اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
حقیقی تبدیلی – 2015 ایڈیشنREAL CONVERSION – 2015 EDITION ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تُم تبدیل ہوکر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تُم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے‘‘ (متی 18:3). |
یسوع نے واضح طور پر کہا، ’’اگر تم تبدیل ہو کر چھوٹے… تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔‘‘ یوں، اُس نے بالکل صحیح طور پر واضح کیا کہ آپ کو تبدیلی کا تجربہ کرنا چاہیے۔ اُس نے کہا اگر آپ تبدیلی کا تجربہ نہیں کرتے تو ’’آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوں گے۔‘‘
آج کی صبح میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں کہ جو شخص حقیقی تبدیلی کا تجربہ کرتا ہے اُس کی زندگی کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ غور کریں کہ میں نے ایک ’’حقیقی‘‘ تبدیلی کی بات کی ہے۔ ’’گنہگار کی دعا‘‘ کہنے کے ذریعے سے یا استعمال کرنے سے اور دوسری اقسام کی فیصلہ سازیت سے لاکھوں لوگوں نے محض جھوٹی تبدیلی کا ہی تجربہ کیا ہے۔
ہمارے گرجہ گھر میں چند ایک ہی لوگ ہیں، جن میں میری بیوی بھی شامل ہیں جو پہلی ہی مرتبہ میں انجیل کی واضح منادی سُننے سے تبدیل ہو گئے تھے۔ مگر یہ وہ تمام بالغ تھے جو انجیل کو سُننے سے پہلے زندگی کے حالات کے ذریعے سے بہت اچھی طرح سے تیار ہوئے تھے۔ اُن میں سے کوئی بھی چھوٹا بچہ نہیں تھا۔ ہماری زیادہ تر حقیقی تبدیلیاں، کسی طور سے، نوجوان بالغین میں رہی ہیں جو کئی مہینوں (اور یہاں تک کہ سالوں) تک انجیل پر واعظ سُننے کے بعد مسیح کے پاس آئے۔ سپرجیئن نے کہا، ’’پہلی ہی نظر میں شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جیسی کہ ایمان، مگر عموماً ہم مرحلہ وار ایمان تک پہنچتے ہیں‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، تنگ دروازے کے گرد سے Around the Wicket Gate، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1992، صفحہ57)۔ یہ ہیں وہ ’’مراحل‘‘ جن سے زیادہ تر لوگ گزرتے ہیں۔
I۔ پہلی بات، آپ تبدیل ہونے کے بجائے گرجہ گھر کسی دوسری وجہ سے ہی آتے ہیں۔
تقریباً ہر کوئی پہلی چند ایک مرتبہ گرجہ گھر ’’غلط‘‘ وجہ سے آتے ہیں جیسا کہ میں آیا تھا۔ میں گرجہ گھر میں ایک نوعمر کی حیثیت سے آیا تھا کیونکہ وہ گھرانہ جو پڑوس میں رہتا تھا اُنہوں نے مجھے اُن کے ساتھ گرجہ گھر جانے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اِس لیے میں نے 1954 میں گرجہ گھر جانا شروع کر دیا کیونکہ میں تنہا تھا اور وہ پڑوسی میرے سے بہت اچھے تھے۔ یہ واقعی میں ’’درست‘‘ وجہ نہیں تھی، کیا تھی؟ پہلا واعظ سُننے کے اختتام پر میں تھوڑا سا ’’آگے بڑھا‘‘ تھا اور بغیر مشاورت کیے بپتسمہ یافتہ ہو گیا تھا یہاں تک کہ میرے سے یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ میں آگے کیوں بڑھا تھا۔ یوں میں ایک بپتسمہ یافتہ بنا تھا۔ مگر میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ میں آیا تھا کیونکہ میرے پڑوسی میرے ساتھ اچھے تھے، اِس لیے نہیں آیا تھا کہ میں بچایا جانا چاہتا تھا۔ اِسی لیے، میں ایک طویل جدوجہد سے گزرا جو کہ سات سالوں تک جاری رہی اِس سے پہلے کہ میں بالاآخر 28 ستمبر 1961 میں تبدیل ہوا، جب میں نے بائیولا کالج میں (جو اب بائیولا یونیورسٹی ہے) ڈاکٹر چارلس جے۔ ووڈبریج Dr. Charles J. Woodbridge کی منادی سُنی۔ وہ دِن تھا جب میں نے یسوع پر بھروسہ کیا تھا، اور اُس نے مجھے پاک صاف کیا اور مجھے گناہ سے بچایا۔
آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ گرجہ گھر آئے تھے کیونکہ آپ تنہا تھا – یا آپ کو آپ کے والدین جب آپ بچے ہی تھے تو گرجہ گھر لائے تھے؟ آگر آج کی صبح آپ یہاں پرعادتاً گرجہ گھر میں پرورش پائے ہوئے بچے کی مانند آئے ہیں، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ تبدیل ہو چکے ہیں۔ یا آپ ایسے ہی آئے ہیں جیسے کہ میں آیا تھا، کیونکہ آپ تنہا تھا اور کسی نے آپ کو مدعو کیا تھا اور وہ آپ کے ساتھ اچھے تھے؟ اگر آپ آئے تھے، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ تبدیل ہو چکے ہیں۔ میرا غلط مطلب نہیں لیجیے گا۔ میں خوش ہوں کہ آپ یہاں پر ہیں – چاہے عادتاً جیسے گرجہ گھر میں پروان پایا ایک بچہ ہوتا ہے یا تنہا کی وجہ سے جیسے میں تھا جب میں تیرہ برس کی عمر کا تھا۔ وہ گرجہ گھر آنے کے لیے قابل فہم وجوہات ہیں – مگر وہ آپ کو بچائیں گی نہیں۔ بچائے جانے کے لیے آپ کا حقیقی طور پر تبدیل ہونا ضروری ہے۔ آپ کو واقعی میں یسوع کے وسیلے سے بچائےجانے کی چاہت ہونی چاہیے۔ وہ ہی ’’درست‘‘ وجہ ہے – صرف واحد وہ ہی ہے جو آپ کو گناہ کی زندگی سے بچا لے گا۔
عادتاً یہاں پر ہونا یا کیونکہ آپ تنہا ہیں اِس لیے یہاں پر ہونا کوئی بُری بات نہیں ہے۔ بس صرف یہ دُرست وجہ نہیں ہے۔ آپ کو تبدیل ہونے کے لیے بس کچھ زیادہ چاہنا ضروری ہے، بس صرف اتنا نہیں کیونکہ یہ آپ کو گرجہ گھر آنے سے بہتر محسوس کراتا ہے۔
II۔ دوسری بات، آپ جاننا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں واقعی میں یہاں خُدا ہے۔
آپ کو شاید احساس ہو چکا ہو کہ آپ کے گرجہ گھر آنے سے پہلے ہی خُدا وجودیت رکھتا ہے۔ مگر اِس سے پہلے کہ اُن کا انجیل کے ساتھ سامنا ہو زیادہ تر لوگوں کا دُھندلا سا، غیرواضح سا خُدا میں اعتقاد ہوتا ہے۔ وہ ہی غالباً آپ کا بھی معاملہ ہے اگر کوئی اور آپ کو یہاں پر لایا تھا۔
اگر آپ کی گرجہ گھر میں پرورش ہوئی تھی تو آپ پہلے سے ہی کلام پاک کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ آپ آسانی سے بائبل میں سے حوالہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ آپ نجات کا منصوبہ جانتے ہیں۔ آپ کو بے شمار بائبل کی آیات اور حمدوثنا کے گیتوں کا پتا ہوتا ہے۔ مگر خُدا اب بھی آپ کے لیے غیر حقیقی اور غیر واضح ہوتا ہے۔
پھر، چاہے آپ ایک نئے شخص ہوں یا گرجہ گھر میں پرورش پائے ہوئے بچے ہوں، کچھ نہ کچھ رونما ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کو احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ واقعی میں خُدا ہے – صرف خُدا کے بارے میں باتیں ہی نہیں ہوتیں۔ خُدا آپ کے لیے ایک انتہائی شخصیت ہو جاتا ہے۔
میں جب تک ایک بچہ تھا تو میرا خُدا میں ایک مبہم، غیرواضح سے اعتقاد تھا۔ مگر میں بائبل کے اُس ’’عظیم اور ہولناک خُدا‘‘ (نحم یاہ 1:5) سے آگاہ نہیں ہوا تھا جب تک کہ میں پندرہ برس کی عمر کا نہیں ہو گیا – دو سال سے زیادہ گزرنے کے بعد جب میں نے اُن پڑوسیوں کے ساتھ بپتمسہ دینے والے گرجہ گھر میں جانا شروع کیا تھا۔ وہ دِن جب میری دادی کو دفنایا گیا تو میں قبرستان میں درختوں میں بھاگ گیا تھا اور زمین پر ہانپتا ہوا اور پسینہ بہاتا ہوا گر گیا تھا۔ اچانک خُداوند مجھ پر ظاہر ہوا – اور میں جان گیا وہ حقیقی تھا، اور کہ وہ نہایت قوت سے بھرپور تھا یہاں تک کہ اپنی پاکیزگی میں انتہائی پُررُعب۔ مگر میں ابھی تک بچایا نہیں گیا تھا۔
کیا آپ کو کبھی اِس قسم کا کوئی تجربہ ہوا؟ کیا بائبل کا خُدا آپ کے لیے ایک حقیقی شخصیت ہے؟ یہ انتہائی شدید اہم ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’ایمان کے بغیر خدا کو پسند آنا ممکن نہیں: پس واجب ہے کہ خدا کے پاس جانے والا ایمان لائے کہ خدا موجود ہے [یعنی کہ وہ وجود رکھتا ہے]‘‘ (عبرانیوں 11:6).
خُدا میں ایمان رکھنا ایک مخصوص مقدار میں ایمان چاہتا ہے – مگر یہ بچانے والا ایمان نہیں ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ میری والدہ اکثر کہا کرتی تھیں، ’’میں ہمیشہ خُدا میں یقین رکھتی ہوں۔‘‘ اور میرے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں ہے کہ وہ رکھتی تھیں۔ وہ خُدا میں بچپن سے ہی یقین رکھتی تھیں۔ مگر وہ تبدیل نہیں ہوئی تھیں جب تک کہ وہ 80 برس کی عمر کی نہ ہو گئیں۔ یہ اہم تھا کہ اُنہیں خُدا میں یقین تھا، مگر ایک شخص کے لیے سچے طور پر تبدیل ہونے کے لیے اِس سے بھی کچھ بہت زیادہ رونما ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اِس لیے، میں کہہ رہا ہوں، کہ آپ غالباً آج کی صبح خُدا کی حقیقت کو جانے بغیر ہی گرجہ گھر کے لیے آئے تھے۔ پھر شاید آہستگی سے، شاید زیادہ تیزی سے، آپ دیکھتے ہیں کہ واقعی میں خدا ہے۔ وہ دوسرا مرحلہ ہوتا ہے، مگر یہ ابھی بھی تبدیلی نہیں ہے۔
III۔ تیسری بات، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے گناہ سے خُدا کو ٹھیس پہنچائی اور غصہ دلایا ہے۔
بائبل کہتی ہے، ’’وہ جو جسم کے غلام ہیں [یعنی کہ وہ جو تبدیل نہیں ہوئے ہیں] خُدا کو خوش نہیں کر سکتے‘‘ (رومیوں8:8)۔ اِس لیے آپ احساس کرنا شروع کرتے ہیں ایک غیرتبدیل شُدہ انسان کی حیثیت سے، کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ کرتے ہیں جس سے خُدا خوش ہو سکتا ہو۔ درحقیقت، آپ احساس کرنا شروع کرتے ہیں کہ آپ ایک گنہگار ہیں۔ ہر روز آپ کا ’’سخت دِل اپنے حق میں اُس روزِ قہر کے لیے غضب کما رہا ہے‘‘ (رومیوں2:5)۔ بائبل کہتی ہے،
’’خدا بدکار سے ہر روز ناراض ہوتا ہے‘‘ (زبُور7:11).
آپ کے دریافت کر چکنے کے بعد کہ واقعی میں ایک خُدا ہے، آپ احساس کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے گناہ سے خُدا کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ آپ نے اُس سے پیار نہ کرنے سے بھی اُس کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ وہ گناہ جو آپ سے سرزد ہوئے وہ خُدا اور اُس کے احکامات کے خلاف تھے۔ پھر آپ پر یہ انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سچ ہے۔ اِس موقعے پر آپ کو خُدا سے محبت کی کمی ایک بہت بڑے گناہ کی حیثیت سے نظر آ جائے گی۔ مگر اِس سے بھی زیادہ یہ کہ آپ دیکھنا شروع ہو جائیں گے کہ آپ کی انتہائی فطرت گناہ سے بھرپور ہے، کہ آپ میں کچھ بھی اچھا نہیں ہے کہ آپ کا انتہائی دِل گناہ سے بھرپور ہے۔
اِس مرحلے کو اکثر پیوریٹنز ’’بیداری‘‘ کا مرحلہ کہتے تھے۔ مگر یہاں پر گناہ کی تیز سمجھ اور گہری خود ملامتی کے بغیر کوئی بیداری نہیں ہو سکتی۔ آپ ایسا محسوس کریں گے جو جان نیوٹن John Newton نے محسوس کیا تھا جب اُنہوں نے لکھا:
ہائے خُداوند، میں کتنا غلیظ ہوں، ناپاک اور آلودہ!
میں کس طرح جرأت کر سکتا ہوں کہ اِس قدر بھاری گناہ کے ساتھ قسمت آزماؤں؟
کیا یہ آلودہ دِل تیرے لیے بسنے کی جگہ ہو سکتا ہے؟
بھرا پڑا ہے، افسوس! ہر ایک حصے میں، میں کیا کیا بدیاں دیکھتا ہوں!
(’’ہائے خداوند، میں کتنا غلیظ ہوں O Lord, How Vile Am I‘‘ شاعر جان نیوٹن، 1725۔1807)۔
پھر، تب آپ اپنے دِل اور ذہن کے اندرونی گناہ کی بھرپوری کے بارے میں گہرائی کے ساتھ سوچنا شروع کر دیں گے۔ آپ سوچیں گے، ’’میرا دِل گناہ سے بھرپور ہے اور خُدا سے بہت دور ہے۔‘‘ وہ سوچ آپ کو پریشان کر دے گی۔ آپ بہت پریشان ہو جائیں گے اور خود اپنی ہی گناہ سے بھرپور سوچوں کے ساتھ اور خود اپنی ہی خُدا سے پیار کی قلت کے ساتھ پریشان ہو جائیں گے۔ اِس مرحلے پر خُدا کی جانب آپ کی بےجان سی زندگی کی سردمہری آپ کو شدت کے ساتھ پریشان کرے گی۔ آپ احساس کرنا شروع کر دیں گے کہ آپ جیسے گناہ سے بھرپور دِل والے شخص کے پاس کوئی اُمید نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کو جہنم میں بھیجنا خُدا کے لیے ضروری اور دُرست ہے – کیونکہ آپ جہنم کے مستحق ہیں۔ یہ ہی ہےجو آپ سوچیں گے جب آپ سچے طور پر بیدار ہو جائیں گے اور احساس کریں گے کہ آپ نے اپنے گناہ سے خُدا کو ٹھیس پہنچائی اور غصہ دلایا ہے۔ بیداری کا یہ مرحلہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے – مگر یہ ابھی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ ایک شخص جو دیکھتا ہے کہ وہ کس قدر گناہ سے بھرپور ہے بیدار ہو چکا ہوتا ہے – لیکن وہ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہوتا۔ تبدیلی محض گناہ کی سزایابی میں آ جانے سے کہیں بہت آگے کی بات ہوتی ہے۔
آپ کو شاید اچانک ہی احساس ہو جاتا ہے کہ آپ خُدا کو ناراض کر چکے ہیں یا اِس قسم کی آگاہی شاید ایک عقیدے سے ایک مکمل ترین فہم و فراست میں پیدا ہو جاتی ہے کہ خُدا کو ٹھیس پہنچ چکی ہے اور وہ آپ سے بہت ناراض ہے۔ صرف جب آپ اِس حقیقت سے مکمل طور پر بیدار ہو جاتے ہیں کہ آپ گناہ سے بھرپور اور ناپاک ہیں تب ہی آپ تبدیلی کے چوتھے اور پانچویں ’’مراحل‘‘ کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
چارلس سپرجیئن اپنے گناہ سے جب وہ 15 برس کی عمر کے ہی تھے آگاہ ہو گئے تھے۔ اُن کے والد اور دادا دونوں ہی مبلغ تھے۔ وہ ایک ایسے زمانے میں رہتے تھے جب جدید ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے ابھی تک سچی تبدیلی کو داغدار اور غیر واضح نہیں کیا تھا۔ اِس طرح، اُن کے والد یا دادا نے اُنہیں سرسری سے ’’مسیح کے لیے فیصلے‘‘ کو اپنانے کے لیے نہیں ’’زور لگایا‘‘ تھا۔ اِس کے بجائے، اُنہوں نے اُس میں خُدا کی جانب سے مکمل طور پر تبدیلی کے معجزے کے لیے انتظار کیا تھا۔ میرے خیال میں وہ دُرست تھے۔
جب وہ پندرہ برس کے تھے تو بالاآخر سپرجیئن گناہ کی گہری سزایابی کے تحت آ گئے تھے۔ سپرجیئن نے اِن الفاظ کے ساتھ اپنی گناہ سے بھرپوری کے لیے اپنی بیداری کو بیان کیا:
اچانک ہی میں موسیٰ کو ملا، جس نے اپنے ہاتھ میں خدا کی شریعت اُٹھائی ہوئی تھی اورجب اُس نے میری جانب نظر دوڑائی تو وہ مجھے اپنی شعلہ باز آنکھوںسے کھنگالتا یا ٹٹولتا ہوا دکھائی دیا۔ اُس نے مجھے ’خداوند کے دس الفاظ‘ – دس حکم [پڑھنے کے لیے کہا] – اور جب میں اُنہیں پڑھ رہا تھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ وہ سب مل کر مجھ پر پاک خداوند کی حضوری میں الزامات عائد کرنے اور ملامتیں بھیجنے میں شامل ہوں۔
اُنہوں نے اُس تجربے سے دیکھا کہ وہ خُدا کی نظروں میں ایک گنہگار تھے اور کہ کسی بھی مقدار کا ’’مذھب‘‘ یا ’’نیکی اُنہیں بچا پائے گی۔ نوجوان سپرجیئن کو شدید ذھنی دباؤ کے ایک دورانیے سے گزرنا پڑا۔ اُنہوں نے خود اپنی کوششوں کے ذریعے سے خُداوند کے ساتھ صلح حاصل کرنے کے لیے بہت سے طریقوں سے کوششیں کیں، مگر خُدا کے ساتھ صلح کی اُن کی تمام کوششوں کو ناکام ہونا پڑا۔ یہ ہمیں تبدیلی میں چوتھے مرحلے پر لے جاتا ہے۔
IV۔ چوتھی بات، آپ اپنی نجات کو پانے کی کوشش کرتے ہیں یا بچایا کیسے جانا ہے یہ سیکھتے ہیں۔
بیدار ہوا شخص گناہ سے بھرپور محسوس کرے گا مگر ابھی بھی یسوع کی جانب رُخ نہیں کرے گا۔ اشعیا نبی نے لوگوں کو اِس حالت میں بیان کیا جب اُس نے کہا، ’’ہم اُس شخص کی مانند تھے جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں… ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا53:3)۔ ہم آدم کی مانند ہیں، جو جانتا تھا کہ وہ گناہ سے بھرپور تھا، مگر نجات دہندہ سے چھپا تھا اور انجیر کے پتوں کے ساتھ اپنے تن کو چھپانے کی کوشش کی تھی (پیدائش3:7، 8)۔
آدم ہی کی طرح، ایک بیدار ہوا شخص خود کو گناہ سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش کرتا ہے۔ وہ کیسے بچایا جانا ہے ’’سیکھنے‘‘ کے لیے کوشش کرتا ہے۔ مگر اُسے پتا چلتا ہے کہ ’’سیکھنے سے‘‘ اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، کہ وہ ’’سیکھنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر کبھی اِس قابل نہیں ہوتا ہے‘‘ (2۔ تیموتاؤس3:7)۔ اور وہ یسوع بخود یعنی یسوع مسیح کے بجائے شاید ایک احساس کو ڈھونڈتا ہے۔ کچھ لوگ جو ایک ’’احساس‘‘ کی تلاش کرتے ہیں مہینوں تک اِسی طرح رہتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ’’احساس‘‘ کے وسیلے سے نہیں بچایا گیا ہے۔ سپرجیئن کو اُس کے گناہ کے لیے بیدار کیا گیا تھا۔ مگر اُس نے یقین نہیں کیا تھا کہ محض یسوع پر بھروسہ کرنے کے وسیلے سے وہ بچا لیا جائے گا۔ اُس نے کہا،
مسیح کے پاس آنے سے پہلے، میں نے خود سے کہا، ’’یہ یقیناً وہ نہیں ہو سکتا، اگر میں یسوع میں یقین کرتا ہوں، جیسا کہ میں ہوں، تو میں بچا لیا جاؤں گا؟ مجھے کچھ نہ کچھ محسوس کرنا چاہیے؛ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے‘‘ (ibid.)۔
اور یہ آپ کو پانچویں مرحلے کی جانب لے جاتا ہے۔
V۔ پانچویں بات، آپ بالاآخر یسوع کے پاس آتے ہیں اور تنہا اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
نوجوان سپرجیئن نے بالاآخر ایک مبلغ کو کہتے ہوئے سُن لیا، ’’مسیح کی جانب دیکھیں… خود اپنے آپ میں دیکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے… مسیح کی جانب دیکھیں۔‘‘ اپنی تمام تر کوشش اور اندرونی کشمکش اور درد کے بعد – سپرجیئن نے آخر کار یسوع کی جانب دیکھا اور اُس پر بھروسہ کیا۔ سپرجیئن نے کہا، ’’میں [یسوع کے] خون کے وسیلے سے بچایا گیا تھا! میں گھر واپسی کے تمام راستے پر ناچتا ہوا جاتا۔‘‘
اُس تمام جدوجہد اور شک کے بعد، اُس نے احساس کی تلاش کرنا یا خود میں کسی بھی بات کو ڈھونڈنا چھوڑ دیا۔ اُس نے سادگی سے یسوع پر بھروسہ کیا – اور یسوع نے بالکل اُسی وقت اُس کو بچا لیا۔ وقت کے ایک ہی لمحے میں یسوع مسیح کے خون کے وسیلے سے وہ گناہ سے پاک صاف ہو گیا! یہ سادہ ہے، اور اِس کے باوجود یہ سب سے زیادہ گہرا تجربہ ہے جو کسی انسان کو ہو سکتا ہے۔ وہ میرے دوست، حقیقی تبدیلی ہوتی ہے! بائبل کہتی ہے، ’’خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا اور تو نجات پا لے گا‘‘ (اعمال16:31)۔ جوزف ہارٹ Joseph Hart نے کہا،
جس لمحے ایک گنہگار یقین کرتا ہے،
اور اپنے مصلوب خُدا میں بھروسہ کرتا ہے،
اُس کی معافی ایک دم وہ قبول کرتا ہے،
اُس کے خون میں نجات مکمل ہوتی ہے!
(’’جس لمحے ایک گنہگار یقین کرتا ہے The Moment a Sinner Believes‘‘ شاعر جوزف ہارٹ
Joseph Hart، 1712۔1768)۔
نتیجہ
یسوع نے کہا،
’’بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تُم تبدیل ہوکر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تُم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے‘‘ (متی 18:3).
زائرین کا بڑھنا Pilgrim’s Progress میں اہم کرداروں کی مانند، ’’مسیح کے لیے فیصلے‘‘ پر کسی سرسری بات پر متفق مت ہوں۔ جی نہیں! جی نہیں! اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی تبدیلی حقیقی ہے، کیونکہ اگر آپ حقیقی طور پر تبدیل نہیں ہوتے ہیں، ’’تو آپ آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوئیں گے‘‘ (متی18:3)۔
ایک حقیقی تبدیلی پانے کے لیے
1. آپ کوایک ایسے مقام تک پہنچنا ہوتا ہے کہ جہاں پر واقعی میں یقین کریں کہ ایک خدا ہے – ایک حقیقی خُدا جو گنہگاروں کو جہنم میں جانے کی سزا دیتا ہے، اور بچائے ہوئے لوگوں کو جب وہ مر جاتے ہیں آسمان میں لے جاتا ہے۔
2. آپ کو جاننا چاہیے، اندر باطن کی گہرائی میں کہ آپ ایک گنہگار ہیں جس نے خُدا کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ آپ اِس طرح سے ایک طویل مدت تک رہ سکتے ہیں (یا شاید یہ کچھ کے لیے چھوٹا سا عرصہ ہو)۔ ڈاکٹر کیگنDr. Cagan جو کہ ہمارے شریک پادری ہیں اُنہوں نے کہا، ’’خُدا کا میرے لیے حقیقی ہو جانے کے بعد میں کئی مہینوں تک رات رات بھر بے خوابی کے عالم میں جنگ کرتا۔ اپنی زندگی کے اِس دورانیے کو میں دو سالوں کی ذہنی اذیت کے طور پر بیان کر سکتا ہوں‘‘ (سی۔ ایل۔ کیگن، پی ایچ۔ ڈی۔ C. L. Cagan, Ph.D.، ڈاروِن سے ڈیزائن تک From Darwin to Design، وائٹیکر ہاؤس Whitaker House، 2006، صفحہ41)۔
3. آپ کو جان لینا چاہیے کہ آپ ایک ٹھیس پہنچائے ہوئے اور ناراض خُدا کے ساتھ خود کی صلح کرانے کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کر سکتے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کہیں، یا سیکھیں یا کریں یا محسوس کریں کہ جو آپ کی مدد کر سکے۔ یہ بات آپ کے دِل اور ذہن میں واضح ہو جانی چاہیے۔
4. آپ کو یسوع مسیح کے پاس جو خُدا کا بیٹا ہے ضرور آنا چاہیے اور اُس کے خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے پاک صاف ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر کیگن نے کہا، ’’میں یاد کر سکتا ہوں ٹھیک اُن چند سیکنڈز کو جب میں نے [یسوع] پر بھروسہ کیا… یوں لگتا تھا جیسے کہ میں فوراً [مسیح] کا سامنا کر رہا تھا… میں یقینی طور پر یسوع مسیح کی موجودگی میں تھا اور وہ یقینی طور پر میرے لیے مہیا تھا۔ کئی سالوں تک میں نے اُس سے مُنہ موڑے رکھا تھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ہی وہاں میرے لیے موجود تھا، محبت کے ساتھ مجھے نجات کی پیشکش کرنے کے لیے۔ مگر اُس رات مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اُس پر بھروسہ کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے یا تو اُس کے پاس آ جانا چاہیے یا اُس سے مُنہ موڑ لینا چاہیے۔ اُس ہی لمحے میں، اُن چند ایک سیکنڈوں میں میں یسوع کے پاس چلا آیا۔ میں اب مذید اور خود پر بھروسہ کرنے والے بے اعتقادہ نہیں رہا تھا۔ میں یسوع مسیح پر بھروسہ کر چکا تھا۔ میں اُس میں ایمان لا چکا تھا۔ یہ اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ… میں اپنی ساری زندگی میں بھاگتا رہا تھا، مگر اُس رات میں مُڑ گیا تھا اور براہ راست اور فوراً یسوع مسیح کے پاس پہنچ گیا تھا‘‘ (سی۔ ایل۔ کیگن، ibid.، صفحہ19)۔ یہ ایک حقیقی تبدیلی ہے۔ یہ ہے جس کا یسوع مسیح کے لیے بدلنے پر آپ کو تجربہ ہونا چاہیے! یسوع مسیح کے پاس آئیں اور اُسی پر بھروسہ کریں! وہ اُس خون سے جو اُس نے صلیب پربہایا آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کر دے گا اور نجات دلائے گا! آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی:
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’حیرت انگیز فضل Amazing Grace‘‘ (شاعر جان نیوٹن John Newton، 1725۔1807)۔
لُبِ لُباب حقیقی تبدیلی – 2015 ایڈیشن REAL CONVERSION – 2015 EDITION ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تُم تبدیل ہوکر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تُم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے‘‘ (متی 18:3). I. دوسری بات، آپ جاننا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں واقعی میں یہاں خُدا ہے II. دوسری بات، آپ جاننا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں واقعی میں یہاں خُدا ہے، نحم یاہ1:5؛ عبرانیوں11:6 . III. تیسری بات، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے گناہ سے خُدا کو ٹھیس پہنچائی اور غصہ دلایا ہے، رومیوں8:8؛ 2:5؛ زبور7:11 . IV. چوتھی بات، آپ اپنی نجات کو پانے کی کوشش کرتے ہیں یا بچایا کیسے جانا ہے یہ سیکھتے ہیں، اشعیا53:3؛ پیدائش3:7، 8؛ 2۔تیموتاؤس3:7 . V. پانچویں بات، آپ بالاآخر یسوع کے پاس آتے ہیں اور تنہا اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں، اعمال16:31 . |