فرزند‘‘ ہیں، ’’خُدا کے صُلب‘‘ سے ہیںِ، محبت کرتے ہیں۔ وہ اُنھیں سمجھ جائیں گے جن کے باطن ہی میں خُدا کی زندگی ہوتی ہے۔ وہ اُن کے لیے دِل میں مسیحی محبت رکھیں گے، وہ محبت جسے برگشتہ دُنیا یا کھوئے ہوئے گرجہ گھر کے اراکین نہیں سمجھ سکتے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’ہمیں ہمارے باطن میں اِس سے پہلے کہ ہم ایک دوسرے سے سچا پیار کر پائیں الٰہی قدرت کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (خُدا کی محبت The Love of God، کراسوے Crossway، 1994،صفحہ 45)۔ جیسا کہ اِس مراسلے میں ابتدا ہی میں یوحنا رسول نے کہا،
’’ہم جانتے ہیں کہ ہم مَوت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیونکہ ہم بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ گویا مُردہ کی طرح ہے‘‘ (1۔ یوحنا 3:14).
وہ شخص روحانی موت کی حالت ہی میں رہتا ہے۔ ہم دعا مانگتے ہیں کہ آج کی صبح آپ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو جائیں۔ یسوع پر ایمان رکھیں۔ یسوع پر بھروسہ رکھیں۔ یسوع پر مکمل طور سے انحصار کریں۔ اُس کا خون آپ کے گناہوں کو دھو ڈالے گا۔ مُردوں میں سے اُس کا جی اُٹھنا آپ کو زندگی بخشے گا۔ جس لمحہ آپ یسوع کی جانب رُخ کرتے اور تنہا اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں – تو آپ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو جائیں گے۔ آپ روحانی طور سے ایک پاک محبت میں متحد ہو جائیں گے ہمارے درمیان اُن لوگوں کے ساتھ جنھوں نے بھی یسوع پر بھروسہ کیا ہوتا ہے۔
’’اور وہ تمام ہماری محبت کے وسیلے سے جان جائیں گے ہم مسیحی ہیں، ہماری محبت کے وسیلے سے،
جی ہاں، وہ تمام ہماری محبت کے وسیلے سے جان جائیں گے۔‘‘
(کورس Chorus شاعر پیٹر آر۔ شُولٹز Peter R. Scholtes، 1938۔2009)۔
میں دعا مانگتا ہوں کہ جلد ہی یہ آپ کا تجربہ ہوگا! یسوع پر بھروسہ کریں۔ وہ آپ کے گناہ کو صلیب پر اپنے بہائے گئے خون کے ساتھ دھو ڈالے گا۔ وہ آپ کو گناہ سے بچا لے گا اور آپ کو دائمی زندگی دے گا – یہاں تک کہ خُدا کی زندگی! آپ نئے سرے سے جنم لیں گے، آسمان بالا سے جنم!
آئیے مجھے اِس واعظ کا اختتام ’’اولیور ٹوئسٹ Oliver Twist‘‘ میں ایک سین یاد دلانے سے کرنے دیجیے۔ اولیور تقریباً 9 یا 10 سال کی عمر کا ایک چھوٹا سا لاغر یتیم لڑکا ہے۔ اُس کی ماں اُس کو جنم دیتے ہوئے مر گئی تھی اور اُس کے کوئی دوسرے رشتہ دار نہیں تھے۔ وہ ایک یتیم تھا – دُنیا میں تن تنہا۔ وہ انگلستان میں 19ویں صدی میں ایک یتیم خانے میں تھا۔ وہ فاقوں سے بھوکا تھا۔ وہ ہر رات کو کھانے میں اُسے دلیے کے شوربے کا ایک چھوٹا سا پیالہ دیتے تھے۔ اُس کی میز پر دوسرے لڑکے اُس سے سرگوشی میں اُسے کہتے، ’’جا اور مذید اور مانگ۔‘‘ آخرکار، بھوک سے تنگ آ کر، وہ چھوٹا سا لڑکا اپنا پیالہ اُٹھاتا ہے اور دیو قامت موٹے انچارج آدمی تک چل کر جاتا ہے۔ وہ موٹا آدمی اُس پر نیچے نظریں ڈالتا ہے اور کہتا ہے، ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ایک خوفزدہ دھیمی آواز میں، اُولیور کہتا ہے، ’’مہربانی سے جناب، میں اور چاہتا ہوں۔‘‘ وہ موٹا آدمی کہتا ہے، ’’کیا کہا؟ تمھیں اور چاہیے؟ اور! تم اور چاہتے ہو!‘‘ اُولیور کو چھانٹے پڑتے ہیں اور اُس کو ایک قید تنہائی میں قید کر دیا جاتا ہے۔ وہ اُس سے پیچھا چُھڑا لیتے ہیں۔ اگلے چند دِنوں میں اُسے ایک کفن دفن والے کے پاس کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، جو اُس کو ایک تاریک کمرے میں ایک کفن کے نیچے سونے پر مجبور کرتا ہے۔
اگر آپ نے کبھی بھی ڈیکنز Dickens کی لکھی ہوئی وہ کتاب پڑھی ہے، یا اگر آپ نے 1948 کی وہ فلم دیکھی ہوئی ہے تو کبھی بھی اُس منظر کو بھلا نہیں پائیں گے – جہاں پر وہ دیو ہیکل موٹا ’’بیڈل Beadle‘‘ اِس فاقہ زدہ لڑکے کو ایک اور چمچہ بھر دلیے کا شوربہ دینے سے انکار کرتا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ میں سے کچھ مسیح کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ وہ مطلبی اور سخت ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ وہ آپ کو نجات نہیں دینا چاہتا۔ آپ کس قدر غلطی پر ہیں! مسیح آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کو جو کچھ آپ چاہتے ہیں دینے کے لیے تیار ہے – اور اُس سے بھی زیادہ! یسوع کہتا ہے، ’’میرے پاس آؤ… اور میں تمھیں سکون دوں گا‘‘ (متی11:28)۔ یسوع کہتا ہے، ’’میں اُنھیں دائمی زندگی بخشتا ہوں‘‘ (یوحنا10:28)۔ یسوع کہتا ہے، ’’میں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمے سے مفت پِلاؤں گا‘‘ (مکاشفہ21:6)۔
یسوع آپ کو نجات مفت بخش دے گا۔ وہ آپ کو زندگی اور سکون بخشے گا۔ وہ آپ کو گناہ سے نجات بخشے گا۔ وہ آپ کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا۔ آپ کو صرف اُس پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے، اُس پر نظر ڈالیں اور بچا لیے جائیں۔
دیکھو اور زندہ رہو، میرے بھائی، زندہ رہو!
یسوع پر ابھی نظر ڈالو اور زندہ رہو،
یہ اُس کے کلام میں درج ہے، ھیلیلویاہ!
یہ آپ کا صرف دیکھنا ہے اور زندہ رہنا!
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: 1۔ یوحنا4:7۔11؛ 3:11۔14.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’بندھی مبارک ہو Blest Be the Tie‘‘ (شاعر جان فوسیٹ John Fawcett، 1740-۔1817)\
’’وہ تمام ہماری محبت کے وسیلے سے جان جائیں گے They’ll Know we are Christians by our Love‘‘ شاعر پیٹر آر۔ شولٹز
Peter R. Scholte، ۔(1938-2009)۔
لُبِ لُباب نئی تخلیق – مسیحی محبت کے لیے رابطہ REGENERATION – THE LINK TO CHRISTIAN LOVE ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
’’جو کوئی یہ ایمان رکھتا ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خُدا کا فرزند ہے اور جو باپ سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کے بیٹے سے بھی محبت رکھتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا5:1)۔ (طیطُس3:5) I. پہلی بات، تلاوت میں ’’ایمان لانے‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے، 1 II. دوسری بات، جو کوئی یسوع پر بھروسہ کرتا ہے نئے سرے سے جنم لیتا ہے، خُدا سے پیدا کیا ہوا،لوقا4:41. III. تیسری بات، نئے جنم میں سے کیا بہتا ہے، 1۔ یوحنا5:1ب؛ 3:14؛ |