اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
تنہائی اور رفاقتLONELINESS AND FELLOWSHIP ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش 2:18). |
ایک امریکہ معاشریاتی معائنہ American Sociological Review (جون، 2006) کے مطالعہ میں کہا گیا کہ آج نوجوان لوگوں کے چند ہی دوست ہوتے ہیں – بیس سال پہلے جتنے ہوتے تھے اُس کے مقابلے میں انتہائی ہی کم۔ رپورٹ میں کہا گیا، ’’وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ایسا کوئی نہیں ہے کہ جس کے ساتھ وہ اہم معاملات پر بات چیت کر [سکیں] تقریباً تین گناہ ہو گئے ہیں… اگر ہم فرض کر لیں کہ [دوستی] اہم ہے (اور بہت سے ماہرین عمرانیات ایسا سوچتے ہیں)، تو گذشتہ دو دہائیوں میں ایک بڑی سماجی تبدیلی ظاہر ہو جانی چاہیے تھی۔ اُن لوگوں کی تعداد جن کے پاس اُن کے اہم معاملات کے بارے میں اُن سے بات کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہے ڈرامائی طور پر گھٹ چکی ہے‘‘ (ibid.، صفحات353، 371)۔
یہ رپورٹ افشا کرتی ہے کہ ہمارے زمانے میں تنہائی ایک بڑھتا ہوا مسٔلہ ہے۔ اور رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 18 سے 39 سال کی عمروں کے نوجوان لوگ، ’’آبادی کے دوسرے گروہوں کے مقابلے میں‘‘ زیادہ نزدیکی دوستوں کو کھو چکے ہیں‘‘ (ibid.، صفحہ371)۔
یوں، تنہائی کے مسٔلے سے نوجوان لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وہ تمام گروہوں میں تنہا ترین ہیں۔ میرے خیال میں سبز دِن کا گیت Green Day’s song ’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ Boulevard of Broken Dreams‘‘ کی بہت زیادہ شہرت کی وجہ یہی ہے۔ سالوں تک اِس کو ریڈیو پر سُنا جاتا رہا ہے، اور اُس شو کا حصہ بن گیا جو براڈوے Broadway پر دکھایا جاتا تھا اور پھر ایک سڑک پر دکھائے جانے والے شو کے طور پر پھیل گیا جو دو مہینے پہلے ہی ختم ہوا۔ حالانکہ میں دُنیاوی موسیقی کی تجویز نہیں دیتا، میرے خیال میں اُس شدید مشہور گیت کی شاعری اُس ہولناک تنہائی کو آشکارہ کرتی ہے جو بے شمار نوجوان لوگ آج محسوس کرتے ہیں۔ وہ گیت کہتا ہے،
میں تنہا راہ پر گامزن ہوں
وہ واحد شخص جس کو میں نے کبھی جانا تھا
نہیں جانتا یہ کہاں جاتا ہے
مگر یہ میرے لیے گھر ہے اور میں تنہا چلتا ہوں
میں اِس خالی سڑک پر چلتا ہوں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ پر
جہاں پر شہر سو جاتا ہے
اور واحد میں ہی تنہا ہوں اور میں تنہا ہی چلتا ہوں…
میں تنہا چلتا ہوں۔ میں تنہا چلتا ہوں۔ میں تنہا چلتا ہوں۔
(سبز دِن Green Day، ’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ Boulevard of Broken Dreams،‘‘ 2004)۔
کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا؟ اُس گیت میں واضح کیے گئے دِل کو توڑ دینے والے احساس کی تنہائی کا تجربہ آج بہت سے نوجوان لوگ کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تقریباً دس سالوں تک ریڈیو پر اِس قدر شہرت یافتہ رہا ہے۔ وہ گیت جو کچھ ماہرین عمرانیات نے اُس رپورٹ میں ہمیں بتایا کُلی طور پر اُس کی عکاسی کرتا ہے۔ کیا آپ نے کہا تنہا محسوس کیا؟ بہت سے نوجوان لوگوں نے تنہا محسوس کیا۔
مگر خُدا نہیں چاہتا کہ آپ تنہا رہیں۔ بہت دور ماضی میں تاریخ کے آغاز پر خُدا نے کہا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش 2:18).
اِس تلاوت سے ہم کلام مقدس کی دو اہم سچائیوں کو سیکھتے ہیں۔
I۔ اوّل، خُدا نے کہا، آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔‘‘
بائبل کا شروع کا ہی ابتدائی باب کہتا ہے،
’’اور خدا نے جو کچھ بنایا تھا اس پر نظر ڈالی اور وہ بہت ہی اچھا تھا‘‘ (پیدائش 1:31).
خُدا نے ہر وہ چیز جو اُس نے تخلیق کی تھی اُس پر نظر ڈالی اور کہا، ’’یہ بہت اچھا تھا۔‘‘ برگشتگی سے پہلے دُنیا ایک مکمل جنت تھی۔ گناہ نے ابھی تک انسان اور ماحول کو تباہ نہیں کیا تھا۔ انسان کو تخلیق کیا گیا تھا اور اُس دُنیا میں رکھا گیا تھا جہاں پر سب کچھ ’’بہت اچھا تھا۔‘‘ اور اِس کے باوجود کچھ نہ کچھ کمی رہ گئی تھی، یہاں تک کہ اُس جامع جگہ میں جو ’’باغِ عدن‘‘ کہلاتی تھی۔ آدم تنہا تھا۔ اور خُدا نے کہا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں…‘‘ (پیدائش 2:18).
ڈاکٹر جے۔ اُوسولڈ سینڈرز Dr. J. Oswald Sanders نے کہا، ’’بائبل کے اندراج سے وثوق کے ساتھ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی اصلی حالت میں، آدم شکل صورت اور ذہانت میں کامل تھا… مگر حالانکہ وہ خُدا کے ہاتھوں سے کامل آیا تھا، آدم پھر بھی نامکمل اور غیرمطلق تھا۔‘‘ وہ تنہا تھا۔ اور وہ تنہائی میں تھا۔ (جے۔ اُوسولڈ سینڈرز، ڈی۔ ڈی۔ J. Oswald Sanders, D.D.، تنہائی کا سامنا کرنا Facing Loneliness، ڈسکوری ہاؤس پبلیشرز Discovery House Publishers، 1988، صفحہ14)۔
ویبسٹر کی لُغت Webster’s Dictionary تنہائی کی تعریف بطور ’’ایک تنہا حالت… تنہا ہونے پر ناخوش ہونا، دوستوں کے لیے چاہت کرنا‘‘ کرتی ہے۔ یہ انتہائی لفظ ’’تنہا‘‘ منفی ہے۔ لفظ ’’تنہا‘‘ ہمیں اُداسی محسوس کراتا ہے۔ ہماری تلاوت میں ’’تنہا‘‘ کا یونانی لفظ نے ترجمہ کیا جس کا مطلب ہوتا ہے ’’علیحدگی‘‘ (سٹرانگ کا ایگسازٹیو کنکورڈینس Strong’s Exhaustive Concordance، نمبر909)۔
’’علیحدگی‘‘ تنہائی کے سبب کی جڑ ہے۔ آج کل نوجوان لوگ اپنے والدین کی طلاق میں علیحدگی سے اکثر ہولناک جذباتی کُھلبلی کا تجربہ کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان لوگ تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُن کے والدین ایک سے دوسری جگہ بدلتے رہتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سے والدین سارا وقت لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے والدین اپنی نوکری میں اِس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ سے نوجوان لوگ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تنہائی اکثر آتی ہے جب آپ ہائی سکول یا کالج سے تعلیم مکمل کرتے ہیں – اور اپنے ہم جماعتوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ کسی طور بھی ای میل اور ’’مائے سپیس‘‘ اور ’’فیس بُک‘‘ کی ویب سائٹیں حقیقی دستوں کی جگہ نہیں لے پاتیں۔ یہ یوں لگتا ہے جیسے کہ آپ ایک اصلی شخص سے باتیں کرنے کی بجائے ایک مشین سے ہمکلام ہیں۔
آپ کھیل کی ایک تقریب پر جا سکتے ہیں، یا ایک فلم پر، یا ’’ایک ناچ گانے کی تقریب میں،‘‘ یا ایک شاپنگ مال میں جہاں پر سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں – اور اِس کے باوجود آپ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ آپ میں اور دوسروں کے درمیان ایک ’’علیحدگی‘‘ ایک ’’تقسیم‘‘ ہوتی ہے۔ وہاں پر شاید آپ کے اردگرد سینکڑوں ہوں، مگر آپ پھر بھی تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی آپ کو نہیں جانتا اور کوئی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ ڈاکٹر سینڈرز نے کہا،
ہمارے شفیق و مہربان اور دولتمند مغربی معاشرے میں، جہاں پر زیادہ تر لوگ اپنی خواہش کو مطمئین کر لیتے ہیں، یہ ناقابل وضاحت لگتا ہے کہ اِس قدر زیادہ لوگ تنہائی کے کوڑوں کے ستم رسیدہ ہوتے ہیں… اِس اثر کو پیدا کرنے میں بہت سے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ زمین پر اور ہوا میں بے مثل [تحریک] نے اِس رجحان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہر سال، شہری قصبوں [شہر میں] میں بسنے والی بیس فیصد آبادی اپنی جگہ بدل لیتی ہے۔ اِس کے [سبب سے] خاندانی گروہوں کا ٹوٹنا ہوتا ہے اور سماج کی روح کی نشوونما میں رخنہ اندازی ہوتی ہے اور [دیرپا] دوستیوں کے پنپنے میں رکاوٹ ہوتی ہے… متضاد بات، دُنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادیاں – ایک جدید مظہر جس نے دس لاکھ سے بھی زیادہ شہریوں کے 300 سو شہروں کو جنم دیا ہے – جو کہ لوگوں کو جسمانی طور پر نزدیک تر اکٹھے زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اِس سے بھی بہت زیادہ سماجی علیحدگی کا عمل ہوتا ہے۔ 1982 میں لی گئی مردم شماری کے مطابق چین میں صرف تقریباً لوگوں کی بیس فیصد آبادی [ایک] شہر میں رہتی ہے… 1986 تک یہ تناسب یکدم بڑھ کر سینتیس فیصد ہو گیا… جو [بڑے] شہر ہیں اُن میں رفاقت کے بجائے خوف اور شک کی خصوصیات زیادہ پائی جاتی ہیں (جے۔ اُوسولڈ سینڈرز J. Oswald Sanders، ibid.، صفحات 17۔18)۔
ایک نوجوان شخص، جس نے افریقہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں انگلستان کے ایک بڑے شہر میں یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے چھوڑا، اِس کے بارے میں بتاتا ہے۔ اُس نے کہا،
اپنے وطن میں، میں چلتے ہوئے اپنی نظروں کو بُلند رکھتا تھا، جس سے سڑک پر میری طرف آتے ہوئے لوگوں کی نظروں سے نظریں ملتیں – پڑوسی، خاندان کے لوگ، دوست۔ ہم ایک دوسرے کو بُلاتے، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے۔ [مگر] یہاں برطانیہ میں میں آپ کی سڑکوں پر چلتا ہوں۔ لوگوں کی نظریں میری نظروں سے نہیں ملتیں۔ وہ دوسری جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، میری نظروں سے منہ چُراتے ہیں۔ کوئی بھی مجھے سلام نہیں کرتا۔ کوئی بھی بُلاتا نہیں ہے۔ ہر کوئی تیزی میں اور [خاموشی سے] نکلتا ہوا دیکھائی دیتا ہے (ibid.، صفحہ21)۔
کیا آپ بھی یہاں لاس اینجلز میں کبھی کبھی ایسا ہی محسوس نہیں کرتے؟ اور اِس کے باوجود خُدا نہیں چاہتا کہ آپ تنہا ہوں۔ ہماری تلاوت کہتی ہے،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں…‘‘ (پیدائش 2:18).
’’علیحدگی‘‘ اور ’’تقسیم‘‘ خُدا کی نظروں میں اچھی نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ آپ علیحدگی میں اور تنہا ہوں۔
II۔ دوئم، خُدا نے کہا، ’’میں ایک مدد گار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو۔‘‘
خُدا نہیں چاہتا تھا کہ آدم تنہا رہے۔ پیدائش2:18 کے بقایا حصے کو سُنیں۔
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں؛ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش 2:18).
خُدا نہیں چاہتا تھا کہ پہلا آدمی تنہا رہے، اِس لیے اُس نے ’’اُس کی مانند ایک مدد گار‘‘ تخلیق کیا۔ ڈاکٹر جان ایچ۔ سیلھیمر Dr. John H. Sailhamer کہتے ہیں کہ یونانی الفاظ نے ’’اُس کی مانند ایک مدد گار‘‘ کا ترجمہ کنگ جیمس نسخۂ بائبل KJV میں یوں کیا ’’[اُس کے لیے] ایک موزوں مدد گار شریک حیات کا عام احساس ہوتا ہے‘‘ (جان ایچ۔ سیلھیمر، پی ایچ۔ ڈی۔ Dr. John H. Sailhamer, Ph.D.، تبصرۂ بائبل کی تفسیر The Expositor’s Bible Commentary میں، ڈاکٹر فرینک ای۔ گیبلئیعن Dr. Frank E. Gaebelein، جنرل ایڈیٹر، ریجنسی ریفرینس لائبریری، 1990، جلد دوئم، صفحہ18)۔ ڈاکٹر سیلھیمر نے پھر کہا، ’’تحریر میں بیان کے عمل میں یہ بات مضمر ہے کہ… مرد کی ضرورت میں عورت کی مدد شامل ہوتی ہے۔ یہ اچھا نہیں ہے کہ اُس کو تنہا چھوڑ دیا جانا چاہیے‘‘ (ibid.)۔ ڈاکٹر جان گِل Dr. John Gill نے نشاندہی کی کہ اُس جملے، ’’میں ایک مدد گار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ کا مطلب ہوتا ہے،
کوئی ایسا جو زندگی کے تمام معاملات میں اُس کی مدد کرے (جان گِل، ڈی۔ ڈی۔ John Gill, D. D.، پرانے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the Old Testament، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد اوّل، صفحہ 19)۔
اب اِس کا گہرائی میں مطلب افسیوں5:31۔32 میں پیش کیا گیا ہے۔
’’اِسی سبب سے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے اور وہ دونوں مل کر ایک تن ہوں گے۔ یہ راز کی بات ہے تو بڑی گہری لیکن میں سمجھتا ہُوں کہ یہ مسیح اور کلیسیا کے باہمی تعلق کی طرف اِشارہ کرتی ہے‘‘ (افسیوں 5:31۔32).
پولوس رسول نے آیت 31 کا حوالہ پیدائش2:24 سے دیا ہے۔ پیدائش2:23 پر سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبلThe Scofield Study Bible کی غور طلب بات کہتی ہے، ’’حوّا، مسیح کی دلہن کے طور پر کلیسیا کی تشبیہہ ہے۔‘‘ افسیوں5:32 پر سیکوفیلڈ Scofield کی غور طلب بات کہتی ہے، ’’حوّا بطور مسیح کی دُلہن کلیسیا کی ایک واضح تشبیہہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر گِل نے کہا،
’’یہ راز کی بات بہت گہری ہے۔‘‘ اِس میں کوئی نہ کوئی اسرار ہے؛ یہ ایک مسیح اور اُس کے لوگوں کے درمیان پُراسرار مِلاپ کی ایک علامت اور شکل ہے (ibid.)۔
اب، آیئے یہ مجھے آپ میں سے اُن کےلیے جنہوں نے بائبل کا مطالعہ نہیں کیا ہوا ہے اُتنا آسان کر لینے دیجیے جتنا ممکن ہو سکتا ہے۔ مسیح دُنیا میں تنہا آیا تھا۔ زمین پر اپنی منادی کے دوران زیادہ تر وقت مسیح تنہا تھا۔ جب اُس نے گتسمنی کے باغ میں پسینہ بہایا تب بھی وہ تنہا تھا۔ جب وہ صلیب پر مرا تب بھی اکیلا تھا۔ جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تب بھی باغ کی قبر میں تنہا ہی تھا۔
مگر، پہلے آدم کی مانند، خُدا نے مسیح کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ خُدا نے اُس کے لیے ایک دلہن کو تیار کیا تھا، اور وہ دُلہن کلیسیا ہے۔ ہر مقامی گرجہ گھر مسیح کی دُلہن کا حصہ ہے، کیونکہ ہم اُس میں یکجا ہیں جب ہم اُس کے پاس آتے ہیں اور تبدیل ہوتے ہیں۔
جب آپ مسیح کے پاس آتے ہیں، تو آپ مقامی کلیسیا میں اُس کی دُلہن کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ اب مذید تنہا نہیں ہوتے ہیں کیونکہ
’’تم بھی اِس رِفاقت میں ہمارے شریک ہو جو ہم سچے طور پر خدا باپ اور اُس کے بیٹے یسُوع مسیح کے ساتھ رکھتے ہیں‘‘ (1۔ یوحنا 1:3).
تنہائی چلی جاتی ہے جب آپ مسیح کے پاس آتے ہیں، اور تبدیل ہوتے ہیں اور ’’ہمارے ساتھ رفاقت میں ہوتے ہیں… اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ‘‘ مقامی کلیسیا کی رفاقت میں ہوتے ہیں۔ میرے چینی پادری ڈاکٹر ٹموٹھی لِنDr. Timothy Lin نے کہا کہ جب کلیسیا لڑ رہی ہوتی ہے اور خود کو پہلے نمبر پر کر رہی ہوتی ہےتو، ’’اُن کے درمیان خُدا کی موجودگی کبھی بھی نہیں ہو پائے گی۔‘‘ جب لوگ ہمارے گرجہ گھرمیں آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، ’’یہ شاندار ہے۔ یہ لوگ تو واقعی میں ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں!‘‘ ہم صرف محبت کے بارے میں باتیں ہی نہیں کرتے – یہ یہاں پر اِس کو عملی طور کرکے بھی دکھاتے ہیں! ہمارے ساتھ آئیں اور ہم اپنے گرجہ گھر میں اکٹھی رفاقت میں شریک ہونگے!
آپ مذید اور تنہا نہیں رہیں گے کیونکہ تب آپ مسیح کو جان جائیں گے، اور اُس کی رفاقت پائیں گے۔ آپ مذید تنہا نہیں رہیں گے کیونکہ مقامی کلیسیا میں ’’ہمارے ساتھ رفاقت میں‘‘ ہونگے۔
اِس تمام کا خُلاصہ کرنے کےلیے اور آپ میں سے اُن کے لیے جو اِس سے پہلے کبھی بھی ایک محبت کرنے والے گرجہ گھر میں نہیں گئے اِس کو بالکل ہی سادہ بنانے کے لیے ہم نے ایک چھوٹا سا نعرہ بنایا ہے: ’’تنہا کیوں رہا جائے؟ گھر آئیں – گرجہ گھر میں! کھویا کیوں جائے؟ گھر آئیں – یسوع مسیح، خُدا کے بیٹے کے پاس!‘‘ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک چھوٹا سا گیت لکھا تھا، جس کو ہم تمام نے ابھی تھوڑی دیر قبل گایا تھا،
یسوع کے پاس گھر آئیں، دسترخوان بِچھ چکا ہے؛
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں۔
یسوع ہمارے ساتھ ہے،اِس لیے یہ کہنے دیجیے،
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں!
گرجہ اور کھانے کے لیے گھر آئیں،
پیاری سی رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
یہ ایک عمدہ تقریب ہوگی
جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
(’’کھانے کے لیے گھر آئیں Come Home to Dinner‘‘ شاعر ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونئیر1941۔)۔
اب اختتام پر میرے پاس مذید اور ایک خیال ہے۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے ہماری تلاوت کے بارے میں ایک بیان دیا،
’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش 2:18).
ڈاکٹر میگی نے کہا،
خُدا کا انسان کو کچھ عرصے کے لیے باغ میں تنہا رکھنے کے پیچھے ایک مقصد تھا۔ یہ اُس کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ اُس کو ایک ضرورت ہے، کہ اُس کو اُس کے ساتھ ہونے کے لیے کسی ایک کی ضرورت پڑتی ہے (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن بپلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1981، جلد اوّل، صفحہ21)۔
میرے خیال میں کہ آپ کو تنہا محسوس کرانے میں بھی خُدا کا یہی مقصد ہوتا ہے۔ وہ آپ کی تنہائی سے چاہتا ہے کہ آپ پر ظاہر کر دے کہ آپ کو بھی ایک ضرورت ہے۔ آپ کو کبھی بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ آپ کو بھی گرجہ گھر آنے کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک کہ خُدا اپنے لیے آپ کو آپ کی تنہائی سے بیدار کرنا شروع نہیں کرتا۔ آگسٹین Augustine نے کہا، ’’خُدا نے انسان کو خُود کے لیے تخلیق کیا اور ہمارے دِل اُس وقت تک بے چین رہتے ہیں جب تک کہ وہ اُس میں سکون نہیں پاتے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کے ایمان کے وسیلے سے مسیح کے پاس آنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ صلیب پر آپ کے گناہوں کو معافی دلانے کے لیے مرا، تاکہ آپ کی خُدا کے ساتھ رفاقت ہو سکے۔ وہ جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا، تاکہ آپ اُس کے ذریعے سے زندگی پا سکیں، اور مکمل طور پر کلیسیا میں آئیں اور شاندار مسیحی دوست بنائیں جو تمام عمر رہیں گے۔ اِس لیے ہم دوبارہ کہتے ہیں، ’’تنہا کیوں رہا جائے؟ گھر آئیں – گرجہ گھر میں! کھویا کیوں جائے؟ گھر آئیں – یسوع مسیح، خُدا کے بیٹے کے پاس!‘‘
آئیے کھڑے ہو جائیں اور وہ چھوٹا سا گیت جو میں نے لکھا ہے دوبارہ گائیں۔ یہ آپ کے گانوں کے ورق پر گیت نمبر تین ہے۔ گیتوں کےورق کو تھام لیں اور اِس کو اچھی طرح سے اور بُلند آواز سے گائیں!
یسوع کے پاس گھر آئیں، دسترخوان بِچھ چکا ہے؛
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں۔
یسوع ہمارے ساتھ ہے،اِس لیے یہ کہنے دیجیے،
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں!
گرجہ گھر میں گھر کے لیے اور کھانے کے لیے آئیں،
پیاری سی رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
یہ ایک عمدہ تقریب ہوگی
جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
وہ رفاقت بہت پیاری ہے اور آپ کے دوست وہیں پر ہونگے؛
ہم دسترخوان پر بیٹھیں، ہمارے دِل خوشی سے بھر پور ہونگے۔
یسوع ہمارے ساتھ ہے،اِس لیے یہ کہنے دیجیے،
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں!
گرجہ گھر میں گھر کے لیے اور کھانے کے لیے آئیں،
پیاری سی رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
یہ ایک عمدہ تقریب ہوگی
جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
بڑا شہر جس کی دیکھ بھال کرتے لوگ نظر نہیں آتے ہیں؛
اُن کے پاس دینے کے لیے کم اور پیار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن یسوع کے لیے گھر آئیں اور آپ جان جائیں گے،
وہاں میز پر کھانا ہے اور رفاقت میں شرکت ہے!
گرجہ گھر میں گھر کے لیے اور کھانے کے لیے آئیں،
پیاری سی رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
یہ ایک عمدہ تقریب ہوگی
جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
یسوع کے پاس گھر آئیں، دسترخوان بِچھ چکا ہے؛
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں۔
یسوع ہمارے ساتھ ہے،اِس لیے یہ کہنے دیجیے،
کھانے کے لیے گھر آئیں اور آئیے روٹی توڑیں!
گرجہ گھر میں گھر کے لیے اور کھانے کے لیے آئیں،
پیاری سی رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
یہ ایک عمدہ تقریب ہوگی
جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
(’’کھانے کے لیے گھر آئیں Come Home to Dinner‘‘ شاعر ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونئیر، 1941۔، بطرزِ ’’ایک فاختہ کے پروں پر On the Wings of a Dove‘‘)۔
دوستوں، یسوع کے لیے گھر میں آئیں! گرجہ گھر کے لیے گھر میں آئیں! کیوں نہ آج رات کو 6:15 بجے مذید اور زیادہ مسیحی رفاقت اور اچھے صاف سُتھرے مزے کے لیے واپس آیا جائے؟ آج رات کو 6:15 بجے آپ سے ملتے ہیں!
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: پیدائش2:18۔24 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گزرگاہ Boulevard of Broken Dreams‘‘ (گرین ڈے Green Day کی جانب سے، 2004)۔
لُبِ لُباب تنہائی اور رفاقت LONELINESS AND FELLOWSHIP ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو‘‘ (پیدائش 2:18). I. اوّل، خُدا نے کہا، ’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں،‘‘ II. دوئم، خُدا نے کہا، ’’میں ایک مدد گار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہو،‘‘ |