Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

کیوں حیاتِ نو نہیں؟ اِس کا صحیح جواب!

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 10)
!WHY NO REVIVAL? THE TRUE ANSWER
(SERMON NUMBER 10 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 5 اکتوبر، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, October 5, 2014

’’وہ اپنے گلّوں اور ریوڑوں کے ساتھ خداوند کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں‘‘ (ہوسیع 5:6).

’’جب تک وہ اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے میں اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا وہ میرا چہرہ ڈھونڈیں گے…‘‘ (ہوسیع 5:15).

ہوسیع کے پانچویں باب کا مرکزی موضوع خُدا کی کنارہ کش کی ہوئی موجودگی کی ہے – جیسا کہ باب کے آغاز ہی میں سیکوفیلڈ بائبل Scofield Bible کی تفصیل میں پیش کیا گیا ہے۔ خُداوند نے اسرائیل سے اُن کے تکبر اور اُن کے گناہ کی وجہ سے کنارہ کشی کر لی تھی۔

میں جانتا ہوں کہ خُداوند کا امریکہ کے ساتھ کوئی عہد نہیں ہے۔ اُس کا اسرائیل کے ساتھ ایک زمینی عہد ہے، مگر کسی اور قوم کے ساتھ نہیں۔ مگر غور کریں، ہماری تلاوت میں، کہ خُداوند نے کہا وہ اُس کے عہد کیے ہوئے لوگوں کے تکبر اور اُن کے گناہ کی وجہ سے اپنے عہد سے پِھر جائے گا۔ اگر وہ اسرائیل کے اپنے عہد کیے ہوئے لوگوں کو چھوڑ سکتا ہے تو ذرا سوچیں تو یہ کس قدر زیادہ ممکن ہے کہ وہ امریکہ اور مغربی دُنیا کو چھوڑ سکتا ہے! ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی نے کہا،

یہ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ آج ہم پر خُدا کے فیصلے کے اثرات کا احساس کر رہا ہے… ہم اُس کے فیصلے کے اثرات کے خود پر احساس کر رہے ہیں، بالکل جیسے اسرائیل نے کیا تھا (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، جلد سوئم، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1982، صفحہ 633؛ ہوسیع5:2 پر غور طلب بات)۔

اب ہم اپنی تلاوت کی طرف آتے ہیں،

’’جب تک وہ اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے میں اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا وہ میرا چہرہ ڈھونڈیں گے…‘‘ (ہوسیع 5:15).

یہاں پر خداوند گنہگار قوم کو بتاتا ہے کہ وہ اُن سے کنارہ کشی کرنے سے اُنہیں سزا دے گا، ’’میں [تمہارے درمیان میں سے] چلا جاؤں گا اور اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا…‘‘ ہماری تلاوت پر عظیم پیوریٹن تبصرہ نگار یرمیاہ بورھوحز Jeremiah Burroughs نے یہ رائے پیش کی،

’میں اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا،‘ یعنی کہ، میں آسمان میں دوبارہ واپس چلا جاؤں گا… جب میں اُنہیں شدت کے ساتھ متاثر کر چکوں گا تو میں آسمان پر چلا جاؤں گا، اور وہاں پر میں بیٹھ جاؤں گا… بالکل ایسے جیسے میں نے اُن کا لحاظ ہی نہیں کیا (یرمیاہ برھوحز Jeremiah Burroughs، ہوسیع کی پیشن گوئی کی ایک تفسیر An Exposition of the Prophecy of Hosea، ریفارمیشن ہیریٹیج بُکز Reformation Heritage Books، 2006، صفحہ 305؛ ہوسیع5:15 پر ایک غور طلب بات)۔

میں پُریقین ہوں کہ یہی وجہ ہے کہ 100 سالوں سے بھی زیادہ ہوئے مغربی دُنیا میں ہم پر کوئی بھی بہت بڑا حیات نو نہیں آیا ہے۔ خُدا ہم سے کنارہ کشی کر چکا ہے۔ خُداوند نے کہا، ’’جب تک وہ اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے میں اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا …‘‘ آپ شاید اتفاق نہ کریں، اور کہیں کہ میں تو صرف ایک مشنری ہوں، اور آپ کی توجہ کا مستحق نہیں ہوں۔ اِس لیے، پھر، تو کیا آپ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones جیسے عظیم مبلغ کو سُنیں گے؟ یہ ہے جو اُنہوں نے کہا،

خُدا جانتا ہے کہ مسیحی کلیسیا ایک طویل مدت تک بیابان میں رہ چکی ہے۔ اگر آپ تقریباً 1830 یا 1840 سے پہلے کی کلیسیا کی تاریخ کے بارے میں پڑھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بے شمار ممالک میں تسلسل کے ساتھ تقریباً ہر دس سال یا زیادہ کے عرصے میں حیاتِ نو ہوا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں رہا ہے۔ 1859 کے بعد سے ایسا صرف ایک ہی بڑا حیاتِ نو آیا ہے۔ اوہ، ہم تو ایک بنجر دور میں سے گزر رہے ہیں… لوگوں نے اس جیتے جاگتے خُدا اور کفارے میں اور صُلح میں اپنا یقین کھو دیا ہے اور حکمت، فلسفے اور عِلمیت کی جانب رُخ کر لیا ہے۔ ہم کلیسیا کی طویل تاریخ میں سب سے زیادہ بنجر دورانیوں میں سے ایک میں سے گزر چکے ہیں… ہم اب بھی بیابان ہی میں ہیں۔ ایسی کسی بات کا یقین مت کریں جو کہتی ہو کہ ہم اِس سے باہر ہیں، ہم باہر نہیں ہیں (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ D. Martyn Lloyd-Jones، حیاتِ نو Revival، 1987، کراسوے بکُس Crossway Books، صفحہ129)۔

یہ لیجیے آپ کے سامنے ہے، میرے جیسے چھوٹے سے مشنری کی جانب سے نہیں، بلکہ ایک مشہور عالم، بیسویں صدی کے دو یا تین عظیم ترین مبلغین میں سے ایک کی جانب سے! خُدا نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، اور اِسی لیے، 1859 سے لیکر صرف ایک ہی بڑا حیاتِ نو آیا ہے،‘‘ حالانکہ، ’’ 1830 یا 1840 سے پہلے کی کلیسیا… تسلسل کے ساتھ تقریباً ہر دس سال یا زیادہ کے عرصے میں حیاتِ نو ہوا کرتے تھے‘‘ (ibid.)۔

اگر ہم سچے طور پر حیاتِ نو میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمیں ماضی میں جانا چاہیے احتیاط کے ساتھ معائنہ کرنا چاہیے کہ 1830 اور 1840 کے درمیان کیا رونما ہوا تھا۔ اُس سے قبل ہماری کلیسیاؤں میں تقریباً ہر دس سال میں حیاتِ نو ہوا کرتا تھا۔ اُس کے بعد – 1859 سے لیکر اب تک صرف ایک ہی! لٰہذا 1830 اور 1840 کے درمیان کچھ نہ کچھ ضرور رونما ہوا تھا جو خُدا کے لیے ’’خود کنارہ کشی‘‘ کرنے کا (ہوسیع5:6) اور ’’واپس [خود اپنے] مقام پر جانے کا‘‘ سبب بنا (ہوسیع5:15)۔

اگر آپ کو انجیلی بشارت کے پرچار کی تاریخ کا معلوم ہو تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہوا کیا تھا! چارلس جی فنّی Charles G. Finney! وہ ہے جو ہوا تھا! تاریخ دان ڈاکٹر ولیم جی۔ میکوھلن جونئیر Dr. William G. McLoughlin نے لکھا،

اُس نے امریکی حیاتِ نو کی تعلیمات میں ایک نئے زمانے کا اِفتتاح کیا… اُس نے انجیلی بشارت کے پرچار کے تمام کے تمام فلسفے اور طریقۂ کار کو بدل کر رکھ دیا (ولیم جی۔ میکوھلن، جونیئر، پی ایچ۔ ڈی۔ William G. McLoughlin, Jr. Ph. D.، جدید حیاتِ نو کی تعلیمات: چارلس جی فنی سے لیکر بلی گراھم تک Modern Revivalism: Charles G. Finney to Billy Graham، دی رونلڈ پریس The Ronald Press، 1959، صفحہ 11)۔

فنی سے پہلے، مبلغین سوچتے تھے کہ حیاتِ نو خُداوند کی طرف سے آتا ہے، اور ہر فرد کی تبدیلی بھی خُدا کی طرف سے ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔ 1735 میں جاناتھن ایڈورڈز Jonathan Edwards نے حیاتِ نو کو ’’خُدا کا حیرتناک کام‘‘ کہا تھا۔ 1835 تک فنی کہہ رہا تھا کہ ’’کسی بھی طور سے حیاتِ نو ایک معجزہ نہیں ہے۔ یہ خالصتاً تسلیم شُدہ ذرائع کے دُرست استعمال کا فلسفیانہ نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ یعنی کہ، ’’حیاتِ نو ایک معجزہ نہیں ہے۔ یہ دُرست طریقۂ کار کے استعمال کا صرف قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ یہ ہے جو اُس نے جدید انگریزی میں کہا۔

جاناتھن ایڈورڈز اور فنی کے درمیان فرق یہ ہے کہ ایڈورڈز ایک پروٹسٹنٹ تھا، جبکہ فنی ایک بدعتی تھا، ایک پیلیجئینسٹ Pelagianist تھا جو یقین کرتا تھا کہ انسان بجائے اِس کے کہ تنہا خُدا کی قوت اور فضل کے وسیلے سے نجات پائے، خود اپنی کوششوں کے وسیلے سے نجات پا سکتا ہے۔ یہ کہنا دُرست نہیں ہے کہ فنی میتھوڈسٹوں کی مانند ایک آرمینیئن Arminian تھا۔ ابتدائی میتھوڈسٹوں کی آرمینیائی تعلیم سے فنی کے اعتقاد کہیں زیادہ مختلف تھے۔ فنی کے مشہور ترین واعظوں میں سے ایک کا عنوان تھا، ’’گنہگار کے مقدر میں خود اپنے دِل کو بدلنا لکھا ہےSinners Bound to Change Their Own Hearts‘‘ (1831)۔ خُدا کو پرے دھکیلا جا چکا تھا، اور انسان، اپنی کوششوں کے وسیلے سے، ایک انسانی فیصلے کے ذریعے سے خود اپنی ہی تبدیلی کو لا رہا تھا۔ فنی سے پہلے، میتھوڈسٹ لوگ، اِس پر یقین نہیں کرتے تھے۔ آئعین ایچ میورے نے قطعی طور پر ظاہر کیا ہے کہ فنی کے تصورات نتھانئیل ٹیلر Nathaniel Taylor جیسے نئے انگلستان کے آزاد خیال لوگوں سے آئے تھے، ناکہ ابتدائی میتھوڈِسٹ لوگوں سے (آئیعن ایچ۔ میورے، Iain H. Murray، حیاتِ نو اور حیات نو کی تعلیمات Revival and Revivalism، بینر آف ٹُرتھ Banner of Truth، ایڈیشن 2009، صفحات 259۔261)۔ میتھوڈسٹ لوگوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، ’’گنہگار کے مقدر میں خود اپنے دِل کو بدلنا لکھا ہے‘‘! اپنی ویزلینئین میتھوڈاِزم کی تاریخ History of Wesleyan Methodism میں، جارج سمتھ Georg Smith نے حیاتِ نو کی درج ذیل تعریف بیان کی،

ایک حیاتِ نو، اِسی لیے، لوگوں کی روحوں پر خُدا کے روح کے وسیلے سے اثر انداز ہوئے فضل کا کام ہے؛ اور، یہ اپنی فطرت میں، لوگوں کی سمجھ بوجھ اور تبدیلی میں، اپنے وسیع پھیلاؤ اور انتہائی شدت میں، پاک روح کی صرف عام کاروائیوں سے مختلف ہوتا ہے (جارج سمتھ George Smith، حیاتِ نو Revival، جلد دوئم، 1858، صفحہ 617)۔

یہ حیاتِ نو اور تبدیلی کی ابتدائی میتھوڈسٹ لوگ کی ایک تعریف تھی۔ یہ فنی کی جھوٹی تعریف کے مشہور ہونے اور خُدا کو منظر میں سے نکال پھینکنے سے پہلے کسی پروٹسٹنٹ یا بپتسمہ دینے والے مذہبی فرقہ نے پیش کی تھی۔ فنی کے بعد، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ’’بدبخت، بے چارے، غریب، اندھے اور ننگے تھے‘‘ (مکاشفہ3:17)۔ فنی کے بعد، وہ تو جانتے تک بھی نہیں تھے کہ خُدا نے ’’خود کنارہ کشی‘‘ اختیار کر لی تھی اور ’’اپنے مقام پر‘‘ واپس چلا گیا تھا۔

جارج سمتھ کی جانب سے حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ میتھوڈسٹ یقین رکھتے تھے کہ انفرادی تبدیلی اور حیاتِ نو دونوں ہی، پاک روح کے عمل کے ذریعے سے، مکمل طور پر خُدا کے فضل پر انحصار کرتے تھے۔ یہ تھا جو فنی کے انجیلی بشارت کو تباہ کرنے سے پہلے تمام پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ دینے والے یقین کرتے تھے۔ اُس بہت بڑے مذہبی فرقے کا پرانا نظریہ فنی کے پیلیجئینسٹ Pelagianist نظریے سے کافی مختلف تھا، جو اُسکے سب سے زیادہ مشہور واعظ کے عنوان’’گنہگار کے مقدر میں خود اپنے دِل کو بدلنا لکھا ہے‘‘ میں بیان کیا گیا تھا۔ آپ وہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں نے سات سالوں تک کوشش کی تھی! یہ ہو نہیں پایا تھا۔ میں یہ تجربے سے جانتا ہوں!

فنی وہ شخص تھا جس نے الطار کی بُلاہٹ متعارف کروائی تھی، کھوئے ہوئے گنہگاروں کو بتانا کہ وہ ایک فیصلہ کر سکتے ہیں اور’’موقع ہی پر‘‘ اپنی مرضی کے ایک عمل کے ذریعے سے نجات پا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر میکوھلن نے کہا، ’’فنی نے انجیلی بشارت کے پرچار کے تمام طریقے اور فلسفے کو تبدیل کر دیا تھا‘‘ (ibid.)۔ آج، انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی زیادہ تر شاخیں تعلیم دیتی ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو اُٹھانے کے انسانی عمل، ’’گنہگارو کی دعا‘‘ کے الفاظ کو کہنے، یا گرجہ گھر کے سامنے چل کر آنے جس کو ’’وقتِ فیصلہ‘‘ کہا گیا کے ذریعے سے نجات پا سکتے ہیں۔ پس ’’فیصلہ سازیتdecisionism پیلیجیئن بدعتی چارلس جی۔ فنی کی تعلیمات کی براہ راست پیداوار ہے!

فیصلہ سازیت جلدی سے مشہور ہو گئی تھی کیونکہ یہ ’’اِس قدر زیادہ تیزی سے اور آسانی سے‘‘ ہو سکتا تھا۔ آپ کو پاک روح کا کھوئے ہوئے لوگوں کو اُن کے گناہ کی سزایابی کے تحت لانے کا، اور پھر مسیح کی جانب کھینچ لانے کا مذید اور زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ فنی نے انجیلی بشارت کے پرچار کو نئے ’’مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد کی پیداوار کے لیے بدل کر صف اوّل میں لا کھڑا کیا۔ مگر یہ بہت بڑی ’’پیداوار‘‘ زیادہ تر بالکل بھی مسیحی نہیں ہوتی تھی! یہ تھا جس نے پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ دینے والوں کے بہت بڑے فرقوں کو تباہ کر دیا! ’’آزاد خیال لوگوں‘‘ میں سے ہر کسی نے نجات پائے بغیر ایک فیصلہ اپنایا! یہیں سے پروٹسٹنٹ آزاد خیال نے جنم لیا!

آئعین ایچ۔ میورے نے کہا، ’’یہ تصور کی تبدیلی انسان کا عمل ہے انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیمات [کےایک حصے] کے لیے ناگزیر ہو گیا یعنی ایک عام سی بات ہو گئی اور جیسے لوگ یہ بھول گئے تھے کہ احیاء یا تجدید نو خُدا کا عمل ہے، ویسے ہی خُدا کے روح کے کام کی حیثیت پر حیاتِ نو میں اعتقاد غائب ہوگیا۔ [یہ] فنی کے علم الٰہیات کی براہ راست پیداوار تھی‘‘ (حیاتِ نو اور حیاتِ نو کی تعلیمات Revival and Revivalism، بینر آف ٹُرتھ Banner of Truth، 1994، صفحات412۔13)۔

’’تیز اور سہل‘‘ راہ نے خُدا کے وسیلے سے برکات نہیں پائیں۔ اِس کے بجائے، اِس نے ہمارے پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں کو کھوئے ہوئے لوگوں سے بھر دیا۔ اِس وقت اِس قدر زیادہ ہمارے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں میں کھوئے ہوئے لوگوں کی تعداد ہے کہ بہت سے مبلغین سوچتے ہیں اُنہیں اِتوار کی شام کی عبادات کو بند کر دینا چاہیے۔

میں نے ایک پادری کی بیوی سے پوچھا اُس کے شوہر نے شام کی عبادات کیوں بند کر دیں۔ اُس نے کہا، اُنہوں نے اُس کو [شوہر کو] بتایا وہ نہیں آئیں گے۔‘‘ یہ ہمارے گرجہ گھروں میں غیر نجات یافتہ لوگوں کو رُکن بنانے کے المناک نتائج میں سے صرف ایک ہے محض اِس لیے کیونکہ اُنہوں نے ایک انسانی ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا۔ خُدا ہمیں معاف کرے! تبدیلیوں کے پرانی بائبلی اقسام کے بغیر ہم غیر محفوظ یا بدنصیب ہیں! ہم خود کو نہیں بچا سکتے۔ صرف خُداوند ہی حیاتِ نو بھیج سکتا ہے۔ فیصلہ سازیت نے خُدا کی انکاری کی ہے اور انسان کو تخت پر بیٹھا دیا ہے۔ اور خُدا کہہ چکا ہے،

’’وہ اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے میں اپنے مقام پر واپس چلا جاؤں گا وہ میرا چہرہ ڈھونڈیں گے…‘‘ (ہوسیع 5:15).

یہ ہی سچی وجہ ہے کہ سو سالوں سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا کہ امریکہ یا انگلستان میں کوئی بہت بڑا حیاتِ نو نہیں آیا!

گنہگاروں کو خُداوند کی حضوری میں دِل شکستہ ہونا چاہیے۔ فیصلہ سازیت کسی کو بھی دِل شکستہ نہیں کرتی۔ گنہگار یوں ’’سامنے‘‘ آتا ہے جیسے کہ یہ کوئی دلیری کا، جرأت مندانہ عمل تھا۔ ہم کوئی آنسو نہیں دیکھتے، کوئی دُکھ، کوئی پچھتاوا، کوئی گناہ کی سزایابی نہیں دیکھتے۔ نومبر 2004 میں، کیلیفورنیا کے شہر پساڈینہ Pasadena میں بلی گراھم کی آخری تحریک [کروسیڈ] کے موقع پر میری بیوی اور میں نے لوگوں کے جم غفیر کو مسکراتے اور خوشی خوشی باتیں کرتے ہوئے دیکھا جب وہ ’’سامنے‘‘ جا رہے تھے۔ یہ فنی سے پہلے، پرانے دِنوں کے حیاتِ نو سے کس قدر مختلف تھا۔ 1814 میں ہوئے ایک میتھوڈسٹ اِجلاس کی تفصیل کو سُنیں۔

اگلی ہی رات، ایک اور دعائیہ اِجلاس میں، بے شمار اور گناہ کی سزایابی میں جکڑے گئے، اور روح کی شدید اذیت کے بعد اور [طویل] دعاؤں کے بعد اُنہوں نے کوشش کی اور مسیح میں پناہ پا لی… مرد اور خواتین اور نوجوان لوگ جنہوں نے بے دینی کے زندگی بسر کی تھی روح کی شدید پریشانی کے تحت آ گئے [اور پھر] شدید یقین دہانی کے ساتھ گواہی دینی شروع کی کہ خُدا نے اُن سے ملاقات کی تھی اور یسوع مسیح کے حق دار ہونے کے ذریعے سے اُنہیں گناہوں کی معافی بخشی (پال جی۔ کُوک Paul G. Cook، آسمان سے آگ Fire From Heaven، ای پی کُتب EP Books، 2009، صفحہ 79)۔

کیا آپ کبھی بھی ’’گناہ کی سزایابی میں جکڑے‘‘ گئے ہیں؟ کیا آپ کبھی بھی ’’روح کی شدید اذیت‘‘ میں رہ چکے ہیں اور پھر ’’مسیح میں پناہ پائی‘‘ ہے؟ محترم برین ایچ۔ ایڈورڈز Rev. Brian H. Edwards نے کہا،

یہ ہولناک گناہ کی سزایابی کے ساتھ شروع ہوتا ہے… لوگ بے قابو ہو کر روتے ہیں… مگر دُکھ اور سزایابی کے آنسوؤں کے بغیر حیاتِ نو جیسی کوئی بات نہیں ہوتی ہے… گہری، بے چین اور عاجزانہ گناہ کی سزایابی کے بغیر کوئی حیاتِ نو نہیں ہوتا ہے… ایک چشم دید گواہ [چین میں 1906 کے حیاتِ نو میں] نے بتایا: ’’میرے اِردگِرد کی جگہ رحم کے لیے پکارتے ہوئے لوگوں کے ساتھ ایک میدان جنگ کی مانند تھی‘‘ (برین ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیاتِ نو: خُدا کے ساتھ لبریز لوگ Revival: A People Saturated With God، انجیلی بشارت کے پرچار کا پریس Evangelical Press، 1991 ایڈیشن، صفحات115، 116)۔

آپ میں سے کچھ کیسے نجات پانی ہے ’’سیکھنے‘‘ کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں۔ نجات کو سیکھا نہیں جا سکتا! اِس کا تجربہ کیا جانا چاہیے، اور اِس کو محسوس کیا جانا چاہیے، اِس کو آپ کے ساتھ رونما ہونا چاہیے تاکہ آپ اِس سے آگاہ ہو سکیں۔ اب آپ اِس کے بارے میں جانتے ہیں، مگر آپ کو خود اپنے لیے نجات کو محسوس کرنا چاہیے۔ اور سب سے پہلا احساس جو آپ کو ہونا چاہیے وہ گہری سزایابی کا ہے کہ آپ ایک گنہگار ہیں۔ آپ کو رونے پر مجبور ہو جانا چاہیے،

’’ہائے میں کیسا بد بخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24).

ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا یہ گناہ کی سزایابی کے ایک گنہگار کا رونا تھا – اور میں اُن کے ساتھ متفق ہوں! میں نے اِس کو خود اپنی آنکھوں سے رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہے جب حیاتِ نو میں خُدا اپنا روح بھیجتا ہے۔

1960 کی دہائی کے آخر میں پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر First Chinese Baptist Church میں حیاتِ نو کے موقع پر، ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے ہمیں بار بار گانے کے لیے کہا،

’’میری تلاشی لے، اے خُداوندا، اور میرا حالِ دِل جان:
مجھے آزما اور میرے خیالات کو جان:
اور میرے دِل کی بات جان؛
مجھے آزما اور میرے خیالات کو جان؛
اور دیکھ کہ آیا مجھ میں کوئی بدکاری تو نہیں،
اور میری ابدیت کی راہ پر رہنمائی کر۔‘‘
   (زبور139:23، 24، وسیع کیا گیا Psalm 139:23, 24, expanded)۔

کھڑے ہوں اور اِس کو گائیں۔ یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر نمبر 8 ہے۔ صرف جب آپ اپنے ذہن اور دِل کے گناہ کی گہری سزایابی میں ہوں گے تب ہی مسیح کا پاک صاف کر دینے والا لہو آپ کو اہم محسوس ہوگا! ڈاکٹر چعین، مہربانی سے دعا میں رہنمائی کریں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: ہوسیع 5:6۔15.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’ہائے خُداوند کےساتھ نزدیک چلنے کے لیے O For a Closer Walk With God‘‘
 (شاعر ولیم کوپر William Cowper، 1731۔1800)۔