Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اپنی صلیب اُٹھا لو

TAKE UP YOUR CROSS
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
15 ستمبر، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, September 15, 2013

’’اور تب اُس نے سارے لوگوں کو اور اپنے شاگردوں کو پاس بلایا اور اُن سے کہا: اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اور اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).

یہ واقعہ تمام تینوں مماثلتی اناجیل میں درج ہے – متی، مرقس، اور لوقا۔ کچھ بائبل کے اساتذہ کہتے ہیں کہ یہ پختہ کار مسیحیوں کے لیے ہے۔ لیکن تینوں اناجیل ہمیں بالخصوص بتاتی ہیں کہ یہ ہر کسی کے لیے ہے۔ متی میں ہم پڑھتے ہیں، ’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے‘‘ (متی16:24)۔ لہٰذا، متی میں خود انکاری اور صلیب کا اُٹھانا ’’کسی بھی انسان‘‘ کے لیے ہیں۔ اصل میں لفظ ’’انسان‘‘ وہاں پر KJV مترجموں کی جانب سے ترچھی طباعت میں فراہم کیا گیا۔ جدید نسخے ’’کوئی‘‘ کو جیسا کہ NKJV میں ہے بطور ’’کوئی بھی‘‘ کے طور پر ترجمہ کرتے ہیں۔ اِس لیے آیات کسی پر بھی جو مسیح کے پیروکاروں میں سے ہے لاگو ہوتی ہیں۔ مرقس میں ہماری تلاوت میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یسوع نے ’’لوگوں کو بُلایا،‘‘ شاگردوں کے ساتھ، اور کہا، ’’اگر کوئی انسان [کوئی بھی] میری پیروی کرنا چاہے، تو وہ خُود انکاری کرے، اور اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے۔‘‘ لہٰذا، دوبارہ، یہ ہجوم میں ہر کسی کے ساتھ ساتھ اُس کے بارہ شاگردوں کے لیے بھی تھا۔ لوقا9:23 میں، ہم پڑھتے ہیں، ’’اور اُس نے اُن سب سے کہا، اگر کوئی انسان میری ... ‘‘ لہٰذا یہ تمام تینوں مماثلتی اناجیل میں واضح ہے کہ یسوع نے صلیب کے اُٹھانے کو صرف بارہ شاگردوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے بطور ایک شرط کے پیش کیا۔ یہ واضح ہے کہ یسوع ہر ایک کے ساتھ بات کر رہا تھا جب اُس نے کہا، اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے، تو وہ خود انکاری کرے، اور اپنی صلیب اُٹھا لے، اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس8:34)۔ یہاں پر دو نکات ہیں جو تلاوت میں سے ظاہر ہوتے ہیں۔

I۔ اوّل، جدید اینٹی نومیئین انکار کرتے ہیں کہ یہ ایک حقیقی تبدیلی میں رونما ہوتا ہے۔

گذشتہ اتوار کی شب میں نے اینٹی نومیئین اِزم کے خلاف ایک واعظ کی منادی کی۔ میں نے اصلاحی مطالعۂ بائبل میں سے حوالہ دیا، جس میں لکھا ہے، ’’اینٹی نومیئین کے نظریات وہ ہیں جو انکاری کرتے ہیں کہ خُدا کی شریعت کو براہ راست مسیحی کی زندگی پر اختیار ہونا چاہیے... وہ جھوٹے نتائج اخذ کرتے ہیں کہ اُن کے روئیے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ اِس بات پر یقین جاری رکھتے ہیں ... یہ ممکن نہیں ہے کہ مسیح میں بھی ہوں اور اِسی اثنا میں طرز زندگی کے طور پر گناہ کو بھی سینے سے لگا کر رکھیں‘‘ (صفحہ1831)۔ پھر میں نے ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer کا حوالہ دیا، جنہوں نے کہا،

     ایک قابل ذکر بدعت ہماری انجیلی بشارت کے مسیحی حلقوں میں وجود میں آ چکی ہے – بڑے پیمانے پر قبول کیے جانے والا تصّور کہ ہم انسان مسیح کو قبول کرنے کے لیے انتخاب کر سکتے ہیں صرف اِس لیے کیونکہ ہمیں اُس کی بحیثیت نجات دہندہ کے ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے پاس جتنی دیر تک ہم چاہیں اُس کی تابعداری کو بحیثیت خُداوند کے ملتوی کرنے کے لیے حق ہے!...
     کیسا ایک المیہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اِس قسم کی بنیادوں پر ہم اکثر انجیل کی التجا کی جانی سُنتے ہیں: یسوع کے پاس آئیں! آپ کو کسی کی بھی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے – محض اُس کے پاس آئیں اور اُس پر بطور نجات دہندہ یقین کریں!‘‘
لہٰذا وہ آتے ہیں اور نجات دہندہ میں یقین کرتے ہیں۔ بعد میں، ایک      اجلاس میں یا کانفرنس میں، وہ ایک اور التجا سُنیں گے: ’’اب جبکہ آپ نے اُس کو نجات دہندہ کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے، تو آپ کس طرح سے اُس کو ایک خُداوند کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیں گے؟‘‘
     یہ حقیقت کہ ہم یہ ہر جگہ سُنتے ہیں اِس کو درست نہیں کرتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کو ایک منقسم مسیح میں یقین کرنے کے لیے مجبور کرنا بُری تعلیم ہے کیونکہ کوئی بھی آدھے مسیح کو قبول نہیں کر سکتا... جب ایک انسان یسوع مسیح پر یقین کرتا ہے تو اُس کو مکمل خداوند یسوع مسیح پر یقین کرنا چاہیے – کوئی بھی شک و شُبہ نہیں کرنا چاہیے! میں مطمئن ہوں کہ یسوع پر بطور ایک قسم کے الہٰی تیماردار کی حیثیت سے نظر ڈالنی غلط ہے جس کے پاس ہم جب گناہ نے ہمیں بیمار کر دیا ہوتا ہے جا سکتے ہیں، اور اُس کے ہماری مدد کر دینے کے بعد، ’’خُدا حافظ‘‘ کہہ سکتے ہیں – اور اپنی راہ ہو لیں ...
     ہم اُس کے پاس اُس ایک کی طرح نہیں جاتے جو، اپنے گھر کا سازو سامان خریدنے کے لیے اعلان کرتا ہے: ’’میں یہ میز لوں گا لیکن میں وہ کُرسی نہیں چاہتا ہوں‘‘ – اس کو تقسیم کرتا ہے! جی نہیں، جناب! یہ یا تو مسیح کا سب کچھ ہوتا ہے یا مسیح کا کچھ بھی نہیں ہوتا!
     میں یقین کرتا ہوں ہمیں دُنیا کے لیے دوبارہ مکمل مسیح کی منادی کرنے کی ضرورت ہے – مسیح جسے ہماری معذرتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، مسیح جو تقسیم نہیں کیا جائے گا، مسیح جو یا تو سب کا خداوند ہوگا ورنہ جو بالکل بھی خداوند نہیں ہو گا!
     میں آپ کو خبردار کرتا ہوں – آپ اُس سے اِس طرح سے مدد نہیں پا سکیں گے کیونکہ خُداوند اُنہیں نجات نہیں دے گا جن پر وہ حکم نہیں چلا سکتا! وہ اپنے اختیارات کو تقسیم نہیں کرتا ہے۔ آپ ایک آدھے مسیح پر یقین نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ چاہے جیسا بھی ہے ہم اُسے قبول کرتے ہیں – مسح کیا ہوا نجات دہندہ اور خُداوند جو بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداؤں کا خُدا ہے! وہ نہیں ہوگا اگر وہ یہ جانے بغیر کہ اگر اُس نے ہمیں نجات دی ہے اور ہمیں بُلایا ہے اور ہمیں چُنا ہے تو وہ ہماری زندگیوں کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے اور اختیار بھی رکھ سکتا ہے ...
     کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم واقعی میں سوچتے ہیں کہ ہم پر یسوع مسیح کی فرمانبرداری واجب الادا نہیں ہے؟ ہم اپنی فرمانبرداری اُسی لمحے سے واجب الادا کر چکے ہیں جب ہم نے نجات کے لیے اُس کو پکارا تھا، اور اگر [آپ] اُس کو وہ تابعداری نہیں دیتے ہیں، تو میرے پاس حیران ہونے کے لیے وجہ ہے کہ آیا [آپ] واقعی میں تبدیل ہوئے ہیں!
     مسیحی لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کام میں دیکھتا اور وہ باتیں میں سُنتا ہوں اور جب میں اُنہیں دیکھتا ہوں... تو میں اِس بارے میں سوال ضرور اُٹھاتا ہوں کہ آیا وہ سچے طور پر تبدیل ہو چکے ہیں...
     میں یقین کرتا ہوں کہ شروع کرنے کے لیے یہ ناقص تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ وہ خُداوند کے بارے میں ایک ہسپتال کی طرح اور یسوع کے بارے میں سٹاف کے سربراہ کی طرح سوچتے ہیں جو مصیبت میں پھنسے بیچارے گنہگاروں کا بندوبست کرنے کے لیے ہوتا ہے! ’’میرا بندوبست کریں، اے خداوند،‘‘ وہ اصرار کرتے ہیں، ’’تاکہ میں اپنے راستے جا سکوں!‘‘
     یہ بُری تعلیمات ہیں... یہ خود فریبی کے ساتھ بھری ہوتی ہیں۔ آئیے ہمارے خداوند یسوع کی جانب ہم دیکھتے ہیں، جو اعلٰی مرتبہ، پاک ترین، تاج پہنے ہوئے، خُداؤں کا خُدا اور سب کا شہنشاہ ہے، جس کے پاس اُس کے تمام نجات یافتہ لوگوں پر مکمل تابعداری کرنے کا حکم دینے کے لیے کامل حق ہے!... (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ ڈی۔ A. W. Tozer, D.D.، میں اِس کو بدعت کہتا ہوں! I Call It Heresy!، مسیحی اشاعتی خانے Christian Publications، ایڈیشن1974، صفحات9۔21)۔

ایک حقیقی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ آپ توبہ کریں اور خُداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کریں۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی ایک نئی اور مختلف سمت اختیار کرتی ہے جب آپ سچے طور پر یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ پولوس رسول نے یہ واضح کیا جب اُس نے کہا،

’’اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو! وہ نئی ہوگئیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

ایک کھوئے ہوئے گنہگار کے لیے زندگی میں ایک نئی سمت تنہا فضل کے وسیلے سے آتی ہے، تنہا خُداوند یسوع مسیح میں ایمان کے ذریعے سے آتی ہے!

’’کیونکہ تمہیں ایمان کےوسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے۔ کیونکہ ہم خدا کی کاریگری ہیں اور ہمیں مسیح یسُوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، جنہیں خدا نے پہلے ہی سے ہمارے کرنے کے لیے تیّار کر رکھّا تھا‘‘ (افسیوں 2:8۔10).

’’مسیح یسوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے‘‘ – یہ اُن کے لیے جو یسوع سے محبت رکھتے ہیں سادہ اور واضح ہے، کیونکہ یسوع نے کہا، ’’اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے احکام بجا لاؤ‘‘ (یوحنا14:15)۔ دوبارہ، یسوع نے کہا، ’’جو مجھ سے محبت نہیں رکھتا وہ میرے کلام پر عمل نہیں کرتا‘‘ (یوحنا14:24)۔ جب پولوس رسول نے کرنتھیوں کے گرجہ گھر میں اینٹی نومیئینز کی ملامت کی، تو اُس نے کہا، ’’کیونکہ خُدا کی بادشاہی صرف باتوں پر نہیں بلکہ قدرت پر موقوف ہے‘‘ (1۔کرنتھیوں4:20)۔ وہ لفظ جو ہم یسوع سے محبت کے بارے میں کہتے ہیں کوئی معنی نہیں رکھتے اگر کسی کی زندگی بدلنے کے لیے فضل کی قوت کے وسیلے کے ساتھ نہ ہوں۔ اینٹی نومیئین وہ ہیں جو ’’دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘‘ (2۔تیموتاؤس3:5)۔ یوں، وہ ہیں ’’سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں، اور کبھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔تیموتاؤس3:7)۔ اور ہماری تلاوت میں سچائی یسوع کے وسیلے سے بتائی گئی،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).

II۔ دوئم، وہ جو سچے طور پر تبدیل ہوتے ہیں اُنہیں وہ یقین کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

اور اِس کے باوجود وہ بات ایک غیر تبدیل شُدہ، فطری انسان سے قطعی طور پر چھپی ہوئی ہے۔

’’کیونکہ جس میں خدا کا پاک رُوح نہیں وہ خدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پاک رُوح کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 2: 14).

یہ اُن سے شیطان کے ذریعے سے چُھپی ہوتی ہیں، جس کو ’’اِس دُنیا کا خُدا‘‘ کہا جاتا ہے،

’’لیکن اگر ہماری خُوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے: چونکہ اِس جہاں کے خدا نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خُوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 4:3۔4).

اُس خوشخبری کو پولوس رسول کے وسیلے سے بیان کیا گیا،

’’کیونکہ ایک بڑی اہم بات جو مجھ تک پہنچی اور میں نے تمہیں سُنائی یہ ہے کہ کتابِ مُقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قُربان ہُوا، دفن ہُوا اور کتابِ مُقدس کے مطابق تیسرے دِن زندہ ہو گیا‘‘ (1۔ کرنتھیوں 15:3۔4).

لیکن خوشخبری کیسے آپ کو نجات دیتی اور آپ کی زندگی کو بدلتی ہے؟

جب آپ مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں، تو صلیب پر اُس کی موت آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرتی ہے۔ جب آپ مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں، تو اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا آپ کو آپ کی نئی زندگی میں ایک نئی سمت اختیار کرنے میں قوت بخشتا ہے۔ دوبارہ، میں افسیوں2:8۔10 کے لیے التماس کرتا ہوں،

’’کیونکہ تمہیں ایمان کےوسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے؛ اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں: بلکہ خدا کی بخشش ہے: اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے۔ کیونکہ ہم خدا کی کاریگری ہیں اور ہمیں مسیح یسُوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، جنہیں خدا نے پہلے ہی سے ہمارے کرنے کے لیے تیّار کر رکھّا تھا‘‘ (افسیوں2:8۔10).

ہمیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملتی ہے۔ جب ہم نجات پاتے ہیں، تو ہم مسیح یسوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں، جنہیں خُدا نے [پہلے ہی سے] ہمارے کرنے کے لیے [تیار کر] رکھا تھا‘‘ (افسیوں2:10)۔ صرف یسوع میں ایمان ہی ہمیں خُدا کے لیے قابلِ قبول بناتا ہے۔ وہ نیا جنم مسیح میں ایمان کے وسیلے سے ہی آتا ہے۔ مگر نیا جنم ایک نئی زندگی، اور زندگی میں ایک نئی سمت کو پیدا کرتا ہے۔ کاملیت نہیں۔ وہ تقدیس و تحریم کے مراحل میں سے گزرنے سے ملتی ہے۔ لیکن ایک نئی سمت – زندگی میں ایک نئی طرز – مسیح کی فرمانبرداری کے لیے ایک نئی رضامندی! اور یہی ہے جہاں پر ہماری تلاوت آتی ہے،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).

بیداری، اور بالخصوص ایک نیا جنم، دِل میں مسیح کے اُس حکم کی فرمانبرداری کے لیے ایک خواہش پیدا کرتا ہے! اگر یہاں پر نیا جنم نہ ہوتا، تو یسوع کی فرمانبرداری کرنے کے لیے کوئی بھی خواہش نہیں ہوگی۔ لیکن جب خُدا کا روح اپنا کام کرتا ہے، تو وہ جو اُوپر سے پیدا ہوتا ہے وہ مسیح کے اُس حکم سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اُسے مسترد نہیں کرے گا،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).

حالانکہ ڈائیٹریچ بونحوفر Dietrich Bonhoeffer (1906۔1945) الہٰام کا ایک آزاد خیال نظریہ رکھتے ہیں، خُدا نے یہ سچائی اُن پر منور کی۔ وہ اِس سچائی کو سمجھے، جو بہت سوں نے جن کے پاس الہٰام کا بہتر نظریہ تھا نہیں سمجھا۔ بونحوفر ایک نوجوان لوتھرن پادری تھے جنہوں نے ھٹلر کے خلاف باتیں کی تھیں، اور جرمنی کے اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کھانے سے چند ایک دِن پہلے نازیوں نے اُنہیں پھانسی دے دی تھی۔ وہ صرف 39 سال کی عمر کے تھے۔ اپنی معیاری کتاب، شاگردی کی قیمت The Cost of Discipleship میں، بونحوفر نے کہا، جب مسیح ایک انسان کو بُلاتا ہے، تو وہ اُس کو آنے اور مرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ یہ شاید اُن پہلے شاگردوں کی طرح کی موت ہو جنہیں گھر بار چھوڑنا پڑا تھا اور یسوع کے لیے کام کرنا پڑا تھا، یا شاید یہ لوتھر کی طرح کی موت ہو، جس کو خانقاہ کو چھوڑنا پڑا تھا اور دُنیا میں جانا پڑا تھا۔ لیکن یہ ہر مرتبہ یہی موت ہوتی ہے... دراصل یسوع کا ہر حکم مرنے کے لیے ایک بُلاوہ ہے،ہماری تمام محبتوں اور آرزوؤں کے ساتھ... ہر روز ہم نئی آزمائیشوں کا سامنا کرتے ہیں، اور ہر روز ہمیں یسوع مسیح کی خاطر ازسرنو مصائب میں پڑنا چاہیے۔ اِس [جنگ] میں جو زخم اور داغ [ہمیں] ملتے ہیں وہ ہمارے خداوند کی صلیب میں اِس شمولیت کی جیتی جاگتی نشانیاں ہیں... اِس لیے تکلیفیں برداشت کرنا سچی شاگردی کی علامت ہے۔ شاگرد اپنے اُستاد سے بالا نہیں ہوتا ہے۔ مسیح کی پیروی کرنے کا مطلب passio passiva ہوتا ہے، مصیبتیں برداشت کرنا کیونکہ ہمیں برداشت کرنی ہی ہوتی ہیں۔ اِسی لیے لوتھر نے سچی کلیسیا کے نشانات کے درمیان تکلیفیں برداشت کرنے کی توقع کی، اور اوگسبرگ کے اعتراف Augsburg Confession کی تیاری میں لکھی ہوئی یاداشتوں میں سے ایک اِسی طرح سے کلیسیا کی تشریح بطور اُن لوگوں کی برادری ’جو خوشخبری کی خاطر اذیت پاتے اور شہید کیے جاتے ہیں‘‘ کرتی ہے۔ اگر ہم اپنی صلیب اُٹھانے اور مصائب برادشت کرنے سے انکار کرتے ہیں اور لوگوں کے ہاتھوں مسترد کیے جانے سے انکار کرتے ہیں تو ہم مسیح کے ساتھ رفاقت [کھو] دیتے ہیں اور اُس کی پیروی کرنے سے رُک جاتے ہیں... ابتدائی مسیحی شہیدوں کے اعمال ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو ظاہرکرتے ہیں کہ کیسے مسیح نے خود اپنے لیے اُن کی جان لیوا اذیت کے وقت میں اُنہیں اپنی موجودگی کی ناقابل بیان یقین دہانی بخشنے کے وسیلے سے کایا پلٹ دی۔ ظالم ترین تشدد کے گھنٹوں میں اُنہوں نے اُس کی خاطر برداشت کیا، وہ اُس کے ساتھ رفاقت کی انتہائی شادمانی اور کامل خوشی میں شریک کار بنا دیے جاتے ہیں۔ صلیب کو برداشت کرنا ہی مصائب پر فتح پانے کو ثابت کرنے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ اُن تمام کے لیے سچ ہے جو مسیح کی پیروی کرتے ہیں، کیونکہ یہ اُس کے لیے سچ تھا… وہ صلیب ہر مسیح پر لادی جاتی ہے۔ وہ پہلی مسیحی تکلیف جس کا ہر انسان کو تجربہ کرنا چاہیے وہ بُلاہٹ ہے جو اِس دُنیا سے وابستگی کو خیر باد کہنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ پرانے آدمی کا مرنا ہے جو کہ مسیح کے ساتھ اُس کا سامنا کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب ہم [شاگرد بننا شروع کرتے ہیں] تو ہم اُس کی موت کے ساتھ ملاپ میں خود کو مسیح کے حوالے کرتے ہیں – ہم موت کے لیے اپنی زندگیاں نچھاور کر دیتے ہیں۔ یوں یہ شروع ہوتا ہے؛ وہ صلیب... مسیح کے ساتھ ہمارے باہمی رابطے کے آغاز ہی میں ہمیں ملتی ہے۔ جب مسیح ایک انسان کو بُلاتا ہے، وہ اُس کو آنے اور مرنے کے لیے حکم دیتا ہے‘‘ (ڈائیٹریچ بونحوفر Dietrich Bonhoeffer، شاگردی کی قیمت The Cost of Discipleship، کولیئر کُتب Collier Books، دبیز کاغذ کی جلد والی کتاب کا ایڈیشن 1963، صفحات99۔101)۔

میں پادری رچرڈ ورمبرانڈ Pastor Richard Wurmbrand (1909۔2001) کو جانتا ہوں۔ اُنکی اور اُن کی بیوی کی ہمارے لڑکوں کو اُٹھائے ہوئے ہمارے گرجہ گھر میں ہمارے پاس ایک تصویر ہے، جب اُنہوں نے اُن [لڑکوں] کے لیے دعا کی تھی اور اُنہیں مسیح کے لیے وقف کیا تھا۔ میں بہت سے عظیم مسیحیوں کو جان چکا ہوں۔ ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin، چینی گرجہ گھر کے میرے پادری، جن سے میں نے کبھی ملاقات کی اُن میں سب سے عظیم ترین پادری تھے۔ ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن Dr. Christopher Cagan وہ عظیم ترین مسیحی ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ پادری حرمن اوٹن Pastor Herman Otten خُدا کی حضوری میں ایک مقدس ہیں۔ اُنہوں نے میسوری سائنوڈ لوتھرن فرقے Missouri Synod Lutheran Denomination میں آزاد خیال حملوں کے خلاف 50 سالوں سے زیادہ بائبل کا دفاع کیا ہے، اور جو اُن کے لیے بے انتہا شدید نوعیت کے مصائب اور بہت سے دوستوں کو کھونے کا سبب بنا تھا۔ میں اِس قسم کے انسان کی قدر کرتا ہوں – حالانکہ میں ہر وہ بات جو وہ کہتے ہیں اُس کے ساتھ متفق نہیں ہوتا ہوں۔ لیکن پادری ورمبرانڈ، اب تک سب سے عظیم مسیحی ہیں جن سے میں مل چکا ہوں۔

رچرڈ ورمبرانڈ ایک لوتھرن پادری تھے جنہوں نے رومانیہ میں اشتراکیت پسندوں کی قید میں چودہ سال گزارے۔ اُنہوں نے پورے دو سال کال کوٹھری میں گزارے، کبھی بھی سورج نہیں دیکھا، کسی انسانی آواز کو نہیں سُنا۔ اُنہیں پیٹا گیا، نشہ دیا گیا، اور قرون وسطیٰ کے تشددوں میں سے گزارا گیا۔ اُن کا بدن مسلسل مار پیٹ سے زخمی اور خون سے بھرا تھا۔ گرم سُرخ سیخوں نے اُن کی گردن اور کمر پر گہرے زخم بنا دیے تھے۔ وہ جب یہاں پر ہمارے گرجہ گھر میں تھے تو منادی کرنے کے لیے کھڑے نہیں ہو پائے تھے، کیونکہ تشدد اور پٹائی سے اُن کے پیر مُڑ گئے تھے۔ اپنی کتاب خُدا کی زیر زمین In God’s Underground میں، اُنہوں نے کہا، ایک خاص قید خانے میں مَیں ہر روز سپیکر پر بُلند آواز میں سُنا کرتا۔

مسیحیت مر گئی ہے۔
مسیحیت مر گئی ہے۔
مسیحیت مر گئی ہے۔

اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے جو اُنہوں نے ہمیں اُن تمام مہینوں میں بتایا تھا اُس پر یقین ہوتا چلا گیا۔ مسیحیت مر گئی تھی۔ بائبل ایک بہت بڑے اِرتداد کے زمانے کے بارے میں پیشن گوئی کرتی ہے، اور میں نے یقین کیا کہ یہ آ گیا ہے۔ پھر میں نے میری مگدلین Mary Magdalene کے بارے میں سوچا، اور کسی دوسری سوچ کے مقابلے میں، شاید اِسی سوچ نے مجھے ذہنی طور پر قائل ہونے کے بدترین اور آخری مرحلے کے جان لیوا زہر سے بچانے میں مدد کی۔ مجھے یاد ہے وہ کس قدر مسیح کے ساتھ وفادار تھی یہاں تک کہ جب وہ صلیب پر چیخا، ’اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘ اور جب وہ قبر میں ایک لاش تھا، وہ قریب ہی روتی رہی اور اُس کے جی اُٹھنے تک انتظار کیا۔ اِس لیے جب میں نے آخر کار یقین کر لیا کہ مسیحیت مر گئی تھی، میں نے کہا، تب بھی، میں اِس پر یقین کروں گا، اور میں اُس کے مزار پر روؤں گا جب تک کہ وہ دوبارہ جی نہیں اُٹھتی، جیسا کہ یہ یقیناً ہوگی‘‘‘ (رچرڈ ورمبرانڈ، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Richard Wurmbrand, Th.D.، خُدا کی زیر زمین میں In God’s Underground، جیتی جاگتی قربانی کی کُتب Living Sacrifice Books، 2004، صفحات263، 264)۔

مجھے یسوع کے لیے کبھی بھی اِس قدر تکالیف برداشت نہیں کرنی پڑی۔ لیکن سان فرانسسکو کے قریب آزاد خیال مغربی بپتسمہ دینے والی سیمنری liberal Southern Baptist seminary کے میرے آخری دو سال بہت دشوار گزرے تھے۔ جذباتی طور پر میں نے یوں محسوس کیا جیسے کہ میں گتسمنی میں تھا۔ جب میرے دوستوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور میں تنہا تھا، دو مختلف پروفیسروں نے مجھے بتایا کہ مجھے کبھی بھی مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے پادری کے طور پر منتخب نہیں کیا جائے گا اگر میں نے مسیح اور بائبل کا دفاع جاری رکھا۔ فن تبلیغ کے اُستاد، ڈاکٹر گرین Dr. Green نے مجھے کہا، ’’تم ایک اچھے مبلغ ہو۔ لیکن تم مصیبت کھڑی کرنے والی حیثیت سے مشہور ہوتے جا رہے ہو۔ اگر تم ایک گرجہ گھر کے پادری بننا چاہتے ہو، تو تمہیں ابھی رُک جانا چاہیے۔‘‘ یہ بالکل ایسا تھا جیسے کوئی آپ سے کالج میں کہہ رہا ہو، ’’تمہیں کبھی بھی ملازمت نہیں ملے گی اگر تم نے بائبل کا دفاع کرنا نہیں چھوڑا۔‘‘

میں اجتماعی سونے والے کمرے میں واپس چلا گیا۔ میں نے اپنا کوٹ پہنا اور ایک طویل پیدل سیر کے لیے نکل پڑا۔ سمندر کی جانب سے سرد ہوا نے مجھ پر کپکپی طاری کر دی۔ میں نے پروفیسر کے الفاظ پر سوچنا جاری رکھا، ’’تمہاری شُہرت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ تمہیں کبھی بھی ایک گرجہ گھر نہیں ملے گا۔ بائبل کا دفاع کرنا چھوڑ دو۔‘‘ تقریبا اپنے پیدل سفر کے آدھے راستے تک، میں نے خود سے کہا، ’’جہن... ساتھ جاؤ! چاہے کچھ بھی ہو جائے میں یسوع اور اُس کے کلام کے لیے مقابلہ کروں گا۔ ایک گرجہ گھر پانے کے لیے جہن… میں جاؤ!‘‘ مجھے معلوم ہے کہ مجھے یہ کہنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن واہیات جیسا کہ یہ ہے، بالکل یہی تھا جو میں نے اُس دِن خود سے کہا تھا! ڈاکٹر جان راؤلینگز Dr. John Rawlings (1914۔2013) نے شاید یہی کہا تھا! لوتھر Luther (1483۔1546) نے شاید یہی کہا تھا! پولوس رسول نے ضرور کہا، ’’میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:8)۔ کبھی کبھی ایک سوچ کو زبردستی پیش کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ہے۔ میں نے صرف کہا، تمام باتوں کے ساتھ بھاڑ میں جاؤ! چاہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے میں مسیح اور اُس کے کلام کے لیے لوگوں کو بتانے سے نہیں رُکوں گا!‘‘ میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر سکوں‘‘!

وہ کیا ہے جس کو کھونے سے آپ خوفزدہ ہیں؟ آپ کو چھوڑ دینے کا کیا خوف ہے؟ کیا بات آپ کو خود انکاری اور اپنی صلیب اُٹھانے اور مسیح کی پیروی کرنے کے لیے خوفزدہ کرتی ہے؟ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی قسم کا خوف ہوتا ہے جو لوگوں کو روکتا ہے۔ کیا آپ اُن خدشات کو ’’کوڑا‘‘ سمجھیں گے، اور پھر بھی مسیح کے لیے آئیں گے؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو آپ خُدا کی نظروں میں ایک انتہائی اہم شخص بن جائیں گے!

قدیم کلیسیا میں وہ جو مسیح کے لیے مرے ’’شہید‘‘ کہلائے۔ لیکن وہ جو ورمبرانڈ کی مانند تھے، جنہوں نے مرے بغیر اذیتوں کے تحت شدید تکلیف برداشت کی، ’’اعتراف کرنے والے Confessors‘‘ کہلائے۔ پادری ورمبرانڈ ایک اعتراف کرنے والے تھے۔ اُنہوں نے خود انکاری کی، اپنی صلیب اُٹھائی اور یسوع کے پاس آئے، حالانکہ اِس کے لیے اُنہیں مصائب کی انتہائی شدید قیمت چکانی پڑی۔ کیا آپ ایسا کریں گے؟ کیا آپ دوسری تمام چیزوں کو ’’ماسوائے کوڑے کے کچھ نہیں سمجھیں گے تاکہ [آپ] شاید مسیح کو حاصل کر سکیں‘‘؟ کیا آپ خود اپنے آپ سے انکاری کریں گے، اپنی صلیب اُٹھائیں گے، اور یسوع کے پاس آئیں گے؟ کیا آپ کہیں گے، ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice کے پسندیدہ گیت کے لفظوں میں،

یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے، سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
   مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا، اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے:
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے، وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا۔
   اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے، خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!

یہ آپ کی گیتوں کی کتاب میں گیت نمبر 8 ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور اِس کو گائیں۔

یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے، سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
   مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا، اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے:
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے، وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا۔
   اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے، خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!

دُنیا کو مجھے حقیر جاننے دو اور مجھے چھوڑ دینے دو، اُنہوں نے میرے نجات دہندہ کو بھی چھوڑ دیا تھا؛
   انسانی دِل اور چہرے مجھے دھوکہ دیتے ہیں؛ لوگوں کی مانند تیرا چہرہ جھوٹا نہیں ہے؛
اورجبکہ تو مجھ پر مسکرا رہا ہے، حکمت، محبت اور قوت کے خُدا،
   دشمن شاید نفرت کریں، اور دوست شاید مجھ سے اجتناب کریں؛ اپنا چہرہ دکھا اور تمام پُر نور ہے۔

لوگ شاید مجھے پریشان کریں اور مایوس کریں، یہ مجھے صرف تیرے سینے کی طرف ہی کھینچے گا؛
   زندگی شدید دشواریوں کے ساتھ شاید مجھے دبا دے، آسمان میرے لیے گداز اور میٹھی نیند لائے گا۔
مجھے نقصان پہنچانے کے لیے یہ ماتم کرنے والی بات نہیں ہے، جبکہ تیرا پیار میرے لیے موجود ہے؛
   اور وہ مجھے راغب کرنے کے لیے خوشی میں نہیں تھے، وہ خوشی تیرے ساتھ کس قدر خالص تھی۔
(’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘
      شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

اگر آپ ایک مسیحی بننے کے بارے میں ہم سے بات چیت کرنا پسند کریں تو مہربانی سے ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا کے لیے ایک پُرسکون جگہ پر لے جائیں گے۔ ڈاکٹر چعین، مہربانی سے اُس کسی کے لیے دعا کریں جس نے نجات پانے کے لیے ردعمل کا اظہار کیا۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: مرقس8:34۔38 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ (شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

لُبِ لُباب

اپنی صلیب اُٹھا لو

TAKE UP YOUR CROSS

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور تب اُس نے سارے لوگوں کو اور اپنے شاگردوں کو پاس بلایا اور اُن سے کہا: اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خُود اِنکاری کرے، اور اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے‘‘ (مرقس 8:34).

(متی16:24؛ لوقا9:23)

I.   اوّل، جدید اینٹی نومیئین انکار کرتے ہیں کہ یہ ایک حقیقی تبدیلی میں رونما ہوتا ہے، افسیوں2:8۔19؛ یوحنا14:15، 24؛ 1۔کرنتھیوں4:20؛ 2۔تیموتاؤس3:5، 7 .

II.  دوئم، وہ جو سچے طور پر تبدیل ہوتے ہیں اُنہیں وہ یقین کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے، 2۔کرنتھیوں5:17؛ 1۔کرنتھیوں2:14؛ 2۔کرنتھیوں4:3۔4؛ 1۔کرنتھیوں15:3۔4؛ افسیوں2:8۔10؛ فلپیوں3:8 .