اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
کیوں کلیسیائیں سرد مہر اور اونگھتی ہوئی ہیں (آخری ایام کی کلیسیائیں- حصّہ I) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا؛ لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10). |
دانی ایل کا بارھواں باب دُنیا کے خاتمے کے بارے میں بہت سی پیشن گوئیاں رکھتا ہے۔ پہلی آیت میں ہم انتہائی بڑی مصیبت کے وقت کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ دوسری آیت میں ہمیں سچے مسیحیوں کے ریپچر [سچے مسیحیوں کا مسیح کی آمد ثانی پر بادلوں میں اُس کے استقبال کے لیے ہوا میں اُٹھا لیا جانا] اور رُسوا اور ذلیل لوگوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ چوتھی آیت میں ’’وقت کے خاتمے میں‘‘ لوگوں کی دُنیا بھر میں مسافتوں کے بارے میں پیشن گوئی کی گئی ہے۔ آیت پانچ سے لیکر آیت سات تک میں ہمیں انتہائی بڑی مصیبت کے وقت کے آخری ساڑھے تین سالوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لیکن آیت آٹھ اور نو بھی کافی دلچسپ ہیں۔ اِن پر نظر ڈالیں۔ نبی نے کہا،
’’میں نے یہ سُنا لیکن سمجھ نہ پایا۔ اس لیے میں نے پوچھا، میرے خداوند، ان سب کا انجام کیا ہوگا؟ [اِس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟] اور اس نے جواب دیا۔ اے دانی ایل: تُو اپنی راہ لے: کیونکہ یہ باتیں آخری زمانہ تک کے لیے بند [مہربند] کردی گئی ہیں‘‘ (دانی ایل 12:8،9).
مہربانی سے اِسے دیکھیں۔
حالانکہ دانی ایل اِن آنے والے واقعات کا ایک چشم دید گواہ تھا، وہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ اِس تمام کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ خُدا نے اُس کو یاد دلایا تھا کہ یہ تمام باتیں زمانہ کے آخر میں وقوع پزیر ہونگی، لیکن اُس وقت تک کے لیے اِن کو مہر بند کر دیا جائے گا۔ پھر، ’’زمانے کے خاتمے‘‘ پر – ’’معلومات میں اضافہ ہو جائے گا‘‘ (دانی ایل12:4)۔ ڈاکٹر جے ورنن میکجی J. Vernon McGee نے کہا، ’’میں یقین کرتا ہوں کہ یہ پیشن گوئی کی معلومات میں اضافے کے بارے میں حوالہ دیتا ہے‘‘ (بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن، 1982، جلد سوئم، صفحہ605؛ دانی12:4 پر غور طلب بات)۔
میرے خیال میں ڈاکٹر میکجی بنیادی طور پر دُرست تھے۔ انیسویں صدی کے دوسرے آدھے حصے تک پاک روح کے وسیلے سے بائبل کی پیشنگوئی کی معلومات میں اضافہ کافی حد تک واقعی میں واضح نہیں ہوا تھا۔ جیسا کہ خُداوند نے دانی ایل سے کہا، ’’اِن باتوں کو آخری زمانہ تک کے لیے بند [مہربند] کردیا گیا ہے‘‘ (دانی ایل 12:9)۔ بیسویں صدی کے زیادہ تر حصے میں قدامت پسند مسیحیوں کے درمیان بائبل کی پیشن گوئیوں پر منادی کرنا انتہائی زیادہ مشہور تھا، جب کہ ہم زمانے کے خاتمہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لیکن اِس کے علاوہ، انتہائی دلچسپ طور پر، بائبل کی پیشن گوئی کا مطالعہ 1980 کی دہائی میں بتدریج ختم ہوتا چلا گیا۔ آج شاید ہی کبھی کوئی ہمارے گرجہ گھروں میں پیشن گوئی پر کوئی واعظ سُنتا ہو۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں واقعات دانی ایل کے بارھویں باب میں پیش کیے گئے ہیں۔ دانی ایل کو بتایا گیا تھا کہ بائبل کی پیشن گوئی کی معلومات میں اضافہ ’’زمانے کے خاتمے‘‘ میں بڑھ جائے گا۔ لیکن پھر اُس کو بتایا گیا تھا،
’’... شریر، شرارت کرتے رہیں گے۔ شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
ڈاکٹر میکجی نے یہ آراء پیش کی،
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہیں پائے گا‘‘ جس میں خدا کا پاک روح نہیں اُس انسان کی جانب اشارہ کرتا ہے۔’’جس میں خدا کا پاک رُوح نہیں وہ خدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پاک رُوح کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 2:14).
’’لیکن دانشور سمجھ جائیں گے۔‘‘ ’’لیکن جب وہ ’’رُوحِ حق‘‘ آئے گا تو وہ ساری سچائی کی طرف تمہاری راہنمائی کرے گا۔ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ تمہیں صرف وہی بتائے گا جو وہ سُنے گا اور مستقبل میں پیش آنے والی باتوں کی خبر دے گا‘‘ (یوحنا 16:13).
(جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، ibid.)۔
یہ ہمیں وجوہات میں سے ایک وجہ پیش کرتی ہے کہ آج ہمارے گرجہ گھروں میں پیشن گوئیوں پر کم تبلیغ ہوتی ہے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ ہمارے بہت سے مبلغین سرے سے مسیح میں تبدیل ہوئے ہی نہیں ہیں – اِس لیے اُن کی آنکھیں اِس انتہائی شدید اہمیت کی نوعیت کے موضوع پر بند ہیں۔ پرانے لوگ زیادہ روحانی تھے۔ لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان مبلغین کی ایک بہت بڑی تعداد اِس قدر جسمانی نیت پر مبنی ہے کہ بہت سوں نے تو کبھی نئے سرے سے جنم بھی نہیں لیا ہوا ہے۔ اِسی لیے گذشتہ پچیس یا اِس سے زیادہ سالوں میں ہم نے انتہائی چند واعظ بائبل کی پیشنگوئیوں پر سُنے ہیں۔ یہ واقعی میں شرمندگی کی بات ہے۔ جیسا کہ میرے شریکِ کار ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan کہتے ہیں، ’’بالکل اُسی وقت میں جب یہ پیشن گوئیاں پوری کی جا رہی ہیں، تو نوجوان مبلغین نے تقریباً مکمل طور پر پیشن گوئی پر باتیں کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ آخری وقت کب تھا جب آپ نے ایک واعظ جو مکمل طور پر بائبل کی پیشن گوئی کے لیے وقف ہو سُنا تھا؟ ڈاکٹر کرسویل Dr. Criswell گزر چکے ہیں! ڈاکٹر میکجی گزر چکے ہیں! ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan گزر چکے ہیں! اب ہم اگر کچھ سُنتے ہیں تو وہ قابل تناول ہوتا ہے، نرم گداز گفتگو کرنے والے لوگوں کے ذریعے سے نوالے بنا کر ہمارے منہ میں ڈالا جاتا ہے جو لوگوں کو سُننے کی ضرورت ہے اِس کو بتانے کی بحث سے انتہائی خوفزدہ ہیں! بلی گراہم Billy Graham اب 95 برس کے ہو گئے ہیں۔ آپ اُن کو دوبارہ پیشن گوئی پر منادی کرتے ہوئے نہیں سُنیں گے۔ میں نے بلی گراہم کے ساتھ ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ پر اتفاق رائے نہیں کیا۔ لیکن بائبل کی پیشن گوئی پر کیا۔ 1965 میں اُنہوں نے واقعی میں بائبل کی پیشن گوئی پر ایک بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب باعنوان دُنیا آتشِ گرفتہ World Aflame (ڈبلڈے ایند کمپنی Doubleday and Company)۔ کتاب میں بلی گراہم نے زمانے کے خاتمے کی یہ تفصیل بیان کی،
یسوع نے کہا کہ مستقبل کی نسل جس کی مخصوص خصوصیات یہ بتانے کے لیے ہونگی کہ خاتمہ نزدیک ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہاں کسی موقعے پر ایک ’’X نسل ہوگی… جہاں پر تمام نشانیاں متحد ہوں گی [اور اکٹھی ہو جائیں گی]... وہ جن کے دِل یسوع مسیح کے وسیلے سے تبدیل ہو چکے ہوں گے، جن کے ذہن پاک روح کے وسیلے سے منور ہو چکے ہوں گے، اُس دِن کی نشانیوں کو پڑھنے کے قابل ہوں گے اور لوگوں کو خبردار کرنے کے قابل ہوں گے جیسا کہ نوح نے کیا تھا۔ آج یوں لگتا ہے جیسے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ جب سے مسیح آسمان میں اُٹھایا گیا، وہ نشانیاں بلاشبہ متحد ہو رہی ہیں [اکٹھی ہو رہی ہیں] (بلی گراہم، ڈی۔ڈی Billy Graham, D.D.، دُنیا آتشِ گرفتہ World Aflame، ڈبلڈے اینڈ کمپنی Doubleday and Company، 1965، صفحہ216)۔
ہم اب اُن نشانیوں کو اپنے اردگرد ہر روز دیکھتے ہیں۔ یقیناً یہی X نسل ہے۔ یقیناً یہی ’’زمانے کا خاتمہ‘‘ ہے۔‘‘ لیکن ہم اپنے گرجہ گھروں میں اِس کے بارے میں اتنا زیادہ کچھ بھی نہیں سُنتے ہیں! میں قائل ہو چکا ہوں کہ یہ بہت زیادہ حد تک آج ہمارے بہت سارے کلیسیائی لوگوں کی جسمانی نیت کی وجہ سے ہے۔
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
یہاں بائبل میں دی گئی بہت سی نشانیاں درج ہیں جن کا تعلق زمانے کے خاتمے کی کلیسیاؤں سے ہے۔
I۔ اوّل، بائبل زمانے کے خاتمے کی کلیسیاؤں کے اونگھنے کے بارے میں پیشن گوئی کرتی ہے۔
آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ نیا عہد نامہ زمانے کے خاتمہ کی کلیسیاؤں کے بارے میں بیک وقت دو تصاویر پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہمیں متی 24:12 میں بتایا جاتا ہے کہ ’’بے دینی بڑھ جائے گی۔‘‘ اور یہ حالت بالکل اُسی وقت ہوگی جب ’’خوشخبری ساری دُنیا میں سُنائی جائے گی تاکہ سب قومیں اِس کی گواہ ہوں اور تب خاتمہ ہوگا‘‘ (متی24:14)۔ مکاشفہ کی کتاب میں ہم اِسی عرصے کے دوران جیسے مکاشفہ7:4۔17 میں بہت بڑی مصیبت کے زمانے میں شاندار حیات نو کو دیکھتے ہیں ویسے ہی انضمام شُدہ مُرتد کلیسیا کی ’’بہت بڑی وحشہ‘‘ کو دیکھتے ہیں۔
دوسری ہی شب میں نے مغربی افریقہ میں مسیحیت کے دھمکہ خیز ترقی پر ایک انتہائی معلوماتی ویڈیو (’’بڑھتی ہوئی افریقی مسیحیتAfrican Christianity Rising : افریقہ میں مسیحیت کی دھماکہ خیز ترقی Christianity’s Explosive Growth in Africa،‘‘ جس کو جیمس اُولٹ، پی ایچ۔ ڈی۔James Ault, Ph.D. نے تیار کیا اور ہدایات دیں) دیکھی۔ ویڈیو میں ایک حبشی عالم الہٰیات نے دیکھایا کہ کیسے دُنیا کے شمالی نصف کرّہ میں مسیحیت بگڑ چکی ہے، جبکہ جنوبی کرّے میں اور چین میں دھماکہ خیز حیات نو آ چکا ہے۔ اِس کو سمجھانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دُنیا (یورپ، امریکہ وغیرہ) میں مسیحیت سرد ہے اور مر رہی ہے جبکہ اُبھرتی ہوئی تیسری دُنیا کی قوموں میں یہ زندہ اور ترقی کر رہی ہے۔ اِس بات کا یقین کرنے کے لیے وہاں اِن کے گرجہ گھروں میں سے کچھ میں باطل نظریہ ہے، حیات نو کے زمانے میں یہ ہمیشہ سچ ہوتا ہے۔
لیکن اِس واعظ میں ہم یورپ اور امریکہ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اور یہ اہم ہے کیونکہ دُنیا کا کافی حصہ اب بھی ہماری جانب دیکھتا ہے، اور ہمارے سے مسیحیت کی ماڈل ہونے کی توقع رکھتا ہے – حالانکہ، حقیقت میں، یہاں تک کہ ہمارے بہت سے بہترین گرجہ گھر بنیادی طور پر کمتر لودکیائی Laodicean کلیسیا کی حالت میں ڈوب چکے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ کچھ لوگ اِس کو سمجھنے کے قابل نہیں ہونگے کیونکہ، جیسا کہ ہماری تلاوت کہتی ہے،
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
کوہ زیتون پر مسیح کا واعظ (زیتونی گفتگو) شاگردوں کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے تھی، ’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی24:3)۔ باقی کا متی 24باب، اور سارے کا سارا متی 25باب مسیح کے ذریعے سے اُن سوالوں کا جواب دینے کے لیے پیش کیا گیا، ’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ پھر متی25:1۔3 میں وہ ’’عقلمند اور بیوقوف کنواریوں کی تمثیل‘‘ پیش کرتا ہے۔
میں قائل ہو چکا ہوں کہ یہ تمثیل انبیانہ طور پر ہماری آدھی دُنیا میں کلیساؤں کی حالت کے لیے بات کرتی ہے۔ دس کنواریاں کلیسیاؤں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اُن میں سے پانچ عقلمند تھیں، اور پانچ بیوقوف تھیں‘‘ (متی25:2)۔ جان نیلسن ڈربی John Nelson Darby (1800۔1882) نے کہا کہ دس کنواریاں کلیسیا کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اسرائیل کی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ لیکن وہ غلط تھے۔ یہ تمثیل تقریباً تمام عظیم مبصرین اور یہاں تک کہ مسیحیت کے ابتدائی دِنوں کے کلیسیائی بانیوں کی نظروں میں بھی مسیحی تاریخ میں کلیساؤں کے لیے حوالے کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہے۔
اب یہ تمثیل ہماری کلیسیاؤں کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ یہ کہتی ہے،
’’دُلہا کے آنے میں دیر ہوگئی، اور وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سوگئیں‘‘ (متی 25:5).
ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’غور کریں کہ دونوں ہی عقلمند بھی اور بیوقوف بھی سو گئیں تھی۔ اُن میں فرق یہ تھا کہ کچھ کے پاس پاک روح (تیل کی شکل میں پیش کیا گیا) تھا اور کچھ کے پاس نہیں تھا – کیونکہ وہ خالص ایماندار نہیں تھے‘‘ (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ135؛ متی25:5 پر غور طلب بات)۔
لہٰذا، ڈاکٹر میکجی نے کہا آدھے بچائے گئے اور آدھے کھو گئے تھے۔ یہی آج مغرب میں ہمارے گرجہ گھروں کی ایک عام سی تصویر ہے۔ وہ نجات یافتہ لوگوں اور کھوئے ہوئے لوگوں کا ایک آمیزہ ہیں۔ لیکن ٹھہریں! مسیح نے کہا،
’’وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سوگئیں‘‘ (متی 25:5).
وہ سب کے سب سو رہے ہیں – دونوں نجات یافتہ اور کھوئے ہوئے! یہی ہے جو یہ کہتی ہے!
بدی کے اِن بُرے دِنوں میں ہمارے گرجہ گھروں کی کیسی ایک تفصیل! غور کریں یہ رات کا وقت تھا جب کلیسیائیں سو رہی تھیں، ’’آدھی رات کے وقت‘‘ (متی25:6)۔ میں رات کے آخر میں حیات نو کے آنے کا ایک چشم دید گواہ رہ چکا ہوں۔ ڈاکٹر ٹوزر Dr. Tozer کے پاس اِس پر ایک مضمون ہے جو’’آدھی رات کے بعد پیدا ہوا Born Afer Midnight‘‘ کہلاتا ہے۔ کیوں ہمارے گرجہ گھروں میں آج کوئی حیات نو نہیں ہے؟ کیا اِس کا کوئی تعلق اُن گرجہ گھروں کے ساتھ ہو سکتا ہے جو اتوار کی شب کو شام کی عبادتیں بند کر رہے ہیں؟ مغربی دُنیا میں آخری وسیع علاقائی حیات نو 1949 میں، سکاٹ لینڈ کے ساحل پر لیوئس کی جزیرہ نما Isle of Lewis میں دیر رات گئے شروع ہوا تھا – دیر رات گئے! چین میں ’’گھریلو گرجہ گھر‘‘ ہمیشہ رات کو مجلس رکھتے ہیں۔ یہ حیات نو کے ساتھ زندہ رہنے کی ایک وجہ ہے! لیکن یہاں مغرب میں ہمارے گرجہ گھر اکثر بُدھ کی راتوں کے ساتھ ساتھ اتوار کی راتوں کو بھی بند ہوتے ہیں۔ لیونارڈ ریونحل Leonard Ravenhill نے کہا، ’’ٹھوس نظریے سے زیادہ تر ایمانداروں کو پکی نیند سُلا دیا ہے... ایک ٹھوس واعظ جس میں انگریزی کی کوئی غلطی نہیں اور اُس کی تاویل بے عیب ہے اتنا ہی بے ذائقہ ہو سکتا ہے جتنا کہ ریت سے بھرا منہ... ہمیں ایک جوشیلے بپتسمہ یافتہ گرجہ گھر کی ضرورت ہے... ایک بھڑکیلا گرجہ گھر دُنیا کو متوجہ کرے گا، تاکہ اُس کے درمیان میں سے وہ زندہ خُدا کی آواز سُن سکیں گے‘‘ (لیونارڈ ریونحل Leonard Ravenhill، کیوں حیات نو کے آنے میں دیر ہوتی ہے Why Revival Tarries، بیت عنیاہ کی رفاقت Bethany Fellowship، 1979، صفحہ106)۔
لیکن آج یہ ہمارے گرجہ گھروں میں سچ نہیں ہے۔
’’دُلہا کے آنے میں دیر ہوگئی، اور وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سوگئیں‘‘ (متی 25:5).
خُداوند ہماری مدد کرے! یہاں مغرب میں مسیح ہم سے کہتا ہے،
’’میں تیرے کاموں سے واقف ہُوں کہ تُو نہ تو سرد ہے نہ گرم۔ کاش کہ تُو سرد ہوتا یا گرم۔ پس چونکہ تُو نہ گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہےہ اِس لیے میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہُوں۔ کیونکہ تُو کہتا ہے کہ تُو دولتمند ہے اور مالدار بن گیا ہے اور تجھے کسی چیز کی حاجت نہیں مگر تُو یہ نہیں جانتا کہ تُو بد بخت، بے چارہ، غریب، اندھا اور ننگا ہے۔ میں تجھے صلاح دیتا ہُوں کہ مجھ سے آگ میں تپایا ہُوا سونا خرید لے تاکہ دولتمند ہو جائے اور پہننے کے لیے سفید پوشاک حاصل کرلے تاکہ ننگا رہ کر شرمندہ نہ ہونے پائے اور اپنی آنکھوں میں ڈالنے کے لیے سُرمہ لے لے تاکہ بینا ہو جائے‘‘ (مکاشفہ 3:15۔18).
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
II۔ دوئم، بائبل زمانے کے خاتمے کی کلیسیاؤں میں مسیحی پیار کی قلت کی پیشن گوئی کرتی ہے۔
مسیح نے کہا، ’’بےدینی کے بڑھ جانے کے باعث کئی لوگوں کی محبت [ایگاپےagapē – مسیحی محبت] ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی24:12)۔ یہ نشانیوں میں سے ایک تھی جو مسیح نے زمانے کے خاتمے میں کلیسیاؤں کے بارے میں پیش کی تھی۔
میرے چینی گرجہ گھر میں دیرینہ پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin تھے۔ ڈاکٹر لِن نےکہا، ’’مسیحیوں کو ایک دوسرے سے ضرور محبت کرنی چاہیے... ہمارے خُداوند میں یقین کرنا غیر مشروط طور پر ضروری ہے، اور ایک دوسرے سے محبت کرنی بھی غیرمشروط طور پر ضروری ہے... آخری ایام کی کلیسیائیں اِس کے بارے میں تین بار سوچیں... ابتدائی کلیسیا کے پاس خُدا کی موجودگی صرف اِس لیے نہیں تھی کیونکہ رسولوں کو خُدا کے وسیلے سے بُلایا اور بھیجا گیا تھا، بلکہ اِس لیے بھی تھی کیونکہ بھائی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے‘‘ (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، کلیسیا کی ترقی کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992، صفحات28، 29)۔ بائبل کہتی ہے،
’’ہم جانتے ہیں کہ ہم مَوت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیونکہ ہم بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں۔ جو اپنے بھائی سے محبت نہیں رکھتا وہ گویا مُردہ کی طرح ہے‘‘ (1۔ یوحنا 3:14).
’’کیونکہ بے دینی [لاقانونیت] کے بڑھ جانے کے باعث کئی لوگوں کی محبت [ایگاپےagapē – مسیحی محبت] ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی 24:12).
ہمارے گرجہ گھروں میں محبت کی قلت اور ٹھنڈے پڑ جانے کی وجوہات میں سےایک یہ ہے کیونکہ بہت سے گرجہ گھر کے اراکین نے کبھی نجات پائی ہی نہیں ہے۔ ’’وہ جو اپنے بھائی سے محبت نہیں رکھتا وہ گویا مُردہ کی طرح ہے‘‘ (1یوحنا3:14)۔ ڈاکٹر میکجی نے متی24:12 کے بارے میں کہا، ’’جب بے دینی بڑھ جائے گی تو بہت سوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی، اور یہاں تک کہ زمانے کے آخر میں یہ اور زیادہ سچ ہوگا‘‘ (ibid.، صفحہ127؛ متی24:12 پر غور طلب بات)۔ ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’آخری ایام کی کلیسیائیں اِس کے بارے میں تین بار سوچیں‘‘ (ibid.)۔
زیادہ تر عبادتوں کے بعد گرجہ گھروں کے دروازے جلدی سے بند کر دیے جاتے ہیں۔ لوگوں کو بہت کم مواقع میسر آتے ہیں کہ ایک دوسرے کو جان ہی پائیں، اور یوں ایک دوسرے کو کافی کم پیار کرتے ہیں! ہمارے گرجہ گھروں میں لوگوں میں سے بہت زیادہ کبھی بھی سچے طور پر مسیحیت میں تبدیل ہوئے ہی نہیں ہیں – اِسی لیے بے دینی [لاقانونیت] بڑھتی ہے، اور یہاں تک کہ حقیقی مسیحیوں کا بھی حوصلہ کم ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کو کھو دیتے ہیں۔ اور ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’آخری ایام کی کلیسیائیں اِس کے بارے میں تین بار سوچیں‘‘ (ibid.)۔
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
ڈاکٹر جان ایف۔ والورد Dr. John F. Walvoord، جو کہ پیشن گوئی پر ایک نہایت معزز تبصرہ نگار ہیں، اُنہوں نے کہا کہ ’’زمانے کے خاتمے کے نشانات‘‘ میں سے ایک ہے،
بڑھتی ہوئی بدکاری اور پُرجوش محبت کا کھو جانا۔ یسوع نے کہا کہ ’’بڑھتی ہوئی بدکاری کی وجہ سے، بہت سوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی24:12)۔ یہ جھوٹے نظریے [بشمول ’’فیصلہ سازیت decisionism،‘‘ جس نے کھوئے ہوئے لوگوں سے گرجہ گھروں کو بھر دیا ہے] کے بُرے اثرات کے بعد واقع ہوگا۔ یہ بھی بہت زیادہ واضح ہے کہ بہت سے جو مسیح کے نام کو جاپتے ہیں دُنیاوی ہیں اور خُداوند کے لیے بہت کم جوش رکھتے ہیں۔ جیسے مکاشفہ3 باب میں لودیکیہ کلیسیا…
جس کے بارے میں مسیح نے کہا، ’’میں تجھے اپنے منہ سے نکال پھینکنے کو ہوں،‘‘ مکاشفہ3:16 (جان ایف۔ والورد، ٹی ایچ۔ ڈی۔ John F. Walvoord, Th.D.، بائبل کی نمایاں پیشنگوئیاں Major Bible Prophecies، ژونڈروان اشاعتی گھرZondervan Publishing House، 1991، صفحہ256)۔
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
جی ہاں، ہمارے گرجہ گھروں میں اِن آخری وقتوں میں انتہائی زیادہ لوگ اونگھ رہے ہیں اور سو رہے ہیں بجائے اِس کے کہ اتوار کی شب اور ہفتے کی دوسری شاموں میں گرجہ گھر کے لیے آئیں۔ اُن میں سے بہت زیادہ کی اراکین کے درمیان انتہائی کم رفاقت اور محبت ہے کیونکہ اُن میں سے بہت سے تو کبھی بھی سچے طور پر بچائے بھی نہیں گئے ہیں۔ اور لازم ہے کہ میں ایک اور مرتبہ ڈاکٹر لِن کا حوالہ دوں۔ وہ اِس واعظ کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہونگے۔ اور وہ محض ایک چینی پادری نہیں تھے۔ اور ایک حقیقی عالم تھے۔ اُنہوں نے ہمارے گرجہ گھر میں آنے سے پہلے باب جونز یونیورسٹی Bob Jones University کے گریجوایٹ سکول میں سامی لوگوں کی زبانیں پڑھائیں تھی۔ بعد میں اُنہوں نے ٹالبوٹ علم الہیٰات کی سیمنریTalbot Theological Seminary ، اور ایلی نائسIllinois کے شہر ڈئیرفیلڈDeerfield کی ٹرینٹی انجیلی بشارت کی سیمنریTrinity Evangelical Seminary میں تعلیم دی تھی۔ اُنہوں نے اپنی منادی کا اختتام تائیوانTaiwan کے شہر ٹائپیTaipei میں چین کی انجیلی بشارت کی سیمنریChina Evangelical Seminary میں، ڈاکٹر جیمس ہڈسن ٹیلر سوئمDr. James Hudson Taylor III کی صدارت کے بعد بطور صدر کیا تھا۔ اِس واعظ میں اُن باتوں سے تعلق رکھتے ہوئے جو میں کہہ رہا ہوں، ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’آخری ایام کی کلیسیائیں اِس کے بارے میں تین بار سوچیں۔‘‘
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10).
یہ آخری ایام ہیں۔ جلد ہی آپ کے نجات پانے کے لیے انتہائی تاخیر ہو جائے گی۔ بائبل یہ تنبیہہ بار بار کرتی ہے۔ آپ کے نجات پانے کے لیے وہ واحد یقینی وقت ابھی ہے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ مسیح کے پاس آئیں جبکہ ابھی وقت ہے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اُس کی جانب دیکھیں، جو نہایت شدید تکلیف میں صلیب پر لٹکا تھا، اور جس نے آپ کو گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اپنا خون بہایا تھا۔ تاخیر مت کریں۔ اُس کے پاس آئیں اور اُس پر بھروسہ کریں، ابھی، اِسی شام!
اگر آپ مسیح پر بھروسہ کرنے کے بارے میں ہمارے ساتھ کوئی بات کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے اپنی نشست ابھی چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو ایک پُرسکون جگہ پر لے جائیں گے جہاں پر ہم بات چیت اور دعا کر سکیں گے۔ اگر آپ حقیقی مسیحی بننا چاہتے ہیں تو مہربانی سے ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے آج شام کسی ایک کے مسیح پر بھروسہ کرنے اور نجات پانے کے لیے دعا کریں۔ آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: متی25:1۔13 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میں خواہش کرتا ہوں کہ ہم سب تیار ہو جاتے I Wish We’d All Been Ready‘‘ (شاعر لیری نارمن Larry Norman، 1947۔2008)۔
لُبِ لُباب کیوں کلیسیائیں سرد مہر اور اونگھتی ہوئی ہیں (آخری ایام کی کلیسیائیں- حصّہ I) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
’’شریروں میں سے کوئی سمجھ نہ پائے گا؛ لیکن دانشور سمجھ جائیں گے‘‘ (دانی ایل 12:10). (دانی ایل12:8، 9، 4؛ 1۔کرنتھیوں2:14؛ یوحنا16:13) I. اوّل، بائبل زمانے کے خاتمے کی کلیسیاؤں کے اونگھنے کے بارے میں پیشن گوئی کرتی ہے، متی24:12، 14، 3؛ 25:2، 5، 6؛ مکاشفہ3:15۔18 . II. دوئم، بائبل زمانے کے خاتمے کی کلیسیاؤں میں مسیحی پیار کی قلت کی پیشن گوئی کرتی ہے، متی24:12؛ 1۔یوحنا3:14 . |