اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
میں نے کیا کِیا ہے – اور میں نے یہ کیوں کِیا ہے؟ ?WHAT HAVE I DONE – AND WHY HAVE I DONE IT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’پھر یروشلم کے یہ لوگ کیوں ہمیشہ کی برگشتگی پر اڑے ہیں؟ وہ مکر سے لِپٹے رہتے ہیں، اور واپس آنے سے اِنکار کرتے ہیں۔ میں نے نہایت غور سے سُنا ہے، لیکن اُن کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ کوئی اپنی بدکاری سے یہ کہہ کر توبہ نہیں کرتا، کہ میں نے کیا کیا ہے؟ جس طرح گھوڑا لڑائی میں سرپٹ دوڑتا ہے اُسی طرح ہر ایک اپنی ہی روش کے درپے ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 8:5۔6). |
جب میں یرمیاہ کی کتاب پڑھتا ہوں تو یہ مجھے ہماری اپنی قوم کے بارے میں سوچنے پر مجبورکرتی ہے۔ ٹھیک پچاس سال پہلے میں مِلفورڈ Milford نامی ایک مسیحی آدمی سے ملا تھا۔ لاس اینجلز کے مرکز میں 107 جنوبی براڈوے پر ایک پارکنگ کے مقام پرکام کر رہا تھا۔ گزرتے سالوں کے دوران ہم ایک دوسرے سے خط و کتابت کرتے تھے۔ مجھے کچھ دِن پہلے اُس کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اُس نے کہا،
ہاں، ہم خطرناک دور میں رہ رہے ہیں...کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہم جرمنی میں 1939 میں رہ رہے ہیں – لطف اندوز کروائے جا رہے ہیں – جبکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری بدکاری، سیاست، اور بدعنوانی کی وجہ سے تمام وقت تباہ کیے جا رہے ہیں... آخری ایام کی علامات ہمارے اردگرد ہر طرف ہیں۔
مجھے اُس کے ساتھ اتفاق کرنا پڑا۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے جیسے 1939 کی دہائی میں جرمنی نے کیا تھا۔ ھٹلر جوش کے ساتھ ایک بہت بڑی جنگ کی مشین تیار کر رہا تھا۔ لیکن جرمنی کے لوگوں کو گناہ کے ذریعے سے پُرسکون کیا جا رہا تھا۔ وہ کُھلم کھلا اور ڈھٹائی سے چال چل رہے تھے۔ میں اِس فلم کی سفارش نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن اِس میں 1930 کی دہائی میں برلِن کے سراسر اخلاقی اور ذہنی بگاڑ کو دکھا گیا ہے۔ فلم کا عنوان ’’کیبارٹ Cabaret‘‘ (1972) تھا۔ یہ کرسٹوفر آئیشرووڈ Christopher Isherwood کی کتاب ’’برلِن کو خُدا حافظ Goodbye to Berlin‘‘ پر مبنی تھی – جو جرمنی میں جنگ سے پہلے جھوٹی شان شوکت اور دیوانی رنگ رلیوں میں پھنسی ایک امریکی لڑکی کی کہانی تھی – جس میں منشیات کی بھرمار، بے ھنگم موسیقی، جنسی بدچلنی، لالچ، اور سراسر اخلاقی اور ذہنی بگاڑ تھا – ایک ایسے شہر میں جس نے چند سالوں میں تباہ ہونے جانا تھا، جس کو برطانیہ، امریکہ اور سویت یونین نے منہدم کر دینا تھا۔ برلِن کے لوگ ایک تصوراتی دُنیا میں جی رہے تھے۔ قیامت اُن کی بے دین طرز زندگی کو تباہ کرنے کے قریب تھی! جی ہاں، ملفورڈ سچے تھے۔
یوں لگتا ہے جیسے ہم جرمنی میں 1939 میں رہ رہے ہیں – لطف اندوز کروائے جا رہے ہیں – جبکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری بدکاری، سیاست، اور بدعنوانی کی وجہ سے تمام وقت تباہ کیے جا رہے ہیں...
اور یہ ایسا ہی یرمیاہ کے دور میں تھا! ہیکل کی مرمت کی جا چکی تھی۔ وہ دوبارہ سے استعمال میں آ گیا تھا۔ لوگوں کا ہیکل میں دوبارہ جانا کتنا شاندار لگتا تھا کی باتیں کر رہے تھے۔ لیکن وہ اب بھی گھروں پر بُتوں کی ہی پوجا کر رہے تھے۔ وہ مذہبی منافق تھے۔ ڈاکٹر جے ورنن میکجیDr. J. Vernon McGee نے بتایا کہ کیسے قدامت پسند گرجہ گھروں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد لوگوں کی حاضری بڑھ گئی تھی۔ اُنہوں نے کہا، ’’اُن وقتوں کے دوران ہم سُنتے تھے کہ پادری کہتے ہیں کہ گرجہ گھروں کی حاضری دوگنی تگنی ہو چکی تھی۔ وہ کرسیوں کو نشستوں کے درمیان گزرنے والے راستے میں لگا رہے تھے اور نئی عمارات تعمیر کر رہے تھے۔‘‘ مگر ڈاکٹر میکجی نے سچ کہا تھا، ’’اُنہوں نے تعداد میں ترقی کو غلط فہمی سے روحانی ترقی اور اضافے میں لیا۔ یہ وہ بات ہے جو یرمیاہ واضح کر رہا ہے‘‘ (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J.Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1982، جلد سوئم، صفحہ 369؛ یرمیاہ 7:9۔10 پر غورطلب بات)۔
ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer (1897۔1963) 1940 اور 1950 کی آخری دہائیوں میں بشارتی گرجہ گھروں کی جسمانی نیتوں اور منافقت کے خلاف انتہائی بصیرت اور جرأت کے ساتھ کھلم کھلا بولنے والے چند مبلغین میں سے ایک تھے۔ 1957 میں ڈاکٹر ٹوزر نے کہا،
ہمیں کلیسیا میں ضرور اصلاح کرنی چاہیے۔ ایک برگشتہ اور نافرمان گرجہ کے لیے برکتوں کے سیلاب کی بھیک مانگنا وقت اور جدوجہد کا ضائع ہے۔ مذھبی دلچسپی کی ایک نئی لہر کچھ بھی نہیں کر پائے گی ماسوائے اُن گرجہ گھروں کی تعداد میں اضافے کے جنہیں مسیح کی خُدائی [کو قبول] کرنے میں اور اُس کے احکامات کی تابعداری کے تحت [آنے کا] کوئی شوق نہیں ہے... ہمیں سٹہ بازوں اور پیسوں کی تبدیلی کرنے والوں سے ہیکل کو فارغ پاک صاف کرنا چاہیے اور مکمل طور پر ہمارے جی اُٹھے خُداوند کے اختیار کے تحت آنا چاہیے... جب تک ہم اصلاح کا ارادہ نہیں کرتے ہم دعا بھی نہیں کر سکتے... ایمانداروں کے بڑے بڑے گروہوں کا گھنٹوں خُدا سے حیات نو بھیجنے کے لیے منتیں کرنا فضول ہے... جب تک کہ ہمارا اصلاح کرنے کا ارادہ نہ ہو (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ A. W. Tozer, D.D.، گہری زندگی کے لیے کُلیدیں Keys to the Deeper Life، ژونڈروان اشاعتی کمپنی Zondervan Publishing Company، دوبارہ اشاعت 1988، صفحات 17، 18)۔
جو ڈاکٹر ٹوزر نے کہا وہ 100 % سچ تھا۔ میں جانتا ہوں۔ جب ڈاکٹر ٹوزر نے وہ 1957 میں کہا تھا تو میں ھنٹینگٹن پارک Huntington Park کیلیفورنیا میں ایک بڑے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کا رُکن تھا۔ اُنہوں نے حیات نو کے لیے ایک تمام رات کا دعائیہ اجلاس منقعد کیا تھا۔ لیکن وہ گرجہ گھر جسمانی نیت اور منافقت کا چوہوں کا ایک بِل تھا۔ خواتین گرجہ گھر میں گریس کیلی کی مانند دستانے اور ٹوپیاں پہن کر آتی تھیں۔ لیکن وہ چغل خوری اور بدگوئی کرنے میں ماہر تھیں۔ آدمی اِتوار کی صبح گرجہ گھر سوٹ اور ٹائی پہن کر آتے تھے۔ لیکن اِتوار کی شب کو وہ ایڈ سولیون Ed Sullivan کو ٹیلی ویژن پر دیکھنے کے لیے گھر رُک جاتے تھے۔ اور یہ مت سوچیں کہ میری عمر کے بچے اِس کو محسوس نہیں کرتے تھے! اور یہ مت سوچیں کہ اِس نے اُن کو تباہ نہیں کیا! اِس نے تباہ کیا۔ میری معلومات کے مطابق اُس گرجہ گھر کے بہت بڑے نوجوان کے گروہ میں سے میں اکیلا ہی ہوں جو کہ آج بھی گرجہ گھر میں عبادت کے لیے آ رہا ہے! خدا ہماری مدد کرے! 1957 سے ہمارے گرجہ گھروں نے کوئی سُدھار نہیں پیدا کیا۔ درحقیقت وہ بہت سی باتوں میں بدترین ہو گئے ہیں۔ ہمارے گرجہ گھر کے لوگ اتنے ہی بُرے ہیں جتنے یرمیاہ کے دِنوں میں وہ تھے! اور ہم بھی جب قیامت آئے گی تو چاروں ہواؤں کے لیے پھیل جائیں گے اور تباہ ہو جائیں گے – جیسا کہ یہ یقیناً ہوگا! جیسا کہ جلد ہی ہو جائے گا!
مجھے معاف کیجیے گا میں نے تعارف میں کچھ زیادہ ہی وقت لے لیا۔ لیکن اب ہم خود تلاوت کی طرف آتے ہیں۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اِسے با آواز بُلند پڑھیں۔ یہ یرمیاہ8:5۔6 ہے۔
’’پھر یروشلم کے یہ لوگ کیوں ہمیشہ کی برگشتگی پر اڑے ہیں ؟ وہ مکر سے لِپٹے رہتے ہیں، اور واپس آنے سے اِنکار کرتے ہیں۔ میں نے نہایت غور سے سُنا ہے، لیکن اُن کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ کوئی اپنی بدکاری سے یہ کہہ کر توبہ نہیں کرتا، کہ میں نے کیا کیا ہے؟ جس طرح گھوڑا لڑائی میں سرپٹ دوڑتا ہے اُسی طرح ہر ایک اپنی ہی روش کے درپے ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 8:5۔6).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
آیت پانچ میں یرمیاہ پوچھتا ہے کہ کیوں لوگ ’’برگشتہ‘‘ ہوئے، یا خُدا سے پھر گئے۔ کیوں اُنہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا؟ آیت چھے میں، نبی کہتا ہے کہ اُس نے اُن کو سُنا، لیکن وہ جو سچ تھا وہ نہیں کہہ رہے تھے۔ کسی نے بھی اپنی بدکاری سے توبہ نہیں کی۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہ توبہ کا پہلا قدم بھی جو گناہ اُنہوں نے سرزد کیے تھے اُن کا اعتراف کرکے نہیں اُٹھایا۔ کوئی بھی توبہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا اور کہتا، ’’میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘ (یرمیاہ8:6)۔ ڈاکٹر چارلس ایل۔ فائنبرگ Dr. Charles L. Feinberg نے کہا، ’’خُدا نے لوگوں کا انتظار کیا کہ وہ اپنے طور طریقے بدل لیں؛ اُس کا توبہ کے کچھ الفاظ اور قصور کے اعتراف کو سُننا رائیگاں تھا‘‘ (چارلس ایل۔ فائنبرگ، ٹی ایچ۔ڈی۔، پی ایچ۔ڈی۔ Charles L. Feinberg, Th.D., Ph.D.، یرمیاہ: ایک تبصرہ Jeremiah: A Commentary، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1982، صفحہ 79)۔
میتھیوھنری Mathew Henry کا تبصرہ کہتا ہے کہ ’’سچی توبہ ہم میں ایک سنجیدہ... تفتیش جو کچھ ہم کر چکے ہوتے ہیں [اُس سے تعلق رکھتے ہوئے] لاتی ہے، جو کچھ نامناسب ہم کر چکے ہوتے ہیں اُس کی سزا یابی میں بڑھنے سے ہوتی ہے‘‘ (تمام بائبل پر میتھیو ھنری کا تبصرہ Mathew Henry’s Commentary on the Whole Bible؛ یرمیاہ8:6 پر ایک غور طلب بات)۔
توبہ کرنے کے بجائے، ہر کوئی اُسی گناہ کی ڈگر پر چل نکلا جس کو سرزد کرنے کے وہ عادی تھے، اور اِس قدر شوق سے کیا، جیسے جنگ میں ایک گھوڑا گھُستا ہے۔ پس گنہگاروں نے پوچھنے سے انکار کر دیا، ’’میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘ میں نے کیا گناہ سرزد کیا ہے؟ گناہ سے پھرنے کے بجائے، وہ اپنے پسندیدہ گناہوں میں اِس طرح دھنس گئے جیسے جنگ میں ایک گھوڑا غرق ہو جاتا ہے، جس میں وہ مارا جاتا ہے۔ اِس لیے، گنہگار اپنے گناہ کو ماننے سے انکار کرتا ہے – مگر خود کو اِس میں مست ہو کر پھینک دیتا ہے!
اِس طرح سے تھا کہ یہ لوگ یرمیاہ نبی کے زمانے میں تھے۔
’’میں نے نہایت غور سے سُنا ہے، لیکن اُن کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ کوئی اپنی بدکاری سے یہ کہہ کر توبہ نہیں کرتا، کہ میں نے کیا کیا ہے؟ جس طرح گھوڑا لڑائی میں سرپٹ دوڑتا ہے اُسی طرح ہر ایک اپنی ہی روش کے درپے ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 8:6).
نبی نے کہا کہ وہ ایک آدمی کو سُن رہا تھا جس نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ لیکن کسی نے نہیں کہا، ’’میں قصور وار ہوں۔ میں نے گناہ کیا ہے۔‘‘ اُنہوں نے توبہ کی طرف پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا، یہ پوچھ کر کہ، ’’میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘ سچی توبہ خود اپنے آپ سے پوچھنے سے آتی ہے، ’’میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘ ’’میں نے کیا گناہ سرزد کیے ہیں؟‘‘ یہ اِس حقیقت سے شروع ہوتا ہے کہ آپ گناہ کر چکے ہیں۔ یہ سوال آج رات کو خود سے پوچھیں۔
I. اّول، خود سے پوچھیں، ’’میں نے اپنے اِتواروں کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
خُداوند یسوع مسیح رومن ہفتے کے پہلے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے تھے – جو کہ اِتوار ہے، حتٰی کہ آج ہمارے کیلینڈروں میں بھی۔ پہلی مسیحی پرستش کی عبادت اِتوار کی رات کو منقعد ہوئی تھی، جب یسوع اپنے شاگردوں پر اُس دِن کی شام کو ظاہر ہوا تھا جس دِن وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ دوسری مسیحی پرستش کی عبادت ایک ہفتے بعد رونما ہوئی تھی، وہ بھی اتوار کو۔ یہ نئے عہد نامے سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی مسیحی گرجہ گھر میں اکٹھے خُداوند کے دِن پر پرستش کرتے تھے، جو کہ ہفتے کا پہلا دِن ہے، یعنی اِتوار – وہ دِن جب یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔
آپ اپنے اِتواروں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ اُنہیں خُداوند کو جلال دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ یا کیا آپ اپنے اتواروں کو کھیلنے، پڑھنے، یا کام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ کیا آپ ہفتے کا منصوبہ بناتے ہیں تاکہ آپ یوحنا رسول کے ساتھ کہہ سکیں، ’’خُداوند کا دِن تھا اور مجھ پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوگئی‘‘ (مکاشفہ1:10)؟ یا کیا آپ خُداوند کے دِن کو کچھ استعمال کرتے ہیں پیسے کمانے کے لیے یا مطالعہ کرنے کے لیے، یا تفریح کرنے کے لیے؟ میں جانتا ہوں کہ بہت سے اقراری مسیحی اِس کو ’’قانونیت‘‘ کہتے ہیں، لیکن کیا وہ سچے ہیں؟ اور کیا یہ دُرست ہوگا کہ اُن کی انیٹی نومیئین اِزم antinomianism میں اُنکی پیروی کی جائے؟ خود اپنے آپ سے پوچھیں، ’’اپنے اِتواروں کے ساتھ – میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘
II. دوئم، خود اپنے آپ سے پوچھیں، ’’میں نے اپنے پیسے کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
کیا آپ خُدا کی پرستش اُس کی مکمل دہ یکی ادا کرنے سے کرتے ہیں؟ دہ یکی 10 % ہوتی ہے۔ خُداوند نے مُلاکی نبی کے ذریعے کہا،
’’کیا کوئی آدمی خدا کو ٹھگے گا؟ پر تُم مجھے ٹھگتے ہو اور پوچھتے ہوکہ ہم کس بات میں تجھے ٹھگتے ہیں؟ دہ یکیوں اور ہدیوں میں۔ پس تُم لعنت کے ساتھ معلون ٹھہرے ہو: کیونکہ تُم مجھے ٹھگتے رہے...‘‘ (ملاکی 3:8،9).
’’دہ یکیاں،‘‘ اور دہ یکی سے بڑھ کر’’ہدیے‘‘ نا صرف نبی کے ذریعے سے بلکہ خُداوند یسوع مسیح کے ذریعے سے بھی رائج کیے گئے۔ اُس نے دہ یکیوں کے ہدیے سے تعلق رکھتے ہوئے کہا، ’’تمہیں لازم تھا کہ یہ بھی کرتے‘‘ (متی23:23)۔
خود اپنے آپ سے پوچھیں، ’’میں نے دہ یکیوں اور ہدیوں کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘ کیا آپ نے پورا دس فیصد ادا کرنے کے بجائے دہ یکی کا کچھ حصہ رکھ چھوڑا؟ کیا آپ نے پوری دہ یکی دینے کا دکھاوا کیا، یا کیا آپ نے خُدا کے پیسے کے حصے کو خود کے لیے رکھ چھوڑا؟ اُس سخت فیصلے کو یاد رکھیں جو حننیاہ اور اُس کی بیوی پر پڑا تھا جب اُنہوں نے ’’پاک روح سے جھوٹ بولا تھا اور رقم کا کچھ حصہ [رکھ]چھوڑا تھا... ‘‘ (اعمال5:3)۔ کیا یہ ایک بغیر اعتراف کا گناہ ہوگا جو آپ سرزد کر رہے ہیں؟ خود سے پوچھیں، ’’میں نے دہ یکی کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
III۔ سوئم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے لوگوں کو جیتنے کے بارے میں کیا کِیا ہے؟‘‘
یسوع نے کہا، ’’میرے پیچھے آؤ اور میں تمہیں آدمیوں کا مچھیرا بناؤں گا‘‘ (متی4:19)۔ یسوع نے یہ اُن کو بالکل اُسی وقت کہا تھا، یہاں تک کہ اُنہوں نے تو ابھی نجات بھی نہیں پائی تھی۔ اگر آپ یوحنا1:35۔51 پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اندریاس، فلپ، اور دوسرے فوراً لوگوں کو جیتنا شروع ہو گئے تھے۔ ابھی سوچیں! آپ نے بشروں کے جیتنے کے لیے کیا کِیا ہے؟ آپ میں سے کچھ انتہائی خوبصورت ہیں۔ آپ جیسے لوگ۔ لیکن کیا آپ نے کبھی اُن میں سے ایک کو بھی گرجہ گھر لایا، اور کیا آپ نے کسی ایک کی دیکھ بھال کی جب تک کہ وہ نجات نہ پا لیتے اور ایک مسیحی کے طور پر خود اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو جاتے؟ کیا آپ کسی ایک شخص کا بھی نام بتا سکتے ہیں جس کو آپ نے اِس طریقے سے جیتا ہو؟ کیا آپ اِس پر مسیح کے تابعدار ہیں؟ خود سے پوچھیں، ’’میں نے بشروں کو جیتنے کے لیے کیا کِیا ہے؟‘‘
IV۔ چہارم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے بائبل کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
آپ جانتے ہیں کہ ہم آپ کو بائبل کے حوالوں کے ساتھ ہر روز پڑھنے کے لیے نماز سے تعلق رکھتا ہوا ایک ورق دیتے ہیں۔ کیا آپ ہر روز اُن حوالوں کو پڑھتے ہیں؟ داؤد نے کہا، ’’میں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں، دِن بھر میرا دھیان اُسی پر لگا رہتا ہے‘‘ (زبور119:97)۔ کیا یہ آپ کو بیان کرتا ہے؟ کیا آپ اُس کی مانند ہر روز بائبل کے بارے میں سوچتے ہیں؟ کیا آپ نماز سے تعلق رکھنے والے ورق پر تمام آیات کو پڑھتے ہیں؟ خود سے پوچھیں، ’’میں نے بائبل کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
V۔ پنجم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے دعا کے بارے میں کیا کِیا ہے؟‘‘
پولوس رسول نے کہا،
’’بلا ناغہ دعا مانگو‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 5:17).
کیا آپ نے کبھی بھی اِس کے بارے میں سوچا کہ اِسکا مطلب کیا ہوتا ہے؟ دوبارہ، پولوس نے کہا
’’ہر وقت اور ہر طرح دعا اور منت کرتے رہو...‘‘ (افسیوں 6:18).
کیا آپ ہر کھانے سے پہلے دعا کرتے اور شکریہ ادا کرتے ہیں – حتٰی کہ جب آپ بے اعتقادوں کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ ہر دِن کا آغاز اور اختتام دعا کے ساتھ کرتے ہیں؟ کیا آپ دعا کرتے ہیں جب کبھی بھی آپ اپنے لیے یا کسی اور کی کسی ضرورت کے لیے سوچتے ہیں؟ کیا آپ ہر دِن کئی مرتبہ دعا کرتے ہیں؟ خود سے پوچھیں، ’’میں نے دعا کے بارے میں کیا کِیا ہے؟‘‘
VI۔ ششم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے پاک روح کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
پاک روح کا پہلا کام ’’گناہ کی دُنیا کو مجرم قرار‘‘ دینا ہے (یوحنا16:8)۔ آپ پاک روح کے ساتھ کیا کرتے ہیں جب وہ آپ کو گناہ کی سزایابی کے تحت کرنے کے لیے آتا ہے؟ کیا آپ اُس کے ساتھ ’’مزاحمت‘‘ کرتے ہیں جیسے کہ عظیم سیلاب سے پہلے بدکار لوگوں نے کی تھی؟ خُدا کہتا ہے، ’’میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش6:3)۔ جب پاک روح آپ کو گناہ کی سزایابی کے تحت کرنے کے لیے آتا ہے، کیا آپ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کرتے ہیں اور بغیر بہانے بنائے اپنے گناہ کے بارے میں سوچتے ہیں؟ یا کیا آپ ’’ڈھیٹ‘‘ بن جاتے ہیں اور اُس کی مخالفت کرتے ہیں؟ کیا آپ نے اِس طریقے سے ’’روح کی بے عزتی‘‘ کی ہے (عبرانیوں10:29، NIV)؟ خود سے پوچھیں، ’’میں نے پاک روح کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
VII۔ ہفتم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے دس احکامات کے ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘
دوسرے حکم کے بارے میں کیا خیال ہے، کسی شے کی صورت پر’’اُن کے آگے سجدہ کرنے اور اُن کی خدمت کرنے کے لیے کوئی بُت نہ بنانا‘‘ (خروج20:4، 5)؟ کیا آپ فحش فلموں کو دیکھتے ہیں؟ کیا آپ گندی تصویروں کے آگے جھک جاتے ہیں اور اُن کے ساتھ وقت گزارتے ہیں؟ کیا آپ نے دوسرے حکم کو توڑا ہے؟ ساتویں حکم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ کہتا ہے، ’’تو زنا مت کر۔‘‘ کیا آپ نے شادی سے ہٹ کر جنسی رابطہ رکھا؟ کیا آپ اِس کو اب بھی کر رہے ہیں؟ کیا آپ اِس کو مستقبل میں جاری رکھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ آپ نے ساتویں حکم کے ساتھ کیا کیا ہے؟ کیا آپ نے آٹھویں حکم کو توڑا ہے – ’’تو چوری مت کر‘‘؟ کیا آپ نے وہ کی ہے؟ کیا آپ یہ اب بھی کر رہے ہیں محض چند ڈالر خود کے لیے ادھر سے اُدھر کرنے سے جو کہ کسی اور کی ملکیت ہوتے ہیں؟ – آٹھویں حکم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ چوری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ نویں حکم کے بارے میں کیا خیال ہے، ’’تو جھوٹی گواہی مت دے‘‘؟ کیا آپ نے اُس کو توڑا؟ کیا آپ نے حال ہی میں اِس کو توڑا؟ اِس کا مطلب ہوتا ہے، ’’تو جھوٹ مت بول۔‘‘ خود سے پوچھیں، ’’میں نے کیا کِیا ہے، کیا میں نے اکثر جھوٹ بولا ہے؟‘‘ خود سے پوچھیں، ’’کیا میں نے اِن احکامات کو توڑا ہے؟‘‘ ’’کیا میں خُدا کی نظروں میں قصوروار ہوں؟‘‘
VIII۔ ہشتم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے یسوع کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘
رومی گورنر پینطس پیلاطوس نے کہا، ’’پھر میں یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟‘‘ (متی27:22)۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہر کسی کو دینا چاہیے۔ پیلاطوس نے اپنے ہاتھ دھونے اور اُس سوال کا جواب نہ دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ہر کوئی جو مسیح کی اذیت اور مصلوبیت کے واقعے کو پڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ پیلاطوس قصور وار تھا! قصوروار تھا! قصوروار تھا! قصور وار تھا! یہی ہمارا ضمیر کہتا ہے جب پیلاطوس نے اپنے ہاتھ دھوئے اور غیر جانبدار ہونے کی کوشش کی! قصور وار! قصور وار! قصور وار! خُدا کہتا ہے، اور تمہارا ضمیر خُدا کے ساتھ متفق ہوتا ہے! جب ہم آپ سے پوچھتے ہیں، ’’کیا آپ یسوع پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ آپ میں سے کچھ کہتے ہیں ’’جی نہیں‘‘ اور آپ میں سے چند ایک کچھ بھی نہیں کہتے؟ لیکن یہ کوئی کھیل نہیں ہے! آپ یسوع کے ساتھ کیا کریں گے؟ کوئی جواب نہ دینے کا مطلب ہوتا ہے، ’’جی نہیں، میں اُس پر بھروسہ نہیں کروں گا۔‘‘ ’’جی نہیں‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’نہیں‘‘ – اس کا مطلب ہوتا ہے میں نجات دہندہ سے انکار کرتا ہوں! میں اُس کو نہیں چاہتا! قصور وار! قصور وار! قصور وار! خُدا کے واحد اکلوتے بیٹے کو مسترد کرنے کا قصور وار! ’’جو بیٹے کو رد کرتا ہے وہ زندگی سے محروم ہو کر خُدا کے غضب میں مبتلا رہتا ہے‘‘ (یوحنا3:36)۔
اگر آپ مسیحی نہیں ہیں، تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ نے خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ کیا کیا ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ آپ نے خدا کے بیٹے کو اپنے قدموں تلے روندا ہے۔ آپ نے خون میں نہائے ہوئے یسوع سے اپنا منہ موڑا ہے۔ جیسا کہ اُس دیوانے ہجوم نے چلا کر کہا تھا، ’’اِسے صلیب دو! اِسے صلیب دو! اِسے صلیب دو!‘‘ آپ پیچھے ہٹ گئے اور خاموش رہے۔ آپ شمعون کی مانند صلیب اُٹھانے میں اُس کی مدد کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھے! جی نہیں آپ نہیں! آپ اِس میں شامل ہونے کے لیے بہت ’’چالاک‘‘ تھے۔ آپ نے کہا ’’جی نہیں‘‘ – یا آپ نے کچھ بھی نہیں کہا! آج رات کو خود سے پوچھیں، ’’میں نے یسوع کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘
میں نہیں چاہتا کہ آپ سوچیں کہ آپ اُن گناہوں کو روک دینے اور اپنی زندگی کی اصلاح کرنے سے نجات پا سکتے ہیں۔ یہ اعمال کے ذریعے سے نجات ہوگی۔ سچی نجات فضل سے ہوتی ہے، یسوع میں ایمان رکھنے کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ اِس واعظ کوڈاکٹر ڈبلیو۔ھرشیل فورڈ Dr. W. Herschel Ford کے ایک واعظ سے اخذ کیا گیا ہے، جو کہ ایک بہت پیارے مغربی بپتسمہ دینے والے پادری اور مبشرِ انجیل ہیں، اور یہ ڈاکٹر فورڈ کا مقصد تھا کہ یہ ظاہر کریں کہ آپ کو نجات پانے کے لیے یسوع پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے (ڈبلیو۔ ھرشیل فورڈ، ڈی۔ڈی۔W. Herschel Ford, D.D. ، ’’وہ سوال جو ہم کبھی نہیں پوچھتے The Question We Never Ask،‘‘ اتوار کی شام کے لیے سادہ واعظوں میں سے Simple Sermons for Sunday Evening، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1972 ایڈیشن، صفحات 86۔96)۔
آپ کے دِل کی شیطانیت
جان نیوٹن John Newton، جو ’’حیرت انگیز فضل Amazing Grace‘‘ کے مصنف ہیں، اُنہوں نے آپ کے گناہ سے بھرپور دِل کے بارے میں یہ الفاظ تحریر کیے،
یہ آلودہ دِل
تمہارے لیے سکونت کی ایک جگہ ہے؟
افسوس! ہر حصے میں بھرا ہوا ہے
میں کیسی بُرائیاں دیکھتا ہوں؟
(’’گناہ کا وزن The Weight of Sin‘‘ شاعر جان نیوٹن
John Newton، 1725۔1807)۔
میں نے آپ کو انسان کو لعنتی کرنے والے آٹھ گناہ پیش کیے۔ لیکن گناہ کی اِس فہرست سے زیادہ بدترین بھی کچھ ہے۔ جان نیوٹن نے اِ سکے بارے میں اِس حوالے میں لکھا ہے جو میں نے ابھی پیش کی۔ یہ خود آپ کے اپنے دِل کا گناہ ہے – جس میں سے وہ آٹھ موذی گناہ اُمڈتے ہیں۔ آپ کو خود گناہ کی سزایابی کے تحت ہونا چاہیے – جو آپ کے دِل کی شیطانیت ہے۔ آپ کو محسوس کرنا چاہیے جیسے جان نیوٹن نے محسوس کیا، ’’افسوس! ہر حصے میں بھری ہوئی میں کیسی بُرائیاں دیکھتا ہوں؟
ڈاکٹر مارٹن لائیڈ۔ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے مبلغین سے کہا، ’’ہمارا اصل کاروبار گناہ کی سزایابی کے تحت لانا ہے، خود اُن باتوں کے تحت جو ہمیں تباہ کرتی ہیں، جو خود کو ایک مخصوص گناہ کی صورت میں ظاہر کرتی ہیں۔ پھر ہمیں ضرور ہے کہ اپنے سُننے والوں کو لوگوں اور خُدا کی حضوری میں اپنے گناہوں کو ماننے اور اعتراف کرنے کے لیے بُلائیں۔ اُس کے بعد ہمیں نجات کی اُس جلالی اور شاندار مفت پیشکش کو ظاہرکرنا چاہیے جو کہ صرف خود اُس مصلوب مسیح یسوع میں ہی پائی جاتی ہے۔ ہمیں دکھانا چاہیے کہ واحد وہ ہی گناہ کی قوت اور جرم کو ہٹا سکتا ہے؛ وہ ناصرت کا یسوع، خُدا کا بیٹا، اُس نے ہمارے گناہ صلیب پر خود پر لاد لیے (1۔پطرس2:24)، اور یہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب ہم ہار مان کر اپنے آپ مکمل طور پر اُس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ، اُس میں اور اُسی وقت، ہم خدا کے ساتھ صلح پاتے ہیں، اور ایک ایسی زندگی گزرانے کے قابل بنتے ہیں جو اُس کی نظروں میں انتہائی خوش کردینے والی ہوتی ہے۔‘‘ (مارٹن لائیڈ ۔ جونز، ایم۔ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، زمانوں کو جاننےKnowing the Times میں ’’انجیل کا اظہار‘‘ دی بینر اور ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Truth، 1989، صفحہ10)۔
میں نے اپنے طور پر آپ کو یہ دکھانے کےلیے کہ آپ نے واقعی ہی میں ہولناک تعداد میں گناہوں کو سرزد کیا ہے کوشش کی ہے۔ اور میں نے آپ کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ گناہ آپ کے مسخ شُدہ دِل سے ابھرتے ہیں، آپ کو گناہ سے بھرپور دِل جو یسوع کو انتہائی بُرے طور سے مسترد کرتا ہے، جو کہ تنہا واحد ہے جو آپ کے دِل کو بدل سکتا ہے اور اُن ناخوشگوار گناہوں کو معاف کر سکتا جو اِس سے آتے ہیں۔
اگر آپ ہار ماننے اور یسوع کے حوالے کرنے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی سے ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو ایک اور کمرے میں لے جائیں گے جہاں پر ہم بات چیت اور دعا کر سکتے ہیں۔ ابھی جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ آج رات کو کوئی ایک اپنے آپ کویسوع مسیح کے حوالے کرے۔ آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: یرمیاہ8:1۔12 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’آؤ، اے گنہگارو Come, Ye Sinners‘‘ (شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart، 1712۔1768)۔
لُبِ لُباب میں نے کیا کِیا ہے – اور میں نے یہ کیوں کِیا ہے؟ ?WHAT HAVE I DONE – AND WHY HAVE I DONE IT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’پھر یروشلم کے یہ لوگ کیوں ہمیشہ کی برگشتگی پر اڑے ہیں؟ وہ مکر سے لِپٹے رہتے ہیں، اور واپس آنے سے اِنکار کرتے ہیں۔ میں نے نہایت غور سے سُنا ہے، لیکن اُن کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ کوئی اپنی بدکاری سے یہ کہہ کر توبہ نہیں کرتا، کہ میں نے کیا کیا ہے؟ جس طرح گھوڑا لڑائی میں سرپٹ دوڑتا ہے اُسی طرح ہر ایک اپنی ہی روش کے درپے ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 8:5۔6). I. اوّل، خود سے پوچھیں، ’’میں نے اپنے اتواروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ مکاشفہ1:10۔ II. دوئم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے اپنے پیسے کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ ملاکی3:8، 9؛ III. سوئم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے لوگوں کو جیتنے کے بارے میں کیا کیا ہے؟‘‘ IV. چہارم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے بائبل کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ زبور119:97 . V. پنجم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے دعا کے بارے میں کیا کیا ہے؟‘‘ VI. ششم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے پاک روح کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ یوحنا16:8، VII. ہفتم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے دس احکامات کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ VIII. ہشتم، خود سے پوچھیں، ’’میں نے یسوع کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘ متی27:22؛ |