اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
تنہائی کا تجربہ !THE EXPERIENCE OF LONELINESS ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’میں نے اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالی اور دیکھ، مگر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جس کو میری پرواہ ہو: میرے لیے کوئی جائے پناہ نہیں؛ کوئی شخص میری جان کی فکر نہیں کرتا‘‘ (زبور142:4)۔ |
ساؤل بادشاہ نے گناہ کیا تھا اور خُداوند نے اُس کو مسترد کر دیا تھا۔ پھر سیموئیل نبی نے ایک نوجوان شخص داؤد کو نیا بادشاہ مقرر ہونے کے لیے مسح کیا تھا۔ ساؤل داؤد سے اِس قدر حسد کرتا تھا کہ وہ آسیب زدہ ہو گیا۔ انتہائی غصے کے عالم میں، ساؤل بادشاہ نے داؤد پر ایک نیزہ پھینکا، مگر نشانہ خطا گیا۔ داؤد کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ داؤد نہایت دور بیابان میں گیا اور ایک غار میں چُھپ گیا۔ وہ ڈرا ہوا اور بھوکا اور بالکل تنہا تھا۔ اُن متاثر کر دینے والے الفاظ پر غور کریں جو بالکل ’’زبور142‘‘ کے نیچے ہیں، ’’داؤد کا مشکیل [یا تعلیم]؛ ایک دعا جب وہ غار میں تھا‘‘ وہ الفاظ متاثر کر دینے والی تلاوت کا حصّہ ہیں، بعد میں اضافی نہیں ہیں۔ لٰہذا ہم جانتے ہیں کہ شدید پریشان، خوفزدہ اور تنہا تھا – آسیب زدہ بادشاہ سے ایک غار میں چھپا ہوا تھا۔ کوئی بھی داؤد کے ساتھ تعلق رکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ سب کے سب ساؤل بادشاہ سے خوفزدہ تھے۔ اور داؤد نے کہا،
’’کوئی شخص میری جان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘ (زبور142:4)۔
کسی کو اُس کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بالکل ہی تنہا تھا۔ مگر اُس کے پاس خُداوند تھا، جو کہ اُس کے مقابلے میں بہت زیادہ جو آج کل کے بہت سے نوجوان لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔
میں ایک مسیحی کالج میں نہیں گیا تھا۔ میں نے لاس اینجلز کی کیلیفورنیا کی ریاست سے گریجوایشن کی تھی۔ کچھ طریقوں سے میں خوش ہوں کہ میں ایک دُنیاوی کالج میں گیا تھا۔ اِس نے مجھے اُس کے ساتھ وابستہ رکھا جو نوجوان لوگوں کو سیکھایا جاتا ہے، اور جس کے بارے میں وہ سوچتے ہیں۔ میں نے جدید ادب کا مطالعہ کیا۔ زیادہ تر جدید مصنفین دہریے اور وجودیت پسند تھے۔ وہ جدید دُنیا میں زندگی کی تنہائی اور بیگانگی کے بارے میں بات کرتے تھے۔
ایچ۔ جی۔ وھیلز H. G. Wells ٹائم مشینThe Time Machine اور تاریخ کا لُب لُباب The Outline of History کے مصنف تھے۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں پینسٹھ برس کا ہوں، اور میں تنہا ہوں اور کبھی بھی سکون نہیں پا سکا ہوں۔‘‘ پولیٹزر انعام یافتہ Pulitzer Prize-winning ناول نگار ارنسٹ ھیمنگوے Ernest Hemingway نے کہا، ’’میں ایک خلا میں رہتا ہوں جو کہ اتنی ہی تنہا ہے جتنا کہ ایک ریڈیو کا ٹیوب ہوتا ہے جب بیٹریاں مُردہ ہوتی ہیں اور اُن کو چلانے کے لیے کہیں کوئی کرنٹ نہیں ہوتا۔‘‘ اپنے ڈرامے، رات کی جانب طویل دِن کی مسافت Long Day’s Journey Into Night میں، یوجین او نیل Eugene O’Neill نے کہا، ’’زندگی کا واحد مطلب موت ہے۔‘‘ اُس ڈرامے کا مرکزی خیال انسان کی وجودیاتی تنہائی ہے۔ جے۔ ڈی۔ سیلینگر J. D. Salinger نے ہمارے معاشرے میں نوجوان لوگوں کی تنہائی اور بیگانگی کے بارے میں ناولز اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھ لکھ کر اپنا مستقبل بنا لیا ہے۔
ایچ۔ ڈی۔ وھیلز ایک تنہا، نااُمید بوڑھے شخص کی موت مرے۔ ارنسٹ ھیمنگوے نے بندوق کے ساتھ اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔ او نیل O’Neill کے ڈرامے میں مرکزی کردار ایک مایوس نشہ باز تھی جو اپنی تنہائی کا منشیات کے ساتھ علاج کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جے۔ ڈی۔ سیلینگر نوجوان کی تنہائی کے ساتھ اِس قدر دیوانہ ہو گیا تھا کہ وہ تاریک اُلدنیا ہو گیا تھا، اور تقریباً پچپن سالوں تک ایک جوگی یا راہب کی سی زندگی بسر کرتا رہا تھا۔
آج نوجوان لوگوں کے لیے تنہائی ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ گرین ڈے کا گیت ’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ Boulevard of Broken Dreams،‘‘ اُن باتوں کا اظہار کرتا ہے جو بے شمار ہائی سکول اور کالج کی عمر کے نوجوان لوگ محسوس کرتے ہیں، ’’میں تنہا چلتا ہوں۔ میں تنہا چلتا ہوں۔‘‘ جی ہاں، مجھے یاد ہے کہ اُس سے کیسا محسوس ہوتا تھا جب میں نوجوان تھا۔ آپ ہجوم میں بھی تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔ ایک ویب سائیٹ ہمیں بتاتی ہے کہ ’’تنہائی آپ کے اندر خالی پن یا کھوکھلے پن کا ایک احساس ہے۔ آپ دُنیا سے الگ تھلگ یا علیحدہ محسوس کرتے ہیں، اُن سے رابطہ منقطع کیے ہوئے جن سے آپ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں‘‘(http://www.counseling.ufl.edu/cwc/how-to-deal-with-loneliness.aspx)۔ اِس ہی طرح سے داؤد نے اُس غار میں چُھپے ہوئے محسوس کیا تھا، جب اُس نے کہا،
’’کوئی شخص میری جان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘ (زبور142:4)۔
ہمارے زمانے میں بہت سے نوجوان لوگ اِسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو تین خیالات آج کی صبح پیش کرنے جا رہا ہوں جن کے لیے میں دعا گو ہوں کہ وہ آپ کو تنہائی کے ساتھ تعاون کرنے میں مدد دیں گے۔
I۔ اوّل، یہاں پر مختلف اقسام کی تنہائیاں ہوتی ہیں۔
اُس ویب سائٹ نے کہا،
تنہائی مختلف اقسام اور درجوں کی ہوتی ہے۔ آپ کو شاید تنہائی کا تجربہ ایک دھندلے سے احساس کا سا ہوگا کہ جیسے کچھ صحیح نہیں ہے، ایک تھوڑے سے خالی پن کی طرح۔ یا آپ شاید تنہائی کو ایک انتہائی شدید تنگ دستی اور گہرے درد کے طور پر محسوس کرتے ہوں۔ ایک قسم کی تنہائی کا تعلق شاید مخصوص فرد کی غیر موجودگی سے ہو کیونکہ وہ مرچکے ہوں یا کیونکہ وہ انتہائی دور ہوں۔ ایک اور قسم میں تنہا محسوس کرنا اور لوگوں سے رابطے میں دور ہونا ہو کیونکہ آپ اصل میں جسمانی طور پر آپ جیسے لوگوں سے علیحدہ ہوں، جو کہ [رونما] ہو سکتا ہے اگر آپ رات کی شفٹ میں تنہا کام کرتے ہوں یا عمارت کے کسی دور دراز کے کونے میں ہوں جہاں پر لوگ شازونادر ہی جاتے ہوں۔ یہاں تک کہ آپ جذباتی طور پر بھی علیحدہ [اور تنہا] محسوس کرتے ہوں جب آپ لوگوں سے گھرے ہوں مگر اُن سے بات شروع کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہو (ibid.)۔
بے شمار نفسیاتی مطالعے کے بعد، کالج کے طالب علم خصوصی طور پر تنہائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیمپس لوگوں کو پائیدار رشتوں میں اکٹھے ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو۔ یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنےوالے طالب علم اکثر محسوس کرتے ہیں جیسے کہ ساری دُنیا اُنہیں نظر انداز کر رہی ہے اور کوئی بھی اُنہیں سمجھتا نہیں ہے یا اُن کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ کوئی اُن کی بات سُننے کے لیے نہیں ہوتا۔
یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ایک تہذیب جو گاڑیاں، ہوائی جہاز، ٹیلی وژن، اور خلا میں سفر کو ممکن کر چکی ہے ایسا کچھ مہیا نہیں کرتی جو آپ کو تنہائی سے دور رکھ سکے! آپ کے والدین کام سے تھکے ماندے گھر آتے ہیں اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اُن کے پاس آپ سے بات کرنے یا آپ کی سُننے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ آپ میں سے بہت سے بٹے ہوئے گھرانوں سے آتے ہیں۔ طلاق شُدہ لوگوں کے بچوں کو تنہائی کی ایک خاص جہنم سے گزرنا پڑتا ہے۔ مگر تقریباً ہر نوجوان شخص جس سے میں نے بات کی اُس نے کسی نہ کسی موقعے پر ایسا محسوس کیا۔
ایک لڑکی نے کہا، ’’میں انتہائی شدت کے ساتھ تنہا رہ چکی ہوں۔ بہت سے پڑوسی مجھ سے کبھی بھی بات نہیں کرتے۔‘‘ ایک نوجوان شخص نے کہا، ’’میں کبھی بھی دوست بنانے کا اہل بنتا دکھائی نہیں دیا، کیونکہ جلد یا بدیر وہ جو دوست بنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا؟ داؤد نے ایسا محسوس کیا تھا جب وہ غار میں چُھپا ہوا تھا۔ اُس نے کہا،
’’کوئی شخص میری جان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘ (زبور142:4)۔
میرا یقین ہے کہ تنہائی اہم وجوہات میں سے ایک ہے کہ بے شمار نوجوان لوگ آج کل خودکشی کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 15 اور 24 سال کی درمیانی عمر کے نوجوان لوگوں کے درمیان موت کے سب سے بڑے اسباب میں سے ایک خود کشی ہے؟ ریاست ہائے متحدہ United States میں رات اور دِن، ہر دو گھنٹے اور چھ منٹ میں ایک نوجوان شخص خود کشی کرتا ہے۔ اور نفسیات دان ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن کے خود کو مارنے کی اہم وجہ تنہائی ہے۔ خُدا صحیح تھا جب اُس نے کہا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں‘‘ (پیدائش2:18)۔
II۔ دوئم، آپ خود اپنی تنہائی کے لیے حصّہ ڈال سکتے ہیں۔
یہ دُرست ہے، آپ خود اپنی تنہائی کے لیے اکیلے سب سے زیادہ ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ تنہائی پر ویب سائٹ نے صحیح طور پر کہا،
تنہائی ایک غیرفعال حالت ہے۔ یعنی کہ، یہ ہمارے غیر فعال طور پر جاری رکھے رہنے اور اِس کو بدلنے کے لیے کچھ بھی نہ کرنے سے برقرار رہتی ہے۔ بالاآخر، ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ دور ہو جائے گی، [مگر] ہم کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ اِس کو اپنے پر حاوی ہونے دیتے ہیں۔ حیرتناک طور پر، کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں جب ہم اِس احساس کو شاید سینے سے لگا لیتے ہیں۔ اِس کے باوجود، تنہائی کو سینے سے لگا لینے اور اِس سے تعلق رکھنے والے احساسات میں ڈوبنے سے عام طور پر ذہنی دباؤ اور بے بسی کا احساس جنم لیتا ہے، جوکہ، ردعمل میں، یہاں تک کہ مذید اور زیادہ غیر فعال حالت اور مذید زیادہ ذہنی دباؤ [اور بہت زیادہ تنہائی] کو جنم دیتا ہے (ibid.)۔
’’تنہائی ایک غیرفعال حالت ہے۔ یعنی کہ، یہ ہمارے غیر فعال طور پر جاری رکھے رہنے سے برقرار رہتی ہے۔‘‘ یہ بالکل سچ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اُس وقت تک تنہائی کو محسوس کرنا جاری رکھتے ہیں جب تک کہ آپ صورتحال کو بدلنے کے لیے کچھ کرتے نہیں ہیں!
کچھ عرصہ قبل میں نے پیدائش 32:24 میں سے یعقوب کی تنہائی پر ایک واعظ دیا تھا۔ اُس واعظ کے وسط میں ایک نوجوان شخص اپنے قدموں پر اُچھلا اور گرجہ گھر سے باہر بھاگ گیا۔ وہ جو کچھ میں نے کلیسیا کو شفا دینے والی تنہائی کے بارے میں کہا اُسے سُننے کی بجائے باہر بھاگ گیا۔ مگر آپ فرار اختیار کرنے سے تنہائی پر قابو نہیں پا سکتے! یہ قائن نے جان لیا تھا۔ خُدا نے اُس سے کہا،
’’تو ایک مفرور اور آوارہ بن کر زمین پر مارا مارا پھرتا رہے گا‘‘ (پیدائش 4:12).
وہ جو گرجہ گھر سے بھاگ جاتے ہیں آوارہ گرد، تنہا نوجوان لوگ بن جاتے ہیں، بالکل قائِن کی مانند! اور بائبل کہتی ہے،
’’اِن پر افسوس! کیونکہ یہ قائن کی راہ پر چلے ‘‘ (یہوداہ 11).
زندگی میں تنہا گشت کرنا ایک ہولناک بات ہے، جیسے کہ قائِن نے کی تھی – جیسا کہ آج کل بہت سے نوجوان لوگ کرتے ہیں!
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں، ’’تنہا کیوں رہا جائے؟ گرجہ گھر کے لیے – گھر آئیں! کھوئے کیوں رہیں؟ خُدا کے بیٹے یسوع کے لیے – گھر آئیں!‘‘ خُداوند نے کہا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں‘‘ (پیدائش2:18)۔
یہ ہی وجہ ہے کہ خُداوند نے حوّا نامی ایک بیوی آدم کو دی۔ اور آدم کی بیوی سیکوفیلڈ مطالعہ بائبل The Scofield Study Bible کے مطابق گرجہ گھر کی ایک تصویر ہے۔ یہ پیدائش2:23 پر ہے جو کہتا ہے،
حوّا، مسیح کی دلہن کے طور پر کلیسیا کی ایک تشبیہہ ہے (پیدائش2:23 پر ایک غور طلب بات)۔
اِس کا مطلب ہے کہ آدم کی بیوی مقامی کلیسیا کی مثال یا ایک تصویر ہے۔ خُداوند نے کہا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں؛ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش2:18)۔
اور خُداوند نے آدم کو ایک مددگار اور معاون دیا۔ اور یہ ایک تصویر ہے، ایک مثال ہے، مقامی کلیسیا کی ایک تشبیہہ ہے۔ خُداوند نے حوّا کو آدم کی تنہائی کے علاج کے لیے دیا، اور خُداوند نے اِس کلیسیا یا گرجہ گھر کو یہاں پر بنایا کہ آپ کی تنہائی کے علاج میں مددگار ہو! یہ گرجہ گھر یہاں پر آپ کی تنہائی کی شفایابی میں مدد کے لیے ہے!
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں؛ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش2:18)۔
اور وہ ’’مددگار‘‘ جو خُدا نے آپ کی تنہائی کے علاج کے لیے دیا یہ گرجہ گھر ہے! ہم یہاں پر تنہائی پر قابو میں مدد کے لیے ہیں! میں جانتا ہوں کہ بہت سے گرجہ گھر آپ کی مدد نہیں کر سکتے ہیں۔ مگر میں اُن کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں اِس گرجہ گھر کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ یہ گرجہ گھر نوجوانوں پر مرکوز ہے۔ ہم یہاں پر آپ کی مدد کے لیے ہیں!
گرجہ گھر سے دور رہ کر اپنی تنہائی میں خود حصّہ مت ڈالیں! اگلے اِتوار کو واپس آئیں! ہفتے کی شام کو واپس آئیں! اگر آپ سے ہو سکے تو آج رات کو واپس آئیں! ہمارے پاس نوجوان لوگوں کے لیے ہفتے میں کئی شامیں کچھ کرتے رہنے کے لیے ہیں۔ تنہا کیوں رہا جائے؟ گرجہ گھر کے لیے گھر آئیں!
III۔ مگر، سوئم، آپ کے پاس گہری تنہائی ہوتی ہے۔
یہ وہ تنہائی تھی جس کے بارے میں ھیمنگوے نے بات کی تھی جب اُس نے کہا،
’’میں ایک خلا میں رہتا ہوں جو کہ اتنی ہی تنہا ہے جتنا کہ ایک ریڈیو کا ٹیوب ہوتا ہے جب بیٹریاں مُردہ ہوتی ہیں اور اُن کو چلانے کے لیے کہیں کوئی کرنٹ نہیں ہوتا۔‘‘
ہمارے نوجوان لوگوں میں سے ایک نے مجھے بتایا وہ ھیمنگوے کی لکھی ہوئی ایک کہانی جس جماعت میں وہ ہے اُس میں پڑھ رہا تھا۔ اُس کا نام ’’ایک صاف، اچھی منور جگہ A Clean, Well Lighted Place‘‘ ہے۔ یہ انسان کی وجودیت کی تنہائی کے بارے میں ہے۔ ھیمنگوے کو اُس کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ وہ واقعی میں خُدا کے لیے دانت پیسنے والی، کائناتی تنہائی کے ساتھ نمٹ رہا تھا۔ اُس نے کبھی بھی اُس پر قابو نہیں پایا۔ چند ایک سالوں کے بعد اُس نے خود کو مار لیا تھا۔ فلسفی فرائڈرِچ نائیشی Friedrich Nietzsche نے کہا، ’’خُدا مرچکا ہے۔‘‘ وہ ایک دہریہ بن گیا۔ چند ایک سالوں کے بعد وہ پاگل ہوگیا۔ وہ خُداوند کے بغیر ایک دُنیا میں، بغیر مطلب کے، بغیر معافی یا اُمید کے زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
دیکھا آپ نے، اِس گرجہ گھر میں آتے رہنا، اور ہر ہفتے آتے رہنا، آپ کی دوستوں کے لیے تنہائی کے علاج میں مدد دے گا۔ مگر خُدا کے لیے آپ کی تنہائی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اکیسویں صدی کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بے شمار نوجوان لوگ واقعی میں خُدا کو نہیں جانتے۔ اور خُدا کے بغیر کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے!
جی ہاں، میں آپ سے چاہتا ہوں کہ یہاں پر واپس آئیں اور دوست بنائیں – مگر میں آپ سے یہ بھی چاہتا ہوں کہ خُدا کو تلاش کریں۔ آگسٹین نے کہا، ’’ہمارے دِل بے چین ہیں جب تک کہ وہ تجھ میں سکون نہیں پا لیتے۔‘‘ فرانسسی فلسفی بلیز پاسکل Blaise Pascal نےکہا کہ ہمارے دِلوں میں ’’خُدا کی شکل کا خلا‘‘ ہوتا ہے۔ اُس کا مطلب تھا کہ ہر انسان کے دِل میں ایک خالی مقام ہوتا ہے جو کہ صرف خُدا کے ذریعے سے ہی بھرا جا سکتا ہے۔
مگر بائبل تعلیم دیتی ہے کہ آپ اپنے گناہ کی وجہ سے خُدا سے جُدا کیے جا چکے ہیں۔ بائبل کہتی ہے،
’’تمہاری بدکاری نے تمہیں اپنے خدا سے دُور کردیا ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے ایسا رُوپوش کیا …‘‘ (اشعیا 59:2).
گناہ کے سبب سے آپ کے اور خُداوند کے درمیان جُدائی ہے۔ باغِ عدن سے آدم اور حوّا کو نکال دیا گیا تھا کیونکہ اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔ اُن کے گناہ نے اُنہیں خُدا سے علیحدہ کر دیا تھا۔
بائبل تعلیم دیتی ہے کہ خُدا آپ سے آپ کے گناہوں کی وجہ سے ناراض ہے۔ اور اِس کے باوجود، اِسی دوران میں، وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ خُداوند آپ سے آپ کے گناہ کی وجہ سے ناراض ہے، مگر اِسی دوران میں وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے یسوع کو صلیب پر مرنے کےلیے بھیجا۔ وہ اُس صلیب پر آپ کی خُدا سے صُلح کروانے کے لیے مرا۔ خُدا محض سادگی سے آپ کے گناہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ اُس نے صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے یسوع مسیح کو بھیجا، ’’کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور ہر شخص کو جو یسوع پر ایمان لاتا ہے راستباز ٹھہراتا ہے‘‘ (رومیوں3:26)۔ ایک ناراض خدا کے ساتھ صُلح صرف صلیب پر مسیح کی قربانی کے ذریعے سے ہی ہو سکے گی!
یسوع کا صلیب پر مرنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ وہ جان بوجھ کر وہاں تک گیا تھا۔ بائبل کہتی ہے کہ جب اُس کے مصلوب ہونے کا وقت آیا، ’’اُس نے پُختہ ارادے کے ساتھ یروشلم کا رُخ کیا‘‘ (لوقا9:51)۔ پھر یسوع نے شاگردوں کو بتایا،
’’دیکھو، ہم یروشلیم جارہے ہیں جہاں ابنِ آدم سردار کاہنوں اور شریعت کے عالموں کے حوالہ کردیا جائے گا۔ اور وہ اُس کے قتل کا حکم صادر کرکے اُسے غیر یہودیوں کے حوالہ کردیں گے اور وہ ابن آدم کی ہنسی اُڑائیں گے، اُسے کوڑے ماریں گے اور مصلوب کردیں گے …‘‘ (متی 20:18۔19).
وہ وہاں پر مقصد کے تحت گیا تھا، صلیب پر مرنے کے لیے، تاکہ ہمارے گناہ معاف کیے جا سکیں – اور جو خون اُس نے وہاں پر بہایا اُس سے دُھل جائیں!
نگہبان آئے اور اُس کو گتسمنی کی تاریکی میں گرفتار کرلیا۔ اُنہوں نے اُس کو زنجیروں میں جکڑا، اُنہوں نے اُس کے منہ پر مُکّے مارے، اُنہوں نے اُس کی داڑھی کے بال نوچے، وہ اُس کو گھسیٹتے ہوئے رومی گورنر پینطُس پلاطوس کے پاس لے گئے۔ اُنہوں نے اُس کی کمر پر اُس وقت تک کوڑے مارے جب تک وہ ادھ موا نہیں ہو گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کندھوں پر ایک صلیب رکھی اور اُس کو سڑکوں پر سے گھسیٹ کر لے جانے کے لیے مجبور کیا۔ اُنہوں نے اُس صلیب کے ساتھ اُس کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے۔ یسوع نے صلیب پر سے نیچے اُن کی جانب دیکھا اور کہا،
’’اے باپ، انہیں معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں‘‘ (لوقا 23:34).
’’اے باپ، اِنہیں معاف کر!‘‘ یوں اُس نے دعا مانگی،
جبکہ اُس کا زندگی بچانے والا خون تیزی سے بہہ رہا تھا؛
اِس قدر شدید رنج و غم میں بھی وہ گنہگاروں کے لیے دعا مانگ رہا تھا –
کسی نے بھی نہیں ماسوائے یسوع کے کبھی ایسا پیار کیا۔
مبارک مُنّجی! بیش قیمت مخلصی دلانے والا!
ظاہر ہوتا ہے کہ میں نے اب اُسے کلوری کی صلیب پر دیکھ لیا ہے؛
زخموں سے چور، گنہگاروں کے لیے التجا کرتے ہوئے –
اندھا اور بے دھیان – میرے لیے مرتا ہوا!
(مبارک منّجی Blessed Redeemer‘‘ شاعر ایوِز برجیسن کرسچنسن
Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔
خود اپنے بدن پر آپ کو گناہوں کے بوجھ کو اُٹھائے ہوئے، یسوع صلیب پر مر گیا (حوالہ دیکھیں 1پطرس2:24)۔ دِن کے وسط ہی میں آسمان تاریک ہو گیا۔ جب وہ مرا ایک بہت بڑے زلزلے نے زمین کو لرزا دیا۔ ایک دبیز پردہ جو ہیکل میں مقدس کو ڈھانپے ہوئے تھا دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ صلیب پر مسیح کی موت نے ہمارے گناہ کا کفارہ ادا کیا۔ وہ خون جو اُس نے ہمارے گناہ کو پاک صاف کرنے کے لیے بہایا اُس نے اِس بات کو ممکن بنایا کہ وہاں جایا جا سکے جہاں پر خُدا ہے!
’’اِس لیے، بھائیو، ہمیں یسوع کے خُون کے وسیلہ سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک ترین مکان میں داخل ہونے کی ہمت ہے‘‘ (عبرانیوں 10:19).
آپ خُدا کے پاس صرف اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے خون کے ساتھ گناہوں کو پاک صاف کر لینے کے بعد جا سکتے ہیں۔ آپ صرف مسیح کے خون کے ساتھ اپنے گناہوں کو دُھو ڈالنے کے بعد خُدا کے ساتھ صُلح کر سکتے ہیں۔
اگر آپ اِس گرجہ گھر میں شریک ہوتے ہیں تو آپ میں سے کچھ کے والدین آپ کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ میں آپ کو ہر عبادت میں بتاتا ہوں کہ کیسے مطالعہ کرنا ہے اور اچھے درجے حاصل کرنے ہیں۔ میں آپ کو تعلیم دیتا ہوں کہ کیسے بہترین درجے حاصل کرنے ہیں۔ مگر کچھ والدین کہیں گے کہ آپ کو گھر میں ٹھہرنا چاہیے اور زیادہ پڑھنا چاہیے، تاکہ آپ زیادہ پیسے کما سکیں جب آپ گریجوایٹ ہو جائیں گے۔
بیچارے رابن ولیمز Robin Williams کے بارے میں کیا خیال ہے جو مشہور امریکی مزاحیہ اداکار ہے؟ اُس نے آپ کے کسی جاننے والے کے مقابلے میں زیادہ پیسہ کمایا! اُس کے پاس یہ سب کچھ تھا۔ مگر اُس کے پاس گرجہ گھر نہیں تھا۔ اُس کے پاس خُدا نہیں تھا۔ اُس کے خود کو قتل کر دینے کے کچھ ہی دِنوں کے بعد اُس کی بیوی نے انکشاف کیا کہ اُس کی پارکنسن Parkinson کی بیماری بڑھ رہی تھی۔ وہ اُس کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ شمالی کیلیفورنیا میں مارین کاؤنٹی کے ایک دولتمند علاقے میں اپنے بڑے سے گھر میں تنہا تھا۔ اُس نے اپنی گردن کے گرد ایک بیلٹ کو لپیٹا اور خود کو پھانسی چڑھا لی۔ کیسا ایک المیہ! مجھے رابن ولیمز سے پیار تھا! مجھے اُس کے لیے اس قدر دُکھ محسوس ہوا کہ میں رو پڑا۔
یہ اپنے والدین کو بتائیں! آپ ڈھیروں پیسہ کما سکتے ہیں، مگر کیا ہوگا جب بُری خبر آئے گی، جیسا کہ یہ ہر کسی کو جلد یا بدیر آتی ہی ہے؟ کیا ہوگا اگر آپ کے پاس بات کہنے یا سُننے کے لیے مسیحی دوست موجود نہیں ہونگے؟ کیا ہوگا اگر آپ کے پاس مصیبت کے وقت رُخ موڑنے کے لیے خُدا نہ ہو؟
خُدا آپ کی یہ دیکھنے کے لیے کہ آپ کو گرجہ گھر کی ضرورت ہے، کہ آپ کو مسیحی دوستوں کی ضرورت ہے، کہ آپ کو خُداوند کے ساتھ امن پانے کے لیے اور اپنے گناہ معاف کروانے کے لیے یسوع مسیح کی ضرورت ہے مدد کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں، ’’تنہا کیوں رہا جائے؟ گرجہ گھر کے لیے – گھر آئیں! کھوئے کیوں رہیں؟ خُدا کے بیٹے یسوع کے لیے – گھر آئیں!‘‘ خُداوند آپ سب کو برکت دے! آمین۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے ہماری دعا میں رہنمائی کریں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: زبور142:1۔7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ Boulevard of Broken Dreams‘‘ (شاعر گرین ڈے Green Day، 2004)\
’’یہ راز نہیں ہے It Is No Secret‘‘ (شاعر سٹیوارٹ ھیمبلین Stuart Hamblen، 1908۔1989)۔
لُبِ لُباب تنہائی کا تجربہ !THE EXPERIENCE OF LONELINESS ڈٓاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’میں نے اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالی اور دیکھ، مگر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جس کو میری پرواہ ہو: میرے لیے کوئی جائے پناہ نہیں؛ کوئی شخص میری جان کی فکر نہیں کرتا‘‘ (زبور142:4)۔ I. اوّل، یہاں پر مختلف اقسام کی تنہائیاں ہوتی ہیں، پیدائش2:18 . II. دوئم، آپ خود اپنی تنہائی کے لیے حصّہ ڈال سکتے ہیں، پیدائش4:12؛ III. سوئم، آپ کے پاس گہری تنہائی ہوتی ہے، اشعیا59:2؛ |