Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مجھے یہ اِختیار دو

(حیات نو پر واعظ نمبر 2)
GIVE ME THIS POWER
(SERMON NUMBER 2 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 27 جولائی، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, July 27, 2014

’’مجھے بھی یہ اختیار دو‘‘ (اعمال 8:19).

یہ الفاظ سامریہ میں ایک عظیم حیات نو کے دوران بولے گئے تھے۔ مگر میں اُس حیات نو پر تبصرہ کرنے نہیں جا رہا ہوں۔ یہ اُس موضوع سے ہمارے ذہنوں کو پرے لے جائے گا جو ہماری تلاوت ہمیں پیش کرتی ہے۔ اِس واعظ میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ فلپس سامریہ میں گیا مسیح کی منادی کی، اور اِس کے بعد ہی ایک شاندار حیات نو آیا تھا۔ اُس شہر میں تقریباً ہر کوئی ہی بدل گیا تھا۔

مگر شمعون جادوگر نہیں! جب پطرس حیات نو میں مدد کرنے کے لیے فلپس کے پاس گیا، تو شمعون اُس کے پاس آیا۔ اور شمعون نے کہا،

’’مجھے بھی یہ اختیار دو‘‘ (اعمال 8:19).

اُس نے تو یہاں تک کہ اُس اِختیار کو پانے کے لیے پطرس کو روپے تک پیش کیے! پطرس نے اُس سے کہا، ’’میں دیکھتا ہوں کہ تو شدید تلخی اور ناراستی کے بند میں گرفتار ہے‘‘ (اعمال8:23)۔ چارلس سیمیئن Charles Simeon (1759۔1836) نے کہا،

شمعون اپنے ایمان کے شعبے میں مخلص ظاہر ہوا تھا، اور اِسی لیے فلپس نے اُس کو بپتسمہ دیا تھا… اِسی لیے سچے مسیحی اُس کو ایک بھائی کی مانند سمجھتے تھے: مگر [فلپس] کو جلد ہی اُس کے دِل کی منافقت کا علم ہو گیا تھا… وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح قدرت [ایک غیرتبدیل شُدہ] کی حالت میں تھا۔ اِس ہی لیے پطرس نے اُسے اِن الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا… ’’میں دیکھتا ہوں کہ تو شدید تلخی اور ناراستی کے بند میں گرفتار ہے‘‘… گناہ کے لیے تابعداری کی حالت [میں]… گناہ کی وجہ سے سزایابی کی حالت [میں] (چارلس سیمیئن، تمام بائبل پر تفسیراتی لُبِ لُباب Expository Outlines on the Whole Bible، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، اشاعت 1955، جلد 14، صفحہ339، 340)۔

پطرس نے شمعون کو ’’اس بدکاری کے لیے توبہ‘‘ کرنے کے لیے کہا۔ مگر شمعون نے توبہ نہیں کی۔ وہ ویسا ہی رہا جیسا وہ تھا۔ اُس نے پطرس سے کہا،

’’میرے لیے خداوند سے دعا کرو کہ جو کچھ تُم نے کہا ہے وہ مجھے پیش نہ آئے‘‘ (اعمال 8:24).

ڈاکٹر میگی نے کہا،

شمعون نے بچائے جانے کے لیے نہیں کہا تھا۔ اُس نے اپنی نجات کے لیے دعاؤں کے لیے نہیں پوچھا تھا۔ اُس نے محض پوچھا تھا کہ اُن میں سے کوئی بھی ہولناک بات اُس کے ساتھ نہ ہو (جے ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن اشاعت خانے Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ 545؛ اعمال8:24 پر ایک غور طلب بات).

ڈاکٹر میگی نے کہا، ’’وہ تبدیل نہیں ہوا ہے‘‘ (ibid.، اعمال8:21پر غور طلب بات)۔ افسوسناک طور پر، کلیسیا کے آباؤں کی تحاریر ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ کبھی بھی بچایا نہیں گیا تھا۔ درحقیقت، وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ گنوسٹک Gnostic بدعت کا راہنما بن گیا تھا اور ’’کلیسیا کا سب سے بڑا دشمن‘‘ بن گیا (دی ریفارمیشن مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible، لیگونیئر منسٹریرز Ligonier Ministries، 2005، صفحہ1572؛ اعمال8:9 پر غور طلب بات)۔ اُس نے ’’اِختیار‘‘ میں یقین رکھنا جاری رکھا تھا، مگر مسیح بخود میں نہیں۔ جیسا کہ اُس نے کہا،

’’مجھے بھی یہ اختیار دو‘‘ (اعمال 8:19).

آج یہ ہم پر کس طرح سے لاگو ہوتا ہے؟

I۔ اوّل، ہمارے زمانے کے عام اعتقاد کی روحِ رواں یعنی اقدار یا کردار پلیجیئن اور گنوسٹک ہے۔

’’روحِ رواں یعنی اقدارethos‘‘ سے میری مُراد کیسے ایک شخص بچایا جا سکتا ہے، کے بارے میں وہ عام تصور ہے۔ اپنی کتاب مسیح کے بغیر مسیحیت Christless Christianity میں، ڈاکٹَر مائیکل ہارٹن Dr. Michael Horton کہتے ہیں کہٍ زیادہ تر امریکی ’’خود سے نجات پانے پر پیلیجیئن Pelagian زور کو اندرونی تجربے اور روشن خیالی پر گنوسٹک Gnostic زور کے ساتھ‘‘ شامل کر دیتے ہیں‘‘ (بیکر کُتب Baker Books، 2008، صفحہ 251)۔ اِس کا سادہ سا مطلب ہوتا ہے کہ آج لوگ سوچتے ہیں کہ وہ بچائے جانے کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں (پیلیجیئن اِزم Pelagianism)۔ جس کی اُنہیں ضرورت ہے وہ اِس بات کے ’’راز‘‘ کو سیکھنا ہے کہ کیا کہنا اور سوچنا ہوتا ہے (گنوسٹک اِزم Gnosticism)۔

میں نے پایا ہے کہ ہم اپنے گرجہ گھر میں اُن جھوٹے تصورات سے مسلسل لڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو دُنیا میں سے گرجہ گھر میں آتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ جو گرجہ گھر ہی میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، اُنہوں نے خود میں پیلجیئن اِزم اور گنوسٹک اِزم کے تصورات کو سمو لیا ہے۔

باہر سڑکوں پر چلے جائیں اور دس یا پندرہ لوگوں کے ساتھ بات کریں، اور آپ دیکھیں گے کہ یہ سچ ہے۔ اُن سے پوچھیں کہ آیا وہ بے بس گنہگار ہیں اور اُن میں سے ہر ایک آپ کو بتائے گا کہ وہ کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں یا کچھ نہ کچھ کرنے سے باز رہ سکتے ہیں جو اُنہیں بچا لے گا۔ ’’میں اپنے تئیں جو کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔‘‘ میں کسی دوسرے کے مقابلے میں کوئی اتنا بھی بُرا نہیں ہوں۔‘‘ آپ ہر وقت یہی سُنتے رہتے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہ اِس کے بارے میں جانتے بھی نہیں ہیں، مگر جس پر وہ یقین رکھتے ہیں یہاں اُس کا ایک نام ہے – پیلیجیئن اِزم۔ وہ سوچتے ہیں کہ ایک آدمی کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے، اور کچھ کرنے سے باز رہ سکتا ہے، اور یہ ہی اُس کو بچا لے گا۔ بِلاشُبہ جو کچھ بائبل کہتی ہے یہ اُس کے بالکل ہی مخالف ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’ہم اپنے قصوروں کے باعث مردہ تھے‘‘ (افسیوں 2:5).

’’اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خدا کی دی ہوئی زندگی میں اُن کا کوئی حِصّہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:18).

یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان مکمل طور پر مسخ شُدہ ہے – گناہ کا ایک غلام، ایک ایسا جو گناہ میں اپنی غلامی سے خود کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا – گناہ میں مُردہ – اور اِسی لیے جہنم میں جانے کے لیے پابہٗٔ زنجیر ہے۔ کیا آپ گرجہ گھر سے باہر اپنی زندگی میں کسی ایسے کو جانتے ہیں جو یہ یقین کرتا ہے؟ میں نہیں جانتا! ہمارے سماج میں کوئی بھی یقین نہیں کرتا کہ وہ گناہ کے غلام ہیں۔ یہاں تک کہ گرجہ گھر بھی اِس کی تبلیغ نہیں کرتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی جو کھویا ہوا ہے، بشمول اُن کے جنہوں نے گرجہ گھر میں پرورش پائی، سوچتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں یا کچھ کرنے سے باز رہ سکتے ہیں، اور یہ اُنہیں بچا لے گا۔ وہ پیلیجیئن اِسٹس Pelagianists ہیں۔ اُنہیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ وہ نااُمید تباہ حال ہیں جن کے پاس کوئی ہلکا سا موقع بھی نہیں ہے کہ خود اپنی نجات کے لیے کبھی بھی کسی بات میں شرکت کر پائیں۔

دوئم، وہ گنوسٹک ہیں۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور روشن خیال ہو سکتے ہیں، اور اِس علم کو بچائے جانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم اِس کو ہر وقت ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہمارے پاس لوگ ہوتے ہیں جو گرجہ گھر میں آتے ہیں اور مہینوں گزارتے ہیں، کبھی کبھار تو کئی سال، ’’اُس راز‘‘ کو سیکھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ جس کو استعمال کر کے اُنہیں بچانے کے لیے مسیح کو حاصل کر سکیں۔ یہ ہے جس کو ڈاکٹر ہارٹن نے ’’اندرونی تجربے اور روشن خیالی پر گنوسٹک زور‘‘ کہا۔ میں اُنہیں بتاتا ہوں، بار بار بتاتا ہوں، کہ وہ

’’سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:7).

لیکن وہ میرا یقین نہیں کرتے۔ وہ یہ سوچنا جاری رکھتے ہیں کہ یہاں کوئی نہ کوئی ’’خفیہ‘‘ گنوسٹک فارمولا ہے جس کو سیکھ کر وہ ایک مسیحی بن سکتے ہیں۔ میں تو یہاں تک کہ لوگوں کو اُن کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ روتا ہوا دیکھ چکا ہوں، سیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، جاننے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ ’’خفیہ‘‘ فارمولا جس کو بچائے جانے کے لیے وہ استعمال کر سکیں! حال ہی میں دو نوجوان لوگوں نے سوچا کہ اُنہوں نے ’’اِس کا حل تلاش کر لیا ہے۔‘‘ اُن دونوں ہی نے کہا، ’’میں نے کچھ بھی نہیں کیا – اِس لیے میں جانتا ہوں کہ میں بچا لیا گیا ہوں۔‘‘ میں نے اُن سے چند ایک سوالات پوچھے اور یہ پایا کہ بِلاشُبہ، اُنہوں نے واقعی میں کچھ نہیں کیا تھا! اُنہوں نے سوچا تھا کہ وہ نجات کے لیے گنوسٹک راز تھا۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ ایک اصلاح شُدہ عقیدہ نہیں تھا، بائبل کا فلسفہ نہیں تھا۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ ’’خاموشیت quietism‘‘ کی بدعت تھی، جس کے خلاف اِس قدر شدت سے اٹھارویں صدی میں ویزلی Wesley اور وائٹ فیلڈ Whitefield نے منادی کی تھی۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ یہاں پر کچھ ہے جو اُنہیں کرنا چاہیے۔ اُنہیں مسیح پر یقین کرنا چاہیے۔ بائبل اِس بات کو اِس قدر واضح کرتی ہے،

’’خداوند یسوع مسیح پر ایمان لا، تو تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال 16:31).

’’جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا لیکن جو بیٹے پر ایمان نہیں لاتا اُس پر پہلے ہی سزا کا حکم ہو چُکا ہے‘‘ (یوحنا 3:18).

مگر وہ دونوں ہی اپنے چہروں پر پریشانی کا تاثر لیے ہوئے چلے گئے، یہی سوچتے ہوئے کہ وہ کسی نہ کسی دِن گنوسٹک ’’راز‘‘ سیکھ ہی لیں گے! اِس بات نے میرا دِل کس قدر توڑا! یسوع اُن سے محبت کرتا ہے۔ اُنہیں صرف اُس پر یقین ہی تو کرنا ہے۔ مگر وہ تو ایک خُفیہ فارمولا ڈھونڈنا جاری رکھے ہوئے ہیں! وہ تو یسوع کو ایک قوت یا طاقت کے طور پر لیتے ہیں، جیسے شمعون تھا، جس نے کہا، ’’مجھے بھی یہ اِختیار دو‘‘ (اعمال8:19)۔ شمعون گنوسٹک ہی کے طور پر چلا گیا۔ اصلاح کرنے والا مطالعۂ بائبل کہتا ہے،

گنوسٹک اِزم (جو کہ یونانی لفظ گنوسس gnosis سے ہے، اس کا مطلب ’’علم یا شعور‘‘ ہوتا ہے) تعلیم دیتی ہے کہ ایک شخص نجات گنہگاروں کے لیے مسیح کی موت کی مستحقیت سے نہیں پاتا ہے بلکہ مخصوص علم و شعور سے پاتا ہے… (اصلاح کرنے والا مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible، ibid.)۔

جب لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصورات سماتے ہیں تو یہ انسانی طور پر ممکن ہے کہ ان کو ذہنوں میں سے نکالا جا سکے۔ وہ ہسپانوی کاتھولک لوگوں کی مانند ہوتے ہیں جو مسیح کے بارے میں ایک منصف (کرسٹو Cristo) کے طور پر سوچتے ہیں بجائے اِس کے کہ ایک محبت کرنے والے نجات دہندہ کے طور پر سوچیں! ایک بزرگ کاتھولک خاتون تو واقعی میں غصے میں گرجہ گھر سے باہر چلی گئیں جب میں نے کہا کہ یسوع ایک منصف نہیں تھا، بلکہ ایک محبت کرنے والا نجات دہندہ تھا! اپنے ذہن کو بدلنے کے بجائے وہ یسوع سے خوفزدہ رہنا جاری رکھے گی! اور ایسا ہی زیادہ تر انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے آج کل ہوتے ہیں! وہ یسوع کے بارے میں ایک گنوسٹک ’’قوت‘‘ کے طورپر سوچنا جاری رکھیں گے جس کو وہ راز سیکھنے کے ذریعے سے قابو کر سکتے ہیں بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے بارے میں ایک نجات دہندہ کے طور پر سوچیں جو کہ فوری طور پر اُن کے گناہوں کو معاف کر دے گا اگر وہ محض اُس میں یقین کر لیں! کس قدر افسردہ بات ہے!

اور آپ کو معلوم ہے، یہ شیطانی ہوتا ہے! ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا،

کوئی وقت تھا کہ [شیطان] انفرادی مسیحیوں پر توجہ مرکوز کرتا تھا، یا مسیحی کلیسیا کے حصوں پر، کبھی کبھار تو تقریباً ممالک پر (مسیحی سپاہی، افسیوں6:10۔13 The Christian Soldier, Ephesians 6:10-13، دی بینر اور ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1977، صفحہ 302)۔

میں یقین کرتا ہوں کہ امریکہ اور مغرب شیطان کی قوت کے تحت ہیں، اور یہاں تک کہ ہمارے بہترین گرجہ گھر شیاطین کے فلسفوں سے شدید حد تک متاثر ہو چکے ہیں۔ پولوس رسول نے کہا،

’’پاک روح صاف طور پر فرماتا ہے کہ آنے والے دِنوں میں بعض لوگ مسیحی ایمان سے منہ موڑ کر جنسی عمل کے لیے بھٹکانے والی [گمراہ کرنے والی] روحوں اور شیاطین کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہونے لگیں گے (1۔ تیموتاؤس 4:1).

میں یقین کرتا ہوں کہ پیلیجیئن اور گنوسٹک نظریات، جو کہ انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی مسیحیت میں اِس قدر زورآور ہیں، بالکل وہی ہیں – ’’شیاطین کی تعلیمات۔‘‘

’’ایمان کا کلام Word of Faith‘‘ نامی تحریک ٹی۔ ڈی۔ جیکس T. D. Jakes، بینی ھِن Benny Hinn، جوائس میئر Joyce Meyer اور جوئیل آسٹن جیسے بڑے ناموں کے ذریعے سے بڑھ رہی ہے۔ وہ دُنیا کے کونے کونے میں خوشحالی کی خوشخبری پھیلا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر بھی متاثر ہیں، اکثر اِس کو جانے بغیر ہی۔ ڈاکٹر ہارٹن Dr. Horton نے کہا کہ ’’خوشحالی کے پیغام اور قدیم گنوسٹک اِزم کے درمیان نمایاں مشہابتیں‘‘ ہیں (ibid.، صفحہ67)۔ اُنہوں نے کہا کہ بے شمار گرجہ گھر اب پیلجیئن اپنی مدد آپ اور گنوسٹک خود کو خُدا منوانے کے [مجموعے]‘‘ کی منادی کر رہے ہیں (ibid.، صفحہ68)۔ ’’[خُدا] نے کچھ قوانین اور اصول بنائے ہوئے ہیں وہ پانے کے لیے جو آپ اپنی زندگی میں چاہتے ہیں، اور اگر آپ اُن کی پیروی کریں، تو آپ وہ پا سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں‘‘ (ibid.)۔ یہی، بِلاشُبہ، گنوسٹک اِزم اور پیلیجیئن اِزم کے بدعتوں کا انتہائی روح رواں ہے۔ یہ ہی ہے جو عمومی طور پر لوگ یقین کرتے ہیں – اگر تم اصول سیکھ لیتے ہو، اور صحیح الفاظ کہتے ہو، تو تم وہ پا سکتے ہو جو تم چاہتے ہو – بشمول نجات کے۔

ہر نشریات کے اختتام پر جوئیل آسٹن کیمرے کی طرف دیکھتے ہیں اور ٹیلی ویژن کو دیکھنے والے لوگوں کو بتاتے ہیں،

صرف کہیں، اے خُداوند یسوع، میں اپنے گناہوں کے لیے توبہ کرتا ہوں۔ میرے دِل میں آ۔ میں تجھ کو اپنا خُداوند اور نجات دہندہ بناتا ہوں۔‘‘ دوستوں اگر آپ نے وہ سادہ سی دعا مانگ لی ہے تو ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔

مسٹر آسٹین نے بغیر مسیح کے ایک واعظ دیا اور اوپر پیش کی گئی دعا جس میں کہیں بھی خوشخبری کا تزکرہ نہیں تھا! صلیب پر گنہگاروں کے لیے متبادل کے طور پر مسیح کے مرنے کے بارے میں کوئی تزکرہ نہیں، نا ہی تو واعظ میں اور نہ ہی دعا میں! کھوئے ہوئے شخص کے گناہ کو مسیح کے خون سے پاک صاف کرنے کے بارے میں کوئی تزکرہ نہیں، نا ہی تو واعظ میں اور نا ہی دعا میں! دوسرے لفظوں میں کہیں پر بھی خوشخبری کا سرے سے کوئی تزکرہ ہے ہی نہیں (1۔ کرنتھیوں15:1۔4)۔ اِس کے باوجود آسٹین کہتے ہیں، ’’اگر آپ نے وہ سادہ سی دعا مانگ لی ہے تو ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔‘‘ یہاں پر صرف دو ممکنات ہیں – یا تو آسٹین ایک مکمل بہروپیا ہیں – یا (زیادہ بہتر طور پر کہا جائے تو) اُنہوں نے جنسی عمل کے لیے بھٹکانے والی [گمراہ کرنے والی] روحوں اور شیاطین کی تعلیمات کی جانب‘‘ متوجہ کرایا ہے۔

دونوں ہی طرح سے، پیلیجیئن اِزم اور گنوسٹک اِزم ساری دُنیا میں شیطان کے ذریعے سے پھیلائی جا چکی ہے – خاص طور پر ریاست ہائے متحدہ United States میں۔ اور آپ نے اِس پر یقین کیا ہے! یہی وجہ ہے کہ آپ بچائے نہیں گئے ہیں!

II۔ دوئم، آپ کو اُن دونوں شیطانی تعلیمات سے نجات پانی چاہیے ورنہ آپ کبھی بھی بچائے نہیں جا سکیں گے!

پہلی جھوٹی تعلیم پیلیجیئن اِزم ہے۔ یہ وہ تصور ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں یا کچھ کرنے سے باز رہ سکتے ہیں، اور یوں بچائے جا سکتے ہیں۔ یہ اِس قدر واضح بدعت ہے کہ میں اِس پر بات کرنے سے ہی تقریبا! شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ مگر آپ میں سے بے شمار جو مجھے آج رات سُن رہے ہیں اِس پر یقین کرتے ہیں! کیا آپ نے بائبل میں یہ آیات نہیں پڑھی ہیں؟

’’کیونکہ تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے: اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کرسکے‘‘ (افسیوں 2:8،9).

آپ ایسا کچھ نہیں کرتے جو آپ کو بچا سکتا ہے! کچھ بھی نہیں! ایسا کچھ نہیں جس کو کرنے سے آپ باز رہیں جو آپ کو بچا سکتا ہے! کچھ بھی نہیں! یہاں صرف ایک ہی بات ہے جس کے لیے کھوئے ہوئے گنہگاروں کو کرنے کا حکم ملا، اور وہ ہے،

’’خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال 16:31).

آپ کہتے ہیں، ’’مگر یہ تو نہایت آسان ہے!‘‘ جی ہاں، مگر یہ ہی وہ ایک بات ہے جو ایک کھویا ہوا گنہگار نہیں کرے گا – اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اُس سے کیسے ہی التجا کریں! اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اِس کی منادی اُس سے کتنی مرتبہ کریں! کھویا ہوا گنہگار مسیح کو مسترد کرتا ہے اور کچھ اور ہی کرتا ہے۔ وہ اِس قدر جامع طور پر خود اپنی اہلیت پر یقین کرتا ہے (پیلیجیئن اِزم) کہ وہ ہر مرتبہ یسوع پر یقین کرنے سے انکار کرے گا۔ اِس کے بجائے، وہ بائبل کی ایک آیت پر یقین کر لے گا، یا یسوع کی ایک خاصیت پر یقین کر لے گا، مگر یسوع بخود پر نہیں یقین کرے گا۔ وہ یسوع بخود پر یقین نہیں کرے گا! کیوں؟ کیونکہ پیلیجیئن اِزم ایک جھوٹ ہے، یہی وجہ ہے! خُداوند کے فضل کے بغیر کھویا ہوا گنہگار کبھی بھی یسوع کے پاس نہیں آئے گا اور تنہا اُسی میں بھروسہ نہیں کرے گا! وہ ہر مرتبہ یسوع بخود کو مسترد کر دے گا – کیونکہ وہ مکمل طور پر مسخ شُدہ ہوتا ہے!

’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ (افسیوں 2:1).

دوسری جھوٹی تعلیم گنوسٹک اِزم ہے۔ اِس کی خصوصیت اِس تصور سے ہے کہ خُدا شخصیت سے محروم ایک قوت یا طاقت ہے جس کو حسبِ منشا استعمال کیا جاتا ہے یا اُس کے ذریعے سے استعمال ہوتا ہے جن کے پاس خصوصی عمل (یونانی لفظ ’’گنوسِس gnosis‘‘ کا مطلب ’’علم و شعور‘‘ ہوتا ہے)۔ یہ تصور ساری کی ساری انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی سوچ میں دوڑتا ہے۔ ڈاکٹر ہارٹن کہتے ہیں کہ انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والی گنوسٹک اِزم نے ہمیں ’’خود ہمارے اندر جھانک کر ہمارے خود کے تصورات سے ایک بُت تخلیق کرنے پر جس کو ہم خود حسب منشا استعمال اور قابو کر سکے مجبور کر دیا ہے‘‘ (ibid.، صفحہ 167)۔

یہاں تک کہ آج نوجوان لوگ اِس کا احساس کیے بغیر ہی ایسا کرتے ہیں۔ وہ یسوع کو ایک تصوراتی ’’طاقت‘‘ بنا ڈالتے ہیں جس کو وہ حسب منشا چلا سکتے ہیں۔ کیا بالکل ایسا ہی شمعون جادوگر نے نہیں کیا تھا؟ اُس نے کہا تھا، ’’مجھے بھی یہ اِختیار دو‘‘ (اعمال8:19)۔ اِس لیے خُدا صرف ایک ’’اختیار‘‘ تھا جس کو انسان کے ذریعے سے حاصل کیا اور بخشا جا سکتا تھا۔

یہ گنوسٹک زور ’’سفید جادوگری‘‘ کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ کالے جادو میں جادوگر مخصوص الفاط بُری روحوں کو حسب منشا کام میں لانے اور قابو کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نام نہاد کہلائے جانے والے ’’سفید جادو‘‘ میں جادوگر نیک روحوں کو حسب منشا کام میں لانے کے لیے مخصوص الفاظ، منتر یا دعائیں استعمال کرتا ہے – یہاں تک کہ خُدا۔ غور کریں کہ جوئیل آسٹین کی ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ اصل میں سفید جادو کا ایک منتر ہے،

صرف کہیں، اے خُداوند یسوع، میں اپنے گناہوں کے لیے توبہ کرتا ہوں۔ میرے دِل میں آ۔ میں تجھ کو اپنا خُداوند اور نجات دہندہ بناتا ہوں۔‘‘ دوستوں اگر آپ نے وہ سادہ سی دعا مانگ لی ہے تو ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔

اگر آپ وہ الفاظ کہتے ہیں تو قوت آپ کے دِل میں دوڑنے لگتی ہے! آپ اُن الفاظ کو کہنے کے ذریعے سے خود کو نئے سرے سے جنم دلوا سکتے ہیں! یہ خالص گنوسٹک اِزم ہے! یہ خالص سفید جادوگری ہے! اِس کا نام لیں اور دعویٰ کریں! یہ ایمان کے کلام کا پیغام ہے! اِس کا نام لیں اور اِس کا دعویٰ کریں! یہ تمام کا تمام انجیلی بشارت کے پرچار میں رچا بسا ہوا ہے، اور یہ سفید جادو ہے! یاد رکھیں کہ شمعون ایک ساحر تھا، ایک جادوگر (اعمال8:9)، جو گنوسٹک اِزم کے آباؤں میں سے ایک تھا! اِس لیے اُس نے کہا، ’’مجھے بھی یہ اِختیار دو۔‘‘

نتیجہ

یسوع مسیح ایک ’’اِختیار‘‘ نہیں ہے جس کو کہ آپ قابو میں کر سکتے ہیں یا حسب منشا کام چلا سکتے ہیں یا استعمال کر سکتے ہیں! وہ ایک آدمی ہے، انسانی گوشت کا بنا ہوا۔ وہ آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا۔ آپ ’’حل تلاش نہیں کر سکتے‘‘ یا ’’سیکھ‘‘ نہیں سکتے کہ اُسے [یسوع کو] آپ کو بچانے کے لیے کیسے ’’حاصل کیا‘‘ جائے! آپ اپنی باقی تمام زندگی کے لیے کیسے بچائے جانے کا ’’راز‘‘ سیکھنے کے لیے کوشش کر سکتے ہیں – مگر آپ تب بھی کھوئے ہوئے ہی رہیں گے، جیسے شمعون جادوگر تھا۔ آپ کو مسیح کے پاس ایک گنہگار کے طور پر آنا چاہیے جو اِس کا ’’حل تلاش‘‘ نہ کر سکتا ہو۔ آپ کو اُس کے سامنے گِر پڑنا چاہیے اور اُسی میں یقین کرنا چاہیے۔ آپ کو صلیب کے مسیح کے وسیلے سے گناہ سے بچایا جانا چاہیے! آپ کو اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے پاک صاف ہو جانا چاہیے۔ گناہ سے نجات پانے کا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے! اِس سے زیادہ سیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے! جی نہیں، سیکھنے کے لیے کوئی ’’خُفیہ چابی‘‘ یا مخصوص الفاظ نہیں ہیں! ’’خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا تو تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال16:31)۔

آپ نے یسوع میں یقین کیوں نہیں رکھا ہے؟ اِس کا جواب نہایت سادہ ہے۔ آپ کبھی گناہ کی سزایابی میں رہے ہی نہیں ہیں! آپ کے گناہ نے آپ کو کبھی بھی پریشان نہیں کیا اور آپ کو رات بھر جگائے نہیں رکھا! آپ کا گناہ سے بھرپور دِل کبھی بھی آپ کو گھناؤنا دکھائی نہیں دیا!

گناہ سے بھرپور دِل کی سزایابی کے بغیر کوئی بھی حقیقی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ جب تک ایک آدمی شدت کے ساتھ اپنے گناہ سے بھرپور دِل کے لیے پریشان نہیں ہوگا وہ کبھی بھی اپنے لیے یسوع کی ضرورت کو نہیں دیکھ پائے گا۔

لہٰذا، ہم حیات نو اور حقیقی تبدیلیوں کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ مگر اپنی دعاؤں میں ہم کسں موضوع پر زور دیں؟ کیا ہم محض دعائیں کر رہے ہیں، ’’اے خُدا، مذید اور لوگوں کو اندر لا‘‘ – یا ’’اے خُدا، حیات نو کو بھیج دے؟‘‘ اگر ہم کر رہے ہیں، تو پھر ہم بالکل اُسی بات کے لیے جس کی ضرورت ہے دعائیں نہیں مانگ رہے ہیں۔ ہم محض ایک عمومی سی، مبہم دعا مانگ رہے ہیں۔ آپ جو دعا میں مانگتے ہیں خُداوند بخشتا ہے۔ اگر دعا عام سی ہوتی ہے، تو آپ کو عام طور پر کچھ بھی نہیں ملتا ہے! آئیے اُس ایک بات کے لیے دعا مانگیں جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے – گناہ سے بھرپور ایک دِل رکھنے کی سزایابی۔ یہ میرے ساتھ کہیں – ’’ گناہ سے بھرپور ایک دِل رکھنے کی سزایابی۔‘ بس یہی ہے! یہی ہے جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے! یہی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے کہ خُدا کا روح کرے! جب تک آپ ایک گناہ سے بھرپور دِل رکھنے کی سزایابی میں نہیں آتے تب تک خوشخبری مٹیالی اور غیرواضح دکھائی دے گی! حقیقی نہیں لگے گی!

ہم اِس مقصد کے لیے اگلے ہفتے کو شام 5:00 بجے تک روزہ رکھنے اور دعا مانگنے جا رہے ہیں۔ پھر ہم یہاں گرجہ گھر میں چند ایک کچھ اور دعاؤں اور اکٹھے کھانا کھانے کے لیے آئیں گے۔ یہی ہے جس کے لیے ہمیں روزہ رکھنے اور دعا مانگنے کی ضرورت ہے – ’’گناہ سے بھرپور دِل رکھنے کی سزایابی۔‘‘ جب خُداوند ایسا کرتا ہے تو ہم زیادہ لوگوں کو یسوع پر بھروسہ کرتے ہوئے دیکھیں گے! جب ایسا ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے ساتھ ایک دم ہوگا تو ہم ایک حیات نو کو دیکھیں گے! آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل چیعن Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: اعمال8:18۔24 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’رحم کی گہرائی! کہیں ایسی ہو سکتی ہے؟ Depth of Mercy! Can There Be?‘‘ (شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔ 1788؛ پادری نے ترمیم کیا)۔

لُبِ لُباب

مجھے بھی یہ اِختیار دو

(حیات نو پر واعظ نمبر2)
GIVE ME THIS POWER
(SERMON NUMBER 2 ON REVIVAL)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’مجھے بھی یہ اِختیار دو‘‘ (اعمال8:19)۔

(اعمال8:23، 24)

I۔ اوّل، ہمارے زمانے کے عام اعتقاد کی روحِ رواں یعنی اقدار یا کردار پلیجیئن اور گنوسٹک ہے، افسیوں2:5؛ 4:18؛ 2۔تیموتاؤس3:7؛ اعمال16:31؛ یوحنا3:18؛ 1۔تیموتاؤس4:1 .

II۔ دوئم، آپ کو اُن دونوں شیطانی تعلیمات سے نجات پانی چاہیے ورنہ آپ کبھی بھی بچائے نہیں جا سکیں گے! افسیوں2:8، 9؛ اعمال16:31؛ افسیوں2:1؛ اعمال8:9 .