اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
چین میں حیات نو کا راز (چینی وسط خزاں کے میلے پر پیش کیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا۔ میں اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان کو اپنی بڑی خوبی سمجھتا ہوں اور اِس سبب سے میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:7۔8)۔ |
آیت سات ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے پولوس نے نجات حاصل کی،
’’جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا‘‘ (فلپیوں3:7)۔
جب وہ تبدیل ہوا تھا تو اُس کی زندگی پلٹ گئی تھی۔ جو اُس نے اچھا سمجھا تھا، اُس کا اُس نے بُرا شمار کیا۔ اپنے تبدیل ہونے سے پہلے اُس نے مسیحیوں کو حقیر جانا اور مسیح کو مسترد کیا۔ لیکن جب وہ تبدیل ہو گیا اُس نے اپنی بے اعتقادی کو رد کیا اور اپنا کُل ایمان یسوع مسیح پر رکھا۔
آیت 7 اور 8 کے درمیان وقت کا ایک وقفہ تھا۔ یہ پولوس کی تبدیلی اور اُس وقت کے درمیان کا دور تھا جب اُس نے فلپیوں کو یہ مراسلہ لکھا۔ اِس وقت کے دوران وہ اپنے مشنری سفروں پر گیا تھا۔ لیکن اب وہ روم میں قید تھا، اور اُس نے کہا،
’’جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا۔ میں اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان کو اپنی بڑی خوبی سمجھتا ہوں اور اِس سبب سے میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:7۔8)۔
پولوس نے کہا کہ جس دِن سے وہ تبدیل ہوا وہ مسیح کے لیے جیا۔ اُس نے تمام چیزوں کے نقصان کو برداشت کیا۔ لیکن جن چیزوں کو اُس نے کھویا اُنہیں اُس نے دو کوڑی کی سمجھا – کچھ بھی نہیں ماسوائے گوبر کے۔ وہ بہت تلخ زبان ہے! اُس نے اُن تمام چیزوں کو جنہیں وہ پیار کیا کرتا تھا بیت الخلا میں بہا دیا۔ اُس نے تنہا مسیح کو تلاش کرنے کی کوشش کی! جن چیزوں کو اُس نے زندگی میں سب سے زیادہ اہم گردانا تھا، وہ اب اُس نے کوڑے کے ساتھ باہر نکال پھینکیں! تنہا مسیح ہی اُس کی زندگی میں ہدف اور مقصد تھا!
جب میں ایک نوعمر تھا تو میں اپنے کچھ عزیزوں کے گھر گیا۔ اُن کے پاس بے شمار دولت تھی۔ لیکن مجھے وہ خالی اور جھوٹے لگے تھے۔میرے خیال میں خدا نے مجھے ظاہر کیا تھا۔ اُن کے پاس سب کچھ تھا – لیکن وہ مطمئن نہیں تھے۔ میں نے سوچا، ’’اُن لوگوں کے پاس ایسی کوئی چیز نہ تھی جو میں چاہتا تھا۔‘‘
کچھ سالوں کے بعد میں ایک گھر جایا کرتا تھا جہاں بہت سے بوڑھے، ریٹائرڈ مشنری رہتے تھے۔ اب بھی میں اُن کے چہرے اپنے ذہن میں دیکھ سکتا ہوں۔ وہ انتہائی پُرامن، اور انتہائی شادمان تھے! اس دنیا میں اُن کا کچھ نہیں تھا۔ اُنھیں مشنریوں کے لیے ایک گھر میں رہنا پڑتا تھا، کیونکہ اُن کے خود اپنے کوئی گھر نہیں تھے۔ لیکن اُن کے پاس کچھ ایسا تھا جو میرے دولتمند رشتہ داروں کے پاس نہیں تھا – وہ زندگی کے ساتھ مطمئن تھے۔ اُن کے دلوں میں سکون تھا۔ مجھے ایک انتہائی بزرگ آدمی خالص سفید خوبصورت، پیچھے کی طرف مڑے ہوئے بالوں کے ساتھ یاد ہے۔ اُن کا نام مسٹر فاکسی Mr. Foxe تھا۔ اُن کی گہری نیلی آنکھیں، اور دھیمی آواز تھی۔ اشتراکیت پسندوں کے قبضہ کرنے سے پہلے وہ چین میں ایک مشنری رہ چکے تھے۔ مجھے وہ سوچنا یاد ہے، ’’ جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تو اُن جیسا بننا چاہتا ہوں، میرے دولتمند رشتہ داروں کی مانند نہیں۔‘‘
1962 میں لونگ بیچ Long Beach کے علاقے میں ایک گھر میں جاتے رہنا یاد ہے۔ وہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا – وہاں تِل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ پھر گلیڈیس ایلوارڈ Gladys Aylward بولنے کے لیے آئی۔ وہ چین کے لیے ایک بہت مشہور مشنری تھی۔ وہ اب تقریباً پچھتر برس سے زیادہ کی تھی۔ میرے خیال میں میں نے اُس سے زیادہ مسرور آنکھیں ابھی تک نہیں دیکھیں! کوئی ایک چیز بھی اُس کی ملکیت نہیں تھی۔ وہ مفلس تھی۔ لیکن اُس کے پاس وہ خوشی تھی جو میرے دولتمند رشتہ دار کبھی نہ جان پائے۔ مجھے وہ سوچنا یاد ہے، ’’میں اُن جیسا نہیں بننا چاہتا ہوں۔ میں مِس ایلوارڈ جیسا بننا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ ایک نوجوان لڑکی کی حیثیت سے چین میں ایک مشنری بننے کے لیے جا چکی تھی۔ وہ چین میں آخری مشنریوں میں سے ایک تھی۔ 1952 تک انہوں نے چین کو نہیں چھوڑا۔ جب انہوں نے چین کو چھوڑا تو اپنے ساتھ چینی بچوں کے ایک بڑے گروہ کو لے لیا، آزادی کے لیے خطرناک پہاڑوں کو پار کرنے کے لیے جب انہوں نے اُن کی رہنمائی کی تو اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ ہالی ووڈ نے اِس پر ایک فلم، ’’چھٹی خوشی کی سرائے The Inn of the Sixth Happiness‘‘ بنائی۔ انھوں نے اسے کچھ بدل دیا، لیکن بنیادی کہانی فلم میں موجود ہے۔ اُس نے اُس خود دستبرداری کا راز سیکھ لیا تھا جس کے بارے میں پولوس رسول نے بات کی،
’’جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا۔ میں اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان کو اپنی بڑی خوبی سمجھتا ہوں اور اِس سبب سے میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:7۔8)۔
مِس ایلوارڈ نے اپنی زندگی ڈاکٹر رائس Dr. Rice کے اِس گیت کی مانند گزاری،
میرے دِل کا تمام پیار، میرے تمام پیارے خواب –
اُنہیں صرف خُداوند یسوع تیرے لیے بنا دے۔
میں جو کچھ بھی ہوں، میں جو کچھ بھی ہو سکتی ہوں –
خُداوند یسوع مجھے ہمیشہ تیری ہو جانے کے لیے اپنا لے۔
(’’میرے دِل کا تمام پیار All My Heart’s Love ‘‘ شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس
Dr. John R. Rice، 1895۔1980)۔
میرے پادری، ڈاکٹر ٹموتھی لِنDr. Timothy Lin، 1940 میں چین سے ریاست ہائے متحدہ میں علم الہٰیات میں ماسٹرز ڈگری کرنے، اور عبرانی اور اِس سے تعلق رکھتی ہوئی زبانوں میں پی ایچ۔ ڈی کرنے کے لیے آئے۔ وہ بوب جونز یونیورسٹی Bob Jones University میں گریجوایٹ سکول میں معلّمی چھوڑ کر1961 میں پہلے چینی گرجہ گھر کے پادری بننے کے لیے آئے۔ اِس کے چند مہینوں بعد میں نے اُس گرجہ گھر میں شمولیت ایک انیس سالہ لڑکے کی حیثیت سے کی تھی۔ بائیولا کالج Biola College میں میری تبدیلی کے بعد ڈاکٹر لِن نے مجھے بپتسمہ دیا تھا۔ اُنہوں نے اُس کمیٹی کی بھی سربراہی کی جس نے مجھے اُس چینی گرجہ گھر میں 1971 میں ایک علاقہ دار پادری کی حیثیت سے مذہبی عہدے پر فائز کیا۔ یہ میرے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں اُن کے گرجہ گھر میں خُدا کے بھیجے ہوئے حیات نو کے وقت کے دوران موجود تھا، جو 1960 کی آخری دہائی میں شروع ہوا، اور وقفوں میں 1970 کی دہائی تک جاری رہا۔ میں بے شمار روح سے بھرپور دعائیہ مجلسوں میں، اور کھلے اعتراف کی مجلسوں اور گواہیوں کی مجلسوں میں موجود تھا، جو اکثر کئی کئی گھنٹے رات گئے تک جاری رہتیں۔ میں حیات نو کے دوران اُن مجلسوں میں بے شمار مرتبہ تبلیغ کرنے کا اعزاز بھی ملا۔ ایک اجلاس میں جب میں نے منادی کی تو 46 نوجوان لوگوں نے مسیح پر بھروسہ کیا۔ تقریباً چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد، اُن میں سے بے شمار اب بھی اُس گرجہ گھر میں عبادت کے لیے آتے ہیں۔ ڈاکٹر لِن نے ہمیں تعلیم دی تھی کہ حقیقی حیات نو شاید اُس گرجہ گھر میں آتی ہے اگر اُس کے ارکان پاک ہوں اور اپنے درمیان خُدا کی موجودگی کے لیے بغیر رُکے دعا کرتے ہوں۔
ڈاکٹر لِن حقیقت میں کبھی بھی ایک امریکی نہیں بن پائے۔ اُنہوں نے ہمیشہ ایسے ہی زندگی گزاری جیسے چین میں ایک پادری گزارتا ہو۔ وہ اپنی زندگی میں مکمل طور پر خداوند یسوع مسیح کے لیے وقف تھے۔ اُنہوں نے زیادہ تر وقت روزے اور دعا میں گزارا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ یہی وجہ تھی خدا حیات نو بھیجنے کے قابل ہوا، اور وہ گرجہ گھر جس میں 1961 میں جب مَیں نے شمولیت کی تقریباً 80 لوگوں سے بڑھ کر حیات نو کے ختم ہونے تک کئی ہزاروں تک ہو گیا۔ پھر ڈاکٹر لِن تائیوان میں چینی انجیلی بشارت کی سیمنری میں صدر بننے کے لیے چلے گئے۔ یوں مجھے ایک نوجوان آدمی کی حیثیت سے خُدا کی تحریک میں موجود ہونے کا اعزاز ملا جو کئی طرح سے اُس حیات نو کی مانند بالکل ایسی تھی جو عوامی جمہوریۂ چین میں ’’گھریلو گرجہ گھروں‘‘ میں آ چکا ہے۔ میں ایک ایسے حیات نو کا چشم دید گواہ تھا کہ اُس جیسا میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا، ماسوائے ایک اور دور میں چھوٹے پیمانے پر ایک کاؤکیشئین Caucasian گرجہ گھر میں۔ ڈاکٹر لِن کے گرجہ گھر میں حیات نو باہر سے بُلائے ہوئے گفتگو کرنے والے لوگوں کو استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں آیا تھا یا مخصوص طریقۂ کار سے نہیں آیا تھا۔ یہ گناہ کے انتہائی شدید اعتراف کے دوران، طویل دعاؤں اور گناہ، فیصلے، خود انکاری اور مسیح کی صلیب پر شعلہ فشاں منادی سے آیا تھا! ایک گیت جو ہم بار بار حیات نو میں گاتے تھے ’’برف سے زیادہ سفید Whiter Than Snow‘‘ تھا۔
اے خُداوند یسوع، میں کامل طور پر مکمل ہونے کی خواہش کرتا ہوں؛
میں چاہتا ہوں کہ تو ہمیشہ کے لیے میری روح میں بس جائے؛
ہر ایک بُت کو توڑ دے، ہر ایک دشمن کو نکال باہر کر؛
مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
اے خداوند یسوع، آسمانوں میں سے اپنے تخت پر سے نیچے نظر ڈال،
اور مجھے ایک مکمل قربانی دینے میں مدد کر؛
میں اپنے آپ کو چھوڑتا ہوں اور ہر اُس چیز کو جسے میں جانتا ہوں؛
مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
برف سے زیادہ سفید، جی ہاں، برف سے زیادہ سفید؛
مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
(’’برف سے زیادہ سفید Whiter Than Snow‘‘ شاعر جیمس نکلسن James Nicholson، 1828۔1896)۔
ایک حقیقی تبدیلی اور حقیقی حیات نو کا تجربہ کرنے کے لیے، ہمیں پولوس کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے، جس نے کہا،
’’جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا۔ میں اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان کو اپنی بڑی خوبی سمجھتا ہوں اور اِس سبب سے میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:7۔8)۔
میرے دِل کا تمام پیار، میرے تمام پیارے خواب –
اُنہیں صرف خُداوند یسوع تیرے لیے بنا دے۔
میں جو کچھ بھی ہوں، میں جو کچھ بھی ہو سکتا ہوں –
خُداوند یسوع مجھے ہمیشہ تیرا ہو جانے کے لیے اپنا لے۔
کھڑے ہو جائیں اور اِسے میرے ساتھ گائیں!
میرے دِل کا تمام پیار، میرے تمام پیارے خواب –
اُنہیں صرف خُداوند یسوع تیرے لیے بنا دے۔
میں جو کچھ بھی ہوں، میں جو کچھ بھی ہو سکتا ہوں –
خُداوند یسوع مجھے ہمیشہ تیرا ہو جانے کے لیے اپنا لے۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
ورلڈ میگزین World Magazine (5 اگست، 2013) نے خبر دی کہ پادری سیموئیل لیمب Pastor Samuel Lamb (1924۔2013 ) گذشتہ مہینے 88 برس کی عمر میں 3 اگست، 2013 کو انتقال فرما گئے۔ وہ چین میں ’’گھریلو گرجہ گھروں‘‘ کے سب سے زیادہ مشہور پادریوں میں سے ایک تھے۔ پاسٹر لیمب (چینی میں Lin Xiangao) ایک بپتسمہ دینے والے علاقہ دار پادری کے بیٹے تھے۔ جب وہ 19 برس کے تھے اُنہوں نے اپنا پہلا واعظ دیا تھا۔ جیسے ہی چین اشتراکیت پسند حکمران ماؤ ژیڈونگ Mao Zedong کے تحت آیا، سرکار نے 1955 میں لیمب کو گرفتار کر لیا۔ اُن پر اشتراکیت پسند سرپرست ’’جن کے ذاتی تین گرجہ گھر تھے‘‘ کے ساتھ نہ شامل ہونے کے عمل کے تحت ’’انقلابیوں کا دشمن‘‘ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اُنہوں نے اِس میں شامل ہونے سے اِس لیے انکار کیا کیونکہ اشتراکیت پسندوں کے چلائے ہوئے گرجہ گھروں میں 18 سال سے کم عمر کے نابالغوں کو تعلیم دینے سے منع کیا جاتا ہے، اور یہ گرجہ گھروں کے پادریوں کو مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے اور اُس کی آمد ثانی پر منادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ تقریباً دو سال قید میں رہنے کے بعد، اُن کو 1957میں رہا کر دیا گیا۔ پانچ ماہ بعد اُنہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور ایک بیگار کیمپ میں 19 سال کے لیے بھیج دیا گیا۔ اُن کی بیوی کو ایک کوئلے کی کان میں کام کرنا پڑا، جہاں وہ وفات پا گئیں جبکہ لیمب قید میں تھے۔
20 سالوں سے زیادہ سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد، اُنہیں رہا کردیا گیا۔ اُنہوں نے فوراً گوآنگ ژآؤ Guangzhou میں دوبارہ اپنا ’’گھریلو گرجہ گھر‘‘ شروع کر دیا۔ اِس کے باوجود اب بھی اُنہوں نے اشتراکیت پسندوں کے چلنے والے ’’ذاتی تین گرجہ گھر‘‘ میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ مسیحی حکومت کی فرمانبرداری کرتے ہیں جب تک کہ وہ بائبل کے ساتھ تضاد نہ کرے۔ لیکن اُنہوں نے کہا، ’’خُدا کے قوانین انسان کے قوانین کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں۔‘‘
اُن کی قیادت تلے، گھریلو گرجہ گھر 1997میں 400 سے آج 4,000 اراکین تک بڑھ گیا۔ 2011 میں ایک خبروں کے کلِپ نے پادری لیمب کو ایک پُرہجوم کمرے میں منادی کرتے ہوئے گرجہ گھر کو اندر سے فلمایا۔ واعظ کو ایک ویڈیو نے براہ راست عمارت میں دوسرے بے شمار کمروں میں نشر کیا۔ ہر کمرہ اُن کی جماعت کے اراکین کے ساتھ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جب عبادت ختم ہوئی تو لوگوں کا ایک جم غفیر دروازوں سے باہر نکلا اور عمارت کے اردگرد کی سڑکوں کو بھر دیا۔
اشتراکیت پسند سرکار کو اس غیر رجسٹرڈ شُدہ گرجہ گھر کے بارے میں علم ہے، لیکن وہ اب اِس کو بند کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ 1997 میں پادری لیمب نے ایک امریکی کالم نویس کال تھامس Cal Thomas کو بتایا کہ یہ اِس وجہ سے تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہر مرتبہ جب اُنہوں نے مجھے گرفتار کیا اور مجھے قید میں ڈال دیا، گرجہ گھر بڑھ گیا۔ اذیتیں ہمارے لیے اچھی تھیں۔ جتنا زیادہ وہ ہمیں اذیت دیتے تھے، اُتنا ہی گرجہ گھر بڑھتا گیا۔ یہ گرجہ گھر کی تاریخ رہی ہے۔‘‘
گھریلو گرجہ گھروں کی جانب چین کا رویہ علاقے علاقے میں مختلف ہے۔ کچھ، جیسے پادری لیمب کے گرجہ گھر ہیں، نسبتاً آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ، دوسرے ابھی تک ایذا رسانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ جولائی (2013) میں اشتراکیت پسند پولیس نے ژِن جی آنگ Xinjiang صوبے میں دو گرجہ گھروں پر دھاوا بولا۔ اُنہوں نے رہنما کو گرفتار کیا اور اُس سے ’’غیر قانونی اجتماع‘‘ پر جرمانہ وصول کیا۔
پادری لیمب نے اکثر چین میں گھریلو گرجہ گھروں کے رہنماؤں کو بتایا کہ مصیبتیں برداشت کرنا مسیحی زندگی کا ایک حصّہ ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہمیں مصیبتیں برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں اِس حقیقت کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ ہمیں شاید گرفتار کر لیا جائے۔ مجھے جیل بھیجے جانے سے پہلے، میں پہلے سے ہی ایک بیگ کچھ کپڑوں، جوتوں اور ایک ٹوتھ برُش کے ساتھ تیار رکھتا تھا۔ آج سرکار ہمیں پریشان نہیں کر رہی ہے، لیکن کل حالات شاید مختلف ہو جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ثابت قدمی سے کھڑے رہنے کے لیے قوت مل جائے۔‘‘ پادری لیمب ’’زیادہ اذیتیں، زیادہ عوام میں اضافہ‘‘ کہنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
آج محتاط طریقے سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چین کے گھریلو گرجہ گھروں میں 100 ملین سے زیادہ مسیحی ہیں۔ یہ چین کے ہر حصے میں واقع ہیں، جن میں بڑے شہر، اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب بڑی یونیورسٹیوں میں ہر دس میں سے ایک طالب علم مسیحی ہے، اور ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ مسیحیت میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ اِن میں پیشہ ور لوگ، ڈاکٹر، وکلا، پروفیسرز، اور یہاں تک کہ کچھ اشتراکیت پسند عہدے دار شامل ہیں ( دیکھیں ڈیوڈ ایکمین، پی ایچ۔ ڈی۔ David Aikman, Ph.D.، بیجنگ میں یسوع: کیسے مسیحیت چین کو بدل رہی ہے اور قوت کے عالمی توازن کو بدل رہی ہے، Jesus in Beijing: How Christianity is Transforming China and Changing the Global Balance of Power، ریجینری پبلشنگ، تشکیلی ادارے Regnery Publishing, Inc.، 2003؛ دبیز کاغذ کی جلدی کتاب کا ایڈیشن جو 2006 میں شائع ہوا، paperback edition published in 2006)۔
ڈاکٹر ایکمین کی کتاب ’’اُن تمام مسیحیوں، چینیوں اور غیرملکیوں کی یاد کے لیے وقف ہے جنہوں نے 635 بعد از مسیح سے لیکر جدید دور تک، اپنے ایمان کے لیے شہیدوں کی حیثیت سے چین میں وفات پائی۔‘‘ ’’اپنے تمام دِل کی محبت All My Heart’s Love‘‘ – اِسے گائیے!
میرے دِل کا تمام پیار، میرے تمام پیارے خواب –
اُنہیں صرف خُداوند یسوع تیرے لیے بنا دے۔
میں جو کچھ بھی ہوں، میں جو کچھ بھی ہو سکتا ہوں –
خُداوند یسوع مجھے ہمیشہ تیرا ہو جانے کے لیے اپنا لے۔
حیات نو کے شعلے چمک کے ساتھ چل رہے ہیں اور چین میں لاکھوں یسوع کے پاس آ رہے ہیں۔ لیکن ہمیں اُس خون، پسینے اور اُن آنسوؤں کو کبھی بھی نہیں بُھلانا چاہیے جو اُن کے پاس خُدا کی برکات لانے کے لیے راستہ بنانے میں بہائے گئے تھے۔ یہاں پر تین چینی پادریوں کی کہانیاں ہیں۔ اُنہوں نے واقعی میں پولوس کی مثال کی’’تمام چیزوں کو ماسوائے کوڑے کے کچھ اور نہ سمجھ کر‘‘ تاکہ وہ ’’مسیح کو حاصل کرلیں‘‘ پیروی کی۔
پہلے، ’’تہذیبی انقلاب‘‘ کے قتل عام کے دوران، 1960 کی دہائی سے ایک گمنام پادری ہیں۔ اِس پادری کی گردن کے گرد ایک پھندا پھنسا دیا گیا اور اشتراکیت پسند نے اُنہیں مجبور کیا کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھی ہوئی تین میزوں کی چوٹی پر کھڑے ہوں۔ پادری کی بیوی، بچے اور سارے خاندان کو پولیس کے ذریعے سے اِس نظارے کی گواہی کے لیے بلایا گیا۔ افسران نے اُس پادری سے کہا، ’’تمہارے پاس دو راستے ہیں! یا تو تم یسوع میں یقین جاری رکھنا چُنو، یا یسوع کے منکر ہو جاؤ۔ اپنا چناؤ ابھی کرو!‘‘
بوڑھے پادری نے اپنے خاندان اور دوستوں کی آنکھوں میں دیکھا، لیکن وہ جانتے تھے کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا، ’’یہاں تک کہ اگر تم میرا سر بھی قلم کر دو میرے خون سے زمین بھر جائے، تو بھی میں یسوع کا انکار نہیں کروں گا۔‘‘ فوراً افسران نے سب سے نیچلی میز کو ٹھوکر ماری، جس سے تمام ڈھانچہ ٹوٹ گیا۔ ایک ہی لمحے میں اُن کی گردن کے گرد پھندا کس گیا اور پادری یسوع کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ہونے کے لیے چلے گئے (Living Water، ژونڈروان Zondervan، 2008، صفحہ17)۔
دوسرے، میں آپ کو پادری سیموئیل لیمب کی کہانی میں سے تھوڑا مذید اور بتاؤں گا۔ 1958 کے دور میں، جب وہ 33 برس کی عمر کے تھے، اُنہیں ایک سال قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ اُنہیں کہا گیا تھا کہ مذید اور منادی نہیں کرنی۔ لیکن چند ہی ماہ میں وہ بہرحال منادی کر رہے تھے! اُنہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور بیس سال قید کی سزا دی گئی۔ اُنہوں نے اُنہیں انتہائی شدید سرد موسم میں کوئلے کی کان میں سخت محنت کے بیس سال گزارنے کے لیے بھیج دیا۔ زیادہ تر دوسرے قیدی مر گئے، لیکن کسی نہ کسی طرح خُدا کے فضل سے وہ یہ سب برداشت کرتے ہوئے بچ گئے۔ جب اُنہیں رہا کیا گیا تو اُنہیں بتایا گیا کہ اُن کی بیوی اور والد انتقال فرما گئے ہیں۔ اُن کی والدہ انتہائی شدید بیمار تھیں اور کچھ عرصے بعد وفات پا گئیں۔ چین سے فرار ہونے کی بجائے اور ہانگ کانگ یا کسی اور جگہ جانے کی بجائے جو کہ آسان ترین ہوتا، پادری لیمب واپس گوآنگ ژآؤ Guangzhou چلے گئے، اپنے سابقہ گرجہ گھر کے کچھ اراکین کو اکٹھا کیا، اور اپنا پرانا گرجہ گھر دوبارہ شروع کر دیا۔ قید میں اُن ہولناک سالوں کے باوجود، اور اپنے خاندان کو کھونے کے باوجود، اُن کا خوشگوار چہرہ تھا جب میں نے اُنہیں کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو پر منادی کرتے ہوئے دیکھا (کریمسن کراس Crimson Cross، یروشلم کے لئے واپسی نے شائع کی published by Back to Jerusalem، 2012، صفحات65،66)۔
تیسرے، خود میرے اپنے پادری، ڈاکٹر ٹیموتھی لِن Dr. Timothy Lin (1911۔2009) ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل ہی جاپانی سپاہیوں نے اُن کی پہلی بیوی اور بیٹی کو اُن کے سامنے ہی گولی مار دی تھی۔ اُن کی دوسری بیوی گریسی Gracie میری دوست تھیں۔ وہ ڈاکٹر لِن کے ساتھ تھیں جب وہ سان فرانسسکو میں چینی پریسبائی ٹیرئین گرجہ گھر میں منادی کر رہے تھے۔ عبادت سے پہلے دوپہر میں مسز لِن کو دورہ پڑا تھا۔ وہ اُن کے ساتھ ایک ایمبیولنس میں ہسپتال گئے تھے۔ وہ چند گھنٹوں بعد مر گئی تھیں۔ فوراً ڈاکٹر لِن نے گرجہ گھر کے لیے ایک ٹیکسی لی اور طے کردہ پلان کے مطابق تبلیغ کی۔ واعظ کے بعد گرجہ گھر میں لوگ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے تھے کہ اُن کی بیوی کا انتقال عبادت شروع ہونے سے صرف چند منٹ پہلے ہی ہوا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ڈاکٹر لِن اپنی بیوی سے کس قدر گہرا پیار کرتے تھے۔ جب مجھے اِس کہانی کا پتا چلا تو اِس نے مجھ پر ایک کبھی نہ مٹنے والا تاثر چھوڑا۔ میں دوبارہ مذہبی خدمت کو محض ایک ’’نوکری‘‘ کی حیثیت سے کبھی نہ دیکھ پایا۔ میں ڈاکٹر لِن کی مثال سے جان گیا تھا کہ علاقہ دار پادری ہونا زندگی اور موت سے اخلاص ہے!
وہ بوڑھے چینی پادریوں کی تین کہانیاں ہیں جنہوں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں ’’ماسوائے کوڑے‘‘ کے کچھ اور نہ سمجھا تاکہ ’’مسیح کو حاصل کر لیں۔‘‘ امریکہ میں نوجوان لوگوں کے ذہنوں میں اکثر کاہل اور دُنیاوی پادریوں کی مثال ہوتی ہے۔ یہ اہم وجوہات میں سے ایک ہے کہ امریکہ میں کوئی حیات نو نہیں ہے۔ لیکن چین کے نوجوانوں کے دِلوں میں خود کی قربانی دے دینے والے اُن تینوں پادریوں جیسے لوگوں کی مثال ہوتی ہے۔ حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ مسیح کے مقصد کے لیے ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں! حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ چین میں نوجوان لوگ پولوس کے ساتھ کہتے ہیں، ’’میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3: 8)۔ حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ مسیحیت کی تاریخ میں، بالکل ابھی، چین عظیم ترین حیات نو کا تجربہ کر رہا ہے۔
کیا آپ اُن کی مانند ہونا چاہیں گے؟ کیا آپ دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھوئیں گے اور اُنہیں کوڑا سمجھیں گے تا کہ آپ ’’مسیح کو حاصل کر لیں‘‘؟ آپ کو مسیح کے پاس آنے سے کیا بات روک رہی ہے؟ اُس کو گوبر کے سوا کچھ اور مت سمجھیں! اُس کو گوبر کے سوا کچھ اور مت سمجھیں! مسیح صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا، اور تیسرے دِن مُردوں میں سے آپ کو زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا۔ کیا آپ ابھی اپنی زندگی مسیح کے لیے مختص کریں گے؟ اِس کو دوبارہ گائیں!
میرے دِل کا تمام پیار، میرے تمام پیارے خواب –
اُنہیں صرف خُداوند یسوع تیرے لیے بنا دے۔
میں جو کچھ بھی ہوں، میں جو کچھ بھی ہو سکتا ہوں –
خُداوند یسوع مجھے ہمیشہ تیرا ہو جانے کے لیے اپنا لے۔
اگر آپ ایک حقیقی خود کی قربانی دینے والا مسیحی بننے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات کرنا پسند کریں، تو مہربانی سے ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا اور مشاورت کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے۔ اگر آپ ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی چلے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ کوئی آج صبح مسیح پر بھروسہ کرے گا۔ آمین۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی
Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: فلپیوں 3:7۔11 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میرے دِل کا تمام پیار All My Heart’s Love ‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1980)۔
|