اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
دُکھ اُٹھانا اور حکومت کرنا SUFFERING AND REIGNING ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12). |
ہم دوبارہ سے شروع کرتے ہیں! میں یہ واعظ لکھنے کے لیے بیٹھا اور میں نے پایا کہ اِس لفظ ’’دُکھ اُٹھانا suffer‘‘ کا یہاں پر ترجمہ ’’برداشت کرناendure ‘‘ کے طور پر تمام جدید ترجموں میں کیا گیا ہے۔ اِس کے باوجود 1599 کے جینیوا بائبل Geneva Bible اور 1611 کی کنگ جیمس بائبل KJV نے اِس کے ترجمہ بطور ’’دُکھ اُٹھانا، اذیت جھیلنا‘‘ کے طور پر کیا ہے۔ جیسے جیسے میں اِس کا مذید اور مطالعہ کرتا گیا میں نے پایا کہ اِس یونانی لفظ کا بطور ’’دُکھ اُٹھانا‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے اور بطور ’’برداشت کرناendure ‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں طرح سے استعمال ہو سکتا ہے۔
سیاق و سباق کو اِس لیے سمجھنا چاہیے۔ آیت 11 اور 12 میں رسول مسیح کے ساتھ ایک مسیحی کے ملاپ کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ آیت 11 میں وہ کہتا ہے، ’’اگر ہم اُس کے ساتھ مر گئے، تو ہم اُس کے ساتھ جئیں گے بھی۔‘‘ یہ ایک مسیحی کا دُنیا کود ستربردار کرنے اور گناہ اور خود کے لیے مرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لہٰذا، آیت 11 مسیح کے ساتھ اُس کی موت میں ایک حقیقی مسیحی کے ملاپ کی بات کرتی ہے (حوالہ دیکھیں رومیوں6:1۔3)۔ تب آیت 12 ایک مسیحی کے مسیح کے ساتھ اُس کے ’’دُکھ اُٹھانے‘‘ میں ملاپ کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اِس لیے ’’دُکھ اُٹھانا یا اذیت جھیلنا suffer‘‘ وہ قابل ترجیح لفظ جس کو جینیوا بائبل اور کنگ جیمس بائبل کے عظیم ترجمانوں نے استعمال کیا۔ وہ ترجمان بیوقوف نہیں تھے۔ وہ انگلستان میں سب سے بڑے عالمین تھے۔ وہ جانتے تھے کہ باب دو کا تمام سیاق و سباق محض ’’برداشت کرنے‘‘ تک نہیں بلکہ ’’دُکھ اُٹھانے یا اذیت جھیلنے‘‘ تک رہنمائی کرتا ہے۔ یہ باب ایک سچے مسیحی کی ایک سپاہی کی حیثیت سے اُن للکارتے لفظوں میں ایک بُلند ترین مقام کی تصویر پیش کرتا ہے،
یہ ایک وفادارانہ مقولہ ہے: کیونکہ اگر ہم اُس کے ساتھ مر گئے، تو ہم اُس کے ساتھ جئیں گے بھی: اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے...‘‘
اگر ہم یسوع کی اُس کی موت میں پیروی کرتے ہیں، تو ہم اُس کے ساتھ جئیں گے۔ اگر ہم یسوع کی اُس کے دُکھ اُٹھانے میں پیروی کرتے ہیں، تو ہم اُس کے ساتھ حکومت کریں گے! سادہ سی بات ہے!کیوں باتوں کو ’’دُکھ اُٹھانے‘‘ سے ’’برداشت کرنے‘‘ میں بدل کر باتوں کو پیچیدہ کیا جائے، جیسا کہ تمام جدید ترجمے کرتے ہیں؟ یہ ایک بات سمجھنے کے لیے آپ کو ایک یونانی عالم ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے! لیکن جدید گرجہ گھر کے اراکین دُکھ نہیں اُٹھانا چاہتے ہیں! اِس لیے، جدید ترجمانوں نے اپنے نرم مزاج انجیل پڑھنے والوں کو خوش کرنے کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکا اِس آیت کو کمزور کر دیا۔ یہ بالکل اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ وہ!
اِس کے علاوہ، آج کے اتنہائی قدامت پسند عالمین کے مقابلے پرانے زمانے کے ترجمانوں کے کلام پاک کے بارے میں انتہائی بُلند نظریات تھے۔ اِس لیے، اُنہوں نے ہماری تلاوت کا رومیوں8:17 کی روشنی میں ترجمہ کیا، جو کہتی ہے،
’’... بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تاکہ ہم اُس کے جلال میں بھی شامل ہوں‘‘ (کنگ جیمس نسخۂ بائبل KJV)،
اور میں یہاں پر NIV پیش کرتا ہوں،
’’... اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اُس کے دُکھ اُٹھانے میں شریک ہوتے ہیں اِس لیے تاکہ ہم اُس کے جلال میں شریک ہوں‘‘ (نیا بینُ الاقوامی نسخۂ بائبلNIV)۔رومیوں 8:17 میں جس لفظ نے ’’دُکھ اُٹھانا‘‘ کا ترجمہ کیا واضح طور پر اِس کا مطلب ’’درد کا تجربہ کرنا،‘‘ اِس کے ساتھ اذیت سہنا‘‘ ہوتا ہے۔ چونکہ ہماری تلاوت میں اِس لفظ کا دُکھ اُٹھانے اور برداشت کرنے کا تصور ہوتا ہے، تو ابتدائی لوگوں نے رومیوں 8:17 کی روشنی میں اِس کا ترجمہ کیا۔ یہی ہے جس کو لوتھر Luther ’’کلام پاک کی مطابقت the analogy of Scripture‘‘ کہتے ہیں۔
جدید ترجمانوں سے اِس تبدیلی کی حقیقی وجہ کہیں اور پنہاں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نئے زمانے کے پڑھنے والے دُکھ اُٹھانا نہیں چاہتے ہیں! اِس لیے اُنہوں نے ایک شگفتہ لفظ کو آج کے کمزور انجیلی بشارت والوں کے مطابق استعمال کیا! میں اکثر کہتا ہوں، ’’کنگ جیمس بائبل جدید دور کے ترجمانوں پر کافی زیادہ روشنی ڈالتی ہے!‘‘
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
رومیوں8:17 میں منطقی نتیجہ والی آیت اِس کو انتہائی واضح کرتی ہے کہ حقیقی مسیحی، ’’مسیح کے ہم میراث ہیں؛ بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تاکہ اُس کے جلال میں بھی شریک ہوں‘‘ (رومیوں8:17)۔
I. اوّل، اگر ہم دُکھا اُٹھائیں گے تو ہم اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی نے اُس پر ایک شاندار تبصرہ پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا،
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گےتو ہم اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے‘‘... میں یقین کرتا ہوں کہ یہ آیت اِس کو اُن کے نزدیک تر کر دیتی ہے جنہوں نے یسوع کے لیے دُکھ اُٹھائیں ہیں... پولوس کے دِنوں کی رومی دُنیا میں بہت سارے مسیحی تھے جو شہید ہوئے – فاکسی Foxe کے مطابق اُس کی تعداد پانچ ملین تھی – کیونکہ اُنہوں نے مسیح کو تسلیم نہ کرنے سے انکار کیا تھا۔
’’اگر ہم اُس کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ بھی ہمیں تسلیم نہیں کرے گا۔‘‘ یہ انتہائی سخت زبان ہے۔ تاہم، یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولوس یقین کرتا ہے کہ اعمال کے بغیر ایمان مُردہ ہے (یعقوب2:17)۔ دیکھا آپ نے، پولوس اور یعقوب نے کبھی بھی ایک دوسرے سے تضاد نہیں کیا۔ یعقوب ایمان کے اعمالوں کے بارے میں بات کر رہا ہے، اور پولوس کہہ رہا ہے کہ خالص ایمان اعمال پیدا کرے گا (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Ph.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد پنجم، صفحہ 466؛ 2۔تیموتاؤس2:12 پر ایک غور طلب بات)۔
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
ابتدائی کلیسیاؤں میں تمام مسیحیوں کو تعلیم دی جاتی تھی کہ اُنہیں آزمائشوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑے گا۔ ہم یہ بات بہت واضح طریقے سے اعمال 14:22 میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں پولوس اور برنباس لُسترہLystra، اکُنیمIconium اور انطاکیہAntioch میں تھے،
’’وہ شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور اُنہیں نصیحت دیتے تھے کہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہو اور کہتے تھے کہ ہمیں خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مصیبتوں کا سامنا کرنا لازم ہے‘‘ (اعمال 14:22).
’’ہمیں خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مصیبتوں کا سامنا کرنا لازم ہے۔‘‘ یونانی لفظ جس نے ’’مصیبتوں Tribulation‘‘ کا ترجمہ کیا ’’تھلیپسس thlipsis‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ’’دباؤ، آفتیں، مشکلات، دُکھ ہوتا ہے‘‘ (سٹرانگ Strong)۔
ابتدائی مسیحی اسقدر سخت جان تھے کہ ’’دُنیا کو اُلٹ پلٹ کر رکھ‘‘ دیتے تھے (اعمال17:6) کیونکہ اُنہیں یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ خود کی انکاری کرنا اور روزانہ اپنی صلیب اُٹھانا ایک عام بات تھی، جیسا کہ مسیح نے ’’اُن سب سے کہا تھا،‘‘
’’اگر کوئی میری پیروی کرنا چاہے، تو وہ خود اِنکاری کرے، اور روزانہ اپنی صلیب اُٹھائے، اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (لوقا 9:23).
’’ہمیں خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مصیبتوں [دباؤ، آفتوں، مشکلات، دُکھوں] کا سامنا کرنا لازم ہے۔‘‘ (اعمال14:22)۔
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
اپنے واعظ ’’مسیح کے ساتھ دُکھ اُٹھانا اور بادشاہی کرنا میں ،‘‘ ’’مبلغین کے شہزادے‘‘ عظیم سپرجیئن نے کہا،
جب مارکُس آریتھُسُس Marcus Arethusus(362 بعد از مسیح) کو زمانہ ساز جولیئن Julian the Apostate کے ذریعے سے ایک کفار کے مندر کو دوبارہ تعمیر کرنے کےلیے [پیسے دینے کا] حکم دیا گیا جو اُس کے لوگوں نے مسیحیت قبول کرنے پر ڈھا دیا تھا، تو اُس نے حکم ماننے سے انکار کر دیا؛ اور حالانکہ وہ ایک بوڑھا شخص تھا، اُس کو ننگا کر کے، اور پھر [نیزوں] اور چھریوں کے ساتھ تمام جسم پر زخم لگائے گئے۔ وہ بوڑھا شخص پھر بھی قائم رہا تھا۔ اگر وہ [کافروں] کے مندر کی دوبارہ تعمیر کے لیے [چند ایک سکّے] دے دیتا، تو وہ آزاد ہوتا… [لیکن] اُس نے ایسا نہیں کیا۔ اُس کو شہد کے ساتھ لیپ دیا گیا، اور ابھی جب کہ اُس کے زخموں سے خون رس رہا تھا، تو شہد کی مکھیوں اور بِھڑوں نے حملہ کر دیا اور ڈنک مار مار کر اُس کو موت کے حوالے کر دیا۔ وہ مر سکتا تھا، لیکن اپنے خداوند کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ آریتھُسُس اپنے خُداوند کی خوشی میں شامل ہو گیا تھا، کیونکہ اُس نے یسوع کے ساتھ عالی ظرفی سے دُکھ اُٹھائے تھے (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، یسوع کے ساتھ دُکھ اُٹھانے اور بادشاہی کرنیSuffering and Reigning with Jesus ،‘‘ دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit ، دوبارہ اشاعت 1991، جلد دہم، صفحہ 11)۔
ہم رچرڈ وومبرانڈ Richard Wurmbrand (1909۔2001) جیسے لوگوں کے ناموں کو تعظیم دیتے ہیں، جنہوں نے رومانیہ کی اشتراکیت پسندوں کی قید میں تشدد کے 14 برس گزارے۔ ہم سیموئیل لیمب Samuel Lamb (1924۔2013) کی تعظیم کرتے ہیں، جنہوں نے شدید سخت محنت کے 20 سے زیادہ سال اشتراکیت پسند چینیوں کے بیگار کیمپ میں گزارے۔ ہم ڈائی ٹرچ بونحیفر Dietrich Bonhoeffer (1906۔1945) کی تعظیم کرتے ہیں، جنہیں ایک پیانو کے تار کے ساتھ جنگ عظیم دوئم میں ھٹلر کے خلاف منادی کرنے پر نازیوں نے پھانسی دے کا مار دیا۔ ہم آج کی صبح اُن ہزاروں لوگوں کی تعظیم کرتے ہیں جو مسیح میں اپنے ایمان کے لیے غیرملکی سرزمینوں پر دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔ لیکن آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہ آپ ہر اتوار کو گرجہ گھر آنے کے لیے چند گھنٹے دے پائیں گے؟ کیا آپ دعائیہ اجلاس میں موجود ہونے اور ہر ہفتے کو انجیلی بشارت کے لیے جانے کی چھوٹی سی قربانی سے گزریں گے؟
میرے پاس میری مطالعہ گاہ میں بپٹسٹ والوں کے حمدوثنا کے گیتوں کی چھوٹی سی کتاب The Baptist Hymnal کی ایک کاپی ہے، جس کو مغربی بتسمہ دینے والوں کے اجتماع Southern Baptist Convention نے 1956 میں شائع کیا۔ حتیٰ کہ اُس وقت بھی مسیحیوں کے لیے دُکھ اُٹھانے کی ضرورت کی ایک کمزوری تھی۔ میں نے ریجینالڈ ھیبر Reginald Heber (1783۔1826) کے ایک عظیم حمد و ثنا کے گیت ’’خُدا کا بیٹا جنگ کے لیے آگے بڑھتا ہے The Son of God Goes Forth to War‘‘ پر نظر ڈالی۔ میرا دِل ڈوب گیا جب میں نے دیکھا کہ مغربی بپتسمہ دینے والوں نے اُس متاثرکر دینے والے حمد و ثنا کے گیت میں سے سب سے خاص بند کو ہٹا دیا تھا۔ یہ ہے وہ بند جس کو ہٹایا گیا تھا،
چند چُنے ہوؤں کا، ایک جلالی گروہ، جن پر پاک روح نازل ہوا تھا،
بارہ نڈر مقدسین، جن کی اُمید وہ جانتے تھے، اور صلیب اور شعلوں کی پیروی کی۔
اُنہوں نے جابروں کی لہراتی ہوئی تلواروں، شیر ببروں کی خونی بالوں والی گردن کا سامنا کیا؛
موت کو احساس دلانے کے لیے اُنہوں نے اپنی گردنیں جھکا دیں: کون اُن کے نقش قدم پر چلتا ہے؟
(’’خُدا کا بیٹا جنگ کے لیے آگے بڑھتا ہے The Son of God Goes Forth to War‘‘ شاعر ریجینلڈ ھیبر Reginald Heber، 1783۔1826)۔
یہ ہے وہ بند جو آپ کو جکڑ لیتا ہے! یہ ہے وہ بند جو نوجوان لوگوں کو ایک آسان زندگی چھوڑنے اور مذہبی کام کے لیے میدان میں جانے یا یہاں گھر پر خود کی قربانی دینے والے مسیحی بننے پرمتاثر کیا کرتا تھا! اُنہوں نے کیوں 1956 میں یہ بند ہٹا دیا تھا؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیوں! کچھ بزرگ خواتین کو اِس سے ٹھیس پہنچی تھی! وہ ’’صلیب اور شعلوں‘‘ کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ ’’اُس جابر کی لہراتی تلوار‘‘ کے نقش کے ساتھ سامنا کرنا نہیں چاہتی تھیں۔ ’’شیر ببروں کی خونی بالوں والی گردن‘‘ کا یاد دلایا جانا اُنہیں پریشان کر دیتا تھا، یا یہ حقیقت کہ شہیدوں نے ’’اپنے سر موت کا مزہ چھکنے کے لیے جھکا دیے تھے۔‘‘ یہ اُن کے لیے ضرورت سے زیادہ تھا، اِس لیے اُنہوں نے اِس کو نکال باہر کیا۔ اُن کی بزدلی کے لیے اُن کی رُسوائی ہو! مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے موسیقی کے ڈپارٹمنٹ کے لیے رُسوائی ہو کیونکہ اُنہوں نے شہیدوں کے ایمان کے لیے اُس طاقتور گواہی کی بے حرمتی کی! آئیے اِس کو گانے سے کبھی بھی شرمندگی محسوس مت کریں۔ آئیے، چاہے جس طرح بھی ہم کر سکتے ہیں، اِس کو جینے کے لیے کبھی بھی شرمندگی محسوس نہ کریں! یہ گیتوں کے ورق پر آخری گیت ہے۔ اِسے گائیں!
چند چُنے ہوؤں کا، ایک جلالی گروہ، جن پر پاک روح نازل ہوا تھا،
بارہ نڈر مقدسین، جن کی اُمید وہ جانتے تھے، اور صلیب اور شعلوں کی پیروی کی۔
اُنہوں نے جابروں کی لہراتی ہوئی تلواروں، شیر ببروں کی خونی بالوں والی گردن کا سامنا کیا؛
موت کو احساس دلانے کے لیے اُنہوں نے اپنی گردنیں جھکا دیں: کون اُن کے نقش قدم پر چلتا ہے؟
ایک شریف فوج، آدمیوں اور لڑکوں کی، مالکن اور خادمہ،
نجات دہندہ کے تخت کے گرد خوشی مناتی ہیں، نور کے لبادوں میں صف باندھے ہوئے۔
وہ آسمان کی ڈھلواں چڑھائی کو چڑھتے ہیں، خطروں، مشقتوں اور درد سے گزرتے ہوئے؛
اے خُدا، ہم میں سے بہتوں کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کے لیے فضل عنایت ہوجائے
(’’خُدا کا بیٹا جنگ کے لیے آگے بڑھتا ہے The Son of God Goes Forth to War‘‘ شاعر ریجینلڈ ھیبر Reginald Heber، 1783۔1826)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
’’وہ خطروں، مشقتوں اور درد سے گزرتے ہوئے آسمان کی ڈھلواں چڑھائی کو چڑھے۔‘‘ جی ہاں! یہی ہے جو رسول کا مطلب تھا جب اُس نے کہا،
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
II۔ دوئم، ’’اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا۔‘‘
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
یسوع نے یہ سنجیدہ تنبیہہ اُس وقت پیش کی جب اُس نے کہا،
’’لیکن جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرتا ہے، میں بھی اپنے آسمانی باپ کے سامنے اُس کا انکار کروں گا‘‘ (متی 10:33).
پولوس رسول نے ہماری تلاوت میں کہا، ’’اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا۔‘‘ یہ مسیح کا انکار کرنا ہے جو اُس وقت ہوتا ہے جب ایک جھوٹے مسیحی کو اُن دُکھوں کو اُٹھانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک سچا شاگرد ہونے کے لیے درکار ہیں۔ یہی ہے جو اُس ’’پتھریلی زمین‘‘ نما لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کی تفصیل بیج بونے والے کی تمثیل میں بیان کی گئی ہے۔
’’چٹان کی طرح کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے خوشی سے قبول کرتے ہیں لیکن کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑتا۔ وہ کچھ عرصہ تک تو اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں، لیکن آزمائش کے وقت پسپا ہو جاتے ہیں‘‘ (لوقا 8:13).
ڈاکٹر رائی نیکر Dr. Rienecker کہتے ہیں کہ وہ ’’پسپا ہو جاتے ہیں‘‘ کا مطلب ’’چلے جاتے ہیں،‘‘ ’’شکست مان لیتے ہیں‘‘ ہوتا ہے (فریٹس رائی نیکر، پی ایچ۔ ڈی۔ Fritz Rienecker, Ph.D.، یونانی نئے عہد نامے کے لیے زباندانی کی ایک کُلید A Linguistic Key to the Greek New Testament، ژونڈروان Zondervan، 1980، صفحہ 161؛ لوقا8:13 پر ایک غور طلب بات)۔
جب آزمائش آتی ہے تو وہ اکثر اپنے مقامی گرجہ گھر سے پسپا ہو جاتے ہیں۔ ’’اِن کی کوئی جڑیں نہیں ہوتی‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی مسیح میں ’’جڑ‘‘ پکڑ ہی نہیں پائے۔ یہ آشکارہ کرتی ہے کہ وہ کبھی بھی مکمل طور پر تبدیل ہوئے ہی نہیں تھے۔ مرقس4:17 تمثیل میں ’’آزمائش کے وقت‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے، اِس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے،
’’جب مصیبت یا ایذا پرپا ہوتی ہے ... تو وہ فوراً گِر جاتے ہیں‘‘ [بالکل، ’’پسپا ہوجاتےہیں،‘‘ NASV]۔
اِس قسم کے لوگوں کو یسوع فیصلے پر پہچاننے سے انکار کر دے گا۔ وہ اُن سے کہے گا، ’’میں تم سے کبھی واقف ہی نہ تھا: اے بدکارو! میرے سامنے سے دور ہو جاؤ‘‘ (متی7:23)۔
دوسرے جو مسیح کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کسی گرجہ گھر میں حاضر ہونا جاری رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں، لیکن وہ گناہ میں زندگی سے مسیح کا انکار کرتےھیں۔ یہ لوگ اینٹی نومیئینز antinomians ہیں۔ میں نے اِن لوگوں کے بارے میں اپنے واعظ "اٹلی میں اینٹی نومیئین اِزم (اِسے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں) میں بتایا ہے۔ اِن کی تفصیل پولوس رسول نے طیطُس1:16 میں پیش کی ہے،
’’وہ خدا کی پہچان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنے کاموں سے اُس کا اِنکار کرتے ہیں۔ وہ قابلِ نفرت ہیں، نافرمان ہیں اور کوئی نیک کام کرنے کے لائق نہیں‘‘ (طیطُس 1:16).
اِن اینٹی نومیئینز نے شاید کوئی دُرست عقیدہ سیکھ لیا ہو، لیکن یہ جس طرح کی زندگی گزارتے ہیں اُس سے خُدا کی انکاری کرتے ہیں۔ اصلاحی مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible کہتی ہے، ’’نیا عہد نامہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک بدلتی ہوئی زندگی میں تسلسل کے ساتھ اعمالوں میں کمی کسی کے مسیح میں ایمان پر شک کی تشریح پیش کرتی ہے... ، مسیحیوں کے لیے دونوں جامع عقیدہ اور اعمال ایک تبدیل شُدہ زندگی کی مطابقت کے ساتھ ضروری ہیں‘‘ (طیطُس1:16)۔ ’’اعمالوں میں وہ اُس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
جب ہمارے ترجمان نے لاؤس Laos میں ’’اٹلی میں اینٹی نومیئین اِزم‘‘ پر میرا واعظ پڑھا، تو اُنہوں نے مجھے لکھا اور کہا،
یہ واقعی ہی میں سچ ہے کہ بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نجات یافتہ ہیں مگر اُن کی زندگی میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے لاؤس کے مُلک میں اور حتیٰ کہ تھائی لینڈ میں بھی وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مسیحی ہیں وہ یسوع کے نام کو تباہ کر رہے ہیں۔ وہ شراب پینا، ناچنا، چوری کرنا اور اپنے پڑوسیوں کے لیے بُری گواہی دینے سے پیار کرتے ہیں۔
اُس نے کہا اِس کی وجہ سے لاؤس میں غیر نجات یافتہ لوگ خود مسیحی ہونا نہیں چاہتے ہیں، ’’لیکن اِس سے بھی بدترین یہ ہے کہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ [اِن] مسیحیوں سے دوستی بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
لہٰذا ہم اٹلی، لاؤس اور حتیٰ کہ تھائی لینڈ میں انیٹی نومیئین ازم کے ہولناک پھل کو دیکھتے ہیں۔ ہم شرم سے اپنے سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مسیحیت کا یہ جھوٹا نظریہ زیادہ تر امریکہ سے آتا ہے، اور اِن آخری ایام میں ساری دُنیا میں مسیح کی گواہی کو زہریلا کرتے ہیں۔ یسوع نے یہ پیشن گوئی دی تھی،
’’کیونکہ بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث [یونانی: اینومیا anomia – لاقانونیت؛ جو اینٹی نومینئین اِزم کی جڑ ہے] کئی لوگوں کی محّبت ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی 24:12).
یہ مسیح کی آمد ثانی کے علامتوں میں سے ایک ہے! یہاں تک کہ حقیقی مسیحیوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی، اور وہ اپنا مسیح پیار کھو دیں گے، کیونکہ آخری دِنوں میں بہت سے اینٹی نومیئینز ہونگے! لیکن یہاں پر کوئی غلطی مت کیجیے – یہ انیٹی نومیئینز حقیقت میں وہ کھوئے ہوئے لوگ ہیں جو اپنی گناہ سے بھرپور زندگیوں سے ’’یسوع کا انکار‘‘ کرتے ہیں (طیطُس1:16)۔
ایک حقیقی مسیحی کبھی بھی یسوع کا انکار نہیں کرے گا۔ یہی یسوع کا مطلب تھا جب یسوع نے متی 24 باب میں اگلی آیت میں کہا،
’’لیکن جو کوئی آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا‘‘ (متی 24: 13).
نفرت کیے جانے کی بجائے؛ جھوٹے نبیوں کی بجائے؛ ’’بدکاری‘‘ کی بجائے، اینٹی نومیئینز کی لاقانونیت کو جو مسیح ہونے کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن ہوتے نہیں ہیں، اُس سچے تبدیل شُدہ شخص کو ’’آخر تک برداشت‘‘ کرنا پڑے گا (متی24:9۔13)۔ جیسا کہ ایک پرانا حمد و ثنا کا گیت اِس کو پیش کرتا ہے،
اندھیری رات تھی، گناہ کے خلاف ہماری جنگ تھی،
ہم دُکھوں کا کس قدر بھاری بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے؛
لیکن اب ہم اُس کے آنے کی علامات دیکھتے ہیں؛
ہمارے دِل ہم میں جگمگا اُٹھتے ہیں، خوشی کا پیالہ ہم پر لبریز ہوتا ہے!
وہ دوبارہ آ رہا ہے، وہ دوبارہ آ رہا ہے،
بالکل وہی یسوع، جِسے لوگوں نے رد کیا،
وہ دوبارہ آ رہا ہے، وہ دوبارہ آ رہا ہے،
عظیم جلال اور قوت کے ساتھ، وہ دوبارہ آ رہا ہے!
(’’وہ دوبارہ آ رہا ہے He is Coming Again، شاعر میبل جانسٹن کیمپ Mabel Johnston Camp، 1871۔1937).
’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12).
مسیح آپ کو آپ کے گناہوں سے نجات دینے کے لیے تیار ہے۔ وہ آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا۔ اُس نے آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اپنا خون بہایا۔ آپ کو زندگی دینے کے لیے وہ جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ میں آپ کو آپ کے گناہوں سے مُنہ موڑنے کے لیے للکارتا ہوں! توبہ کریں اور اپنا بھروسہ یسوع میں رکھیں۔ وہ آپ کونجات دے گا! وہ آپ کونجات دے گا۔ وہ آپ کوابھی نجات دے گا!
اگر آپ یسوع کے ذریعے سے نجات پانے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں، تو مہربانی سے اپنی نشست ابھی چھوڑ دیں، اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا اور مشاورت کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے۔ ابھی کمرے کے پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan ، مہربانی سے دعا کریں کہ آج صبح کوئی نہ کوئی یسوع پر بھروسہ کرے گا۔ آمین!
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: 2۔تیموتاؤس2:3۔12 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’خُدا کا بیٹا جنگ کے لیے آگے بڑھتا ہے The Son of God Goes Forth to War‘‘ (شاعر ریجینلڈ ھیبر Reginald Heber، 1783۔1826)۔
لُبِ لُباب دُکھ اُٹھانا اور حکومت کرنا SUFFERING AND REIGNING ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے: اگر ہم اُس کا انکار کریں گے، تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 2:12). (2۔تیموتاؤس2:11؛ رومیوں8:17) I. اوّل، ’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے،‘‘ یعقوب2:17؛ اعمال14:22 ؛ 17:6؛ لوقا9:23 . II. دوئم، ’’اگر ہم اُس کا اِنکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا،‘‘ متی10:33؛ لوقا8:13؛ مرقس4:17؛ متی7:23؛ طیطُس1:16؛ متی24:12،13 . |