اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
تب وہ روزہ رکھیں گے (حیات نو پر واعظ نمبر 4) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’لیکن وہ دِن آئیں گے کہ دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا، اور’’لیکن وہ دِن آئیں گے کہ دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا، اور تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے ‘‘ (لوقا5:35)۔ |
یسوع نے متی کو اپنا شاگرد بننے کے لیے بُلایا تھا۔ تب متی نے ایک خود اپنے گھر میں ایک بڑی دعوت رکھی تھی۔ ’’بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار لوگ آئے‘‘اور یسوع کے ساتھ دعوت میں شریک ہوئے (حوالہ دیکھیں متی9:10)۔ فریسیوں نے یہ دیکھا اور پوچھا کیوں یسوع ایسے بُرے لوگوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’میں راستبازوں کے لیے نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے کے لیے آیا ہوں‘‘ (متی9:13)۔ اُس کا مطلب تھا کہ وہ اُنہیں بُلانے کے لیے آیا تھا جو سوچتے تھے کہ وہ راستباز ہیں۔ وہ اُنہیں بُلانے کے لیے آیا تھا جو جانتے تھے کہ وہ گنہگار ہیں۔
یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد بھی سوال کرنے کے لیے دعوت میں شریک ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اُس سے پوچھا کیوں وہ اور فریسی اکثر روزہ رکھتے ہیں – مگر خود اُس کے شاگرد روزہ نہیں رکھتے۔ یسوع نے کہا،
’’کیا تم دُلہا کی موجودگی میں براتیوں سے روزہ رکھوا سکتے ہو؟ مگر وہ دِن آئیں گے، جب دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا، تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے‘‘ (لوقا5:34۔35)۔
یسوع کا مطلب تھا کہ اُس کے شاگردوں کے لیے روزہ رکھنا موزوں نہیں تھا – کیوں کہ وہ ابھی تک اُن کے ساتھ موجود تھا۔ اُس نے خود کو ’’دُلہا‘‘ کہا تھا اور دعوت کا یہودیوں کی شادی کے ساتھ موازنہ کیا تھا۔ مگر یسوع نے کہا کہ وہ جلد ہی ’’اُن سے جُدا کیا جائے گا‘‘ (لوقا5:35)۔ اُس کا مطلب تھا کہ واپس اوپر آسمان میں اُٹھا لیا جائے گا – اور تب وہ روزہ رکھیں گے۔
’’لیکن وہ دِن آئیں گے کہ دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا، اور تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے‘‘ (لوقا5:35)۔
اب، میں آپ سے چاہتا ہوں کہ مسیح کے اُن الفاظ پر توجہ مرکوز کریں،
’’اور تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے‘‘ (لوقا5:35)۔
ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا،
اُن کے مصائب کا دور، روحانی قوت کے لیے انتظار اور اُن کی ایذارسانیاں [یسوع] کے چلے جانے کے بعد آئیں گی، لہٰذا وہ تب روزہ رکھیں گے۔ [وہ الفاظ ’’تب وہ روزہ رکھیں گے‘‘] نشاندہی کرتے ہیں کہ شاگردوں نے ضرور روزہ رکھا تھا جب وہ یسوع کے چلے جانے کے بعد پینتیکوست سے پہلے بِنا مقصد وقت گزار رہے تھے (اعمال1:12۔14)۔ علاوہ ازیں پولوس نے روزے رکھے تھے، پاک روح کی قوت کے لیے دعائیں مانگی تھیں (اعمال9:9، 11، 17)۔ بعد میں برنباس، پولوس اور دوسرے مبلغین اور اِساتذہ نے روزے رکھے تھے جب وہ خُدا کی حضوری میں دعائیں مانگتے اور انتظار کر رہے تھے، اعمال13:1۔3 (جان آر۔ رائیس، ڈی۔ڈی۔John R. Rice, D.D.، یہودیوں کا بادشاہ King of the Jews، خُداوند کی تلوار اشاعت خانےSword of the Lord Publishers، ایڈیشن1980، صفحہ 144)۔
بائبل منافقانہ روزے رکھنے پر مذمت کرتی ہے، مگر یہ کبھی بھی صادِق روزہ کو ناپسند نہیں کرتی۔ بائبل انتہائی سادگی کے ساتھ ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع نے خود اپنے منادی کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل بیابان میں روزہ رکھا تھا (متی4:1، 2)۔ تمام تین مماثلتی اناجیل (متی، مرقس اور لوقا) نے ہمارے لیے یسوع کے الفاظ کو درج کیا، ’’اور تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے۔‘‘ ہم ابھی تک ’’اُنہی دِنوں میں‘‘ زندگی بسر کر رہے ہیں – کیوں وہ ہی ہمارے لیے مسیح کی ہدایات اِس موجودہ اوقات مقررہ میں ہیں – ’’اُن دِنوں میں‘‘ جن میں ہم ابھی تک زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا، ’’آج روزہ رکھنے کی حقیقی قدروقیمت بن چکی ہے... روزہ اِس تصور کے ساتھ رکھا جانا چاہیے کہ ہم خُدا کی حضوری میں سجدہ ریز کیے ہوئے ہیں کیونکہ ہم اُس کے رحم اور اُس کی مدد کے محتاج ہیں‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن اشاعت خانے Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ53؛ متی9:15 پر غور طلب بات)۔
سپرجیئن Spurgeon نے کہا، ’’دعا اور روزے میں عظیم قوت ہوتی ہے‘‘ (’’ناکامی کا راز The Secret of Failure‘‘)۔ میں جانتا ہوں کہ وہ سچ ہے۔ پہلے حیات نو میں مَیں نے دیکھا تھا، لوگ کھانا کھانا بھول گئے تھے، وہ اِس قدر دعا میں مشغول تھے۔ سینکڑوں لوگ تین سال سے کچھ اوپر کے دورانیے میں مسیح میں تبدیل ہو گئے تھے۔ تیسرے حیات نو میں مَیں نے دیکھا، اتوار کی شام کی عبادت میں خُدا کے حیات نو کو بھیجنے سے پہلے مبلغ سارا دِن روزہ رکھنے اور دعا کرنے پر مجبور تھا۔ تقریباً 500 لوگ تبدیل ہوئے تھے، اُس رات سے شروع ہو کر اور تقریباً تین مہینوں تک یہ سلسلہ جاری رہا تھا۔ میں ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ سپرجیئن صحیح تھے جب اُنہوں نے کہا، ’’دعا اور روزے میں عظیم قوت ہوتی ہے۔‘‘ مگر ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، ’’[روزہ رکھنے کا] یہ سارے کا سارا موضوع ہماری زندگیوں، اور ہماری تمام مسیحی سوچ سے بالکل نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے‘‘ (پہاڑی واعظ پر مطالعے سے Studies in the Sermon on the Mount، عیئرڈمینزEerdmans، 1987، صفحہ39)۔ ڈاکٹر جان آر۔ رائیس نے کہا، ’’روزہ رکھنا ایک ایسا کھویا ہوا فن ہے جس کو بہت کم اپنایا جاتا ہے، جس کی بہت کم تعلیم دی جاتی ہے، جس کے بارے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے... روزہ رکھنے کا مطلب کیا ہے‘‘ (جان آر۔ رائیس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، دعا – مانگنا اور پانا Prayer – Asking and Receiving ، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1970 ایڈیشن، صفحہ216)۔ درج ذیل کچھ باتیں ہیں جو ڈاکٹر رائیس نے روزہ کے بارے میں کہیں۔
1. روزہ کا مطلب خُدا کو پہلے نمبر پر رکھنا ہوتا ہے۔ کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں جب ہمیں دُنیا میں باقی ہر بات سے اپنا منہ موڑنا چاہیے اور خُدا کے چہرے کو تلاش کرنا چاہیے۔ ایسے اوقات روزے اور نماز کے اوقات ہونے چاہیے۔
2. روزہ رکھنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اپنا تمام دِل دعا میں یکسو کرنا اور خُدا کے منتظر رہنا۔ اِس لیے روزہ رکھنا واقعی میں خُدا کو اوّل درجے پر رکھنا ہوتا ہے جب کوئی دعا کرتا ہے، خُدا کو کسی کے کھانا کھانے کے چاہنے سے زیادہ چاہنا چاہیے۔
3. روزہ رکھنے کا مطلب ہوتا ہے دعا میں ثٓابت قدم رہنا۔ خود کو سزا دینے کے طور پر روزہ رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے اگر ہم دعا نہیں کرتے ہیں۔ روزے کو ثابت قدمی کے ساتھ انتہائی پُرجوش طریقے سے دعا کے ساتھ رکھنا چاہیے۔
4. روزہ رکھنا ایک شخص کے خلوص اور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے کہ خُدا جواب دے گا۔ دعا اکثر ایک دھیمی اور غیر مخلص بات ہوتی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ بہت سی دعاؤں کا جواب نہیں ملتا ہے۔ روزہ خُدا کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اُسے [خُدا کو] ہمیں جواب دینے کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہیں (ibid.، صفحات 218۔220)۔
پھر ڈاکٹر رائیس نے بےشمار باتوں کی فہرست پیش کی جو ہم روزہ رکھنے اور دعا مانگنے سے خُدا سے حاصل کر سکتے ہیں (ibid.، صفحات 220۔227)۔
1. پریشانی کے وقت میں مدد روزہ رکھنے اور دعا مانگنے سے اکثر مل جاتی ہے۔ پریشانی کا وقت دعا مانگنے کے لیے ایک اچھا وقت ہوتا ہے۔ اور اگر پریشانی واقعی میں بُری ہے تب یہ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دعا مانگنے کا بھی ایک اچھا وقت ہوتا ہے۔
2. ہمیں کبھی کبھی روزہ رکھنا اور دعا مانگنی چاہیے یہ ڈھونڈنے کے لیے کہ غلطی کیا ہے، کیا بات خُدا کو ناراض کرتی ہے۔
3. روزہ رکھنا اور دعا مانگنا اکثر گناہ پر فتح کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ پہلے حیات نو میں مَیں نے اُن نوجوان لوگوں کو دیکھا تھا جو خُدا کو خوش کرنے کی تلاش میں تھے، یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کھلم کھلا ایک دوسرے سے کر رہے تھے۔ ایسا کبھی کبھی حیات نو میں ہوتا ہے۔ وہ گناہ پر بہت بڑی فتح پاتے ہیں، جب ہم روزہ رکھتے اور دعا مانگتے ہیں۔
4. روزہ رکھنا اور دعا مانگنا ہمیں دوسروں کے لیے مصالحت کرانے کے عمل میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر آپ دوسروں کی نجات کےلیے دعائیں مانگ رہے ہیں تو ایک وقت میں ایک شخص کے لیے خصوصی طور پر دعا مانگیں، صرف عمومی دعا ہی نہ کریں، ’’اوہ، خُدایا کسی نہ کسی کو نجات دے دے۔‘‘ کھوئے ہوئے کا نام لے کر دعا مانگیں اور روزہ رکھیں۔ کیا آپ کسی کے لیے دعا مانگنا چاہتے ہیں؟ تب اُس شخص کے لیے دعا مانگیں اور روزہ رکھیں جب تک کہ خُدا کی طرف سے جواب نہیں آ جاتا! ایک پرانا گیت اِس کو نہایت عمدگی سے پیش کرتا ہے،
کیا آپ نے پوری طرح سے دعا کی جب تک جواب نہیں ملا؟
آپ کی جان کا دعویٰ کرنے کے لیے یہاں سچا وعدہ ہے؛
دعا کی جگہ پر وہ خُداوند آپ کا انتظار کرتا ہے،
کیا آپ اُس کو وہاں پر ملے تھے، کیا آپ نے پوری طرح سے دعا کی؟
کیا آپ نے جواب ملنے تک دعا کی؟
کیا آپ نے نجات دہندہ کے نام پر التجا کی؟
کیا آپ نے اُس وقت تک دعا کی جب تک خُداوند نے آپ کو جواب نہیں دے دیا،
کیا آپ نے جواب ملنے تک دعا کی؟
(’’کیا آپ نے پوری طرح سے دعا کی؟ Have You Prayed It Through? ‘‘ شاعر ڈبلیو۔ سی۔ پولی W. C. Poole، 1875۔1949؛ پادری نے ترمیم کی)۔
جب 1960 کی ابتدائی دہائی میں مَیں نے پہلی مرتبہ نجات پائی تھی تو میں روزانہ جان ویزلی کا شمارہJohn Wesley’s Journal پڑھا کرتا تھا۔ یہ بالکل اعمال کی کتاب پڑھنے کی مانند ہے۔ یہ عظیم حیات نو کے بارے میں بتاتا ہے جو ’’پہلی عظیم بیداری The First Great Awakening‘‘ کہلاتا ہے۔ میں بالکل ایک لڑکا ہی تھا، تقریباً 22 سال کی عمر کا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اُس طرح کا ایک سو سال سے کوئی حیات نو نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا، ’’اگر ایسا مسٹر ویزلی کے زمانہ میں رونما ہوا تھا تو خُدا اب بھی یہ کر سکتا ہے!‘‘ میری جہالت نے مجھے شک کرنے سے باز رکھا کہ خُدا حیات نو کو اُس چینی گرجہ گھر میں بھیج سکتا ہے جہاں کا میں ایک رُکن تھا۔ میں نے خُدا سے حیات نو بھیجنے کے لیے روزے رکھے اور دعائیں مانگیں۔ میں ہر بُدھ کی شب دعائیہ اجلاس میں حیات نو کےلیے تمام جماعت کے سامنے دعا مانگتا۔ ایک مرتبہ مجھے مرفی لم Murphy Lum نے ایک ضیافت میں کھانے پر خُدا کی برکات مانگنے کے لیے کہا۔ میں کھڑا ہوا اور تقریباً دِس منٹوں تک حیات نو کے لیے دعا مانگتا رہا! میں کھانے کے لیے دعا مانگنا بھول کر بیٹھ گیا تھا! میں نے یقیناً سارا سارا وقت حیات نو کے لیے دعائیں مانگتے رہنے سے خود کا مذاق بنوا لیا ہوگا! کچھ لوگوں نے کہا، ’’ٹھیک ہے، یہ صرف ایک لڑکا ہے۔ یہ اِس پر قابو پا لے گا!‘‘ مگر ایک صبح، کیمپ میں، میں جب کہ ابھی تک سویا ہوا ہی تھا، خُدا نے مجھے جواب دیا! میں کبھی بھی اُس قوی حیات نو کو نہیں بُھلا پاؤں گا جس نے اُس گرجہ گھر کو سینکڑوں چینی لوگوں کے اُس میں آنے اور نجات پانے سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
گزرتے سالوں کے ساتھ میں بھول گیا کہ میں نے کیسے دعا مانگی تھی۔ مگر ایک دِن ڈاکٹر لم Dr. Lum نے مجھے کہا، ’’باب، کیا تمہیں یاد ہے کہ ماضی میں 1960 کی ابتدائی دہائی میں تم نے کیسے سارا سارا وقت حیات نو کے لیے دعائیں مانگیں تھیں؟‘‘ تب مجھے یاد آ گیا۔ ڈاکٹر لم نےکہا، ’’باب تمہیں مل کیا جس کی تم نے تمنا کی تھی!‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے جب مجھے اُس پہلی مرتبہ کے لیے احساس ہوا کہ میں نے ’’سارا سارا وقت دعا مانگی‘‘ تھی اُس خُدا کی روح کے اُمڈ آنے کے لیے!
ایک اور مرتبہ، سیمنری میں بے شمار نوجوان لوگ میرے سونے والے کمرے میں خُدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ یا تو بے اعتقادے پروفیسروں کو تبدیل کر دے یا اُنہیں ہٹا دے۔ ہم میں سے بہت سے ایسا ہو جانے کے لیے روزے رکھ رہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔ آخری مرتبہ جب وہ دعائیہ اجلاس منعقد ہوا تھا تو میرے کمرے میں 100 سے اوپر طالب علم بھرے ہوئے تھے، بہت سے ہال میں تھے اور باقی کھڑکی سے باہر تھے۔ تقریباً 35 سال گزر گئے، اور میں بھول گیا کہ کیسے ہم نے روزے رکھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ پھر ایک دِن مجھے پتا چلا کہ سب سے آخری آزاد خیال پروفیسر بھی چلا گیا تھا – اور نئے پروفیسروں میں سے ہر بائبل پر یقین رکھنے والا تھا، اور اُن میں سے زیادہ تر تو اصلاح شُدہ تھے! وہ نوجوان شخص جو ہر ہفتے دعا مانگنے کے لیے میرے کمرے میں آتا تھا اُس نے ہر وقت دعا مانگی تھی! اور خُداوند نے ہماری دعاؤں کا جواب ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر دیا تھا!
کیا آپ نے جواب ملنے تک دعا کی؟
کیا آپ نے نجات دہندہ کے نام پر التجا کی؟
کیا آپ نے اُس وقت تک دعا کی جب تک خُداوند نے آپ کو جواب نہیں دے دیا،
کیا آپ نے جواب ملنے تک دعا کی؟
میں نے ایک بیوی کے لیے بہت سالوں تک انتظار کیا تھا۔ میں اب چالیس سال سے زیادہ کی عمر کا ہو گیا تھا۔ میں کسی ایسی ہستی کو نہیں جانتا تھا جو ایک پادری کی بیوی بن سکتی۔ اِس لیے میں نے ایک بیوی کے لیے دعا کرتے رہنا جاری رکھی۔ اور جی ہاں، میں نے یہاں تک کہ روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں! پھر ایک رات میں نے کمرے کے پرے نظر ڈورائی اور علییانہ Ileana کو دیکھا۔ اور خُداوند کہتا ہوا محسوس ہوا، ’’یہ ہے وہ جس کے لیے تو نے دعائیں مانگیں!‘‘کچھ لوگوں نے کہا، ’’آپ اِس لڑکی سے شادی نہیں کر رہے ہیں، کیا آپ کر رہے ہیں؟‘‘ مگر میں نے شادی کی۔ اور وہ بالکل پادری کی بیوی ہی رہی ہیں – بالکل مکمل طور پر! میں نے دِل سے سارا سارا وقت دعا کی تھی – اور خُدا نے اُس کا جواب دیا تھا۔
میں آپ کو تین باتیں اور بتاؤں گا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ میری ماں نجات پا لیں گی۔ میں نے سوچا تک نہیں تھا کہ وہ پا لیں گی۔ میں اُن کے لیے دعا کرتا رہتا تھا، مگر یہ مایوس کُن لگتا تھا۔ اِس کے باوجود میں نے دعا کرتے رہنا جاری رکھا تھا۔ میں اکثر ماں کے تبدیل ہونے کے لیے دعائیں مانگتا اور روزے رکھتا تھا۔ وہ اب 80 سال کی عمر کو ہونے کو تھیں، اور ایک ذرہ بھی نجات پانے کے قریب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں تھی۔ علییانہ اور میں نیویارک میں تھے، جہاں پر میں چند خصوصی اجلاسوں میں منادی کر رہا تھا۔ مجھے بالکل یاد ہے میں کہاں پر تھا۔ میں اُس رات عبادت کے لیے دعا مانگ رہا تھا اور روزہ رکھے ہوئے تھا۔ ایک موقع پر، میں نے اپنی ماں کے بچائے جانے کے لیے دعا شروع کر دی۔ یکدم خُداوند مجھ سے ہمکلام ہوا۔ وہ سُنائی دینے والی آواز نہیں تھی، مگر وہ تقریباً ویسی ہی لگتی تھی۔ خُدا نے مجھ سے کہا، ’’تمہاری ماں اب نجات پا لے گی۔‘‘ اپنے چہرے پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ میں نے یہاں لاس اینجلز میں ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan کو ٹیلی فون کیا۔ میں نے کہا، ’’ڈاکٹر، کیا آپ جائیں گے اور میری ماں کو مسیح کے لیے رہنمائی کریں گے؟‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’اوہ، میں وہ نہیں کر پاؤں گا!‘‘ – اُس جیسے الفاظ – کیونکہ ماں اُن پر غصے میں آ گئیں تھی جب اُنہوں نے پہلے ماں سے بات کی تھی۔ میں نے کہا، ’’آپ جائیں تو سہی، خُداوند نے بالکل ابھی مجھے بتایا ہے کہ وہ اب نجات پا لیں گی۔‘‘ طویل کہانی کو چھوٹا کرتے ہوئے، وہ گاڑی چلا کر میری ماں کو ملنے کے لیے گھر گئے اور بہت آسانی کے لیے اُن کی مسیح کے لیے رہنمائی کی! میرے لڑکے آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اِس نے اُن کی زندگی کومکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا! وہ یہاں پر گرجہ گھر میں ہر رات کو میرے ساتھ ہوتی تھیں، اپنی زندگی کے بالکل آخر تک! میں نے اپنی ماں کے لیے شروع سے آخر تک دعائیں کی تھیں! خُداوند کے فضل سے، میں نے اُس وقت تک دعا کی تھی جب تک جواب نہیں آ گیا تھا!
یہاں پر ایک اور ہے۔ ویسے یہ سب کے سب دعا اور روزے کے اوقات میں تھے۔ جی ہاں، اُن تمام میں روزے رکھنا بہت نمایاں تھا! جب میری بیوی حاملہ تھیں، ہمارا ڈاکٹر لباس پہنے میں لاپرواہ اور بُرا تھا۔ اُس نے بعد میں ڈاکٹری جاری رکھنے کا لائسنس گنوا دیا تھا۔ ہم اُس کے پاس گئے کہ وہ الٹرا ساؤنڈ کر کے بچے کو دیکھے۔ جب الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ آئی تو ڈاکٹر نے ہمیں بیٹھا لیا اور ہمیں کہا کہ بچہ بہت بُری طرح سے اپاہج ہے۔ مگر وہ ایک اور تصویر لے گا اور سوموار کے روز ہمیں حتمی جواب دے گا۔ ہم جمعہ کی اُس دوپہر گھر چلے گئے اور میں نے بہت بُری طرح سے اپاہج بچے کے خیال سے تقریباً پاگل ہوتا ہوا محسوس کیا۔ مگر، حسب عادت، میں نے دعا مانگی اور روزہ رکھا کہ یہ سچ نہیں ہوگا۔ اُس رات خُداوند میرے پاس خواب میں آئے اور کہا، ’’رابرٹ، تمہاری بیوی جڑواں بچوں کو جنم دے گی – اور اِسی نے ڈاکٹر کو کنفیوس کیا تھا۔‘‘ جب اگلی صبح ہم جاگے، تو میں نے علییانہ کو کہا، ’’پریشان مت ہو۔ تم جڑواں بچوں کو جنم دینے جا رہی ہو۔‘‘ سوموار کے روز ہم واپس گئے، اور ڈاکٹر نے ہمیں دوبارہ بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا، ’’مجھے بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جڑواں بچوں کو جنم دینے جا رہی ہے۔‘‘ اُس نے کہا، ’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ میں نے کہا، ’’خُداوند نے مجھے گذشتہ جمعہ کی رات خواب میں بتایا تھا۔‘‘ اِس طرح، دعا کے جواب میں، یہ دونوں بڑے بیٹے ہمیں بخشے گئے، مکمل اور صحت مند۔
یہاں پر آخری والی بات ہے۔ میں بے شمار اور پیش کر سکتا ہوں، مگر ہمارے پاس صرف اِس کے لیے وقت ہے۔ ماضی میں مشرق میں ایک بڑی بائبل کی کانفرس کی آخری شب تھی۔ گرجہ گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا، اور دُنیا میں سے کچھ نہایت مشہور مبلغین وہاں پر تھے۔ پادری نے مجھے اتوار کی رات کو حتمی واعظ پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ میرے پاس اگر کچھ تھا تو وہ ایک سادہ سے انجیلی بشارت کے پرچار کا واعظ تھا۔ اُس صبح میں نے ایک نوجوان شخص سے پوچھا جو اُس گرجہ گھر کا رُکن تھا کہ اُس نے کیا سوچا مجھے اُس رات کس کی منادی کرنی چاہیے۔ اُس نے جواب دیا، ’’آپ چاہے کچھ بھی کریں، ایک انجیلی بشارت کے پرچار کا واعظ مت دینا۔ پادری ہر اتوار کو انجیلی بشارت کے پرچار کے واعظ دیتا ہے، اور وہ سارے کے سارے لوگ جو آج کی رات آئیں گے پہلے سے ہی بچا لیے جائیں گے۔ اِس لیے آپ چاہے کچھ بھی کریں، نجات کے پیغام کی آج رات کو منادی مت کرنا!‘‘
میں واپس اپنے ہوٹل میں چلا گیا اور علییانہ سے کہا کہ بچوں کو لے کر کہیں باہر چلی جائیں تاکہ میں دوپہر تنہائی میں گزار سکوں۔ میرے پاس اگر کچھ تھا تو وہ ایک نہایت سادہ سے انجیلی بشارت کے پرچار کا واعظ تھا۔ میں فرش پر چہل قدمی کرتا رہا۔ میں پسینے سے شرابور ہو گیا۔ شیطان نے مجھے کہا کہ میں اُن تمام مشہور مبلغین کے سامنے خود کا مذاق بنوا لوں گا۔ میں آٓگے پیچھے چہل قدمی کرتا رہا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا! میں نے ایک اور واعظ کو تیار کرنے کی کوشش کی تھی، مگر میں تیار نہیں کر پایا تھا۔ یہ واضح دکھائی دے رہا تھا کہ مجھے وہی سادہ سے انجیلی بشارت کے پرچار کا واعظ ہی سُنانا پڑے گا۔ لہٰذا میں نے خُداوند سے دعا مانگی کہ دو یا تین لوگوں کو ہی ’’سامنے‘‘ لے آئے۔ میں نے کہا، ’’مہربانی سے خُداوند مجھے اُن بڑے بڑے مبلغین کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا!‘‘ تب خُداوند کہتا ہوا لگا، ’’کیا تم اُن کے لیے منادی کر رہے ہو یا میرے لیے؟‘‘ اِس لیے میں نے کہا، ’’خُداوندا، میں تیرے لیے منادی کروں گا، اُن کے لیے نہیں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر میں اپنا سراسر مذاق بنواؤں، میں تنہا تیرے ہی لیے منادی کروں گا۔‘‘
اُس وقت تک علییانہ اور لڑکے واپس آ گئے تھے۔ میں ابھی تک بے تابی کے ساتھ کانپ رہا تھا جب ہم گرجہ گھر پہنچے تھے۔ میں کانپا اور پسینے سے شرابور ہوا جب حمد و ثنا کے گیت گائے جا رہے تھے۔ پھر پادری نے میرا تعارف کروایا، اور اچانک میں اتنا پرسکون ہو گیا جیسے کہ میں خود اپنے گرجہ گھر میں موجود ہوں! میں نے اُس واعظ کی اپنے اندر موجود تمام تر قوت کے ساتھ تبلیغ کی۔
لمبی کہانی کو چھوٹا کرتے ہوئے، تقریباً 75 لوگ اُس رات کو نجات پانے کے لیے سامنے آئے تھے، جس میں خود پادری کا اپنا بیٹا بھی تھا – جو کہ ایک کھویا ہوا شخص تھا اور مبلغ بننے کی کوشش کر رہا تھا – اور اُس میں سے ایک بوڑھا شخص، جو اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں پر رینگتا ہوا اور چلاتا ہوا گرجہ گھر کے سامنے آیا، ’’میں کھویا ہوا ہوں! میں کھویا ہوا ہوں! میں کھویا ہوا ہوں!‘‘ تین نوعمر لڑکیاں اکٹھے گانے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ وہ آنسوؤں کے ساتھ رو پڑیں اور قرار کیا کہ وہ بھی، کھوئی ہوئی ہیں۔ اُس شام کو عبادت تقریباً 11:00 بجے رات تک جاری رہی۔ کسی نے بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔ اُنہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ اِس میں کچھ نہ کچھ غیر معمولی تھا۔ ڈاکٹر آئین پیزلی Dr. Ian Paisley کے بیٹے نے میری بیوی اور لڑکوں کو بتایا، ’’میں نے ایسی بات پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی۔‘‘ وہ دُنیا کے ایک مشہور مبلغ کا بیٹا ہے۔ اُس گرجہ گھر میں حیات نو آ چکا تھا۔ اگلے چند ہفتوں میں 500 سے زیادہ لوگوں نے گرجہ گھر میں شمولیت کی اور بچائے گئے تھے۔
شیطان نے اُس نوجوان آدمی کے ذریعے سے بات کی تھی جس نے کہا تھا، ’’آپ چاہے کچھ بھی کریں، ایک انجیلی بشارت کے پرچار کا واعظ مت دینا۔‘‘ لیکن خُدا نے شیطان کو مسترد کیا اور اُس دوپہر کو میری دعا کے جواب میں حیات نو کو بھیجا، کیونکہ میں نے روزہ رکھا تھا اور خُدا کے پیغام کو تلاش کیا تھا۔
پیارے دوستو، ہم حیات نو پا سکتے ہیں، یہ ممکن ہے۔ خُدا چند ایک لمحات میں وہ کر سکتا ہے جو ہم کئی سالوں میں نہیں کر پائے ہیں! اِس واعظ کا مسودہ گھر لے جائیں! اگلے ہفتے اِس کو کئی مرتبہ پڑھیں۔ یہ آپ کے ایمان کو بڑھائے گا! اگلے ہفتے دعا کرنے اور روزہ رکھنے کے ایک اور دِن میں ہمارے ساتھ شمولیت کریں۔ خُدا کے لیے روزہ رکھیں اور دعا کریں کہ وہ ہمارے درمیان نیچے آئے اور اُس کے پاک نام کو عزت بخشیں!
یسوع صلیب پر آپ کے گناہوں کا مکمل کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا! اُس نے آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے صلیب پر اپنا خون بہایا! وہ آپ کو زندگی بخشنے کے لیے جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا! ایمان کے وسیلے سے یسوع پر بھروسہ کریں اور وہ آپ کو نجات دلائے گا – تمام زمانوں اور تمام ابدیت کے لیے! آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: متی9:10۔15 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’کیا تم نے شروع سے آخر تک دعا کی تھی؟ Have You Prayed It Through?‘‘ (شاعر محترم جناب ولیم سی۔ پول Rev. William C. Poole، 1875۔1949؛ پادری صاحب نے ترمیم کی)۔
|