Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح ملکوتی طور پر ظاہر ہوا

CHRIST REVEALED SUPERNATURALLY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 19 جنوری، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, January 19, 2014

’’یسوع نےجواب دیا اور اُس سے کہا: اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے۔ اور میں تجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس چٹان پر اپنی کلیسیا قائم کروں گا اور موت بھی اُس پر غالب نہ آنے پائے گی‘‘ (متی 16:17۔18).

نئے عہد نامے میں یہاں پر پہلی مرتبہ لفظ ’’کلیسیا‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اِن آیات میں مسیح نے کہا، ’’میں اپنی کلیسیا قائم کروں گا۔‘‘ یسوع نے وہ اپنے شاگرد سے ’’لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ میں... ہوں؟‘‘ (متی16:13) پوچھنے کے بالکل بعد کہا۔ یہ بہت زیادہ اہم ہے۔ آپ کبھی بھی کلیسیا یعنی گرجہ گھر کے حقیقی رُکن نہیں ہو سکتے جب تک آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ آپ کے لیے مسیح کون ہے۔ اگر آپ مسیح کو نہیں جانتے ہیں تو آپ مقامی کلیسیا کے کارآمد رُکن نہیں ہو سکتے۔

گذشتہ بُدھ کسی نوجوان آدمی نے مجھے ایک ای۔ میل بھیجی۔ یہ کافی بڑی ای۔ میل تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارے گرجہ گھر میں ابتدائی 1980 کی دہائی میں رہ چکا تھا۔ اُس نے کہا کہ کچھ سالوں کے بعد اُس نے چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جب میں نے جو اُس نے لکھا تھا وہ پڑھا تو میں بتا سکتا ہوں کہ وہ مسیح کو نہیں جانتا تھا۔ اُس کے پاس ذاتی طور سے مسیح کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جب میں نے وہ پڑھا جو اُس نے لکھا تھا تو میں نے سوچا، ’’تعجب کی بات نہیں کہ اُس نے ہمارے گرجہ گھر کو چھوڑ دیا!‘‘ کوئی بھی یسوع کو پہلے جانے بغیر گرجہ گھر کا اچھا رُکن نہیں بن سکتا! میرا مطلب اُس [یسوع] کے بارے میں جاننا نہیں! بالکل بھی نہیں! میرا مطلب اُس [یسوع] کو جاننا ہے! وہ ایک حقیقی ہستی ہے اور آپ واقعی میں اُس کو جان سکتے ہیں! لیکن اگر آپ کو صرف اُس کے بارے میں معلوم ہےتو آپ کبھی بھی گرجہ گھر کے ایک اچھے رُکن نہیں بن سکتے! جب پطرس نے اقرار کیا، ’’تو ہی مسیح ہے،‘‘ تو یسوع نے کہا کلیسیا اِسی ایمان پر قائم کی جائے گی۔ پہلا سوال یہ نہیں ہے، ’’تم مجھے کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟‘‘

مجھے غلط مت لیجیے گا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ گرجہ گھر کی رُکنیت اہم نہیں ہوتی ہے۔ کیمپس کروسیڈ Campus Crusade اور دوسرے پیرا چرچ گروہ وہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن میں نے ایسا کبھی بھی نہیں کہا ہے! گرجہ گھر کی رُکنیت اتنہائی اہم ہے۔ لیکن اِس سے پہلے آپ کو ذاتی تجربے سے جاننا چاہیے کہ مسیح کون ہے۔ ورنہ آپ ہر گرجہ گھر جہاں آپ جائیں گے پریشانی کھڑی کر دیں گے – یا پھر آپ ’’گرجہ گھروں کے آوارہ گرد‘‘ بن جائیں گے۔ کبھی بھی کسی بھی گرجہ گھر کے ایک کارآمد رُکن بنے بغیر، آپ ایک سے دوسرے میں جاتے رہیں گے! اِس لیے اِس بات کو ایک مُسلمہ حقیقت، ایک قول کے طور پر لکھ لیں – اگر آپ مسیح کو حقیقت میں نہیں جانتے توآپ کسی بھی گرجہ گھر کے ایک طویل مدت تک رہنے والے کارآمد رُکن کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ کبھی بھی نہیں! کبھی بھی نہیں! کبھی بھی نہیں! ہمارے پاس مغربی کیلیفورینا میں ہزاروں لوگ ہیں جو ایک گرجہ گھر سے دوسرے میں دوڑتے پھرتے ہیں – جنہیں کبھی بھی ’’دُرست‘‘ جگہ نصیب نہیں ہوتی ہے۔ سپرجیئن نے اُنہیں ’’راہ کے پنچھی جو کہیں گھونسلہ نہیں بناتے‘‘ کہا۔ اصل مسٔلہ یہ ہے کہ اُن میں سے بے شمار تو پہلی جگہ پر ہی بچائے نہیں گئے ہوتے ہیں!

اِس لیے مسیح نے پطرس سے پوچھا تھا کہ وہ [یسوع] کون تھا۔ جب پطرس نے صحیح جواب دیا، تو یسوع نے کہا خُدا باپ یہ اُس پر عیاں کیا تھا – اور اِس ایمان اور اِس الہٰام پر مسیح کی کلیسیا قائم ہوگی! پطرس جیسے مردوں اور عورتوں کے لیے خُدا کے بخشے ہوئے الہٰام پر مسیح کی کلیسیا قائم ہے! اوراِس کے بارے میں کوئی غلطی مت کریں، کیلون Calvin سچا تھا جب اُس نے کہا کہ جو کوئی بھی گرجہ گھر کا رُکن نہیں ہے وہ بچایا نہیں جا سکتا۔ اُس نے سپریعن Cypriann کی رائے کی تصدیق کر دی، ’’گرجہ گھر کے باہر کوئی نجات نہیں ہے۔‘‘ اور میں اُن دونوں لوگوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ ’’گرجہ گھر کے باہر کوئی نجات نہیں ہے۔‘‘ ہم دوسری جانب اِس قدر دور تک جھول چکے ہیں کہ اِس سے خُدا کو اُبکائی آتی ہے (مکاشفہ 3:16)!!! جب مسیحی، کافر رومیوں سے چُھپ چُھپ کر سُرنگی قبرستانوں میں ملا کرتے تھے تو جیسا کہ آج امریکہ میں انجیلی بشارت والے کرتے ہیں اُن کے مقابلے میں اُن مسیحیوں کو گرجہ گھر[کلیسیا] کی رُکنیت کے بارے میں زیادہ معلوم تھا!!!

اگر آپ یسوع مسیح کو ذاتی الہٰام کے وسیلے سے نہیں جانتے ہیں، تو آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے لیے گرجہ گھر میں ’’ٹِک‘‘ سکتے ہیں – اور پھر وقت کے ساتھ رابطہ ختم کر دیں – اُن تمام دوسرے کھوئے ہوئے لوگوں کے ساتھ جنہوں نے یہی کام کیا تھا۔ میں سنجیدگی سے سوال کرتا ہوں کہ اگر اُن میں سے کوئی بچایا گیا ہو! میں سچ کہہ رہا ہوں! وہ کس بات سے بچائے گئے تھے؟ بائبل کہتی ہے،

’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ کیونکہ اگروہ ہم میں سے ہوتے تو بِلا شُبہ ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جب کہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ (1۔ یوحنا 2:19).

اِس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی Dr. J. Vernon McGee نے کہا، ’’یوحنا کہتا ہے کہ وہ ذریعہ جس سے آپ بتا سکتے ہیں کہ آیا کوئی حقیقت میں خُدا کا بچہ ہے یا نہیں یہ ہے کہ آخر کار ایک شخص اپنا اصلی روپ ظٓاہر کرے گا اور خُدا کی جماعت کو چھوڑ دے گا اگر وہ خُدا کا بچہ نہیں ہے... ’یہ لوگ ہم میں سے نکلے ہیں مگر دِل سے ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔‘ یہ ایک تلخ، ظالمانہ بیان ہے، مگریہ ایک سچا بیان ثابت ہوا ہے۔ بہت سے ہوتے ہیں جو مسیحی ہونے کا اقرار کرتے ہیں، مگر وہ حقیقت میں مسیحی ہوتے نہیں ہیں‘‘ (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد پنجم، صفحہ 777؛ 1۔ یوحنا2:19 پر ایک غور طلب بات)۔

ڈٓاکٹر جان گِل Dr. John Gill نے اِس رائے میں اِضافہ کیا، ’’وہ سچے طور پر خُدا کے فضل کے وسیلے سے نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے تھے، اور یوں بظاہرخُدا کے چُنیدہ کی تعداد میں سے نہیں تھے: کلیسیا کے ساتھ اپنی شراکت اور اپنے اقرار میں کھڑے نہیں اُترتے تھے، وہ دُنیا کے تھے اور خُدا کے نہیں تھے؛ وہ سچے ایماندار نہیں تھے‘‘ (جان گِل، ڈی۔ڈی۔ John Gill, D.D.، نئے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the New Testament، بپتسمہ یافتہ معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد سوئم، صفحہ 630، 631؛ 1۔ یوحنا2:19 پر ایک غور طلب بات)۔

ہمارے حوالے میں یسوع نے کہا، ’’لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟‘‘ (متی16:13)۔ پطرس نے صحیح جواب دیا تھا، ’’تو زندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے‘‘ (متی16:15)۔ یسوع نے کہا، ’’یہ بات کسی انسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17)۔ پھر یسوع نے کہا کہ اُس کے بارے میں ملکوتی طور پریہ انکشاف، یہ خُدائی الہٰام، یہ ایمان، کلیسیا کی بنیاد ہوگا۔

اِس حوالے میں مرکزی لفظ ’’کلیسیا‘‘ نہیں بلکہ ’’مسیح‘‘ ہے۔ سپرجیئن نے کہا، ’’پہلے مسیح جو کہ جڑ ہے پھر کلیسیا جوکہ اُس کی شاخیں ہیں؛ پہلے مسیح جوکہ معمار ہے، پھر کلیسیا جو کہ اُس [یسوع] کی عمارت ہے… اگر آپ مسیح کو جانتے ہیں... تو آپ کا سچے گرجہ گھر کے ساتھ تعلق جو کہ خُدا کے انتخاب اور نجات کی کلیسیا ہے، صاف اور یقینی ہوتا ہے‘‘ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1974، جلد چونتیس، صفحہ 481)۔

یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، ’’لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ کچھ سوچتے ہیں کہ وہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے یا نبیوں میں سے کوئی ہے۔ پھر یسوع نے کہا، ’’لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟‘‘ پطرس نے صحیح جواب دیا، یسوع نے کہا خُدا باپ نے یہ اُس پر ظاہر کیا۔

’’یسوع نے جواب دیا اور اُس سے کہا: اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17).

یسوع کے بارے میں جن باتوں پر دُنیا میں لوگ یقین کرتے ہیں وہ اُن پر کوئی برکات نہیں لاتی ہیں۔ دُنیا میں ہر کسی کے پاس یسوع کون ہے کے بارے میں ایک رائے ہے۔ لیکن وہ اُن آراء کی وجہ بابرکت نہیں ہو جاتے ہیں۔ برکات صرف اُنہی کو نصیب ہوتی ہیں جو یسوع کو جانتے ہیں کیونکہ خُدا نے اُس [یسوع] کو اُن پر ظاہر کیا ہوتا ہے۔ وہ اورتنہا وہ ہی، خُدا کے وسیلے سے بابرکت ہوتے ہیں! ’’اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17)۔ اور یہ یہی مسیح کے بارے میں خُدا کا بخشا ہوا انکشاف ہے جو آپ کو اُس [یسوع] کے گرجہ گھر کا رُکن بناتا ہے! خود سے اُس انکشاف کا تجربہ کیے بغیر، آپ کبھی بھی گرجہ گھر کے ایک حقیقی رُکن نہیں بن پائیں گے، بلکہ آپ ’’آزمائش کے وقت پسپا‘‘ جائیں گے (لوقا8:13)۔

’’اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17).

اِس حوالے میں سے دو نقطے ہیں جو سامنے آتے ہیں۔

I۔ اوّل، سچے مسیحیوں کے پاس یسوع کے بارے میں جو شعور ہوتا ہے وہ دُنیا کے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔

سچا مسیحی جب یسوع کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ انتہائی زیادہ سنجیدہ اور ذاتی ہوتا ہے۔ کھوئے ہوئے لوگوں نے بِنا سوچے یکدم جواب دیا تھا – ’’وہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے۔‘‘ ’’وہ نبیوں میں سے کوئی ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی کے ساتھ یا گہرائی کے ساتھ اُس [یسوع] کے بارے میں کہ وہ کون ہے نہیں سوچتے۔ اِسی لیے، آج، آپ کے کالج کے پروفیسر یسوع کے بارے میں کوئی گستاخ بیان پیش کریں گے – ایک جلد بازی میں دیا گیا جواب جس کے بارے میں اُنہوں نے سنجیدگی سے 10 منٹ بھی نہیں سوچا ہوگا! آپ کے کھوئے ہوئے دوست بھی ایسا ہی کریں گے۔ اُن سے یسوع کے بارے میں سوال کریں۔ وہ کہیں گے، ’’اوہ، ہاں، وہ‘‘ – اپنی تمام زندگی میں وہ [یسوع] کون ہے کے بارے میں سنجیدگی سے 10 منٹ بھی نہیں گزارے ہوں گے۔

اِس دُنیا کے لوگ مشکل سے ہی اُس [یسوع] کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں۔ مسیح اُن کے ذہنوں سے کہیں دور ہوتا ہے۔ وہ تو کرسمس یا ایسٹر کے موقع پر بھی یسوع کے بارے میں نہیں سوچتے۔ کچھ اُس کے بارے میں روح کی حیثیت سے سوچتے ہیں۔ دوسرے سوچتے ہیں کہ وہ کوئی مذہبی رہنما تھا جو کافی عرصہ پہلے زندہ تھا۔ دوسرے سوچتے ہیں کہ وہ بدحواس اور آدھا پاگل تھا، یا مصیبت پیدا کرنے والا ایک شخص تھا جس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔

ہندو اُس [یسوع] کے بارے میں اوتار کی حیثیت سے سوچتے ہیں، بہتوں میں سے کوئی ایک جو ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ مورمنز سوچتے ہیں کہ وہ تین علٰیحدہ خُداؤں میں سے ایک ہے۔ یہوواہ کی گواہی دینے والے سوچتے ہیں کہ وہ تخلیق کردہ ہستی ہے جو خُدا سے کمتر ہے۔ انسانیت کی بھلائی والے سوچتے ہیں کہ وہ محض ایک انسان تھا، جس کے پاس آج ہمیں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگوں کی آراء گزرتے وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اُس [یسوع] کو جانتے نہیں ہیں!

وہ [یسوع] خُدا کے خاص انکشاف کے وسیلے سے ہی جانا جا سکتا ہے۔ آپ اُس کو کتابیں پڑھنے سے نہیں جان سکتے، یا واعظ سُننے کے ذریعے سے بھی نہیں جان سکتے۔ میں مذید کہوں گا کہ آپ اُس کو بائبل پڑھنے سے بھی نہیں جان سکتے۔ بائبل خود اپنے ذریعے سے یسوع سے تعلق رکھتے ہوئے صرف حقائق ہی آپ کو پیش کر سکتی ہے۔ حتٰی کہ اگر آپ بائبل میں اُن حقائق پر یقین بھی کرتے ہیں تو جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ صرف وہ حقائق ہی ہیں۔ آپ اب بھی اُس [یسوع] کو ذاتی طور پر نہیں جانتے ہیں۔ بائبل آپ کو مسیح کی جانب اشارہ دیتی ہے، مگر بائبل مسیح نہیں ہے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ’’اور کس طرح تو بچپن سے اُن مقدس کتابوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر ایمان لا کر نجات حاصل کرنے کا عرفان بخشتی ہیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:15)۔ اُس یسوع کو جاننے کے لیے آپ کے ایمان کا مرکز خود یسوع مسیح میں ہونا چاہیے۔ یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب خُدا آپ پر یسوع کو ظاہر کرتا ہے۔ تب پطرس کے ساتھ ساتھ آپ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے، ’’یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17). صرف جب آپ کا سامنا زندہ مسیح کے ساتھ ہوتا ہے تب ہی آپ پولوس کے ساتھ کہنے کے قابل ہوتے ہیں،

’’جس پر میں نے بھروسہ کیا ہے میں اُسے جانتا ہُوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی عدالت کے دِن تک حفاظت کر سکتا ہے‘‘(2۔تیموتاؤس1:12).

اِس کے بارے میں آپ گانے کے قابل ہو جائیں گے!

’’میں جانتا ہوں جس پر میں نے بھروسہ کیا ہے،
   اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی
حفاظت کر سکتا ہے
   قیامت کے دِن تک۔‘‘
(’’میں جانتا ہوں جس پر میں نے بھروسہ کیا ہے I Know Whom I Have Believed‘‘ شاعر دانی ایل ڈبلیو۔ وھٹل Daniel W. Whittle، 1840۔1901)۔

’’اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے‘‘ (متی16:17).

II۔ دوئم، خُداوند ہر کسی پر مسیح کو ظاہر نہیں کرتا ہے۔

آپ یسوع کو اُس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک کہ خُدا آپ پر اُس کو ظاہرنہ کر دے۔ لیکن خُداوند ہر کسی پر یسوع کو ظاہر نہیں کرتا۔ یہ ہمارے لیے بالکل واضح ہوجانا چاہیے۔ صاف طور پر، ہرکوئی تو مسیحی نہیں ہوتا ہے۔ ہم سچ میں سینکڑوں لوگوں کو یہاں گرجہ گھر میں لاتے ہیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan اندازہ لگاتے ہیں کہ ہم تقریباً 500 لوگوں کو ہر سال دُنیا میں سے اپنے گرجہ گھر کے لیے لاتے ہیں۔ ہم بچائے ہوئے لوگوں کے پیچھے نہیں جاتے ہیں۔ ہم کھوئے ہوؤں کو انجیل کی تشہیر کرتے ہیں اور خوشخبری کی منادی کو سُننے کے لیے اُن میں سے ہر سال تقریباً 500 کو یہاں گرجہ گھر میں لاتے ہیں۔اُن 500 میں سے لگ بھگ 150 دوبارہ واپس آتے ہیں۔ یوں، اُن میں سے صرف 3 یا 4 ہی بچائے جاتے ہیں۔ ڈٓاکٹر کیگن کہتے ہیں کہ وہ جو بچائے جاتے ہیں 1 فیصد میں سے تقریباً آدھے ہی ہوتے ہیں جو بچائے جاتے ہیں۔ بِلا شُبہ میں اُنہیں کوئی دعا کہنے کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں حقیقی، زندگی کو بدل دینے والی تبدیلی کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ دراصل یہ بالکل بھی بُرا نہیں ہے۔ ہمارے گرجہ گھر میں صرف چار لوگ یہاں پر آنے سے پہلے بچائے ہوئے تھے – ڈاکٹر کیگن، مسٹر کُنز Mr. Kunz، مسٹر پرودھومی Mr. Prudhomme اور میں خود۔ باقی ہر کوئی یہاں ہمارے گرجہ گھر میں بچایا گیا تھا! جی ہاں، باقی ہر کوئی!

وہ تمام مبلغین جو یہاں پر بات کرنے کے لیے آتے ہیں ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ کس قدر شاندار گرجہ گھر ہے۔ ایک مشنری تو اِس حد تک چلا گیا کہ ہمارے گرجہ گھر کو’’تعجب خیز شاندار‘‘ کہتا ہے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ ہم ایک حقیقی ’’تبدیلی‘‘ پر زور دیتے ہیں، بجائے اِس کے کہ ایک گھٹیا ’’فیصلے‘‘ پر زور دیں۔ ہمارے لوگ مضبوط چٹان جیسے مسیحی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اُن کی تعمیر یسوع پر ہوئی ہے، جو کہ چٹان ہے! یسوع نے کہا،

’’اور میں تجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس چٹان پر اپنی کلیسیا قائم کروں گا اور موت بھی اُس پر غالب نہ آنے پائے گی‘‘ (متی16:18).

وہ ’’چٹان‘‘ خود مسیح ہے! میں اِس چٹان پر اپنی کلیسیا قائم کروں گا اور موت بھی اُس پر غالب نہ آنے پائے گی۔‘‘ آمین!

کچھ ’’فیصلہ ساز‘‘ کہیں گے، کیوں اتنے کم بچائے گئے ہیں؟ متی کی انجیل میں یسوع نے اِس کا دو مرتبہ جواب دیا۔ متی 20:16 میں یسوع نے کہا، ’’کیونکہ بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔‘‘ دوبارہ، متی 22:14 میں، یسوع نے کہا، ’’کیونکہ بُلائے ہوئے تو بہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔‘‘ ہم واقعی ہی سینکڑوں لوگوں کو گرجہ گھر میں انجیل سُننے کے لیے لاتے ہیں۔ ہم اُن میں سے ہر ایک کو اوّل درجے کا قابلِ تعریف کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ انتہائی احترام اور شدید محبت کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔ بہت مثبت اور خوشی کے ساتھ – وہ تقریباً ہمیشہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اُن کا کس قدر شاندار تجربہ رہا ہے۔ اِس کے باوجود 500 میں سے 3 یا 4 ایک لمبی مدت کے بعد بچائے جانے کے لیے واپس آتے ہیں۔ کیوں؟ ’’بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں‘‘ (متی 22:14)۔ کوئی شاید کہے، ’’کیوں، یہ تو صرف کیلون اِزم ہے!‘‘ واقعی میں نہیں! بالکل یہی تھا جو یسوع نے کہا، ’’بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں‘‘ سادہ! جو یسوع نے کہا وہ واقعی میں سچ ہے۔ ہر کوئی جو ’’ترقی کی منتقلی‘‘ میں مدد حاصل کرنے کے لیے رجوع کیے بغیر ایک گرجہ گھر کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ سچ ہے۔ آپ اِس کو ’’کیلون اِزم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آپ چاہے پسند نہ کریں آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔ آپ چاہے اِسے کچھ بھی کہیں – یہ پھر بھی ایک حقیقت ہے! ’’بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔‘‘

کیوں زیادہ لوگ بچائے نہیں جاتے؟ میں اِس کا جواب نہیں دے سکتا۔ خُداوند کے بھیجے ہوئے حیات نو کے دور میں یہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم تو خُدا کے بھیجے ہوئے حیات نو کے دور میں زندگی نہیں گزار رہے ہیں! امریکہ خُدا کی سزا کے تحت ہے۔ یہ ’’زندگی کے اتوار کا حق Right to Life Sunday‘‘ ہے۔ اِس قوم نے ھٹلر جیسے امریکی قتل عام میں خود اپنے ہی 56 ملین معصوم بچوں کو ذبح کر دیا ہے۔ خُدا اِس قوم کو اُس گناہ کی سزا دے رہا ہے۔ ہمارے پاس وائٹ ہاؤس میں ایک ہستی ہے جو ابراہام لنکن یا جارج واشنگٹن کے مقابلے میں نیرو بادشاہ Nero یا شہنشاہ کیلی گیولا Emperor Caligula کی مانند زیادہ ہے! یہ خُداوند کی طرف سے سزا ہے۔ آدھی سے زیادہ یہ قوم برفانی طوفانوں میں پھنسی ہوئی ہے اور اِس کا دم گُھٹ چکا ہے۔ باقی آدھی قوم کو اِس قدر شدید قحط کا تجربہ ہوا ہے کہ سیاست دان اپنے ہاتھ مسل رہے ہیں! اور خُدا نے ہمارے گرجہ گھروں پر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے! ہر بڑا فرقہ رُکنیت میں انتہائی کم ہو چکا ہے۔ خُدا کی سزا کی وجہ سے گرجہ گھر سوکھتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہم خُدا کے فضل کے وسیلے سے بہت اچھے جا رہے ہیں کہ ہر سال اِس خُدا کے بُھلائے ہوئے شہر میں سے 4 یا 5 غیر مذہبی لوگوں کو بچا لیتے ہیں! گذشتہ چند سالوں میں ہم نے دُنیا میں سے 50 مضبوط معیار پر اُترنے والے مسیحیوں کا اضافہ کر لیا ہے۔ زیادہ تر گرجہ گھروں کو تو بیرونی دُنیا سے ایک بھی نہیں ملتا ہے! اور ہمارے تمام کے تمام لوگ اتوار کی شام کی عبادت میں شامل ہوتے ہیں! اور ہمارے تمام کے تمام لوگ دھ یکی ادا کرتے ہیں! اور ہمارے تمام کے تمام لوگ دعائیہ عبادت میں آتے ہیں! اُن میں سے سب! اور اِس کے ساتھ ساتھ کسی بھی گرجہ گھر کی نسبت ہمارے پاس نوجوان لوگوں کی شرع سب سے زیادہ ہے!

’’بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔‘‘ کتنے لوگ اسرائیل میں بچائے گئے تھے جب یسوع مسیح ذاتی طور پر وہاں تھا؟ کیا آپ نے کبھی اِس بارے میں سوچا؟ وہ تمام مُلک میں – 500 سے زیادہ نہیں ہو سکتے ہوں گے! پولوس کہتا ہے اُن میں سے 500 تھے (1۔ کرنتھیوں15:6)۔ اور وہ خود یسوع کے ساتھ ہوا تھا جو اُن میں منادی کر رہا تھا! ’’بلائے ہوئے توبہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔‘‘ – انتہائی کم! کیا آپ اُن انتہائی کم میں سے ایک ہونگے جو ہمارے گرجہ گھر ٹھہرتے ہیں اور بچائے جاتے ہیں؟ غالباً نہیں۔ آپ یقینی طور پر واپس جنگل میں چلے جائیں گے – جو کہ لاس اینجلز کا ایک اور نام ہے۔ آپ انجیل کو جذب کرنے، گناہ سے رُخ موڑنے اور ایک حقیقی مسیحی بننے کے لیے یہاں انتہائی یقینی طور پر کافی مدت کے لیے نہیں رُکیں گے۔ آپ کہتے ہیں، ’’میں رُکوں گا! میں بچایا جاؤں گا!‘‘ ٹھیک ہے، ہم اِس کے بارے میں دیکھیں، کیا ہم نہیں دیکھیں گے؟

میں آپ کو ایک مرتبہ پھر بتاتا ہوں – اور میں یہ بتانے سے کبھی بھی نہیں تھکتا – یسوع مسیح آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا۔ یسوع مسیح جسمانی طور پر انسان ہو کر آپ کو زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ یسوع پر بھروسہ کریں اور وہ آپ کو بچائے گا۔ یسوع کی طرف رُخ کریں۔ دُنیا کے گناہوں کو اپنے پیچھے چھوڑ دیں، اور یسوع مسیح کی جانب اپنا رُخ کریں۔ وہ آپ کو تمام ادوار اور تمام ابدیت کے لیے بچائے گا!

اگر آپ بچائے جانے کے بارے میں، ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں، تو مہربانی سے اپنی نشست ابھی چھوڑیں اور اِس اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ جان سیموئیل کیگن John Samuel Cagan آپ کو ایک اور کمرے میں لے جائیں گے جہاں پر ہم دعا اور بات چیت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ آج صبح کوئی بچایا جائے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: متی16:13۔18 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میں جانتا ہوں جس پر میں نے بھروسہ کیا ہے I Know Whom I Have Believed‘‘ (شاعر دانی ایل ڈبلیو۔ وھٹل Daniel W. Whittle، 1840۔1901)۔

لُبِ لُباب

مسیح ملکوتی طور پر ظاہر ہوا

CHRIST REVEALED SUPERNATURALLY

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’یسوع نےجواب دیا اور اُس سے کہا: اَے یُوناہ کے بیٹے شمعون! تُو مبارک ہے کیونکہ یہ بات کسی اِنسان نے نہیں بلکہ میرے آسمانی باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے۔ اور میں تجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس چٹان پر اپنی کلیسیا قائم کروں گا اور موت بھی اُس پر غالب نہ آنے پائے گی‘‘ (متی 16:17۔18).

(متی 16:13؛ مکاشفہ 3:16؛ 1۔ یوحنا2:19؛
متی 16:15، 16؛ لوقا8:13)

I.   اوّل، سچے مسیحیوں کے پاس یسوع کے بارے میں جو شعور ہوتا ہے وہ دُنیا کے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، 2۔ تیموتاؤس3:15؛ 1:12 .

II.  دوئم، خُداوند ہر کس پر یسوع کو ظاہر نہیں کرتا ہے، متی 20:16؛ متی 22:14؛ 1کرنتھیوں15:6 .