اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
وہ لوگ جنہیں خُداوند حیاتِ نو میں استعمال کرتا ہے(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 12) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’خدا نے اُنہیں جو دنیا کی نظروں میں بے وقوف ہیں چُن لیا تاکہ عالموں کو شرمندہ کرے اور اُنہیں جو دنیا کی نظر میں کمزور ہیں چُن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:27). |
حیاتِ نو کے بارے میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی باتوں میں سے ایک اِس تلاوت میں پیش کی گئی ہے۔ خُدا دُنیا کے بے وقوف اور کمزور لوگوں کو اُنہیں جو عالم ہیں اور جو زورآور ہیں شرمندہ کرنے کے لیے چُنتا ہے۔ یہ بات ہر اُس کے لیے جو بائبل کا مطالعہ کرتا ہے واضح ہونی چاہیے۔ جب مسیح پیدا ہونے والا تھا، خُداوند نے اُس کی ماں بننے کے لیے ایک غریب گھرانے سے ایک نوعمر لڑکی کو چُنا۔ جب وہ [یسوع] پیدا ہوا، خُداوند نے اُس کی پرستش کرنے کے لیے چند ایک غریب چرواہے بھیجے۔ خُداوند نے ہیرودیس بادشاہ کو نہیں بھیجا تھا، یہ اُس بچے کو خوش آمدید کہنے کے لیے اسرائیل کے حکمران بزرگین کو نہیں بھیجا تھا۔ اِس کے بجائے خُداوند نے دور دراز کے ایک کافر مُلک کے تین نجومیوں کو بھیجا تھا۔ جب یسوع اپنی منادی شروع کرنے والا تھا تو خُداوند نے سردار کاہن کو اُس کا اعلان کرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ اِس کے بجائے، خُداوند نے ایک غریب سے نبی یوحنا بپتسمہ دینے والے کو بھیجا۔ جب یسوع بارہ شاگردوں کو بُلانے کے قابل تھا، تو اُس نے عدالتِ عالیہ جو یہودیوں کی سب سے بڑی عدالت ہے اُس میں سے بارہ لوگوں کو نہیں چُنا۔ اِس کے بجائے اُس نے بارہ غیر اہم معمولی مچھیروں کو بُلایا۔ اور جب یسوع نے یہوداہ کی جگہ پر کسی اور کو چُنا تو اُس نے تُرسُس کے ساؤل نامی قاتل کو چُنا جو خود کو گنہگاروں کا ’’سردار‘‘ کہتا تھا، گنہگاروں میں بدترین! مسیح کی زندگی میں یہ بات واضح ہے کہ
’’خدا نے اُنہیں جو دنیا کی نظروں میں بے وقوف ہیں چُن لیا تاکہ عالموں کو شرمندہ کرے اور اُنہیں جو دنیا کی نظر میں کمزور ہیں چُن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:27).
یہاں تک کہ پرانے عہد نامے میں بھی یہ مرکزی موضوع بار بار ظاہر ہوا ہوتا ہے۔ خُداوند نے قائِن کے بجائے ہابل کا انتخاب کیا، حالانکہ قائِن بڑا بیٹا تھا، اور اِسی لیے سب سے اہم بھی تھا۔ خُداوند نے عیسو کے بجائے یعقوب کا انتخاب کیا تھا، حالانکہ عیسو بڑا بیٹا اور وارث تھا۔ خُداوند نے یوسف کو اُس کے گیارہ بھائیوں پر ترجیح دی حالانکہ وہ سب سے چھوٹا اور کمزور تھا۔ خُداوند نے فرعون کے بجائے موسیٰ کو چُنا۔ اُس نے اُس دور میں ایک طاقتور ترین شخص کے بجائے ایک گڈریے کو چُنا۔ خُداوند نے مدیانیوں سے اسرائیل کو بچانے کے لیے جدعونیوں کو چُنا – حالانکہ جدعونی نے کہا تھا، ’’میرا گھرانہ غریب ہے… اور میں اپنے باپ کے گھرانے میں سب سے چھوٹا ہوں‘‘ (قضاۃ 6:15)۔
خُداوند نے سردار کاہن کے دو بیٹوں کے بجائے چھوٹے سیموئیل کو چُنا تھا جو واقعی میں ایک یتیم تھا۔ خُداوند نے طاقتورساؤل بادشاہ پر ایک گڈریے کے بیٹے داؤد کو چُنا تھا۔
بارھا، مسیحیت کی تاریخ میں، یہ بات بھی سچ رہی ہے،
’’خدا نے اُنہیں جو دنیا کی نظروں میں بے وقوف ہیں چُن لیا تاکہ عالموں کو شرمندہ کرے اور اُنہیں جو دنیا کی نظر میں کمزور ہیں چُن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:27).
ابتدائی مسیحی غریب اور بے سہارا تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر غریب تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر غریب تھے۔ اُن کو دس رومی شہنشاہوں کے ذریعے سے موت تک اذیتیں دی گئیں تھیں۔ کسی کو بھی اُن شہنشاہوں کے بارے میں یاد نہیں (شاید دوسروں کے بجائے نیرو)، حالانکہ اُس زمانے میں وہ زمین پر سب سے طاقتورترین ہستیاں تھے۔ ہر سال پاک جمعہ کے موقع پر جب پوپ کھیلوں کے اکھاڑے Colosseum میں پاک ماس منعقد کرتے ہیں تو ساری دُنیا میں لوگ زیر زمین سُرنگوں کے قبرستانوں کے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں! اُن شُہدا نے قدیم روم کی طاقت اور زور پر فتح پائی تھی!
لوتھر Luther کے بارے میں سوچیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سُنیں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے اُن کے بارے میں کیا کہا:
اُس ایک شخص، مارٹن لوتھر جو محض ایک انجان راہب تھا، کے پاس کیا اُمید تھی؟ وہ کون ہوتا تھا جو تمام کلیسیا… اور بارہ سے تیرہ صدیوں سے مخالف سمت میں چلتے ہوئے رواج کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا؟ یہ اِس ایک شخص کے لیے بالکل گُستاخی لگتی ہے کہ کھڑا ہو جائے اور کہے، ’’میں تنہا ہی دُرست ہوں، اور تم تمام کے تمام غلط ہو۔‘‘ یہی ہے جو اُس کے بارے میں آج کہا گیا ہوتا۔ اور اِس کے باوجود، آپ نے دیکھا، وہ ایک شخص تھا جس کے ساتھ خُداوند کا روح نمٹ رہا تھا۔ اور بیشک وہ صرف ایک شخص تھا، وہ کھڑا ہوا اور تنہا ہی کھڑا ہوا، اور پاک روح نے اُس کو عزت بخشی۔ پروٹسٹنٹ اصلاح وجود میں آئی، اور جاری ہے، اور یہ ہمیشہ سے ہی ایسا ہی رہا ہے… میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب خُدواند اپنی کلیسیا میں حرکت کرتا ہے، اور جب وہ حیاتِ نو کے لیے تیاری کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایسا ہی کرتا ہوا لگتا۔ وہ اپنا بوجھ مخصوص لوگوں پر ڈالتا ہے، جو الگ ہی بُلایا جاتا ہے، جیسا کہ یہ تھا، اور جو اکٹھے ملتے ہیں، خاموشی سے، انجان اور غیر نمایاں، کیونکہ وہ اِس بوجھ کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D. ، حیاتِ نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1987، صفحات203، 167)۔
اور بالکل اِسی طرح آپ اِس کو اِن تمام حیاتِ انواع کی تاریخ میں پائیں گے۔ اُس شخص جیمس میک کوئیکن James McQuilken نے دوسرے دو سے بات کرنے کا آغاز کیا، اور اُنہوں نے ساری کی ساری صورتحال دیکھ لی، اور اِن تینوں لوگوں نے اکیلے محض ایک تنگ سی گلی میں ایک چھوٹے سے سکول کے کمرے میں اکٹھے ملاقات کی۔ مجھے اُس جگہ پر جانے کا شرف ہوا تھا جب میں شمالی آئرلینڈ میں تھا۔ میں اِسے دیکھنے کے لیے اپنے معمول سے ہٹ کر گیا تھا، کیونکہ میں اِس قسم کی جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا… اُنہوں نے اس بُلاہٹ کو دعا کے طور پر محسوس کیا تھا (لائیڈ جونز Lloyd-Jones، ibid.، صفحہ 165)۔
اور بِلاشُبہ، شمالی آئر لینڈ میں 1859 کا حیاتِ نو آیا جب اِن تین لوگوں نے خُداوند سے پاک روح کے اُنڈیلے جانے کے لیے دعا مانگی تھی۔ پھر ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’میرے دوستوں، یقین کیجیے، جب اگلا حیات نو آئے گا تو یہ ہر کسی کے لیے حیرت کا باعث ہوگا، اور خاص طور پر اُن کے لیے جو اِس کو منظم کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہ اِس [منکسر، سیدھے سادھے] بِنا رکاوٹ ڈالنے والے انداز میں ہو گیا ہوتا۔ مرد اور عورتیں صرف چوری چُھپے خاموشی سے، جیسا کہ ایسے ہوا تھا، دعا کے لیے جاتے کیونکہ وہ بوجھ سے لدے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خود اپنی مدد نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ ایسا کیے بغیر زندگی بسر کرنا جاری نہیں رکھ سکتے۔ اور وہ دوسروں کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جو یہی بات محسوس کر رہے ہوتے ہیں، اور خُدا کے لیے زور زور سے پکار رہے ہوتے ہیں‘‘ (لائیڈ جونز Lloyd-Jones، ibid.، صفحات 165۔166)۔
ڈاکٹر لائیڈ جونز جاری رہتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پھر آپ سب لوگ غالباً اصولیت یا طریقیت میں اُس کی تمام شاخوں کے ساتھ اُس کہانی سے مانوس ہونگے۔ وہ شروع کیسے ہوا تھا…؟ یہ بالکل اُسی طرح سے شروع ہوا تھا، اُن دونوں ویزلی بھائیوں کے ساتھ، اور وائٹ فیلڈ، اور دوسروں کے ساتھ، جو انگلستان کی کلیسیا کے رُکن ہیں… کچھ عرصہ کے لیے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ رونما ہو رہا تھا، مگر وہ صرف اکٹھے ملے تھے کیونکہ وہ ایک ہی بات سے کھینچے چلے آئے تھے‘‘ (ibid.، صفحہ 166)۔
ہم سب جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield اور جان John اور چارلس ویزلی Charles Wesley سے واقف ہیں۔ مگر اُس وقت اُنہیں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ محض عام سے نوجوان لوگ تھے جنہوں نے اینجیلیکن کلیسیا Anglican Church کے مُردگی کو دیکھ لیا تھا، اور خُداوند کی جلالیت کو مسیح کے ساتھ جیتے جاگتے تجربے کے وسیلے سے دیکھنا چاہتے تھے۔
کوئی ایک، میرے خیال میں وہ بشپ رائیلی تھے، جنہوں نے کہا کہ جان ویزلی کو کینٹربیری Canterbury کا آرچ بشپ بنا دیا جانا چاہیے، جو کہ انگلستان کے گرجہ گھروں کا لیڈر تھا۔ مگر، بلا شُبہ، اُنہوں نے تو یہاں تک کہ کبھی بھی اِیسے اعلٰی مرتبے کو دینے کے لیے سوچا بھی نہیں۔ اِس کے بجائے، اُن کا مذاق اور تمسخر اُڑایا گیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ وہ آئیندہ کبھی بھی آکسفورڈ یونیورسٹی میں منادی نہیں کریں گے، جہاں سے اُنہیں نے گریجوایشن کی تھی کیونکہ اُنہوں نے طلبا اور اِساتذہ کو بتایا تھا کہ اُنہیں نئے سرے سے جنم لینے کی ضرورت تھی۔ اُن کی اپنی ماں سوزینا ویزلی Susannah Wesley – خود اپنے تبدیل ہونے سے پہلے، اُس کے ساتھ ایک ’’کٹر‘‘ – ایک جنونی کی مانند منادی کرنے کے لیے ناراض تھی۔ ترِپین سالوں تک جان ویزلی نے سارے انگلستان میں باہر ہی کُھلے میدانوں میں دِن میں تین مرتبہ بڑے بڑے ہجوموں کو منادی کی جو اُس کو سُننے کے لیے آتے تھے۔ مگر خود اُس کے اپنے فرقے نے اِس عظیم شخص کو حقارت بھرے انداز میں دیکھنا اور اُس کا تمسخر اُڑانا جاری رکھا تھا۔ اُس کو کبھی بھی عزت نہیں بخشی گئی تھی جب تک کہ وہ اسی برس کی آخری دہائی میں ایک انتہائی بوڑھا شخص نہ ہو گیا۔ اِسی وقت میں، جان ویزلی کی منادی کے دوران، چھ دوسرے لوگ کینٹربیری کے آرچ بشپ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درج ذیل اُن کے نام ترتیب کے ساتھ ہیں،
جان پوٹر John Potter (1737۔1747)
تھامس ہیرنگ Thomas Herring (1747۔1757)
میتھیو ہیوٹن Mathew Hutton (1757۔1758)
تھامس سیکر Thomas Secker (1758۔1768)
فریڈرک کارنوالس Frederick Cornwallis (1768۔1783)
جان پوٹر John Potter (1737۔1747)
جان مور John Moore (1783۔1805)۔
مجھے شُبہ ہے کہ اُن چھ ’’عظیم‘‘ کہلائے جانے لوگوں میں سے ایک کا نام بھی کوئی بتا پائے ماسوائے ایک اینجیلیکن تاریخ دان کے۔ اِس کے باوجود تقریباً ہر مسیحی جان ویزلی کا نام جانتا ہے۔ اور زیادہ تر لوگ اُس کے بھائی چارلس کے نام کے بارے میں بھی جانتے ہیں، جن کے حمدوثنا کے گیت زمین پر ہر فرقے میں گرجہ گھروں میں گائے جاتے ہیں۔ مگر وائٹ فیلڈ اور دونوں ویزلی چھوٹے، انجان نوجوان لوگ تھے جب وہ چند ایک دوسروں کے ساتھ انگریزی بولی جانی والی دُنیا میں پہلی عظیم بیداری کے شروع ہونے سے بالکل پہلے، 1738 کے نئے سال کی شام پر پاک روح کے نازل کیے جانے کی دعا مانگنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
’’خدا نے اُنہیں جو دنیا کی نظروں میں بے وقوف ہیں چُن لیا تاکہ عالموں کو شرمندہ کرے اور اُنہیں جو دنیا کی نظر میں کمزور ہیں چُن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:27).
یہ آیت یہ بھی واضح کرتی ہے کہ کیوں نوجوان لوگ ہی ہمیشہ حیاتِ نو میں رہنما ہوتے ہیں۔ گرجہ گھر میں یہ نوجوان لوگ ہی ہوتے ہیں جو اُن کے درمیان پاک روح کی تحریک کو پہلے محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ عموماً نوجوان لوگ ہی ہوتے ہیں جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں اور حیاتِ نو اور خدا کی حقیقت کے لیے چاہت کرتے ہیں۔
میں نے پہلا حیاتِ نو چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں پہاڑوں میں گرمیوں کے ایک کیمپ کے دوران شروع ہوتا ہوا دیکھا تھا۔ جب وہ ایک صبح دعا مانگنے کے لیے کیمپ میں اکٹھے ہوئے، خُدا کا روح اُن پر اِس قوت کے ساتھ نازل ہوا تھا کہ گرجہ گھر میں حیاتِ نو اتوار کو بھی جاری رہا تھا، جب وہ کیمپ سے بھی واپس آ چکے تھے۔ حیاتِ نو اِتوار کے روز سارا دِن اور رات گئے تک جاری رہا۔ مجھے ابھی تک وہ دعائیں جو اُن نوجوانوں نے مانگی تھیں یاد ہیں۔ میں اب بھی وہ تعجب اور حیرت کا احساس، توبہ کے آنسو، اعتراف اور دعائیں اور اُن اِجلاسوں میں خُدا کی نزدیکی کو یاد کر سکتا ہوں۔
ورجینیا میں ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں حیاتِ نو پر میں نے تین لڑکیوں کو کھڑے ہوتے ہوئے اور اکٹھے گانا گاتے ہوئے دیکھا۔ وہ سزایابی کے آنسوؤں سے لبریز تھی، اور پورے گرجہ گھر پر حیاتِ نو میں اکثر ظاہر ہونے والا وہ احساس چھا گیا تھا – ’’خُداوند ہمارے درمیان آ موجود ہوا۔‘‘
’’13 اگست کو سیکسونی Saxony میں ہیرنہٹ Herrnhut پر نوجوان لوگوں کے درمیان ایک حیاتِ نو کا آغاز ہوا۔‘‘ 29 اگست کو ’’رات کے دس بجے سے لیکر اگلی صبح کے ایک بجے تک، ایک واقعی میں پُر اثر نظارے کو دیکھا گیا، کیونکہ ہیرنہٹ سے لڑکیوں نے اِن [تین] گھنٹوں کو دعائیں مانگنے، گانے اور رونے میں گزارا۔ اِسی وقت کے دوران ایک دوسری جگہ پر لڑکے پُرخلوص دعا مانگنے میں مصرف رہے۔ اُن بچوں پر اُس وقت جو مناجات اور دعا کا روح نازل ہوا وہ اِس قدر قوت بخش اور مؤثر تھا کہ مناسب طور پر اِس کا لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے‘‘ (جان گرین فیلڈ John Greenfield، عالم بالا سے قوت Power From on High، عالمگیری حیاتِ نو کی دعائیہ تحریک World Wide Revival Prayer Movement، 1950، صفحہ 31)۔
بورنیو Borneo میں باریو Bario کے مقام پر ایک جونیئر سیکنڈری سکول کے طالب علموں کے درمیان حیاتِ نو کا آغاز اکتوبر 1973 میں ہوا۔ دو لڑکوں نے اکٹھے دعا مانگنی شروع کی اور آہستہ آہستہ تمام سکول اِس میں شامل ہو گیا یہاں تک کہ خود ہیڈماسٹر جس نے شروع میں روح کے معجزے کی مخالفت کی تھی توبہ کے لیے تیار ہو گیا (شِیرلی لیز Shirley Lees، طلوع سحر سے قبل شرابی Drunk Before Dawn، سمندر پار مشنری رفاقت Overseas Missionary Fellowship، 1979، صفحات 185۔189)۔
برائین ایچ۔ ایڈورڈز نے کہا، ’’جو بات شاندار ہے وہ یہ ہے کہ حیاتِ نو کے عرصہ میں یہ … نوجوان لوگ ہوتے ہیں جو خصوصی طور پر للکارے جاتے ہیں تبدیل ہوتے ہیں، اور بہت سے واقعات میں وہ یہی ہوتے ہیں جو خلوص کی شدت کے ساتھ حیاتِ نو کے لیے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں اور چاہت کرتے ہیں، اور جن کے درمیان یہ شروع ہوتا ہے… یہ حیاتِ نو کا ایک پہلو ہے جو بہتر طور پر بیان کیے جانے کے بجائے اُن کے ذریعے سے جو حیاتِ انواع کے عام عناصر کا جائزہ لیتے ہیں بہت کم توجہ پاتا ہے‘‘ (برائین ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیاتِ نو! خُداوند سے لبریز لوگ Revival! A People Saturated With God، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 1991 ایڈیشن، صفحہ 165)۔
’’خدا نے اُنہیں جو دنیا کی نظروں میں بے وقوف ہیں چُن لیا تاکہ عالموں کو شرمندہ کرے اور اُنہیں جو دنیا کی نظر میں کمزور ہیں چُن لیا تاکہ زور آوروں کو شرمندہ کرے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:27).
ایمی کارمیخائل Amy Carmichael نے انڈیا میں پاک روح کے نازل ہونے کا بیان یوں کیا،
یہ صبح کی عبادت کا اختتام تھا کہ وقفہ ہوا۔ وہ جو بول رہا تھا، اُسے زبردستی روکا گیا، باتوں کی اندرونی طاقت کے اچانک احساس میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ دعا کرنا بھی ناممکن سا تھا۔ لڑکوں کے سکول میں سے ایک بڑی عمر کے لڑکے نے دعا مانگنے کے لیے کوشش شروع کی۔ مگر وہ زار و قطار [رونا] شروع ہو گیا، پھر دوسرے نے، پھر سب نے اکٹھے، نمایاں طور پر پہلے بڑی عمر کے لڑکوں نے رونا شروع کیا۔ جلد ہی چھوٹی عمر والے لڑکے میں سے بہت سوں نے شدت کے ساتھ معافی کے لیے رونا اور دعا مانگنا شروع کر دیا۔ یہ بات خواتین تک پھیل گئی۔ یہ اِس قدر باعثِ تعجب اور اِس قدر خوشگوار تھا – میں دوسرے کوئی الفاظ استعمال نہیں کر سکتی – تفصیلات مجھے یاد نہیں۔ جلد ہی بہت سے فرش پر پڑے تھے، خُدا کے سامنے رو رہے تھے، ہر لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت، دوسروں کی موجودگی [کو بُھلا کر] سے بے نیاز۔ وہ آواز درختوں میں تیز ہوا اور لہروں جیسی تھی… شروع میں تحریک تقریباً مکمل طور پر تبدیل ہوئے لڑکوں، سکول کے لڑکوں اور خود ہمارے اپنے بچوں ہی میں تھی… اور جماعت کے چند نوجوان اراکین میں۔ سات ماہ بعد اُس نے خبر دی، ’’تقریباً ہمارے سارے کے سارے [نوجوان لوگ] سرے سے اور سرے سے بدل گئے تھے‘‘ (جے۔ ایڈوِین اوور، پی ایچ۔ ڈی۔ J. Edwin Orr, Ph.D.، وہ شعلہ بیان زبان The Flaming Tongue، موڈی پریس Moody Press، 1973، صفحات 18، 19)۔
الفاظ پر غور کریں، ’’شروع میں تحریک تقریباً مکمل طور پر تبدیل ہوئے لڑکوں، سکول کے لڑکوں اور خود ہمارے اپنے بچوں ہی میں تھی… اور جماعت کے چند نوجوان اراکین میں۔‘‘ یوں ہی اکثر اِسی طریقے سے ایک گرجہ گھر میں حیاتِ نو آتا ہے – جب حیاتِ نو میں نوجوان لوگ پاک روح کے انڈیلے جانے کے لیے چاہت کرتے ہیں۔ میں خود اپنی آنکھوں سے یہ تین حیات انواع میں دیکھ چکا ہوں، جب لاس اینجلز میں، سان فرانسسکو کے علاقے میں اور ورجینیا میں ورجینیا ساحل پر خُدا نے نوجوان لوگوں پر نہایت قوت کے ساتھ اپنا پاک روح نازل کیا۔
اب، میں یہاں پر آج شب کو موجود ہمارے نوجوان لوگوں سے بات کر رہا ہوں۔ ہم آپ کو اِس واعظ کی ایک چھپی ہوئی نقل دیں گے کہ آپ گھر لے جائیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اِس کو بار بار ہر روز اگلے ہفتے تک پڑھیں گے۔ اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ واعظ میں موجود باتوں کے لیے دعا مانگیں گے کہ آپ کی زندگی میں رونما ہوں، اور ہمارے گرجہ گھر میں رونما ہوں۔
آپ شاید سوچیں، ’’ڈاکٹر ہائیمرز کبھی بھی اِس قسم کی باتوں کے ہمارے گرجہ گھر میں ہونے کی کبھی اجازت نہ دیں۔‘‘ مگر آپ غلطی پر ہیں۔ اگر خُداوند رحم کرے اور حیاتِ نو کی خود مختیار قوت میں ہمارے پاس نیچے آئے تو میں یقین کرتا ہوں کہ میں حیاتِ نو کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں کہ میں کبھی بھی روح کی پیاس کو نہیں بجھاؤں گا، یا اُس کی توضیحات [مظاہروں] کو نہیں روکوں گا۔ آپ یہاں تک کہ اشعیا نبی کے انتہائی الفاظ کو اپنی دعا میں شامل کر سکتے ہیں،
’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے، اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا 64:1).
ڈاکٹر چعین Dr. Chan مہربانی سے دعا میں ہماری رہنمائی کریں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی:
1۔کرنتھیوں1:26۔31.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’مجھے دعا مانگنا سیکھا Teach Me to Pray‘‘ (شاعر البرٹ ایس۔ ریٹسز
Albert S. Reitz، 1879۔1966)
|