اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
اپنی نجات کے کام کو جاری رکھوWORK OUT YOUR OWN SALVATION ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا واعظ ’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک ارادہ پورا ہو سکے۔‘‘ (فلپیوں2:12۔13)۔ |
اِن آیات پر بے شمار تبصرے پڑھنے کے بعد آپ اور مجھ جیسے عام لوگوں کو اِن کا مطلب واضح کرنے کے لیے مجھے انتہائی کم مدد میسر ہوئی۔ بہت سے یہاں پر ایک اُلٹی بات [تضاد] دیکھتے ہیں، بظاہر ایک تضاد۔ لیکن میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ کچھ تبصرہ نگار سوچتے ہیں کہ بارہویں آیت ہمیں بتاتی ہے کہ نجات خود اُن کے اپنے کاموں پر انحصار کرتی ہے۔ لیکن پھر، تیرہویں آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ خُداوند کا عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں سچے نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم لفظ ’’نجات‘‘ کا مطلب ’’تقدیس و تحریم یا مقدس رسم‘‘ نہیں کرتے۔ لہذا، وہ کہتے ہیں، یہ آیات غیرنجات یافتہ لوگوں پر لاگو نہیں ہوسکتیں۔ یہ صرف اُنہیں پر لاگو ہوسکتی ہیں جو پہلے سے ہی نجات یافتہ ہیں۔ وہ آیات کا مطلب بناتے ہیں، ’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی تقدیس و تحریم کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک اِرادہ پورا ہو سکے۔‘‘ اِس کے ساتھ مسٔلہ یہ ہے کہ یہاں یونانی لفظ کا مطلب ’’نجات‘‘ ہوتا ہے۔ ’’تقدیس و تحریم‘‘ کے لیے ایک دوسرا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اِس کے ساتھ ایک اور مسٔلہ ہے کہ یہ ہماری ابتدائی نجات کو خُداوند کے فضل پر منحصر کرتی ہے، اور تقدیس و تحریم میں ہماری نمود کا انحصار عملوں پر کرتا ہے۔ مگر اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ فضل کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں اور پھر آپ خُدا کے فضل کے بغیراپنے آپ کو نجات یافتہ بنائے رکھنے کے لیے خود پر انحصار کرتے ہیں! لیکن بائبل تعلیم دیتی ہے کہ ہم شروع سے آخر تک فضل کے ہی وسیلے سے بچائے جاتے ہیں! بائبل کہتی ہے،
’’اور مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ خدا، جس نے تُم لوگوں میں اپنا نیک کام شروع کیا ہے وہ اُسے یُسوع مسیح کی واپسی کے دِن تک پورا کردے گا‘‘ (فلپیوں 1:6).
رومیوں8:28۔30 کو ’’سنہری زنجیر‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ خُدا کا فضل ہی ہے جو ہمیں نجات دِلاتا ہے اور ہمیں بچائے رکھتا ہے! نجات اور تقدیس و تحریم دونوں ہی کا تنہا خُدا کے فضل پر انحصار ہوتا ہے! سپرجیئن نے تمام کا تمام فضل All of Grace کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ ہے رومیوں کے 8 ویں باب میں ’’سہنری زنجیر‘‘،
’’اور ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کے اِرادے کے مطابق بُلائے گئے ہیں، خدا ہر حالت میں اُن کی بھلائی چاہتا ہے کیونکہ جنہیں خدا پہلے سے جانتا تھا اُنہیں اُس نے پہلے سے مُقرر بھی کیا کہ وہ اُس کے بیٹے کی مانند بنیں تاکہ اُس کا بیٹا بہت سارے بھائیوں میں پہلوٹھا شمار کیا جائے۔ اور جنہیں بُلایا اُنہیں راستباز بھی ٹھہرایا اور جنہیں راستباز ٹھہرایا اُنہیں اپنے جلال میں شریک بھی کیا‘‘ (رومیوں 8:28۔30).
کیوں پھر رسول کہتا ہے، ’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو‘‘؟ ڈاکٹر آر۔ سی۔ ایچ۔ لینسکی Dr. R. C. H. Lenski نے اِس پر روشنی ڈالی جب اُنہوں نے کہا، ’’بظاہر اُلٹی بات وجود نہیں رکھتی۔ اگر خُدا ہی وہ واحد ہے جو ہماری نیتوں اور اعمال دونوں میں کام کرتا ہے، تب ہمیں ... ہمیشہ خُدا کے پاس جانا چاہیے جس کا مسلسل فضل ہماری نیت بنائے گا اور اِس کے ساتھ ساتھ نیت کو نیکیوں یا اچھے کاموں میں ایک مخصوص روحانی حالت میں لاتا ہے‘‘ (آر۔ سی۔ ایچ۔ لینسکی، پی ایچ۔ ڈی۔ R. C. H. Lenski, Ph.D.، گلِتیوں، افسیوں اور فلپیوں کے نام مقدس پولوس رسول کے مراسلوں کی وضاحت The Interpretation of St. Paul’s Epistles to the Galatians, to the Ephesians, and to the Philippians، اوگسبرگ پبلشنگ ہاؤس Augsburg Publishing House، 1937، صفحہ799؛ فلپیوں2:12 پر غور طلب بات)۔
’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک ارادہ پورا ہو سکے۔‘‘ (فلپیوں2:12۔13)۔
سپرجیئن نے اِن الفاظ پر دانمشندانہ نصیحت دی جب اُنہوں نے کہا، ’’میں سمجھا میں نے کسی کو کہتے سُنا، ’’ٹھیک ہے، مگر کیا تم نصیب پر یقین نہیں کرتے ہو؟ ہمیں خود اپنی نجات کو دیکھنے کے لیے اُس کے ساتھ کیا کرنا ہوتا ہے؟ کیا یہ سب کچھ نصیب نہیں؟ اے بیوقوف، کیونکہ میں تجھے ناکافی جواب دے سکتا ہوں جب تک میں تجھے تیرا دُرست نام نہیں دے لیتا؛ کیا یہ طے نہیں تھا کہ آیا تجھے اِس جگہ پر آنے کے لیے گیلا ہونا چاہیے یا نہیں؟ پھر تو کیوں اپنے ساتھ اپنی چھتری لایا؟ کیا یہ طے نہیں تھا کہ آیا تجھے آج خوراک کے ساتھ نوازا جانا چاہیے یا بھوکا رکھنا چاہیے؟ پھر کیوں تو گھر جائے گا اور اپنا کھانا کھائے گا؟ کیا یہ طے نہیں کہ آیا تجھے کل جینا چاہیے یا نہیں؛ تو کیا اِس لیے تو اپنا گلا کاٹ لے گا؟ جی نہیں، کسی بھی بات کے تزکرے میں آپ نصیب سے ماسوائے ’خود اپنی نجات‘ کے... اِس طرح سے نتیجہ اخذ نہیں کرتے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ نتیجہ اخذ کرنا نہیں ہے، یہ صرف محض ایک بات ہے۔ یہی ہے سارے کا سارے جواب جس کے آپ مستحق ہیں اور جو میں آپ کو پیش کروں گا‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگِرم پبلیکیشنز Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت1971، جلد 17 ویں، صفحہ429)۔
ابراہام لنکن کے ساتھ یہ مسٔلہ تھا کہ وہ سوچتا تھا کہ وہ چُنیدہ لوگوں میں سے ایک نہیں تھا۔ لیکن لنکن کوئی احمق نہیں تھا۔ وہ محض باتیں نہیں کر رہا تھا، اور بہانے نہیں بنا رہا تھا۔ اُس نے اصل میں اپنے دِل کے گہرائی میں یہ سوچا تھا۔ اِس قسم کے اعتقاد کی حماقت کو اُن پر ظاہر کرنے کے لیے ایک دیندار اور دانشمند کیلوینسٹ پادری ڈاکٹر فنیاس گُرلے Dr. Phineas Gurley کی ضرورت پڑی تھی۔ ڈاکٹر گرلے نے مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے لنکن کی مدد کی تھی۔ ایسٹر کے اِتوار والے روز لنکن کی اپنی نجات کی گواہی پیش کرنی طے تھی اور ڈاکٹر گرلے کے ذریعے سے بپتسمہ لینا طے تھا۔ خُداوند کا شکر ہو کہ وہ پہلے ہی بچا لیا گیا تھا – کیونکہ پاک جمعے Good Friday کے دِن جان وِلکس بوتھ John Wilkes Booth نے اُنہیں گولی مار کر قتل کر دیا تھا – اُن کی طے شُدہ گواہی اور بپتسمہ سے دو دِن پہلے! (ویسے لنکن نے تقریبا یقینی طور پر اپنی نجات کی گواہی لکھ دی تھی، مگر اِسے تلاش نہیں کر سکا۔ اگر اِس واعظ کو پڑھنے والا کوئی شخص بھی اِسے تلاش کر سکتا ہے، تو میں اِس قدم کی انتہائی حوصلہ افزائی کروں گا اگر آپ اِسکو مجھے اِرسال کر دیں۔ میں اُس شخص کو 500.00 ڈالر یا اِس سے زیادہ ادا کروں گا جو اِس لفظ بہ لفظ گواہی کو مجھے اِرسال کرے گا۔ اِس کو تاہم مصدقہ [تصدیق شُدہ] ہونا چاہیے)۔
کیا یہ ایک ہولناک شرم کی بات نہیں ہوگی اگر ہمارے پیارے صدر ایک غیر نجات یافتہ حالت میں مر گئے ہوتے – کیونکہ اُنہوں نے سوچا تھا کہ وہ چُنیدہ لوگوں میں سے نہیں تھے؟ لیکن ایسا کوئی نہیں ہے جسے میں جانتا ہوں کہ اُس نے سنجیدگی کے ساتھ سوچ کر اِس نظریے کو اپنایا ہو۔ میں جتنے بھی لوگوں کو ملا ہوں وہ صرف پہلے سے طے شُدہ نصیب کو یسوع پر بھروسہ نہ کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ یقیناً سوچتے ہیں کہ وہ انتہائی چالاک ہیں – کہ اس سے پہلے کسی اور نے اس کے بارے میں نہیں سوچا۔ اس کے باوجود سپرجیئن نے اُن کی ملامت میں انتہائی شدید زبان کا استعمال کیا۔ سپرجیئن نے کہا، ’’اے بیوقوف، کیونکہ میں تجھے ناکافی جواب دے سکتا ہوں جب تک میں تجھے تیرا دُرست نام نہیں دے لیتا... آپ کا نتیجہ اخذ کر لینا محض ایک بات ہے۔‘‘ ہماری تلاوت اِس کو کافی واضح کرتی ہے:
’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک ارادہ پورا ہو سکے۔‘‘ (فلپیوں2:12۔13)۔
اگر آپ اپنے نصیب کو استعمال کرکے خود کو تسلی دینے کا قابل ہیں، پھر آپ چُنیدہ لوگوں میں سے ایک نہیں ہیں! ایک شخص جس کا نصیب واقعی میں پہلے سے طے شُدہ ہوتا ہے وہ اِس کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر کےممکن ہی نہیں ہے کہ تسلی پا سکے! اگر آپ نصیب کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں، تو پھر یہ واضح ہے کہ آپ چُنیدہ لوگوں میں سے ایک نہیں ہیں۔ ایک شخص جس کا مقدر لکھا جا چکا ہے وہ خود اپنی نجات کے کام کو خوف کے ساتھ اور کانپتے ہوئے جاری رکھنے کے لیے مجبور ہوگا۔ لیکن اگر خُدا آپ میں عمل پیدا نہیں کر رہا ہے، پھر آپ اِس کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کرنا جاری رکھ سکتے ہیں – کیونکہ آپ میں انتہائی جوش کی کمی سے، آپ ثابت کرتے ہیں کہ آپ خُدا کے چُنیدہ لوگوں میں سے ایک نہیں ہیں۔ آپ لوط کے دامادوں کی مانند ہیں، جنہوں نے جب وہ بوڑھا آدمی اُنہیں آنے والے قہر سے بھاگ چلنے کو کہہ رہا تھا تو ’’سمجھا وہ مذاق کر رہا تھا‘‘ (پیدائش19:14)۔ آپ اپنی بےحِس مدہوشی میں مر جائیں گے، جیسا اُنہوں نے فیصلے کے دِن، خُدا کے قہر کی آگ میں کیا، جب اُس نے ’’آگ اور گندھک آسمان سے برسا کر سب کو ہلاک کر ڈالا‘‘ (لوقا17:29)، آگ سے ہمیشہ کے لیے برباد کر دیا‘‘ (یہودہ7)۔
’’ٹھیک ہے،’’ آپ کہہ سکتے ہیں، ’’میں اتنا بُرا نہیں ہوں جتنا میں دوسرے لوگوں کو جانتا ہوں۔ میں کسی کو جانتا ہوں جو کہتا ہے کہ وہ بچایا گیا ہے جو اتنا اچھا نہیں ہے جتنا اچھا میں ہوں۔‘‘ لیکن ہم نے کب آپ سے گناہ کے درجوں کی بات کی تھی – یا نیکیوں کے درجوں کی بات کی تھی؟ مجھے کبھی بھی ایسا آپ کو کہنا یاد نہیں، کیا میں نے ایسا کہا؟ تو پھر یہ کہاں سے آ گیا؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے آپ کو ایک روحانی دیو بننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
خُداوند کو اِس میں دلچسپی نہیں ہے کہ آیا آپ کسی اور کے مقابلے میں ’’بہتر‘‘ ہیں یا ’’بدتر‘‘ ہیں، ’’کیونکہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں‘‘ (رومیوں3:23)۔ کیا ہم دوسروں سے بہتر ہیں؟ جی نہیں، ہرگز نہیں: ہم تو پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں... سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں‘‘ (رومیوں3:9)۔ چونکہ آپ ایک گنہگار ہیں، تو آپ خود کو ’’اُس آگ میں پائیں گے جس کی پیاس کبھی نہیں بُجھتی‘‘ (مرقس9:43)۔ یہی آپ کی ہمیشہ کے لیے مایوسی میں بسنے کی جگہ ہوگی، اگر آپ
’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک ارادہ پورا ہو سکے۔‘‘ (فلپیوں2:12۔13)۔
کوئی اور شخص شاید سوچے، ’’تمام اچھے کاموں کو دیکھو جو میں کرتا ہوں۔ میں کبھی بھی گرجہ گھر سے غیر حاضر نہیں ہوتا ہوں۔ میں گرجہ گھر میں کام کرتا ہوں۔ میں گرجہ گھر کو پیسے دیتا ہوں۔ میں انجیلی بشارت کے لیے جاتا ہوں۔ میں دعائیہ عبادت میں جاتا ہوں۔ مجھے میں کیا کمی ہے؟‘‘
میرے پیارے دوست، آپ میں مسیح کی کمی ہے! مسیح کے بغیر، آپ کے تمام راستبازی کے کام کچھ بھی نہیں ہیں ماسوائے پاک کلام کے مطابق ’’غلیظ چیتھڑوں‘‘ کے (اشعیا64:6)۔ مسیح میں معافی اور نجات کے بغیر، قیامت کے دِن، وہ آپ سے کہے گا،
’’میں تُم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دُور ہو جاؤ‘‘ (متی7:23).
’’مگر، اے خُداوند، میں ہفتے میں کئی مرتبہ گرجہ گھر میں تھا!‘‘ ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘ ’’مگر، اے خُداوند، میں نے ایمانداری کے ساتھ اپنے پیسے میں سے دیہہ یکی ادا کی!‘‘ ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘ ’’مگر، اے خُداوند، میں اصل میں لوگوں کو گرجہ گھر میں انجیل سُننے کے لیے لایا!‘‘ ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘ ’’مگر، اے خداوند، میں نے روزے رکھے اور نماز ادا کی!‘‘ ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘ ’’مگر، اے خداوند، یہ تمام باتیں میں نے اپنے جوانی کے شروع ہونے سے جاری رکھیں: اِس کے باوجود مجھ میں کیا کمی ہے؟‘‘ ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘
یہ شاید آپ کو ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بات بھی آپ کے دائمی مقدر کو بدل نہیں پائے گی مسیح آپ کو نہیں جانتا ہے! ’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘ اُس ہولناک دِن اُس کا جواب یہی ہوگا!
تب، آپ کہتے ہیں، ’’مگر مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ یہاں صرف ایک بات ہے جو آپ کی مدد کرے گی،
’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ وہ خُدا ہی ہے جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ اُس کا نیک ارادہ پورا ہو سکے۔‘‘ (فلپیوں2:12۔13)۔
لیکن اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے کہ ’’خوب ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کو جاری رکھو‘‘؟ جب خُدا آپ سے خود کو بچانے کی جھوٹی اُمیدوں کو چھین چکا ہوتا ہے، تب آپ کو مسیح پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اُس [یسوع] کے وسیلے سے بچائے جانا چاہیے۔ بائبل کہتی ہے، ’’تنگ دروازے [پتلی سے گزرگاہ] سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو‘‘ (لوقا13:24)۔ بائبل کہتی ہے، ’’آؤ ہم اُس آرام میں داخل ہونے کی کوشش کریں‘‘ (عبرانیوں4:11)۔ کیا یہ عجیب لگتا ہے؟ میں نہیں سوچتا کہ ایسا لگتا ہے۔ ’’عمل‘‘ اور ’’کوشش کرنے‘‘ میں خود سے اعتراف کرنے کی جدوجہد اور کام شامل ہے، کہ آپ یسوع کے بغیر کھوئے ہوئے ہیں، اور مسیح کو تلاش کرنے اور تنہا اُسی میں اپنی نجات کو پانے کی کوشش کرنا اور جدوجہد کرنے کے کام شامل ہیں۔ آپ کی گناہ سے بھرپور فطرت، اور شیطان، آپ کو خود کو بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے کہتا رہتا ہے۔ آپ کو اِس تمام میں سے گزرنے کے لیے عمل کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے اور تنہا یسوع میں آرام کرنا چاہیے، جیسا کہ لوتھرLuther اور بنیعنBunyan اور وائٹ فیلڈ Whitefield اور ویزلی Wesleyاور سپرجیئنSpurgeon نے کیا۔ خُداوند اُس شخص کو کھینچے گا جو مسیح کے لیے سچے طور پر چُنیدہ ہوتا ہے، جیسا کہ اُس نے بنعین Bunyan کی زائر کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress میں ’’مسیحی‘‘ کے ساتھ کیا۔ سپرجیئن نے مسیح کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد اور مشقت کی تھی۔ آخر کار تنہا اُسی مسیح میں سادہ سے ’’آرام‘‘ کے وسیلے سے اُس نے مسیح میں آرام پایا۔ سپرجیئن نے کہا،
اگر تم مسیح کے بھروسے پر کھڑے ہو، تم ایک چٹان پر ہو؛ لیکن اگر تم حصوں میں مسیح کے امتیازات اور خصوصیات پر بھروسہ کرتے ہو، اور خود اپنی اہلیت پر حصوں میں بھروسہ کرتے ہو، تو پھر تمہارا ایک پاؤں چٹان پر ہے مگر دوسرا پاؤں دلدل میں ہے؛ اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے دونوں پاؤں ہی دلدل میں ہوں، کیونکہ نتیجہ ایک ہی ہوگا۔
کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے جو بے بس گنہگاروں کے لیے اچھائی کر سکتا ہے۔
آپ اُس وقت تک نہیں بچائے جا سکتے جب کہ مسیح ہی تمام کا تمام سارے کا سارے آپ کی جان میں نہ ہو…
کیسی چکاچوند کے ساتھ میری یاداشت میں تازہ ہو جاتا ہے... وہ لمحہ جب میں نے پہلی مرتبہ یسوع میں یقین کیا تھا! وہ ایک سادہ سے عمل تھا جو میرا ذہن کبھی ادا کر سکا تھا، اور اِس کے باوجود سب سے شاندار، کیونکہ پاک روح نے اُس کو مجھ میں سمویا تھا۔ بس خود پر انحصار کر لینے کے ساتھ، اور یسوع کے علاوہ سب پر اعتبار [کھو دینے] نہ کرنے سے، اور اُس یسوع میں اپنے غیرمنقسم اعتماد کو تنہا رکھنے سے... میرا گناہ اُس لمحے میں مجھے معاف کر دیا گیا تھا، اور میں بچا لیا گیا تھا، اور خُدا کرے کہ ایسا ہی آپ کے ساتھ بھی ہو، میرے دوست، آپ کے ساتھ بھی ہو اگر آپ بھی خُداوند یسوع پر بھروسہ کرو۔ ’’خود آپ کی اپنی نجات‘‘ [یسوع میں] ایمان کے اُس ایک سادہ عمل کے کے وسیلے سے محفوظ ہو جائے گی... خُداوند بخشش کرے کہ ایک بھی شخص اِس جگہ سے نجات پائے بغیر رخصت نہ ہو! (ibid.، صفحہ431)۔
آمین اور آمین!
آؤ، اے گنہگاروںن، غریب اور خستہ حال، کمزور اور زخمی، بیمار اور دُکھی؛
یسوع تمہیں بچانے کے لیے تیار کھڑا ہے، ہمدرردی، محبت اور قوت سے بھرپور؛
وہ لائق ہے، وہ لائق ہے، وہ رضامند ہے، مذید اور شک مت کرو!
وہ لائق ہے، وہ لائق ہے، وہ رضامند ہے، مذید اور شک مت کرو!
(’’آؤ، اے گنہگاروںCome, Ye Sinners ‘‘ شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart ، 1712۔1768).
یسوع کے پاس آئیں! اُس پر بھروسہ کریں! ’’یسوع تمہیں بچانے کے لیے تیار کھڑا ہے، ہمدردی، محبت اور قوت سے بھرپور۔‘‘
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔