Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

آنے والا بادشاہ

THE COMING KING
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
‏4 اگست، 2013، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, August 4, 2013

’’پِیلاطُس نے اِس لیے اُس سے کہا: توکیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوع نے جواب دیا: یہ تو تیرا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہُوں۔ دراصل میں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس مقصد سے دنیا میں آیا کہ حق کی گواہی دُوں‘‘ (یوحنا 37:18).


یہ واعظ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell کے دئیے گئے واعظوں میں سے ایک کی ترمیم شُدہ اور مختصر نقل ہے، ڈاکٹر کرسویل 1944 سے لیکر 92 سال کی عمر میں جنوری 2002 میں اپنی موت تک، ستاون سالوں سے ٹیکساس کے شہر ڈلاس کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے محترم پادری اور اعزازی طور پر فارغ الخدمت پاسبان کلیسیا تھے۔ اُن کے واعظ جھنجھوڑ ڈالنے والے ہوتے تھے۔ میرا دِل ہر مرتبہ جب میں اُنہیں منادی کرتے ہوئے سُنتا تھا جھنجھنا جاتا تھا۔ میں اُنہیں بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے تین عظیم مبلغین میں سے ایک کے ہونے کا درجہ دیتا ہوں۔ اور میں آپ کے سامنے آج صبح ڈاکٹر کرسویل کے عظیم واعظ ’’آنے والا بادشاہ‘‘ کی ترمیم شُدہ نقل پیش کرتا ہوں۔ مہربانی سے اپنی اپنی بائبل میں سے یوحنا37:18 کھولیئے، اور خُداوند کا کلام پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جائیں۔

’’پِیلاطُس نے اِس لیے اُس سے کہا: توکیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوع نے جواب دیا: یہ تو تیرا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہُوں۔ دراصل میں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس مقصد سے دنیا میں آیا کہ حق کی گواہی دُوں‘‘ (یوحنا 37:18).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

مسیح رومی گورنر پینطوس پیلاطس کے سامنے کھڑا ہے۔ اُس کو حقیر سمجھا گیا ہے۔ کانٹوں کا ایک تاج اُس کے سر میں گھونپا جا چکا ہے، جس سے اُس کے چہرے پر خون کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ رومی لشکر کے کوڑے مارنے سے اُس کی کمر خون سے تربتر ہو کر اُدھڑی پڑی ہے۔ اپنی آواز میں بے اعتقادی کے ساتھ، پیلاطُس کہتا ہے، ’’کیا تُو ایک بادشاہ ہے؟‘‘ یسوع انتہائی تاکیدی انداز میں جس کا کہ یونانی زبان اظہار کرسکتی ہے جواب سوال کو دُہرا کردیتا ہے۔ ’’یہ تو تیرا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔ دراصل میں اِس لیے پیدا ہوا اور اِس مقصد سے دُنیا میں آیا‘‘ (یوحنا37:18)۔ یسوع نجات دہندہ، مسیحا اور بادشاہ ہے!

ایک غیرمشروطی عہد میں، خُداوند خُدا نے ابراہام اور اسرائیل کی نسل کو فلسطین کی سرزمین ہمیشہ کے لیے دینے کا وعدہ کیا۔ ہم زبور105 میں پڑھتے ہیں،

’’وہ اپنے عہد کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے، یعنی اُس کلام کو جو اُس نے ہزار پُشتوں کے لیے فرمایا ہے، وہ عہد جو اُس نے ابرہام سے باندھا، اور وہ قسم جو اُس نے اضحاق سے کھائی۔ اور اُسی کو اُس نے یعقوب کے لیے آئین، اور اسرائیل کے لیے ابدی عہد ٹھہرایا: کہ میں کنعان کا ملک تمہیں دوں گا جو تمہارا اموروثی حِصّہ ہوگا‘‘ (زبور 8:105۔11).

باقی کی دُنیا دوسری تمام قوموں کی ملکیت ہے، لیکن کعنان کا مُلک، فلسطین کی سرزمین، اسرائیل کی نسل کی ملکیت ہے، یہودی لوگوں کی ملکیت ہے۔ یہ خُدا کا ابراہام، اضحاق اور یعقوب کے ساتھ ایک غیرمشروط ابدی عہد تھا۔

اِسی خُدا نے داؤد سے کہا تھا کہ اُس کے ایک بیٹا ہوگا جو اُس کے تخت پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے بیٹھے گا، دُنیا کے ختم ہوئے بغیر۔ خُداوند خُدا نے داؤد سے کہا،

’’اور جب تیرے دِن پورے ہو جائیں اور تُو اپنے باپ دادا کے ساتھ سو جائے تو میں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیرے صُلب سے ہوگی برپا کروں گا اور اُس کی بادشاہی کو قائم کروں گا تیری نسل اور تیری بادشاہی میرے حُضور سدا بنی رہے گی اور تیرا تخت ہمیشہ تک قائم رہے گا‘‘(2۔ سموئیل 16:12،7).

وہی خُداوند خُدا ہے جس نے ابراہام، اضحاق، اور یعقوب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ابد تک کعنان کی سرزمین وراثت میں پائیں گے وہی خُداوند خُدا ہے جس نے داؤد سے وعدہ کیا تھا کہ اُس کے ہاں ایک بیٹا ہوگا جو اسرائیل پر ابد تک حکومت کرے گا۔ وہ آنے والا بادشاہ اپنے آباؤاجداد داؤد کی نسل اور صلب سے ہوگا۔ اشعیا نبی نے اُس طاقتور، آنے والے بادشاہ کو داؤد کا بیٹا بیان کیا،

’’بہرحال جو پریشان حال تھے اُن کی پریشانی جاتی رہے گی۔ پچھلے دِنوں میں اُس نے زبو لون اور نفتالی کے علاقوں کو سر کیا لیکن مستقبل میں وہ غیر قوموں کے گلیل کو جہاں سے سمندر کو شاہراہ نکلتی ہے اور دریائے یردن کے کناروں کے علاقوں کو سر فراز کرے گا۔ جو لوگ تاریکی میں چل رہے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی؛ مَوت کے سایہ کے ملک میں بسنے والوں پر ایک نُور آ چمکا ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے ایک لڑکا پیدا ہوگا، ہمیں ایک بیٹا بخشا گیا، اور سلطنت اُس کے کندھوں پر ہوگی۔ اور وہ عجیب مُشیر، قادرِ مُطلق خدا، ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ کہلائے گا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی اِنتہا نہ ہوگی وہ داؤد کے تخت اور اُس کی مملکت پر اِس وقت سے لے کر ابد تک حکومت کرے گا۔ اور اُسے عدل اور راستی کے ساتھ قائم کرکے برقرار رکھے گا رب الافواج کی غیوری اسے انجام دے گی‘‘ (اشعیا 1:9۔2، 6۔7).

اِس پیشن گوئی کے ساڑھے سات سو سال بعد، جبرائیل فرشتہ ایک یہودی کنواری مریم نامی لڑکی پر ظاہر ہوا تھا۔ فرشتہ اُسے بتاتا ہے کہ وہ اُس پیشنگوئی کیے ہوئے، پہلے سے نافذ الحکم بچے، آنے والے بادشاہ، داؤد کے بیٹے کی ماں ہوگی۔ فرشتے نے کہا،

’’دیکھ تُو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا پیدا ہوگا۔ تُو اُس کا نام یسُوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔ خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ہمیشہ تک بادشاہی کرے گا۔ اُس کی بادشاہی کبھی ختم نہ ہوگی۔ تب مریم نے فرشتہ سے کہا: یہ کس طرح ہوگا، میں تو کنواری ہُوں؟ فرشتہ نے جواب دیا: پاک رُوح تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالٰی کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی۔ اِس لیے وہ مُقدّس جو پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائے گا‘‘ (لوقا 31:1۔35).

نو ماہ بعد بچہ پیدا ہوا تھا۔ حیرت زدہ چرواہوں کے سامنے، ایک نزدیکی میدان میں، فرشتوں کا لشکر فرشتے کا ساتھ نمودار ہوا اور خُداوند کی تمجید کرنے لگے، ’’عالم بالا پر خُدا کی تمجید ہو، اور زمین پر اُن آدمیوں کو جن سے وہ خوش ہے صلح اور سلامتی ہو‘‘ (لوقا14:2)۔ عہد کا وعدہ کیا ہوا بادشاہ آخر کار آ گیا تھا!

قیصر تبریس کی حکومت کے پندرھویں برس، تیس سالہ یسوع کو دریائے یردن میں یوحنا کے ذریعے سے بپتسمہ دیا گیا۔ اپنی ماں مریم کی جانب سے، وہ ناتن کے خاندان میں سے داؤد کی نسل سے تھا۔ یوسف کی جانب سے، جو مریم کا شوہر تھا، وہ قانونی طور پر سلمون کے خاندان میں سے داؤد کی نسل سے تھا۔ دونوں قانونی حق اور خونی وراثت سے یسوع وعدہ کیا ہوا بادشاہ تھا!

مقررہ دِن، ٹھیک اُسی وقت جس کی پیشن گوئی جبرائیل نے دانیال نبی کو کی تھی، بالکل اُسی انداز میں جس کی پیشن گوئی زکریا نبی نے کی تھی، خُداوند یسوع مسیح یروشلم میں کم تر حالت میں، اپنے آپ کو وعدہ کیے ہوئے بادشاہ، سلامتی کے شہزادے کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے گدھے پر سوار ہو کر داخل ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ یروشلم کے مقدس شہر میں داخل ہوا، لوگ چِلا اُٹھے، ’’عالم بالا پر ہوشعنا! مبارک ہے وہ بادشاہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے! داؤد کے بیٹے کے لیے ہوشعنا!‘‘ جب شریعت کے عالمین اور فریسیوں نے لوگوں کو چلانے سے روکنے کی کوشش کی تو یسوع نے جواب میں کہا، ’’اگر یہ چُپ ہو جائیں گے تو پتھر چلانے لگیں گے‘‘ (لوقا40:19)۔

یہ خُدا کے چُنے ہوئے لوگوں کی زندگی میں عہد کا عظیم دِن تھا۔ یہ تمام تاریخ کا وہ عظیم، جامع اور کامل ترین لمحہ تھا۔ عہد کا بادشاہ، یسوع، یہودیوں کا بادشاہ آ گیا تھا۔ لیکن اِس کے علاوہ بھی ہے۔

I.  اوّل، وہ ایک مسترد کیا ہوا بادشاہ تھا۔

یسوع عدالت عالیہ، جو اسرائیل کی سب سے بڑی عدالت تھی، اُس میں گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ اُس کے سامنے سردار کاہن کھڑے تھے جو عدالت عالیہ پر صدارت کرتےتھے۔ سردار کاہن نے خُداوند سے کہا،

’’میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں، ہمیں بتا کہ کیا تُو خدا کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نے اسے جواب دیا: تُو نے خود ہی کہہ دیا ہے، پھر بھی میں تمہیں بتاتا ہوں کہ آئیندہ تُم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دائیں طرف بیٹھا اور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے‘‘ (متی 63:26۔64).

جب خُداوند نے یہ کہا، تو سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے اور عدالت عالیہ کی طرف رُخ کیا اور کہا، ’’تم نے اِس کا کفر سُنا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ وہ چلائے، اِسے مصلوب کرو، اِسے مصلوب کرو!‘‘

اُس دور میں سزائے موت عدالت عالیہ کی جانب سے دی جاتی تھی، اور رومی نمائیندے کو دی جاتی تھی۔ یہودی، اِس لیے، خُداوند یسوع کو پینطس پیلاطوس کے پاس لے گئے اور اُس پر بغاوت اور غداری کا الزام یہ کہتے ہوئے لگایا، ’’یہ کہتا ہے یہ ایک بادشاہ ہے۔‘‘ خُداوند یسوع وہاں کھڑا تھا، اِس قدر عاجز، اِس قدر صبر کے ساتھ، اِس قدراطمینان کے ساتھ، پیلاطوس نے کہا، ’’یہ؟ ایک بادشاہ؟‘‘ ’’جی ہاں، یہ کہتا ہے یہ مسیح ہے، ایک بادشاہ۔ یہ غداری اور بغاوت کا قصوروار ہے۔‘‘ پیلاطوس نے کہا، ’’میں اِسے کوڑے لگواؤں گا اور چھوڑ دوں گا۔‘‘

لہٰذا رومی فوجی دستے کے سارے سپاہیوں نے اُسے پیٹا، اور دونوں یہودیوں اور اِس نیچ ناصری کی توہین میں، اُس کو کانٹوں کا تاج پہنایا، اُس کے کاندھوں پر ایک پھینکا ہوا ارغوانی چوغہ ڈالا، اور عصا کے طور پر اُس کے ہاتھ میں ایک سکنڈا تھما دیا، اور حقارت سے اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کہنے لگے، ’’اے یہودیوں کے بادشاہ، آداب۔‘‘

پیلاطوس نے یسوع کو خوفناک کوڑوں سے لہولہاں دیکھا، کانٹوں کے تاج اور گندے چیتھڑے چیتھڑے، پھینکے ہوئے چوغے کے ساتھ ایک مضحکہ خیز جسم کو وہ یسوع کو لوگوں کے سامنے باہر لایا اور کہا، ’’اپنے بادشاہ کو دیکھو!‘‘ اُنہوں نے جواب دیا، ’’ہمارا قیصر کے علاوہ کوئی اور بادشاہ نہیں ہے۔ اِسے مصلوب کرو!‘‘

خوف کی وجہ سے، پیطُس پیلاطوس نے یسوع کو سپاہیوں کے حوالے کر دیا جو اُس کو کلوری پر لے گئے اور کیلوں کے ساتھ صلیب پر جڑ کر یسوع کو مصلوب کردیا۔ مگر اُس کے سر کے اوپر پیلاطوس نے یسوع پر لگایا گیا الزام لکھوا دیا، ’’یہ یسوع ہے، ایک بادشاہ۔‘‘ فریسیوں نےکہا، ’’یہ مت لکھیں ’یہ یسوع ہے وہ بادشاہ۔‘ بلکہ یہ لکھیں ’یہ یسوع ہے جو کہتا ہے وہ ایک بادشاہ ہے۔‘‘‘ پیلاطوس نے جواب دیا، ’’میں نے جو لکھوا دیا ہے، میں نے لکھوا دیا ہے۔‘‘ یسوع کو بطور ایک بادشاہ کے مصلوب کیا گیا، اور وہ ایک بادشاہ ہی کے طور مرا تھا – ایک مسترد کیا ہوا بادشاہ۔’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہ کیا‘‘ (یوحنا11:1)۔

II.  دوئم، وہ ایک جلاوطن کیا ہوا بادشاہ ہے۔

جب یسوع صلیب پر مرا تھا تو شیطان نے ضرور خوشی منائی ہوگی! یوں ظاہر ہوتا ہے کہ ہم شیطان کو شریعت کے عالمین اور فریسیوں کے منہ سے چیختا چلاتا ہوا سُن سکتے ہیں،

’’اِس نے اروں کو بچایا؛ لیکن اپنے آپ کو نہیں بچا سکا۔ یہ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے، اگر اب بھی صلیب پر سے اتر آئے‘‘ (متی 42:27).

میں شیطان کو شریعت کے عالمین، فریسیوں اور صدوقیوں کے ذریعے سے خوشی مناتا ہوا سُن سکتا ہوں، جب وہ یسوع کے سامنے اوپر اور نیچے آ جا رہے تھے اور وہ صلیب پر مر رہا تھا۔

مگر شیطان نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ یہ ایک راز تھا جو خُدا کے دِل میں پنہاں تھا کہ وہاں پر ایک توقف ہوگا، ایک وقفہ ہوگا، صلیب پر اُس کی موت کے درمیان اور ایک بادشاہ کی حیثیت سے اُس کی آمد ثانی۔ یہاں پر ایک وقفہ ہوگا (پولوس نے اِس کو افسیوں 3 باب میں ایک ’’مسٹیرئین musterion‘‘، ایک معمار کہا ہے)۔ اُس وقفہ میں پاک روح کا زمانہ ہوگا جس میں خُدا تمام دُنیا میں سے خود اپنے لیے لوگوں کو بُلائے گا۔ وہ ’’ایک کلیسیا‘‘ کہلائیں گے، ’’بُلائے ہوئے لوگ‘‘، ہماری زبان میں ’’کلیسیا۔‘‘

نجات کی خوشخبری ہر جگہ پر تمام لوگوں کے لیے منادی ہوگی۔ جب کبھی بھی کوئی شخص یسوع کی طرف رُخ کرے گا اور ایمان لائے گا، وہ بھی کلیسیا میں شمار کر دیا جائے گا، جو خُدا کا خاندان ہے۔ یہاں پر ایمان کا صرف ایک ہی خاندان ہوگا – یہودیوں اور غیر قوموں کے ساتھ، یونانیوں اور وحشیوں، گورے اور کالے اور پیلے اور بھورے، مرد اور عورت، پڑھے لکھے اور ان پڑھ، امیر اور غریب، تمام کے تمام خُدا کی نظروں میں ایک برابر ہیں، جو خُدا کے مخلصی پائے ہوئے خُاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ایک نئے تخلیق جو کلیسیا، یسوع کی دلہن کہلاتی ہے۔

لیکن بادشاہ کا کیا ہوگا؟ کیا وہاں کوئی بادشاہت نہیں ہوگی؟ کیا خُدا بادشاہت کو بھول گیا ہے؟ آپ نے دیکھا، یسوع کلیسیا کا سرہے، لیکن اُس کو کلیسیا کا ’’بادشاہ‘‘ نہیں کہا جاتا ہے۔ نئے عہد نامے میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ یسوع ایک سلطنت پر بادشاہ ہے – لیکن کیا وہ بادشاہت کبھی آئے گی؟ کیا یسوع کبھی زمین پر حکومت کرے گا؟

اعمال پہلے باب میں، یسوع کے آسمان پر واپس اُٹھائے جانے سے پہلے، شاگردوں نے اُس سے پوچھا، ’’خُداوندا، کیا تو اِسی وقت اسرائیل کو اُس کی بادشاہی عطا کرنے والا ہے؟‘‘ (اعمال1:6)۔ وہ یسوع کو یہ کہنے کے لیے ایک بالکل درست لمحہ تھا، ’’یہاں کبھی بھی کوئی بادشاہی نہیں ہوگی۔‘‘ لیکن یسوع نے یہ اُن سے نہیں کہا تھا۔ اِسکے بجائے اُس نے کہا، ’’جن وقتوں اور معیادوں کو مقرر کرنے کا اختیار صرف آسمانی باپ کوہے اُنہیں جاننا تمہارا کام نہیں۔ لیکن جب پاک روح تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے‘‘ (اعمال1:7، 8)۔ اُس نے اُنہیں جانے اور لوگوں کو جیتنے، کلیسیا کو بڑھانے، مخلصی پائے ہوؤں کو اکٹھا کرنے کے لیے کہا۔ بادشاہت آئے گی، لیکن یہ مستقبل میں ہوگا۔ کسی جلالی دِن بادشاہت آ جائے گی!

III.  سوئم، وہ آنے والا ایک بادشاہ ہے۔

یسوع دو طرح سے آ رہا ہے۔ وہ اوّل رات کو ایک چور کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ دوئم وہ ایک چمکتی آسمانی بجلی کی مانند آ رہا ہے جو آسمان کو تقسیم کر دیتی ہے اور مشرق سے مغرب تک چمکتی ہے۔ لہٰذا خُداوند یسوع آخری عدالت کے لیے منصف بن کر، آپوکالوپسس apokalupsis بن کر دوبارہ نازل ہوگا، حکومت کرنے والے بادشاہ کا عظیم الہام۔

اوّل، وہ رات میں ایک چور کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ وہ بغیر بتائے، اچانک، خاموشی سے، رازداری کے ساتھ آ رہا ہے۔ وہ ایک چور کی حیثیت سے اپنے جواہرات چرانے کے لیے آ رہا ہے۔ وہ چور کی حیثیت سے اپنے لوگوں کو اُس کی تعریف اور حمدوثنا کے گیت گانے کے لیے بادلوں میں اُٹھانے کے لیےآ رہا ہے۔ ہم سب کے سب تبدیل ہو جائیں گے۔ ہم جو زندہ اور باقی ہیں، جب وہ آتا ہے، اچانک اُس کی تعریف اور حمد و ثنا کے لیے ہوا میں بادلوں میں اُٹھا لیے جائیں گے۔

وہ جو مسیحی ہونے کی حیثیت سے مرے تھے پہلے اُٹھائے جائیں گے۔ نقارہ بجے گا اور مسیح میں مُردہ پہلے اُٹھ جائیں گے۔ پھر تمام زندہ مسیحی ہوا میں خداوند کو ملنے کے لیے اُٹھائے جائیں گے۔ ہم تمام کے تمام اُٹھائے جائیں گے، اور ہم تمام کے تمام بدل جائیں گے۔ ہم ہوا میں یسوع کو ملنے کے لیے اُٹھا لیے جائیں گے۔ جیسا کہ ایسا حنوکEnoch کے دِنوں میں ہوا تھا، اچانک وہ چلا گیا تھا۔ جیسا کہ یہ علیجاہ کے دِنوں میں ہوا تھا، خُدا نے اُس کو ایک گردباد میں اُٹھا لیا تھا۔ جیسا کہ یہ لوط کے دِنوں میں ہوا تھا اور فرشتہ اُسکو زمین پر خُدا کا فیصلہ نازل ہونے سے پہلے نکال کر لے گیا تھا۔ یوں ہی مسیح آئے گا، چوری چُھپے، رازداری کے ساتھ، رات میں چور کی مانند، اُس بہت بڑی قیامت کے فیصلے سے پہلے اپنے لوگوں کو آسمان میں بادلوں میں اُس کے استقبال اور حمد و ثنا کے گیت گانے کے لیے اُٹھانے کے لیے آئے گا۔

پھر، وہ سرعام آ رہا ہے، اور ہر آنکھ اُس کو دیکھے گی، آخری عدالت کے لیے منصف بن کر آنے والا، وہ آپوکالوپسسapokalupsis بن کر آنے والا۔ جیسا آسمان میں سے بجلی چمکتی ہے، ویسے ہی مسیح کی موجودگی اور جلال کو دیکھا جائے گا۔ شیطان کی بدی کی حکومت کرنے قوتوں کو تباہ و برباد کرنے کے انکشاف کی تلاوت مکاشفہ1:7 ہے، ’’دیکھو وہ بادلوں میں آتا ہے؛ اور ہر آنکھ اُس کو دیکھے گی۔‘‘

خُداوند یسوع مسیح آسمان سے اُتر کر، اپنے لوگوں کے ساتھ آ رہا ہے۔ وہ خُدا کے جلال میں بطور خُدا بیٹا کی حیثیت سے اور خُدا کے بیٹےکے طور پر آ رہا ہے۔ وہ خُود اپنے جلال میں ابراہام کے بیٹے کےطور پر، داؤد کے بیٹے کی حیثیت سے، بطور ابنِ آدم، خُدا کے بیٹے کی حیثیت سے آ رہا ہے!

وہ یہودیوں کے بادشاہ کے طور پر آ رہا ہے۔ وہ قوموں کے بادشاہ کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ وہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ وہ خُداوند کے طور پر، اُس قادرِ مطلق کے طور پر، بے حد قدرت والے خُدا کی حیثیت سے، پاک تثلیث کی دوسری ہستی کی حیثیت سے۔ وہ زمین کو دوبارہ تخلیق کرنے والے اور دوبارہ بحال کرنے والے کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ وہ کُل تخلیق پر بادشاہ اور خُداوند بننے کے لیے آ رہا ہے۔

تب میکاہ نبی جیسے انبیاء کی کہی ہوئی تمام باتیں پوری ہو جائیں گی،

’’وہ بہت سی قوموں کی عدالت کرے گا، اور دُور دُور کی زورآور قوموں کے جھگڑوں کو طے کرے گا: وہ اپنی تلواریں پیٹ کر بھالیں اور بھالوں کو ہنسوے بنائیں گے۔ ایک قوم دوسری قوم پر تلوار اُٹھائے گی، اور نہ جنگ کرنے کی تربیت دے گی‘‘ (میکاہ 3:4).

صُلح کا شہزادہ آئے گا۔ تب اشعیا نبی کی کہی ہوئی خوبصورت پیشن گوئی پوری ہو جائے گی،

’’تب بھیڑیا برّہ کے ساتھ رہے گا اور چیتا بکری کے ساتھ بیٹھے گا۔ بچھڑا شیر اور ایک سالہ بچھیرا اکٹھے رہیں گے، اور ایک چھوٹا بچہ اُن کا پیش رو ہوگا۔ گائے اور ریچھنی مل کر چریں گے، اور اُن کے بچے اکٹھے بیٹھیں گے، اور شیر بیل کی طرح بھوسا کھایا کرے گا۔ شیر خوار بچہ ناگ کے بِل کے پاس کھیلے گا، اور وہ لڑکا جس کا دودھ چھڑایا گیا ہو افعی کے سوراخ میں ہاتھ ڈالے گا۔ وہ میرے مُقدّس پہاڑ پر کہیں بھی نہ تو کسی کو ضرر پہنچائیں گے اور نہ ہلاک کریں گے، کیونکہ زمین خداوند کے عرفان سے ایسی معمور ہوگی جیسے سمندر پانی سے بھرا ہو‘‘ (اشعیا 6:11۔9).

مسیح کی آمد ثانی کی سوچ کے انسانی دِل پر دو ردعمل ہوتے ہیں۔ ایک تو دھشت ہے۔ اگر آپ کا دِل دُنیا میں لگا ہوا ہے، اور آپ نے اپنی زندگی گناہ اور مغروریت میں صرف کر دی ہے، تو مسیح کے آنے کا خیال ہولناک ہے، جیسا کہ مکاشفہ کے چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے،

’’اور [وہ] پہاڑوں اور چٹانوں سے کہنے لگے، کہ ہم پر گر پڑو اور ہمیں اُس کے چہرہ سے جو تخت نشین ہے اور برّہ کے غضب سے چھپا لو کیونکہ اُن کے غضب کا روزِ عظیم آ پہنچا ہے اور کون اُس کی تاب لا سکتا ہے؟‘‘ (مکاشفہ 16:6۔17).

اُن کے لیے جنہوں نے مسیح کو مسترد کیا گناہ میں جیئے، مسیح کی آمد ایک دھشت ہے۔ لیکن اُن کے لیے جو نجات پائے ہوئے ہیں، ہمارے نجات دہندہ کے نمودار ہونے کا خیال تمام چیزوں سے بڑھ کر پیارا اور میٹھا اور قیمتی ہے۔ جیسا کہ تقدیس کیے گئے یوحنا رسول نے مکاشفہ کی کتاب کی اختتام پر کہا، ’’آمین، اے خُداوند یسوع، آ‘‘ (مکاشفہ20:22)۔

یہ شاید دوپہر میں ہو، یہ شاید مغرب کے وقت ہو،
یہ شاید ہو سکتا ہے کہ رات کی تاریکی
اُس کے جلال کی چمک میں نور کی مانند پھٹ جائے،
جب یسوع خود اپنوں کو لیتا ہے۔

جب اُس کے آسمان پر سے اُترنے پر میزبان ہوشعان چلائیں گے،
پُرجلال مقدسین اور فرشتوں کی حاضری کے ساتھ،
اپنے ماتھے پر جلال کے ایک نورانی ہالے کے مانند فضل کو لیے ہوئے،
جب یسوع خود اپنوں کو لے گا۔

اوہ خوشی مناؤ، اوہ پُرمسرت ہو جاؤ، کیا ہمیں بغیر مرے چلے جانا چاہیے،
کوئی بیماری نہیں، کوئی اُداسی نہیں، کوئی خوف اور کوئی رونا دھونا نہیں،
خُداوند کے ساتھ بادلوں میں سے جلال میں اُٹھا لیے گئے،
جب یسوع خود اپنوں کو لیتا ہے۔

اوہ، خُداوند یسوع، کتنی دیر اور، کتنی دیر اور،
ہم خوشی کا گیت پکارتے رہے گے،
مسیح واپس آتا ہے، ھیلیلویاہ!
ھیلیلویاہ! آمین، ہیلیلویاہ! آمین۔
   (’’مسیح آتا ہے Christ Returneth‘‘ شاعر ایچ۔ ایل۔ ٹرنر H. L. Turner، 1878)۔



(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا1:9۔2، 6۔7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’مسیح واپس آتا ہے Christ Returneth‘‘ (شاعر ایچ۔ ایل۔ ٹرنر H. L. Turner، ‏ 1878)۔

لُبِ لُباب

آنے والا بادشاہ

THE COMING KING

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’پِیلاطُس نے اِس لیے اُس سے کہا: توکیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوع نے جواب دیا: یہ تو تیرا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہُوں۔ دراصل میں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس مقصد سے دنیا میں آیا کہ حق کی گواہی دُوں‘‘ (یوحنا 37:18).

(زبور 8:105۔11؛ IIسیموئیل12:7، 16؛ اشعیا1:9۔2، 6۔7؛ لوقا31:1۔35؛ 14:2؛ 40:19)

I.  اوّل، وہ مسترد کیا ہوا بادشاہ ہے، متی63:26۔64؛ یوحنا11:1۔

II.  دوئم، وہ ایک جلا وطن کیا ہوا بادشاہ ہے، متی42:27؛ اعمال6:1، 7، 8 .

III.  سوئم، وہ آنے والا بادشاہ ہے، مکاشفہ7:1؛ میکاہ3:4؛ اشعیا6:11۔9؛
مکاشفہ16:6۔17؛ 20:22۔